مطالعے کا مضمون نمبر 16
بہن بھائیوں سے پیش آتے وقت یہوواہ کی مثال پر عمل کریں
”صرف اُس بات کی بِنا پر فیصلہ نہ کریں جو آپ کو نظر آتی ہے بلکہ اِنصاف کے ساتھ فیصلہ کریں۔“—یوح 7:24۔
گیت نمبر 101: یہوواہ کی خدمت میں یکدل
مضمون پر ایک نظر *
1. بائبل سے ہمیں یہوواہ کے بارے میں کیا حقیقت پتہ چلتی ہے؟
کیا آپ یہ چاہیں گے کہ لوگ آپ کے رنگ رُوپ، نین نقش یا قد کاٹھ کو دیکھ کر یہ فیصلہ کریں کہ آپ کیسے شخص ہیں؟ یقیناً نہیں۔ یہ جان کر ہمیں بڑی تسلی ملتی ہے کہ یہوواہ اُن باتوں کی بِنا پر ہمارے بارے میں رائے قائم نہیں کرتا جو نظر آتی ہیں۔ اِس سلسلے میں بائبل میں درج ایک واقعے پر غور کریں۔ جب سموئیل، یسی کے گھر گئے تو اُنہوں نے یسی کے بیٹوں کو اُس نظر سے نہیں دیکھا جس نظر سے یہوواہ دیکھ رہا تھا۔ یہوواہ نے سموئیل کو بتایا تھا کہ یسی کے بیٹوں میں سے ایک بنیاِسرائیل کا بادشاہ بنے گا۔ لیکن اُس کا نام نہیں بتایا تھا۔ جب سموئیل نے یسی کے سب سے بڑے بیٹے الیاب کو دیکھا تو اُنہوں نے کہا کہ یقیناً یہی ”[یہوواہ] کا ممسوح“ ہے کیونکہ الیاب کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ وہ بادشاہ بننے کے لیے بالکل مناسب ہیں۔ لیکن یہوواہ نے سموئیل سے کہا: ”اُس کے چہرہ اور اُس کے قد کی بلندی کو نہ دیکھ اِس لئے کہ مَیں نے اُسے ناپسند کِیا ہے۔“ اِس سے یہ حقیقت نمایاں ہوتی ہے کہ ”اِنسان ظاہری صورت کو دیکھتا ہے پر [یہوواہ] دل پر نظر کرتا ہے۔“—1-سمو 16:1، 6، 7۔
2. یوحنا 7:24 کے مطابق ہمیں صرف کسی شخص کو دیکھ کر اُس کے بارے میں رائے قائم کیوں نہیں کر لینی چاہیے؟ مثال دیں۔
2 چونکہ ہم عیبدار ہیں اِس لیے ہم اکثر اُن باتوں پر توجہ دیتے ہیں جو نظر آتی ہیں اور اِنہی کی بِنا پر دوسروں کے بارے میں فیصلہ کر لیتے ہیں کہ وہ کیسے شخص ہیں۔ (یوحنا 7:24 کو پڑھیں۔) لیکن ہم کسی شخص کو صرف دیکھ کر اُس کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جان سکتے۔ اِس سلسلے میں ذرا ایک مثال پر غور کریں۔ چاہے ایک ڈاکٹر کتنا ہی تجربہکار اور ماہر ہو، وہ مریض کو محض دیکھ کر اُس کے بارے میں سب کچھ نہیں جان سکتا۔ اگر وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ مریض کو صحت کے کن مسئلوں کا سامنا ہے، وہ جذباتی طور پر کتنا مضبوط ہے یا اُس کے اندر بیماری کی کون سی علامات موجود ہیں تو اُسے دھیان سے مریض کی بات سننی ہوگی۔ شاید ڈاکٹر مریض کے جسم کے اندرونی حصوں کا جائزہ لینے کے لیے اُسے ایکسرے کرانے کو بھی کہے۔ اگر ڈاکٹر یہ سب نہیں کرے گا تو شاید وہ بیماری کو صحیح طرح نہ پکڑ پائے۔ اِسی طرح ہم بہن بھائیوں کو محض دیکھ کر اُن کو پوری طرح سے نہیں سمجھ سکتے۔ ہمیں اُن کے ظاہر پر دھیان دینے کی بجائے اُن کے باطن یعنی اندر کے اِنسان کو جاننا ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ ہم کبھی بھی دوسروں کو اُتنی اچھی طرح نہیں سمجھ سکتے جتنی اچھی طرح یہوواہ سمجھتا ہے کیونکہ ہم یہوواہ کی طرح اُن کے دلوں میں نہیں جھانک سکتے۔ مگر ہم یہوواہ کی مثال پر عمل کرنے کی پوری کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔ آئیں، دیکھیں کہ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔
3. اِس مضمون میں ہم یہوواہ کی مثال سے کیا سیکھیں گے؟
3 یہوواہ اپنے بندوں کے ساتھ کس طرح پیش آتا ہے؟ وہ اُن کی بات سنتا ہے، اُن کے پسمنظر اور صورتحال کو سمجھتا ہے اور اُن سے مہربانی سے پیش آتا ہے۔ آئیں، دیکھیں کہ یہوواہ نے یُوناہ، ایلیاہ، ہاجرہ اور لُوط کے سلسلے میں ایسا کیسے کِیا اور ہم بہن بھائیوں سے پیش آتے وقت اُس کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔
دھیان سے بات سنیں
4. ہم یُوناہ کے سلسلے میں منفی رائے قائم کرنے کی طرف کیوں مائل ہو سکتے ہیں؟
4 اِنسانی سوچ کے حساب سے شاید ہم یُوناہ کے بارے میں یہ رائے قائم کر لیں کہ وہ ایک ناقابلِبھروسا، یہاں تک کہ نافرمان شخص تھے۔ یہوواہ نے یُوناہ کو خود یہ حکم دیا تھا کہ وہ نینوہ کے لوگوں کو بتائیں کہ وہ اُن پر عذاب لانے والا ہے۔ لیکن یہوواہ کا حکم ماننے کی بجائے یُوناہ ایک ایسے جہاز میں سوار ہو گئے جو نینوہ کی مخالف سمت میں جا رہا تھا۔ اِس طرح ”یُوؔناہ [یہوواہ] کے حضور سے“ بھاگ گئے۔ (یُوناہ 1:1-3) اگر آپ کے پاس یہ اِختیار ہوتا کہ آپ یُوناہ کو ایک اَور موقع دیں تو کیا آپ ایسا کرتے؟ شاید نہیں۔ لیکن یہوواہ کی نظر میں یُوناہ اِس لائق تھے کہ اُنہیں ایک اَور موقع دیا جائے۔—یُوناہ 3:1، 2۔
5. یُوناہ 2:1، 2، 9 سے یُوناہ کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟
5 یُوناہ 2:1، 2، 9 کو پڑھیں۔ یُوناہ کی اِس دُعا سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اصل میں کس طرح کے شخص تھے۔ بےشک یُوناہ نے یہوواہ سے بہت بار دُعا کی ہوگی۔ لیکن اِس دُعا سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ یُوناہ محض ایک ایسے شخص نہیں تھے جو اپنی ذمےداری سے بھاگ رہا ہو۔ اُن کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خاکسار تھے، یہوواہ کے بہت شکرگزار تھے اور اُس کا حکم ماننے کے لیے پوری طرح تیار تھے۔ اِسی لیے یہوواہ نے یُوناہ کی غلطی پر توجہ نہیں دی بلکہ اُن کی دُعا کا جواب دیا اور اُنہیں ایک نبی کے طور پر اِستعمال کرتا رہا۔
6. ہمیں دوسروں کی بات دھیان سے کیوں سننی چاہیے؟
6 دوسروں کی بات کو دھیان سے سننے کے لیے ہمیں خاکساری اور صبر سے کام لینا چاہیے۔ اِس کے کم از کم تین فائدے ہوں گے۔ ایک فائدہ یہ ہوگا کہ اِس طرح ہم دوسروں کے بارے میں فوراً غلط رائے قائم نہیں کر لیں گے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم اُن کے احساسات کو سمجھ سکیں گے اور یہ جان سکیں گے کہ اُن کے فلاں کام یا رویے کے پیچھے اصل وجہ کیا ہے۔ یوں ہم اُن کے ساتھ مہربانی سے پیش آ سکیں گے۔ امثا 20:5) ایشیا میں رہنے والے ایک بزرگ کہتے ہیں: ”مجھے یاد ہے کہ ایک بار مَیں نے پوری بات سنے بغیر ہی کچھ کہہ دیا۔ مَیں نے ایک بہن سے کہا کہ اُسے اِجلاسوں میں اَور اچھے جواب دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ اُسے پڑھنے میں مشکل ہوتی ہے اور اِجلاسوں کے لیے جواب تیار کرنے کے لیے کافی کوشش کرنی پڑتی ہے۔“ لہٰذا یہ بہت اہم ہے کہ ہر بزرگ دوسروں کو مشورہ دینے سے پہلے پوری بات سُن لے۔—امثا 18:13۔
اور تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم سے بات کرتے کرتے شاید اُنہیں خود بھی یہ اندازہ ہو جائے کہ اُن کے اندر کیا چل رہا ہے۔ کبھی کبھار ہمیں تب تک اپنے احساسات کا صحیح پتہ نہیں چلتا جب تک ہم کسی کے سامنے اِن کا اِظہار نہیں کرتے۔ (7. یہوواہ ایلیاہ کے ساتھ جس طرح پیش آیا، اُس سے آپ نے کیا سیکھا ہے؟
7 ہمارے کچھ بہن بھائی اپنے ماضی، اپنی ثقافت یا اپنے مزاج کی وجہ سے اپنے احساسات کا اِظہار کرنا مشکل پاتے ہیں۔ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ وہ کُھل کر ہمیں اپنے دل کا حال بتا سکیں؟ ذرا غور کریں کہ یہوواہ اُس وقت ایلیاہ سے کیسے پیش آیا جب وہ اِیزِبل سے جان بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے۔ ایلیاہ نے اپنے آسمانی باپ کے سامنے اپنے احساسات کا اِظہار فوراً نہیں کِیا بلکہ کافی دنوں کے بعد کِیا۔ اور جب اُنہوں نے ایسا کِیا تو یہوواہ نے بڑے دھیان سے اُن کی بات سنی۔ اِس کے بعد اُس نے ایلیاہ کا حوصلہ بڑھایا اور اُنہیں ایک بہت اہم ذمےداری سونپی۔ (1-سلا 19:1-18) ہو سکتا ہے کہ ہمارے بہن بھائی بھی فوراً ہمیں اپنے احساسات کے بارے میں کُھل کر نہ بتائیں بلکہ اُن کی یہ جھجک آہستہ آہستہ دُور ہو۔ اگر ہم یہوواہ کی طرح صبر سے کام لیں گے تو ہم اُن کا بھروسا جیت لیں گے۔ پھر جب وہ ہمیں اپنے احساسات کے بارے میں بتاتے ہیں تو ہمیں دھیان سے اُن کی بات سننی چاہیے۔
بہن بھائیوں کو اچھی طرح جانیں
8. پیدایش 16:7-13 کے مطابق یہوواہ نے ہاجرہ کی مدد کیسے کی؟
8 ہاجرہ جو کہ ساری کی نوکرانی تھیں، ابرام کی بیوی بن گئیں۔ پھر جب وہ حاملہ ہوئیں تو اُن کی آنکھیں ماتھے پر لگ گئیں اور وہ ساری کو حقیر سمجھنے لگیں جن کے بچے نہیں تھے۔ صورتحال اِتنی خراب ہو گئی کہ ساری کو ہاجرہ کے ساتھ سختی سے پیش آنا پڑا جس کی وجہ سے ہاجرہ بھاگ گئیں۔ (پید 16:4-6) شاید ہمیں لگے کہ ہاجرہ ایک مغرور عورت تھیں اِس لیے اُن کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ لیکن یہوواہ خدا نے ہاجرہ کے بارے میں یہ نہیں سوچا۔ اُس نے اُن کے پاس ایک فرشتے کو بھیجا۔ جب فرشتے کو ہاجرہ ملیں تو اُس نے اُن کی مدد کی کہ وہ اپنا رویہ درست کریں اور اُنہیں برکت بھی دی۔ ہاجرہ کو یہ احساس ہو گیا کہ یہوواہ اُنہیں دیکھ رہا ہے اور اُن کی صورتحال کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ اِس لیے اُنہوں نے یہوواہ کے بارے میں کہا کہ وہ ”بصیر“ یعنی دیکھنے والا ہے۔—پیدایش 16:7-13 کو پڑھیں۔
9. یہوواہ نے ہاجرہ کے سلسلے میں کن باتوں کو مدِنظر رکھا؟
9 یہوواہ نے ہاجرہ کی مدد کیوں کی؟ وہ اُن کے پسمنظر اور اُن کی صورتحال سے پوری طرح واقف تھا۔ (امثا 15:3) ہاجرہ ایک مصری عورت تھیں اور ایک عبرانی گھرانے میں رہ رہی تھیں۔ شاید کبھی کبھار اُنہیں سب کچھ پرایا پرایا سا لگتا ہو۔ شاید وہ اپنے گھر والوں اور اپنے وطن کو یاد کرتی ہوں۔ ایک اَور بات یہ تھی کہ صرف ہاجرہ ہی ابرام کی بیوی نہیں تھیں۔ دراصل ایک وقت تھا جب خدا کے کچھ بندوں کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں۔ لیکن یہ بندوبست شادی کے سلسلے میں یہوواہ کے اصل مقصد کا حصہ نہیں تھا۔ (متی 19:4-6) اِسی لیے اِس بندوبست کی وجہ سے بیویوں کے دل میں ایک دوسرے کے لیے حسد اور غصہ پیدا ہو جاتا تھا۔ اِن باتوں کے باوجود یہوواہ نے ساری کے ساتھ ہاجرہ کے سلوک کو جائز قرار نہیں دیا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اُس نے ہاجرہ کے پسمنظر اور اُن کی صورتحال کو بھی مدِنظر رکھا۔
10. ہم اپنے بہن بھائیوں کو اچھی طرح کیسے جان سکتے ہیں؟
10 ہم ایک دوسرے کی صورتحال کو سمجھنے سے یہوواہ کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے بہن بھائیوں کو اچھی طرح جاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اِجلاسوں سے پہلے اور بعد میں اُن سے بات کریں، اُن کے ساتھ مُنادی کریں اور اگر ممکن ہو تو اُنہیں کھانے پر بلائیں۔ ایسا کرنے سے شاید آپ دیکھیں کہ جس بہن کے بارے میں آپ کو لگتا ہے کہ وہ اُکھڑی اُکھڑی رہتی ہے، اصل میں وہ دوسروں سے بات کرنے روم 14:4) یہ سچ ہے کہ ہم ”دوسروں کے معاملوں میں دخل دینے“ والے نہیں بننا چاہتے۔ (1-تیم 5:13) لیکن اچھا ہوگا کہ ہم بہن بھائیوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ جاننے اور اُن کے حالات سے واقف ہونے کی کوشش کریں۔ یوں ہم سمجھ سکیں گے کہ اُن کی شخصیت ویسی کیوں ہے جیسی ہمیں نظر آتی ہے۔
سے جھجکتی ہے؛ جس بھائی کے بارے میں آپ سمجھتے ہیں کہ وہ مالودولت کے پیچھے بھاگ رہا ہے، اصل میں وہ کافی مہماننواز ہے یا جو بہن اپنے بچوں کے ساتھ اِجلاس پر اکثر دیر سے آتی ہے، اصل میں وہ مخالفت کا سامنا کر رہی ہے۔ (11. یہ کیوں اہم ہے کہ بزرگ یہوواہ کی بھیڑوں کو اچھی طرح جانیں؟
11 خاص طور پر بزرگوں کو اُن بہن بھائیوں کے پسمنظر اور حالات سے واقف ہونا چاہیے جن کی دیکھبھال کی اُنہیں ذمےداری دی گئی ہے۔ ذرا آرتُر نامی بھائی کے تجربے پر غور کریں جو حلقے کے نگہبان تھے۔ وہ اور ایک اَور بزرگ ایک بہن سے ملنے گئے جو اپنے آپ میں رہتی تھی اور دوسروں سے زیادہ بات نہیں کرتی تھی۔ آرتُر کہتے ہیں: ”اُن سے بات کر کے ہمیں پتہ چلا کہ اُن کی شادی کے کچھ ہی عرصے بعد اُن کے شوہر فوت ہو گئے تھے۔ اُنہوں نے مشکلات کے باوجود اپنی دو بیٹیوں کو یہوواہ سے محبت کرنا سکھایا جس کی وجہ سے وہ دونوں وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کر رہی ہیں۔ اب اُس بہن کی نظر کمزور ہوتی جا رہی تھی اور وہ ڈپریشن کی بیماری میں مبتلا تھیں۔ اِس کے باوجود یہوواہ خدا کے لیے اُن کی محبت میں کمی نہیں آئی اور اُس پر اُن کا بھروسا کم نہیں ہوا۔ ہم نے دیکھا کہ ہمیں اُس بہن کی عمدہ مثال سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔“ (فل 2:3) آرتُر یہوواہ کی مثال پر عمل کر رہے تھے۔ یہوواہ اپنی بھیڑوں کو اور اُن کی تکلیف کو اچھی طرح جانتا ہے۔ (خر 3:7) جو بزرگ یہوواہ کی بھیڑوں کو اچھی طرح جانتے ہیں، وہ زیادہ بہتر طور پر اُن کی دیکھبھال کر سکتے ہیں۔
12. ایک بہن نے اپنی کلیسیا کی بہن کو زیادہ اچھی طرح جاننے سے کیا سیکھا؟
12 کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی بہن بھائی کی کسی بات یا کام سے چڑِتے ہیں۔ لیکن پھر جب ہم اُس کے پسمنظر اور صورتحال کے بارے میں جان جاتے ہیں تو ہم اُس کے مزاج اور شخصیت کو اَور اچھی طرح سمجھ پاتے ہیں۔ ایشیا میں رہنے والی ایک بہن کہتی ہے: ”میری کلیسیا میں ایک بہن بہت اُونچا بولتی تھی۔ مَیں سوچتی تھی کہ اُسے بولنے کے آداب نہیں آتے۔ لیکن جب مَیں نے اُس کے ساتھ مُنادی کی تو مجھے پتہ چلا کہ وہ اپنے امی ابو کے ساتھ بازار میں مچھلی بیچا کرتی تھی اور گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے اُسے اُونچی آواز لگانی پڑتی تھی۔ اِس سے مَیں نے سیکھا کہ اپنے بہن بھائیوں کو اَور اچھی طرح جاننے کے لیے مجھے اُن کے پسمنظر سے واقف ہونا ہوگا۔“ یہ سچ ہے کہ بہن بھائیوں کو زیادہ اچھی طرح جاننے کے لیے کوشش درکار ہے۔ لیکن جب آپ بائبل میں درج نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اپنے دل میں بہن بھائیوں کے لیے زیادہ جگہ بنائیں گے تو آپ یہوواہ کی مثال پر عمل کر رہے ہوں گے جو ’ہر طرح کے لوگوں‘ سے پیار کرتا ہے۔—1-تیم 2:3، 4؛ 2-کُر 6:11-13۔
مہربانی سے پیش آئیں
13. پیدایش 19:15، 16 کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتائیں کہ جب لُوط نے سدوم سے نکلنے میں دیر لگائی تو فرشتوں نے کیا کِیا اور کیوں۔
13 لُوط نے اپنی زندگی کے ایک اہم موقعے پر یہوواہ کی ہدایات پر عمل کرنے میں سُستی کی۔ یہوواہ کے دو فرشتے اُن کے پاس آئے اور اُنہیں بتایا کہ وہ اپنے گھرانے کو لے کر سدوم سے نکل جائیں کیونکہ وہ اُس ”مقام کو نیست“ کرنے والے تھے۔ (پید 19:12، 13) اگلی صبح تک بھی لُوط اور اُن کا گھرانہ سدوم میں اپنے گھر پر ہی تھا۔ اِس لیے فرشتوں نے ایک بار پھر لُوط کو وہاں سے نکلنے کو کہا۔ لیکن لُوط نے ”دیر لگائی۔“ شاید ہم لُوط کے بارے میں یہ رائے قائم کر لیں کہ وہ ایک ڈھیٹھ اور نافرمان شخص تھے۔ لیکن یہوواہ نے ایسا نہیں سوچا اور اُنہیں بچانے کی کوشش نہیں چھوڑی۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ’یہوواہ کی مہربانی اُن پر ہوئی‘ اور فرشتوں نے ہاتھ پکڑ کر اُنہیں اور اُن کے بیوی بچوں کو شہر سے باہر نکال دیا۔—پیدایش 19:15، 16 کو پڑھیں۔
14. یہوواہ نے لُوط پر مہربانی کیوں کی ہوگی؟
14 یہوواہ نے کئی وجوہات کی بِنا پر لُوط پر مہربانی کی ہوگی۔ شاید لُوط اپنا گھر بار چھوڑنے سے اِس لیے ہچکچا رہے ہوں کیونکہ وہ شہر کے باہر کے لوگوں سے خوفزدہ تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کچھ اَور خطرے بھی تھے۔ غالباً لُوط اُن دو بادشاہوں کے بارے میں جانتے تھے جو ایک قریبی وادی میں نفت یعنی تارکول کے گڑھوں میں گِر گئے تھے۔ (پید 14:8-12) ایک شوہر اور باپ کے طور پر لُوط ضرور اِس حوالے سے اپنے خاندان کے بارے میں پریشان ہوں گے۔ شاید لُوط اِس لیے بھی ہچکچا رہے ہوں کیونکہ وہ ٹھیک ٹھاک امیر تھے اور سدوم میں اُن کا گھر کافی اچھا تھا۔ (پید 13:5، 6) وجہ جو بھی ہو، اُنہیں یہوواہ کے حکم پر عمل کرنے میں دیر نہیں لگانی چاہیے تھی۔ مگر یہوواہ کا سارا دھیان لُوط کی اِس غلطی پر نہیں تھا بلکہ اُس نے اُنہیں ایک ”نیک آدمی“ قرار دیا۔—2-پطر 2:7، 8۔
15. ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں؟
15 ہمیں کسی کے رویے کو دیکھ کر فوراً یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کیسا شخص ہے۔ اِس کی بجائے ہمیں اُس کے احساسات کو سمجھنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ یورپ میں رہنے والی ورونیکا نے ایسا ہی کِیا۔ وہ کہتی ہیں: ”ایک بہن ہمیشہ دوسروں سے کھچی کھچی اور الگ تھلگ رہتی تھی۔ کبھی کبھی تو مَیں اُس سے بات کرنے سے ڈرتی تھی۔ لیکن مَیں نے سوچا کہ ”اگر مَیں اُس کی جگہ ہوتی تو مجھے کسی دوست کی ضرورت
ہوتی۔“ اِس لیے مَیں نے فیصلہ کِیا کہ مَیں اُس سے بات کر کے اُس کے احساسات کے بارے میں جاننے کی کوشش کروں گی۔ اور جب مَیں نے ایسا کِیا تو وہ مجھ سے اپنے دل کی باتیں کرنے لگی۔ اب مَیں اُسے کافی اچھی طرح جانتی ہوں۔“16. ہمیں دوسروں کے احساسات کو سمجھنے کے لیے یہوواہ سے مدد کیوں مانگنی چاہیے؟
16 صرف اور صرف یہوواہ خدا ہی ہمارے احساسات کو پوری طرح سمجھتا ہے۔ (اعما 1:24) اِس لیے اُس سے دُعا کریں کہ وہ دوسروں کو اُس نظر سے دیکھنے میں آپ کی مدد کرے جس سے وہ دیکھتا ہے اور اُن کے ساتھ مہربانی سے پیش آنے میں آپ کی رہنمائی کرے۔ دُعا کے ذریعے انزہیلا نامی ایک بہن نے بھی دوسروں سے مہربانی سے پیش آنا سیکھا۔ اُن کی کلیسیا کی ایک بہن کی کسی سے نہیں بنتی تھی۔ انزہیلا کہتی ہیں: ”میرے ذہن پر یہ بات بڑی آسانی سے حاوی ہو سکتی تھی کہ مَیں اُس پر تنقید کروں اور اُس سے دُور دُور رہوں۔ لیکن پھر مَیں نے یہوواہ سے دُعا کی کہ وہ اُس بہن کے احساسات کو سمجھنے میں میری مدد کرے۔“ کیا یہوواہ نے انزہیلا کی دُعا کا جواب دیا؟ بالکل۔ انزہیلا بتاتی ہیں: ”ایک دن ہم نے اِکٹھے مُنادی کی اور اِس کے بعد ہم گھنٹوں باتیں کرتی رہیں۔ مَیں نے اُس کی باتوں کو دھیان سے سنا اور اُس کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اب مَیں اُس سے زیادہ پیار کرتی ہوں اور اُس کی مدد کرنے کی پوری کوشش کرنا چاہتی ہوں۔“
17. ہمیں کیا کرنے کا عزم کرنا چاہیے؟
17 آپ خود یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ فلاں بہن یا بھائی اِس بات کا مستحق ہے کہ اُس سے مہربانی سے پیش آیا جائے اور فلاں نہیں۔ اُن سب کو یُوناہ، ایلیاہ، ہاجرہ اور لُوط کی طرح مسئلوں کا سامنا ہے اور کچھ اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے مصیبتوں میں گِھرے ہوئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم سب کبھی نہ کبھی اپنی کسی غلطی کی وجہ سے مصیبت میں پھنس جاتے ہیں۔ لہٰذا یہوواہ کا یہ حکم بالکل مناسب ہے کہ ہم ایک دوسرے کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ (1-پطر 3:8) جب ہم یہوواہ کے حکموں پر عمل کرتے ہیں تو ہماری عالمگیر برادری کا اِتحاد مضبوط ہوتا ہے۔ لہٰذا آئیں، یہ عزم کریں کہ ہم ایک دوسرے کی بات دھیان سے سنیں گے، ایک دوسرے کو اَور اچھی طرح جانیں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں گے۔
گیت نمبر 87: اِجلاسوں سے تازگی پائیں
^ پیراگراف 5 عیبدار اِنسان ہوتے ہوئے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم فوراً دوسروں کے بارے میں اور اُن کی نیت کے بارے میں رائے قائم کر لیتے ہیں۔ لیکن ”[یہوواہ] دل پر نظر کرتا ہے۔“ (1-سمو 16:7) اِس مضمون میں ہم سیکھیں گے کہ یہوواہ خدا یُوناہ، ایلیاہ، ہاجرہ اور لُوط کے ساتھ محبت سے کیسے پیش آیا۔ ہم اِس بات پر بھی غور کریں گے کہ ہم اپنے بہن بھائیوں سے پیش آتے وقت یہوواہ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔
^ پیراگراف 52 تصویر کی وضاحت: ایک عمررسیدہ بھائی یہ دیکھ کر خفا ہو رہا ہے کہ ایک جوان بھائی دیر سے اِجلاس پر آیا ہے۔ لیکن بعد میں اُسے پتہ چلتا ہے کہ بھائی اِس لیے دیر سے آیا تھا کیونکہ اُس کی کار کو حادثہ پیش آیا تھا۔
^ پیراگراف 54 تصویر کی وضاحت: خدمتی نگہبان ایک بہن کو دیکھ کر سوچ رہا ہے کہ وہ دوسروں میں گھلنا ملنا پسند نہیں کرتی۔ لیکن بعد میں اُسے پتہ چلتا ہے کہ وہ اُن لوگوں سے بات کرنے سے جھجکتی ہے جنہیں وہ اچھی طرح نہیں جانتی۔
^ پیراگراف 56 تصویر کی وضاحت: ایک بہن کنگڈم ہال میں دوسری بہن کو دیکھ کر سوچ رہی ہے کہ وہ بس اپنے آپ میں رہتی ہے۔ لیکن اُس کے ساتھ وقت گزارنے کے بعد اِس بہن کو پتہ چلتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔