مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 15

یسوع مسیح کی طرح اپنے اِطمینان کو برقرار رکھیں

یسوع مسیح کی طرح اپنے اِطمینان کو برقرار رکھیں

‏”‏خدا آپ کو وہ اِطمینان دے گا جو سمجھ سے باہر ہے اور یہ اِطمینان .‏ .‏ .‏ آپ کے دل اور سوچ کو محفوظ رکھے گا۔‏“‏‏—‏فل 4:‏7‏۔‏

گیت نمبر 39‏:‏ امن کو فروغ دو

مضمون پر ایک نظر *

1،‏ 2.‏ یسوع مسیح اِتنے پریشان کیوں تھے؟‏

یہ زمین پر ایک اِنسان کے طور پر یسوع مسیح کی زندگی کا آخری دن تھا۔‏ وہ بہت پریشان تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بہت جلد وہ گُناہ‌گار آدمیوں کے ہاتھوں اذیت‌ناک موت سہنے والے ہیں۔‏ لیکن اُن کی پریشانی کی وجہ صرف یہی نہیں تھی۔‏ دراصل وہ اپنے باپ سے بےحد محبت کرتے تھے اور اُسے خوش کرنا چاہتے تھے۔‏ اُنہیں معلوم تھا کہ اگر وہ اِس کڑی آزمائش میں خدا کے وفادار رہیں گے تو وہ خدا کے نام کو پاک ثابت کریں گے۔‏ اِس کے علاوہ یسوع مسیح اِنسانوں سے بھی بہت محبت کرتے تھے اور وہ جانتے تھے کہ تمام اِنسانوں کی ہمیشہ کی زندگی کا دارومدار اُن کے ثابت‌قدم رہنے پر ہے۔‏

2 حالانکہ یسوع مسیح اِتنے زیادہ ذہنی دباؤ میں تھے لیکن پھر بھی اُنہیں اِطمینان حاصل تھا۔‏ اُنہوں نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏مَیں آپ کو اِطمینان دے رہا ہوں۔‏“‏ (‏یوح 14:‏27‏)‏ یسوع کو وہ اِطمینان حاصل تھا جو یہوواہ سے قریبی دوستی رکھنے والوں کو ہی ملتا ہے۔‏ اِسی اِطمینان کی وجہ سے یسوع کو ذہنی اور دلی سکون ملا۔‏—‏فل 4:‏6،‏ 7‏۔‏

3.‏ اِس مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

3 ہم میں سے کسی کو کبھی اُتنے ذہنی دباؤ سے نہیں گزرنا پڑے گا جتنے ذہنی دباؤ سے یسوع مسیح گزرے تھے۔‏ لیکن یسوع کے پیروکاروں کے طور پر ہم سب کو مشکلات سے ضرور گزرنا پڑے گا۔‏ (‏متی 16:‏24،‏ 25؛‏ یوح 15:‏20‏)‏ اور یسوع کی طرح ہم بھی کبھی کبھار پریشان ہوں گے۔‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ پریشانی ہمارے سر پر سوار ہو کر ہم سے ہمارا اِطمینان نہ چھین لے؟‏ آئیں،‏ تین ایسے کاموں پر بات کریں جو یسوع نے زمین پر اپنے دَورِخدمت میں کیے اور دیکھیں کہ ہم مشکلات کا سامنا کرتے وقت اُن کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔‏

یسوع مسیح نے بار بار دُعا کی

دُعا کرنے سے ہم اپنے اِطمینان کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 4-‏7 کو دیکھیں۔‏)‏

4.‏ پہلا تھسلُنیکیوں 5:‏17 کو ذہن میں رکھتے ہوئے اِس بات کی کچھ مثالیں دیں کہ یسوع نے زمین پر اپنے آخری دن کے دوران کئی بار خدا سے دُعا کی۔‏

4 پہلا تھسلُنیکیوں 5:‏17 کو پڑھیں۔‏ زمین پر اپنے آخری دن کے دوران یسوع نے کئی بار خدا سے دُعا کی۔‏ جب اُنہوں نے اپنی موت کی یادگاری تقریب رائج کی تو اُنہوں نے روٹی اور مے پر دُعا کی۔‏ (‏1-‏کُر 11:‏23-‏25‏)‏ پھر اُس جگہ سے نکلنے سے پہلے جہاں یسوع نے اپنے شاگردوں کے ساتھ یادگاری تقریب منائی تھی،‏ اُنہوں نے دُعا کی۔‏ (‏یوح 17:‏1-‏26‏)‏ اِس کے بعد جب وہ اُس رات اپنے شاگردوں کے ساتھ کوہِ‌زیتون پر پہنچے تو اُنہوں نے بار بار خدا سے دُعا کی۔‏ (‏متی 26:‏36-‏39،‏ 42،‏ 44‏)‏ اور پھر یسوع نے مرنے سے پہلے جو آخری الفاظ کہے،‏ وہ بھی دُعا کی صورت میں تھے۔‏ (‏لُو 23:‏46‏)‏ یہ صاف ظاہر ہے کہ یسوع مسیح کی زندگی کے آخری دن جو بھی واقعات پیش آ رہے تھے،‏ اُن کے دوران وہ یہوواہ سے دُعا کر رہے تھے۔‏

5.‏ شاگرد دلیری ظاہر کرنے میں کیوں ناکام ہو گئے؟‏

5 یسوع مسیح کے ثابت‌قدم رہنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اُنہوں نے اپنے باپ پر بھروسا رکھتے ہوئے بار بار اُس سے دُعا کی۔‏ اِس کے برعکس اُن کے شاگردوں نے اُس رات ایسا نہیں کِیا۔‏ اِسی لیے وہ اِمتحان کی گھڑی میں دلیری ظاہر نہیں کر پائے۔‏ (‏متی 26:‏40،‏ 41،‏ 43،‏ 45،‏ 56‏)‏ جب ہم پر مشکلات آتی ہیں تو ہم اُسی صورت میں خدا کے وفادار رہ پائیں گے اگر ہم یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرتے ہوئے ”‏دُعا کرتے رہیں“‏ گے۔‏ ہم کس بارے میں دُعا کر سکتے ہیں؟‏

6.‏ ایمان اپنے اِطمینان کو برقرار رکھنے میں ہمارے کام کیوں آ سکتا ہے؟‏

6 ہم یہوواہ سے دُعا کر سکتے ہیں کہ وہ ’‏ہمیں اَور ایمان دے۔‏‘‏ (‏لُو 17:‏5؛‏ یوح 14:‏1‏)‏ ہم سب کو ایمان کی ضرورت ہے کیونکہ شیطان،‏ یسوع کے تمام پیروکاروں کو آزماتا ہے۔‏ (‏لُو 22:‏31‏)‏ ایمان اپنے اِطمینان کو برقرار رکھنے میں ہمیشہ ہمارے کام آ سکتا ہے،‏ اُس صورت میں بھی جب ہم پر ایک کے بعد ایک مشکل آتی ہے۔‏ وہ کیسے؟‏ جب ہم کسی مشکل کو حل کرنے کے لیے وہ سارے کام کر لیتے ہیں جو ہمارے بس میں ہیں تو ایمان ہمیں ترغیب دیتا ہے کہ ہم معاملے کو یہوواہ پر چھوڑ دیں۔‏ چونکہ ہمیں یہ یقین ہوتا ہے کہ یہوواہ ہماری مشکل کو ہم سے کہیں بہتر طور پر حل کر سکتا ہے اِس لیے ہمیں ذہنی اور دلی اِطمینان حاصل ہوتا ہے۔‏—‏1-‏پطر 5:‏6،‏ 7‏۔‏

7.‏ آپ نے بھائی رابرٹ کی مثال سے کیا سیکھا ہے؟‏

7 دُعا ہماری مدد کرتی ہے کہ ہم اپنے دلی اِطمینان کو برقرار رکھیں پھر چاہے ہمیں کیسی ہی مشکلات کا سامنا کیوں نہ ہو۔‏ ذرا رابرٹ نامی ایک بزرگ کی مثال پر غور کریں جن کی عمر اب 80 سال سے زیادہ ہے۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏فِلپّیوں 4:‏6،‏ 7 میں درج ہدایت پر عمل کرنے سے مَیں اپنی مشکلات سے نمٹ پایا ہوں۔‏ مجھے مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔‏ اِس کے علاوہ مَیں کچھ عرصے کے لیے کلیسیا میں بزرگ نہ رہا۔‏“‏ کس چیز نے اپنے اِطمینان کو برقرار رکھنے میں بھائی رابرٹ کی مدد کی؟‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏جونہی مَیں کسی بات کے حوالے سے پریشان ہوتا ہوں،‏ مَیں فوراً دُعا کرنے لگ جاتا ہوں۔‏ دراصل مَیں جتنی زیادہ بار اور جتنی شدت سے دُعا کرتا ہوں،‏ مجھے اُتنا زیادہ دلی سکون محسوس ہوتا ہے۔‏“‏

یسوع مسیح نے مُنادی کے کام پر دھیان رکھا

مُنادی کا کام کرنے سے ہم اپنے اِطمینان کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 8-‏10 کو دیکھیں۔‏)‏

8.‏ یوحنا 8:‏29 سے کون سی وجہ پتہ چلتی ہے جس کی بِنا پر یسوع کا اِطمینان برقرار رہا؟‏

8 یوحنا 8:‏29 کو پڑھیں۔‏ اذیت کا سامنا کرتے ہوئے بھی یسوع مسیح کا اِطمینان برقرار رہا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ اپنے باپ کو خوش کر رہے ہیں۔‏ اُنہوں نے اُس وقت بھی یہوواہ کی فرمانبرداری کی جب اُن کے لیے ایسا کرنا مشکل تھا۔‏ وہ اپنے باپ سے محبت کرتے تھے اور اُس کی خدمت کرنا اُن کی زندگی کا مقصد تھا۔‏ زمین پر آنے سے پہلے وہ خدا کے ساتھ ”‏ماہر کاریگر“‏ کے طور پر کام کرتے تھے۔‏ (‏امثا 8:‏30‏)‏ اور جب وہ زمین پر آئے تو اُنہوں نے لگن سے دوسروں کو اپنے باپ کے بارے میں سکھایا۔‏ (‏متی 6:‏9؛‏ یوح 5:‏17‏)‏ اِس کام سے یسوع مسیح کو بہت خوشی ملی۔‏—‏یوح 4:‏34-‏36‏۔‏

9.‏ مُنادی کے کام میں مصروف رہنے سے ہمارا اِطمینان کیسے برقرار رہتا ہے؟‏

9 یہوواہ کے فرمانبردار رہنے اور ”‏مالک کی خدمت میں مصروف“‏ رہنے سے ہم یسوع کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔‏ (‏1-‏کُر 15:‏58‏)‏ جب ہم مُنادی کے کام پر ”‏پورا دھیان“‏ دیتے ہیں تو ہم اپنی مشکلات کے بارے میں حد سے زیادہ پریشان نہیں ہوتے۔‏ (‏اعما 18:‏5‏)‏ ہم مُنادی کے دوران جن لوگوں سے ملتے ہیں،‏ اُنہیں اکثر ہم سے بھی بڑی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔‏ لیکن جب وہ یہوواہ سے محبت کرنا سیکھتے ہیں اور اُس کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں تو اُن کی زندگی سنور جاتی ہے اور وہ خوش رہنے لگتے ہیں۔‏ ہم جب بھی ایسا ہوتے دیکھتے ہیں،‏ ہمارا یہ یقین بڑھتا ہے کہ یہوواہ ہماری بھی مدد کرے گا۔‏ اور اِسی یقین کی بدولت ہم اپنے اِطمینان کو برقرار رکھ پاتے ہیں۔‏ ایک بہن جسے اپنی ساری زندگی احساسِ‌کمتری اور ڈپریشن سے لڑنا پڑا،‏ اُس نے بھی اِس بات کو سچ پایا۔‏ وہ کہتی ہے:‏ ”‏مُنادی کے کام میں مصروف رہنے سے مَیں بہتر طور پر اپنے منفی احساسات پر قابو پانے کے قابل ہوتی ہوں اور زیادہ خوش رہتی ہوں۔‏ میرے خیال میں ایسا اِس لیے ہوتا ہے کیونکہ جب مَیں مُنادی کے کام میں حصہ لیتی ہوں تو مَیں یہوواہ کے زیادہ قریب محسوس کرتی ہوں۔‏“‏

10.‏ آپ نے بہن برینڈا کی مثال سے کیا سیکھا ہے؟‏

10 ذرا بہن برینڈا کی مثال پر بھی غور کریں۔‏ وہ اور اُن کی بیٹی دونوں ایک ایسی بیماری کا شکار ہیں جس میں اُن کے پٹھے بہت کمزور ہو گئے ہیں۔‏ برینڈا ویل‌چیئر تک محدود ہیں اور اُن کے جسم میں بہت کم طاقت ہوتی ہے۔‏ اُن کے لیے جب بھی ممکن ہوتا ہے،‏ وہ گھر گھر مُنادی کرتی ہیں لیکن زیادہ‌تر وہ خطوں کے ذریعے گواہی دیتی ہیں۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏جب مَیں نے اِس بات کو قبول کر لیا کہ اِس دُنیا میں میری صحت ٹھیک نہیں ہو سکتی تو مَیں اپنا پورا دھیان مُنادی کے کام پر لگانے کے قابل ہوئی۔‏ دوسروں کو گواہی دینے کی وجہ سے میرا دھیان اپنی پریشانیوں سے ہٹ جاتا ہے اور مجھے یہ سوچنے کی ترغیب ملتی ہے کہ مَیں اپنے علاقے میں رہنے والے لوگوں کی مدد کیسے کر سکتی ہوں۔‏ گواہی دینے کے کام میں مصروف رہنے کی بدولت مستقبل کے حوالے سے میری اُمید تازہ رہتی ہے۔‏“‏

یسوع مسیح نے اپنے دوستوں کی مدد کو قبول کِیا

اچھے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے سے ہم اپنے اِطمینان کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 11-‏15 کو دیکھیں۔‏)‏

11-‏13.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع کے رسول اور دوسرے لوگ اُن کے سچے دوست کیسے ثابت ہوئے؟‏ (‏ب)‏ یسوع کو اپنے دوستوں کے ساتھ کا کیا فائدہ ہوا؟‏

11 یسوع کو اپنے دَورِخدمت میں کئی مشکلات کا سامنا ہوا اور اِس سارے عرصے کے دوران اُن کے وفادار رسولوں نے یہ ثابت کِیا کہ وہ اُن کے سچے دوست ہیں۔‏ وہ بائبل میں درج اِس کہاوت کی جیتی جاگتی مثالیں تھے کہ ”‏ایسا دوست بھی ہے جو بھائی سے زیادہ محبت رکھتا ہے۔‏“‏ (‏امثا 18:‏24‏)‏ یسوع مسیح اپنے اُن دوستوں کی بہت قدر کرتے تھے۔‏ اُن کے دَورِخدمت میں اُن کے بھائیوں میں سے کوئی بھی اُن پر ایمان نہیں لایا۔‏ (‏یوح 7:‏3-‏5‏)‏ ایک موقعے پر تو یسوع کے رشتےداروں نے اُن کے بارے میں یہاں تک کہا کہ ”‏اُس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔‏“‏ (‏مر 3:‏21‏)‏ لیکن یسوع کے رسول اُن کے رشتےداروں سے بالکل فرق تھے اور اِسی لیے یسوع نے مرنے سے پہلے اُس رات اپنے شاگردوں کے بارے میں کہا:‏ ”‏آپ نے میری آزمائشوں میں میرا ساتھ دیا ہے۔‏“‏—‏لُو 22:‏28‏۔‏

12 سچ ہے کہ یسوع کے رسولوں نے کبھی کبھار اُنہیں مایوس کِیا لیکن یسوع نے اُن کی غلطیوں پر نہیں بلکہ اِس بات پر دھیان دیا کہ وہ اُن پر ایمان رکھتے ہیں۔‏ (‏متی 26:‏40؛‏ مر 10:‏13،‏ 14؛‏ یوح 6:‏66-‏69‏)‏ اپنی زندگی کی آخری رات جب یسوع اپنے وفادار رسولوں کے ساتھ تھے تو اُنہوں نے اُن سے کہا:‏ ”‏مَیں نے آپ کو دوست کہا ہے کیونکہ مَیں نے آپ کو وہ ساری باتیں بتا دی ہیں جو مَیں نے اپنے باپ سے سنی ہیں۔‏“‏ (‏یوح 15:‏15‏)‏ بےشک یسوع کے وہ دوست اُن کے لیے بڑی حوصلہ‌افزائی کا باعث بنے۔‏ اُنہوں نے جس طرح سے مُنادی کے کام میں یسوع کا ساتھ دیا،‏ اُس سے اُن کا دل باغ باغ ہو گیا۔‏—‏لُو 10:‏17،‏ 21‏۔‏

13 رسولوں کے علاوہ یسوع مسیح کے اَور بھی دوست تھے جن میں مرد اور عورتیں شامل تھیں۔‏ اِن مردوں اور عورتوں نے نہ صرف مُنادی کے کام میں اُن کا ساتھ دیا بلکہ اَور بھی عملی طریقوں سے اُن کی مدد کی۔‏ اُن میں سے کچھ لوگوں نے یسوع کو اپنے گھر کھانے پر بلایا۔‏ (‏لُو 10:‏38-‏42؛‏ یوح 12:‏1،‏ 2‏)‏ کچھ اَور لوگ مُنادی کے کام میں اُن کے ساتھ ساتھ رہے اور اپنے مالی وسائل سے اُن کی مدد کی۔‏ (‏لُو 8:‏3‏)‏ یہ سب لوگ اِس لیے یسوع کے اچھے دوست تھے کیونکہ یسوع خود ایک اچھے دوست ثابت ہوئے۔‏ یسوع نے اُن کی بھلائی کے لیے کام کیے اور کبھی اُن سے کوئی ایسی توقع نہیں رکھی جس پر وہ پورے نہیں اُتر سکتے تھے۔‏ حالانکہ یسوع بےعیب تھے لیکن پھر بھی وہ اپنے عیب‌دار دوستوں کی مدد کی قدر کرتے تھے۔‏ بِلاشُبہ اُن کے ساتھ کی بدولت یسوع کو اپنا اِطمینان برقرار رکھنے میں مدد ملی۔‏

14،‏ 15.‏ ‏(‏الف)‏ ہم اچھے دوست کیسے بنا سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اچھے دوست ہماری مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏

14 اچھے دوست یہوواہ کے وفادار رہنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔‏ اور اچھے دوست بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم خود بھی اچھے دوست ثابت ہوں۔‏ (‏متی 7:‏12‏)‏ مثال کے طور پر پاک کلام میں ہماری حوصلہ‌افزائی کی گئی ہے کہ ہم اپنا وقت اور توانائی دوسروں کی مدد کرنے کے لیے صرف کریں،‏ خاص طور پر ”‏ضرورت‌مندوں“‏ کی مدد کرنے کے لیے۔‏ (‏اِفس 4:‏28‏)‏ کیا آپ کی کلیسیا میں کوئی ایسی بہن یا بھائی ہے جس کی آپ مدد کر سکتے ہیں؟‏ مثال کے طور پر کیا آپ کسی ایسے مبشر کے لیے خریداری کر سکتے ہیں جو گھر سے باہر نہیں جا سکتا؟‏ کیا آپ کسی ایسے خاندان کے لیے کھانا بنا سکتے ہیں جس کے مالی حالات ٹھیک نہیں ہیں؟‏ اگر آپ ویب‌سائٹ ®jw.org اور ‏”‏جےڈبلیو لائبریری“‏ ایپ کو اِستعمال کرنا جانتے ہیں تو کیا آپ کلیسیا میں دوسرے بہن بھائیوں کو بھی اِنہیں اِستعمال کرنا سکھا سکتے ہیں تاکہ وہ اِن میں پائی جانے والی سنہری باتوں سے فائدہ حاصل کر سکیں؟‏ جب ہم دوسروں کی مدد کرنے میں مشغول رہیں گے تو ہمیں بہت خوشی ملے گی۔‏—‏اعما 20:‏35‏۔‏

15 اچھے دوست مشکلات میں ہمارا سہارا بنتے ہیں اور یوں ہمارے اِطمینان کو برقرار رکھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔‏ اِلیہو نے اُس وقت بڑے دھیان سے ایوب کی باتیں سنیں جب وہ اپنی مشکلات بیان کر رہے تھے۔‏ (‏ایو 32:‏4‏)‏ اِسی طرح ہمارے دوست اُس وقت بڑے صبر سے ہماری بات سنتے ہیں جب ہم اُنہیں اپنی پریشانیوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔‏ یوں ہمیں بہت فائدہ ہوتا ہے۔‏ سچ ہے کہ ہمیں اپنے دوستوں سے یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ وہ ہمارے لیے فیصلے کریں لیکن ہمیں اُن کے اُن مشوروں کو ضرور سننا چاہیے جو وہ پاک کلام سے دیتے ہیں۔‏ (‏امثا 15:‏22‏)‏ ایک موقعے پر بادشاہ داؤد کے دوستوں نے اُن کی مدد کرنی چاہی اور داؤد نے اِس مدد کو خاکساری سے قبول کِیا۔‏ (‏2-‏سمو 17:‏27-‏29‏)‏ اگر ضرورت کے وقت ہمارے دوست ہماری مدد کرنا چاہیں تو ہمیں غرور میں آ کر اُن کی مدد کو ٹھکرانا نہیں چاہیے۔‏ ایسے سچے دوست واقعی یہوواہ کی طرف سے نعمت ہوتے ہیں۔‏—‏یعقو 1:‏17‏۔‏

اپنے اِطمینان کو برقرار رکھنے کا ذریعہ

16.‏ فِلپّیوں 4:‏6،‏ 7 کے مطابق اِطمینان حاصل کرنے کا واحد ذریعہ کیا ہے؟‏ وضاحت کریں۔‏

16 فِلپّیوں 4:‏6،‏ 7 کو پڑھیں۔‏ ہم اُس اِطمینان کو ”‏مسیح یسوع کے ذریعے“‏ ہی کیوں حاصل کر سکتے ہیں جو خدا ہمیں دیتا ہے؟‏ کیونکہ ہمارے دلوں اور ذہنوں کو تبھی حقیقی اِطمینان ملے گا جب ہم یسوع پر ایمان رکھیں گے اور اِس بات کو سمجھیں گے کہ یسوع،‏ یہوواہ کے مقصد میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔‏ یسوع مسیح کے فدیے کی بدولت ہمیں گُناہوں کی معافی حاصل ہوتی ہے۔‏ (‏1-‏یوح 2:‏12‏)‏ کیا اِس بات پر سوچ بچار کرنے سے آپ کو تسلی نہیں ملتی؟‏ خدا کی بادشاہت کے بادشاہ کے طور پر یسوع مسیح اُس تمام نقصان کی بھرپائی کر دیں گے جو ہمیں شیطان اور اُس کی دُنیا کی وجہ سے ہوتا ہے۔‏ (‏یسع 65:‏17؛‏ 1-‏یوح 3:‏8؛‏ مکا 21:‏3،‏ 4‏)‏ کیا اِس بات سے آپ کے دل میں اُمید کا چراغ روشن نہیں ہوتا؟‏ اور حالانکہ یسوع مسیح نے ہمیں ایک مشکل کام دیا ہے لیکن اُنہوں نے ہمیں اکیلا نہیں چھوڑا بلکہ وہ اِس آخری زمانے میں ہمارے ساتھ ہیں۔‏ (‏متی 28:‏19،‏ 20‏)‏ کیا اِس بات سے آپ کے اندر دلیری پیدا نہیں ہوتی؟‏ ایسی تسلی،‏ اُمید اور دلیری اپنے اِطمینان کو برقرار رکھنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔‏

17.‏ ‏(‏الف)‏ ایک مسیحی اپنے اِطمینان کو کیسے برقرار رکھ سکتا ہے؟‏ (‏ب)‏ یوحنا 16:‏33 میں درج وعدے کے مطابق ہم کیا کر پائیں گے؟‏

17 تو پھر ہم اُس وقت اپنے اِطمینان کو کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں جب ہم پر مشکلات کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے؟‏ ہم بھی وہی کام کر سکتے ہیں جو یسوع مسیح نے کیے۔‏ پہلا کام یہ ہے کہ ہم دُعا کرنے میں لگے رہیں۔‏ دوسرا یہ ہے کہ ہم یہوواہ کے فرمانبردار رہیں اور ایسے حالات میں بھی لگن سے مُنادی کا کام کریں جب ایسا کرنا مشکل ہو۔‏ اور تیسرا کام یہ ہے کہ ہم مشکلات کا سامنا کرتے وقت اپنے دوستوں کی مدد کو قبول کریں۔‏ پھر ہمیں خدا کی طرف سے وہ اِطمینان حاصل ہوگا جو ہمارے دلوں اور سوچ کو محفوظ رکھے گا اور ہم بھی یسوع مسیح کی طرح ہر مشکل کا کامیابی سے سامنا کر پائیں گے۔‏‏—‏یوحنا 16:‏33 کو پڑھیں۔‏

گیت نمبر 6‏:‏ خدا کے خادموں کی دُعا

^ پیراگراف 5 ہم سب کو ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ہمارے اِطمینان کو چھین سکتی ہیں۔‏ اِس مضمون میں ہم غور کریں گے کہ یسوع مسیح نے اپنے اِطمینان کو برقرار رکھنے کے لیے کون سے تین کام کیے۔‏ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ یہ تین کام کرنے سے ہم بھی سخت مشکلات میں اپنے اِطمینان کو کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں۔‏