مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 18

گیت نمبر 1‏:‏ یہوواہ کی صفات

ساری دُنیا کے رحم‌دل منصف پر بھروسا کریں

ساری دُنیا کے رحم‌دل منصف پر بھروسا کریں

‏”‏کیا ساری دُنیا کا منصف اِنصاف نہیں کرے گا؟“‏‏—‏پید 18:‏25‏۔‏

غور کریں کہ ‏.‏ ‏.‏ ‏.‏

ہم یہوواہ کے اُس رحم اور اِنصاف کو گہرائی سے کیسے سمجھ سکتے ہیں جو وہ ”‏بدوں“‏ کو زندہ کرنے سے ظاہر کرے گا۔‏

1.‏ یہوواہ نے اَبراہام کو وہ کون سی اہم بات سکھائی جس سے اَبراہام کو تسلی ملی؟‏

 اَبراہام اُس بات‌چیت کو کبھی نہیں بھولے جو یہوواہ خدا اور اُن کے بیچ ہوئی۔ یہوواہ نے اپنے ایک فرشتے کے ذریعے اَبراہام کو بتایا کہ وہ سدوم اور عمورہ کے شہروں کو تباہ کر دے گا۔ یہ سُن کر اَبراہام بہت پریشان ہو گئے۔ حالانکہ وہ یہوواہ پر مضبوط ایمان رکھتے تھے لیکن اُنہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہوواہ ایسا کیوں کرے گا۔ اِس لیے اُنہوں نے یہوواہ سے کہا:‏ ”‏کیا تُو واقعی بُرے لوگوں کے ساتھ نیک لوگوں کو بھی ہلاک کر دے گا؟ .‏ .‏ .‏ کیا ساری دُنیا کا منصف اِنصاف نہیں کرے گا؟“‏ یہوواہ نے بڑے صبر سے اپنے اِس پیارے دوست کو ایک اہم بات سکھائی جس سے نہ صرف اُسے بلکہ ہم سب کو بہت فائدہ ہوتا اور تسلی ملتی ہے۔ اَبراہام یہ جان گئے کہ یہوواہ کبھی بھی نیک لوگوں کو ہلاک نہیں کرے گا۔‏‏—‏پید 18:‏23-‏33‏۔‏

2.‏ ہم اِس بات کا پکا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمیشہ لوگوں کی صحیح عدالت کرتا ہے اور ایسا کرتے وقت وہ اُن کے ساتھ رحم سے پیش آتا ہے؟‏

2 ہم اِس بات کا پکا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمیشہ اِنصاف اور رحم سے لوگوں کی عدالت کرتا ہے؟ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ لوگوں کے ”‏دل کو دیکھتا ہے۔“‏ (‏1-‏سمو 16:‏7‏)‏ وہ تو ‏’‏سب کے دلوں کو جانتا ہے۔‘‏ (‏1-‏سلا 8:‏39؛‏ 1-‏توا 28:‏9‏)‏ یہ کتنی زبردست بات ہے!‏ یہوواہ اِتنا زیادہ دانش‌مند ہے کہ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے!‏ اِس لیے کبھی کبھار ہم پوری طرح سے یہ نہیں سمجھ پاتے کہ یہوواہ نے فلاں فیصلہ کیوں کِیا۔ پولُس رسول نے یہوواہ کے بارے میں بالکل ٹھیک کہا کہ ”‏اُس کے فیصلے سمجھ سے باہر ہیں۔“‏—‏روم 11:‏33‏۔‏

3-‏4.‏ (‏الف)‏کبھی کبھار ہمارے ذہن میں کون سے سوال آ سکتے ہیں؟ (‏ب)‏اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟ (‏یوحنا 5:‏28، 29‏)‏

3 حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ ہمیشہ صحیح کام کرتا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ ہمارے ذہن میں بھی ویسے ہی سوال آئیں جیسے اَبراہام کے ذہن میں آئے تھے۔ شاید ہم سوچیں:‏ ”‏کیا ایسے لوگوں کے زندہ ہو جانے کی کوئی اُمید ہے جنہیں خدا نے ہلاک کر دیا تھا جیسے کہ سدوم اور عمورہ کے لوگ؟ کیا اِن لوگوں میں سے کسی کا شمار اُن لوگوں میں کِیا جا سکتا ہے جن کے بارے میں پولُس رسول نے کہا کہ ’‏خدا بدوں کو زندہ کرے گا؟‘‏“‏—‏اعما 24:‏15‏۔‏

4 آئیے دیکھیں کہ مُردوں کے زندہ ہو جانے کے حوالے سے ہم کیا سمجھتے ہیں۔ حال ہی میں ہمیں اِس بارے میں نئی وضاحت ملی کہ اِس بات کا کیا مطلب ہے کہ مُردوں کے زندہ ہونے پر اِن میں سے کچھ کو ”‏زندگی ملے گی“‏ اور کچھ کو ”‏سزا ملے گی۔“‏ a ‏(‏یوحنا 5:‏28، 29 کو پڑھیں۔)‏ اِس وضاحت کی بِنا پر ہمیں محسوس ہوا کہ ہمیں کچھ اَور باتوں کے حوالے سے بھی تبدیلیاں لانی چاہئیں جن کا ذکر اِس مضمون اور اگلے دو مضامین میں کِیا جائے گا۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ جب یہوواہ نیکی اور رحم سے عدالت کرتا ہے تو اِس حوالے سے ہم کیا کچھ جانتے ہیں اور کیا نہیں جانتے‏۔‏

ہم کیا نہیں جانتے؟‏

5.‏ ماضی میں ہم اُن لوگوں کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے جنہیں یہوواہ نے سدوم اور عمورہ میں تباہ کِیا تھا؟‏

5 ماضی میں ہماری کتابوں اور رسالوں میں اِس سوال پر بات کی گئی کہ اُن بُرے لوگوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے جن کی یہوواہ عدالت کرتا ہے۔ ہم کہا کرتے تھے کہ ایسے لوگوں کے زندہ ہونے کی کوئی اُمید نہیں ہے جنہیں یہوواہ ہلاک کرتا ہے جیسے کہ سدوم اور عمورہ کے لوگ۔ لیکن اِس بارے میں بہت زیادہ دُعا اور تحقیق کرنے کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ ہم یقین سے ایسا نہیں کہہ سکتے۔ اِس کی کیا وجہ ہے؟‏

6.‏ بائبل سے کچھ ایسی مثالیں دیں جن میں یہوواہ نے بُرے لوگوں کی عدالت کی۔ لیکن بائبل میں اِس حوالے سے کیا نہیں بتایا گیا؟‏

6 بائبل میں ایسے بہت سے واقعات لکھے ہیں جب یہوواہ نے بُرے لوگوں کے خلاف عدالت کی۔ مثال کے طور پر یہوواہ نے نوح اور اُن کے گھر والوں کے علاوہ سب لوگوں کو ہلاک کر دیا۔ اِس کے علاوہ اُس نے بنی‌اِسرائیل کے ذریعے اُن سات قوموں کو ہلاک کر دیا جو ملک کنعان میں رہ رہی تھیں۔ پھر اُس نے اپنے ایک فرشتے کے ذریعے ایک ہی رات میں 1 لاکھ 85 ہزار اسوری فوجیوں کو مار ڈالا۔ (‏پید 7:‏23؛‏ اِست 7:‏1-‏3؛‏ یسع 37:‏36، 37‏)‏ کیا اِن سارے واقعات میں ہمیں بائبل سے کوئی ایسا اِشارہ ملتا ہے جس سے ہم یہ کہہ سکیں کہ یہوواہ نے اِن میں سے ہر شخص کو ہمیشہ کے لیے ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا یا یہ سوچ لیا تھا کہ وہ اِنہیں کبھی زندہ نہیں کرے گا؟ نہیں، ایسا بالکل نہیں ہے۔ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏

7.‏ ہم اُن لوگوں کے بارے میں کیا نہیں جانتے جو نوح کے زمانے میں آنے والے طوفان میں ہلاک ہوئے یا جو اُس وقت ہلاک ہوئے جب بنی‌اِسرائیل نے ملک کنعان کو فتح کِیا؟ (‏سرِورق کی تصویر کو دیکھیں۔)‏

7 پچھلے پیراگراف میں ہم نے جن مثالوں کا ذکر کِیا، اُن کے بارے میں ہم یہ تو جانتے ہیں کہ یہوواہ نے بُرے لوگوں کو ایک گروہ کے طور پر ہلاک کِیا۔ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ یہوواہ ہلاک ہونے والے لوگوں میں سے ہر شخص کو کیسا خیال کرتا تھا۔ اِس کے علاوہ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اِن میں سے ہر شخص کو یہوواہ کے بارے میں سیکھنے اور توبہ کرنے کا موقع ملا تھا یا نہیں۔ اگر نوح کے زمانے میں آنے والے طوفان کے واقعے کی بات کی جائے تو بائبل میں یہ تو بتایا گیا ہے کہ ”‏نوح .‏ .‏ .‏ نیکی کی مُنادی کرتے تھے۔“‏ (‏2-‏پطر 2:‏5‏)‏ لیکن اِس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ جب نوح ایک بہت بڑی کشتی بنا رہے تھے تو اِس دوران اُنہوں نے زمین پر رہنے والے ہر شخص کو مُنادی کی تھی۔ اِسی طرح یہوواہ نے ملک کنعان میں رہنے والی جن قوموں کو ہلاک کِیا، اُن کے بارے میں ہم یہ نہیں جانتے کہ ہلاک ہونے والے ہر شخص کو یہوواہ کے بارے میں سیکھنے اور خود کو بدلنے کا موقع ملا تھا یا نہیں۔‏

نوح اور اُن کے گھر والے ایک بہت بڑی کشتی بنا رہے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ کشتی بناتے ہوئے اُنہوں نے منظم طریقے سے ہر شخص کو طوفان کے آنے سے پہلے مُنادی کی تھی۔ (‏پیراگراف نمبر 7 کو دیکھیں۔)‏


8.‏ ہم سدوم اور عمورہ کے لوگوں کے بارے میں کیا نہیں جانتے؟‏

8 اور ہم سدوم اور عمورہ کے لوگوں کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں؟ خدا کا بندہ جس کا نام لُوط تھا، اِن لوگوں میں رہ رہا تھا۔ کیا بائبل میں کہیں یہ بتایا گیا ہے کہ لُوط نے اِن سب لوگوں کو مُنادی کی تھی؟ نہیں۔ بے‌شک وہ سب بہت بُرے لوگ تھے۔ لیکن کیا اُن میں سے ہر شخص صحیح اور غلط میں فرق کر سکتا تھا؟ ایسا لگتا نہیں۔ یاد کریں کہ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ اُس شہر میں ”‏جوان سے لے کر بڈھے“‏ تک جن میں کچھ چھوٹی عمر کے لڑکے بھی تھے، لُوط کے مہمانوں کے ساتھ حرام‌کاری کرنا چاہتے تھے۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ اُن سب نے بہت ہی بُرے ماحول میں پرورش پائی تھی اور شاید وہ یہ سمجھتے ہی نہیں تھے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں، وہ کتنا غلط ہے۔ (‏پید 19:‏4؛‏ 2-‏پطر 2:‏7‏)‏ کیا ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے رحم‌دل خدا یہوواہ نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ مستقبل میں اِن میں سے کسی بھی شخص کو زندہ نہیں کرے گا؟ یاد کریں کہ یہوواہ نے اَبراہام کو یقین دِلایا تھا کہ اگر اُسے اُس شہر میں دس نیک لوگ بھی ملے تو وہ وہاں کے لوگوں کو تباہ نہیں کرے گا۔ (‏پید 18:‏32‏)‏ لیکن وہاں تو اِتنے نیک لوگ بھی نہیں تھے۔ اِس لیے یہوواہ کا اُس شہر کے لوگوں کو تباہ کرنا بالکل صحیح فیصلہ تھا۔ تو کیا ہم یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اِن میں سے کسی بھی شخص کا شمار اُن ”‏بدوں“‏ میں نہیں ہوتا جنہیں یہوواہ زندہ کرے گا؟ نہیں، ہم یہ یقین سے نہیں کہہ سکتے۔‏

9.‏ ہم بادشاہ سلیمان کے حوالے سے کیا نہیں جانتے؟‏

9 بائبل میں ہم ایسے لوگوں کے بارے میں بھی پڑھتے ہیں جو پہلے نیک تھے لیکن پھر بُرے کام کرنے لگے۔ اِس کی ایک مثال بادشاہ سلیمان ہیں۔ اُنہوں نے یہوواہ کی راہوں کے بارے میں گہرائی سے سیکھا تھا اور اِن پر چلنے کی وجہ سے یہوواہ نے اُنہیں بہت برکتیں دی تھیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعد میں وہ جھوٹے دیوتاؤں کی عبادت کرنے لگے۔ اُنہوں نے اپنے گُناہوں کی وجہ سے یہوواہ کو بہت غصہ دِلایا اور اُن کی پوری قوم کو سینکڑوں سالوں تک اِس کے بُرے نتیجے بھگتنے پڑے۔ یہ سچ ہے کہ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ’‏سلیمان اپنے باپ‌دادا کے ساتھ سو گئے‘‏ جن میں یہوواہ کے وفادار بندے داؤد بھی شامل تھے۔ (‏1-‏سلا 11:‏5-‏9،‏ 43؛‏ 2-‏سلا 23:‏13‏)‏ لیکن جس طرح سے اُنہیں دفنایا گیا، کیا اُس سے یہ ضمانت مل جاتی ہے کہ یہوواہ اُنہیں ضرور زندہ کرے گا؟ بائبل میں اِس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ لیکن شاید کچھ لوگ سوچیں کہ یہوواہ سلیمان کو زندہ کرے گا کیونکہ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏جو شخص مر گیا، اُس کا گُناہ معاف ہو گیا۔“‏ (‏روم 6:‏7‏)‏ بائبل میں لکھی یہ بات بالکل ٹھیک ہے لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ یہوواہ خدا فوت ہو جانے والے ہر شخص کو زندہ کرے گا۔ ایک شخص کے مر جانے سے اُسے یہ حق نہیں مل جاتا کہ اُسے دوبارہ زندگی ضرور ملے گی۔ مُردوں کو زندہ کرنا ہمارے شفیق آسمانی باپ کی طرف سے ایک نعمت ہے۔ وہ یہ نعمت صرف اُنہی لوگوں کو دیتا ہے جن کے بارے میں وہ چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ تک اُس کی خدمت کریں۔ (‏ایو 14:‏13، 14؛‏ یوح 6:‏44‏)‏ تو پھر کیا بادشاہ سلیمان کو یہ نعمت ملے گی؟ ہم یہ نہیں جانتے۔ اِس کا جواب تو صرف یہوواہ ہی جانتا ہے۔ ہم بس یہ جانتے ہیں کہ یہوواہ جو بھی کرتا ہے، ہمیشہ صحیح کرتا ہے۔‏

ہم کیا جانتے ہیں؟‏

10.‏ جب یہوواہ بُرے لوگوں کو ہلاک کرتا ہے تو اُسے کیسا محسوس ہوتا ہے؟ (‏حِزقی‌ایل 33:‏11‏)‏ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

10 حِزقی‌ایل 33:‏11 کو پڑھیں۔‏ یہوواہ نے اپنے کلام میں ہمیں بتایا ہے کہ جب وہ لوگوں کی عدالت کرتا ہے تو وہ کیسا محسوس کرتا ہے۔ اِس سلسلے میں پطرس رسول نے بھی ویسی ہی بات کہی جیسی حِزقی‌ایل نبی نے لکھی تھی۔ پطرس نے کہا:‏ ”‏یہوواہ .‏ .‏ .‏ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی شخص ہلاک ہو۔“‏ (‏2-‏پطر 3:‏9‏)‏ اِس سچائی کو جان کر ہمیں بہت تسلی ملتی ہے۔ ہم جان جاتے ہیں کہ جب تک یہوواہ کے پاس جائز وجہ نہ ہو، وہ بُرے لوگوں کو کبھی فوراً ہلاک نہیں کرتا اور یہ نہیں سوچ لیتا کہ اب وہ اُنہیں دوبارہ زندہ نہیں کرے گا۔ ہمارا شفیق خدا یہوواہ رحم کا سرچشمہ ہے اور جب بھی اُسے نظر آتا ہے کہ ایک شخص پر رحم کِیا جانا چاہیے تو وہ ایسا ضرور کرتا ہے۔‏

جب ”‏بدوں“‏ کو زندہ کِیا جائے گا تو مختلف لوگوں کو یہوواہ کے بارے میں سیکھنے کا موقع دیا جائے گا۔ (‏پیراگراف نمبر 10 کو دیکھیں۔)‏


11.‏ کن لوگوں کو زندہ نہیں کِیا جائے گا اور ہم یہ بات کیسے جانتے ہیں؟‏

11 جن لوگوں کو یہوواہ زندہ نہیں کرے گا، اُن کے حوالے سے ہم کون سی بات جانتے ہیں؟ بائبل میں اِس طرح کے کچھ لوگوں کا ذکر ہوا ہے۔‏ b یسوع مسیح نے بتایا کہ یہوداہ اِسکریوتی کو زندہ نہیں کِیا جائے گا۔ (‏مر 14:‏21؛‏ یوحنا 17:‏12 اور فٹ‌نوٹ کو بھی دیکھیں۔‏ c‏)‏ یہوداہ اِسکریوتی نے جان بُوجھ کر یہوواہ خدا اور اُس کے بیٹے کے خلاف گُناہ کِیا۔ (‏مرقس 3:‏29 اور فٹ‌نوٹ کو دیکھیں۔‏ d‏)‏ اِس کے علاوہ جن مذہبی رہنماؤں نے یسوع مسیح کی مخالفت کی، اُن میں سے کچھ کے بارے میں یسوع نے بتایا کہ اُن کے زندہ ہونے کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ (‏متی 23:‏33‏)‏ اور پولُس رسول نے بھی اِس بات سے آگاہ کِیا کہ جو لوگ یہوواہ سے برگشتہ ہو جاتے ہیں اور توبہ نہیں کرتے، اُنہیں یہوواہ زندہ نہیں کرے گا۔—‏عبر 6:‏4-‏8؛‏ 10:‏29‏۔‏

12.‏ ہم یہوواہ کے رحم کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ کچھ مثالیں دیں۔‏

12 ہم یہوواہ کے رحم کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ اُس نے یہ کیسے ثابت کِیا ہے کہ ’‏وہ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی شخص ہلاک ہو‘‏؟ غور کریں کہ وہ کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ رحم سے کیسے پیش آیا جنہوں نے بہت بڑے گُناہ کیے۔ بادشاہ داؤد نے بہت بڑے گُناہ کیے تھے جن میں زِناکاری اور قتل جیسے گُناہ شامل تھے۔ لیکن جب داؤد نے دل سے توبہ کی تو یہوواہ نے اُن پر رحم کرتے ہوئے اُنہیں معاف کر دیا۔ (‏2-‏سمو 12:‏1-‏13‏)‏ بادشاہ منسّی نے اپنی زندگی کے زیادہ‌تر عرصے میں بہت ہی بڑے اور بھیانک گُناہ کیے تھے۔ اُنہوں نے تو ایک طرح سے گُناہ کرنے کی حد پار کر دی تھی۔ لیکن جب اُنہوں نے دل سے توبہ کی تو یہوواہ نے بھی دل کھول کر اُن پر رحم کِیا اور اُنہیں معاف کر دیا۔ (‏2-‏توا 33:‏9-‏16‏)‏ اِن مثالوں سے پتہ چلتا ہے کہ جب یہوواہ کو اِس بات کی چھوٹی سی بھی وجہ نظر آتی ہے کہ ایک شخص پر رحم کِیا جانا چاہیے تو وہ ایسا کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ یہوواہ ایسے لوگوں کو زندہ کرے گا کیونکہ اِن لوگوں کو احساس تھا کہ اُن سے بڑے گُناہ ہوئے ہیں اور وہ دل سے اِن پر شرمندہ تھے۔‏

13.‏ (‏الف)‏یہوواہ نے نِینوہ میں رہنے والے لوگوں پر رحم کیوں کِیا؟ (‏ب)‏بعد میں یسوع مسیح نے نِینوہ میں رہنے والے لوگوں کے بارے میں کیا کہا؟‏

13 یہوواہ جس طرح سے نِینوہ کے لوگوں کے ساتھ پیش آیا، اُس سے اُس کے رحم کی خوبی صاف نظر آتی ہے۔ شہر نِینوہ کے لوگ بہت ہی بُرے تھے۔ یہوواہ نے یُوناہ کو بتایا:‏ ”‏وہاں کے لوگوں کی بُرائی میری نظروں سے چھپی نہیں ہے۔“‏ لیکن جب اُن لوگوں نے اپنے گُناہوں سے توبہ کی تو یہوواہ نے اُنہیں معاف کر دیا۔ یہوواہ اِن لوگوں پر رحم کرنے کو تیار تھا لیکن یُوناہ نہیں۔ یُوناہ تو بہت ہی غصے میں تھے اور ناراض ہو گئے تھے۔ یہوواہ کو اپنے اِس نبی کو یاد دِلانا پڑا کہ نِینوہ کے لوگ ”‏صحیح اور غلط میں فرق نہیں کر سکتے۔“‏ (‏یُوناہ 1:‏1، 2؛‏ 3:‏10؛‏ 4:‏9-‏11‏)‏ بعد میں یسوع مسیح نے یہوواہ کے اِنصاف اور رحم کے بارے میں بات کرتے وقت نِینوہ کے لوگوں کی مثال دی۔ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏عدالت کے دن نِینوہ کے لوگ .‏ .‏ .‏ زندہ کیے جائیں گے۔“‏—‏متی 12:‏41‏۔‏

14.‏ نِینوہ کے لوگوں کے لیے ”‏سزا کی قیامت“‏ کا کیا مطلب ہوگا؟‏

14 اِس بات کا کیا مطلب ہے کہ ”‏عدالت کے دن نِینوہ کے لوگ .‏ .‏ .‏ زندہ کیے جائیں گے؟“‏ یسوع مسیح نے بتایا تھا کہ مستقبل میں ”‏سزا کی قیامت“‏ ہوگی۔ (‏یوح 5:‏29‏، اُردو ریوائزڈ ورشن‏)‏ یسوع اُس وقت کی بات کر رہے تھے جب وہ ہزار سال کے لیے حکمرانی کریں گے اور اِس دوران ”‏خدا نیکوں اور بدوں دونوں کو زندہ کرے گا۔“‏ (‏اعما 24:‏15‏)‏ بدوں کو ”‏سزا کی قیامت“‏ کے لیے زندہ کِیا جائے گا۔ اِس کا مطلب ہے کہ یہوواہ اور یسوع مسیح لوگوں کے کاموں کو پرکھیں گے اور دیکھیں گے کہ جو کچھ وہ سیکھ رہے ہیں، اُس پر عمل کر رہے ہیں یا نہیں۔ زندہ ہو جانے کے بعد اگر شہر نِینوہ کا کوئی شخص یہوواہ کی عبادت کرنے سے اِنکار کرے گا تو یہوواہ اُسے زندہ نہیں رہنے دے گا بلکہ اُسے ختم کر دے گا۔ (‏یسع 65:‏20‏)‏ لیکن وہ سب لوگ جو یہوواہ کے وفادار رہیں گے اور اُس کی عبادت کرنے کا فیصلہ کریں گے، اُنہیں ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع دیا جائے گا۔—‏دان 12:‏2‏۔‏

15.‏ (‏الف)‏ہمیں یہ کیوں نہیں کہنا چاہیے کہ سدوم اور عمورہ کے لوگوں کو زندہ نہیں کِیا جائے گا؟ (‏ب)‏ہم یہوداہ 7 آیت میں لکھی بات کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ (‏بکس ”‏ یہوداہ کی بات کا کیا مطلب تھا؟‏‏“‏ کو دیکھیں۔)‏

15 یسوع مسیح نے سدوم اور عمورہ کے لوگوں کے بارے میں بات کرتے وقت بتایا کہ ”‏عدالت کے دن“‏ سدوم اور عمورہ کے لوگوں کا حال اُن لوگوں کے حال سے بہتر ہوگا جنہوں نے یسوع مسیح کو اور اُن کی تعلیمات کو قبول نہیں کِیا۔ (‏متی 10:‏14، 15؛‏ 11:‏23، 24؛‏ لُو 10:‏12‏)‏ یسوع مسیح کی اِس بات کا کیا مطلب تھا؟ شاید ہمیں لگے کہ یسوع مسیح سدوم اور عمورہ کے لوگوں کی مثال اِس لیے دے رہے تھے تاکہ وہ اِس بات پر زور دے سکیں کہ اُن کے زمانے کے لوگ کتنے بُرے تھے۔ لیکن لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ یاد رکھیں کہ جب یسوع مسیح نے کہا کہ ”‏عدالت کے دن نِینوہ کے لوگ .‏ .‏ .‏ زندہ کیے جائیں گے“‏ تو لگتا ہے کہ یسوع کی بات کا مطلب تھا کہ ایسا واقعی ہوگا۔اِسی طرح جب یسوع مسیح نے سدوم اور عمورہ کے لوگوں کا ذکر کرتے وقت ”‏عدالت کے دن“‏ کی بات کی تو کہا جا سکتا ہے کہ شاید اُن میں سے کچھ زندہ ہوں گے۔ جس ”‏عدالت کے دن“‏ کا ذکر یسوع مسیح نے سدوم اور عمورہ کے لوگوں کا ذکر کرتے وقت کِیا، یہ یقیناً اُسی طرح کی عدالت ہے جس کا یسوع نے نِینوہ کے لوگوں کا ذکر کرتے وقت کِیا۔ نِینوہ کے لوگوں کی طرح سدوم اور عمورہ کے لوگوں نے بھی بہت بُرے کام کیے تھے۔لیکن نِینوہ کے لوگوں کو توبہ کرنے کا موقع ملا تھا جبکہ سدوم اور عمورہ کے لوگوں کو ایسا کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ اِس کے علاوہ یاد رکھیں کہ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ جن لوگوں نے بُرے کام کیے، اُنہیں ”‏سزا کی قیامت“‏ دی جائے گی۔ (‏یوح 5:‏29‏، اُردو ریوائزڈ ورشن‏)‏ اِن باتوں کی بِنا پر لگتا ہے کہ سدوم اور عمورہ کے لوگوں کے زندہ ہونے کی اُمید کی جا سکتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اِن میں سے کم از کم کچھ کو زندہ کِیا جائے گا اور اُنہیں توبہ کرنے اور یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے بارے میں سیکھنے کا موقع دیا جائے گا۔‏

 

16.‏ یہوواہ کس بات کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرے گا کہ وہ کس کو زندہ کرے گا اور کس کو نہیں؟ (‏یرمیاہ 17:‏10‏)‏

16 یرمیاہ 17:‏10 کو پڑھیں۔‏ اِس آیت میں ہم وہ بات پڑھتے ہیں جو ہم یہوواہ کے اِنصاف کے بارے میں جانتے ہیں۔ اور وہ بات یہ ہے کہ یہوواہ ہر شخص کے”‏دل‌ودماغ کو جانچتا اور آزماتا“‏ ہے۔ تو مستقبل میں جب یہوواہ یہ فیصلہ کرے گا کہ وہ کس کو زندہ کرے گا اور کس کو نہیں تو وہ ہر شخص کے دل کو جانتے ہوئے اُسے ”‏اُس کے کاموں کے پھل کے مطابق بدلہ“‏ دے گا۔ یہوواہ صرف تبھی کسی کی سخت عدالت کرے گا جب ایسا ضروری ہوگا۔ لیکن جب اُسے ذرا سا بھی نظر آئے گا کہ کسی پر رحم دِکھانے کی ضرورت ہے تو وہ ایسا ضرور کرے گا۔ تو ہمیں کبھی خود سے یہ اندازہ نہیں لگانا چاہیے کہ فلاں شخص کو زندہ کِیا جائے گا یا نہیں جب تک کہ ہمیں بائبل سے اِس کا پکا ثبوت نہ مل جائے۔‏

‏”‏ساری دُنیا کا منصف“‏ بالکل صحیح اِنصاف کرے گا

17.‏ جو لوگ فوت ہو گئے ہیں، اُن کے ساتھ کیا ہوگا؟‏

17 جب سے آدم اور حوّا نے یہوواہ کے خلاف بغاوت کرنے میں شیطان کا ساتھ دیا تب سے کروڑوں لوگ فوت ہو چُکے ہیں۔ موت اِنسانوں کا ایک بہت ہی بھیانک ”‏دُشمن“‏ ہے۔ (‏1-‏کُر 15:‏26‏)‏ تو اُن لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا جو اِس دُشمن کا شکار ہوتے ہیں؟ یسوع کے پیروکاروں کے ایک چھوٹے گروہ کو آسمان پر غیرفانی زندگی دی جائے گی جن کی تعداد 1 لاکھ 44 ہزار ہے۔ (‏مُکا 14:‏1‏)‏ لیکن یہوواہ سے محبت کرنے والے زیادہ‌تر لوگوں کو زمین پر ”‏نیکوں“‏ کے طور پر زندہ کِیا جائے گا۔ اگر وہ مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی اور آخری اِمتحان کے دوران یہوواہ کے وفادار رہیں گے تو اُنہیں زمین پر ہمیشہ کی زندگی ملے گی۔ (‏دان 12:‏13؛‏ عبر 12:‏1‏)‏ مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے دوران بدوں کو بھی زندہ کِیا جائے گا جن میں وہ لوگ شامل ہوں گے جنہیں مرنے سے پہلے یہوواہ کی عبادت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ بھی جنہوں نے ”‏بُرے کام کیے“‏ تھے۔ اِنہیں اپنی زندگی بدلنے اور یہوواہ کے لیے اپنی وفاداری ثابت کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ (‏لُو 23:‏42، 43‏)‏ لیکن فوت ہو جانے والے کچھ لوگ اِس قدر بُرے تھے اور یہوواہ اور اُس کے مقصد کے اِتنے خلاف تھے کہ یہوواہ نے اِن لوگوں کے بارے میں فیصلہ کِیا ہے کہ وہ اُنہیں زندہ نہیں کرے گا۔—‏لُو 12:‏4، 5‏۔‏

18-‏19.‏ (‏الف)‏یہوواہ فوت ہو جانے والے لوگوں کے بارے میں جو بھی فیصلہ کرے گا، اُس کے حوالے سے ہم کس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں؟ (‏یسعیاہ 55:‏8، 9‏)‏ (‏ب)‏اگلے مضمون میں ہم کن سوالوں پر بات کریں گے؟‏

18 کیا ہم اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ جب یہوواہ لوگوں کی عدالت کرے گا تو وہ بالکل صحیح فیصلہ کرے گا؟ بے‌شک!‏ اَبراہام یہ بات اچھی طرح سے سمجھ گئے تھے کہ ”‏ساری دُنیا کا منصف“‏ یہوواہ بے‌عیب، دانش‌مند اور رحم‌دل خدا ہے۔ اُس نے اپنے بیٹے کو لوگوں کا اِنصاف کرنے کا کام سونپا ہے اور اُسے اِس کام میں تربیت بھی دی ہے۔ (‏یوح 5:‏22‏)‏ یہوواہ خدا اور اُس کا بیٹا یسوع دونوں ہی یہ دیکھ سکتے ہیں کہ لوگوں کے دل میں کیا ہے۔ (‏متی 9:‏4‏)‏ تو ہر شخص کی عدالت کرتے وقت وہ بالکل صحیح فیصلہ کریں گے۔‏

19 آئیے ہم سب اپنے اِس بھروسے کو اَور مضبوط کریں کہ یہوواہ جو بھی فیصلہ کرتا ہے، وہی بہترین فیصلہ ہوتا ہے۔ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے پاس کسی کی عدالت کرنے کا اِختیار نہیں ہے بلکہ یہ اِختیار یہوواہ کے پاس ہے۔ ‏(‏یسعیاہ 55:‏8، 9 کو پڑھیں۔)‏ اِس لیے ہم آنکھیں بند کر کے ہر معاملہ یہوواہ اور اُس کے بیٹے کے ہاتھ میں سونپ دیتے ہیں۔ یسوع مسیح بھی اپنے باپ کی طرح اِنصاف اور رحم کی بہترین مثال ہیں۔ (‏یسع 11:‏3، 4‏)‏ لیکن سوال یہ اُٹھتا ہے کہ یہوواہ اور یسوع مسیح بڑی مصیبت کے وقت لوگوں کی عدالت کیسے کریں گے؟ اور اِس حوالے سے ہم کیا جانتے ہیں اور کیا نہیں؟ اگلے مضمون میں اِنہی دو سوالوں پر بات کی جائے گی۔‏

گیت نمبر 57‏:‏ ہر طرح کے لوگوں کو مُنادی کریں

b آدم، حوّا اور قائن کے حوالے سے ‏”‏مینارِنگہبانی،“‏ 1 جنوری 2013ء، ص.‏ 12 پ.‏ 5 پر فٹ‌نوٹ کو دیکھیں۔‏

c یوحنا 17:‏12 میں اِصطلا‌ح ”‏ہلاکت کا بیٹا“‏اِستعمال ہوئی ہے جس کا مطلب ہے کہ جب یہوداہ اِسکریوتی مر گیا تو وہ ہمیشہ کے لیے ہلاک ہو گیا اور اُس کے زندہ ہو جانے کی کوئی اُمید نہیں ہے۔‏