مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 45

گیت نمبر 138‏:‏ سفید بال خوب‌صورت تاج ہیں

خدا کے وفادار بندوں کے آخری الفاظ سے سیکھیں

خدا کے وفادار بندوں کے آخری الفاظ سے سیکھیں

‏”‏بوڑھوں کے پاس دانش‌مندی ہوتی ہے اور اُن لوگوں کے پاس سمجھ جو لمبی عمر گزار چُکے ہیں۔“‏‏—‏ایو 12:‏12‏۔‏

غور کریں کہ ‏.‏ ‏.‏ ‏.‏

یہوواہ خدا کی فرمانبرداری کرنے سے ہمیں نہ صرف اب برکتیں ملیں گی بلکہ مستقبل میں ہمیشہ کی زندگی بھی ملے گی۔‏

1.‏ ہمیں بوڑھے بہن بھائیوں سے کیوں سیکھنا چاہیے؟‏

 ہم سب کو زندگی میں اہم فیصلے لینے کے لیے رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم کلیسیا کے بزرگوں اور دیگر پُختہ مسیحیوں سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر یہ بہن بھائی ہم سے عمر میں بہت بڑے ہیں تو ہمیں یہ سوچ کر اُن کی رہنمائی کو رد نہیں کر دینا چاہیے کہ یہ ہمارے زمانے میں نہیں چلے گی۔ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم بوڑھے بہن بھائیوں سے سیکھیں۔ وہ ہم سے زیادہ سُوجھ بُوجھ اور زندگی کا تجربہ رکھتے ہیں۔—‏ایو 12:‏12‏۔‏

2.‏ اِس مضمون میں کس بارے میں بات کی جائے گی؟‏

2 پُرانے زمانے میں یہوواہ نے اپنے بوڑھے بندوں کے ذریعے اپنی قوم کی رہنمائی کی اور اُن کا حوصلہ بڑھایا۔ ذرا موسیٰ، داؤد اور یوحنا رسول کی مثال پر غور کریں۔ وہ فرق فرق زمانوں میں رہتے تھے اور اُن کی صورتحال بھی ایک دوسرے سے بہت فرق تھی۔ اپنی زندگی کے آخری لمحوں میں اُنہوں نے جوان لوگوں کو بہت اچھی نصیحت کی۔ اِن تینوں نے ہی اِس بات پر زور دیا کہ یہوواہ کا فرمانبردار رہنا کتنا ضروری ہے۔ یہوواہ نے اپنے اِن بندوں کے الفاظ کو اپنے کلام میں لکھوایا تاکہ ہم اِن سے فائدہ حاصل کر سکیں۔ (‏روم 15:‏4؛‏ 2-‏تیم 3:‏16‏)‏ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ موسیٰ، داؤد اور یوحنا رسول نے مرنے سے پہلے کون سی نصیحتیں کیں اور ہم اِن سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔‏

آپ کی ’‏عمر دراز‘‏ ہوگی

3.‏ موسیٰ نے کن کن طریقوں سے یہوواہ اور اُس کی قوم کی خدمت کی؟‏

3 موسیٰ پوری زندگی لگن سے یہوواہ کی خدمت کرتے رہے۔ اُنہوں نے ایک نبی اور منصف کے طور پر خدمت کی، بنی‌اِسرائیل کی رہنمائی کی اور پاک کلام کی کچھ کتابیں لکھیں۔ موسیٰ کے پاس واقعی بہت تجربہ تھا!‏ اُنہوں نے بنی‌اِسرائیل کو مصریوں کی غلامی سے آزاد کرایا تھا اور اپنی آنکھوں سے یہوواہ کے بہت سے معجزے دیکھے تھے۔ یہوواہ نے اُن کے ذریعے بائبل کی پہلی پانچ کتابیں اور زبور 90 لکھوایا۔ ایسا لگتا ہے کہ زبور 91 اور ایوب کی کتاب بھی موسیٰ نے ہی لکھی تھی۔‏

4.‏ موسیٰ نے کن کی حوصلہ‌افزائی کی اور کیوں؟‏

4 موسیٰ 120 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ مرنے سے کچھ وقت پہلے اُنہوں نے بنی‌اِسرائیل کو اِکٹھا کِیا تاکہ وہ اُنہیں یہوواہ کے وہ شان‌دار کام یاد دِلائیں جو بنی‌اِسرائیل نے دیکھے تھے۔ اِن میں سے کچھ اِسرائیلیوں نے اپنی جوانی میں اپنی آنکھوں سے یہوواہ کے بہت سے معجزات دیکھے تھے اور یہ بھی دیکھا تھا کہ یہوواہ نے مصریوں کو سزا کیسے دی تھی۔ (‏خر 7:‏3، 4‏)‏ اُنہوں نے بحیرۂ‌احمر کو دو حصے ہوتے ہوئے دیکھا تھا اور اِسے پار بھی کِیا تھا۔ اُنہوں نے یہ بھی دیکھا تھا کہ یہوواہ نے کیسے فِرعون کی فوج کو سمندر میں تباہ کِیا تھا۔ (‏خر 14:‏29-‏31‏)‏ پھر ویرانے میں اُنہوں نے دیکھا تھا کہ یہوواہ نے کیسے اُن کی حفاظت کی اور اُن کا خیال رکھا۔ (‏اِست 8:‏3، 4‏)‏ اب بنی‌اِسرائیل بہت جلد اُس ملک میں جانے والے تھے جس کا وعدہ یہوواہ نے اُن سے کِیا تھا۔ اِس لیے موسیٰ مرنے سے پہلے اُن کا حوصلہ بڑھانا چاہتے تھے۔‏ a

5.‏ موسیٰ نے مرنے سے پہلے اِستثنا 30:‏19، 20 میں جو بات کہی، اُس سے بنی‌اِسرائیل کو کیا حوصلہ ملا؟‏

5 موسیٰ نے کیا کہا؟‏ (‏اِستثنا 30:‏19، 20 کو پڑھیں۔)‏ موسیٰ نے بنی‌اِسرائیل کو یاد دِلایا کہ اُن کا مستقبل بہت روشن ہے اور اُنہیں بہت برکتیں ملنے والی ہیں۔ اگر یہوواہ کی برکت اُن پر رہی تو وہ وعدہ کیے ہوئے ملک میں ایک لمبی زندگی جی سکیں گے۔ وہ ملک واقعی بہت خوب‌صورت اور زرخیز تھا!‏ موسیٰ نے بنی‌اِسرائیل کو بتایا کہ یہوواہ اُنہیں کیسا ملک دینے والا ہے۔ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏وہ تجھ کو بڑے بڑے اور اچھے شہر جن کو تُو نے نہیں بنایا اور اچھی اچھی چیزوں سے بھرے ہوئے گھر جن کو تُو نے نہیں بھرا اور کھودے کھدائے حوض جو تُو نے نہیں کھودے اور انگور کے باغ اور زیتون کے درخت جو تُو نے نہیں لگائے عنایت کرے[‏گا]‏۔“‏—‏اِست 6:‏10، 11‏۔‏

6.‏ یہوواہ خدا نے دوسری قوموں کو بنی‌اِسرائیل پر فتح کیوں حاصل کرنے دی؟‏

6 موسیٰ نے بنی‌اِسرائیل کا حوصلہ بڑھانے کے ساتھ ساتھ اُنہیں ایک بات سے آگاہ بھی کِیا۔ موسیٰ نے اُنہیں بتایا کہ اگر وہ اُس اچھے ملک میں بسے رہنا چاہتے ہیں تو اُنہیں یہوواہ کے حکموں کو مانتے رہنا ہوگا۔ موسیٰ نے اُن کی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ اپنے لیے زندگی چُنیں۔ اور وہ ایسا یہوواہ کی بات سننے اور اُس سے ’‏لپٹے رہنے‘‏ سے کر سکتے تھے۔ لیکن بنی‌اِسرائیل نے یہوواہ کی فرمانبرداری کرنا چھوڑ دیا۔ اِس لیے جب اسوریوں اور بعد میں بابلیوں نے بنی‌اِسرائیل کو اپنا غلام بنا لیا تو یہوواہ نے اِن قوموں کو ایسا کرنے سے نہیں روکا۔—‏2-‏سلا 17:‏6-‏8،‏ 13، 14؛‏ 2-‏توا 36:‏15-‏17،‏ 20‏۔‏

7.‏ ہم موسیٰ کی کہی بات سے کیا سیکھتے ہیں؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

7 ہم موسیٰ کی کہی بات سے کیا سیکھتے ہیں؟ یہوواہ کی فرمانبرداری کرنے سے ہمیشہ کی زندگی ملتی ہے۔‏ جس طرح بنی‌اِسرائیل وعدہ کیے ہوئے ملک کی دہلیز پر کھڑے تھے اُسی طرح آج ہم بھی نئی دُنیا کی دہلیز پر کھڑے ہیں جس کا وعدہ یہوواہ نے ہم سے کِیا ہے۔ بہت جلد یہ زمین فردوس بن جائے گی۔ (‏یسع 35:‏1؛‏ لُو 23:‏43‏)‏ نئی دُنیا میں شیطان اور بُرے فرشتے نہیں ہوں گے۔ (‏مُکا 20:‏2، 3‏)‏ تب تو جھوٹا مذہب بھی نہیں ہوگا جو لوگوں کو یہوواہ سے دُور کر دے۔ (‏مُکا 17:‏16‏)‏ اور نہ ہی اِنسانوں کی حکومتیں ہوں گی جو لوگوں پر ظلم ڈھائیں۔ (‏مُکا 19:‏19، 20‏)‏ فردوس میں باغی لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ (‏زبور 37:‏10، 11‏)‏ اُس وقت سب لوگ یہوواہ کے حکموں کو مانیں گے جس کی وجہ سے وہ متحد ہوں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ صلح صفائی سے رہیں گے۔ وہ آپس میں پیار سے رہیں گے اور ایک دوسرے پر بھروسا کریں گے۔ (‏یسع 11:‏9‏)‏ یہ کتنی اچھی اُمید ہے نا؟ اِتنا ہی نہیں، اگر ہم یہوواہ کے فرمانبردار رہیں گے تو ہم فردوس میں نہ صرف سینکڑوں سالوں کے لیے بلکہ ہمیشہ تک زندہ رہیں گے۔—‏زبور 37:‏29؛‏ یوح 3:‏16‏۔‏

اگر ہم یہوواہ کے فرمانبردار ہوں گے تو ہم فردوس میں نہ صرف سینکڑوں سال تک بلکہ ہمیشہ تک زندہ رہیں گے۔ (‏پیراگراف نمبر 7 کو دیکھیں۔)‏


8.‏ ہمیشہ کی زندگی کے وعدے پر غور کرنے سے مشنری کے طور پر خدمت کرنے والے ایک بھائی کی مدد کیسے ہوئی؟ (‏یہوداہ 20، 21‏)‏

8 اگر ہم ہمیشہ کی زندگی کے وعدے کو ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھیں گے تو ہم ہر مشکل میں یہوواہ سے لپٹے رہیں گے اور اُس کے حکم مانیں گے۔ ‏(‏یہوداہ 20، 21 کو پڑھیں۔)‏ اِس وعدے کو یاد رکھنے سے ہمیں اپنی خامیوں سے لڑنے کی بھی طاقت ملے گی۔ اِس سلسلے میں ذرا ایک بھائی کی مثال پر غور کریں جو افریقہ میں کافی لمبے عرصے سے مشنری کے طور پر یہوواہ کی خدمت کر رہا تھا۔ اُسے اپنی ایک خامی سے مسلسل لڑنا پڑ رہا تھا۔ اُس نے کہا:‏ ”‏جب مجھے یہ احساس ہوا کہ یہوواہ کی نافرمانی کرنے سے میری ہمیشہ کی زندگی داؤ پر لگ جائے گی تو میرا یہ عزم اَور زیادہ پکا ہو گیا کہ مَیں اپنی خامی سے لڑ تا رہوں گا اور یہوواہ سے مدد کے لیے اِلتجائیں کرتا رہوں گا۔ یہوواہ کی مدد سے مَیں اپنی خامی پر قابو پانے میں کامیاب ہو گیا۔“‏

‏”‏آپ کو کامیابی ملے گی“‏

9.‏ داؤد کو اپنی زندگی میں کن مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا؟‏

9 داؤد ایک بہت اچھے بادشاہ تھے اور وہ یہوواہ کے وفادار تھے۔ وہ ایک موسیقار، شاعر اور نبی تھے اور جنگیں لڑنے میں بہت ماہر تھے۔ اُنہیں اپنی زندگی میں بہت سی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کئی سالوں تک بادشاہ ساؤل سے اپنی جان بچانے کے لیے اِدھر اُدھر بھاگتے رہے کیونکہ ساؤل اُن سے بہت حسد کرتے تھے۔ اور جب داؤد بادشاہ بنے تو اُنہیں پھر سے اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا کیونکہ اُن کا بیٹا ابی‌سلّوم اُن کے تخت پر قبضہ کرنے کے لیے اُن کے خون کا پیاسا ہو گیا تھا۔ داؤد کو بہت سی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا اور اُن سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں۔ لیکن اِس کے باوجود وہ مرتے دم تک یہوواہ کے وفادار رہے۔ یہوواہ نے بھی اُن کے بارے میں کہا:‏ ”‏[‏اُس]‏سے میرا دل خوش ہے۔“‏ اِس لیے داؤد نے جو نصیحتیں کیں، ہمیں اُس پر دھیان دینا چاہیے۔—‏اعما 13:‏22؛‏ 1-‏سلا 15:‏5‏۔‏

10.‏ سلیمان کے بادشاہ بننے سے پہلے داؤد نے اُنہیں نصیحت کیوں کی؟‏

10 ذرا اُس نصیحت پر غور کریں جو داؤد نے اپنے بیٹے سلیمان کو کی اور جو اُن کے بعد بادشاہ بننے والے تھے۔ اِس نوجوان شخص کو خود یہوواہ نے بادشاہ کے طور پر چُنا تھا تاکہ وہ اُس کی عبادت کو بڑھاوا دے اور اُس کی شان میں ایک ہیکل بنوائے۔ (‏1-‏توا 22:‏5‏)‏ اِس کام کو کرنے اور یہوواہ کے بندوں کی پیشوائی کرنے کے لیے سلیمان کو بہت سی مشکلوں کا سامنا ہونا تھا۔ اِس لیے داؤد نے سلیمان کو کچھ نصیحتیں کیں۔ آئیے دیکھیں کہ اُنہوں نے سلیمان سے کیا کہا۔‏

11.‏ پہلا سلاطین 2:‏2، 3 کے مطابق داؤد نے سلیمان کو کس بات کا یقین دِلایا اور اُن کی بات سچ کیسے ثابت ہوئی؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

11 داؤد نے کیا کہا؟‏ (‏1-‏سلاطین 2:‏2، 3 کو پڑھیں۔)‏ داؤد نے اپنے بیٹے سلیمان کو بتایا کہ اگر وہ یہوواہ کے فرمانبردار رہیں گے تو اُنہیں کامیابی ملے گی۔ اور واقعی کئی سالوں تک سلیمان کو یہوواہ کی طرف سے بہت برکتیں اور کامیابی ملی۔ (‏1-‏توا 29:‏23-‏25‏)‏ مثال کے طور پر اُنہوں نے یہوواہ کے لیے بہت ہی شان‌دار ہیکل بنائی۔ اُنہوں نے بائبل کی کئی کتابیں لکھیں اور اُن کے کچھ الفاظ بائبل کی دوسری کتابوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ وہ اپنی دانش‌مندی اور مال‌ودولت کی وجہ سے بہت مشہور ہو گئے۔ (‏1-‏سلا 4:‏34‏)‏ لیکن داؤد نے اُن سے کہا تھا کہ وہ تب تک ہی کامیاب رہیں گے جب تک وہ یہوواہ کے فرمانبردار رہیں گے۔ افسوس کی بات ہے کہ جب سلیمان بوڑھے ہو گئے تو اُنہوں نے دوسرے دیوتاؤں کی پوجا کرنا شروع کر دی۔ یہ دیکھ کر یہوواہ اُن سے بہت ناراض ہوا۔ اِس وجہ سے اُن کے پاس وہ دانش‌مندی نہیں رہی جس کی بِنا پر وہ لوگوں کا راستی سے اِنصاف کرتے تھے۔—‏1-‏سلا 11:‏9، 10؛‏ 12:‏4‏۔‏

داؤد نے مرنے سے پہلے اپنے بیٹے سلیمان کو جو نصیحتیں کیں، اُن سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ اگر ہم یہوواہ کے فرمانبردار رہیں گے تو یہوواہ اچھے فیصلے کرنے کے لیے ہمیں دانش‌مندی دے گا۔ (‏پیراگراف نمبر 11-‏12 کو دیکھیں۔)‏ b


12.‏ ہم داؤد کی کہی بات سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

12 ہم داؤد کی کہی بات سے کیا سیکھتے ہیں؟ یہوواہ کی فرمانبرداری کرنے سے کامیابی ملتی ہے۔‏ (‏زبور 1:‏1-‏3‏)‏ بے‌شک یہوواہ نے ہم سے یہ وعدہ نہیں کِیا کہ وہ ہمیں سلیمان جتنی دولت اور شہرت دے گا۔ لیکن اگر ہم اُس کے فرمانبردار ہوں گے تو وہ ہمیں دانش‌مندی دے گا جس کی وجہ سے ہم اچھے فیصلے کر پائیں گے۔ (‏اَمثا 2:‏6، 7؛‏ یعقو 1:‏5‏)‏ اُس کے اصول زندگی کے مختلف معاملوں میں ہماری رہنمائی کریں گے جیسے کہ نوکری، تعلیم، تفریح اور پیسے کے معاملوں میں۔ خدا کی طرف سے ملنے والی دانش‌مندی کو اپنانے سے ہم ہر اُس چیز سے بچ جائیں گے جس کی وجہ سے یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی ٹوٹ سکتی ہے اور ہم ہمیشہ کی زندگی پانے کا موقع کھو سکتے ہیں۔ (‏اَمثا 2:‏10، 11‏)‏ اِس کے علاوہ ہم اچھے دوست بنا پائیں گے اور ہماری گھریلو زندگی خوشیوں سے بھر جائے گی۔‏

13.‏ کس چیز نے بہن کارمن کی مدد کی تاکہ وہ زندگی کی بہترین راہ چُنیں؟‏

13 ذرا بہن کارمن کی مثال پر غور کریں جو موزمبیق میں رہتی ہیں۔ وہ سوچتی تھیں کہ اُنہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے کامیابی مل سکتی ہے۔ اِس لیے اُنہوں نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا جہاں وہ عمارتوں کے ڈیزائن بنانے کی تعلیم حاصل کرنے لگیں۔ اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏مَیں جو کچھ سیکھ رہی تھی، وہ مجھے بہت اچھا لگتا تھا لیکن یہ تعلیم میرا بہت سا وقت اور طاقت لے رہی تھی۔ مَیں صبح ساڑھے سات بجے سے لے کر شام چھ بجے تک یونیورسٹی میں رہتی تھی۔ میرے لیے عبادتوں پر جانا مشکل ہو رہا تھا اور یہوواہ کے ساتھ میری دوستی بھی کمزور پڑتی جا رہی تھی۔ مجھے دل ہی دل میں یہ احساس ہو گیا تھا کہ مَیں دو مالکوں کی خدمت کر رہی ہوں۔“‏ (‏متی 6:‏24‏)‏ بہن کارمن نے اِس معاملے کے بارے میں یہوواہ سے دُعا کی اور ہماری تنظیم کی کتابوں سے تحقیق کی۔ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏کلیسیا کے بزرگوں نے اور میری امی نے مجھے بہت اچھے مشورے دیے۔ اِس کے بعد مَیں نے فیصلہ کِیا کہ مَیں یونیورسٹی چھوڑ کر کُل‌وقتی طور پر یہوواہ کی خدمت کروں گی۔ مَیں اپنے فیصلے سے بہت خوش ہوں اور مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔“‏

14.‏ موسیٰ اور داؤد نے کون سی اہم بات بتائی؟‏

14 موسیٰ اور داؤد یہوواہ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور اُن کی نظر میں یہوواہ کی بات ماننا بہت اہم تھا۔ اُن دونوں نے اپنی موت سے پہلے دوسروں کا یہ حوصلہ بڑھایا کہ وہ اُن کی مثال پر عمل کرتے ہوئے یہوواہ سے لپٹے رہیں۔ اُنہوں نے دوسروں کو اِس بات سے بھی آگاہ کِیا کہ اگر وہ یہوواہ کے وفادار نہیں رہیں گے تو وہ اُس کی دوستی سے محروم ہو جائیں گے اور اُن برکتوں کو گنوا بیٹھیں گے جنہیں دینے کا وعدہ یہوواہ نے کِیا ہے۔ اُن کی نصیحت آج ہمارے لیے بھی بہت فائدہ‌مند ہے۔ موسیٰ اور داؤد کی موت کے کئی صدیوں بعد یہوواہ کے ایک اَور بندے نے بھی بتایا کہ یہوواہ کا وفادار رہنا کتنا ضروری ہے۔‏

‏”‏اِس سے بڑی کوئی خوشی نہیں“‏

15.‏ یوحنا رسول نے اپنی زندگی میں کیا کچھ دیکھا تھا؟‏

15 یوحنا یسوع مسیح کے رسول تھے اور اُن کے قریبی دوست تھے۔ (‏متی 10:‏2؛‏ یوح 19:‏26‏)‏ اُنہوں نے یسوع مسیح کے ساتھ مل کر مُنادی کی، اُن کے معجزے دیکھے اور مشکل وقت میں اُن کا ساتھ دیا۔ اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے یسوع کو سُولی پر تکلیف‌دہ موت سہتے اور مُردوں میں سے زندہ ہو جانے کے بعد دیکھا۔ اُنہوں نے پہلی صدی عیسوی میں یسوع مسیح کی تعلیمات کو پھیلتے اور مسیحیوں کی تعداد کو بھی بڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ اِس بات کے بھی گواہ تھے کہ خوش‌خبری کی ”‏مُنادی آسمان کے نیچے ہر جگہ“‏ ہو گئی ہے۔—‏کُل 1:‏23‏۔‏

16.‏ یوحنا کے خطوں سے کن کو فائدہ ہوا ہے؟‏

16 یوحنا رسول نے بہت لمبی عمر پائی۔ جب وہ بہت بوڑھے ہو گئے تو اُنہیں مُکاشفہ کی شان‌دار کتاب لکھنے کا اعزاز ملا۔ (‏مُکا 1:‏1‏)‏ یوحنا نے ایک اِنجیل بھی لکھی جو اُن کے نام سے ہے۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے یہوواہ کی پاک روح کی رہنمائی میں تین خط بھی لکھے۔ اُنہوں نے اپنا تیسرا خط گِیُس نام کے ایک وفادار مسیحی کو لکھا جسے وہ اپنے بچوں کی طرح سمجھتے تھے۔ (‏3-‏یوح 1‏)‏ یقیناً اُس وقت تک یوحنا اَور بھی کئی مسیحیوں کو اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے ہوں گے۔ یہوواہ کے اِس بوڑھے اور وفادار بندے نے جو باتیں لکھیں، اُن سے آج بھی مسیح کے پیروکاروں کو بہت حوصلہ ملتا ہے۔‏

17.‏ تیسرا یوحنا 4 کے مطابق کس چیز سے بہت خوشی ملتی ہے؟‏

17 یوحنا نے کیا لکھا؟‏ (‏3-‏یوحنا 4 کو پڑھیں۔)‏ یوحنا نے اُس خوشی کے بارے میں لکھا جو یہوواہ کے فرمانبردار رہنے سے ملتی ہے۔ یوحنا یہ دیکھ کر بہت خوش تھے کہ اُن کے بہن بھائی یہوواہ کے فرمانبردار ہیں۔ جب اُنہوں نے یہ خط لکھا تھا تو اُس وقت کچھ لوگ کلیسیا میں جھوٹی تعلیمات پھیلا رہے تھے اور بہن بھائیوں میں پھوٹ ڈال رہے تھے۔ لیکن اِس کے باوجود کچھ بہن بھائی ’‏سچائی کے مطابق چلتے رہے۔‘‏ وہ یہوواہ کے فرمانبردار تھے اور ”‏اُس کے حکموں کے مطابق“‏ چل رہے تھے۔ (‏2-‏یوح 4،‏ 6‏)‏ اِن مسیحیوں کو دیکھ کر نہ صرف یوحنا بلکہ یہوواہ خدا بھی بہت خوش تھا۔—‏اَمثا 27:‏11‏۔‏

18.‏ ہم یوحنا رسول کی کہی بات سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

18 ہم یوحنا رسول کی کہی بات سے کیا سیکھتے ہیں؟ یہوواہ کے وفادار رہنے سے ہمیں اور دوسروں کو خوشی ملتی ہے۔‏ (‏1-‏یوح 5:‏3‏)‏ مثال کے طور پر ہمیں اِس احساس سے خوشی ملتی ہے کہ یہوواہ ہم سے خوش ہے۔ اور یہوواہ یہ دیکھ کر خوش ہوتا ہے کہ ہم آزمائش کا مقابلہ کرتے ہیں اور سچائی سے لپٹے رہتے ہیں۔ (‏اَمثا 23:‏15‏)‏ آسمان پر فرشتے بھی یہ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ (‏لُو 15:‏10‏)‏ ہمیں اُس وقت بھی بہت خوشی ملتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے بہن بھائی آزمائشوں اور اذیت کے باوجود یہوواہ کے وفادار ہیں۔ (‏2-‏تھس 1:‏4‏)‏ پھر جب اِس دُنیا کا خاتمہ ہو جائے گا تو ہمیں اِس بات سے خوشی اور اِطمینان ملے گا کہ ہم ایسی دُنیا میں بھی یہوواہ کے وفادار رہے جو شیطان کے قبضے میں تھی۔‏

19.‏ ہماری ایک بہن کو دوسروں کو یہوواہ کے بارے میں سکھانا کیسا لگتا ہے؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

19 ہمیں خاص طور پر اُس وقت زیادہ خوشی ملتی ہے جب ہم دوسروں کو یہوواہ کے بارے میں سکھاتے ہیں۔ ڈومینیکن ریپبلک میں رہنے والی ریچل نام کی بہن یہ محسوس کرتی ہیں کہ دوسروں کو اپنے عظیم اور شان‌دار خدا کے بارے میں سکھانا بڑے اعزاز کی بات ہے۔ ہماری اِس بہن نے بہت سے لوگوں کی یہوواہ کا گواہ بننے میں مدد کی ہے۔ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں بتا نہیں سکتی کہ مجھے یہ دیکھ کر کتنی خوشی ہوتی ہے کہ جن لوگوں کو مَیں نے یہوواہ کے بارے میں سکھایا، وہ اُس سے کتنا پیار کرتے ہیں، اُس پر بھروسا کرتے ہیں اور اُسے خوش کرنے کے لیے اپنی زندگی میں تبدیلیاں لاتے ہیں۔ وہ کوششیں اُن برکتوں کے آگے کچھ بھی نہیں ہیں جو مَیں نے اُن کی مدد کرنے کے لیے کی ہیں۔“‏

جب ہم دوسروں کو سکھاتے ہیں کہ وہ یہوواہ کے فرمانبردار ہوں اور اُس سے محبت کریں تو ہمیں بہت خوشی ملتی ہے۔ (‏پیراگراف نمبر 19 کو دیکھیں۔)‏


خدا کے بندوں کی نصیحتوں سے فائدہ حاصل کریں

20.‏ موسیٰ، داؤد، یوحنا اور ہم میں کون سی باتیں ملتی جلتی ہیں؟‏

20 موسیٰ، داؤد اور یوحنا جن زمانوں میں رہتے تھے، وہ ہمارے زمانے سے بہت فرق تھے اور اُن کی صورتحال بھی ہماری صورتحال سے بہت فرق تھی۔ لیکن اُن میں اور ہم میں بہت سی باتیں ملتی جلتی ہیں جیسے کہ ہم بھی اُن کی طرح سچے خدا یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں؛ اُن کی طرح یہوواہ سے دُعا کرتے ہیں؛ اُس پر بھروسا کرتے ہیں اور اُس سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ اُن کی طرح ہمیں بھی اِس بات کا پکا یقین ہے کہ جو لوگ یہوواہ کے فرمانبردار رہتے ہیں، یہوواہ اُنہیں برکتیں دیتا ہے۔‏

21.‏ ہمیں موسیٰ، داؤد اور یوحنا جیسے خدا کے بندوں کی نصیحتوں پر عمل کرنے سے کون سی برکتیں ملیں گی؟‏

21 آئیے یہوواہ کے بوڑھے بندوں یعنی موسیٰ، داؤد اور یوحنا کی اُن نصیحتوں پر عمل کرتے رہیں جو اُنہوں نے اپنی موت سے پہلے کیں۔ اُن کی نصیحت کے مطابق یہوواہ کے حکموں کو مانتے رہیں۔ پھر یہوواہ ہمیں ہمارے ہر کام میں کامیابی عطا کرے گا۔ ہماری ‏’‏عمر دراز‘‏ ہوگی یعنی ہم ہمیشہ تک زندہ رہیں گے۔ (‏اِست 30:‏20‏)‏ اِس کے علاوہ ہمیں اپنے شفیق آسمانی باپ کو خوش کرنے سے خوشی ملے گی جو اپنے ہر وعدے کو اِتنے شان‌دار طریقے سے پورا کرتا ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔—‏اِفِس 3:‏20‏۔‏

گیت نمبر 129‏:‏ ہم ثابت‌قدم رہیں گے

a بحیرۂ‌احمر پر یہوواہ کے معجزے دیکھنے والے زیادہ‌تر اِسرائیلی اُس ملک میں نہیں جا سکے جسے دینے کا وعدہ یہوواہ نے اُن سے کِیا تھا۔ (‏گن 14:‏22، 23‏)‏ یہوواہ نے کہا تھا کہ 20 سال اور اِس سے اُوپر کی عمر کے لوگ ویرانے میں ہی مر جائیں گے۔ (‏گن 14:‏29‏)‏ لیکن یشوع اور کالِب نے، نئی پُشت کے بہت سے لوگوں نے اور لاوی کے قبیلے کے لوگوں نے اُس وقت یہوواہ کے وعدے کو پورا ہوتے دیکھا جب وہ دریائے‌اُردن پار کر کے ملک کنعان پہنچے۔—‏اِست 1:‏24-‏40‏۔‏

b تصویروں کی وضاحت‏:‏ دائیں:‏ داؤد مرنے سے پہلے سلیمان کو نصیحت کر رہے ہیں۔ بائیں:‏ پہل‌کاروں کے لیے سکول میں طالبِ‌علم یہوواہ کی طرف سے ملنے والی تعلیم سے فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔‏