مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 44

گیت نمبر 33‏:‏ اپنا بوجھ یہوواہ پر ڈال دو!‏

ہم نااِنصافی کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟‏

ہم نااِنصافی کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟‏

‏”‏بُرائی کو اپنے اُوپر غالب نہ آنے دیں بلکہ اچھائی سے بُرائی پر غالب آئیں۔“‏ —‏روم 12:‏21‏۔‏

غور کریں کہ ‏.‏ ‏.‏ ‏.‏

ہم اُس وقت کیا کر سکتے ہیں جب دوسرے ہمارے ساتھ نااِنصافی کرتے ہیں اور ہم اِس طرح سے نااِنصافی کا سامنا کیسے کر سکتے ہیں جس سے ہمارے لیے اَور مسئلے کھڑے نہ ہوں۔‏

1-‏2.‏ ہمیں کن کی طرف سے نااِنصافی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟ وضاحت کریں۔‏

 یسوع مسیح نے ایک بیوہ کی مثال دی جو ایک منصف سے بار بار اِنصاف کے لیے درخواست کرتی رہی۔ بے‌شک یسوع مسیح کے شاگرد کہانی میں بتائی گئی بیوہ کے احساسات کو اچھی طرح سے سمجھ گئے ہوں گے کیونکہ اُن کے زمانے میں عام اور سادہ لوگوں کو اکثر نااِنصافی کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ (‏لُو 18:‏1-‏5‏)‏ ہم بھی اُس بیوہ کے احساسات کو محسوس کر سکتے ہیں کیونکہ ہم سب کو بھی کبھی نہ کبھی نااِنصافی کا سامنا ہوا ہوگا۔‏

2 یہ دُنیا لالچی، ظالم اور تعصب کرنے والے لوگوں سے بھری ہوئی ہے اِس لیے جب ہمارے ساتھ بُرا سلوک کِیا جاتا ہے تو ہم حیران نہیں ہوتے۔ (‏واعظ 5:‏8‏)‏ حیرانی تو شاید ہمیں تب ہو جب ہمارا اپنا ہم‌ایمان ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہ کرے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ بے‌شک ہمارے ہم‌ایمان دُنیا کے لوگوں کی طرح سچائی کے خلاف نہیں ہیں۔ وہ بس عیب‌دار ہیں۔ یسوع مسیح کو تو سچائی کے دُشمنوں کی طرف سے نااِنصافی کا سامنا کرنا پڑا۔ اُنہوں نے جس طرح سے اِسے برداشت کِیا، اُس سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ اگر ہم اپنے اُن مخالفوں کے ساتھ صبر سے پیش آ سکتے ہیں جو ہمارے ساتھ نااِنصافی کرتے ہیں تو ہمیں اپنے ہم‌ایمانوں کے ساتھ تو اَور بھی زیادہ صبر سے پیش آنا چاہیے!‏ جب یہوواہ یہ دیکھتا ہے کہ کوئی شخص کلیسیا میں یا کلیسیا سے باہر ہمارے ساتھ نااِنصافی کر رہا ہے تو اُسے کیسا لگتا ہے؟ کیا اُسے اِس بات سے کوئی فرق پڑتا ہے؟‏

3.‏ جب ہمارے ساتھ نااِنصافی کی جاتی ہے تو کیا یہوواہ کو اِس سے فرق پڑتا ہے اور ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏

3 یہوواہ کی نظر میں یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ دوسرے ہمارے ساتھ کس طرح سے پیش آ رہے ہیں۔ ”‏یہوواہ اِنصاف سے محبت کرتا ہے۔“‏ (‏زبور 37:‏28‏)‏ یسوع مسیح نے ہمیں یقین دِلایا ہے کہ یہوواہ صحیح وقت پر ہمیں ”‏جلد اِنصاف دِلائے گا۔“‏ (‏لُو 18:‏7، 8‏)‏ بہت جلد یہوواہ ہماری ہر تکلیف اور ہر طرح کی نااِنصافی کا نام‌ونشان مٹا دے گا۔—‏زبور 72:‏1، 2‏۔‏

4.‏ یہوواہ نااِنصافی کو برداشت کرنے میں ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟‏

4 سچ ہے کہ ہمیں اُس وقت تک اِنتظار کرنا ہوگا جب تک یہوواہ نااِنصافی کو ختم نہیں کر دیتا لیکن اِس اِنتظار کی گھڑی میں وہ نااِنصافی کو برداشت کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ (‏2-‏پطر 3:‏13‏)‏ وہ ہمیں سکھاتا ہے کہ جب ہمارے ساتھ بُرا سلوک کِیا جاتا ہے تو ہم ایسے کون سے کام کرنے سے باز رہ سکتے ہیں جن سے مسئلہ اَور بگڑ سکتا ہے۔ وہ ہمیں اپنے بیٹے کی مثال کے ذریعے ایسا کرنا سکھاتا ہے۔ اُس نے اپنے کلام میں بتایا ہے کہ جب اُس کے بیٹے کے ساتھ نااِنصافی کی گئی تو اُس نے کیا کِیا۔ اِس کے علاوہ یہوواہ نے اپنے کلام میں ہمیں ایسی ہدایتیں بھی دی ہیں جن سے ہم نااِنصافی کو برداشت کر سکتے ہیں۔‏

نااِنصافی کا سامنا کرتے وقت محتاط رہیں

5.‏ ہمیں نااِنصافی کا سامنا کرتے وقت محتاط کیوں رہنا چاہیے؟‏

5 جب ہمارے ساتھ بُرا سلوک کِیا جاتا ہے تو ہمیں بہت زیادہ دُکھ پہنچ سکتا ہے اور پریشانی ہو سکتی ہے۔ (‏واعظ 7:‏7‏)‏ یہوواہ کے بندوں نے بھی ایسا ہی محسوس کِیا جیسے کہ ایوب اور حبقوق نے۔ (‏ایو 6:‏2، 3؛‏ حبق 1:‏1-‏3‏)‏ ہم سبھی کے دل میں اِس طرح کے احساسات پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں محتاط رہنا چاہیے کہ ہم نااِنصافی کا سامنا کرتے وقت کچھ ایسا نہ کریں جس پر بعد میں ہمیں پچھتانا پڑے۔‏

6.‏ ہم ابی‌سلّوم سے کون سا سبق سیکھتے ہیں؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

6 ہو سکتا ہے کہ جب کوئی ہمارے ساتھ نااِنصافی کرے تو ہم معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے لیں اور خود اُس شخص کو سزا دینے کی کوشش کریں۔ لیکن ایسا کرنے سے معاملہ اَور زیادہ بگڑ سکتا ہے۔ ذرا بادشاہ داؤد کے بیٹے ابی‌سلّوم کی مثال پر غور کریں۔ وہ اُس وقت غصے میں آگ‌بگولا ہو گیا جب اُس کے سوتیلے بھائی امنون نے اُس کی بہن تَمر کی عزت لُوٹی۔ شریعت کے مطابق امنون نے جو کچھ کِیا تھا، اُس کے لیے اُسے سزائے‌موت ملنی چاہیے تھی۔ (‏احبا 20:‏17‏)‏ بے‌شک ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ابی‌سلّوم اِتنے غصے میں کیوں آ گیا تھا لیکن اُسے کوئی حق نہیں تھا کہ وہ معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیتا اور امنون کو قتل کر دیتا۔—‏2-‏سمو 13:‏20-‏23،‏ 28، 29‏۔‏

جب ابی‌سلّوم کی بہن تَمر کے ساتھ زیادتی ہوئی تو وہ غصے میں بھر گیا۔ (‏پیراگراف نمبر 6 کو دیکھیں۔)‏


7.‏ جب ایک زبور لکھنے والے نے نااِنصافی کو ہوتے ہوئے دیکھا تو وقتی طور پر اُس پر کیا اثر ہوا؟‏

7 جب ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے ساتھ نااِنصافی کرنے والے لوگوں کو سزا نہیں مل رہی تو شاید ہم سوچنے لگیں کہ صحیح کام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ذرا زبور 73 کو لکھنے والے شخص کی مثال پر غور کریں جس نے دیکھا کہ بُرے لوگ اچھے لوگوں کے ساتھ نااِنصافی کر رہے تھے اور بہت خوش‌حال نظر آ رہے تھے۔ اُس نے کہا:‏ ’‏بُرے لوگوں کی زندگی ہمیشہ آرام سے گزرتی ہے۔‘‏ (‏زبور 73:‏12‏)‏ وہ تو نااِنصافی کو دیکھ کر اِتنا پریشان ہو گیا تھا کہ اُس کا اِس بات سے بھروسا ہی اُٹھنے لگا تھا کہ یہوواہ کی خدمت کرنے کا کوئی فائدہ ہے۔ اُس نے کہا:‏ ”‏جب مَیں نے اِن باتوں کو سمجھنے کی کوشش کی تو مَیں پریشان ہو گیا۔“‏ (‏زبور 73:‏14،‏ 16‏)‏ اُس نے تو یہ بھی تسلیم کِیا:‏ ”‏میرے پاؤں بھٹکنے ہی والے تھے؛ میرے قدم پھسلنے ہی والے تھے۔“‏ (‏زبور 73:‏2‏)‏ ایسا ہی کچھ ہمارے ایک بھائی کے ساتھ بھی ہوا جسے ہم البرٹو کہیں گے۔‏

8.‏ جب ایک بھائی کے ساتھ نااِنصافی ہوئی تو اِس کا اُس پر کیا اثر ہوا؟‏

8 بھائی البرٹو پر یہ جھوٹا اِلزام لگایا گیا کہ اُنہوں نے کلیسیا کے عطیات کے پیسوں میں سے چوری کی ہے۔ اِس وجہ سے اُنہیں بزرگ کے طور پر خدمت کرنے سے ہٹا دیا گیا اور جن جن لوگوں کو یہ بات پتہ چلی، اُن کی نظر میں بھائی البرٹو کی عزت کم ہو گئی۔ بھائی نے کہا:‏ ”‏مجھے بہت غصہ آیا اور بہت مایوسی بھی ہوئی۔“‏ ہمارے اِس بھائی کے جذبات اُس پر اِتنے زیادہ حاوی ہو گئے کہ وہ یہوواہ سے دُور ہونے لگا یہاں تک کہ اُس نے پانچ سال تک عبادتوں میں بھی جانا چھوڑ دیا۔ بھائی البرٹو کی مثال سے پتہ چلتا ہے کہ اگر ہم نااِنصافی پر کڑھتے رہیں گے تو اِس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔‏

نااِنصافی کا سامنا کرتے وقت یسوع مسیح کی مثال پر عمل کریں

9.‏ یسوع مسیح کے ساتھ کون کون سی نااِنصافیاں ہوئیں؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

9 یسوع مسیح نے نااِنصافی کو برداشت کرنے کے حوالے سے بہترین مثال قائم کی۔ غور کریں کہ اُن کے گھر والوں اور دوسرے لوگوں نے اُن کے ساتھ کیسا سلوک کِیا۔ اُن کے غیر ایمان رشتے‌داروں نے اُن کے بارے میں کہا کہ اُن کا دماغ خراب ہو گیا ہے، مذہبی رہنماؤں نے اُن پر یہ جھوٹا اِلزام لگایا کہ وہ بُرے فرشتوں کی مدد سے معجزے کرتے ہیں اور رومی فوجیوں نے اُن کا مذاق اُڑایا، اُنہیں مارا پیٹا یہاں تک کہ اُنہیں قتل کر دیا۔ (‏مر 3:‏21، 22؛‏ 14:‏55؛‏ 15:‏16-‏20،‏ 35-‏37‏)‏ یسوع مسیح نے اِن ساری نااِنصافیوں کو برداشت کِیا اور بدلہ نہیں لیا۔ ہم یسوع مسیح سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

یسوع مسیح نے نااِنصافی کو برداشت کرنے کے حوالے سے بہترین مثال قائم کی۔ (‏پیراگراف نمبر 9-‏10 کو دیکھیں۔)‏


10.‏ یسوع مسیح نے نااِنصافی کو برداشت کرتے وقت کیسا رویہ ظاہر کِیا؟ (‏1-‏پطرس 2:‏21-‏23‏)‏

10 پہلا پطرس 2:‏21-‏23 کو پڑھیں۔‏ a یسوع مسیح نے ہمیں دِکھایا کہ جب ہمارے ساتھ نااِنصافی ہوتی ہے تو ہمیں کیسا رویہ اپنانا چاہیے۔ یسوع اچھی طرح سے جانتے تھے کہ اُنہیں کب چپ رہنا چاہیے اور کب بولنا چاہیے۔ (‏متی 26:‏62-‏64‏)‏ مثال کے طور پر اُنہوں نے اپنے اُوپر لگے ہر جھوٹے اِلزام کی صفائی پیش نہیں کی۔ (‏متی 11:‏19‏)‏ اور جب یسوع کو لگا کہ اُنہیں بولنا چاہیے تو اُنہوں نے اپنے مخالفوں کی بے‌عزتی نہیں کی اور نہ ہی اُنہیں ڈرایا دھمکایا۔ اُنہوں نے ضبطِ‌نفس ظاہر کِیا اور ”‏اپنے آپ کو اُس کے سپرد کِیا جو راستی سے اِنصاف کرتا ہے۔“‏ یسوع مسیح جانتے تھے کہ یہوواہ دیکھ رہا ہے کہ اُن کے ساتھ کتنی نااِنصافی ہو رہی ہے۔ اِس لیے اُنہوں نے یہوواہ پر بھروسا کِیا کہ وہ صحیح وقت پر کارروائی کرے گا۔‏

11.‏ بولنے کے معاملے میں ہم سمجھ‌داری سے کام کیسے لے سکتے ہیں؟ (‏تصویروں کو بھی دیکھیں۔)‏

11 جب ہمارے ساتھ بُرا سلوک کِیا جاتا ہے تو یسوع مسیح کی طرح ہمیں بھی سمجھ‌داری سے بولنا چاہیے۔ شاید کچھ معاملے اِتنے بڑے نہ ہوں اِس لیے ہم اِنہیں نظرانداز کر سکتے ہیں یا شاید ہم چپ رہنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں تاکہ معاملہ اَور زیادہ نہ بگڑے۔ (‏واعظ 3:‏7؛‏ یعقو 1:‏19، 20‏)‏ لیکن کچھ موقعے ایسے ہوتے ہیں جن میں ہمیں بولنے کی ضرورت ہے جیسے کہ اُس وقت جب کسی کے ساتھ نااِنصافی ہوتی ہے یا ہمیں اپنے عقیدوں کا دِفاع کرنا ہوتا ہے۔ (‏اعما 6:‏1، 2‏)‏ لیکن ایسا کرتے وقت ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ہم نرمی اور احترام سے دوسروں سے بات کریں۔—‏1-‏پطر 3:‏15‏۔‏ b

نااِنصافی کا سامنا کرتے وقت ہم بھی یسوع مسیح کی طرح یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کب اور کیسے بات کریں گے۔ (‏پیراگراف نمبر 11-‏12 کو دیکھیں۔)‏


12.‏ ہم اپنے آپ کو اُس کے سپرد کیسے کر سکتے ہیں ”‏جو راستی سے اِنصاف کرتا ہے“‏؟‏

12 ہم ایک اَور طرح سے بھی یسوع مسیح کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو اُس کے سپرد کر سکتے ہیں ”‏جو راستی سے اِنصاف کرتا ہے۔“‏ جب دوسرے ہمارے ساتھ نااِنصافی کرتے ہیں یا ہمارے ساتھ بُری طرح سے پیش آتے ہیں تو ہم اِس بات پر پورا بھروسا رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ اِس طرح ہم نااِنصافی کو برداشت کر سکیں گے کیونکہ ہمیں پتہ ہوگا کہ یہوواہ سب کچھ ٹھیک کر دے گا۔ جب ہم معاملے کو یہوواہ کے ہاتھ میں چھوڑ دیں گے تو ہم اپنے دل میں غصے اور ناراضگی کو پلنے سے روک دیں گے کیونکہ غصے اور ناراضگی کی وجہ سے ہم حد سے زیادہ جذباتی ہو سکتے ہیں، ہماری خوشی ختم ہو سکتی ہے یہاں تک کہ یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی بھی ٹوٹ سکتی ہے۔—‏زبور 37:‏8‏۔‏

13.‏ کیا چیز صبر سے نااِنصافی کو برداشت کرتے رہنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟‏

13 بے‌شک ہم کبھی بھی پوری طرح سے یسوع کی مثال پر عمل نہیں کر سکتے۔ کبھی کبھار ہم کوئی ایسی بات کہہ جاتے ہیں یا کوئی ایسا کام کر بیٹھتے ہیں جس پر بعد میں ہمیں پچھتاوا ہوتا ہے۔ (‏یعقو 3:‏2‏)‏ اور کبھی کبھار دوسروں کی نااِنصافیوں کی وجہ سے ہمیں ایسے زخم لگتے ہیں جو ساری زندگی نہیں بھرتے۔ اگر آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے تو یقین مانیں کہ یہوواہ جانتا ہے کہ آپ پر کیا بیت رہی ہے۔ اور یسوع مسیح بھی آپ کے درد کو سمجھ سکتے ہیں کیونکہ اُنہوں نے خود بھی نااِنصافی کا سامنا کِیا تھا۔ (‏عبر 4:‏15، 16‏)‏ یہوواہ نے ہمیں صرف اپنے بیٹے کی مثال ہی نہیں دی بلکہ اُس نے ہمیں اپنے کلام میں ایسے مشورے اور ہدایتیں بھی دی ہیں جن پر عمل کرنے سے ہم نااِنصافی کو برداشت کر سکتے ہیں۔ آئیے اِس سلسلے میں رومیوں کی کتاب سے دو آیتوں پر غور کرتے ہیں۔‏

‏”‏خدا کا غضب ظاہر ہونے دیں“‏

14.‏ ہم اِس نصیحت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں کہ ہم ”‏خدا کا غضب ظاہر ہونے دیں“‏؟ (‏رومیوں 12:‏19‏)‏

14 رومیوں 12:‏19 کو پڑھیں۔‏ پولُس رسول نے مسیحیوں کو یہ نصیحت کی:‏ ”‏خدا کا غضب ظاہر ہونے دیں۔“‏ ہم اِس نصیحت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ ہم یہ فیصلہ یہوواہ کے ہاتھ میں چھوڑ سکتے ہیں کہ وہ اپنے وقت پر اور اپنے طریقے سے اِنصاف کرے۔ غور کریں کہ جب جان نام کے بھائی کے ساتھ نااِنصافی ہوئی تو اُنہوں نے کیسا محسوس کِیا۔ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مجھے اپنے غصے کو قابو میں رکھنے کے لیے سخت کوشش کرنی پڑی کیونکہ میرا دل کر رہا تھا کہ مَیں معاملے کو اپنے طریقے سے حل کروں۔ لیکن رومیوں 12:‏19 نے میری بہت مدد کی کہ مَیں صبر سے یہوواہ کے کارروائی کرنے کا اِنتظار کروں۔“‏

15.‏ کسی معاملے کو حل کرنے کے لیے یہوواہ پر بھروسا کرنا ہی بہتر کیوں ہے؟‏

15 جب ہم صبر سے اِس بات پر بھروسا کرتے ہیں کہ یہوواہ معاملے کو حل کر دے گا تو ہمیں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ ہمارے سر سے یہ بوجھ اُتر جاتا ہے کہ ہم معاملے کو خود حل کرنے کی کوشش کریں۔ اِس کے علاوہ ہم مایوسی سے بھی بچ جاتے ہیں۔ یہوواہ خود بھی ہماری مدد کرنا چاہتا ہے۔ ایک طرح سے وہ ہم سے کہتا ہے:‏ ”‏آپ کے ساتھ جو نااِنصافی ہوئی ہے، اُسے مجھ پر چھوڑ دو۔ مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ مَیں سب کچھ ٹھیک کر دوں گا۔“‏ اگر ہم یہوواہ کے اِس وعدے پر بھروسا کریں گے کہ ”‏مَیں بدلہ دوں گا“‏ تو ہم بے‌فکر ہو جائیں گے کیونکہ ہمیں اِس بات کا پکا یقین ہوگا کہ وہ معاملے کو بہترین طریقے سے حل کرے گا۔ اِسی بات نے بھائی جان کی بھی مدد کی جن کا پچھلے پیراگراف میں ذکر ہوا ہے۔ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مجھے بس یہوواہ پر بھروسا کرنا ہے کیونکہ جتنے اچھے طریقے سے وہ معاملے کو حل کرے گا اُتنے اچھے طریقے سے تو مَیں کر ہی نہیں سکتا۔“‏

‏”‏اچھائی سے بُرائی پر غالب آئیں“‏

16-‏17.‏ دُعا ”‏اچھائی سے بُرائی پر غالب“‏ آنے میں ہماری مدد کیسے کر سکتی ہے؟ (‏رومیوں 12:‏21‏)‏

16 رومیوں 12:‏21 کو پڑھیں۔‏ پولُس رسول نے مسیحیوں کو یہ بھی نصیحت کی کہ ”‏اچھائی سے بُرائی پر غالب آئیں۔“‏ یسوع مسیح نے پہاڑ پر تقریر کرتے وقت کہا:‏ ”‏اپنے دُشمنوں سے محبت کریں اور جو آپ کو اذیت دیتے ہیں، اُن کے لیے دُعا کرتے رہیں۔“‏ (‏متی 5:‏44‏)‏ یسوع مسیح نے خود بھی ایسا ہی کِیا۔ شاید ہمارے ذہن میں وہ واقعہ آئے جب رومی فوجیوں نے یسوع مسیح کو سُولی دی تھی۔ اُس وقت یسوع پر جتنا ظلم کِیا گیا اور اُن کے ساتھ جتنی نااِنصافی کی گئی، اُس کا تو ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔‏

17 یسوع مسیح نے اِس نااِنصافی کو خود پر غالب نہیں ہونے دیا۔ اُنہوں نے فوجیوں کو بُرا بھلا کہنے کی بجائے یہوواہ سے یہ دُعا کی کہ ”‏باپ، اُن کو معاف کر دے کیونکہ اُن کو پتہ نہیں کہ کیا کر رہے ہیں۔“‏ (‏لُو 23:‏34‏)‏ جب ہم بھی اُن لوگوں کے لیے دُعا کرتے ہیں جو ہمارے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں تو ہمارے دل سے اُن کے لیے غصہ اور ناراضگی کم ہو سکتی ہے یہاں تک کہ اُن کے بارے میں ہماری سوچ بھی بدل سکتی ہے۔‏

18.‏ دُعا کرنے سے بھائی البرٹو اور بھائی جان کو نااِنصافی کو برداشت کرنے کی ہمت کیسے ملی؟‏

18 نااِنصافی کا سامنا کرتے وقت بھائی البرٹو اور بھائی جان نے یہوواہ سے دُعا کی جس سے اُن کی بہت مدد ہوئی۔ بھائی البرٹو نے کہا:‏ ”‏جن بھائیوں نے میرے ساتھ نااِنصافی کی تھی، مَیں نے اُن کے لیے دُعا کی۔ مَیں نے کئی بار یہوواہ سے یہ مِنت کی کہ وہ میری مدد کرے تاکہ مَیں اپنے ساتھ ہوئی نااِنصافی کو بھول سکوں۔“‏ خوشی کی بات ہے کہ اب بھائی البرٹو پھر سے وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں۔ بھائی جان نے کہا:‏ ”‏مَیں نے کئی بار اُس بھائی کے لیے دُعا کی جو میرے ساتھ بُری طرح سے پیش آیا تھا اور یہوواہ سے یہ بھی کہا کہ وہ اُسے معاف کرنے میں میری مدد کرے۔ یہوواہ سے دُعائیں کرنے کی وجہ سے مجھے بہت دلی سکون ملا اور مَیں اُس بھائی کے بارے میں اپنی سوچ کو بھی بدل پایا۔“‏

19.‏ جب تک اِس دُنیا کا خاتمہ نہیں ہو جاتا، ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ (‏1-‏پطرس 3:‏8، 9‏)‏

19 ہمیں نہیں پتہ کہ اِس بُری دُنیا کے خاتمے سے پہلے ہمیں کن کن نااِنصافیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چاہے ہمیں کسی بھی طرح کی نااِنصافی کا سامنا کرنا پڑے، کبھی بھی مدد کے لیے یہوواہ سے دُعا کرنا نہ چھوڑیں۔ اِس کے علاوہ نااِنصافی کو برداشت کرنے کے لیے یسوع مسیح کی مثال پر اور بائبل میں بتائے گئے اصولوں پر عمل کرتے رہیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں برکت دے گا۔‏‏—‏1-‏پطرس 3:‏8، 9 کو پڑھیں۔‏

گیت نمبر 38‏:‏ وہ آپ کو طاقت بخشے گا

a پہلا پطرس 2 اور 3 ابواب میں پطرس رسول نے ایسی صورتحال کا ذکر کِیا جن کا سامنا پہلی صدی عیسوی کے مسیحی کر رہے تھے۔ کئی مسیحیوں کو اپنے ظالم مالکوں کی طرف سے اور مسیحی عورتوں کو اپنے غیرایمان شوہر کی طرف سے نااِنصافی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔—‏1-‏پطر 2:‏18-‏20؛‏ 3:‏1-‏6،‏ 8، 9‏۔‏

b ویب‌سائٹ jw.org پر ویڈیو ‏”‏محبت سے امن قائم ہوتا اور اِطمینان ملتا ہے‏“‏ کو دیکھیں۔‏