مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 16

‏”‏آپ کا بھائی جی اُٹھے گا“‏

‏”‏آپ کا بھائی جی اُٹھے گا“‏

‏”‏یسوع نے ‏[‏مارتھا]‏ سے کہا:‏ ‏”‏آپ کا بھائی جی اُٹھے گا۔“‏“‏‏—‏یوح 11:‏23‏۔‏

گیت نمبر 151‏:‏ خدا مُردوں کو آواز دے گا

مضمون پر ایک نظر a

1.‏ ایک لڑکے نے اِس بات کا اِظہار کیسے کِیا کہ وہ مُردوں کے جی اُٹھنے کی اُمید پر ایمان رکھتا ہے؟‏

 میتھیو نام کے ایک لڑکے کو ایک ایسی بیماری تھی جس کی وجہ سے اُسے بہت سے آپریشن کر‌وانے پڑے۔ جب وہ سات سال کا تھا تو اُس نے اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر جےڈبلیو براڈکاسٹنگ کا ماہانہ پروگرام دیکھا۔ پروگرام کے آخر پر ایک گانے میں دِکھایا گیا کہ مستقبل میں ہم اپنے اُن عزیزوں سے دوبارہ ملیں گے جو فوت ہو گئے ہیں۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد میتھیو اپنے امی ابو کے پاس گیا، اُس نے اُن کا ہاتھ پکڑا اور کہا:‏ ”‏امی ابو!‏ اگر آج مَیں مر بھی گیا تو یہوواہ مجھے زندہ کر دے گا۔ آپ میرا اِنتظار کیجیے گا۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔“‏ ذرا سوچیں کہ میتھیو کے امی ابو کو یہ دیکھ کر کتنا اچھا لگا ہوگا کہ اُن کا بیٹا مُردوں کے جی اُٹھنے کی اُمید پر اِتنا مضبوط ایمان رکھتا ہے!‏

2-‏3.‏ یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم مُردوں کے جی اُٹھنے کے وعدے پر سوچ بچار کر‌یں؟‏

2 یہ بہت اچھا ہوگا کہ ہم باقاعدگی سے بائبل میں لکھے مُردوں کے جی اُٹھنے کے وعدے کے بارے میں سوچ بچار کر‌یں۔ (‏یوح 5:‏28، 29‏)‏ ہمیں ایسا کیوں کر‌نا چاہیے؟ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ہمیں اچانک کوئی خطرناک بیماری ہو جائے یا ہم اپنے کسی عزیز کو موت کے ہاتھوں کھو دیں۔ (‏واعظ 9:‏11؛‏ یعقو 4:‏13، 14‏)‏ مُردوں کے جی اُٹھنے کی اُمید کی وجہ سے ہم ایسی مشکلوں کو برداشت کر پاتے ہیں۔ (‏1-‏تھس 4:‏13‏)‏ بائبل میں ہمیں یقین دِلایا گیا ہے کہ یہوواہ ہمیں بہت اچھی طرح جانتا ہے اور ہم سے بہت پیار کر‌تا ہے۔ (‏لُو 12:‏7‏)‏ وہ ہمیں اِتنی اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ ہماری پہلے جیسی شخصیت اور یادداشت کے ساتھ ہمیں زندہ کر سکتا ہے۔ ہم سے محبت کی وجہ سے یہوواہ نے یہ ممکن بنایا ہے کہ ہم ہمیشہ تک زندہ رہ سکیں، یہاں تک کہ اگر ہم مر بھی جائیں تو وہ ہمیں زندہ کر دے گا۔‏

3 اِس مضمون میں سب سے پہلے ہم اِس بارے میں بات کر‌یں گے کہ ہم مُردوں کے جی اُٹھنے کے وعدے پر کیوں یقین رکھ سکتے ہیں۔ پھر ہم بائبل کے ایک ایسے واقعے پر غور کر‌یں گے جس سے ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور جس سے ہماری مرکزی آیت لی گئی ہے:‏ ”‏آپ کا بھائی جی اُٹھے گا۔“‏ (‏یوح 11:‏23‏)‏ آخر میں ہم دیکھیں گے کہ ہم مُردوں کے جی اُٹھنے کی اُمید پر اپنے ایمان کو اَور مضبوط کیسے کر سکتے ہیں۔‏

ہم مُردوں کے جی اُٹھنے کے وعدے پر کیوں یقین رکھ سکتے ہیں؟‏

4.‏ کسی وعدے پر بھروسا کر‌نے کے لیے ہمیں کس بات پر یقین ہونا چاہیے؟ ایک مثال دیں۔‏

4 کسی وعدے پر بھروسا کر‌نے کے لیے ہمیں اِس بات پر یقین ہونا چاہیے کہ جس نے یہ وعدہ کِیا ہے، وہ اِسے پورا کر‌نے کی خواہش رکھتا ہے اور اُس میں اِسے پورا کر‌نے کی طاقت ہے۔ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کر‌یں۔ فرض کر‌یں کہ ایک طوفان میں آپ کے گھر کو بُری طرح نقصان ہوتا ہے۔ آپ کا ایک دوست آپ کے پاس آتا ہے اور آپ سے کہتا ہے کہ مَیں آپ کے گھر کو پھر سے بنانے میں آپ کی مدد کر‌وں گا۔ آپ کے اُس دوست کا دل بہت اچھا ہے اور آپ کو اِس بات پر یقین ہے کہ وہ آپ کی مدد کر‌نے کی خواہش رکھتا ہے۔ اگر وہ اِس کام میں بہت ماہر ہے اور اُس کے پاس سارے اوزار ہیں تو آپ کو پتہ ہوگا کہ وہ آپ کی مدد کر‌نے کے قابل ہے۔ اِس لیے آپ کو اُس کی بات پر بھروسا ہوگا۔ اب ذرا مُردوں کے جی اُٹھنے کے وعدے کے بارے میں سوچیں جو خدا نے ہم سے کِیا ہے۔ کیا وہ اِس وعدے کو پورا کر‌نے کی خواہش رکھتا ہے؟ اور کیا اُس میں اِسے پورا کر‌نے کی طاقت ہے؟‏

5-‏6.‏ ہم اِس بات کا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ مُردوں کو زندہ کر‌نے کی خواہش رکھتا ہے؟‏

5 کیا یہوواہ مُردوں کو زندہ کر‌نے کی خواہش رکھتا ہے؟ بےشک وہ ایسا کر‌نا چاہتا ہے۔ اُس نے بائبل لکھنے والے بہت سے آدمیوں کو یہ ہدایت دی کہ وہ اُس کے اِس وعدے کے بارے میں لکھیں کہ مستقبل میں مُردوں کو زندہ کر دیا جائے گا۔ (‏یسع 26:‏19؛‏ ہوس 13:‏14؛‏ مکا 20:‏11-‏13‏)‏ اور جب یہوواہ کوئی وعدہ کر‌تا ہے تو وہ اِسے ہمیشہ پورا کر‌تا ہے۔ (‏یشو 23:‏14‏)‏ وہ تو مُردوں کو زندہ کر‌نے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏

6 ذرا ایوب کے الفاظ پر غور کر‌یں۔ اُنہیں اِس بات کا یقین تھا کہ اگر وہ مر بھی جاتے ہیں تو یہوواہ کو اُنہیں زندہ دیکھنے کی شدید آرزو ہوگی۔ (‏ایو 14:‏14، 15‏)‏ یہوواہ اپنے اُن سب بندوں کے لیے ایسا ہی چاہتا ہے جو فوت ہو گئے ہیں۔ اُس کی دلی آرزو ہے کہ وہ اُنہیں زندہ کر دے اور اُنہیں خوشیوں بھری اور صحت‌مند زندگی دے۔ لیکن اُن کر‌وڑوں لوگوں کا کیا ہوگا جنہیں مرنے سے پہلے یہوواہ کے بارے میں جاننے کا موقع نہیں ملا؟ ہمارا شفیق خدا اُنہیں بھی زندہ کر دے گا۔ (‏اعما 24:‏15‏)‏ وہ چاہتا ہے کہ اُنہیں اُس کا دوست بننے کا موقع ملے اور وہ ہمیشہ تک زمین پر زندہ رہ سکیں۔ (‏یوح 3:‏16‏)‏ اِس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ مُردوں کو زندہ کر‌نے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔‏

7-‏8.‏ ہم اِس بات کا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ میں مُردوں کو زندہ کر‌نے کی طاقت ہے؟‏

7 کیا یہوواہ میں مُردوں کو زندہ کر‌نے کی طاقت ہے؟ بےشک۔ وہ ”‏لامحدود قدرت کا مالک ہے۔“‏ (‏مکا 1:‏8‏)‏ خدا میں اِتنی طاقت ہے کہ وہ ہر دُشمن کو ہرا سکتا ہے، یہاں تک کہ موت کو بھی۔ (‏1-‏کُر 15:‏26‏)‏ یہ جان کر ہمیں کتنی ہمت اور تسلی ملتی ہے!‏ اِس سلسلے میں ذرا ایک بہن کے تجربے پر غور کر‌یں۔ اُس کا نام ایما آرنلڈ ہے۔ بہن اور اُن کے گھر والوں کو دوسری عالمی جنگ کے دوران ایمان کے کڑے اِمتحانوں سے گزرنا پڑا۔ اُنہوں نے نازیوں کے قیدی کیمپوں میں اپنے کچھ عزیزوں کو موت کے ہاتھوں کھو دیا تھا۔ اِس لیے اپنی بیٹی کو تسلی دینے کے لیے اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اگر اِنسان ہمیشہ تک موت کی گِرفت میں رہتے تو پھر تو موت خدا سے زیادہ طاقت‌ور ہوتی نا؟“‏ بےشک کوئی بھی چیز یہوواہ سے زیادہ طاقت‌ور نہیں ہے۔ ہمارے لامحدود قدرت والے خدا نے ہمیں زندگی دی ہے اِس لیے اُس میں یہ طاقت ہے کہ وہ اُن لوگوں کو پھر سے زندگی دے جو فوت ہو گئے ہیں۔‏

8 ایک اَور بات جس کی وجہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہوواہ مُردوں کو زندہ کر‌نے کی طاقت رکھتا ہے، وہ یہ ہے کہ اُس کی یادداشت لامحدود ہے۔ وہ ہر ستارے کو اُس کے نام سے پکارتا ہے۔ (‏یسع 40:‏26‏)‏ اِس کے علاوہ وہ اُن لوگوں کو بھی یاد رکھتا ہے جو فوت ہو گئے ہیں۔ (‏ایو 14:‏13؛‏ لُو 20:‏37، 38‏)‏ وہ اُن کے بارے میں چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی نہیں بھولتا۔ اُسے یاد ہے کہ وہ کیسے دِکھتے تھے اور اُن کی شخصیت کیسی تھی، اُنہیں زندگی میں کون سے تجربات ہوئے تھے اور کون سی باتیں اُن کی یادداشت میں محفوظ تھیں۔‏

9.‏ آپ اِس بات پر یقین کیوں رکھتے ہیں کہ یہوواہ مُردوں کو زندہ کر‌نے کے اپنے وعدے کو پورا کر‌ے گا؟‏

9 یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ہم اِس بات پر یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ مُردوں کو زندہ کر‌نے کے اپنے وعدے کو پورا کر‌ے گا کیونکہ وہ اِس وعدے کو پورا کر‌نے کی خواہش رکھتا ہے اور اُس میں اِسے پورا کر‌نے کی طاقت بھی ہے۔ ذرا اِس وعدے پر بھروسا کر‌نے کی ایک اَور وجہ پر غور کر‌یں۔ یہوواہ نے پہلے بھی بہت سے مُردوں کو زندہ کِیا ہے۔ پُرانے زمانے میں اُس نے اپنے کچھ بندوں کو طاقت دی کہ وہ مُردوں کو زندہ کر‌یں۔ اِن میں یسوع بھی شامل تھے۔ آئیے، یوحنا 11 باب میں لکھے ایک ایسے واقعے پر غور کر‌تے ہیں جس میں یسوع نے ایک شخص کو زندہ کِیا۔‏

یسوع کا قریبی دوست فوت ہو گیا

10.‏ جب یسوع دریائےاُردن کے پار مُنادی کر رہے تھے تو کیا ہوا اور یسوع نے کیا کِیا؟ (‏یوحنا 11:‏1-‏3‏)‏

10 یوحنا 11:‏1-‏3 کو پڑھیں۔‏ ذرا تصور کر‌یں کہ 32ء کے آخر پر بیت‌عنیاہ میں کیا ہوا۔ بیت‌عنیاہ ایک گاؤں تھا جہاں یسوع کے قریبی دوست لعزر اور اُن کی دو بہنیں مریم اور مارتھا رہتے تھے۔ (‏لُو 10:‏38-‏42‏)‏ اچانک لعزر بہت بیمار ہو گئے اور اِس وجہ سے اُن کی بہنیں بہت پریشان تھیں۔ اُنہوں نے دریائےاُردن کے پار یسوع کو پیغام بھیجا۔ دریائےاُردن بیت‌عنیاہ سے دو دن کے سفر کی دُوری پر تھا۔ (‏یوح 10:‏40‏)‏ افسوس کی بات ہے کہ جب تک یسوع کے پاس یہ پیغام پہنچا تب تک لعزر فوت ہو چُکے تھے۔ یسوع جانتے تھے کہ اُن کا دوست فوت ہو گیا ہے لیکن پھر بھی وہ اَور دو دن وہیں رہے اور پھر وہ بیت‌عنیاہ گئے۔ تو جب تک یسوع بیت‌عنیاہ پہنچے، لعزر کو فوت ہوئے چار دن ہو چُکے تھے۔ اب یسوع کچھ ایسا کر‌نے والے تھے جس سے اُن کے قریبی دوستوں کو بہت فائدہ ہوتا اور یہوواہ کی بڑائی ہوتی۔—‏یوح 11:‏4،‏ 6،‏ 11،‏ 17‏۔‏

11.‏ اِس واقعے سے ہم دوستی کے حوالے سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

11 اِس واقعے سے ہم دوستی کے حوالے سے ایک بہت خاص بات سیکھتے ہیں۔ ذرا اِس بات پر غور کر‌یں:‏ جب مریم اور مارتھا نے یسوع کو لعزر کے بیمار ہونے کا پیغام بھجوایا تو اُنہوں نے اُنہیں بیت‌عنیاہ آنے کے لیے نہیں کہا تھا۔ اُنہوں نے تو بس اُنہیں یہ بتایا تھا کہ اُن کا عزیز دوست بیمار ہے۔ (‏یوح 11:‏3‏)‏ جب لعزر فوت ہو گئے تو یسوع اُنہیں اُسی وقت زندہ کر سکتے تھے حالانکہ وہ اُن سے دُور تھے۔ لیکن پھر بھی یسوع نے یہ فیصلہ کِیا کہ وہ مریم اور مارتھا کے پاس بیت‌عنیاہ جائیں گے۔ کیا آپ کا کوئی ایسا دوست ہے جو مدد مانگے بغیر ہی آپ کی مدد کر‌تا ہے؟ اگر آپ کا کوئی دوست ایسا کر‌تا ہے تو آپ کو اِس بات کا یقین ہوتا ہے کہ ”‏مصیبت کے دن“‏ آپ مدد کے لیے اُس پر آس لگا سکتے ہیں۔ (‏امثا 17:‏17‏)‏ یہ کتنا اچھا ہوگا نا کہ ہم بھی دوسروں کے ویسے ہی دوست بنیں جیسے یسوع تھے!‏ آئیے، اب اُس واقعے پر واپس چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوا۔‏

12.‏ یسوع نے مارتھا سے کیا وعدہ کِیا اور وہ اِس وعدے پر کیوں بھروسا رکھ سکتی تھیں؟ (‏یوحنا 11:‏23-‏26‏)‏

12 یوحنا 11:‏23-‏26 کو پڑھیں۔‏ مارتھا کو پتہ چلا کہ یسوع بیت‌عنیاہ کے قریب ہیں۔ وہ فوراً اُن سے ملنے گئیں اور کہا:‏ ”‏مالک، اگر آپ یہاں ہوتے تو میرا بھائی نہ مرتا۔“‏ (‏یوح 11:‏21‏)‏ سچ ہے کہ یسوع لعزر کو اُسی وقت ٹھیک کر سکتے تھے جب وہ بیمار تھے۔ لیکن وہ ایک ایسا کام کر‌نا چاہتے تھے جو اِس سے بھی بڑا اور زبردست تھا۔ اُنہوں نے مارتھا سے وعدہ کِیا:‏ ”‏آپ کا بھائی جی اُٹھے گا۔“‏ اُنہوں نے مارتھا کو اِس وعدے پر بھروسا کر‌نے کی ایک وجہ بھی بتائی۔ یسوع نے کہا:‏”‏مَیں وہ ہوں جو زندہ کر‌تا ہوں اور زندگی دیتا ہوں۔“‏ خدا نے یسوع کو مُردوں کو زندہ کر‌نے کی طاقت دی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے یسوع نے ایک چھوٹی بچی کو اُس کی موت کے کچھ دیر بعد ہی زندہ کر دیا تھا۔ اور اُنہوں نے ایک آدمی کو بھی اُسی دن زندہ کِیا تھا جس دن وہ فوت ہوا تھا۔ (‏لُو 7:‏11-‏15؛‏ 8:‏49-‏55‏)‏ لیکن کیا یسوع کسی ایسے شخص کو زندہ کر سکتے تھے جسے فوت ہوئے چار دن ہو چُکے تھے اور جس کا جسم اب سڑنا شروع ہو گیا تھا؟‏

‏”‏لعزر، باہر آ جائیں!‏“‏

یسوع نے اپنے دُکھی دوستوں کے لیے گہری ہمدردی محسوس کی۔ (‏پیراگراف نمبر 13-‏14 کو دیکھیں۔)‏

13.‏ جیسا کہ یوحنا 11:‏32-‏35 میں بتایا گیا ہے، جب یسوع نے مریم اور باقی لوگوں کو روتے ہوئے دیکھا تو کیا ہوا؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

13 یوحنا 11:‏32-‏35 کو پڑھیں۔‏ ذرا تصور کر‌یں کہ آگے کیا ہوا۔ لعزر کی دوسری بہن مریم یسوع سے ملنے گئیں۔ اُنہوں نے بھی وہی بات کہی جو اُن کی بہن نے کہی تھی:‏”‏مالک، اگر آپ یہاں ہوتے تو میرا بھائی نہ مرتا۔“‏ مریم اور دوسرے لوگ لعزر کی موت کی وجہ سے بہت دُکھی تھے۔ اُنہیں روتے دیکھ کر یسوع کو بھی بہت دُکھ ہوا۔ اُن سے ہمدردی کی وجہ سے یسوع کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اپنے کسی عزیز کو کھو دینا کتنا تکلیف‌دہ ہو سکتا ہے۔ بےشک وہ آنسوؤں کی اِس وجہ کو ختم کر‌نے کی شدید خواہش رکھتے تھے۔‏

14.‏ مریم کو روتے دیکھ کر یسوع نے جو کِیا، اُس سے ہم یہوواہ کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟‏

14 یسوع نے مریم کو روتے دیکھ کر جو کِیا، اُس سے ہمیں یہوواہ کے بارے میں یہ پتہ چلتا ہے کہ اُسے ہم سے بہت ہمدردی ہے۔ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟ جیسا کہ ہم نے پچھلے مضمون میں دیکھا، یسوع ہوبہو اپنے باپ کی سوچ اور احساسات کو ظاہر کر‌تے ہیں۔ (‏یوح 12:‏45‏)‏ اِس لیے جب ہم یہ پڑھتے ہیں کہ اپنے دوستوں کو دُکھ میں دیکھ کر یسوع کو اِس حد تک اُن کی تکلیف کا احساس ہوا کہ وہ رونے لگے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جب یہوواہ ہمیں دُکھ کی وجہ سے روتے دیکھتا ہے تو اُسے بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ (‏زبور 56:‏8‏)‏ بےشک اِس بات سے ہمارے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ہم اپنے خدا کے اَور قریب ہوتے جائیں۔‏

یسوع نے ثابت کِیا کہ اُن میں مُردوں کو زندہ کر‌نے کی طاقت ہے۔ (‏پیراگراف نمبر 15-‏16 کو دیکھیں۔)‏

15.‏ یوحنا 11:‏41-‏44 کے مطابق لعزر کی قبر پر کیا کچھ ہوا؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

15 یوحنا 11:‏41-‏44 کو پڑھیں۔‏ یسوع لعزر کی قبر پر پہنچے اور اُنہوں نے وہاں کھڑے لوگوں سے کہا کہ وہ پتھر کو ہٹائیں۔ اِس پر مارتھا نے کہا کہ اب تک تو لعزر کی لاش سے بُو آ رہی ہوگی۔ یسوع نے مارتھا سے کہا:‏”‏کیا مَیں نے آپ سے کہا نہیں تھا کہ اگر آپ ایمان رکھیں گی تو آپ خدا کی عظمت دیکھیں گی؟“‏ (‏یوح 11:‏39، 40‏)‏ پھر یسوع نے آسمان کی طرف آنکھیں اُٹھائیں اور سب کے سامنے یہوواہ سے دُعا کی۔ وہ چاہتے تھے کہ اب جو وہ کر‌نے والے ہیں، اُس کی وجہ سے یہوواہ کی بڑائی ہو۔ پھر اُنہوں نے کہا:‏”‏لعزر، باہر آ جائیں!‏“‏ اور لعزر اپنی قبر سے باہر نکل آئے۔ ابھی ابھی یسوع نے ایک ایسا کام کِیا تھا جو ناممکن لگ رہا تھا۔‏ b

16.‏ یوحنا 11 باب میں لکھے واقعے سے مُردوں کے جی اُٹھنے کی اُمید پر ہمارا ایمان کیسے مضبوط ہوتا ہے؟‏

16 یوحنا 11 باب میں لکھے واقعے سے مُردوں کے جی اُٹھنے کی اُمید پر ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے۔ لیکن کیسے؟ یاد کر‌یں کہ یسوع نے مارتھا سے کیا وعدہ کِیا تھا۔ اُنہوں نے کہا تھا:‏ ”‏آپ کا بھائی جی اُٹھے گا۔“‏ (‏یوح 11:‏23‏)‏ اپنے باپ کی طرح یسوع بھی اِس وعدے کو پورا کر‌نے کی خواہش رکھتے تھے اور اُن میں اِسے پورا کر‌نے کی طاقت تھی۔ یسوع نے لعزر کی موت پر جو آنسو بہائے، اُن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ موت اور اِس کی وجہ سے ہونے والے دُکھ کو ختم کر‌نے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ اور جب لعزر اپنی قبر سے باہر آئے تو یسوع نے ثابت کر دیا کہ اُن میں مُردوں کو زندہ کر‌نے کی طاقت ہے۔ ذرا اُس بات کے بارے میں بھی سوچیں جو یسوع نے مارتھا کو یاد دِلائی۔ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏کیا مَیں نے آپ سے کہا نہیں تھا کہ اگر آپ ایمان رکھیں گی تو آپ خدا کی عظمت دیکھیں گی؟“‏ (‏یوح 11:‏40‏)‏ ہمارے پاس مُردوں کے جی اُٹھنے کے حوالے سے خدا کے وعدے پر بھروسا رکھنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ اِس اُمید پر ہمارا بھروسا اَور زیادہ بڑھے؟‏

مُردوں کے جی اُٹھنے کی اُمید پر اپنے ایمان کو اَور مضبوط کر‌نے کے طریقے

17.‏ جب ہم بائبل میں مُردوں کے جی اُٹھنے کے واقعات کے بارے میں پڑھ رہے ہوتے ہیں تو ہمیں کیا بات ذہن میں رکھنی چاہیے؟‏

17 ماضی کے اُن واقعات کے بارے میں پڑھیں اور اِن پر سوچ بچار کریں جن میں مُردوں کے جی اُٹھنے کے بارے میں بتایا گیا ہے۔‏ بائبل میں آٹھ ایسے لوگوں کے واقعات لکھے ہیں جنہیں زمین پر مُردوں میں سے زندہ کِیا گیا۔‏ c یہ بہت اچھا ہوگا کہ آپ ہر واقعے کے بارے میں پڑھیں اور اِس پر سوچ بچار کر‌یں۔ ایسا کر‌تے وقت یاد رکھیں کہ یہ سب حقیقی مرد، عورتیں اور بچے تھے۔ اور دیکھیں کہ آپ اِن سے کیا سیکھتے ہیں۔ اِس بارے میں بھی سوچیں کہ ہر واقعے سے کیسے پتہ چلتا ہے کہ خدا مُردوں کو زندہ کر‌نے کی خواہش رکھتا ہے اور اُس میں ایسا کر‌نے کی طاقت بھی ہے۔ سب سے بڑھ کر یسوع کے جی اُٹھنے کے واقعے پر غور کر‌یں کیونکہ یہ سب سے خاص واقعہ تھا۔ اِس بات کو یاد رکھیں کہ بہت سے لوگ اِس بات کے گواہ تھے کہ یسوع کو مُردوں میں سے زندہ کِیا گیا۔ اِس وجہ سے مُردوں کے جی اُٹھنے کی اُمید پر ہمارا ایمان اَور مضبوط ہوتا ہے۔—‏1-‏کُر 15:‏3-‏6،‏ 20-‏22‏۔‏

18.‏ ہم اُن گیتوں کا اچھا اِستعمال کیسے کر سکتے ہیں جو مُردوں کے جی اُٹھنے کے بارے میں ہیں؟ (‏فٹ‌نوٹ کو بھی دیکھیں۔)‏

18 اُن ‏”‏روحانی گیتوں“‏ کا اچھا اِستعمال کریں جو مُردوں کے جی اُٹھنے کے بارے میں ہیں۔‏ d (‏اِفس 5:‏19‏)‏ یہ گیت آپ کی مدد کر‌یں گے تاکہ آپ مُردوں کے جی اُٹھنے کی اُمید پر اپنے ایمان کو اَور مضبوط کر سکیں۔ اِن گیتوں کو سنیں، اِنہیں گانے کی مشق کر‌یں اور اپنی خاندانی عبادت کے دوران گیتوں کے بول پر بات‌چیت کر‌یں۔ اِنہیں زبانی یاد کر‌نے کی کوشش کر‌یں اور اِن کے بارے میں زیادہ سے زیادہ سوچیں تاکہ آپ کا ایمان مضبوط ہو اور یہ آپ کے دل تک پہنچیں۔ پھر جب آپ کسی ایسی مشکل کا سامنا کر رہے ہوں گے جس میں جان جانے کا خطرہ ہو یا آپ اپنے کسی عزیز کو موت کے ہاتھوں کھو دیں گے تو یہوواہ کی پاک روح آپ کی مدد کر‌ے گی تاکہ آپ اِن گیتوں کو یاد کر سکیں اور آپ کو اِن سے تسلی اور ہمت ملے۔‏

19.‏ ہم مُردوں کے جی اُٹھنے کے حوالے سے کن باتوں کا تصور کر سکتے ہیں؟ (‏بکس ”‏ آپ اُن سے کیا پوچھیں گے؟‏‏“‏ کو دیکھیں۔)‏

19 تصور کرنے کی صلاحیت کو اِستعمال کریں۔‏ یہوواہ نے ہمیں یہ صلاحیت دی ہے کہ ہم خود کو نئی دُنیا میں تصور کر سکتے ہیں۔ ایک بہن نے کہا:‏ ”‏مَیں اِتنا زیادہ وقت خود کو نئی دُنیا میں تصور کر‌تی ہوں کہ اب مجھے ایسا لگنے لگا ہے کہ مَیں فردوس میں کھلنے والے گلابوں کی خوشبو تک سُونگھ سکتی ہوں۔“‏ تصور کر‌یں کہ آپ اُن مردوں اور عورتوں سے مل رہے ہیں جن کے بارے میں آپ نے بائبل میں پڑھا ہے اور جن کا ایمان بہت مضبوط تھا۔ آپ کس سے ملنا چاہتے ہیں؟ آپ اُس سے کون سے سوال پوچھیں گے؟ اِس بارے میں بھی تصور کر‌یں کہ آپ اپنے اُن عزیزوں سے مل رہے ہیں جو فوت ہو چُکے تھے۔ سوچیں کہ آپ سب سے پہلے اُن سے کیا کہیں گے، آپ کتنے پیار سے اُنہیں گلے لگائیں گے اور آپ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ جائیں گے۔‏

20.‏ ہمارا کیا عزم ہونا چاہیے؟‏

20 ہم یہوواہ کے بہت شکرگزار ہیں کہ اُس نے ہم سے یہ وعدہ کِیا ہے کہ وہ مُردوں کو زندہ کر دے گا۔ ہم اِس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنا یہ وعدہ پورا کر‌ے گا کیونکہ یہوواہ کی یہ خواہش ہے کہ وہ اِس وعدے کو پورا کر‌ے اور اُس میں اِسے پورا کر‌نے کی طاقت بھی ہے۔ آئیے، اِس بات کا عزم کر‌یں کہ ہم اپنی اِس اُمید پر اپنے ایمان کو مضبوط کر‌تے رہیں گے۔ ایسا کر‌نے سے ہم اپنے خدا کے اَور قریب ہو جائیں گے جس نے ہم سے یہ وعدہ کِیا ہے کہ ’‏آپ کے عزیز جی اُٹھیں گے!‏‘‏

گیت نمبر 147‏:‏ ہمیشہ کی زندگی کا وعدہ

a اگر آپ نے اپنے کسی عزیز کو موت کے ہاتھوں کھو دیا ہے تو بےشک آپ کو مُردوں کے جی اُٹھے کی اُمید سے بہت تسلی ملتی ہے۔ لیکن آپ دوسروں کو یہ کیسے بتا سکتے ہیں کہ آپ کو اِس وعدے پر پورا یقین ہے؟ اور آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ مُردوں کے جی اُٹھنے کی اُمید پر آپ کا ایمان اَور مضبوط ہو جائے؟ اِس مضمون کی مدد سے مُردوں کے جی اُٹھنے کی اُمید پر ہمارا ایمان اَور مضبوط ہو جائے گا۔‏

b ‏”‏مینارِنگہبانی،“‏ 1 جنوری 2008ء میں مضمون ”‏کیا آپ کو معلوم ہے؟“‏ میں ”‏لعزر کی موت کے بعد یسوع مسیح کو اُس کی قبر پر پہنچنے میں چار دن کیوں لگے؟‏‏“‏ کو دیکھیں۔‏

d کتاب ‏”‏یہوواہ کے حضور ‏”‏خوشی سے گائیں“‏“‏ میں اِن گیتوں کو دیکھیں:‏ ”‏خود کو نئی دُنیا میں تصور کر‌یں‏“‏ (‏گیت نمبر 139)‏، ”‏اِس اُمید کو تھام لیں‏“‏ (‏گیت نمبر 144)‏ اور ”‏خدا مُردوں کو آواز دے گا‏“‏ (‏گیت نمبر 151)‏۔ اِس کے علاوہ jw.org پر یہ گانے بھی دیکھیں:‏ ”‏دیکھو نا‏“‏ اور ”‏نویں دُنیا آ گئی‏“‏ (‏پنجابی میں دستیاب ہے۔)‏