مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ کی خدمت کریں جو آزادی کا سرچشمہ ہے

یہوواہ کی خدمت کریں جو آزادی کا سرچشمہ ہے

‏”‏جہاں یہوواہ کی روح ہے وہاں آزادی ہے۔‏“‏‏—‏2-‏کُرنتھیوں 3:‏17‏۔‏

گیت:‏ 11،‏  33

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ پولُس رسول کے زمانے میں غلامی اور آزادی لوگوں کی بات‌چیت کا اہم موضوع کیوں تھا؟‏ (‏ب)‏ پولُس نے کس کو حقیقی آزادی کا سرچشمہ کہا؟‏

پہلی صدی عیسوی کے مسیحی اُن علاقوں میں رہتے تھے جن پر روم کی حکومت تھی۔‏ رومی شہریوں کو اپنے قوانین،‏ عدالتی نظام اور آزادی پر بڑا مان تھا۔‏ لیکن روم کی طاقت‌ور سلطنت میں زیادہ‌تر کام غلاموں سے کرائے جاتے تھے۔‏ ایک وقت تو ایسا آیا کہ اِس سلطنت میں ہر تین میں سے ایک شخص غلام تھا۔‏ لہٰذا اِس میں کوئی شک نہیں کہ عام لوگوں جن میں مسیحی بھی شامل تھے،‏ اُن کی گفتگو کا ایک اہم موضوع غلامی اور آزادی تھا۔‏

2 پولُس رسول نے اپنے خطوں میں اکثر آزادی کا ذکر کِیا۔‏ لیکن پولُس کا مقصد سیاسی یا معاشرتی نظام کو بہتر بنانا نہیں تھا جس کی خواہش اُس زمانے کے لوگ رکھتے تھے۔‏ اِس کی بجائے پولُس اور دیگر مسیحیوں نے کڑی محنت کی تاکہ وہ لوگوں کو خدا کی بادشاہت کی خوش‌خبری سنائیں اور یہ سمجھنے میں اُن کی مدد کریں کہ یسوع مسیح نے جو فدیہ دیا،‏ وہ کتنا بیش‌قیمت تھا۔‏ پولُس نے مسیحیوں کو بتایا کہ حقیقی آزادی کا سرچشمہ کیا ہے۔‏ کُرنتھیوں کے نام اپنے دوسرے خط میں اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏یہوواہ روح ہے اور جہاں یہوواہ کی روح ہے وہاں آزادی ہے۔‏“‏—‏2-‏کُرنتھیوں 3:‏17‏۔‏

3،‏ 4.‏ ‏(‏الف)‏ 2-‏کُرنتھیوں 3:‏17 سے پچھلی آیتوں میں پولُس نے کس بارے میں بات کی؟‏ (‏ب)‏ ہمیں اُس آزادی کو حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے جو یہوواہ دیتا ہے؟‏

3 دوسرا کُرنتھیوں 3:‏17 میں درج بات لکھنے سے پہلے پولُس نے اُس واقعے کا ذکر کِیا جب موسیٰ یہوواہ کے فرشتے کی حضوری میں رہنے کے بعد کوہِ‌سینا سے نیچے اُترے۔‏ اُس وقت موسیٰ کا چہرہ بےحد چمک رہا تھا۔‏ جب بنی‌اِسرائیل نے موسیٰ کو دیکھا تو وہ ڈر گئے اِس لیے موسیٰ نے اپنے چہرے پر نقاب ڈال لیا۔‏ (‏خروج 34:‏29،‏ 30،‏ 33؛‏ 2-‏کُرنتھیوں 3:‏7،‏ 13‏)‏ پولُس نے لکھا:‏ ”‏لیکن جب ایک شخص یہوواہ کی طرف لوٹ آتا ہے تو نقاب ہٹا دیا جاتا ہے۔‏“‏ (‏2-‏کُرنتھیوں 3:‏16‏)‏ اُن کی اِس بات کا کیا مطلب تھا؟‏

4 پچھلے مضمون میں ہم نے سیکھا تھا کہ چونکہ یہوواہ سب چیزوں کا خالق ہے اِس لیے صرف وہی لامحدود آزادی کا مالک ہے۔‏ ابھی ہم نے اِس بات پر غور کِیا ہے کہ ”‏جہاں یہوواہ کی روح ہے وہاں آزادی ہے۔‏“‏ لہٰذا یہ بالکل واضح ہے کہ حقیقی آزادی پانے کے لیے ہمیں یہوواہ کی طرف لوٹ آنا چاہیے یعنی اُس کی قربت حاصل کرنی چاہیے۔‏ جب بنی‌اِسرائیل ویرانے میں تھے تو اُنہوں نے معاملات کو یہوواہ کی نظر سے نہیں بلکہ اِنسانی نقطۂ‌نظر سے دیکھا۔‏ یہ ایسے ہی تھا جیسے اُن کے دلوں اور دماغوں پر نقاب پڑا ہو۔‏ وہ لوگ اُس آزادی کو اپنی خواہشیں پوری کرنے کے لیے اِستعمال کرنا چاہتے تھے جو اُنہیں مصر کی غلامی سے ملی تھی۔‏—‏عبرانیوں 3:‏8-‏10‏۔‏

ایک شخص کو قید میں ہوتے ہوئے بھی آزادی حاصل ہو سکتی ہے۔‏

5.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ کی روح ہمیں کن معنوں میں آزاد کراتی ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ ایک شخص قید میں ہونے کے باوجود بھی اُس آزادی کو حاصل کر سکتا ہے جو یہوواہ دیتا ہے؟‏ (‏ج)‏ ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

5 یہوواہ کی روح نے بنی‌اِسرائیل کو مصر کی غلامی سے آزاد کرایا۔‏ لیکن اِس روح کے ذریعے ملنے والی آزادی اُس آزادی سے کہیں افضل ہے جو اِنسانی غلامی سے ملتی ہے۔‏ یہوواہ کی روح ہمیں گُناہ اور موت سے اور جھوٹے مذاہب اور اِن کے رسم‌ورواج سے آزاد کرتی ہے۔‏ (‏رومیوں 6:‏23؛‏ 8:‏2‏)‏ یہ واقعی بہت شان‌دار آزادی ہے۔‏ یہاں تک کہ جو شخص قید میں ہے،‏ وہ بھی یہ آزادی حاصل کر سکتا ہے۔‏ (‏پیدایش 39:‏20-‏23‏)‏ مثال کے طور پر بھائی ہیرلڈ کنگ اپنے ایمان پر قائم رہنے کی وجہ سے کئی سال تک قید میں رہے۔‏ لیکن اُنہیں یہ آزادی حاصل تھی۔‏ آپ اُن کا اِنٹرویو ‏”‏جےڈبلیو لائبریری“‏ میں دیکھ سکتے ہیں۔‏ (‏اِس کے لیے حصہ INTERVIEWS AND EXPERIENCES کے تحت ENDURING TRIALS پر جائیں۔‏)‏ آئیں،‏ اب دو اہم سوالوں پر غور کریں۔‏ ہم یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم اپنی آزادی کو عزیز خیال کرتے ہیں؟‏ اور ہم اپنی آزادی کو سمجھ‌داری سے کیسے اِستعمال کر سکتے ہیں؟‏

خدا کی طرف سے ملنے والی آزادی کی قدر کریں

6.‏ بنی‌اِسرائیل نے اُس آزادی کے لیے ناشکری کیسے ظاہر کی جو یہوواہ نے اُنہیں بخشی تھی؟‏

6 جب کوئی شخص ہمیں خوب‌صورت تحفہ دیتا ہے تو ہم اُس کے بہت شکرگزار ہوتے ہیں۔‏ لیکن بنی‌اِسرائیل نے آزادی کی اُس نعمت کے لیے شکرگزاری ظاہر نہیں کی جو یہوواہ نے اُنہیں بخشی تھی۔‏ جب یہوواہ نے اُنہیں مصر کی غلامی سے رِہائی دِلائی تو اُس کے کچھ ہی مہینے بعد وہ کھانے پینے کی اُن چیزوں کے لیے ترسنے لگے جو اُنہیں مصر میں میسر تھیں۔‏ وہ اِس بات پر شکایت کرنے لگے کہ اُنہیں من کے سوا کچھ کھانے کو نہیں مل رہا۔‏ یہاں تک کہ وہ مصر واپس جانے کی خواہش کرنے لگے۔‏ اُن کی نظر میں اِس بات کی زیادہ اہمیت نہیں تھی کہ اب وہ آزادی سے یہوواہ کی عبادت کر سکتے ہیں۔‏ اِس کی بجائے وہ ’‏مچھلی اور کھیرے اور خربوزے اور گندنے اور پیاز اور لہسن‘‏ کو اہم سمجھ رہے تھے۔‏ اِس وجہ سے یہوواہ اُن سے سخت ناخوش ہوا۔‏ (‏گنتی 11:‏5،‏ 6،‏ 10؛‏ 14:‏3،‏ 4‏)‏ بنی‌اِسرائیل کی مثال پر غور کرنے سے ہم ایک اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏

7.‏ دوسرا کُرنتھیوں 6:‏1 میں پولُس نے جو ہدایت دی،‏ اُس پر اُنہوں نے خود کیسے عمل کِیا اور ہم پولُس کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

7 پولُس نے سب مسیحیوں کو خبردار کِیا کہ وہ کبھی بھی اُس آزادی کی ناشکری نہ کریں جو یہوواہ نے یسوع کے ذریعے اُنہیں بخشی ہے۔‏ ‏(‏2-‏کُرنتھیوں 6:‏1 کو پڑھیں۔‏)‏ پولُس نے کہا کہ اُنہیں اِس بات سے سخت تکلیف پہنچتی ہے کہ وہ عیب‌دار ہیں اور گُناہ اور موت کے غلام ہیں۔‏ پھر بھی اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں خدا کا شکر کرتا ہوں جس نے ہمارے مالک یسوع مسیح کے ذریعے مجھے بچایا ہے!‏“‏ پولُس نے ایسا کیوں کہا؟‏ اُنہوں نے بتایا:‏ ”‏کیونکہ پاک روح جو مسیح یسوع کے ذریعے زندگی دیتی ہے،‏ اُس کی شریعت نے آپ کو گُناہ اور موت کی شریعت سے آزاد کر دیا ہے۔‏“‏ (‏رومیوں 7:‏24،‏ 25؛‏ 8:‏2‏)‏ پولُس کی طرح ہمیں بھی یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہوواہ نے ہمیں گُناہ اور موت کی غلامی سے آزاد کرایا ہے۔‏ اُس نے ہمارے لیے فدیے کا بندوبست کِیا ہے جس کی بدولت ہم صاف ضمیر کے ساتھ اُس کی عبادت کر سکتے ہیں اور ایسا کرنے سے خوشی پا سکتے ہیں۔‏—‏زبور 40:‏8‏۔‏

کیا آپ اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کی آزادی کو یہوواہ کی خدمت کرنے کے لیے اِستعمال کر رہے ہیں یا اپنی خواہشات پوری کرنے کے لیے؟‏ (‏پیراگراف 8-‏10 کو دیکھیں۔‏)‏

8،‏ 9.‏ ‏(‏الف)‏ پطرس رسول نے آزادی کے اِستعمال کے حوالے سے مسیحیوں کو کیا نصیحت کی؟‏ (‏ب)‏ ایک شخص اپنی آزادی کا غلط اِستعمال کرنے کے خطرے میں کیسے پڑ سکتا ہے؟‏

8 یہ بہت اچھی بات ہے کہ ہم اُس آزادی کے لیے یہوواہ کے شکرگزار ہوں جو اُس نے ہمیں بخشی ہے۔‏ لیکن صرف اِتنا کافی نہیں ہے۔‏ ہمیں یہ احتیاط بھی برتنی چاہیے کہ ہم اِس آزادی کا غلط اِستعمال نہ کریں۔‏ اِس سلسلے میں پطرس رسول نے مسیحیوں کو خبردار کِیا کہ اُنہیں اپنی آزادی کو غلط کام کرنے کا بہانہ نہیں بنانا چاہیے۔‏ ‏(‏1-‏پطرس 2:‏16 کو پڑھیں۔‏)‏ پطرس کی نصیحت ہمیں یہ یاد دِلاتی ہے کہ ویرانے میں بنی‌اِسرائیل نے کیا کِیا تھا۔‏ البتہ آج ہمیں اِس نصیحت پر زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے۔‏ شیطان کی دُنیا میں لباس،‏ کھانے پینے اور تفریح کے حوالے بہت سی ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جن پر ہمارا دل آ سکتا ہے۔‏ اکثر اِشتہارات میں خوب‌صورت لوگوں کے ذریعے ہمیں ایسی چیزیں خریدنے کے لیے مائل کِیا جاتا ہے جن کی اصل میں ہمیں ضرورت نہیں ہوتی۔‏ لہٰذا ہم بڑی آسانی سے شیطان کی دُنیا کے جھانسے میں آ کر اپنی آزادی کا غلط اِستعمال کرنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔‏

9 پطرس کی نصیحت زندگی کے زیادہ اہم معاملات پر بھی لاگو ہوتی ہے جیسے کہ ہم کتنی تعلیم حاصل کریں گے اور کون سی ملازمت کریں گے۔‏ آج‌کل نوجوانوں پر یہ دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ خوب محنت سے پڑھائی کریں تاکہ اُنہیں اچھی اچھی یونیورسٹیوں میں داخلہ مل جائے۔‏ اُن سے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے تو اُنہیں اچھی نوکری ملے گی،‏ وہ بہت سا پیسہ کما سکیں گے اور اُن کی عزت کی جائے گی۔‏ شاید لوگ اُنہیں ایسے اعدادوشمار دِکھائیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یونیورسٹی سے ڈگری لینے والوں اور بنیادی تعلیم حاصل کرنے والوں کی آمدنی میں بہت فرق ہے۔‏ لہٰذا جب نوجوانوں کو ایسے فیصلے کرنے ہوتے ہیں جن کا اثر اُن کی ساری زندگی پر ہو سکتا ہے تو اُنہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا دانش‌مندی کی بات لگ سکتی ہے۔‏ لیکن نوجوانوں اور اُن کے والدین کو کیا یاد رکھنا چاہیے؟‏

10.‏ ہمیں ذاتی معاملات کے سلسلے میں فیصلے کرتے وقت کس بات کو یاد رکھنا چاہیے؟‏

10 کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ یہ ذاتی معاملات ہیں اِس لیے اُنہیں یہ آزادی ملنی چاہیے کہ وہ اِن معاملات کے بارے میں اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں۔‏ شاید وہ پولُس رسول کے اِن الفاظ کا حوالہ دیں:‏ ”‏یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کسی دوسرے کا ضمیر میری آزادی کے بارے میں فیصلہ کرے؟‏“‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 10:‏29‏،‏ اُردو جیو ورشن‏)‏ یہ سچ ہے کہ ہمیں تعلیم اور ملازمت کے سلسلے میں اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کی آزادی ہے۔‏ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری آزادی پر حدیں لگی ہیں اور ہمارے فیصلوں کا اثر نہ صرف ہم پر بلکہ دوسروں پر بھی ہو سکتا ہے۔‏ اِسی لیے پولُس رسول نے کہا:‏ ”‏سب چیزیں جائز ہیں لیکن سب چیزیں فائدہ‌مند نہیں ہیں۔‏ سب چیزیں جائز ہیں لیکن سب چیزیں حوصلہ‌افزائی کا باعث نہیں ہیں۔‏“‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 10:‏23‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ ہمیں ذاتی معاملات کے سلسلے میں فیصلے کرنے کی آزادی ہے تو بھی ایسے فیصلے کرتے وقت ہمیں اپنی پسند ناپسند کو سب سے زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔‏

اپنی آزادی کو سمجھ‌داری سے اِستعمال کریں

11.‏ یہوواہ نے ہمیں آزادی کیوں بخشی ہے؟‏

11 جب پطرس نے مسیحیوں کو خبردار کِیا کہ وہ اپنی آزادی کو غلط طریقے سے اِستعمال نہ کریں تو اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ اِسے اِستعمال کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔‏ اُنہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی آزادی کو ”‏خدا کے غلاموں کے طور پر“‏ اِستعمال کرنا چاہیے۔‏ یہوواہ خدا نے ہمیں یسوع مسیح کے ذریعے گُناہ اور موت کی غلامی سے اِس لیے آزاد کرایا ہے تاکہ ہم پوری زندگی جی جان سے اُس کی خدمت کر سکیں۔‏

اپنی آزادی کا بہترین اِستعمال کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم لگن سے یہوواہ کی خدمت کریں۔‏

12.‏ نوح اور اُن کے خاندان نے ہمارے لیے کیسی مثال قائم کی؟‏

12 اپنی آزادی کا بہترین اِستعمال کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم لگن سے یہوواہ کی خدمت کریں۔‏ جب ہم ایسا کریں گے تو ہمارا دھیان دُنیا میں منصوبے بنانے کی طرف نہیں جائے گا اور ہم اپنی خواہشات کو سب سے زیادہ اہمیت نہیں دیں گے۔‏ (‏گلتیوں 5:‏16‏)‏ اِس حوالے سے نوح اور اُن کے خاندان کی مثال پر غور کریں۔‏ اُن کے زمانے میں دُنیا ظلم‌وتشدد اور بدکاری سے بھری ہوئی تھی۔‏ لیکن وہ اُس دُنیا کے لوگوں کے رنگ میں نہیں رنگے اور اُن چیزوں کے پیچھے نہیں بھاگے جن کے پیچھے اُس زمانے کے لوگ بھاگ رہے تھے۔‏ وہ اُس کام میں مشغول رہے جو یہوواہ نے اُنہیں دیا تھا۔‏ اُنہوں نے کشتی بنائی،‏ اپنے لیے اور جانوروں کے لیے کھانا اِکٹھا کِیا اور دوسروں کو آنے والی مصیبت کے بارے میں خبردار کِیا۔‏ ”‏نوؔح نے .‏ .‏ .‏ جیسا خدا نے اُسے حکم دیا تھا ویسا ہی عمل کِیا۔‏“‏ (‏پیدایش 6:‏22‏)‏ ایسا کرنے سے نوح اُس دُنیا کے خاتمے سے اپنی اور اپنے گھر والوں کی جان بچانے کے قابل ہوئے۔‏—‏عبرانیوں 11:‏7‏۔‏

13.‏ مسیحیوں کو کون سی ذمےداری سونپی گئی ہے؟‏

13 آج یہوواہ نے ہمیں کیا کرنے کا حکم دیا ہے؟‏ ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ نے یسوع کو مُنادی کرنے کی ذمےداری دی اور یسوع نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ وہ مُنادی کے کام کو آگے بڑھائیں۔‏ ‏(‏لُوقا 4:‏18،‏ 19 کو پڑھیں۔‏)‏ آج شیطان نے زیادہ‌تر لوگوں کی عقلوں پر پردہ ڈالا ہوا ہے اِس لیے لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ جھوٹے مذاہب،‏ سیاسی نظام اور پیسوں اور چیزوں کے غلام ہیں۔‏ (‏2-‏کُرنتھیوں 4:‏4‏)‏ یسوع کی طرح ہمارے پاس بھی یہ اعزاز ہے کہ ہم حقیقی آزادی کے سرچشمے یعنی یہوواہ خدا کے بارے میں جاننے اور اُس کی عبادت کرنے میں لوگوں کی مدد کریں۔‏ (‏متی 28:‏19،‏ 20‏)‏ لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔‏ بعض ملکوں میں لوگوں کو خدا کے بارے میں جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور کچھ لوگ تو اُس وقت غصے میں آ جاتے ہیں جب ہم اُنہیں گواہی دیتے ہیں۔‏ لیکن چونکہ یہوواہ نے ہمیں مُنادی کرنے کا حکم دیا ہے اِس لیے ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے:‏ ”‏کیا مَیں اپنی آزادی کو اِستعمال کر کے یہوواہ کی خدمت میں زیادہ حصہ لے سکتا ہوں؟‏“‏

14،‏ 15.‏ یہوواہ کے بہت سے بندوں نے کیا کرنے کا فیصلہ کِیا ہے؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

14 دُنیا کے خاتمے کی نزدیکی کے پیشِ‌نظر بہت سے بہن بھائیوں نے اپنی زندگیوں کو سادہ بنا لیا ہے اور پہل‌کار کے طور پر خدمت شروع کر دی ہے۔‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 9:‏19،‏ 23‏)‏ کچھ بہن بھائی اپنی مقامی کلیسیا کے ساتھ مل کر پہل‌کار کے طور پر خدمت کر رہے ہیں جبکہ کچھ ایسے علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں جہاں مبشروں کی زیادہ ضرورت ہے۔‏ پچھلے پانچ سال کے دوران 2 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ بہن بھائی پہل‌کار بنے ہیں اور اب پہل‌کاروں کی تعداد 11 لاکھ سے زیادہ ہے۔‏ کیا یہ بات آپ کے دل کو گرما نہیں دیتی کہ اِتنے زیادہ لوگ اِس طرح سے یہوواہ کی خدمت میں مصروف ہیں اور اپنی آزادی کا سمجھ‌داری سے اِستعمال کر رہے ہیں؟‏—‏زبور 110:‏3‏۔‏

15 یہ بہن بھائی اپنی آزادی کو سمجھ‌داری سے اِستعمال کرنے کے قابل کیسے ہوئے ہیں؟‏ اِس حوالے سے جان اور جوڈِتھ کی مثال پر غور کریں جنہوں نے پچھلے 30 سال کے دوران مختلف ملکوں میں خدمت کی ہے۔‏ اُنہوں نے بتایا کہ جب 1977ء میں پہل‌کاروں کے لیے سکول شروع ہوا تو پہل‌کاروں کی حوصلہ‌افزائی کی گئی کہ وہ خدمت کے لیے اُن علاقوں میں منتقل ہوں جہاں مبشروں کی زیادہ ضرورت تھی۔‏ جان اور جوڈِتھ نے بھی ایسا کرنے کا منصوبہ بنایا۔‏ جان نے بتایا کہ اُنہیں وقتاً فوقتاً اپنی نوکری تبدیل کرنی پڑی تاکہ وہ اپنی زندگی کو سادہ رکھ سکیں اور اپنا دھیان اِس منصوبے پر رکھ سکیں۔‏ آخرکار وہ مُنادی کے کام کے سلسلے میں ایک دوسرے ملک منتقل ہو گئے۔‏ اُنہیں اُس ملک کی زبان سیکھنے اور وہاں کی ثقافت اور آب‌وہوا کے مطابق ڈھلنے میں جن مشکلات کا سامنا ہوا،‏ وہ اِن پر قابو پانے کے قابل کیسے ہوئے؟‏ اُنہوں نے یہوواہ سے دُعا کی اور مدد کے لیے اُس پر بھروسا رکھا۔‏ جان نے بتایا کہ وہ اِن سالوں کے دوران پہل‌کار کے طور پر خدمت کرنے کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مجھے لگا کہ مَیں ایک ایسے کام میں مشغول ہوں جس سے اچھا کام کوئی اَور ہو ہی نہیں سکتا۔‏ یہوواہ میرے لیے بالکل ایسا ہی بن گیا جیسا ایک باپ ہوتا ہے۔‏ اب مَیں اِس بات کے مطلب کو پہلے سے بہتر طور پر جان گیا ہوں جو یعقوب 4:‏8 میں لکھی ہے:‏ ”‏خدا کے قریب جائیں تو وہ آپ کے قریب آئے گا۔‏“‏ مَیں چاہتا تھا کہ میری زندگی میں کوئی مقصد ہو جس سے مجھے خوشی ملے۔‏ اور اب مجھے یہ مقصد مل گیا ہے۔‏“‏

16.‏ ہزاروں بہن بھائیوں نے سمجھ‌داری سے اپنی آزادی کا اِستعمال کیسے کیا ہے؟‏

16 بعض بہن بھائی جان اور جوڈِتھ کی طرح ایک لمبے عرصے تک کُل‌وقتی خدمت کرتے ہیں جبکہ بعض اپنے حالات کی وجہ سے تھوڑے وقت کے لیے ایسا کر پاتے ہیں۔‏ بہت سے بہن بھائی پوری دُنیا میں ہماری تنظیم کے تعمیراتی کاموں میں رضاکاروں کے طور پر خدمت کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر تقریباً 27 ہزار بہن بھائی نیو یارک کے علاقے واروِک میں ہماری تنظیم کے مرکزی دفتر کی تعمیر میں مدد کرنے آئے۔‏ اِن میں سے کچھ دو ہفتوں،‏ کچھ چند مہینوں جبکہ کچھ ایک سال یا اِس سے زیادہ عرصے کے لیے آئے۔‏ کئی بہن بھائیوں نے اِس کام کے لیے بڑی قربانیاں دیں۔‏ اُنہوں نے اپنی آزادی کو یہوواہ کی بڑائی کرنے کے لیے اِستعمال کِیا جو حقیقی آزادی کا سرچشمہ ہے۔‏ اِس طرح اُنہوں نے ہمارے لیے شان‌دار مثال قائم کی ہے۔‏

17.‏ اگر ہم ابھی اپنی آزادی کو سمجھ‌داری سے اِستعمال کریں گے تو مستقبل میں ہمیں کیا ملے گا؟‏

17 ہم یہوواہ کے بےحد شکرگزار ہیں کہ ہمیں اُس کے بارے میں جاننے کا موقع ملا ہے اور وہ آزادی حاصل ہوئی ہے جو اُس کی عبادت کرنے سے ملتی ہے۔‏ لہٰذا آئیں،‏ اپنے فیصلوں سے یہ ظاہر کریں کہ ہم اپنی آزادی کو عزیز خیال کرتے ہیں۔‏ اور یہ عزم کریں کہ ہم اِس آزادی کا غلط اِستعمال کرنے کی بجائے اِسے جی جان سے یہوواہ کی خدمت کرنے کے لیے اِستعمال کریں گے۔‏ پھر ہم وہ برکتیں حاصل کر پائیں گے جو یہوواہ اپنے بندوں کو اُس وقت دے گا جب یہ پیش‌گوئی پوری ہوگی:‏ ’‏مخلوقات تباہی کی غلامی سے آزاد ہو جائیں گی اور خدا کی اولاد کی شان‌دار آزادی کا مزہ لیں گی۔‏‘‏—‏رومیوں 8:‏21‏۔‏