مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 16

فدیے کے لیے قدر ظاہر کرتے رہیں

فدیے کے لیے قدر ظاہر کرتے رہیں

‏’‏اِنسان کا بیٹا اِس لیے آیا کہ بہت سے لوگوں کے لیے اپنی جان فدیے کے طور پر دے۔‏‘‏‏—‏مر 10:‏45‏۔‏

گیت نمبر 18‏:‏ فدیے کے لیے شکرگزار

مضمون پر ایک نظر *

1-‏2.‏ فدیہ کیا ہے اور ہمیں اِس کی ضرورت کیوں ہے؟‏

جب پہلے بےعیب اِنسان آدم نے گُناہ کِیا تو اُنہوں نے نہ صرف خود ہمیشہ تک زندہ رہنے کا موقع گنوا دیا بلکہ اُن کی ہونے والی اولاد سے بھی یہ موقع چھن گیا۔‏ آدم نے جو گُناہ کِیا،‏ اُس کے لیے اُنہیں معاف کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا کیونکہ اُنہوں نے یہ گُناہ جان بُوجھ کر کِیا تھا۔‏ لیکن اُن کے بچوں کا کیا جو بالکل بےقصور تھے؟‏ (‏روم 5:‏12،‏ 14‏)‏ کیا اُنہیں موت کی سزا سے بچانے کے لیے کچھ کِیا جا سکتا تھا؟‏ جی ہاں۔‏ آدم کے گُناہ کرنے کے کچھ ہی دیر بعد خدا نے یہ ظاہر کرنا شروع کر دیا کہ وہ آدم کی کروڑوں اولاد کو گُناہ اور موت کی لعنت سے کیسے چھڑائے گا۔‏ (‏پید 3:‏15‏)‏ اپنے مقررہ وقت پر اُس نے اپنے بیٹے کو آسمان سے زمین پر بھیجا تاکہ وہ ”‏بہت سے لوگوں کے لیے اپنی جان فدیے کے طور پر دے۔‏“‏—‏مر 10:‏45؛‏ یوح 6:‏51‏۔‏

2 فدیہ کیا ہے؟‏ جب اِس لفظ کا ذکر یونانی صحیفوں میں ہوتا ہے تو یہ اُس قیمت کی طرف اِشارہ کرتا ہے جو یسوع نے آدم کی اولاد کے لیے ادا کی تاکہ اُنہیں وہ سب کچھ دوبارہ سے مل سکے جو آدم کی وجہ سے اُن سے چھن گیا تھا۔‏ (‏1-‏کُر 15:‏22‏)‏ ہمیں فدیے کی ضرورت کیوں ہے؟‏ کیونکہ شریعت کے مطابق یہوواہ کے اِنصاف کا معیار یہ ہے کہ جان کے بدلے جان لی جائے۔‏ (‏خر 21:‏23،‏ 24‏)‏ آدم نے ایک بےعیب اِنسانی جان کھوئی تھی۔‏ لہٰذا خدا کے اِنصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے یسوع مسیح نے ایک بےعیب اِنسان کے طور پر اپنی جان قربان کی۔‏ (‏روم 5:‏17‏)‏ یوں وہ اُن سب کے لیے ’‏ابدیت کے باپ‘‏ بن گئے جو اُن کے فدیے پر ایمان لاتے ہیں۔‏—‏یسع 9:‏6؛‏ روم 3:‏23،‏ 24‏۔‏

3.‏ یوحنا 14:‏31 اور 15:‏13 کے مطابق یسوع مسیح ایک بےعیب اِنسان کے طور پر اپنی جان قربان کرنے کو کیوں تیار تھے؟‏

3 یسوع مسیح اپنے آسمانی باپ سے اور ہم سے بہت محبت کرتے ہیں۔‏ اِسی لیے اُنہوں نے خوشی سے اپنی جان قربان کر دی۔‏ ‏(‏یوحنا 14:‏31؛‏ 15:‏13 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس محبت کی بِنا پر ہی یسوع مرتے دم تک یہوواہ کے وفادار رہ پائے اور اُس کی مرضی پر چل پائے۔‏ اِس وجہ سے زمین اور اِنسانوں کے لیے خدا کا وہ مقصد انجام پائے گا جو وہ شروع سے چاہتا تھا۔‏ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ خدا نے یسوع کو موت سے پہلے اِتنی اذیتیں کیوں سہنے دیں۔‏ ہم بائبل کو تحریر کرنے والے ایک ایسے شخص کی مثال پر بھی مختصراً غور کریں گے جو فدیے کی دل سے قدر کرتا تھا۔‏ پھر آخر میں ہم اِس بات پر غور کریں گے کہ ہم فدیے کے لیے شکرگزاری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں اور اپنے دل میں اُس قربانی کے لیے قدر کیسے بڑھا سکتے ہیں جو یہوواہ خدا اور یسوع نے ہماری خاطر دی۔‏

خدا نے یسوع کو تکلیفیں کیوں سہنے دیں؟‏

ذرا اُن تمام اذیتوں کے بارے میں سوچیں جو یسوع مسیح نے ہمارے لیے فدیہ ادا کرنے کی خاطر سہیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 4 کو دیکھیں۔‏)‏

4.‏ بتائیں کہ یسوع مسیح کو موت کے گھاٹ کیسے اُتارا گیا۔‏

4 ذرا سوچیں کہ یسوع مسیح اپنی موت سے پہلے کس کرب سے گزرے۔‏ حالانکہ وہ اپنے باپ سے یہ مِنت کر سکتے تھے کہ وہ اُنہیں بچانے کے لیے ہزاروں فرشتے بھیجے لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کِیا۔‏ وہ چپ‌چاپ رومی فوجیوں کے ہاتھوں گِرفتار ہو گئے جنہوں نے اُنہیں بڑی بےرحمی سے مارا پیٹا۔‏ (‏متی 26:‏52-‏54؛‏ یوح 18:‏3؛‏ 19:‏1‏)‏ اُنہوں نے یسوع کو مارنے کے لیے ایک ایسا کوڑا اِستعمال کِیا جس سے اُن کا ماس اُکھڑ آیا۔‏ اِس کے بعد اُنہوں نے اُن کی زخمی پیٹھ پر سُولی لاد دی۔‏ یسوع بڑی مشکل سے سُولی کو گھسیٹتے ہوئے اُس جگہ تک لے جانے لگے جہاں اُنہیں موت کے گھاٹ اُتارا جانا تھا۔‏ لیکن پھر رومی فوجیوں نے راستے سے گزرنے والے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ یسوع کی سُولی کو اُٹھائے۔‏ (‏متی 27:‏32‏)‏ پھر جب یسوع اُس جگہ پہنچے تو فوجیوں نے اُن کے ہاتھوں اور پیروں میں کیل ٹھونک کر اُنہیں سُولی پر چڑھا دیا۔‏ یسوع کے جسم کے وزن سے اُن کے زخموں میں کھچاؤ پڑنے لگا۔‏ اُنہیں اِتنی تکلیف میں دیکھ کر اُن کی ماں اور اُن کے دوستوں کا کلیجہ پھٹ گیا۔‏لیکن یہودی رہنما یسوع کا مذاق اُڑاتے رہے۔‏ (‏لُو 23:‏32-‏38؛‏ یوح 19:‏25‏)‏ یسوع کا ایک ایک گھنٹہ شدید کرب میں گزر رہا تھا۔‏ سُولی پر لٹکائے جانے کی وجہ سے اُن کے دل اور پھیپھڑوں پر کافی دباؤ ہو گیا۔‏ اُنہیں ایک ایک سانس مشکل سے لینی پڑ رہی تھی۔‏ اپنی آخری سانس لینے سے پہلے اُنہوں نے ایک آخری بار پھر یہوواہ سے دُعا کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ اپنی وفاداری کے اِمتحان میں پورے اُترے ہیں۔‏ اِس کے بعد اُنہوں نے سر جھکا کر دم توڑ دیا۔‏ (‏مر 15:‏37؛‏ لُو 23:‏46؛‏ یوح 10:‏17،‏ 18؛‏ 19:‏30‏)‏ یسوع واقعی بہت ہی تکلیف‌دہ اور شرم‌ناک موت مرے۔‏

5.‏ یسوع مسیح کے لیے سب سے زیادہ تکلیف‌دہ بات کیا تھی؟‏

5 یسوع کو جس طرح کی موت دی گئی،‏ وہ تو اُن کے لیے تکلیف‌دہ تھی ہی۔‏ لیکن اُن کے لیے اِس سے بھی زیادہ تکلیف‌دہ بات یہ تھی کہ اُنہیں کس جُرم میں مارا گیا۔‏ اُن پر یہ جھوٹا اِلزام لگایا گیا کہ اُنہوں نے کفر بکا ہے یعنی وہ ایک ایسے شخص ہیں جس نے خدا اور اُس کے نام کی توہین کی ہے۔‏ (‏متی 26:‏64-‏66‏)‏ یسوع کے لیے یہ خیال اِس قدر تکلیف‌دہ تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ کاش اُن کا باپ اُنہیں اِس ذِلت سے بچا لیتا۔‏ (‏متی 26:‏38،‏ 39،‏ 42‏)‏ تو پھر یہوواہ نے اپنے عزیز بیٹے کو اِتنی ذِلت بھری موت کیوں مرنے دی؟‏ آئیں،‏ اِس کی تین وجوہات پر غور کریں۔‏

6.‏ یسوع کو سُولی پر کیوں مرنا پڑا؟‏

6 پہلی وجہ تو یہ تھی کہ یہودیوں کو ایک لعنت سے آزاد کروانے کے لیے یسوع کو سُولی پر مرنا تھا۔‏ (‏گل 3:‏10،‏ 13‏)‏ بنی‌اِسرائیل نے یہ عہد کِیا تھا کہ وہ خدا کی شریعت پر عمل کریں گے لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔‏ اِس لیے گُناہ اور موت کی لعنت کے ساتھ ساتھ اُن پر شریعت پر عمل نہ کرنے کی لعنت بھی آ پڑی۔‏ (‏روم 5:‏12‏)‏ بنی‌اِسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اگر کوئی شخص ایسا گُناہ کرے جس کی سزا موت ہونی چاہیے تو وہ ضرور مارا جائے۔‏ کبھی کبھار ایک شخص کو سزائےموت دینے کے بعد اُس کی لاش کو درخت سے لٹکایا جاتا تھا۔‏ * (‏اِست 21:‏22،‏ 23؛‏ 27:‏26‏)‏ لہٰذا یسوع کے سُولی پر موت سہنے سے یہودیوں کے لیے اُس لعنت سے چھٹکارا پانا اور یسوع کی قربانی سے فائدہ حاصل کرنا ممکن ہوا حالانکہ اُنہوں نے اُنہیں رد کر دیا تھا۔‏

7.‏ وہ دوسری وجہ کیا ہے جس کی بِنا پر خدا نے اپنے بیٹے کو اذیت‌ناک موت سہنے دی؟‏

7 دوسری وجہ جس کی بِنا پر خدا نے اپنے بیٹے کو اذیت‌ناک موت سہنے دی،‏ وہ یہ تھی کہ خدا یسوع کی تربیت کر رہا تھا تاکہ وہ مستقبل میں ہمارے کاہنِ‌اعظم کے طور پر خدمت انجام دے سکیں۔‏ یسوع مسیح نے خود اِس بات کا تجربہ کِیا کہ جب ایمان کا کٹھن اِمتحان ہوتا ہے تو خدا کا وفادار رہنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔‏ وہ اِمتحان کی گھڑی میں اِس قدر دباؤ محسوس کر رہے تھے کہ اُنہوں نے ”‏آنسو بہا بہا کر اور دُہائیاں دے دے کر“‏ خدا سے اِلتجائیں کیں۔‏ چونکہ یسوع مسیح شدید جذباتی کرب سے گزر چُکے ہیں اِس لیے جب ہم ’‏آزمائش سے گزر رہے ہوتے ہیں‘‏ تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے وقت میں ہمیں کن چیزوں کی ضرورت ہے اور وہ ہماری ’‏مدد کو آ سکتے ہیں۔‏‘‏ ہم یہوواہ کے بہت شکرگزار ہیں کہ اُس نے ہمارے لیے ایک ایسا رحم‌دل کاہنِ‌اعظم مقرر کِیا ہے جو ’‏ہماری کمزوریوں کو سمجھتا ہے۔‏‘‏—‏عبر 2:‏17،‏ 18؛‏ 4:‏14-‏16؛‏ 5:‏7-‏10‏۔‏

8.‏ وہ تیسری وجہ کیا تھی جس کی بِنا پر خدا نے اپنے بیٹے کو شدید تکلیف سہنے دی؟‏

8 آئیں،‏ اب تیسری وجہ پر غور کریں جس کی بِنا پر خدا نے اپنے بیٹے کو شدید تکلیف سہنے دی۔‏ خدا نے ایسا اِس لیے ہونے دیا تاکہ ایک اہم سوال کا جواب دیا جا سکے۔‏ اور وہ سوال یہ تھا کہ کیا اِنسان شدید آزمائش کے باوجود خدا کے وفادار رہ سکتے ہیں؟‏ شیطان کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔‏ اُس کا یہ دعویٰ ہے کہ اِنسان اپنے مطلب کے لیے خدا کی خدمت کرتا ہے۔‏ اور اُس کا ماننا ہے کہ اِنسان اپنے باپ آدم کی طرح یہوواہ سے محبت نہیں کرتے۔‏ لیکن یہوواہ خدا کو اپنے بیٹے پر اِس قدر بھروسا تھا کہ اُس نے اُسے شدید آزمائش سے گزرنے دیا۔‏ (‏ایو 1:‏9-‏11؛‏ 2:‏4،‏ 5‏)‏ یسوع نے بھی اپنے باپ کے بھروسے کا مان رکھا۔‏ وہ اُس کے وفادار رہے اور یوں شیطان کو جھوٹا ثابت کِیا۔‏

دل سے فدیے کی قدر کرنے والا ایک شخص

9.‏ یوحنا رسول نے ہمارے لیے کیسی مثال قائم کی؟‏

9 فدیے کی تعلیم پر غور کرنے سے بہت سے مسیحیوں کا ایمان مضبوط ہوا۔‏ اِس ایمان کی بدولت وہ مخالفت کے باوجود خدا کی بادشاہت کی مُنادی کرتے رہے اور ساری زندگی طرح طرح کی اذیتیں برداشت کرتے رہے۔‏ اِس حوالے سے آئیں،‏ یوحنا رسول کی مثال پر غور کریں۔‏ وہ 60 سال سے بھی زیادہ عرصے تک دوسروں کو مسیح اور اُس کے فدیے کے بارے میں سچائی سکھاتے رہے۔‏ جب وہ تقریباً 100 سال کے تھے تو اُنہیں پتمُس کے جزیرے پر قید کر دیا گیا کیونکہ رومی حکومت کو لگتا تھا کہ وہ اُن کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہیں۔‏ لیکن یوحنا کا جُرم کیا تھا؟‏ ”‏خدا اور یسوع کے بارے میں گواہی“‏ دینا۔‏ (‏مکا 1:‏9‏)‏ یوحنا رسول نے ایمان اور ثابت‌قدمی کی واقعی بڑی عمدہ مثال قائم کی!‏

10.‏ یوحنا نے بائبل کی جو کتابیں لکھیں،‏ اُن سے یہ کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فدیے کی بہت قدر کرتے تھے؟‏

10 یوحنا رسول نے بائبل کی جو کتابیں لکھیں،‏ اُن سے صاف نظر آتا ہے کہ وہ یسوع مسیح سے کتنی محبت کرتے تھے اور اُن کی قربانی کے لیے اُن کے کتنے شکرگزار تھے۔‏ اُنہوں نے اپنی کتابوں میں 100 سے بھی زیادہ بار یا تو فدیے کا یا پھر فدیے سے حاصل ہونے والے فائدوں کا ذکر کِیا۔‏ مثال کے طور پر اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏اگر کوئی شخص گُناہ کرے بھی تو آسمانی باپ کے پاس ہمارا ایک مددگار ہے یعنی یسوع مسیح جو نیک ہے۔‏“‏ (‏1-‏یوح 2:‏1،‏ 2‏)‏ اپنی کتابوں میں یوحنا نے ”‏یسوع کے بارے میں گواہی“‏ دینے پر بھی زور دیا۔‏ (‏مکا 19:‏10‏)‏ واقعی یوحنا فدیے کی دل سے قدر کرتے تھے۔‏ ہم یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم بھی فدیے کی بہت قدر کرتے ہیں؟‏

ہم فدیے کے لیے شکرگزاری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

اگر ہم دل سے فدیے کی قدر کرتے ہیں تو ہم آزمائشوں کا مقابلہ کریں گے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 11 کو دیکھیں۔‏)‏ *

11.‏ ہم آزمائش کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

11 آزمائش کے آگے گُھٹنے نہ ٹیکیں۔‏ اگر ہم فدیے کی دل سے قدر کرتے ہیں تو ہم کبھی بھی اِس سوچ کو اپنے ذہن میں نہیں آنے دیں گے کہ ”‏اگر مجھے آزمائش کا سامنا ہوگا تو ضروری نہیں کہ مَیں اِس کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت کوشش کروں۔‏ اگر مجھ سے گُناہ ہو گیا تو مَیں بعد میں معافی مانگ لوں گا۔‏“‏ اِس کی بجائے اِمتحان کی گھڑی میں ہم یہ سوچیں گے:‏ ”‏یہوواہ اور یسوع نے میرے لیے اِتنا کچھ کِیا ہے۔‏ بھلا مَیں یہ گُناہ کیسے کر سکتا ہوں؟‏“‏ اِس کے ساتھ ساتھ ہم یہوواہ سے یہ درخواست بھی کریں گے کہ وہ ”‏آزمائش کے وقت ہمیں کمزور نہ پڑنے دے۔‏“‏—‏متی 6:‏13‏۔‏

12.‏ ہم 1-‏یوحنا 3:‏16-‏18 میں درج نصیحت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

12 اپنے بہن بھائیوں کے لیے محبت ظاہر کریں۔‏ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم فدیے کے لیے بھی قدر ظاہر کر رہے ہوتے ہیں۔‏ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏ کیونکہ یسوع مسیح نے صرف ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ ہمارے بہن بھائیوں کے لیے بھی اپنی جان قربان کی اور یوں یہ ظاہر کِیا کہ وہ اُن سے کتنی محبت کرتے ہیں۔‏ ‏(‏1-‏یوحنا 3:‏16-‏18 کو پڑھیں۔‏)‏ لہٰذا ہمیں اپنے بہن بھائیوں سے اِس طرح سے پیش آنا چاہیے جس سے یہ ظاہر ہو کہ ہم اُن سے بہت محبت کرتے ہیں۔‏ (‏اِفس 4:‏29،‏ 31–‏5:‏2‏)‏ مثال کے طور پر ہمیں اُس وقت اُن کی مدد کو آنا چاہیے جب وہ بیمار ہوتے ہیں یا کسی کٹھن مشکل سے گزر رہے ہوتے ہیں جیسے کہ کسی قدرتی آفت سے۔‏ لیکن ہمیں اُس وقت کیا کرنا چاہیے جب ہمارا کوئی ہم‌ایمان ہم سے کوئی ایسی بات کہتا ہے یا کوئی ایسا کام کرتا ہے جس سے ہمارا دل دُکھتا ہے؟‏

13.‏ ہمیں دوسروں کو معاف کیوں کرنا چاہیے؟‏

13 کیا آپ کے دل میں اپنے کسی بہن یا بھائی کے لیے رنجش ہے؟‏ (‏احبا 19:‏18‏)‏ اگر ایسا ہے تو اِس ہدایت پر عمل کریں:‏ ”‏اگر آپ کو ایک دوسرے سے شکایت بھی ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کریں اور دل سے ایک دوسرے کو معاف کریں۔‏ جیسے یہوواہ نے آپ کو دل سے معاف کِیا ہے ویسے ہی آپ بھی دوسروں کو معاف کریں۔‏“‏ (‏کُل 3:‏13‏)‏ جب بھی ہم اپنے کسی بہن یا بھائی کو معاف کر دیتے ہیں تو ہم اپنے آسمانی باپ پر یہ ظاہر کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم دل سے فدیے کی قدر کرتے ہیں۔‏ ہم خدا کے دیے ہوئے اِس بیش‌قیمت تحفے کے لیے اپنے دل میں اَور قدر کیسے بڑھا سکتے ہیں؟‏

آپ اپنے دل میں فدیے کے لیے اَور قدر کیسے بڑھا سکتے ہیں؟‏

14.‏ اپنے دل میں فدیے کے لیے اَور قدر بڑھانے کا ایک طریقہ کیا ہے؟‏

14 فدیے کے لیے یہوواہ کا شکر ادا کریں۔‏ اِنڈیا میں رہنے والی 83 سالہ بہن جوانا کہتی ہیں:‏ ”‏مَیں ہر دن دُعا میں فدیے کے لیے یہوواہ کا شکر ادا کرنا کبھی نہیں بھولتی۔‏“‏ ہر دن جب آپ یہوواہ سے دُعا کرتے ہیں تو اُن غلطیوں کا ذکر کریں جو آپ نے اُس دن کے دوران کیں اور پھر یہوواہ سے معافی مانگیں۔‏ ظاہری بات ہے کہ اگر آپ سے کوئی سنگین گُناہ ہوا ہے تو آپ کو بزرگوں سے مدد لینے کی ضرورت ہے۔‏ وہ بڑے آرام سے آپ کی بات سنیں گے اور بڑے پیار سے خدا کے کلام سے آپ کی اِصلاح کریں گے۔‏ وہ آپ کے ساتھ دُعا کریں گے اور یہوواہ سے یہ درخواست کریں گے کہ وہ آپ کو یسوع کی قربانی کی بِنا پر معاف کر دے”‏تاکہ آپ کو [‏روحانی طور پر]‏ شفا ملے۔‏“‏—‏یعقو 5:‏14-‏16‏۔‏

15.‏ ہمیں فدیے کے بارے میں پڑھنے اور اِس پر سوچ بچار کرنے کے لیے وقت کیوں نکالنا چاہیے؟‏

15 یسوع کے فدیے پر سوچ بچار کریں۔‏ ذرا 73 سالہ بہن کی بات پر غور کریں جن کا نام راجامنی ہے۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏جب بھی مَیں اُن تکلیفوں کے بارے پڑھتی ہوں جن سے یسوع گزرے تو میری آنکھیں بھر آتی ہیں۔‏“‏ شاید یسوع کی تکلیفوں کے بارے میں سوچ کر آپ کا دل بھی بھر آتا ہو۔‏ لیکن جتنا زیادہ آپ یسوع کی قربانی پر سوچ بچار کریں گے اُتنا ہی زیادہ آپ کے دل میں اُن کے اور اُن کے باپ کے لیے محبت بڑھ جائے گی۔‏ یسوع کے فدیے پر سوچ بچار کرنے کے لیے کیوں نہ اپنی خاندانی عبادت یا ذاتی مطالعے کے دوران اِس موضوع پر تحقیق کریں؟‏

ایک سادہ سے کھانے کے ذریعے یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں پر ظاہر کِیا کہ وہ اُن کی موت کی یادگاری تقریب کیسے منا سکتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 16 کو دیکھیں۔‏)‏

16.‏ دوسروں کو فدیے کے بارے میں بتانے سے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟‏ (‏سرِورق کی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

16 دوسروں کو یسوع کے فدیے کے بارے میں بتائیں۔‏ جب جب ہم دوسروں کے ساتھ فدیے کے موضوع پر بات کرتے ہیں،‏ ہمارے دل میں اِس کے لیے قدر اَور بڑھ جاتی ہے۔‏ خدا کی تنظیم نے ہمیں شان‌دار کتابیں،‏ رسالے اور ویڈیوز فراہم کی ہیں جن کی مدد سے ہم دوسروں کو یہ سکھا سکتے ہیں کہ یسوع نے ہمارے لیے جان کیوں دی۔‏ مثال کے طور پر ہم دوسروں کے ساتھ بروشر ‏”‏خدا کی طرف سے خوشخبری“‏ کے سبق نمبر 4 پر بات کر سکتے ہیں جس کا عنوان ہے:‏”‏یسوع مسیح کون ہیں؟‏“‏ یا پھر ہم کتاب ‏”‏پاک کلام کی تعلیم حاصل کریں“‏ کے باب نمبر 5 کو اِستعمال کر سکتے ہیں جس کا عنوان ہے:‏ ”‏فدیہ—‏خدا کی طرف سے بیش‌قیمت تحفہ۔‏“‏ اِس کے علاوہ جب ہم ہر سال یسوع کی یادگاری تقریب پر حاضر ہوتے اور دوسروں کو بھی اِس پر آنے کی دعوت دیتے ہیں تو ہم فدیے کے لیے اپنی قدر بڑھاتے ہیں۔‏ یہ ہمارے لیے بڑی خوشی کی بات ہے کہ یہوواہ نے ہمیں یہ اعزاز دیا ہے کہ ہم دوسروں کو اُس کے بیٹے کے بارے میں سکھائیں۔‏

17.‏ فدیہ خدا کی طرف سے ایک بیش‌قیمت تحفہ کیوں ہے؟‏

17 بِلاشُبہ ہمارے پاس اپنے دل میں فدیے کے لیے قدر بڑھانے کی بہت سی وجوہات ہیں۔‏ فدیے کی بدولت ہم عیب‌دار اِنسانوں کے لیے یہوواہ کے ساتھ قریبی دوستی قائم کرنا ممکن ہوا۔‏ فدیے کی وجہ سے اِبلیس کے کاموں کو ختم کر دیا جائے گا۔‏ (‏1-‏یوح 3:‏8‏)‏ فدیے کی وجہ سے زمین کے لیے یہوواہ کا مقصد پورا ہو جائے گا اور یہ فردوس بن جائے گی۔‏ تب ہم جس شخص سے بھی ملیں گے،‏ وہ یہوواہ سے محبت کرتا اور اُس کی خدمت کرتا ہوگا۔‏ آئیں،‏ ہر دن ایسے موقعے ڈھونڈنے کی کوشش کریں جب آپ فدیے کے لیے اپنی قدر ظاہر کر سکتے ہیں جو کہ خدا کی طرف سے نہایت ہی بیش‌قیمت تحفہ ہے۔‏

گیت نمبر 20‏:‏ ایک بیش‌قیمت تحفہ

^ پیراگراف 5 یسوع مسیح نے ایک دردناک موت کیوں سہی؟‏ اِس مضمون میں اِس سوال کا جواب دیا جائے گا۔‏ اِس میں بتائی گئی باتوں پر غور کرنے سے ہمارے دل میں یسوع کے فدیے کے لیے بھی اَور قدر بڑھے گی۔‏

^ پیراگراف 6 رومیوں کا یہ رواج تھا کہ وہ مُجرموں کے ہاتھوں اور پیروں میں کیل ٹھونک کر یا پھر اُنہیں رسیوں سے باندھ کر زندہ سُولی پر لٹکاتے تھے۔‏ یہوواہ نے ایسی ہی موت اپنے بیٹے کو مرنے دی۔‏

^ پیراگراف 55 تصویر کی وضاحت‏:‏ ہر بھائی ایک آزمائش کا مقابلہ کر رہا ہے۔‏ ایک بھائی نے نامناسب تصویروں سے اپنی نظریں ہٹائی ہوئی ہیں،‏ ایک بھائی سگریٹ پینے سے اور ایک بھائی رشوت لینے سے اِنکار کر رہا ہے۔‏