مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 15

کیا آپ ’‏اپنی باتوں سے لوگوں کے لیے مثال قائم‘‏ کر رہے ہیں؟‏

کیا آپ ’‏اپنی باتوں سے لوگوں کے لیے مثال قائم‘‏ کر رہے ہیں؟‏

‏”‏اپنی باتوں ‏.‏ ‏.‏ ‏.‏ سے اُن لوگوں کے لیے مثال قائم کریں جو خدا کے وفادار ہیں۔“‏‏—‏1-‏تیم 4:‏12‏۔‏

گیت نمبر 90‏:‏ ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھائیں

مضمون پر ایک نظر a

1.‏ ہمیں بولنے کی صلاحیت کس نے دی ہے؟‏

 ہمیں بولنے کی صلاحیت ہمارے آسمانی باپ یہوواہ نے دی ہے۔ جیسے ہی یہوواہ نے سب سے پہلے اِنسان یعنی آدم کو بنایا تو آدم اپنے آسمانی باپ سے بات کر سکتے تھے۔ وہ نئے نئے لفظ بنا کر اپنے ذخیرۂالفاظ میں اِضافہ کر سکتے تھے۔ اِس صلاحیت کی وجہ سے وہ سب جانوروں کے نام رکھ پائے۔ (‏پید 2:‏19‏)‏ اور ذرا سوچیں کہ جب آدم نے پہلی بار ایک اِنسان یعنی حوا سے بات کی ہوگی تو اُن کو کتنی زیادہ خوشی ہوئی ہوگی۔—‏پید 2:‏22، 23‏۔‏

2.‏ ماضی میں اور آج بھی لوگوں نے بولنے کی صلاحیت کا غلط اِستعمال کیسے کِیا ہے؟‏

2 بہت جلد بولنے کی صلاحیت کا غلط اِستعمال ہونے لگا۔ شیطان اِبلیس نے حوا سے جھوٹ بولا اور اِس جھوٹ کی وجہ سے اِنسان گُناہ‌گار اور عیب‌دار بن گئے۔ (‏پید 3:‏1-‏4‏)‏ جب آدم نے اپنی غلطیوں کا اِلزام حوا پر یہاں تک کہ یہوواہ پر لگایا تو اُنہوں نے بھی اپنی بولنے کی صلاحیت کا غلط اِستعمال کِیا۔ (‏پید 3:‏12‏)‏ قائن نے اپنے بھائی ہابل کو قتل کر‌نے کے بعد یہوواہ سے جھوٹ بولا۔ (‏پید 4:‏9‏)‏ بعد میں قائن کی نسل سے ایک آدمی نے جس کا نام لمک تھا، ایک نظم لکھی جس سے پتہ چلتا ہے کہ اُن کے زمانے میں لوگ کتنے ظالم تھے۔ (‏پید 4:‏23، 24‏)‏ آج بھی لوگ ایسے ہی ہیں۔ بہت سے سیاسی رہنما سرِعام گندی زبان اِستعمال کر‌تے ہیں۔ اور ہمیں بڑی مشکل سے ہی کوئی ایسی فلم ملتی ہیں جس میں گندی زبان اِستعمال نہ ہوئی ہو۔ بچوں کو سکول میں اور بڑوں کو کام کی جگہ پر گندی زبان سننی پڑتی ہے۔ گندی زبان کا اِتنا عام ہو جانا یہ ثابت کر‌تا ہے کہ یہ دُنیا کتنی بُری ہو گئی ہے۔‏

3.‏ (‏الف)‏ ہمیں کس بات سے خبردار رہنا چاہیے؟ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کر‌یں گے؟‏

3 اگر ہم محتاط نہیں رہیں گے تو بُری زبان سُن سُن کر ہو سکتا ہے کہ ہم بھی اِسے اِستعمال کر‌نے لگ جائیں۔ بےشک ہم یہوواہ کو خوش کر‌نا چاہتے ہیں۔ اور یہوواہ کو خوش کر‌نے کے لیے صرف یہی کافی نہیں کہ ہم بُری زبان اِستعمال نہ کر‌یں۔ ہمیں اپنی بولنے کی صلاحیت کو یہوواہ کی تعریف کر‌نے کے لیے بھی اِستعمال کر‌نا چاہیے۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم (‏1)‏ مُنادی کر‌تے وقت، (‏2)‏ اِجلاسوں میں اور (‏3)‏ دوسروں سے بات‌چیت کر‌تے وقت ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ لیکن آئیں، سب سے پہلے اِس بات پر غور کر‌تے ہیں کہ ہماری باتوں سے یہوواہ کو فرق کیوں پڑتا ہے۔‏

ہماری باتوں سے یہوواہ کو فرق کیوں پڑتا ہے؟‏

آپ کی باتوں سے آپ کے دل کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟ (‏پیراگراف نمبر 4-‏5 کو دیکھیں۔)‏ d

4.‏ ملاکی 3:‏16 کے مطابق یہوواہ کو ہماری باتوں سے فرق کیوں پڑتا ہے؟‏

4 ملاکی 3:‏16 کو پڑھیں۔‏ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہوواہ ’‏یادگار کے دفتر‘‏ میں اُن لوگوں کے نام کیوں لکھواتا ہے جن کی باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اُس سے ڈرتے اور اُس کے نام کو یاد کر‌تے ہیں؟ ہماری باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے دل میں کیا ہے۔ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏جو دل میں بھرا ہوتا ہے، وہی زبان پر آتا ہے۔“‏ (‏متی 12:‏34‏)‏ ہم جس طرح کی باتیں کر‌تے ہیں، اُن سے پتہ چلتا ہے کہ ہم یہوواہ سے کتنا پیار کر‌تے ہیں۔ اور جو لوگ یہوواہ سے پیار کر‌تے ہیں، اُن کے بارے میں یہوواہ چاہتا ہے کہ وہ نئی دُنیا میں ہمیشہ تک خوشیوں بھری زند‌گی گزاریں۔‏

5.‏ (‏الف)‏ ہماری عبادت اور ہماری باتوں میں تعلق کیوں ہے؟ (‏ب)‏ جیسا کہ تصویر میں دِکھایا گیا ہے، ہمیں بولنے کی صلاحیت کے حوالے سے کن باتوں کا پتہ ہونا چاہیے؟‏

5 ہم جس طرح سے بات کر‌تے ہیں، اُس کی بِنا پر یہوواہ فیصلہ کر‌تا ہے کہ وہ ہماری عبادت کو قبول کر‌ے گا یا نہیں۔ (‏یعقو 1:‏26‏)‏ جو لوگ یہوواہ سے محبت نہیں کر‌تے، وہ بہت غصے سے، سختی سے اور غرور سے بات کر‌تے ہیں۔ (‏2-‏تیم 3:‏1-‏5‏)‏ ہم اِن لوگوں جیسے بالکل نہیں بننا چاہتے۔ ہماری شدید خواہش ہے کہ ہم اپنی باتوں سے یہوواہ کو خوش کر‌یں۔ لیکن ذرا سوچیں کہ اگر ہم اِجلاسوں میں اور مُنادی کر‌تے وقت دوسروں سے تو بڑے پیار اور شفقت سے بات کر‌یں گے لیکن اکیلے میں اپنے گھر والوں کے ساتھ سختی سے اور بُری طرح بات کر‌یں گے تو کیا یہوواہ خوش ہوگا؟—‏1-‏پطر 3:‏7‏۔‏

6.‏ جب بہن کنزا نے اپنی بولنے کی صلاحیت کا صحیح اِستعمال کِیا تو اِس کے کیا نتیجے نکلے؟‏

6 جب ہم اپنی بولنے کی صلاحیت کو صحیح طریقے سے اِستعمال کر‌تے ہیں تو اِس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم یہوواہ کی عبادت کر‌تے ہیں۔ اِس سے ہمارے اِردگِرد کے لوگ ’‏خدا کی عبادت کر‌نے والوں اور نہ کر‌نے والوں میں‘‏ آسانی سے فرق دیکھ سکتے ہیں۔ (‏ملا 3:‏18‏)‏ ذرا غور کر‌یں کہ یہ بات بہن کنزا کی مثال سے کیسے ثابت ہوئی۔‏ b اُنہیں اُن کی ٹیچر نے اُن کی کلاس کی ایک لڑکی کے ساتھ ایک موضوع پر مل کر کام کر‌نے کو کہا۔ جب اُنہوں نے کام ختم کر لیا تو اُس لڑکی نے دیکھا کہ کنزا کلاس کے باقی بچوں سے بالکل فرق ہے۔ اُس نے دیکھا کہ کنزا دوسروں کی پیٹھ پیچھے اُن کی بُرائیاں نہیں کر‌تیں بلکہ ہمیشہ پیار سے بات کر‌تی ہیں اور گندی زبان اِستعمال نہیں کر‌تیں۔ وہ کنزا سے اِتنی متاثر ہوئی کہ اُس نے اُن سے بائبل کورس کر‌نا شروع کر دیا۔ ذرا سوچیں کہ جب ہماری باتوں کی وجہ سے لوگ سچائی کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں تو یہوواہ کتنا خوش ہوتا ہے!‏

7.‏ آپ اپنی بولنے کی صلاحیت کو کس طرح سے اِستعمال کر‌نا چاہتے ہیں؟‏

7 ہم سب اِس طرح سے بات کر‌نا چاہتے ہیں کہ یہوواہ کی بڑائی ہو اور ہم اپنے بہن بھائیوں کے اَور قریب ہو جائیں۔ اِس کے لیے آئیں، کچھ ایسے طریقوں پر غور کر‌تے ہیں جن پر عمل کر کے ہم ”‏اپنی باتوں .‏ .‏ .‏ سے [‏دوسروں]‏ کے لیے مثال قائم“‏ کر سکتے ہیں۔‏

مُنادی کر‌تے وقت اچھی مثال قائم کر‌یں

مُنادی کر‌تے وقت دوسروں کے ساتھ نرمی سے بات کر‌نے سے یہوواہ کو خوش کر‌یں۔ (‏پیراگراف نمبر 8-‏9 کو دیکھیں۔)‏

8.‏ یسوع مسیح نے دوسروں سے بات کر‌نے کے سلسلے میں ہمارے لیے ایک اچھی مثال کیسے قائم کی؟‏

8 جب دوسرے آپ کو غصہ دِلاتے ہیں تو اُن کے ساتھ نرمی اور احترام سے بات کر‌یں۔‏ جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو لوگوں نے اُن پر یہ جھوٹے اِلزام لگائے کہ وہ شرابی، پیٹ پجاری اور شیطان کے ساتھی ہیں اور سبت کو توڑتے اور خدا کی توہین کر‌تے ہیں۔ (‏متی 11:‏19؛‏ 26:‏65؛‏ لُو 11:‏15؛‏ یوح 9:‏16‏)‏ لیکن یسوع نے کبھی بھی اُن کی باتوں کا جواب غصے میں نہیں دیا۔ جب لوگ ہمارے ساتھ سختی سے بات کر‌تے ہیں تو ہمیں یسوع کی طرح بننا چاہیے اور جواب میں اُن کے ساتھ بُری طرح سے بات نہیں کر‌نی چاہیے۔ (‏1-‏پطر 2:‏21-‏23‏)‏ بےشک ایسا کر‌نا آسان نہیں ہے۔ (‏یعقو 3:‏2‏)‏لیکن کیا چیز ایسا کر‌نے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟‏

9.‏ جب مُنادی کر‌تے وقت ہم ایسے لوگوں سے ملتے ہیں جو غصے میں آ جاتے ہیں تو کیا چیز ہماری مدد کر سکتی ہے تاکہ ہم اُنہیں کچھ بُرا بھلا نہ کہیں؟‏

9 جب آپ مُنادی کر رہے ہوتے ہیں اور کوئی شخص آپ سے بُری طرح سے بات کر‌تا ہے تو غصے میں آنے کی بجائے اِس بات پر دھیان دیں کہ اُس شخص نے آپ سے اِس طرح سے بات کیوں کی ہوگی۔ سموئیل نام کے بھائی کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں اِس بات پر دھیان دینے کی کوشش کر‌تا ہوں کہ اِس شخص کو یہوواہ کے بارے میں سیکھنے کی کتنی زیادہ ضرورت ہے اور وہ بدل سکتا ہے۔“‏ کبھی کبھار لوگ اِس لیے غصے میں آ جاتے ہیں کیونکہ ہم ایسے وقت میں اُن کے پاس جاتے ہیں جو اُن کے لیے ٹھیک نہیں ہوتا۔ جب ہم کسی ایسے شخص سے ملتے ہیں جو غصے میں آ جاتا ہے تو ہم وہ کر سکتے ہیں جو بہن لُوسی کر‌تی ہیں۔ بہن لُوسی کی طرح ہم بھی چھوٹی سی دُعا کر سکتے ہیں اور یہوواہ سے مدد مانگ سکتے ہیں کہ ہم غصے میں نہ آئیں اور اُس شخص کو کچھ بُرا بھلا نہ کہیں۔‏

10.‏ پہلا تیمُتھیُس 4:‏13 کے مطابق ہمارا مقصد کیا ہونا چاہیے؟‏

10 اَور اچھے اُستاد بنیں۔‏ تیمُتھیُس کے پاس مُنادی کر‌نے کا بہت زیادہ تجربہ تھا۔ لیکن پھر بھی اُنہیں دوسروں کو تعلیم دینے کی اپنی مہارت کو نکھارتے رہنے کی ضرورت تھی۔ ‏(‏1-‏تیمُتھیُس 4:‏13 کو پڑھیں۔)‏ ہم مُنادی کر‌تے وقت دوسروں کو اَور اچھی طرح سے تعلیم کیسے دے سکتے ہیں؟ ہمیں اچھی تیاری کر‌نی چاہیے۔ ہم یہوواہ کے بہت شکرگزار ہیں کہ اُس نے ہمیں بہت سی ایسی چیزیں دی ہیں جن کی وجہ سے ہم اَور اچھے اُستاد بن سکتے ہیں۔ ہمیں کتاب ‏”‏تعلیم دینے اور تلاوت کرنے میں لگے رہیں‏“‏ اور ‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت—‏اِجلاس کا قاعدہ“‏ میں حصہ ”‏شاگرد بنانے کی تربیت“‏ میں دیے گئے مشوروں پر عمل کر‌نے سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ کیا آپ اِن سہولتوں سے فائدہ حاصل کر رہے ہیں؟ جب آپ اچھی تیاری کر‌یں گے تو آپ خوش‌خبری سناتے وقت گھبرائیں گے نہیں بلکہ اِعتماد سے بات کر‌یں گے۔‏

11.‏ کچھ بہن بھائی اَور اچھے اُستاد کیسے بن پائے ہیں؟‏

11 ہم اپنی کلیسیا کے اُن بہن بھائیوں کی مثال پر عمل کر‌نے سے بھی اَور اچھے اُستاد بن سکتے ہیں جو دوسروں کو اچھی طرح سے تعلیم دیتے ہیں۔ بھائی سموئیل جن کا مضمون میں پہلے بھی ذکر ہوا ہے، اِس بات پر غور کر‌تے ہیں کہ کچھ بہن بھائی اِتنے اچھے اُستاد کیسے بن پائے ہیں۔ وہ دھیان دیتے ہیں کہ یہ بہن بھائی کس طرح سے تعلیم دیتے ہیں اور پھر وہ اُن کی طرح تعلیم دینے کی کوشش کر‌تے ہیں۔ بہن تانیہ اِس بات پر دھیان دیتی ہیں کہ عوامی تقریر کر‌نے والے بھائی کس طرح سے تقریریں کر‌تے ہیں۔ اِس طرح اُنہوں نے سیکھا ہے کہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کے ساتھ اُن موضوعات پر کیسے بات کر سکتی ہیں جن کے بارے میں وہ جاننا چاہتے ہیں۔‏

اِجلاسوں میں اچھی مثال قائم کر‌یں

اِجلاسوں میں دل سے گیت گا کر یہوواہ کی حمد کر‌یں۔ (‏پیراگراف نمبر 12-‏13 کو دیکھیں۔)‏

12.‏ کچھ بہن بھائیوں کو کیا چیز مشکل لگتی ہے؟‏

12 اِجلاس کے دوران ہم سب کے پاس موقع ہوتا ہے کہ ہم اُونچی آواز میں گیت گائیں اور ایسے جواب دیں جو ہم نے بہت محنت سے تیار کیے ہوتے ہیں۔ (‏زبور 22:‏22‏)‏ لیکن کچھ بہن بھائیوں کو سب کے سامنے گیت گانا یا جواب دینا مشکل لگتا ہے۔ کیا آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے؟ اگر ہاں تو آپ یقیناً یہ جاننا چاہیں گے کہ کچھ بہن بھائیوں نے اپنے اِس ڈر پر کیسے قابو پایا ہے۔‏

13.‏ کیا چیز ہماری مدد کر سکتی ہے تاکہ ہم اِجلاس میں دل سے گیت گائیں؟‏

13 دل سے گائیں۔‏ جب ہم گیت گاتے ہیں تو ہمارا سب سے اہم مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم یہوواہ کی تعریف کر‌یں۔ سارہ نام کی ایک بہن کو لگتا ہے کہ وہ اِتنا اچھا نہیں گا سکتیں۔ لیکن وہ پھر بھی یہوواہ کی حمد کر‌نے کے لیے گیت گانا چاہتی ہیں۔ اِس لیے جب وہ اِجلاس کی تیاری کر رہی ہوتی ہیں تو وہ گیت گانے کی تیاری بھی کر‌تی ہیں۔ وہ گیت کی پریکٹس کر‌تی ہیں اور اِس بات پر دھیان دیتی ہیں کہ گیتوں کے بول کا اُن باتوں سے کیا تعلق ہے جن پر اِجلاس کے دوران بات کی جائے گی۔ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏ایسا کر‌نے سے مَیں گیت کے بول پر دھیان دے پاتی ہوں نہ کہ اِس بات پر کہ مَیں اچھا گا سکتی ہوں یا نہیں۔“‏

14.‏ اگر آپ شرمیلے ہیں تو کیا چیز اِجلاسوں میں جواب دینے میں آپ کی مدد کر سکتی ہے؟‏

14 باقاعدگی سے جواب دیں۔‏ یہ سچ ہے کہ کچھ لوگوں کو ایسا کر‌نا مشکل لگ سکتا ہے۔ تانیہ جن کا پہلے بھی ذکر ہوا ہے، کہتی ہیں:‏ ”‏مجھے لوگوں سے بات کر‌تے وقت گھبراہٹ ہوتی ہے۔ لیکن دوسروں کو اِس کا پتہ نہیں چلتا کیونکہ مَیں بڑے پُرسکون ہو کر بات کر‌تی ہوں۔ مجھے اِجلاس میں جواب دینا بہت مشکل لگتا ہے۔“‏ لیکن پھر بھی تانیہ اِجلاسوں میں جواب ضرور دیتی ہیں۔ اِجلاس کی تیاری کر‌تے وقت وہ اِس بات کو ذہن میں رکھتی ہیں کہ کسی سوال کا پہلا جواب چھوٹا ہونا چاہیے اور ہمیں وہی بتانا چاہیے جو پوچھا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏اگر مَیں چھوٹا اور سادہ سا جواب دیتی ہوں اور وہی بتاتی ہوں جو پوچھا جاتا ہے تو اِس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ مطالعے کی پیشوائی کر‌نے والا بھائی ایسا ہی جواب چاہتا ہے۔“‏

15.‏ ہمیں اِجلاسوں پر جواب دینے کے حوالے سے کون سی بات یاد رکھنی چاہیے؟‏

15 کچھ بہن بھائی شرمیلے نہیں ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ کبھی کبھار اِجلاسوں میں جواب نہیں دیتے۔ اِس کی کیا وجہ ہے؟ جولیٹ نام کی ایک بہن کہتی ہیں:‏ ”‏کبھی کبھار مَیں اِس لیے جواب نہیں دیتی کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میرا جواب بہت سادہ سا ہے اور اِتنا اچھا نہیں ہے۔“‏ لیکن یاد رکھیں کہ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم اپنی طرف سے جتنا اچھا جواب دے سکتے ہیں، دیں۔‏ c جب ہم گھبراہٹ کے باوجود اِجلاسوں میں جواب دینے کی پوری کوشش کر‌تے ہیں تو یہوواہ بہت خوش ہوتا ہے۔‏

دوسروں کے ساتھ بات کر‌تے وقت اچھی مثال قائم کر‌یں

16.‏ ہمیں کس طرح کی باتیں نہیں کر‌نی چاہئیں؟‏

16 کسی بھی طرح کی ’‏نقصان‌دہ باتیں‘‏ نہ کر‌یں۔‏ (‏اِفس 4:‏31‏)‏ جیسا کہ مضمون میں پہلے بتایا گیا ہے، ایک مسیحی کو گندی باتیں اپنی زبان تک لانی بھی نہیں چاہئیں۔ لیکن کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے بارے میں ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا ہے کہ اِن سے دوسروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ہمیں ایسی باتیں کر‌نے سے بھی خبردار رہنا چاہیے۔ مثال کے طور پر ہمیں دوسروں کی ثقافت، رنگ یا قومیت کی وجہ سے اُن کے بارے میں بُری باتیں نہیں کر‌نی چاہئیں۔اِس کے علاوہ ہمیں کبھی بھی دوسروں کی بےعزتی نہیں کر‌نی چاہیے اور نہ ہی کسی کا مذاق اُڑانا چاہیے۔ اِس سلسلے میں ایک بھائی نے اپنی غلطی کو تسلیم کر‌تے ہوئے کہا:‏ ”‏کبھی کبھار مَیں دوسروں کا مذاق اُڑا دیتا تھا یا اُن سے طنزیہ باتیں کر دیتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ مَیں تو بس مذاق کر رہا ہوں اور اِس کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ لیکن اصل میں میری باتوں کی وجہ سے دوسروں کو بہت زیادہ تکلیف پہنچ رہی تھی۔ پچھلے کچھ سالوں میں میری بیوی نے میری مدد کر‌نے کے لیے مجھے اکیلے میں کئی بار بتایا ہے کہ میری کن باتوں کی وجہ سے اُسے اور دوسروں کو تکلیف پہنچی ہے۔“‏

17.‏ اِفسیوں 4:‏29 کے مطابق ہم دوسروں کا حوصلہ کیسے بڑھا سکتے ہیں؟‏

17 ایسی باتیں کہیں جن سے دوسروں کا حوصلہ بڑھے۔‏ ہمیں دوسروں پر تنقید کر‌نے یا اُن میں نقص نکالنے کی بجائے اُن کی تعریف کر‌نی چاہیے۔ ‏(‏اِفسیوں 4:‏29 کو پڑھیں۔)‏ بنی‌اِسرائیل کے پاس ایسی بہت سی چیزیں تھیں جن کی وجہ سے وہ یہوواہ کے شکرگزار ہو سکتے تھے۔ لیکن وہ آئے دن کسی نہ کسی بات پر تنقید کر‌تے رہتے تھے۔ اگر ہم اکثر تنقید کر‌تے رہتے ہیں تو ہمیں دیکھ کر دوسرے بھی تنقید کر‌نا شروع کر سکتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب دس جاسوسوں نے کنعان کے بارے میں بُری باتیں بتائیں تو ’‏بنی‌اِسرائیل موسیٰ کی شکایت کر‌نے لگے۔‘‏ (‏گن 13:‏31–‏14:‏4‏)‏ لیکن جب ہم دوسروں کی تعریف کر‌تے ہیں تو اِس سے سب کو خوشی ملتی ہے۔ ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ جب ’‏اِسرائیل کی جوان عورتیں ہر سال اِفتاح کی بیٹی کو داد دینے جاتی تھیں‘‏ تو اِس سے اِفتاح کی بیٹی کا حوصلہ بڑھتا تھا کہ وہ سیلا میں یہوواہ کی خدمت کر‌تی رہیں۔ (‏قضا 11:‏40‏، ترجمہ نئی دُنیا‏)‏ بہن سارہ جن کا پہلے بھی ذکر ہوا، کہتی ہیں:‏ ”‏جب ہم دوسروں کی تعریف کر‌تے ہیں تو اِس سے اُنہیں محسوس ہوتا ہے کہ یہوواہ اور کلیسیا کے بہن بھائی اُن سے بہت پیار کر‌تے ہیں۔“‏ اِس لیے اِس بات پر دھیان دیں کہ آپ کن کن باتوں کے لیے اپنے بہن بھائیوں کی تعریف کر سکتے ہیں۔‏

18.‏ زبور 15:‏1، 2 کے مطابق ہمیں سچ کیوں بولنا چاہیے اور سچ بولنے میں کیا بات شامل ہے؟‏

18 سچ بولیں۔‏ اگر ہم جھوٹ بولتے ہیں تو ہم یہوواہ کو خوش نہیں کر سکتے۔ اُسے ہر طرح کے جھوٹ سے نفرت ہے۔ (‏امثا 6:‏16، 17‏)‏ بہت سے لوگوں کی نظر میں جھوٹ بولنا ایک عام سی بات ہے۔ لیکن ہم اِس معاملے کو یہوواہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ‏(‏زبور 15:‏1، 2 کو پڑھیں۔)‏ بےشک ہمیں جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ لیکن ہمیں جان بُوجھ کر ایسی باتیں بھی نہیں کر‌نی چاہئیں جن کی وجہ سے دوسروں کو غلط تاثر ملے۔‏

جب دوسروں کی بُرائیاں ہونے لگیں تو بات کا رُخ اچھی باتوں کی طرف موڑ کر یہوواہ کو خوش کر‌یں۔ (‏پیراگراف نمبر 19 کو دیکھیں۔)‏

19.‏ ہمیں اَور کس چیز کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے؟‏

19 کسی کے بارے میں غلط باتیں نہ پھیلائیں۔‏ (‏امثا 25:‏23؛‏ 2-‏تھس 3:‏11‏)‏ جولیٹ جن کا اِس مضمون میں پہلے بھی ذکر ہوا ہے، بتاتی ہیں کہ دوسروں کے بارے میں غلط باتیں سننے سے اُن پر کیا اثر پڑا۔ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏دوسروں کے بارے میں غلط باتیں سننے کا بہت نقصان ہوتا ہے۔ اِس وجہ سے میرا اُس شخص سے بھروسا اُٹھ گیا جو کسی کے بارے میں غلط باتیں کر رہا تھا۔ اگر وہ میرے ساتھ کسی کی بُرائیاں کر رہا ہے تو وہ کسی اَور کے ساتھ میری بھی بُرائیاں کر‌تا ہوگا۔“‏ اگر ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کے ساتھ بات‌چیت کر‌تے وقت کسی کی بُرائیاں ہونا شروع ہو گئی ہیں تو ہمیں فوراً ایسی باتیں شروع کر دینی چاہئیں جن سے دوسروں کا فائدہ ہو۔—‏کُل 4:‏6‏۔‏

20.‏ آپ نے اپنی بولنے کی صلاحیت کے حوالے سے کیا عزم کِیا ہے؟‏

20 ہم ایک ایسی دُنیا میں رہ رہے ہیں جہاں لوگوں کی زبان گندی سے گندی ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن ہمیں ایسی باتیں کہنے کی پوری کوشش کر‌نی چاہیے جن سے یہوواہ خوش ہو۔ یاد رکھیں کہ بولنے کی صلاحیت یہوواہ کی طرف سے ایک نعمت ہے اور اُسے اِس بات سے فرق پڑتا ہے کہ ہم اِس نعمت کو کیسے اِستعمال کر‌تے ہیں۔ جب ہم مُنادی کر‌تے وقت، اِجلاسوں میں اور دوسروں سے بات‌چیت کر‌تے وقت ایسی باتیں کہیں گے جن سے یہوواہ کی بڑائی ہو تو یہوواہ ہمیں برکتیں دے گا۔ جب یہوواہ اِس بُری دُنیا کو ختم کر دے گا تو ہمارے لیے اپنی بولنے کی صلاحیت کے ذریعے یہوواہ کی بڑائی کر‌نا اَور آسان ہو جائے گا۔ (‏یہوداہ 15‏)‏ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا، عزم کر‌یں کہ آپ ’‏اپنے مُنہ کے کلام [‏یعنی باتوں]‏‘‏ سے یہوواہ کو خوش کر‌نے کی پوری کوشش کر‌تے رہیں گے۔—‏زبور 19:‏14‏۔‏

گیت نمبر 121‏:‏ ضبطِ‌نفس ظاہر کر‌یں

a یہوواہ خدا نے ہمیں بولنے کی صلاحیت دی ہے جو کہ ایک شان‌دار نعمت ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ زیادہ‌تر لوگ اِس نعمت کو اُس طرح سے اِستعمال نہیں کر‌تے جس طرح سے یہوواہ چاہتا ہے۔ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ اِس بُری دُنیا میں ہم دوسروں سے ایسی باتیں کہیں جن سے اُن کو فائدہ ہو اور یہوواہ بھی خوش ہو؟ جب ہم مُنادی کر رہے ہوتے ہیں، عبادتوں میں ہوتے ہیں یا دوسروں سے بات کر رہے ہوتے ہیں تو ہم اپنی باتوں سے یہوواہ کو خوش کیسے کر سکتے ہیں؟ اِس مضمون میں اِن سوالوں کے جواب دیے جائیں گے۔‏

b کچھ نام فرضی ہیں۔‏

c اِجلاسوں میں جواب دینے کے حوالے سے اَور جاننے کے لیے جنوری 2019ء کے ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ میں مضمون ”‏کلیسیا میں یہوواہ کی ستائش کر‌یں‏“‏ کو دیکھیں۔‏

d تصویر کی وضاحت‏:‏ مُنادی کر‌تے وقت ایک بھائی ایک ایسے شخص سے بہت بُری طرح بات کر رہا ہے جو غصے میں ہے؛ ایک بھائی عبادت کے دوران گیت نہیں گا رہا؛ اور ایک بہن دوسروں کی بُرائیاں کر رہی ہے۔‏