مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ کی طرح دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کریں

یہوواہ کی طرح دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کریں

‏”‏خدا کی بڑائی ہو جو .‏ .‏ .‏ طرح طرح کی مصیبتوں [‏میں]‏ ہمیں تسلی دیتا ہے۔‏“‏‏—‏2-‏کُرنتھیوں 1:‏3،‏ 4‏۔‏ *

گیت:‏ 23،‏ 43

1.‏ آدم اور حوا کی بغاوت کے بعد خدا نے کیا کِیا جس سے اُن کی ہونے والی اولاد کو اُمید اور حوصلہ مل سکتا تھا؟‏

یہوواہ خدا دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرتا ہے۔‏ جب آدم اور حوا نے باغِ‌عدن میں خدا کے خلاف بغاوت کی تو اِس کے فوراً بعد خدا نے ایک پیش‌گوئی کی۔‏ اِس پیش‌گوئی سے آدم اور حوا کی ہونے والی اولاد کو اُمید اور حوصلہ ملنا تھا۔‏ یہ پیش‌گوئی پیدایش 3:‏15 میں درج ہے جس میں خدا نے وعدہ کِیا کہ وہ شیطان اِبلیس اور اُس کے کاموں کو ختم کر دے گا۔‏—‏1-‏یوحنا 3:‏8؛‏ مکاشفہ 12:‏9‏۔‏

یہوواہ نے ماضی میں اپنے بندوں کی حوصلہ‌افزائی کی

2.‏ یہوواہ خدا نے نوح کی حوصلہ‌افزائی کیسے کی؟‏

2 آئیں،‏ دیکھیں کہ یہوواہ نے اپنے بندے نوح کی حوصلہ‌افزائی کیسے کی۔‏ نوح ایسے لوگوں کے بیچ رہتے تھے جو دوسروں پر ظلم کرتے تھے اور بدکاری میں پڑے ہوئے تھے۔‏ صرف نوح اور اُن کا خاندان ہی یہوواہ کی عبادت کرتا تھا۔‏ ایسے بُرے ماحول کی وجہ سے نوح بےحوصلہ ہو سکتے تھے۔‏ (‏پیدایش 6:‏4،‏ 5،‏ 11؛‏ یہوداہ 6‏)‏ لیکن خدا نے نوح کو ایسی معلومات دیں جن کی بدولت اُن کو یہ حوصلہ ملا کہ وہ ’‏خدا کے ساتھ ساتھ چلتے رہیں۔‏‘‏ (‏پیدایش 6:‏9‏)‏ یہوواہ خدا نے نوح کو بتایا کہ وہ بُری دُنیا کو تباہ کرنے والا ہے۔‏ اُس نے اُن کو یہ بھی بتایا کہ اِس تباہی سے بچنے کے لیے وہ اور اُن کا خاندان کیا کر سکتا ہے۔‏ (‏پیدایش 6:‏13-‏18‏)‏ بِلاشُبہ یہوواہ خدا کی باتیں نوح کے لیے حوصلہ‌افزائی کا باعث بنیں۔‏

3.‏ یہوواہ خدا نے یشوع کا حوصلہ کیسے بڑھایا؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

3 سینکڑوں سال بعد یہوواہ خدا نے اپنے بندے یشوع کا حوصلہ بھی بڑھایا جنہیں ایک بہت بڑی ذمےداری نبھانی تھی۔‏ اُنہیں خدا کے بندوں کو ملک کنعان لے جانا تھا اور اُن طاقت‌ور قوموں کو شکست دینی تھی جو وہاں بسی ہوئی تھیں۔‏ یہوواہ جانتا تھا کہ اِتنی بھاری ذمےداری کی وجہ سے یشوع خوف‌زدہ ہو سکتے ہیں۔‏ اِس لیے اُس نے موسیٰ سے کہا:‏ ”‏یشوؔع کو وصیت کر اور اُس کی حوصلہ‌افزائی کر کے اُسے مضبوط کر کیونکہ وہ اِن لوگوں کے آگے پار جائے گا اور وہی اِن کو اُس ملک کا جسے تُو دیکھ لے گا مالک بنائے گا۔‏“‏ (‏اِستثنا 3:‏28‏)‏ پھر یہوواہ خدا نے خود یشوع کی حوصلہ‌افزائی کرتے ہوئے اُن سے کہا:‏ ”‏کیا مَیں نے تجھ کو حکم نہیں دیا؟‏ سو مضبوط ہو جا اور حوصلہ رکھ خوف نہ کھا اور بےدل نہ ہو کیونکہ [‏یہوواہ]‏ تیرا خدا جہاں جہاں تُو جائے تیرے ساتھ رہے گا۔‏“‏ (‏یشوع 1:‏1،‏ 9‏)‏ ذرا سوچیں کہ یہوواہ خدا کی بات سُن کر یشوع کو کیسا لگا ہوگا۔‏

4،‏ 5.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ خدا نے ماضی میں اپنے بندوں کی حوصلہ‌افزائی کیسے کی؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ نے اپنے بیٹے کا حوصلہ کیسے بڑھایا؟‏

4 یہوواہ نے اِجتماعی طور پر بھی اپنے بندوں کی حوصلہ‌افزائی کی۔‏ مثال کے طور پر یہوواہ اِس بات سے واقف تھا کہ جب یہودی بابل کی غلامی میں جائیں گے تو وہاں اُنہیں حوصلہ‌افزائی کی ضرورت ہوگی۔‏ لہٰذا اُس نے پہلے ہی یہ پیش‌گوئی کر دی تھی:‏ ”‏تُو مت ڈر کیونکہ مَیں تیرے ساتھ ہوں۔‏ ہراساں نہ ہو کیونکہ مَیں تیرا خدا ہوں مَیں تجھے زور بخشوں گا۔‏ مَیں یقیناً تیری مدد کروں گا اور مَیں اپنی صداقت کے دہنے ہاتھ سے تجھے سنبھالوں گا۔‏“‏ (‏یسعیاہ 41:‏10‏)‏ بعد میں یہوواہ خدا نے پہلی صدی عیسوی میں رہنے والے مسیحیوں کی بھی حوصلہ‌افزائی کی اور بالکل اُسی طرح وہ ہمارا بھی حوصلہ بڑھاتا ہے۔‏‏—‏2-‏کُرنتھیوں 1:‏3،‏ 4 کو پڑھیں۔‏

5 یہوواہ خدا نے اپنے بیٹے کی حوصلہ‌افزائی بھی کی۔‏ یسوع کے بپتسمے کے بعد آسمان سے یہ آواز سنائی دی:‏ ”‏یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں۔‏“‏ (‏متی 3:‏17‏)‏ تصور کریں کہ اِن الفاظ سے یسوع کو زمین پر مُنادی کا کام کرنے کے لیے کتنی ہمت ملی ہوگی!‏

یسوع مسیح نے دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کی

6.‏ یسوع نے چاندی والی جو مثال دی،‏ اُس سے ہمیں کیا حوصلہ مل سکتا ہے؟‏

6 یسوع مسیح نے بھی اپنے آسمانی باپ کی مثال پر عمل کِیا۔‏ اُنہوں نے دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ وفاداری سے خدا کی خدمت کرتے رہیں۔‏ اِس سلسلے میں اُنہوں نے ایک مثال دی جس میں ایک مالک پردیس جانے سے پہلے اپنے غلاموں کو چاندی دے کر جاتا ہے۔‏ اور جب مالک واپس آتا ہے تو وہ سب وفادار غلاموں سے کہتا ہے:‏ ”‏شاباش،‏ اچھے اور وفادار غلام!‏ تُم نے تھوڑی چیزوں کی ذمےداری کو اچھی طرح نبھایا۔‏ اِس لیے مَیں تمہیں بہت سی چیزوں کی ذمےداری دوں گا۔‏ آؤ،‏ اپنے مالک کی خوشی میں شریک ہو۔‏“‏ (‏متی 25:‏21،‏ 23‏)‏ اِن الفاظ سے یسوع کے شاگردوں کو یہ حوصلہ ملا کہ وہ وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرتے رہیں۔‏

یسوع نے پطرس کی حوصلہ‌افزائی کی اور اُنہیں یہ ذمےداری سونپی کہ وہ بھی دوسروں کی ہمت بندھائیں۔‏

7.‏ یسوع مسیح نے رسولوں،‏ خاص طور پر پطرس کی حوصلہ‌افزائی کیسے کی؟‏

7 حالانکہ رسول اکثر یہ بحث کِیا کرتے تھے کہ اُن میں بڑا کون ہے لیکن یسوع ہمیشہ اُن کے ساتھ بڑے صبر سے پیش آتے تھے۔‏ اُنہوں نے رسولوں کی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ خاکسار بنیں اور دوسروں سے خدمت کروانے کی بجائے اُن کی خدمت کریں۔‏ (‏لُوقا 22:‏24-‏26‏)‏ خاص طور پر پطرس نے کئی مرتبہ غلطیاں کیں اور یسوع کو مایوس کِیا۔‏ ‏(‏متی 16:‏21-‏23؛‏ 26:‏31-‏35،‏ 75‏)‏ لیکن یسوع نے اُنہیں کبھی رد نہیں کِیا۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے پطرس کی حوصلہ‌افزائی کی اور اُنہیں یہ ذمےداری سونپی کہ وہ بھی دوسروں کی ہمت بندھائیں۔‏—‏یوحنا 21:‏16‏۔‏

حوصلہ‌افزائی کرنے کے حوالے سے قدیم زمانے سے کچھ مثالیں

8.‏ حِزقیاہ نے فوجی افسروں اور یہوداہ کے لوگوں کی حوصلہ‌افزائی کیسے کی؟‏

8 ہم نے دیکھا ہے کہ یسوع مسیح نے زمین پر آ کر دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کی کامل مثال قائم کی۔‏ لیکن یسوع کے زمین پر آنے سے پہلے بھی خدا کے بندے یہ جانتے تھے کہ اُنہیں دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنی چاہیے۔‏ اِس سلسلے میں ذرا حِزقیاہ بادشاہ کی مثال پر غور کریں۔‏ جب اسوری فوج یروشلیم پر حملہ کرنے والی تھی تو حِزقیاہ نے فوجی افسروں اور دوسرے لوگوں کو جمع کِیا تاکہ وہ اُن کی حوصلہ‌افزائی کریں۔‏ لوگوں نے ”‏حِزقیاؔہ کی باتوں پر تکیہ کِیا“‏ اور اُن کے حوصلے بلند ہوئے۔‏‏—‏2-‏تواریخ 32:‏6-‏8 کو پڑھیں۔‏

9.‏ دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے حوالے سے ہم ایوب کی کتاب سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

9 دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے حوالے سے ہم ایوب کی مثال سے بھی اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏ حالانکہ اُنہیں خود حوصلہ‌افزائی کی ضرورت تھی لیکن اُنہوں نے دوسروں کو سکھایا کہ وہ کسی کی حوصلہ‌افزائی کیسے کر سکتے ہیں۔‏ جب ایوب پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تو تین آدمی اُنہیں تسلی دینے آئے۔‏ لیکن یہ آدمی ”‏نکمّے تسلی دینے والے“‏ ثابت ہوئے۔‏ ایوب نے اُن سے کہا کہ اگر اُنہیں کسی کو تسلی دینی ہوتی تو وہ اُس سے ایسی باتیں کہتے جس سے اُس کی ہمت بڑھتی نہ کہ ایسی باتیں جو اُسے تکلیف پہنچاتیں۔‏ (‏ایوب 16:‏1-‏5‏)‏ آخرکار اِلیہو نے اور خود یہوواہ خدا نے ایوب کی حوصلہ‌افزائی کی۔‏—‏ایوب 33:‏24،‏ 25؛‏ 36:‏1،‏ 11؛‏ 42:‏7،‏ 10‏۔‏

10،‏ 11.‏ ‏(‏الف)‏ اِفتاح کی بیٹی کو حوصلہ‌افزائی کی ضرورت کیوں تھی؟‏ (‏ب)‏ ہم کن کی حوصلہ‌افزائی کر سکتے ہیں؟‏

10 بائبل میں ایک اَور شخص کا بھی ذکر کِیا گیا ہے جسے حوصلہ‌افزائی کی ضرورت تھی۔‏ یہ بنی‌اِسرائیل کے قاضی اِفتاح کی بیٹی تھی۔‏ ایک مرتبہ اِفتاح عمونیوں کے خلاف جنگ لڑنے جا رہے تھے۔‏ اُنہوں نے خدا سے وعدہ کِیا کہ اگر وہ جنگ میں اُنہیں فتح بخشے گا تو اُن کے گھر سے جو پہلا شخص اُن کا اِستقبال کرنے آئے گا،‏ وہ اُسے خیمۂ‌اِجتماع میں خدمت کرنے کے لیے دے دیں گے۔‏ اِسرائیلی جنگ جیت گئے اور اِفتاح کے اِستقبال کے لیے جو پہلا شخص آیا،‏ وہ اُن کی اِکلوتی بیٹی تھی۔‏ اپنی بیٹی کو دیکھتے ہی اِفتاح کا دل بیٹھ گیا۔‏ لیکن اُنہوں نے اپنے وعدے کے مطابق اپنی بیٹی کو خیمۂ‌اِجتماع بھیج دیا تاکہ وہ زندگی بھر وہاں خدمت کرے۔‏—‏قضاۃ 11:‏30-‏35‏۔‏

11 سچ ہے کہ اِفتاح کے لیے اپنے وعدے کو نبھانا آسان نہیں تھا لیکن اُن کی بیٹی کے لیے تو یہ اَور بھی زیادہ کٹھن تھا۔‏ مگر وہ اپنے باپ کے وعدے کو نبھانے کے لیے تیار تھی۔‏ (‏قضاۃ 11:‏36،‏ 37‏)‏ اِس کا مطلب یہ تھا کہ وہ نہ تو کبھی شادی کر سکتی تھی اور نہ ہی بچے پیدا کر سکتی تھی۔‏ اِس لیے اُس کے باپ کی نسل ختم ہو جانی تھی۔‏ اِن سب باتوں کی وجہ سے اُسے بہت زیادہ تسلی اور حوصلہ‌افزائی کی ضرورت تھی۔‏ بائبل کے مطابق ”‏اِسرائیل کی جوان عورتیں ہر سال چار دن کے لیے اِفتاح جلعادی کی بیٹی کو داد دینے جاتی تھیں۔‏“‏ (‏قضاۃ 11:‏40‏،‏ ترجمہ نئی دُنیا‏)‏ اِفتاح کی بیٹی کی مثال سے شاید ہمارے ذہن میں ایسے مسیحی آئیں جو اِس وجہ سے غیرشادی‌شُدہ رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تاکہ وہ یہوواہ کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔‏ کتنا اچھا ہوگا کہ ہم ایسے بہن بھائیوں کو داد دیں اور اُن کی حوصلہ‌افزائی کریں!‏—‏1-‏کُرنتھیوں 7:‏32-‏35‏۔‏

رسولوں نے بہن بھائیوں کی حوصلہ‌افزائی کی

12،‏ 13.‏ پطرس نے ”‏اپنے بھائیوں کا حوصلہ“‏ کیسے بڑھایا؟‏

12 اپنی موت سے ایک رات پہلے یسوع مسیح نے پطرس رسول سے کہا:‏ ”‏شمعون،‏ شمعون،‏ دیکھیں!‏ شیطان نے آپ سب کو مانگا ہے تاکہ آپ کو گندم کی طرح پھٹکے۔‏ لیکن مَیں نے خدا سے اِلتجا کی ہے کہ آپ کا ایمان کمزور نہ پڑے۔‏ اور جب آپ واپس آئیں گے تو اپنے بھائیوں کا حوصلہ بڑھائیں۔‏“‏—‏لُوقا 22:‏31،‏ 32‏۔‏

رسولوں کے خطوں سے پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کو حوصلہ‌افزائی ملی اور آج ہمیں بھی ملتی ہے۔‏ (‏پیراگراف 12-‏17 کو دیکھیں۔‏)‏

13 پطرس پہلی صدی عیسوی میں اُن بھائیوں میں سے ایک تھے جنہیں کلیسیا کے ستون سمجھا جاتا تھا۔‏ (‏گلتیوں 2:‏9‏)‏ اُنہوں نے عیدِپنتِکُست کے موقعے پر اور اِس کے بعد بھی دلیری کا مظاہرہ کِیا اور اُن کی مثال سے بھائیوں کا حوصلہ بڑھا۔‏ جب پطرس کو خدا کی خدمت کرتے ہوئے کئی سال ہو گئے تو اُنہوں نے مسیحیوں کو لکھا:‏ ”‏مَیں نے .‏ .‏ .‏ آپ کو یہ مختصر سا خط لکھا ہے تاکہ آپ کی حوصلہ‌افزائی کروں اور خلوص سے گواہی دوں کہ یہی خدا کی عظیم رحمت ہے۔‏ اِس کے سائے میں رہیں۔‏“‏ (‏1-‏پطرس 5:‏12‏)‏ پطرس کے خطوں سے اُن کے زمانے کے مسیحیوں کا حوصلہ بڑھا۔‏ اور اب جبکہ ہم خدا کے وعدوں کے پورا ہونے کے منتظر ہیں تو اِن خطوں کو پڑھ کر ہمیں بھی حوصلہ ملتا ہے۔‏—‏2-‏پطرس 3:‏13‏۔‏

14،‏ 15.‏ یوحنا رسول نے بائبل کی جو کتابیں لکھیں،‏ اُن سے ہمیں حوصلہ کیسے ملتا ہے؟‏

14 یوحنا رسول بھی اُن بھائیوں میں شامل تھے جنہیں کلیسیا کے ستون سمجھا جاتا تھا۔‏ اُنہوں نے اپنی اِنجیل میں یسوع کی مُنادی کے بہت سے دلچسپ واقعات تحریر کیے۔‏ اِس اِنجیل میں درج بیش‌قیمت سچائیوں کی بدولت سینکڑوں سال تک مسیحیوں کو حوصلہ ملا اور آج بھی مل رہا ہے۔‏ مثال کے طور پر صرف یوحنا ہی کی اِنجیل میں بتایا گیا ہے کہ یسوع نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا کہ محبت اُن کی پہچان ہوگی۔‏‏—‏یوحنا 13:‏34،‏ 35 کو پڑھیں۔‏

15 یوحنا نے جو تین خط لکھے،‏ اُن میں بھی بہت سی سنہری باتیں درج ہیں۔‏ مثال کے طور پر جب ہم اپنی غلطیوں کی وجہ سے بےحوصلہ ہو جاتے ہیں تو ہمیں اِس بات سے تسلی ملتی ہے کہ ”‏یسوع کا خون ہمیں سب گُناہوں سے پاک کر دیتا ہے۔‏“‏ (‏1-‏یوحنا 1:‏7‏)‏ لیکن اگر پھر بھی ہم اپنی غلطیوں پر شرمندگی کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں تو ہمیں اِن الفاظ کو پڑھ کر حوصلہ ملتا ہے کہ ”‏خدا ہمارے دل سے بڑا ہے۔‏“‏ (‏1-‏یوحنا 3:‏20‏)‏ یوحنا بائبل لکھنے والوں میں وہ واحد شخص تھے جنہوں نے لکھا کہ ”‏خدا محبت ہے۔‏“‏ (‏1-‏یوحنا 4:‏8،‏ 16‏)‏ اپنے دوسرے اور تیسرے خط میں اُنہوں نے اُن مسیحیوں کو داد دی جو ”‏سچائی کے مطابق چل رہے“‏ تھے۔‏—‏2-‏یوحنا 4؛‏ 3-‏یوحنا 3،‏ 4‏۔‏

16،‏ 17.‏ پولُس رسول نے پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کی حوصلہ‌افزائی کیسے کی؟‏

16 پولُس رسول نے بھی بھائیوں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے سلسلے میں عمدہ مثال قائم کی۔‏ یسوع مسیح کی موت کے کچھ عرصے بعد زیادہ‌تر رسول یروشلیم میں ہی رُک گئے جہاں گورننگ باڈی جمع ہوتی تھی۔‏ ‏(‏اعمال 8:‏14؛‏ 15:‏2‏)‏ یہودیہ میں رہنے والے مسیحی اُن لوگوں میں مُنادی کر رہے تھے جن کا تعلق یہودی مذہب سے تھا اور جو ایک خدا پر ایمان رکھتے تھے۔‏ لیکن پاک روح کی ہدایت سے پولُس رسول یونانیوں،‏ رومیوں اور دوسری قوموں کے لوگوں کو مُنادی کرنے گئے جو بہت سے دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے۔‏—‏گلتیوں 2:‏7-‏9؛‏ 1-‏تیمُتھیُس 2:‏7‏۔‏

17 پولُس نے اُس علاقے میں بھی مُنادی کی جسے آج‌کل ترکی کہا جاتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ اُنہوں نے یونان اور اِٹلی میں بھی خوش‌خبری سنائی۔‏ اُنہوں نے وہاں غیریہودیوں کو گواہی دی اور کلیسیائیں قائم کیں۔‏ اِن علاقوں کے جن لوگوں نے مسیحی مذہب اپنایا،‏ اُن کے لیے زندگی آسان نہیں تھی۔‏ یہ مسیحی اپنے ہی ہم‌وطنوں کے ہاتھوں اذیت اُٹھا رہے تھے۔‏ اِس لیے اُنہیں حوصلہ‌افزائی کی ضرورت تھی۔‏ (‏1-‏تھسلُنیکیوں 2:‏14‏)‏ 50ء کے لگ بھگ پولُس نے تھسلُنیکے کی کلیسیا کے نام جو حال ہی میں بنی تھی،‏ ایک حوصلہ‌افزا خط لکھا۔‏ اِس میں اُنہوں نے کہا:‏ ”‏جب ہم اپنی دُعاؤں میں آپ کا ذکر کرتے ہیں تو ہم ہمیشہ خدا کا شکر کرتے ہیں اور اپنے خدا اور باپ کے حضور یاد کرتے ہیں کہ آپ نے اپنے ایمان کی وجہ سے کتنا کام کِیا،‏ محبت کی وجہ سے کتنی محنت کی اور .‏ .‏ .‏ کتنی ثابت‌قدمی دِکھائی۔‏“‏ (‏1-‏تھسلُنیکیوں 1:‏2،‏ 3‏)‏ اُنہوں نے وہاں کے بہن بھائیوں کو یہ نصیحت بھی کی کہ وہ ”‏ایک دوسرے کو تسلی دیتے رہیں اور ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے رہیں۔‏“‏—‏1-‏تھسلُنیکیوں 5:‏11‏۔‏

گورننگ باڈی مسیحیوں کی حوصلہ‌افزائی کرتی ہے

18.‏ پہلی صدی عیسوی میں گورننگ باڈی نے فِلپّس کا حوصلہ کیسے بڑھایا؟‏

18 پہلی صدی عیسوی میں یہوواہ خدا نے گورننگ باڈی کے ذریعے کلیسیاؤں کی پیشوائی کرنے والے بھائیوں اور باقی مسیحیوں کی حوصلہ‌افزائی کی۔‏ مثال کے طور پر جب فِلپّس نے سامریوں کو مسیح کے بارے میں مُنادی کی تو گورننگ باڈی نے اُن کی حمایت کی۔‏ اُنہوں نے اپنے دو رُکنوں یعنی پطرس اور یوحنا کو بھیجا کہ وہ نئے مسیحیوں کے لیے دُعا کریں تاکہ اُنہیں پاک روح ملے۔‏ (‏اعمال 8:‏5،‏ 14-‏17‏)‏ بِلاشُبہ فِلپّس اور نئے مسیحیوں کو گورننگ باڈی کی طرف سے ملنے والی حمایت کی وجہ سے بڑا حوصلہ ملا ہوگا۔‏

19.‏ جب پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں نے گورننگ باڈی کے خط کو پڑھا تو اُنہیں کیسا لگا؟‏

19 ایک مرتبہ گورننگ باڈی کو اِس معاملے پر فیصلہ کرنا تھا کہ کیا مسیحی مذہب اپنانے والے غیریہودیوں کو ختنہ کرانا چاہیے جیسے یہودی،‏ موسیٰ کی شریعت کے مطابق کراتے تھے۔‏ (‏اعمال 15:‏1،‏ 2‏)‏ گورننگ باڈی نے اِس معاملے کے بارے میں دُعا کرنے اور صحیفوں میں تحقیق کرنے کے بعد یہ فیصلہ کِیا کہ اُن مسیحیوں کے لیے ختنہ کرانا ضروری نہیں۔‏ پھر اُنہوں نے کلیسیاؤں کو اپنے فیصلے کے بارے میں بتانے کے لیے ایک خط لکھا جسے مختلف بھائیوں کے ہاتھ بھیجا گیا۔‏ جب کلیسیاؤں نے اِس خط کو پڑھا تو وہ اِس میں لکھی ”‏حوصلہ‌افزا باتوں سے بہت خوش ہوئے۔‏“‏—‏اعمال 15:‏27-‏32‏۔‏

20.‏ ‏(‏الف)‏ آج‌کل گورننگ باڈی ہم سب کی حوصلہ‌افزائی کیسے کرتی ہے؟‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں کس سوال پر بات کی جائے گی؟‏

20 آج بھی یہوواہ کے گواہوں کی گورننگ باڈی بیت‌ایل میں خدمت کرنے والوں،‏ دیگر خصوصی کُل‌وقتی خادموں اور باقی سب مسیحیوں کی حوصلہ‌افزائی کرتی ہے۔‏ پہلی صدی عیسوی کے بھائیوں کی طرح ہمیں بھی اُن کی طرف سے ملنے والی حوصلہ‌افزائی سے بڑی خوشی ملتی ہے۔‏ اِس کے علاوہ جو لوگ یہوواہ سے دُور ہو گئے ہیں،‏ اُن کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے لیے گورننگ باڈی نے 2015ء میں ایک کتاب شائع کی جس کا عنوان ہے:‏ ‏”‏یہوواہ کے پاس لوٹ آئیں۔‏‏“‏ لیکن کیا دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کی ذمےداری صرف اُن بھائیوں کی ہے جو کلیسیا کی پیشوائی کرتے ہیں یا کیا یہ ہم سب کی ذمےداری ہے؟‏ اِس سوال کا جواب اگلے مضمون میں دیا جائے گا۔‏

^ پیراگراف 2 اِن آیتوں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏تسلی“‏ کِیا گیا ہے،‏ وہ ”‏حوصلہ‌افزائی“‏ کے معنی بھی رکھتا ہے۔‏