آپبیتی
یہوواہ نے جنگ میں اور امن کے دَور میں ہمیں طاقت دی
پال: یہ نومبر 1985ء کی بات تھی۔ مَیں اور این پہلی بار مشنریوں کے طور پر خدمت کرنے کے لیے مغربی افریقہ کے ملک لائبیریا کا سفر کر رہے تھے۔ ہم بہت ہی زیادہ خوش تھے! ہمارا جہاز ملک سینیگال رُکا۔ این نے کہا: ”ہم بس ایک گھنٹے میں ہی لائبیریا ہوں گے!“ لیکن پھر یہ اِعلان ہوا: ”لائبیریا جانے والے تمام مسافر جہاز سے اُتر جائیں کیونکہ لائبیریا میں کچھ باغی حکومت کو گِرانے کی کوشش کر رہے ہیں اِس لیے ہم وہاں نہیں جا سکتے۔“ تو اگلے دس دن ہم سینیگال میں مشنریوں کے ساتھ رہے۔ اِس دوران ہم خبروں میں یہ سنتے رہے کہ لائبیریا میں بہت سے لوگ مارے گئے ہیں اور حکومت نے لوگوں کو شام کے وقت اپنے گھروں سے باہر نکلنے سے منع کر دیا ہے۔ اِس قانون کی خلافورزی کرنے والوں کو فوراً گولی مار دی جاتی تھی۔
این: ہم دونوں کو ہی نئی چیزوں کا تجربہ کرنے اور نئی جگہوں پر جانے کا اِتنا شوق نہیں ہے۔ مَیں تو بچپن سے ہی ڈرپوک کے نام سے مشہور تھی۔ میرے تو سڑک پار کرتے ہوئے ہی پیسنے چُھوٹ جاتے تھے! حالانکہ ہمیں لائبیریا جانے سے ڈر لگ رہا تھا لیکن ہم نے عزم کِیا ہوا تھا کہ ہم وہاں جا کر یہوواہ کی خدمت ضرور کریں گے۔
پال: میری اور این کی پیدائش ایک دوسرے سے تقریباً 8 کلومیٹر (5 میل) دُور مغربی اِنگلینڈ میں ہوئی۔ ہم دونوں ہی سکول کی پڑھائی ختم کرنے کے فوراً بعد پہلکار بن گئے۔ میرے امی ابو اور این کی امی نے ہمیشہ ہماری یہ حوصلہافزائی کی کہ ہم پہلکار بنیں۔ ہمارے والدین بہت خوش تھے کہ ہم دونوں کُلوقتی طور پر یہوواہ کی خدمت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینا چاہتے ہیں۔ پھر جب مَیں 19 سال کا ہوا تو مجھے بیتایل میں خدمت کرنے کا اعزاز ملا اور جب 1982ء میں میری شادی این سے ہوئی تو وہ بھی میرے ساتھ مل کر بیتایل میں خدمت کرنے لگیں۔
این: ہم دونوں کو ہی بیتایل میں خدمت کرنا بہت اچھا لگتا تھا۔ لیکن ہماری شروع سے یہ خواہش تھی کہ ہم ایسے علاقے میں یہوواہ کی خدمت کریں جہاں مبشروں کی زیادہ ضرورت ہے۔ ہماری یہ خواہش اُس وقت اَور بڑھ گئی جب ہمیں بیتایل میں ایسے بہن بھائیوں کے ساتھ خدمت کرنے کا موقع ملا جو پہلے مشنری تھے۔ تو ہم نے تقریباً تین سال ہر رات دُعا میں یہوواہ سے اپنی اِس خواہش کا ذکر کِیا۔ اور پھر جب 1985ء میں ہمیں گلئیڈ سکول کی 79ویں کلاس میں جانے کی دعوت ملی تو ہماری خوشی کی اِنتہا نہیں رہی! ہمیں مغربی افریقہ کے ملک لائبیریا میں خدمت کرنے کے لیے کہا گیا۔
ہمیں بہن بھائیوں کی محبت سے بہت ہمت اور طاقت ملی
پال: جیسے ہی لائبیریا کے لیے پروازیں چلنے لگیں، ہم فوراً پہلی فلائٹ لے کر وہاں چلے گئے۔ ملک میں ابھی بھی پریشانی کا سماں تھا اور لوگوں کو شام کے وقت اپنے گھروں سے باہر نکلنے کی اِجازت نہیں تھی۔ لوگ اِتنے ڈرے ہوئے تھے کہ اگر اُنہیں بازار میں کسی گاڑی کی اچانک تیز آواز سنائی دیتی تھی تو وہ چیخیں مارنے اور اِدھر اُدھر بھاگنے لگتے تھے۔ اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے کے لیے ہم ہر رات زبور کی کتاب سے آیتیں پڑھتے تھے۔حالانکہ ملک کے حالات بہت خراب تھے لیکن ہم وہاں خدمت کرنا چاہتے تھے۔ این مشنری کے طور پر وہاں مُنادی کرتی تھیں اور مَیں بیتایل میں بھائی جان چاررک کے ساتھ مل کر
کام کرتا تھا۔ مجھے بھائی جان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا کیونکہ وہ کافی عرصے سے لائبیریا میں یہوواہ کی خدمت کر رہے تھے اور اُن مسئلوں سے اچھی طرح واقف تھے جن کا وہاں کے بہن بھائیوں کو سامنا تھا۔این: ہمیں جلد ہی لائبیریا میں خدمت کر کے مزہ آنے لگا۔ پتہ ہے کیوں؟ اپنے بہن بھائیوں کی وجہ سے۔ وہ بہت ملنسار تھے، وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کر رہے تھے اور ہمارے لیے بہت محبت دِکھاتے تھے۔ وہ ہمارے بہت قریب آ گئے تھے اور ہم اُنہیں اپنے گھر والوں کی طرح سمجھنے لگے تھے۔ وہ ہمیں بڑے اچھے مشورے دیتے تھے اور ہمارا حوصلہ بڑھاتے تھے۔ وہاں مُنادی کرنے کی تو بات ہی کچھ اَور تھی! لوگ اِتنے مہماننواز تھے کہ جیسے ہی آپ اُن کے گھر سے جانے کی بات کرتے، وہ ناراض ہو جاتے۔ لوگ گلی کے کونے پر کھڑے بائبل پر باتچیت کر رہے ہوتے تھے۔ آپ کو بس وہاں جا کر اُن کی باتچیت میں شامل ہونا تھا۔ وہاں تو اِتنے لوگ بائبل کورس کرنا چاہتے تھے کہ ہمارے لیے اُن سب کو بائبل کورس کرانا ممکن ہی نہیں تھا۔ ہمیں سچ میں وہاں مُنادی کر کے بہت مزہ آیا!
یہوواہ نے ہمیں اپنے ڈر پر قابو پانے کی طاقت دی
پال: ملک میں تقریباً چار سال تک تھوڑا بہت امن رہا۔ لیکن پھر 1989ء میں ملک میں خانہجنگی شروع ہو گئی۔ پلک جھپکتے ہی سب کچھ بدل گیا۔ 2 جولائی 1990ء میں حکومت سے بغاوت کرنے والوں نے بیتایل کے آسپاس کے علاقے پر قبضہ جما لیا۔ تقریباً تین مہینے تک ہم بیتایل سے باہر کسی سے بھی رابطہ نہیں کر سکے یہاں تک کہ اپنے گھر والوں اور مرکزی دفتر میں اپنے بھائیوں سے بھی نہیں۔ ہر طرف دنگےفساد ہو رہے تھے، کھانے پینے کی قلت تھی اور عورتوں کی عزت لُوٹی جا رہی تھی۔ تقریباً 14 سال تک پورے ملک میں یہ ہولناک صورتحال چلتی رہی۔
این: کچھ قبیلوں کے لوگ دوسرے قبیلے کے لوگوں سے لڑ رہے تھے اور اُنہیں قتل کر رہے تھے۔ ہر گلی، ہر جگہ آپ کو اسلحے سے لیس لوگ نظر آتے تھے جنہوں نے عجیبوغریب کپڑے پہنے ہوتے تھے۔ وہ ہر گھر میں لُوٹ مار کرتے تھے۔ اِن میں سے کچھ لوگ تو اِنسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے۔ چیک پوائنٹ پر لاشوں کے ڈھیر لگے ہوتے تھے جن میں سے کچھ تو بیتایل کے قریب ہی تھے۔ ہمارے کچھ بہن بھائیوں کو بھی قتل کر دیا گیا جن میں سے دو مشنری تھے۔
جب بھی فسادیوں کو کسی ایسے قبیلے کے لوگ نظر آتے جن سے وہ نفرت کرتے تھے تو وہ اُنہیں موت کے گھاٹ اُتار دیتے تھے۔ ہمارے بہن بھائیوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر دوسرے قبیلے کے بہن بھائیوں کو پناہ دی۔ مشنریوں اور بیتایل میں کام کرنے والے بہن بھائیوں نے بھی ایسا ہی کِیا۔ کچھ بہن بھائی اپنے گھروں سے بھاگ کر بیتایل پناہ لینے آئے تھے۔اِن میں سے کچھ نیچے والے کمروں میں سوتے تھے اور کچھ ہمارے ساتھ اُوپر والے کمروں میں۔ ہمارے کمرے میں جس گھرانے نے پناہ لی تھی، اُس میں سات لوگ تھے۔
پال: ہر دن فسادی بیتایل میں گھسنے کی کوشش کرتے تھے تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ ہم نے کسی کو پناہ تو نہیں دی۔ چار بہن بھائی باری باری فسادیوں پر نظر رکھتے تھے۔ ہر بار جب فسادی بیتایل میں گھسنا چاہتے تھے تو ہم میں سے دو باہر دروازے پر اُن سے بات کرتے تھے اور دو کھڑکی سے سب کچھ دیکھ رہے ہوتے تھے۔ اگر باہر دروازے پر فسادیوں سے
بات کرنے والا بھائی اور بہن اپنے ہاتھ آگے رکھتا تو اِس کا مطلب ہوتا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے ہاتھ کمر کے پیچھے رکھتا تو اِس کا مطلب ہوتا کہ فسادی بہت غصیلے ہیں۔ اِس پر وہ بہن اور بھائی جو کھڑکی سے یہ سب کچھ دیکھ رہا ہوتا تھا، فوراً جا کر ہمارے دوستوں کو چھپا دیتا تھا۔این: ایک دن بھائیوں کے بہت روکنے پر بھی فسادیوں کا ایک گروہ زبردستی بیتایل میں گُھس آیا۔ مَیں نے خود کو اور ایک بہن کو اپنے ساتھ باتھ روم میں بند کر لیا۔ باتھ روم میں ایک چھوٹی سی الماری تھی جس میں چھپنے کے لیے ایک خفیہ خانہ تھا۔ مَیں نے اُس بہن کو وہاں چھپا دیا۔ فسادی مجھے ڈھونڈنے کے لیے اُوپر آئے۔ اُن کے ہاتھوں میں اُن کی بندوقیں تھیں۔ وہ غصے سے دروازہ پیٹنے لگے۔ پال نے اُن سے اِلتجا کی: ”میری بیوی باتھ روم اِستعمال کر رہی ہیں۔“ جب مَیں اُس خفیہ خانے میں بہن کو چھپا رہی تھی اور واپس الماری میں چیزیں رکھ رہی تھی تو ایسا کرنے سے تھوڑا شور ہو رہا تھا اور کافی دیر بھی لگ رہی تھی جس پر فسادیوں کو مجھ پر شک ہو رہا تھا۔مَیں سر سے پاؤں تک بُری طرح سے کانپ رہی تھی۔ مجھے دروازہ کھولنے سے پہلے خود کو پُرسکون کرنا تھا کیونکہ اگر فسادیوں کو میرے چہرے پر ذرا سا بھی ڈر نظر آتا تو اُنہیں شک ہو جانا تھا۔ مَیں نے دل میں یہوواہ سے مدد مانگی۔ پھر مَیں نے دروازہ کھولا اور بہت پُرسکون ہو کر اُنہیں سلام کِیا۔ اُن میں سے ایک مجھے دھکا دے کر سیدھا الماری کی طرف گیا اور ہر چیز کو اِدھر اُدھر کرنے لگا۔ اُسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اُسے کوئی بھی نہیں ملا۔ اُس نے اور اُس کے گروہ نے باقی کمروں اور چھت کے نیچے کے حصے کی بھی تلاشی لی۔ لیکن اُنہیں وہاں بھی کچھ نہیں ملا۔
سچائی کی روشنی چمکتی رہی
پال: کئی مہینوں تک ہمارے پاس کھانے پینے کی چیزوں کی قلت رہی۔ لیکن ہمیں روحانی کھانا کثرت سے ملتا رہا۔ اکثر ہمارے پاس ناشتے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا تھا لیکن بیتایل میں صبح کی عبادت ہمارے لیے ناشتے کی طرح تھی۔ ہم جانتے تھے کہ ہمیں بائبل پڑھنے اور اِس کا مطالعہ کرنے سے ہی مشکل سے نمٹنے کی ہمت مل سکتی ہے۔
ہمیں پتہ تھا کہ اگر ہم پانی اور کھانے کی چیزیں لینے کے لیے باہر گئے تو ہم بیتایل میں پناہ لینے والے بہن بھائیوں کی حفاظت نہیں کر پائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ مارے بھی جائیں۔ اکثر یہوواہ نے جس وقت پر اور جس طریقے سے ہماری ضرورتوں کو پورا کِیا، وہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا! یہوواہ نے ہمارا بہت اچھے سے خیال رکھا اور پُرسکون رہنے میں ہماری مدد کی۔
بگڑتے حالات کی وجہ سے ملک تاریک ہوتا جا رہا تھا لیکن سچائی کی روشنی تیز ہوتی جا رہی تھی۔ کئی بار ہمارے بہت سے بہن بھائیوں کو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا لیکن اُنہوں نے اپنے ایمان کو مضبوط رکھا اور وہ مشکل وقت میں بھی پُرسکون رہے۔ کچھ بہن بھائیوں نے تو کہا کہ یہ وقت اُنہیں ”بڑی مصیبت کے لیے تیار کر رہا ہے۔“ کلیسیا کے بزرگوں اور جوان بھائیوں نے بڑی دلیری سے اپنے ہمایمانوں کی مدد کرنے کے لیے وہ سب کچھ کِیا جو وہ کر سکتے تھے۔ اور جن بہن بھائیوں کو کسی دوسرے علاقے میں بھاگنا پڑا، اُنہوں نے ایک دوسرے کی بہت مدد کی۔ وہ اُن علاقوں میں دوسروں کو مُنادی کرنے لگے۔ اُنہیں جنگل میں جو بھی چیزیں ملیں، اُن سے اُنہوں نے سادہ سی عبادتگاہ بنائی اور وہاں اِجلاس کرنے لگے۔ اُس ہولناک وقت میں اُن بہن بھائیوں کو عبادت میں جانے اور مُنادی کرنے سے بہت حوصلہ اور اُمید ملی۔ جب ہم اِن بہن بھائیوں کو کپڑے اور کھانے پینے کی چیزیں وغیرہ دے رہے تھے تو اُنہوں نے کپڑے مانگنے کی بجائے مُنادی کے لیے بیگ مانگے۔ اِس بات نے ہمارا دل چُھو لیا! جنگ میں لوگوں کو بہت ہی بُرا وقت دیکھنا پڑ رہا تھا۔ اِس لیے بہت سے لوگ پاک کلام سے خوشخبری سننا چاہتے تھے۔ وہ یہ دیکھ کر بہت متاثر تھے کہ اِتنے بُرے وقت میں بھی یہوواہ کے گواہ کتنے خوش نظر آتے ہیں اور اچھی متی 5:14-16) ہمارے بہن بھائیوں کا جوشوجذبہ دیکھ کر کچھ ظالم فسادی بھی ہمارے ہمایمان بن گئے۔
باتوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ایک طرح سے گواہ اندھیرے میں چراغوں کی طرح چمک رہے تھے۔ (یہوواہ نے ہمیں اپنے بہن بھائیوں کی جُدائی کا دُکھ سہنے کی طاقت دی
پال: ہمیں پانچ بار لائبیریا سے جانا پڑا۔ تین بار تو کچھ وقت کے لیے اور دو بار تقریباً ایک ایک سال کے لیے۔ مشنری کے طور پر خدمت کرنے والی ایک بہن نے ایک ایسی بات کہی جو ہم بھی محسوس کر رہے تھے۔ اُس نے کہا: ”گلئیڈ سکول میں ہمیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ ہم جہاں خدمت کرنے جا رہے ہیں وہاں کے بہن بھائیوں کو اپنے دل میں بٹھا لیں۔ ہم نے بالکل ایسا ہی کِیا ہے۔ اِس لیے اب اپنے اِن بہن بھائیوں کو ایسی صورتحال میں چھوڑ کر جانے سے ایسے لگ رہا ہے جیسے ہمارے دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ہوں۔“ لیکن ہمارے لیے یہ خوشی کی بات تھی کہ ہم قریب کے ملکوں میں رہ کر بھی لائبیریا میں اپنے بہن بھائیوں کی مدد کر سکتے تھے تاکہ وہ خوشخبری سنانے کے کام کو جاری رکھ سکیں۔
این: مئی 1996ء میں ہم چار بہن بھائی بیتایل کی گاڑی لے کر نکل پڑے۔ ہمارے پاس کچھ اہم کاغذات تھے جو لائبیریا میں ہمارے مُنادی کے کام کے بارے میں تھے۔ ہم شہر سے دوسری طرف کسی محفوظ جگہ جانا چاہتے تھے جو کہ 16 کلومیٹر (10 میل) دُور تھی۔ ہمارے نکلنے کے فوراً بعد ہی ہمارے علاقے پر حملہ ہوا۔ غصیلے فسادیوں نے ہوا میں فائرنگ کی؛ ہماری گاڑی کو روکا؛ ہم میں سے تین کو باہر نکالا اور پال سمیت گاڑی کو لے کر چلے گئے۔ ہم ہکا بکا رہ گئے! پھر اچانک ہمیں پال بِھیڑ میں سے آتے ہوئے دِکھائی دیے۔ اُن کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ ہمیں لگ رہا تھا کہ پال کو گولی لگی ہے لیکن پھر ہم نے سوچا کہ اگر اُنہیں گولی لگی ہوتی تو وہ ہمارے پاس چل کر کیسے آتے۔ دراصل ایک فسادی نے اُنہیں مار کر گاڑی سے باہر نکالا تھا۔ شکر ہے کہ اُن کا زخم اِتنا گہرا نہیں تھا۔
ہمارے قریب ہی فوجیوں کا ایک ٹرک کھڑا تھا جس میں بہت سے سہمے ہوئے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ ٹرک اُس جگہ سے بس نکلنے ہی والا تھا۔ ہم نے اِس میں بیٹھنے کا فیصلہ کِیا۔ لیکن ٹرک میں بالکل بھی جگہ نہیں تھی اِس لیے ہم باہر لٹک کر اِس پر چڑھ گئے۔ پکڑنے کے لیے کوئی خاص چیز نہیں تھی۔ ڈرائیور نے اِتنی تیزی سے گاڑی چلائی کہ ہم گِرتے گِرتے بچے۔ ہم نے چلّا کر اُس سے کہا کہ وہ گاڑی روکے لیکن وہ اِتنا ڈرا ہوا تھا کہ اُس نے گاڑی روکی ہی نہیں۔ ہم کسی نہ کسی طرح سے گِرنے سے بچ تو گئے لیکن جب ہم منزل پر پہنچے تو ہم تھکن سے چُور تھے اور ہمارا پورا جسم کانپ رہا تھا۔
پال: ہمارے کپڑے گندے ہو گئے اور پھٹ گئے تھے۔ ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہم ابھی بھی زندہ ہیں۔ ہم ایک کُھلے میدان میں سوئے۔ ہمارے قریب ہی ایک ہیلیکاپٹر تھا جس پر کافی گولیاں برسائی گئی تھیں۔ اِسے دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے یہ بالکل تباہ ہو گیا ہو۔ لیکن اگلے دن اِسی میں ہم سیرا لیون پہنچے۔ ہمیں اپنے زندہ ہونے پر خوشی تھی لیکن ہم اپنے بہن بھائیوں کے لیے بہت فکرمند تھے۔
یہوواہ نے ہمیں نئی اور انوکھی مشکلوں کا سامنا کرنے کی طاقت دی
این: ہم صحیح سلامت سیرا لیون کے شہر فریٹاؤن پہنچے جہاں ہمارا بیتایل تھا۔ وہاں بہن بھائیوں نے ہمارا بہت خیال رکھا۔ لیکن جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا تھا، اُس کا مجھ پر بہت بُرا اثر پڑا تھا۔ اچانک سے میرے ذہن میں وہ ہولناک واقعات گھومنے لگتے تھے جو لائبیریا میں ہوئے تھے۔ دن کے دوران مجھے ہر وقت اِس بات کا ڈر رہتا تھا کہ ابھی کچھ ہو جائے گا۔ مجھے اپنے اِردگِرد سب کچھ دُھندلا دِکھائی دیتا تھا۔ رات کے وقت مَیں اچانک سے اُٹھ جاتی تھی اور مجھے ٹھنڈے پیسنے آتے تھے اور مَیں خوف سے کانپ رہی ہوتی تھی۔ مجھے ایسے لگتا تھا جیسے میرا سانس بند ہو گیا ہو۔ پال مجھے گلے لگا کر دُعا کرنے لگتے تھے۔ ہم تب تک گیت گاتے رہتے تھے جب تک میری کپکپاہٹ دُور نہیں ہو جاتی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ مَیں پاگل ہو جاؤں گی اور مشنری کے طور پر اپنی خدمت جاری نہیں رکھ پاؤں گی۔
لیکن اِس کے بعد جو ہوا، اُسے تو مَیں کبھی بھی نہیں بھول سکتی۔ اُسی ہفتے ہمیں ہماری تنظیم کے دو رسالے ملے۔ ایک 8 جون 1996ء کا ”اویک!“ تھا جس میں یہ مضمون تھا: ”پریشانی کے دوروں سے کیسے نمٹیں؟“ اِسے پڑھ کر مَیں سمجھ گئی کہ اصل میں میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ اور دوسرا رسالہ 1 جون 1996ء کا ”مینارِنگہبانی“ تھا جس میں یہ مضمون تھا: ”وہ اپنی طاقت کہاں سے حاصل کرتی ہیں؟“ اِس ”مینارِنگہبانی“ میں ایک زخمی تتلی کی تصویر تھی۔ اِس مضمون میں بتایا گیا تھا کہ جس طرح ایک تتلی اپنے ٹوٹے پَروں کے باوجود اُڑتی رہتی ہے اور کھاتی پیتی رہتی ہے اُسی طرح ہم بھی یہوواہ کی پاک روح کی مدد سے جذباتی طور پر ٹوٹ جانے کے باوجود دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں۔ اِن مضامین سے یہوواہ نے صحیح وقت پر میری مدد کی۔ (متی 24:45) اِس موضوع پر کچھ اَور مضامین کو پڑھنے سے بھی میری بہت مدد ہوئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ میری حالت بہتر ہوتی گئی اور بُری یادیں دُھندلی ہوتی گئیں۔
یہوواہ نے ہمیں تبدیلیوں کے مطابق ڈھلنے کی طاقت دی
پال: ہمیں جب بھی لائبیریا واپس جانے کا موقع ملتا تھا، ہم بہت خوش ہوتے تھے۔ 2004ء کے آخر پر ہمیں وہاں خدمت کرتے ہوئے تقریباً 20 سال ہو گئے تھے۔ جنگ ختم ہو چُکی تھی اور وہاں ہماری برانچ کو بنانے کے منصوبے بنائے جا رہے تھے۔ لیکن پھر اچانک ہمیں ایک دوسری جگہ خدمت کرنے کے لیے کہا گیا۔
یہ ہمارے ایمان کا بہت بڑا اِمتحان تھا۔ ہم لائبیریا میں اپنے بہن بھائیوں سے بےپناہ محبت کرتے تھے۔ وہ ہمارے گھر والوں کی طرح تھے۔ ہمیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہم اُن کے بغیر کیسے رہ پائیں گے؟ لیکن پھر ہم نے سوچا کہ گلئیڈ سکول جاتے وقت ہم نے اپنے
خاندانوں کو چھوڑا تھا اور ایسا کرتے وقت ہم نے دیکھا تھا کہ اپنی زندگی یہوواہ کے ہاتھ میں دینے سے ہمیں کتنی برکتیں ملی ہیں۔ اِس لیے جب ہمیں کسی اَور جگہ خدمت کرنے کو کہا گیا تو ہم نے اِسے قبول کر لیا۔ ہمیں قریب ہی کے ملک گھانا بھیجا گیا۔این: لائبیریا چھوڑتے وقت ہم بہت روئے۔ فرینک نام کے ایک بوڑھے اور سمجھدار بھائی نے ہم سے ایک ایسی بات کہی جسے سُن کر ہمیں بہت حیرانی ہوئی۔ اُنہوں نے کہا: ”آپ کو ہمیں بُھلا دینا ہوگا!“ پھر اُنہوں نے اپنی بات کا مطلب سمجھاتے ہوئے کہا: ”ہم جانتے ہیں کہ آپ ہمیں نہیں بھولیں گے لیکن آپ کو اپنا پورا دل اپنی نئی خدمت پر لگانا ہوگا۔ یہوواہ نے آپ کو یہ خدمت کرنے کو کہا ہے۔ اِس لیے اپنا دھیان وہاں کے بہن بھائیوں پر رکھئے گا اور اُن کا خیال رکھئے گا۔“ یہ سُن کر ہمیں ہمت ملی کیونکہ ہمیں نئی جگہ خدمت کرنا مشکل لگ رہا تھا جہاں ہمیں نئے سِرے سے زندگی شروع کرنی تھی اور جہاں کچھ ہی بہن بھائی ہمیں جانتے تھے۔
پال: جلد ہی ہم گھانا میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ گھل مل گئے اور اُن سے محبت کرنے لگے۔ وہاں بہت سے یہوواہ کے گواہ تھے۔ ہم نے اپنے نئے دوستوں کے مضبوط ایمان اور یہوواہ کے لیے اُن کی وفاداری سے بہت کچھ سیکھا۔ پھر جب ہمیں گھانا میں خدمت کرتے ہوئے 13 سال ہو گئے تو ہمیں مشرقی افریقہ میں کینیا برانچ بھیجا گیا۔ حالانکہ ہمیں گھانا اور لائبیریا میں اپنے دوست بہت یاد آتے تھے لیکن ہم جلد ہی کینیا میں اپنے بہن بھائیوں کے قریب ہو گئے۔ ہم ابھی بھی ایک ایسے بڑے علاقے میں یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں جہاں مُنادی کرنے کے لیے مبشروں کی بہت ضرورت ہے۔
ہم نے کیا کچھ سیکھا؟
این: مَیں نے زندگی میں بہت سی ہولناک باتوں کا تجربہ کِیا ہے۔ آج بھی اِنہیں سوچ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اِن باتوں نے ہمارے جذبات اور صحت پر بہت بُرا اثر ڈالا ہے۔ہم یہ توقع نہیں کرتے کہ یہوواہ معجزہ کر کے اِن باتوں کو ہمارے ذہن سے مٹا دے۔ ابھی بھی جب مَیں گولی چلنے کی آواز سنتی ہوں تو مجھے متلی ہونے لگتی ہے اور میرے ہاتھ سُن ہو جاتے ہیں۔ لیکن مَیں نے سیکھا ہے کہ مَیں طاقت پانے کے لیے یہوواہ پر بھروسا کروں جو وہ ہمارے بہن بھائیوں کے ذریعے سے بھی دیتا ہے۔ مَیں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ بائبل پڑھنے، دُعا کرنے، عبادتوں اور مُنادی میں جانے سے یہوواہ ہماری مدد کرتا ہے تاکہ ہم اُس کی خدمت کرتے رہیں۔
پال: کبھی کبھار بہن بھائی ہم سے پوچھتے ہیں: ”آپ جس طرح سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں، کیا یہ آپ کو پسند ہے؟“ سچ کہوں تو جن ملکوں میں ہم یہوواہ کی خدمت کرتے ہیں، وہ بہت خوبصورت ہوتے ہیں لیکن وہاں اچانک سے کوئی خطرناک صورتحال کھڑی ہو سکتی ہے۔ تو کسی ملک کی خوبصورتی ہمارے دل کو نہیں بھاتی بلکہ وہاں کے بہن بھائیوں کی محبت ہمیں بھا جاتی ہے۔ بھلے ہی ہم مختلف علاقوں اور ثقافتوں سے ہوتے ہیں لیکن ہماری سوچ یہوواہ کی سوچ جیسی ہوتی ہے۔ جب ہمیں مختلف ملکوں میں خدمت کرنے کے لیے بھیجا گیا تو ہمیں لگا کہ ہم وہاں جا کر بہن بھائیوں کا حوصلہ بڑھائیں گے لیکن اصل میں تو اُنہوں نے ہمارا حوصلہ بڑھایا۔
جب جب ہم کسی نئی جگہ خدمت کرنے کے لیے گئے، ہم نے اپنی آنکھوں سے ایک معجزہ ہوتے دیکھا۔ اور وہ معجزہ یہ تھا کہ چاہے ہم دُنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں، وہاں ہمیں ہمارے بہن بھائی ملیں گے جو ہمارا خاندان ہیں۔ جب تک ہم یہوواہ کے خاندان کا حصہ بنے رہیں گے، ہم کبھی بھی بےگھر اور تنہا نہیں ہوں گے۔ ہمیں پکا یقین ہے کہ اگر ہم یہوواہ پر بھروسا کرتے رہیں گے تو وہ ہمیں طاقت دے گا پھر چاہے مشکل کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔—فِل 4:13۔