مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ایمان پر قائم رہیں اور خدا کی خوشنودی پائیں

ایمان پر قائم رہیں اور خدا کی خوشنودی پائیں

‏”‏اُن لوگوں کی مثال پر عمل کریں جو اپنے ایمان اور صبر کی وجہ سے وعدوں کے وارث ہیں۔‏“‏‏—‏عبر 6:‏12‏۔‏

گیت:‏ 3،‏  54

1،‏ 2.‏ اِفتاح اور اُن کی بیٹی کو کس مشکل کا سامنا تھا؟‏

لڑکی بڑی بےتابی سے اپنے باپ کا اِنتظار کر رہی ہے۔‏ باپ کو دُور سے  آتے  دیکھ  کر  وہ  بھاگی بھاگی  اُس کے پاس جاتی ہے۔‏ وہ بہت خوش ہے کیونکہ اُس کے باپ نے جنگ میں بہت بڑی فتح حاصل کی ہے۔‏ لیکن اُس کا باپ اُسے دیکھ کر غم کے مارے اپنے کپڑے پھاڑ دیتا ہے اور چلّا اُٹھتا ہے کہ ”‏ہائے میری بیٹی تُو نے مجھے پست کر دیا۔‏“‏ پھر وہ بتاتا ہے کہ اُس نے یہوواہ خدا سے ایک ایسا وعدہ کِیا ہے جس سے بیٹی کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل جائے گی اور اُس کے سارے ارمانوں پر پانی پھر جائے گا۔‏ لیکن لڑکی اپنے باپ کی بات سُن کر خفا نہیں ہوتی بلکہ اُس سے کہتی ہے کہ وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے۔‏ لڑکی کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُسے پورا بھروسا ہے کہ یہوواہ خدا کو خوش کرنے میں اُس کی بہتری ہے۔‏ (‏قضا 11:‏34-‏37‏)‏ اپنی بیٹی کے مضبوط ایمان کو دیکھ کر باپ کا سر فخر سے اُونچا ہو جاتا ہے۔‏ وہ جانتا ہے کہ خدا وعدہ نبھانے والوں سے بہت خوش ہوتا ہے۔‏

2 یہ واقعہ اِفتاح اور اُن کی بیٹی کے ساتھ پیش آیا۔‏ اُنہوں نے خدا پر بھروسا کِیا  اور  اپنا  وعدہ نبھایا حالانکہ ایسا کرنا اُن دونوں کے لیے آسان نہیں تھا۔‏ وہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو بھی تیار تھے۔‏

3.‏ اِفتاح اور اُن کی بیٹی کی مثال پر غور کرنا ہمارے لیے فائدہ‌مند کیوں ہے؟‏

3 ایمان پر قائم رہنا اکثر آسان نہیں ہوتا۔‏ ہمیں ’‏ایمان کے لیے ڈٹ کر لڑنا‘‏ پڑتا ہے۔‏ (‏یہوداہ 3‏)‏ اِس سلسلے میں ہم اِفتاح اور اُن کی بیٹی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ اُنہوں نے کن مشکلوں کا سامنا کِیا اور وہ اِن کے باوجود ایمان پر کیسے قائم رہے۔‏

بُرے ماحول کے باوجود ایمان پر قائم رہیں

4،‏ 5.‏ ‏(‏الف)‏ خدا نے بنی‌اِسرائیل کو کنعانیوں کے حوالے سے کیا حکم دیا؟‏ (‏ب)‏ زبور 106 کے مطابق بنی‌اِسرائیل کی نافرمانی کے کون سے بُرے نتیجے نکلے؟‏

4 اِفتاح اور اُن کی بیٹی کو معلوم تھا کہ ایمان سے پھر جانے کے کون سے بُرے نتیجے نکلتے ہیں۔‏ وہ اِن نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔‏ دراصل اُن کے زمانے سے تقریباً 300 سال پہلے خدا نے بنی‌اِسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ کنعان کے تمام باشندوں کو ہلا‌ک کر دیں۔‏ (‏اِست 7:‏1-‏4‏)‏ لیکن بنی‌اِسرائیل نے خدا کے حکم پر عمل نہیں کِیا جس کے نتیجے میں کنعانی لوگ اُن کے لیے پھندا ثابت ہوئے۔‏ بنی‌اِسرائیل نے کنعانیوں کے بےہودہ طورطریقے اپنا لیے اور بُت‌پرستی اور بدکاری کرنے لگے۔‏‏—‏زبور 106:‏34-‏39 کو پڑھیں۔‏

5 یہوواہ خدا بنی‌اِسرائیل کی نافرمانی سے سخت ناخوش تھا۔‏ اِس لیے اُس نے اُن کی حفاظت اور مدد کرنا چھوڑ دی۔‏ (‏قضا 2:‏1-‏3،‏ 11-‏15؛‏ زبور 106:‏40-‏43‏)‏ ذرا سوچیں کہ ایسے ماحول میں یہوواہ خدا کا وفادار رہنا کتنا مشکل تھا۔‏ لیکن اُس دَور میں بھی کچھ لوگ تھے جنہوں نے خدا کو خوش کرنے کا عزم کِیا ہوا تھا۔‏ اِن میں اِفتاح اور اُن کی بیٹی کے علا‌وہ القانہ،‏ حنّہ اور سموئیل بھی شامل تھے۔‏—‏1-‏سمو 1:‏20-‏28؛‏ 2:‏26‏۔‏

6.‏ آج‌کل دُنیا میں کیسی سوچ اور طورطریقے عام ہیں؟‏ اور ہمیں اِس سلسلے میں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‏

6 ہمارے زمانے کے لوگوں کی سوچ  اور  طورطریقے  بھی  کنعانیوں جیسے ہیں۔‏ اُن کا دھیان جنسی ہوس پوری کرنے پر رہتا ہے،‏ وہ ظلم کو پسند کرتے ہیں اور پیسوں سے پیار کرتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا نے اپنے کلام میں بہت سی ہدایتیں دی ہیں جن پر عمل کرنے سے ہم ایسی سوچ اور کاموں سے بچ سکتے ہیں۔‏ کیا ہم بنی‌اِسرائیل کی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے؟‏ (‏1-‏کُر 10:‏6-‏11‏)‏ اگر ہم میں رتی بھر بھی کنعانیوں جیسی سوچ ہے تو ہمیں اِسے رد کرنے کی بھرپور  کوشش کرنی چاہیے۔‏ (‏روم 12:‏2‏)‏ کیا ہم ایسا کرنے کو تیار ہیں؟‏

نااِنصافی اور دُکھ جھیلنے کے باوجود ایمان پر قائم رہیں

7.‏ ‏(‏الف)‏ اِفتاح کے اپنے بھائیوں نے اُن کے ساتھ کیسا سلوک کِیا؟‏ (‏ب)‏ نااِنصافی جھیلنے کے باوجود اِفتاح نے کیا ردِعمل دِکھایا؟‏

7 چونکہ بنی‌اِسرائیل نے یہوواہ کی نافرمانی کی تھی  اِس  لیے  اِفتاح کے زمانے میں اِسرائیلیوں کو فلستیوں اور بنی‌عمون کی غلا‌می کرنی پڑی۔‏ (‏قضا 10:‏7،‏ 8‏)‏ لیکن اِفتاح کو صرف دُشمنوں کے ہاتھوں تکلیف نہیں اُٹھانی پڑی بلکہ اُن کے اپنے بھائیوں اور اِسرائیل کے پیشواؤں نے بھی اُن کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔‏ دراصل اِفتاح کے سوتیلے بھائی اُن سے حسد کرتے تھے۔‏ حالانکہ اِفتاح اپنے باپ کے پہلوٹھے تھے لیکن اُن کے بھائیوں نے اُن کو گھر سے نکا‌ل دیا اور اُنہیں وراثت میں حصہ نہیں دیا۔‏ (‏قضا 11:‏1-‏3‏)‏ اِس نااِنصافی کے باوجود اِفتاح نے اُن سے بدلہ نہیں لیا۔‏ جب اِسرائیل کے پیشواؤں نے اِفتاح سے مدد مانگی تو وہ اُن کی مدد کرنے پر راضی ہو گئے۔‏ (‏قضا 11:‏4-‏11‏)‏ اِفتاح نے اِتنا اچھا ردِعمل کیوں دِکھایا؟‏

8،‏ 9.‏ ‏(‏الف)‏ شریعت میں پائے جانے والے کن اصولوں سے اِفتاح کو صحیح کام کرنے کی ترغیب ملی؟‏ (‏ب)‏ اِفتاح کی نظر میں زیادہ اہم کیا تھا؟‏

8 اِفتاح نہ صرف ایک زبردست جنگجو تھے بلکہ وہ  بنی‌اِسرائیل کی تاریخ اور شریعت سے اچھی طرح واقف بھی تھے۔‏ اِسرائیل کی تاریخ سے وہ اِس بات کا اندازہ لگا سکے کہ یہوواہ خدا کی نظر میں کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔‏ (‏قضا 11:‏12-‏27‏)‏ شریعت میں پائے جانے والے اصولوں سے وہ اندازہ لگا سکے کہ خدا کی سوچ کیا ہے اور اُنہوں نے یہ سوچ اپنا لی۔‏ وہ جانتے تھے کہ یہوواہ خدا ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے دل میں رنجش رکھتے ہیں بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اُس کے بندے ایک دوسرے سے پیار کریں۔‏ شریعت میں یہ حکم بھی تھا کہ اِسرائیلی اُس شخص کی بھی مدد کریں جو اُن سے نفرت کرتا ہے۔‏‏—‏خروج 23:‏5؛‏ احبار 19:‏17،‏ 18 کو پڑھیں۔‏

9 یقیناً اِفتاح نے یوسف کی مثال پر بھی غور  کِیا  ہوگا  جنہوں نے اپنے بھائیوں پر رحم کِیا حالانکہ اُن کے بھائیوں نے اُن سے نفرت کی۔‏ (‏پید 37:‏4؛‏ 45:‏4،‏ 5‏)‏ ایسی مثالوں پر سوچ بچار کرنے سے اِفتاح نے وہ کام کِیا جو یہوواہ خدا کو پسند تھا۔‏ بےشک اِفتاح کے بھائیوں نے اُن کا دل بہت دُکھایا لیکن اِفتاح نے یہوواہ خدا اور اُس کے بندوں سے مُنہ نہیں پھیرا۔‏ (‏قضا 11:‏11‏)‏ اِفتاح کی نظر میں بدلہ لینے سے زیادہ اہم یہ تھا کہ یہوواہ کی بڑائی ہو۔‏ وہ اپنے ایمان پر قائم رہے جس سے اُنہیں اور دوسروں کو بہت فائدہ ہوا۔‏—‏عبر 11:‏32،‏ 33‏۔‏

10.‏ ہم بائبل کے اصولوں سے کیسے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں؟‏

10 ہمیں بھی اِفتاح کی مثال پر عمل کرنا چاہیے۔‏ ہو سکتا ہے کہ کسی مسیحی نے ہمارا دل دُکھایا ہو یا ہمارے ساتھ بُرا سلوک کِیا ہو۔‏ لیکن کیا ہم اِس وجہ سے یہوواہ خدا کی خدمت کرنا چھوڑ دیں گے؟‏ ہرگز نہیں بلکہ ہم اِجلا‌سوں پر جاتے رہیں گے اور کلیسیا کے ساتھ مل کر خدا کی خدمت کرتے رہیں گے۔‏ اِفتاح کی طرح ہم بھی بائبل میں پائے جانے والے اصولوں کی مدد سے مشکلا‌ت کا مقابلہ کریں گے اور اچھائی سے بُرائی پر غالب آئیں گے۔‏—‏روم 12:‏20،‏ 21؛‏ کُل 3:‏13‏۔‏

قربانیاں دینے سے ایمان ظاہر کریں

11،‏ 12.‏ اِفتاح نے کیا منت مانی اور اِس کا کیا مطلب تھا؟‏

11 اِفتاح کو پتہ تھا کہ وہ یہوواہ خدا کی مدد کے بغیر اِسرائیل کو بنی‌عمون کے قبضے سے نہیں چھڑا سکیں گے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے یہوواہ سے یہ منت مانی کہ اگر یہوواہ اُن کو دُشمنوں پر فتح دے گا تو وہ اُس شخص کو ”‏سوختنی قربانی“‏ کے طور پر پیش کریں گے جو اُن کا اِستقبال کرنے کے لیے سب سے پہلے اُن کے گھر سے نکلے گا۔‏ (‏قضا 11:‏30،‏ 31‏)‏ اِس کا کیا مطلب تھا؟‏

12 ظاہری بات ہے کہ اِفتاح سچ‌مچ کسی کو  آگ  میں  جھونکنے کا نہیں سوچ رہے تھے کیونکہ یہوواہ خدا نہیں چاہتا کہ اِنسانوں کو قربانی کے طور پر جلا‌یا جائے۔‏ اُسے تو اِس خیال سے ہی نفرت ہے۔‏ (‏اِست 12:‏31‏)‏ شریعت میں سوختنی قربانی ایک ایسی قربانی تھی جس میں مکمل جانور یہوواہ کے حضور چڑھایا جاتا تھا۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِفتاح اُس شخص کو خدا کی خدمت کے لیے  مخصوص کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ زندگی بھر خیمۂ‌اِجتماع میں خدمت کرے۔‏ یہوواہ خدا نے اِفتاح کی منت قبول کر لی اور اُنہیں دُشمنوں پر شان‌دار فتح دی۔‏ (‏قضا 11:‏32،‏ 33‏)‏ لیکن اِفتاح نے کس کو ”‏سوختنی قربانی“‏ کے طور پر یہوواہ کو دیا؟‏

13،‏ 14.‏ قضاة 11:‏35 سے اِفتاح کے ایمان کے بارے میں کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏

13 جب اِفتاح جنگ سے واپس لوٹے تو اُن کے گھر سے سب سے پہلے اُن کی بیٹی اُن کا اِستقبال کرنے نکلی۔‏ یہ اُن کی واحد اولاد تھی اور اُنہیں اِس سے بہت پیار تھا۔‏ اب اِفتاح پر اِمتحان کی گھڑی آئی۔‏ کیا وہ یہوواہ سے وعدہ نبھائیں گے اور اپنی بیٹی کو خیمۂ‌اِجتماع میں خدمت کرنے کے لیے بھیجیں گے؟‏

14 یقیناً اِفتاح نے اِس صورتحال میں بھی خدا کے  کلام  میں پائے جانے والے اصولوں پر سوچ بچار کی ہوگی۔‏ شاید اُنہوں نے شریعت کے اِس اصول پر غور کِیا ہو کہ ”‏اپنی زمین کی پہلی پیداوار کا بہترین حصہ رب اپنے خدا کے گھر میں لانا۔‏“‏ (‏خر 23:‏19‏،‏ اُردو جیو ورشن‏)‏ شریعت میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ”‏جب کوئی مرد [‏یہوواہ]‏ کی منت مانے .‏ .‏ .‏ تو وہ اپنے عہد کو نہ توڑے بلکہ جو کچھ اُس کے مُنہ سے نکلا ہے اُسے پورا کرے۔‏“‏ (‏گن  30:‏2)‏  اِفتاح کی صورتحال حنّہ کی صورتحال جیسی تھی۔‏ خدا اُن دونوں سے توقع کرتا تھا کہ وہ اپنی منت پوری کریں۔‏ اِفتاح جانتے تھے کہ ایسا کرنے سے اُن کو اور اُن کی بیٹی کو بہت بڑی قربانی دینی پڑے گی۔‏ اِفتاح کے اَور بچے نہیں تھے۔‏ وہ جانتے تھے کہ اگر اُن کی بیٹی خیمۂ‌اِجتماع میں خدمت کرنے جائے گی تو وہ کبھی شادی نہیں کرے گی۔‏ پھر اُن کے نام کو کون زندہ رکھے گا اور اُن کی جائیداد کا وارث کون ہوگا؟‏ (‏قضا 11:‏34‏)‏ یہ سب جانتے ہوئے بھی اِفتاح نے کہا:‏ ”‏مَیں نے [‏یہوواہ]‏ کو زبان دی ہے اور مَیں پلٹ نہیں سکتا۔‏“‏ (‏قضا 11:‏35‏)‏ یہوواہ خدا اِفتاح کی قربانی سے خوش ہوا اور اُن کو برکت دی۔‏ اگر آپ اِفتاح کی جگہ ہوتے تو آپ کیا کرتے؟‏

15.‏ ‏(‏الف)‏ ہم نے خود کو خدا کے لیے وقف کرتے وقت کون سا وعدہ کِیا؟‏ (‏ب)‏ ہم مضبوط ایمان کا ثبوت کیسے دے سکتے ہیں؟‏

15 جب ہم نے خود کو یہوواہ کے لیے وقف  کِیا  تھا  تو  ہم  نے وعدہ کِیا تھا کہ ہم اُس کی مرضی پر چلیں گے،‏ چاہے یہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو۔‏ ہمیں معلوم تھا کہ ہمیں قربانیاں دینی پڑیں گی۔‏ لیکن اگر خدا کی تنظیم ہمیں کوئی ایسا کام کرنے کو کہے جو ہمیں پسند نہیں تو پھر ہم کیا کریں گے؟‏ کیا ہم اپنے خدشوں پر غالب آئیں گے اور خوشی سے خدا کا کہنا مانیں گے؟‏ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم مضبوط ایمان کا ثبوت دیں گے۔‏ یہ سچ ہے کہ ہمیں قربانیاں دینی پڑیں گی لیکن یہوواہ ہمیں اِتنی برکتیں دے گا کہ اُن کے آگے یہ قربانیاں کچھ بھی نہیں لگیں گی۔‏ (‏ملا 3:‏10‏)‏ کیا اِفتاح کی بیٹی بھی یہوواہ کے لیے قربانیاں دینے کو تیار تھی؟‏

ہم اِفتاح اور اُن کی بیٹی جیسا ایمان کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏ (‏پیراگراف 16 اور 17 کو دیکھیں۔‏)‏

16.‏ اِفتاح کی بیٹی نے کیا ردِعمل دِکھایا؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

16 اِفتاح کی بیٹی کے لیے اپنے باپ کے وعدے کے مطابق عمل کرنا آسان نہیں تھا۔‏ دراصل اِفتاح کی منت حنّہ کی منت سے فرق تھی۔‏ حنّہ نے منت مانی کہ وہ اپنے بیٹے سموئیل کو نذیر کے طور پر خیمۂ‌اِجتماع میں خدمت کرنے کے لیے دیں گی۔‏ (‏1-‏سمو 1:‏11‏)‏ ایک نذیر کو شادی کرنے کی اِجازت تھی۔‏ لیکن اِفتاح نے ‏”‏سوختنی قربانی“‏ دینے کی منت مانی تھی اِس لیے اُن کی بیٹی کو شادی اور اولاد کی خوشیوں سے محروم رہنا تھا۔‏ (‏قضا 11:‏37-‏40‏)‏ اِسرائیل کے پیشوا کی بیٹی ہونے کے ناتے اُس کی شادی اِسرائیل کے اچھے سے اچھے آدمی سے ہو سکتی تھی۔‏ لیکن اپنے باپ کے وعدے کی وجہ سے اُسے خیمۂ‌اِجتماع میں ایک معمولی سی خادمہ کے طور پر خدمت کرنی تھی۔‏ اِفتاح کی بیٹی نے کیا ردِعمل دِکھایا؟‏ اُس نے کہا:‏ ”‏اَے میرے باپ تُو نے [‏یہوواہ]‏ کو زبان دی ہے سو جو کچھ تیرے مُنہ سے نکلا ہے وہی میرے ساتھ کر۔‏“‏ (‏قضا 11:‏36‏)‏ اُس نے شادی کرنے اور اولاد پیدا کرنے کی فطری خواہش کو دبا دیا کیونکہ اُس کے نزدیک خدا کی خدمت کرنا سب سے اہم بات تھی۔‏ ہم اِفتاح کی بیٹی جیسا جذبہ کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟‏

17.‏ ‏(‏الف)‏ ہم اِفتاح اور اُن کی بیٹی کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ عبرانیوں 6:‏10-‏12 میں درج بات سے ہم میں قربانیاں دینے کا جذبہ کیوں پیدا ہوتا ہے؟‏

17 ہزاروں جوان مسیحی فی‌الحال شادی کرنے اور اولاد پیدا کرنے کی فطری خواہش کو دبا رہے ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت اور توانائی خدا کی خدمت میں صرف کر سکیں۔‏ بہت سے عمررسیدہ مسیحی اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ وقت گزارنے کی خواہش کو قربان کرتے ہیں تاکہ وہ عبادت‌گاہوں کی تعمیر میں حصہ لے سکیں یا پھر بادشاہت کے مُنادوں کے لیے سکول پر جا سکیں اور بعد میں کسی ایسے علا‌قے میں جا کر رہ سکیں جہاں مبشروں کی ضرورت ہے۔‏ کچھ مسیحی اپنے روزمرہ کاموں اور مشغلوں کو چھوڑ کر مسیح کی موت کی یادگاری تقریب کے لیے ہونے والی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا اِن سب مسیحیوں کی قربانیوں سے بہت خوش ہوتا ہے۔‏ وہ اُس محنت اور محبت کو نہیں بھولے گا جو یہ لوگ اُس کے لیے ظاہر کرتے ہیں۔‏ ‏(‏عبرانیوں 6:‏10-‏12 کو پڑھیں۔‏)‏ کیا آپ بھی خدا کی خدمت میں مزید قربانیاں دے سکتے ہیں؟‏

اِفتاح اور اُن کی بیٹی سے سیکھیں

18،‏ 19.‏ اِس مضمون میں ہم نے اِفتاح اور اُن کی بیٹی کے بارے میں کیا سیکھا ہے اور ہم اُن کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

18 حالانکہ اِفتاح کی زندگی میں بہت سی مشکلیں آئیں  لیکن  وہ یہوواہ خدا کی مرضی پر چل کر اِن سے نمٹ پائے۔‏ وہ بُرے ماحول کے باوجود ایمان پر قائم رہے۔‏ اُنہوں نے نااِنصافی اور دُکھ جھیلے لیکن وہ خدا کی راہ سے نہیں ہٹے۔‏ اِفتاح اور اُن کی بیٹی خدا کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار تھے جس کی وجہ سے خدا نے اُن کو برکت دی اور اُن کے ذریعے اپنی عبادت کو فروغ دیا۔‏ حالانکہ اُن کے زمانے میں بنی‌اِسرائیل خدا کے معیاروں کو نظرانداز کر رہے تھے لیکن اِفتاح اور اُن کی بیٹی اِن پر قائم رہے۔‏

19 بائبل میں ہمیں ہدایت دی گئی ہے کہ ”‏اُن لوگوں کی مثال پر عمل کریں جو اپنے ایمان اور صبر کی وجہ سے وعدوں کے وارث ہیں۔‏“‏ (‏عبر 6:‏12‏)‏ دُعا ہے کہ ہم بھی اِفتاح اور اُن کی بیٹی کی طرح ایمان پر قائم رہیں اور یوں خدا کی خوشنودی پائیں۔‏