مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 16

دلیری سے موت کے متعلق سچائی پر قائم رہیں

دلیری سے موت کے متعلق سچائی پر قائم رہیں

‏”‏ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ کون سا روحانی پیغام سچا ہے اور کون سا جھوٹا۔‏“‏‏—‏1-‏یوح 4:‏6‏۔‏

گیت نمبر 12‏:‏ ہمیشہ کی زندگی کا وعدہ

مضمون پر ایک نظر *

جب آپ کے خاندان میں کوئی فوت ہو جاتا ہے تو اپنے رشتےداروں کو تسلی دیں لیکن ایسی رسموں میں حصہ لینے سے بچیں جو خدا کو ناپسند ہیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 1،‏ 2 کو دیکھیں۔‏)‏ *

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ شیطان لوگوں کو کیسے دھوکا دیتا آ رہا ہے؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

شیطان ‏”‏جھوٹ کا باپ“‏ ہے۔‏ وہ اِنسانی تاریخ کے شروع ہی سے اِنسانوں کو دھوکا دیتا آ رہا ہے۔‏ (‏یوح 8:‏44‏)‏ اُس نے جو جھوٹ پھیلائے ہیں،‏ اُن میں مُردوں کی حالت کے بارے میں جھوٹی تعلیمات شامل ہیں۔‏ اِن تعلیمات کی وجہ سے بہت سی رسومات اور وہموں نے جنم لیا جو آج بھی عام ہیں۔‏ اِسی وجہ سے ہمارے کئی بہن بھائیوں کو اُس وقت اپنے ”‏ایمان کے لیے ڈٹ کر“‏ لڑنا پڑتا ہے جب اُن کے خاندان یا علاقے میں کوئی فوت ہو جاتا ہے۔‏—‏یہوداہ 3‏۔‏

2 اگر آپ کو بھی کبھی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے تو کون سی چیز آپ کی مدد کر سکتی ہے تاکہ آپ موت کے حوالے سے پاک کلام کی تعلیمات پر ڈٹے رہیں؟‏ (‏اِفس 6:‏11‏)‏ آپ ایک ایسے ہم‌ایمان بہن یا بھائی کو کیسے حوصلہ دے سکتے ہیں جس پر ایسے رسم‌ورواج میں حصہ لینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے؟‏ اِس مضمون میں ہم پاک کلام کے کچھ اصولوں پر غور کریں گے۔‏ لیکن پہلے آئیں،‏ یہ دیکھتے ہیں کہ پاک کلام میں موت کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے۔‏

مُردوں کی حالت کے بارے میں سچائی

3.‏ پہلے جھوٹ کا کیا نتیجہ نکلا؟‏

3 خدا کبھی نہیں چاہتا تھا کہ اِنسان مریں۔‏ لیکن ہمیشہ تک زندہ رہنے کے لیے آدم اور حوا کو یہوواہ کا ایک سادہ سا حکم ماننا تھا۔‏ یہوواہ نے کہا:‏ ”‏تُو .‏ .‏ .‏ نیک‌وبد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔‏“‏ (‏پید 2:‏16،‏ 17‏)‏ لیکن پھر شیطان نے ایک مسئلہ کھڑا کر دیا۔‏ اُس نے ایک سانپ کے ذریعے حوا سے بات کی اور اُن سے کہا:‏ ”‏تُم ہرگز نہ مرو گے۔‏“‏ افسوس کی بات ہے کہ حوا نے شیطان کے اِس جھوٹ کا یقین کر لیا اور اُس پھل کو کھا لیا۔‏ اِس کے بعد آدم نے بھی اُس پھل کو کھایا۔‏ (‏پید 3:‏4،‏ 6‏)‏ یوں گُناہ اور موت دُنیا میں آئی۔‏—‏روم 5:‏12‏۔‏

4،‏ 5.‏ شیطان لوگوں کو دھوکا دینے میں کیوں کامیاب رہا ہے؟‏

4 آدم اور حوا،‏ یہوواہ کے کہنے کے مطابق مر گئے۔‏ لیکن شیطان نے موت کے حوالے سے جھوٹ پھیلانے بند نہیں کیے۔‏ بعد میں اُس نے اِس حوالے سے اَور بھی جھوٹ پھیلائے۔‏ اِن میں سے ایک جھوٹ یہ ہے کہ اِنسان کا جسم تو مر جاتا ہے لیکن اُس میں کوئی ایسی شے ہوتی ہے جو اُس کے مرنے کے بعد کسی اَور جہان میں زندہ رہتی ہے۔‏ اِس جھوٹ کے ذریعے شیطان آج تک اَن‌گنت لوگوں کو دھوکا دے چُکا ہے۔‏—‏1-‏تیم 4:‏1‏۔‏

5 شیطان اِتنے زیادہ لوگوں کو دھوکا دینے میں کامیاب کیوں ہو پایا ہے؟‏ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ہم موت کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں اور وہ اِسی کا فائدہ اُٹھاتا ہے۔‏ چونکہ ہمیں اِس طرح سے بنایا گیا ہے کہ ہم ہمیشہ زندہ رہیں اِس لیے ہم مرنا نہیں چاہتے۔‏ (‏واعظ 3:‏11‏)‏ ہم موت کو ایک دُشمن خیال کرتے ہیں۔‏—‏1-‏کُر 15:‏26‏۔‏

6،‏ 7.‏ ‏(‏الف)‏ کیا شیطان موت کے متعلق سچائی پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہوا ہے؟‏ وضاحت کریں۔‏ (‏ب)‏ بائبل کی سچائیاں ہمیں اِس خوف سے کیسے بچاتی ہیں کہ مُردے ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں؟‏

6 شیطان لاکھ کوششوں کے باوجود موت کے بارے میں سچائی پر پردہ نہیں ڈال پایا ہے۔‏ دراصل آج پہلے سے کہیں زیادہ لوگ مُردوں کی حالت اور اُن کے جی اُٹھنے کی اُمید کے بارے میں پاک کلام کی تعلیمات سے واقف ہیں اور اِن کی مُنادی کر رہے ہیں۔‏ (‏واعظ 9:‏5،‏ 10؛‏ اعما 24:‏15‏)‏ اِن سچی تعلیمات کے ذریعے ہمیں تسلی ملتی ہے اور ہم فضول قسم کے خوف اور کشمکش میں مبتلا نہیں ہوتے۔‏ مثال کے طور پر ہم مُردوں سے نہیں ڈرتے اور نہ ہی اِس بات کے حوالے سے پریشان ہوتے ہیں کہ ہمارے فوت‌شُدہ عزیزوں کو اذیت جھیلنی پڑ رہی ہے۔‏ ہم جانتے ہیں کہ وہ زندہ نہیں ہیں اور کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔‏ وہ گویا گہری نیند سو رہے ہیں۔‏ (‏یوح 11:‏11-‏14‏)‏ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مُردوں کو وقت کے گزرنے کی کوئی خبر نہیں ہے۔‏ اِس لیے جب مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا تو صدیوں پہلے مرے لوگوں کو بھی ایسے لگے گا جیسے اُن کے مرنے اور زندہ ہونے کے بیچ بس پلک جھپکنے کا وقت گزرا ہے۔‏

7 بےشک آپ اِس بات سے اِتفاق کریں گے کہ مُردوں کی حالت کے بارے میں پاک کلام کی تعلیمات بالکل سادہ اور واضح ہیں۔‏ اِن کے برعکس شیطان کے وہ جھوٹ بالکل بےتکے ہیں جو وہ پھیلاتا آیا ہے اور اِن کی بدولت لوگ اُلجھن کا شکار ہو گئے ہیں۔‏ شیطان کی جھوٹی باتوں کی وجہ سے اِنسان تو گمراہ ہوتے ہیں لیکن اِن سے ہمارے خالق کی بدنامی بھی ہوتی ہے۔‏ اِس بات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے کہ شیطان کی پھیلائی جھوٹی باتوں کی وجہ سے کون کون سے نقصان ہوئے ہیں،‏ ہم اِن سوالوں پر غور کریں گے:‏ شیطان کی جھوٹی باتوں کے ذریعے یہوواہ کی بدنامی کیسے ہوتی ہے؟‏ اِن جھوٹی باتوں سے یہ تاثر کیسے ملتا ہے کہ یسوع کا دیا ہوا فدیہ بالکل غیرضروری تھا؟‏ اور یہ جھوٹی باتیں اِنسانوں کی تکلیفوں میں اِضافے کا باعث کیسے بنی ہیں؟‏

شیطان کی جھوٹی باتوں سے ہونے والے نقصان

8.‏ یرمیاہ 19:‏5 کی روشنی میں بتائیں کہ موت کے بارے میں شیطان کی جھوٹی باتوں سے یہوواہ خدا کی بدنامی کیسے ہوتی ہے۔‏

8 موت کے بارے میں شیطان کی جھوٹی باتوں سے یہوواہ خدا کی بدنامی ہوتی ہے۔‏ اِن جھوٹی باتوں میں یہ تعلیم شامل ہے کہ مُردوں کو دوزخ کی آگ میں تڑپایا جاتا ہے۔‏ ایسی تعلیمات کے ذریعے خدا کی بدنامی ہوتی ہے۔‏ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏ دراصل اِن تعلیمات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ محبت کرنے والا خدا شیطان کی طرح ظالم ہے۔‏ (‏1-‏یوح 4:‏8‏)‏ یہ بات سُن کر آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے؟‏ اب ذرا سوچیں کہ یہوواہ کو کیسا محسوس ہوتا ہوگا؟‏ ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ ہر قسم کے ظلم سے نفرت کرتا ہے۔‏ اِس لیے بےشک اُسے اِس بات سے دُکھ ہوتا ہوگا کہ اُس کی ایسی تصویر پیش کی جاتی ہے۔‏‏—‏یرمیاہ 19:‏5 کو پڑھیں۔‏

9.‏ شیطان کی جھوٹی باتوں سے یسوع کی اُس قربانی کے حوالے سے کیا تاثر ملتا ہے جس کا ذکر یوحنا 3:‏16 اور 15:‏13 میں کِیا گیا ہے؟‏

9 موت کے بارے میں شیطان کی جھوٹی باتوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یسوع مسیح کی قربانی غیرضروری تھی۔‏ ‏(‏متی 20:‏28‏)‏ شیطان کا پھیلایا ایک جھوٹ یہ ہے کہ اِنسانوں میں غیرفانی جان ہوتی ہے۔‏ اگر یہ سچ ہوتا تو ہم سب کو پہلے سے ہی ہمیشہ کی زندگی حاصل ہوتی اور یسوع مسیح کو ہمارے لیے اپنی جان فدیے کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔‏ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ فدیے کے ذریعے اِنسانوں کے لیے یہوواہ اور یسوع کی بےپناہ محبت ظاہر ہوتی ہے۔‏ ‏(‏یوحنا 3:‏16؛‏ 15:‏13 کو پڑھیں۔‏)‏ ذرا سوچیں کہ یہوواہ اور یسوع کو اُس جھوٹی تعلیم سے کتنا دُکھ پہنچتا ہوگا جس سے یسوع کی بیش‌قیمت قربانی کی اہمیت بالکل ختم ہو جاتی ہے!‏

10.‏ شیطان کی جھوٹی باتوں سے اِنسانوں کی تکلیفوں میں کیسے اِضافہ ہوا ہے؟‏

10 شیطان کی جھوٹی باتوں سے اِنسانوں کی تکلیفوں میں اِضافہ ہوتا ہے۔‏ کچھ مذاہب میں ایسا ہوتا ہے کہ کسی بچے کے مرنے پر اُس کے والدین سے یہ کہا جاتا ہے کہ خدا نے اُن کے بچے کو اپنے پاس بلا لیا ہے تاکہ وہ آسمان پر ایک فرشتہ بن کر رہے۔‏ آپ کے خیال میں کیا شیطان کے اِس جھوٹ سے اُن والدین کی تکلیف کم ہوتی ہوگی یا زیادہ؟‏ اِس کے علاوہ ماضی میں دوزخ کے عقیدے کو بنیاد بنا کر ایسے لوگوں پر اذیت ڈھانے کو جائز قرار دیا گیا جنہوں نے چرچ کی تعلیمات کے خلاف آواز اُٹھائی۔‏ اِن میں سے کچھ کو سُولی پر زندہ جلا دیا گیا۔‏ سپین میں ایک عدالت تھی جس نے اُن لوگوں کو کڑی سزائیں دیں جنہوں نے چرچ کی تعلیمات سے اِختلاف کِیا۔‏ ایک کتاب کے مطابق اِس ظلم کے پیچھے جن لوگوں کا ہاتھ تھا،‏ اُن کی یہ سوچ تھی کہ وہ چرچ کے خلاف جانے والوں کو بس ”‏یہ مزہ چکھا رہے تھے کہ دوزخ کی دائمی آگ کیسی ہوگی“‏ اور ایسا اِس لیے کِیا جا رہا تھا تاکہ وہ لوگ مرنے سے پہلے توبہ کر لیں اور یوں دوزخ کی آگ سے بچ جائیں۔‏ بعض ملکوں میں لوگ اپنے فوت‌شُدہ آباواجداد کے لیے کھانے بناتے ہیں،‏ اُن کی تعظیم کرتے ہیں اور اُن سے برکتیں مانگتے ہیں۔‏ کئی لوگ اِس لیے اپنے آباواجداد کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ اُنہیں سزا نہ دیں۔‏ شیطان کے پھیلائے اِن جھوٹے نظریات سے لوگوں کو حقیقی تسلی نہیں ملتی۔‏ اِس کی بجائے وہ غیرضروری طور پر پریشان،‏ یہاں تک کہ خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔‏

بائبل میں درج سچائی پر ڈٹے رہیں

11.‏ ہمارے دوست یا رشتےدار ہم پر پاک کلام کی تعلیمات کی خلاف‌ورزی کرنے کے لیے کیسے دباؤ ڈال سکتے ہیں؟‏

11 خدا اور اُس کے کلام کے لیے محبت ہمیں یہ ترغیب دے گی کہ ہم ہمیشہ خدا کے فرمانبردار رہیں،‏ اُس وقت بھی جب ہمارے رشتےدار یا دوست ہم پر ایسی رسومات میں حصہ لینے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں جن کا تعلق مُردوں سے ہے اور جو بائبل کی تعلیمات سے ٹکراتی ہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہمارے رشتےدار ہمیں یہ کہہ کر شرمندہ کرنے کی کوشش کریں کہ ہمیں اپنے فوت‌شُدہ عزیزوں سے پیار نہیں ہے اور ہم اُن کا احترام نہیں کرتے۔‏ یا شاید وہ یہ کہیں کہ ہمارے رویے کی وجہ سے فوت‌شُدہ شخص ہمیں یا دوسروں کو نقصان پہنچائے گا۔‏ ایسی صورت میں ہم بائبل کی سچائیوں پر کیسے ڈٹے رہ سکتے ہیں؟‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ اِس حوالے سے بائبل کے کون سے اصول ہمارے کام آ سکتے ہیں۔‏

12.‏ مُردوں کے بارے میں کون سی رسومات بائبل کی تعلیمات سے ٹکراتی ہیں؟‏

12 یہ عزم کریں کہ آپ ہر ایسے عقیدے اور رسم سے دُور رہیں گے جو بائبل کی تعلیمات سے میل نہیں کھاتی۔‏ ‏(‏2-‏کُر 6:‏17‏)‏ کیریبیئن جزائر پر ایک ایسی قوم آباد ہے جس سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ مانتے ہیں کہ مرنے کے بعد اِنسان کا بھوت بھٹکتا رہتا ہے اور اُن لوگوں کو نقصان پہنچاتا ہے جنہوں نے اُس کے ساتھ بُرا سلوک کِیا ہوتا ہے۔‏ ایک کتاب میں بتایا گیا ہے کہ یہ بھوت ”‏کسی علاقے کے سب لوگوں کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔‏“‏ افریقہ میں یہ رواج ہے کہ لوگ کسی شخص کے مرنے پر اُس کے گھر کے آئینوں کو ڈھک دیتے ہیں اور تصویروں کا رُخ اُلٹ دیتے ہیں۔‏ وہ ایسا اِس لیے کرتے ہیں کیونکہ اُن کا ماننا ہے کہ اگر مُردے کی روح نے خود کو دیکھ لیا تو ضرور کچھ بُرا ہوگا۔‏ یہوواہ کے بندوں کے طور پر ہم نہ تو ایسی باتوں کو مانتے ہیں اور نہ ہی ایسی رسومات مناتے ہیں جن سے شیطان کی پھیلائی ہوئی جھوٹی تعلیمات کو فروغ ملتا ہے۔‏—‏1-‏کُر 10:‏21،‏ 22‏۔‏

اگر آپ بائبل پر مبنی مطبوعات پر تحقیق کریں گے اور احترام سے اپنے غیرایمان رشتےداروں کے ساتھ بات کریں گے تو مسئلے کھڑے ہونے کا اِمکان کم ہوگا۔‏ (‏پیراگراف نمبر 13،‏ 14 کو دیکھیں۔‏)‏ *

13.‏ اگر آپ کے ذہن میں کسی رسم کو منانے کے حوالے سے کوئی شک ہے تو یعقوب 1:‏5 کے مطابق آپ کو کیا کرنا چاہیے؟‏

13 اگر آپ کے ذہن میں کسی رسم کو منانے کے حوالے سے کوئی شک ہے تو یہوواہ سے اِس بارے میں دُعا کریں اور اُس سے دانش‌مندی مانگیں۔‏ ‏(‏یعقوب 1:‏5 کو پڑھیں۔‏)‏ پھر اِس بات پر تحقیق کریں کہ اُس رسم کے حوالے سے ہماری مطبوعات میں کیا بتایا گیا ہے۔‏ اگر ضروری ہو تو اپنی کلیسیا کے بزرگوں سے بات کریں۔‏ وہ آپ کو یہ تو نہیں بتائیں گے کہ آپ کو کیا کرنا چاہیے لیکن وہ آپ کی توجہ بائبل کے ایسے اصولوں کی طرف دِلا سکتے ہیں جیسے اِس مضمون میں بیان کیے گئے ہیں۔‏ جب آپ یہ اِقدام اُٹھائیں گے تو آپ اپنی ”‏سوچنے سمجھنے کی صلاحیت“‏ کو تیز کریں گے اور یوں ”‏اچھے اور بُرے میں تمیز“‏ کر پائیں گے۔‏—‏عبر 5:‏14‏۔‏

14.‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم کسی کے ضمیر یا دل کو ٹھیس نہ پہنچائیں؟‏

14 ‏”‏سب کچھ خدا کی بڑائی کے لیے کریں اور [‏دوسروں]‏ کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔‏“‏ ‏(‏1-‏کُر 10:‏31،‏ 32‏)‏ جب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو کہ ہمیں فلاں رسم میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں تو ہمیں اِس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ہمارے فیصلے کا دوسروں پر اور خاص طور پر ہمارے ہم‌ایمانوں پر کیا اثر ہوگا۔‏ بےشک ہم یہ ہرگز نہیں چاہتے کہ ہماری وجہ سے کوئی شخص گمراہ ہو جائے۔‏ (‏مر 9:‏42‏)‏ اِس کے علاوہ ہم بِلاوجہ اُن لوگوں کا دل بھی نہیں دُکھانا چاہتے جو ہمارے ہم‌ایمان نہیں ہیں۔‏ محبت ہمیں یہ ترغیب دیتی ہے کہ ہم اُن کے ساتھ احترام سے بات کریں اور یوں یہوواہ کی بڑائی کا باعث بنیں۔‏ اِس لیے ہم کبھی بھی لوگوں سے جھگڑا نہیں کرتے اور نہ ہی اُن کے رسم‌ورواج کا مذاق اُڑاتے ہیں۔‏ یاد رکھیں کہ محبت میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔‏ جب ہم محبت کی بِنا پر دوسروں کے لیے احترام اور پاس‌ولحاظ دِکھاتے ہیں تو ہم مخالفوں کے دلوں کو بھی موم کر سکتے ہیں۔‏

15،‏ 16.‏ ‏(‏الف)‏ ہمیں دوسروں کو پہلے سے ہی اپنے عقیدوں کے بارے میں کیوں بتانا چاہیے؟‏ ایک مثال دیں۔‏ (‏ب)‏ رومیوں 1:‏16 میں درج الفاظ ہم پر کیسے لاگو ہوتے ہیں؟‏

15 اپنے علاقے کے لوگوں کو بتائیں کہ آپ یہوواہ کے گواہ ہیں۔‏ ‏(‏یسع 43:‏10‏)‏ اگر آپ کے خاندان میں کوئی فوت ہو جاتا ہے اور آپ اُس کی موت کے حوالے سے کسی خاص رسم میں حصہ نہیں لیتے تو آپ کے دوست اور رشتےدار آپ سے ناراض ہو سکتے ہیں۔‏ ایسی صورتحال سے نمٹنا اُس وقت آسان ہوگا جب آپ نے اُنہیں پہلے سے ہی اپنے عقیدوں کے بارے میں بتایا ہوگا۔‏ موزمبیق میں رہنے والے فرانسسکو نے لکھا:‏ ”‏جب مَیں نے اور میری بیوی کیرولینا نے سچائی سیکھی تو ہم نے اپنے خاندان کے افراد کو بتایا کہ اب سے ہم مُردوں کی عبادت نہیں کریں گے۔‏ اِس حوالے سے ہمارے ایمان کا اِمتحان اُس وقت ہوا جب کیرولینا کی بہن فوت ہوئی۔‏ ہمارے معاشرے میں لاش کو ایک خاص مذہبی رسم کے مطابق نہلایا جاتا ہے۔‏ اِس کے بعد فوت‌شُدہ شخص کا سب سے قریبی رشتےدار تین راتوں تک اُس جگہ سوتا ہے جہاں اُس کی لاش کو نہلایا جاتا ہے۔‏ یہ سب رسمیں اِس لیے ادا کی جاتی ہیں تاکہ اُس شخص کی روح کو تسکین ملے۔‏ کیرولینا کا خاندان چاہتا تھا کہ وہ اُس جگہ سوئیں جہاں اُن کی بہن کی لاش کو نہلایا گیا تھا۔‏“‏

16 فرانسسکو اور کیرولینا نے کیا کِیا؟‏ فرانسسکو نے کہا:‏ ”‏چونکہ ہم یہوواہ سے محبت کرتے ہیں اور اُسے خوش کرنا چاہتے ہیں اِس لیے ہم نے اِنکار کر دیا۔‏ اِس پر کیرولینا کے خاندان والے بہت ناراض ہوئے۔‏ اُنہوں نے ہم پر یہ اِلزام لگایا کہ ہم کیرولینا کی فوت‌شُدہ بہن کے لیے احترام نہیں دِکھا رہے اور یہ بھی کہا کہ خاندان کے افراد نہ تو ہم سے ملیں گے اور نہ ہی ہماری مدد کریں گے۔‏ چونکہ ہم پہلے ہی اُنہیں اپنے عقیدوں کے بارے میں بتا چُکے تھے اِس لیے ہم نے اُس وقت تک اُن کے ساتھ اِس بارے میں بات نہیں کی جب تک اُن کا غصہ ختم نہیں ہوا۔‏ ہمارے کچھ رشتےدار تو ہمارے حق میں بولے اور کہا کہ ہم پہلے ہی اِس حوالے سے اپنا نظریہ بتا چُکے ہیں۔‏ وقت کے ساتھ ساتھ کیرولینا کے رشتےداروں کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور ہماری اُن کے ساتھ صلح ہو گئی۔‏ اُن میں سے کچھ تو ہمارے گھر ہماری مطبوعات بھی لینے آئے ہیں۔‏“‏ یہ عزم کریں کہ آپ بھی اُس سچائی پر قائم رہنے میں کبھی شرمندگی محسوس نہیں کریں گے جو بائبل میں موت کے حوالے سے بتائی گئی ہے۔‏‏—‏رومیوں 1:‏16 کو پڑھیں۔‏

سوگواروں کو تسلی اور سہارا دیں

سچے دوست اپنے سوگوار دوستوں کو تسلی اور سہارا دیتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 17-‏19 کو دیکھیں۔‏)‏ *

17.‏ ہم اپنے سوگوار بہن بھائیوں کے سچے دوست ثابت ہونے کے سلسلے میں کس بات پر غور کریں گے؟‏

17 جب ہمارے کسی مسیحی بھائی یا بہن کا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے تو ہمیں ایسا دوست ثابت ہونا چاہیے جو ”‏ہر وقت محبت دِکھاتا ہے۔‏“‏ (‏امثا 17:‏17‏)‏ ہم خاص طور پر اُس وقت اپنے سوگوار بہن بھائیوں کے سچے دوست ثابت ہو سکتے ہیں جب اُن پر ایسی رسموں میں حصہ لینے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے جو بائبل کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔‏ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏ آئیں،‏ اِس حوالے سے بائبل کے دو اصولوں پر غور کرتے ہیں۔‏

18.‏ یسوع مسیح کیوں روئے اور ہم اُن کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

18 ‏”‏اُن کے ساتھ روئیں جو رو رہے ہیں۔‏“‏ ‏(‏روم 12:‏15‏)‏ شاید ہم سوچیں کہ ہم ایسے شخص کو تسلی دینے کے لیے کیا کہیں گے جو اپنے کسی عزیز کی موت کی وجہ سے غم میں مبتلا ہے۔‏ کبھی کبھار ہمارے آنسو وہ بات کہہ جاتے ہیں جو ہم لفظوں میں نہیں کہہ پاتے۔‏ جب یسوع مسیح کے دوست لعزر فوت ہوئے تو لعزر کی بہنیں مریم اور مارتھا اور دوسرے لوگ بہت رو رہے تھے۔‏ پھر چار دن بعد جب یسوع مسیح اُن سے ملنے گئے تو اُنہیں روتا دیکھ کر ”‏یسوع کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے“‏ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ وہ لعزر کو زندہ کرنے والے ہیں۔‏ (‏یوح 11:‏17،‏ 33-‏35‏)‏ یسوع مسیح کے آنسوؤں سے اُن کے آسمانی باپ کے احساسات ظاہر ہوئے۔‏ اِن سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یسوع،‏ لعزر کے گھر والوں سے کتنی محبت رکھتے تھے۔‏ یقیناً مریم اور مارتھا اِس محبت کو محسوس کر سکتی تھیں اور بےشک اُنہیں اِس سے بہت دِلاسا ملا ہوگا۔‏ اِسی طرح جب ہمارے بہن بھائی ہماری محبت اور فکرمندی کو دیکھتے ہیں تو اُنہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ ہم قدم قدم پر اُن کے ساتھ ہیں۔‏

19.‏ کسی سوگوار بہن یا بھائی کو تسلی دیتے وقت آپ واعظ 3:‏7 میں درج اصول پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

19 ‏”‏چپ رہنے کا ایک وقت ہے اور بولنے کا ایک وقت ہے۔‏“‏ ‏(‏واعظ 3:‏7‏)‏ اپنے سوگوار بہن بھائیوں کو تسلی دینے کا ایک سادہ سا طریقہ یہ ہے کہ ہم اُن کی بات کو دھیان سے سنیں۔‏ اُنہیں دل کھول کر اپنے جذبات کا اِظہار کرنے دیں اور اِس دوران اگر وہ کڑوی باتیں کہہ جاتے ہیں تو اِن کا بُرا نہ منائیں۔‏ (‏ایو 6:‏2،‏ 3‏)‏ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے غیرایمان رشتےداروں کے دباؤ کی وجہ سے اَور زیادہ جذباتی ہو گئے ہوں۔‏ لہٰذا اُن کے ساتھ دُعا کریں۔‏ ”‏دُعا کے سننے والے“‏ سے اِلتجا کریں کہ وہ اُس بہن یا بھائی کو ہمت دے اور صحیح فیصلہ کرنے کے لیے اُسے سمجھ عطا کرے۔‏ (‏زبور 65:‏2‏)‏ اگر حالات اِجازت دیں تو اُس کے ساتھ مل کر بائبل پڑھیں۔‏ آپ چاہیں تو اُس کی صورتحال کی مناسبت سے اُس کے ساتھ ہماری مطبوعات میں سے کوئی حوصلہ‌افزا آپ‌بیتی یا کوئی اَور مضمون پڑھ سکتے ہیں۔‏

20.‏ اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

20 ہم یہوواہ کے بہت شکرگزار ہیں کہ اُس نے ہمیں مُردوں کی حالت کے بارے میں سچائی جاننے کا موقع دیا ہے اور اُس شان‌دار مستقبل کے بارے میں علم عطا کِیا ہے جب مُردے اُس کے بیٹے کی آواز سُن کر قبروں سے نکل آئیں گے۔‏ (‏یوح 5:‏28،‏ 29‏)‏ اپنی باتوں اور کاموں سے ظاہر کریں کہ آپ بائبل کی سچائیوں پر ڈٹے رہیں گے۔‏ جب بھی موقع ملے،‏ دلیری سے اِن سچائیوں کے بارے میں دوسروں کو بتائیں۔‏ اگلے مضمون میں ہم شیطان کے ایک اَور حربے پر غور کریں گے جس کے ذریعے وہ لوگوں کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔‏ یہ بُرے فرشتوں سے تعلق رکھنے والے کام اور عقیدے ہیں۔‏ ہم دیکھیں گے کہ ہمیں ایسے کاموں اور ایسی تفریح سے گریز کیوں کرنا چاہیے جس کا تعلق بُرے فرشتوں سے ہے۔‏

گیت نمبر 16‏:‏ خدا کی بادشاہت پر اُمید رکھو

^ پیراگراف 5 شیطان اور اُس کے بُرے فرشتوں نے مُردوں کی حالت کے بارے میں بہت سے جھوٹ پھیلا کر لوگوں کو گمراہ کر رکھا ہے۔‏ اُن کی جھوٹی باتوں کی وجہ سے بہت سی ایسی رسموں نے جنم لیا ہے جو پاک کلام کے خلاف ہیں۔‏ یہ مضمون ہماری مدد کرے گا تاکہ ہم اُس وقت بھی یہوواہ کے وفادار رہ سکیں جب ہم پر ایسی رسومات میں حصہ لینے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔‏

^ پیراگراف 55 تصویر کی وضاحت‏:‏ یہوواہ کے دو گواہ اپنی غیرایمان رشتےدار کو تسلی دے رہے ہیں جو اپنے عزیز کی موت پر رو رہی ہے۔‏

^ پیراگراف 57 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک گواہ جنازے کی رسومات پر تحقیق کرنے کے بعد اپنے غیرایمان رشتےداروں کو احترام سے اپنے عقیدوں کے بارے میں بتا رہا ہے۔‏

^ پیراگراف 59 تصویر کی وضاحت‏:‏ کلیسیا کے دو بزرگ ایک بھائی کو تسلی دے رہے ہیں جو اپنے کسی عزیز کی موت پر غم‌زدہ ہے۔‏