”تُو اپنی منت کو پورا کر“
”اپنی اُن منتوں کو پورا کرو جو تُم یہوواہ کے سامنے مانتے ہو۔“—متی 5:33۔
1. (الف) اِفتاح اور حنّہ میں کون سی باتیں ملتی جلتی تھیں؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویروں کو دیکھیں۔) (ب) اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟
اِفتاح ایک دلیر جنگجو اور بہادر پیشوا تھے جبکہ حنّہ ایک خاکسار اور گھریلو عورت تھیں۔ یہ دونوں یہوواہ کی عبادت کرتے تھے۔ اِس کے علاوہ اِن دونوں نے یہوواہ سے ایک منت مانی اور اِسے پورا بھی کِیا۔ یوں اِنہوں نے اُن لوگوں کے لیے بہت اچھی مثال قائم کی جو آج یہوواہ سے کوئی وعدہ کرتے ہیں۔ اِس مضمون میں ہم اِن سوالوں پر غور کریں گے: منت ماننے کا کیا مطلب ہے؟ جب ہم خدا سے کوئی وعدہ کرتے ہیں تو ہمیں اِسے کتنا اہم خیال کرنا چاہیے؟ ہم اِفتاح اور حنّہ سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
2، 3. (الف) منت ماننے کا کیا مطلب ہے؟ (ب) بائبل میں خدا سے کیے جانے والے وعدوں کے بارے میں کیا کہا گیا ہے؟
2 منت اُس وعدے کو کہتے ہیں جو خدا سے کِیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر شاید ایک شخص خدا سے وعدہ کرے کہ وہ فلاں کام کرے گا، کوئی نذرانہ پیش کرے گا، خدا کی خدمت کے کسی پہلو میں حصہ لے گا یا پھر کسی کام یا چیز سے پرہیز کرے گا۔ ایسے وعدے اپنی مرضی اور خوشی سے کیے جاتے ہیں۔ کسی پیدایش 14:22، 23؛ عبرانیوں 6:16، 17) چاہے ایک شخص خدا کے حضور منت مانے یا قسم کھائے، اُسے یہ وعدے کتنے سنجیدہ لینے چاہئیں؟
کو منت ماننے پر مجبور نہیں کِیا جا سکتا۔ لیکن جب ایک شخص منت مان لیتا ہے تو یہوواہ اُس سے اِس بات کی توقع کرتا ہے کہ وہ اِسے پورا بھی کرے۔ بائبل میں ایسے واقعے بھی درج ہیں جن میں کسی نے قسم کھا کر کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کا وعدہ کِیا۔ (3 موسیٰ کی شریعت میں یہ حکم تھا: ”جب کوئی مرد [یہوواہ] کی منت مانے یا قسم کھا کر اپنے اُوپر کوئی خاص فرض ٹھہرائے تو وہ اپنے عہد کو نہ توڑے بلکہ جو کچھ اُس کے مُنہ سے نکلا ہے اُسے پورا کرے۔“ (گنتی 30:2) بادشاہ سلیمان نے لکھا: ”جب تُو خدا کے لئے منت مانے تو اُس کے ادا کرنے میں دیر نہ کر کیونکہ وہ احمقوں سے خوش نہیں ہے۔ تُو اپنی منت کو پورا کر۔“ (واعظ 5:4) یسوع مسیح نے بھی ظاہر کِیا کہ خدا سے کیے جانے والے وعدوں کو پورا کرنا کتنا اہم ہوتا ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”پُرانے زمانے میں لوگوں سے کہا گیا تھا: ”قسم نہ توڑو بلکہ اپنی اُن منتوں کو پورا کرو جو تُم یہوواہ کے سامنے مانتے ہو۔““—متی 5:33۔
4. (الف) ہمیں اُن وعدوں کو کیوں سنجیدہ لینا چاہیے جو ہم یہوواہ سے کرتے ہیں؟ (ب) ہم اِفتاح اور حنّہ کے سلسلے میں کن باتوں پر غور کریں گے؟
4 اِن آیتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں اُن وعدوں کو بہت سنجیدہ لینا چاہیے جو ہم یہوواہ سے کرتے ہیں۔ اِس سے خدا کے ساتھ ہماری دوستی پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ یہ بات داؤد بادشاہ کے اِن الفاظ سے واضح ہوتی ہے: ”[یہوواہ] کے پہاڑ پر کون چڑھے گا اور اُس کے مُقدس مقام پر کون کھڑا ہوگا؟ وہی جس [نے] . . . مکر سے قسم نہیں کھائی۔“ (زبور 24:3، 4) آئیں، دیکھتے ہیں کہ اِفتاح اور حنّہ نے خدا سے کون سی منتیں مانی تھیں اور اِنہیں پورا کرنا اُن کے لیے کتنا مشکل تھا۔
اِفتاح اور حنّہ نے اپنی منتیں پوری کیں
5. اِفتاح نے کون سی منت مانی اور اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟
5 اِفتاح نے اُس وقت یہوواہ سے منت مانی جب وہ بنیعمون سے لڑنے کے لیے نکلے جو کہ بنیاِسرائیل کے دُشمن تھے۔ (قضاۃ 10:7-9) اِفتاح نے یہوواہ سے فریاد کی کہ وہ اُنہیں جنگ میں کامیابی دے۔ پھر اُنہوں نے یہ منت مانی: ”اگر تُو یقیناً بنیعمون کو میرے ہاتھ میں کر دے تو جب مَیں بنیعمون کی طرف سے سلامت لوٹوں گا اُس وقت جو کوئی پہلے میرے گھر کے دروازہ سے نکل کر میرے اِستقبال کو آئے وہ [یہوواہ] کا ہوگا۔“ خدا نے اِفتاح کی دُعا سُن لی اور اُن کو جیت عطا کی۔ لیکن جب اِفتاح اپنے گھر لوٹے تو سب سے پہلے اُن کی بیٹی اُن سے ملنے کے لیے گھر سے نکلی۔ لہٰذا اُن کی بیٹی ’یہوواہ کی ہو گئی۔‘ (قضاۃ 11:30-34) اِس کا کیا مطلب تھا؟
اِفتاح اور اُن کی بیٹی نے یہوواہ سے کیے گئے وعدے کو توڑنے کا سوچا تک نہیں۔
6. (الف) اِفتاح اور اُن کی بیٹی کے لیے خدا سے کیے گئے وعدے کو پورا کرنا مشکل کیوں تھا؟ (ب) ہم اِستثنا 23:21، 23 اور زبور 15:4 سے وعدوں کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟
6 اِفتاح کی بیٹی کو اپنے باپ کی منت کو پورا کرنے کے لیے کُلوقتی طور پر خیمۂاِجتماع میں یہوواہ کی خدمت کرنی تھی۔ کیا اِفتاح نے بغیر سوچے سمجھے یہ منت مانی تھی؟ نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اُنہیں گمان تھا کہ سب سے پہلے اُن کی بیٹی ہی اُن سے ملنے کے لیے گھر سے نکلے گی۔ بہرحال اِس منت کو پورا کرنا نہ تو اِفتاح کے لیے آسان قضاۃ 11:35-39) یہ دونوں باپ بیٹی یہوواہ کے وفادار خادم تھے۔ اُنہوں نے خدا سے کیے گئے وعدے کو توڑنے کا سوچا تک نہیں حالانکہ اِسے پورا کرنا بہت مشکل تھا۔—اِستثنا 23:21، 23؛ زبور 15:4 کو پڑھیں۔
تھا اور نہ ہی اُن کی بیٹی کے لیے۔ جب اِفتاح نے اپنی بیٹی کو دیکھا تو اُن کا دل ٹوٹ گیا اور اُن کی بیٹی نے ”اپنے کنوارپن پر ماتم“ کِیا۔ وہ دونوں اِتنے دُکھی کیوں تھے؟ اِفتاح کا کوئی بیٹا نہیں تھا اور اب اُن کی اِکلوتی بیٹی شادی نہیں کر سکتی تھی اور اولاد پیدا نہیں کر سکتی تھی۔ اِفتاح جانتے تھے کہ اُن کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے کوئی نہ ہوگا اور اُن کی جائیداد کا وارث بھی نہیں ہوگا۔ لیکن یہ سب باتیں اِفتاح اور اُن کی بیٹی کے لیے اِتنی اہم نہیں تھیں جتنا کہ وعدہ نبھانا۔ اِفتاح نے کہا: ”مَیں نے [یہوواہ] کو زبان دی ہے اور مَیں پلٹ نہیں سکتا۔“ اور اُن کی بیٹی نے کہا: ”اَے میرے باپ تُو نے [یہوواہ] کو زبان دی ہے سو جو کچھ تیرے مُنہ سے نکلا ہے وہی میرے ساتھ کر۔“ (7. (الف) حنّہ نے کیا منت مانی اور کیوں؟ (ب) اُن کی منت کیسے پوری ہوئی؟ (ج) حنّہ کی منت کا سموئیل کی زندگی پر کیا اثر پڑا؟ (فٹنوٹ کو دیکھیں۔)
7 حنّہ نے بھی یہوواہ سے ایک منت مانی۔ وہ بہت ہی پریشان اور دُکھی تھیں کیونکہ وہ بانجھ تھیں اور اُن کی سوتن اُن کو تنگ کرتی اور طعنے دیتی تھی۔ (1-سموئیل 1:4-7، 10، 16) حنّہ نے یہوواہ کو اپنے احساسات بتائے اور یہ منت مانی: ”اَے ربُالافواج [یہوواہ]! اگر تُو اپنی لونڈی کی مصیبت پر نظر کرے اور مجھے یاد فرمائے اور اپنی لونڈی کو فراموش نہ کرے اور اپنی لونڈی کو فرزندِنرینہ بخشے تو مَیں اُسے زندگی بھر کے لئے [یہوواہ] کو نذر کر دوں گی اور اُسترہ اُس کے سر پر کبھی نہ پھرے گا۔“ * (1-سموئیل 1:11) یہوواہ نے حنّہ کی سُن لی اور ایک سال بعد اُن کا بیٹا ہوا جس کا نام سموئیل رکھا گیا۔ حنّہ کی خوشی کی اِنتہا نہیں رہی! لیکن اِس کے ساتھ ساتھ وہ اُس وعدے کو نہیں بھولیں جو اُنہوں نے خدا سے کِیا تھا۔ جب سموئیل پیدا ہوئے تو حنّہ نے کہا: ”مَیں نے اُسے [یہوواہ] سے مانگ کر پایا ہے۔“—1-سموئیل 1:20۔
حنّہ اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار تھیں۔
8. (الف) حنّہ کو اپنی منت پوری کرنا مشکل کیوں لگا ہوگا؟ (ب) زبور 61 کو پڑھ کر آپ کے ذہن میں حنّہ کی اچھی مثال کیوں آتی ہے؟
8 جب سموئیل تقریباً تین سال کے تھے تو حنّہ نے اپنی منت پوری کی۔ وہ سموئیل کو سردار کاہن عیلی کے پاس لے گئیں جو خیمۂاِجتماع میں خدمت کر رہے تھے۔ اُنہوں نے عیلی سے کہا: ”مَیں نے اِس لڑکے کے لئے دُعا کی تھی اور [یہوواہ] نے میری مُراد جو مَیں نے اُس سے مانگی پوری کی۔ اِسی لئے مَیں نے بھی اِسے [یہوواہ] کو دے دیا۔ یہ اپنی زندگی بھر کے لئے [یہوواہ] کو دے دیا گیا ہے۔“ (1-سموئیل 1:24-28) اُس وقت سے سموئیل خیمۂاِجتماع میں رہنے لگے۔ بائبل میں لکھا ہے کہ ”وہ لڑکا سموئیلؔ [یہوواہ] کے حضور بڑھتا گیا۔“ (1-سموئیل 2:21) بِلاشُبہ حنّہ کے لیے اپنا وعدہ نبھانا آسان نہیں تھا۔ اُنہیں اپنے بیٹے سے بہت پیار تھا لیکن اب وہ اُس سے جُدا ہو رہی تھیں۔ یقیناً حنّہ کا دل چاہا ہوگا کہ دوسری ماؤں کی طرح وہ بھی ہر روز اپنے بیٹے کو پیار کریں، اُس کے ساتھ کھیلیں اور اُس کی دیکھبھال کریں! لیکن حنّہ نے اپنی منت سنجیدگی سے لی۔ وہ اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار تھیں۔—1-سموئیل 2:1، 2؛ زبور 61:1، 5، 8 کو پڑھیں۔
9. ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟
9 جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے، یہوواہ سے وعدہ کرنا بہت سنجیدہ معاملہ ہوتا ہے۔ آئیں، اب اِن سوالوں پر غور کریں: مسیحی یہوواہ سے کس طرح کے وعدے کرتے ہیں؟ ہمیں اِن وعدوں کو پورا کرنے کو کتنا اہم خیال کرنا چاہیے؟
یہوواہ کے لیے زندگی وقف کرنے کا وعدہ
10. (الف) مسیحیوں کی زندگی میں کون سا وعدہ سب سے اہم ہے؟ (ب) اِس وعدے میں کیا کچھ شامل ہے؟
10 مسیحی اپنی زندگی میں جو سب سے اہم وعدہ کرتے ہیں، وہ یہوواہ کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کا وعدہ ہے۔ ایک شخص یہ وعدہ اُس وقت کرتا ہے جب وہ دُعا میں یہوواہ سے کہتا ہے کہ وہ آئندہ اپنی زندگی اُس کی خدمت کرنے میں صرف کرے گا۔ یہ شخص وعدہ کرتا ہے کہ وہ ”اپنے لیے جینا چھوڑ“ دے گا اور اپنی مرضی متی 16:24) جس دن ہم یہ وعدہ کرتے ہیں، ’ہم یہوواہ کے ہو جاتے ہیں۔‘ (رومیوں 14:8) اپنی زندگی یہوواہ کے لیے وقف کرنے کا وعدہ بہت ہی اہم ہے اور ہمیں اِسے بڑی سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ ہم زبور نویس جیسے احساسات رکھتے ہیں جس نے کہا: ”[یہوواہ] کی سب نعمتیں جو مجھے ملیں مَیں اُن کے عوض میں اُسے کیا دوں؟ مَیں [یہوواہ] کے حضور اپنی منتیں اُس کی ساری قوم کے سامنے پوری کروں گا۔“—زبور 116:12، 14۔
کی بجائے یہوواہ کی مرضی پر چلے گا۔ (11. بپتسمے کی تقریر کے دوران آپ نے کس بات کی تصدیق کی تھی؟
11 کیا آپ اپنی زندگی یہوواہ کے لیے وقف کر چُکے ہیں اور بپتسمہ لے چُکے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ آپ کو ضرور یاد ہوگا کہ بپتسمے کی تقریر میں آپ سے پوچھا گیا تھا کہ کیا آپ نے خود کو یہوواہ خدا کے لیے وقف کر دیا ہے؟ اور کیا آپ سمجھ گئے ہیں کہ ”اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لیے وقف کرنے اور بپتسمہ لینے سے آپ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ یہوواہ کے گواہ ہیں اور خدا کی تنظیم کا حصہ ہیں؟“ جب آپ نے اِن سوالوں کا جواب ”ہاں“ میں دیا تو وہاں موجود تمام حاضرین جان گئے کہ آپ اپنی زندگی یہوواہ کے لیے وقف کر چُکے ہیں اور اُس کے خادم کے طور پر بپتسمہ لینے کے لائق ہیں۔ بِلاشُبہ اُس موقعے پر یہوواہ آپ سے بہت خوش ہوا ہوگا!
12. (الف) ہمیں خود سے کیسے سوال پوچھنے چاہئیں؟ (ب) پطرس رسول کے مطابق ہمیں کن خوبیوں میں نکھار لانا چاہیے؟
12 لیکن بپتسمہ تو بس شروعات ہے۔ اِس کے بعد بھی ہمیں اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں: ”کیا بپتسمے سے لے کر اب تک یہوواہ کے ساتھ میری دوستی زیادہ مضبوط ہو گئی ہے؟ کیا مَیں ابھی بھی دلوجان سے اُس کی خدمت کر رہا ہوں؟ (کُلسّیوں 3:23) کیا مَیں اکثر دُعا کرتا ہوں؟ کیا مَیں روزانہ بائبل پڑھتا ہوں؟ کیا مَیں باقاعدگی سے اِجلاسوں پر جاتا ہوں؟ کیا مَیں لگن سے مُنادی کے کام میں حصہ لیتا ہوں؟ یا پھر کیا اِن کاموں میں میرا جوش ٹھنڈا پڑ گیا ہے؟“ پطرس رسول نے مسیحیوں کو اِس بات سے آگاہ کِیا کہ وہ یہوواہ کی خدمت میں سُست پڑ سکتے ہیں۔ لیکن اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر مسیحی ایمان، علم، ثابتقدمی اور خدا کی بندگی جیسی خوبیوں میں نکھار لانے کی کوشش کریں گے تو وہ سُست پڑنے سے بچ سکتے ہیں۔—2-پطرس 1:5-8 کو پڑھیں۔
13. ایک بپتسمہیافتہ مسیحی کو کس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے؟
13 جب ہم اپنی زندگی یہوواہ کے لیے وقف کرنے کا وعدہ کر لیتے ہیں تو ہم اِس سے مکر نہیں سکتے۔ اگر ایک مسیحی کا دل یہوواہ کی خدمت کرنے سے اُکتا جاتا ہے یا وہ اُس کے معیاروں کے مطابق زندگی نہیں گزارنا چاہتا تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُس نے تو کبھی اپنی زندگی یہوواہ کے لیے وقف کی نہیں تھی اور اُس کا بپتسمہ جائز نہیں تھا۔ * لہٰذا اگر وہ کوئی سنگین گُناہ کرتا ہے تو وہ یہوواہ اور کلیسیا کے سامنے جوابدہ ہے۔ (رومیوں 14:12) ہم اُن مسیحیوں کی طرح نہیں بننا چاہتے جن سے یسوع مسیح نے کہا: ”آپ کی محبت ویسی نہیں رہی جیسی شروع میں تھی۔“ اِس کی بجائے ہم چاہتے ہیں کہ یسوع ہم سے یہ کہیں: ”مَیں آپ کے کاموں، محبت، ایمان، خدمت اور ثابتقدمی کو جانتا ہوں۔ مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ آپ ابھی جو کام کر رہے ہیں، وہ آپ کے پہلے کاموں سے زیادہ ہیں۔“ (مکاشفہ 2:4، 19) ہم اپنے وعدے کے مطابق جی جان سے یہوواہ کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور یوں اُسے خوش کرنا چاہتے ہیں۔
شادی کا عہدوپیمان
14. دوسرا اہمترین وعدہ جو مسیحی کرتے ہیں، وہ کیا ہے؟
14 دوسرا اہمترین وعدہ جو مسیحی کرتے ہیں، وہ شادی کا عہدوپیمان ہے۔ یہوواہ خدا کی نظر میں شادی کا بندھن مُقدس بندھن ہے۔ جب دُلہا اور دُلہن عہدوپیمان باندھتے ہیں تو وہ خدا اور تمام حاضرین کے سامنے ایک وعدہ کرتے ہیں۔ عموماً وہ ایک دوسرے سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ جب تک وہ زندہ ہیں، وہ ایک دوسرے کے ساتھ پیارومحبت اور احترام سے پیش آئیں گے۔ عہدوپیمان کے بول چاہے کچھ بھی ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دُلہا دُلہن خدا کے حضور ایک وعدہ کرتے ہیں۔ اِس وعدے کی وجہ سے وہ شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں جو کہ عمر بھر کا بندھن ہے۔ (پیدایش 2:24؛ 1-کُرنتھیوں 7:39) یسوع مسیح نے کہا: ”جسے خدا نے جوڑا ہے، اُسے کوئی اِنسان جُدا نہ کرے۔“ لہٰذا کسی کو اِس خیال سے شادی نہیں کرنی چاہیے کہ اگر اُن کی آپس میں نہیں بنے گی تو وہ طلاق لے سکتے ہیں۔—مرقس 10:9۔
15. یہوواہ کے خادم شادی کے بندھن کے بارے میں دُنیا جیسی سوچ کیوں نہیں اپناتے؟
15 تمام اِنسان عیبدار ہیں اِس لیے جب دو لوگ شادی کرتے ہیں تو اُن کی ازدواجی زندگی میں اُونچنیچ ہوتی ہے۔ بائبل میں بھی لکھا ہے کہ شادیشُدہ لوگوں کو ”مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔“ (1-کُرنتھیوں 7:28) دُنیا میں لوگ شادی کے بندھن کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ اُن کا خیال ہے کہ اگر اُن کی شادی نہیں چلی تو وہ اِس بندھن کو توڑ دیں گے۔ لیکن یہوواہ کے خادم جانتے ہیں کہ اُنہوں نے خدا کے سامنے اپنے ازدواجی بندھن کو جوڑا ہے اور ایک دوسرے کے وفادار رہنے کا وعدہ کِیا ہے۔ اگر وہ اِس وعدے کو توڑیں گے تو یہ ایسے ہوگا جیسے اُنہوں نے خدا سے جھوٹ بولا تھا۔ اور خدا جھوٹ بولنے والوں سے نفرت کرتا ہے۔ (احبار 19:12؛ امثال 6:16-19) شادیشُدہ مسیحیوں کو پولُس رسول کی یہ ہدایت یاد رکھنی چاہیے: ”کیا آپ کی بیوی ہے؟ تو پھر اُسے چھوڑنے کی کوشش نہ کریں۔“ (1-کُرنتھیوں 7:27) پولُس رسول نے یہ ہدایت اِس لیے دی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہوواہ خدا کو ایسی طلاق سے نفرت ہے جو ناجائز وجوہات کی بِنا پر لی جاتی ہے۔—ملاکی 2:13-16۔
16. بائبل میں طلاق اور علیٰحدگی کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟
16 یسوع مسیح نے کہا کہ خدا کی نظر میں طلاق لینے کی واحد وجہ زِناکاری ہے۔ ایسی صورت میں اگر بےقصور شخص اپنے بےوفا ساتھی کو معاف نہیں کرنا چاہتا تو وہ طلاق لے سکتا ہے۔ (متی 19:9؛ عبرانیوں 13:4) کیا یہوواہ کا ایک خادم اپنے جیون ساتھی سے علیٰحدگی اِختیار کر سکتا ہے؟ بائبل میں اِس سلسلے میں بھی واضح ہدایت دی گئی ہے۔ (1-کُرنتھیوں 7:10، 11 کو پڑھیں۔) پاک کلام کے مطابق علیٰحدگی اِختیار کرنے کی کوئی وجوہات نہیں ہیں۔ لیکن کبھی کبھار ایک مسیحی کو لگتا ہے کہ اُس کے پاس اپنے جیون ساتھی سے علیٰحدگی اِختیار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ شاید اُس صورت میں ہو اگر اُسے اپنے جیون ساتھی کی طرف سے جانی خطرہ ہے یا پھر اگر اُس کا جیون ساتھی خدا سے برگشتہ ہو گیا ہے اور اُسے یہوواہ کی عبادت نہیں کرنے دیتا۔ *
17. مسیحی جوڑے کیا کر سکتے ہیں تاکہ اُن کا ازدواجی بندھن عمر بھر مضبوط رہے؟
17 اگر ایک مسیحی جوڑے کی آپس میں نہیں بن رہی اور وہ کلیسیا کے بزرگوں کے پاس مشورہ لینے جاتا ہے تو بزرگ اُس جوڑے سے کیا کہہ سکتے ہیں؟ اگر اُن کی زبان میں ویڈیو ”وٹ اِز ٹرو لَو؟“ اور بروشر ”اپنی گھریلو زندگی کو خوشگوار بنائیں“ دستیاب ہے تو بزرگ اُس جوڑے کی حوصلہافزائی کر سکتے ہیں کہ وہ دونوں مل کر اِس ویڈیو کو دیکھیں اور اِس بروشر کا مطالعہ کریں۔ اِن میں بائبل کے ایسے اصول بتائے گئے ہیں جن پر عمل کرنے سے ازدواجی بندھن زیادہ مضبوط ہو سکتا ہے۔ ایک شادیشُدہ جوڑے نے کہا: ”جب سے ہم مل کر اِس بروشر کا مطالعہ کرنے لگے ہیں، ہماری ازدواجی زندگی پہلے سے کہیں زیادہ خوشگوار ہو گئی ہے۔“ ایک بہن جو 22 سال سے شادیشُدہ ہے، اُسے لگ رہا تھا کہ اُس کی شادی ٹوٹنے والی ہے۔ پھر اُس نے اپنے شوہر کے ساتھ وہ ویڈیو دیکھی جس کا اُوپر ذکر کِیا گیا ہے۔ وہ کہتی ہے: ”حالانکہ ہم دونوں بپتسمہیافتہ ہیں لیکن ہمارے مزاجوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ ویڈیو اُسی وقت آئی جب ہمیں اِس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ اب ہماری ازدواجی زندگی کافی بہتر ہو گئی ہے۔“ کیا آپ شادیشُدہ ہیں؟ پھر مل کر یہوواہ کے اصولوں پر عمل کریں۔ ایسا کرنے سے آپ اپنی شادی کا عہدوپیمان بخوبی نبھا سکیں گے اور خوشگوار ازدواجی زندگی گزار سکیں گے۔
خصوصی کُلوقتی خدمت کے سلسلے میں وعدہ
18، 19. (الف) بہت سے مسیحی والدین اپنے بچوں کی کیا حوصلہافزائی کرتے ہیں؟ (ب) خصوصی کُلوقتی خدمت کرنے والے بہن بھائی کس وعدے کو نبھاتے ہیں؟
18 اِس مضمون میں ہم نے اُن منتوں پر غور کِیا ہے جو اِفتاح اور حنّہ نے مانی تھیں۔ اِن منتوں کی وجہ سے اِفتاح کی بیٹی اور حنّہ کے بیٹے نے خاص طریقے سے یہوواہ کی خدمت کی۔ آج بھی بہت سے مسیحی والدین اپنے بچوں کی حوصلہافزائی کرتے ہیں کہ وہ کُلوقتی طور پر خدا کی خدمت کریں اور اِسی پر پورا دھیان رکھیں۔ ہم سب اِن جوان بہن بھائیوں کی ہمت بڑھا سکتے ہیں تاکہ وہ اِس خدمت کو جاری رکھیں۔—قضاۃ 11:40؛ زبور 110:3۔
19 آج تقریباً 67 ہزار بہن بھائی یہوواہ کے گواہوں کی خصوصی کُلوقتی خادموں کی عالمگیر جماعت کا حصہ ہیں۔ اِن میں سے کچھ بیتایل میں خدمت کرتے ہیں اور بعض حلقے کے نگہبانوں، خصوصی پہلکاروں اور مشنریوں کے طور پر خدمت کرتے ہیں۔ کچھ بہن بھائی ہماری تنظیم کے تعمیراتی کاموں میں حصہ لیتے ہیں یا تنظیم کی عبادتگاہوں اور سکولوں کی عمارتوں کی دیکھبھال کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ کچھ بھائی ہماری تنظیم کی طرف سے منعقد کیے جانے والے سکولوں میں ٹیچر کے طور پر مقرر ہیں۔ اِن سب بہن بھائیوں نے دستاویز ”فرمانبرداری اور قناعتپسندی کا عہدنامہ“ پر دستخط کِیا ہے۔ اِس دستاویز پر دستخط کرنے سے اُنہوں نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ ہر اُس کام کو لگن سے کریں گے جو یہوواہ کی تنظیم اُنہیں سونپے گی، وہ سادہ زندگی گزاریں گے اور اِجازت کے بغیر پیسے نہیں کمائیں گے۔ اِن بہن بھائیوں نے عزم کِیا ہے کہ وہ جب تک خصوصی کُلوقتی خدمت کریں گے، اپنے اِس وعدے کو نبھائیں گے۔ خصوصی کُلوقتی خدمت کرنے والے بہن بھائی بڑی خاکساری سے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ خود خاص نہیں ہیں بلکہ اُن کا کام خاص ہے۔
20. ہمیں اُن وعدوں کو کیسا خیال کرنا چاہیے جو ہم یہوواہ سے کرتے ہیں اور اِس کی کیا وجہ ہے؟
20 اِس مضمون میں ہم نے تین خاص وعدوں پر غور کِیا ہے جو مسیحی یہوواہ سے کرتے ہیں۔ شاید آپ نے بھی اِن میں سے کچھ وعدے کیے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں اُن وعدوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے جو ہم یہوواہ سے کرتے ہیں اور اِنہیں نبھانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ (امثال 20:25) اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہمارا ہی نقصان ہوگا۔ (واعظ 5:6) اِس لیے آئیں، ہم بھی زبور نویس جیسا جذبہ رکھیں جس نے یہوواہ سے کہا: ”مَیں ہمیشہ تیری مدحسرائی کروں گا تاکہ روزانہ اپنی منتیں پوری کروں۔“—زبور 61:8۔
^ پیراگراف 7 حنّہ نے یہوواہ سے وعدہ کِیا کہ اگر اُن کا ایک بیٹا ہوگا تو وہ زندگی بھر خدا کا نذیر ہوگا۔ اِس کا مطلب ہے کہ اُن کا بیٹا یہوواہ کے لیے وقف ہوگا اور اُس کی خدمت کے لیے مخصوص ہوگا۔—گنتی 6:2، 5، 8۔
^ پیراگراف 13 اِس سے پہلے کہ کوئی شخص یہوواہ کے گواہ کے طور پر بپتسمہ لے، کلیسیا کے بزرگ اُس کے ساتھ مل کر بہت سی باتوں پر غور کرتے ہیں تاکہ وہ اندازہ لگا سکیں کہ آیا یہ شخص بپتسمہ لینے کے لائق ہے یا نہیں۔ لہٰذا اِس کا بہت ہی کم اِمکان ہے کہ کسی کا بپتسمہ جائز نہ ہو۔
^ پیراگراف 16 کتاب ”خدا کی محبت میں قائم رہیں“ میں صفحہ 219-221 کو دیکھیں۔