مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 17

یہوواہ ایسی مشکلوں میں آپ کا ساتھ دے گا جن کی آپ کو توقع نہیں ہوتی

یہوواہ ایسی مشکلوں میں آپ کا ساتھ دے گا جن کی آپ کو توقع نہیں ہوتی

‏”‏صادق کی مصیبتیں بہت ہیں لیکن ‏[‏یہوواہ]‏ اُس کو اُن سب سے رِہائی بخشتا ہے۔“‏‏—‏زبور 34:‏19‏۔‏

گیت نمبر 44‏:‏ دُکھی بندے کی فریاد

مضمون پر ایک نظر a

1.‏ ہمیں کس بات کا یقین ہے؟‏

 ہم یہوواہ کے بندے ہیں اِس لیے ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ ہم سے بہت پیار کر‌تا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہماری زندگی بہت اچھی ہو۔ (‏روم 8:‏35-‏39‏)‏ ہمیں اِس بات کا بھی یقین ہے کہ بائبل کے اصولوں پر عمل کر‌نے سے ہمیں ہمیشہ فائدہ ہوگا۔ (‏یسع 48:‏17، 18‏)‏ لیکن اگر ہمیں ایسی مشکلوں کا سامنا کر‌نا پڑتا ہے جن کی ہم نے توقع بھی نہیں کی ہوتی تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

2.‏ (‏الف)‏ شاید ہمیں کن مشکلوں کا سامنا کر‌نا پڑے؟ (‏ب)‏ مشکلوں کا سامنا کر‌تے وقت شاید ہم کیا سوچنے لگیں؟‏

2 یہوواہ کے سب بندوں کو مشکلوں کا سامنا کر‌نا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر شاید ہمارے گھر کا کوئی فرد ہمارا دل دُکھا دے یا ہمیں صحت کا کوئی ایسا مسئلہ ہو جائے جس کی وجہ سے ہم یہوواہ کی خدمت میں وہ سب نہ کر پائیں جو ہم کر‌نا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کسی قدرتی آفت کی وجہ سے ہمیں بہت نقصان اُٹھانا پڑے یا شاید ہمیں ہمارے ایمان کی وجہ سے اذیت دی جائے۔ ایسی مشکلوں کا سامنا کر‌تے وقت شاید ہم یہ سوچنے لگیں:‏ ”‏یہ سب کچھ میرے ساتھ کیوں ہو رہا ہے؟ کیا مَیں نے کچھ غلط کِیا ہے؟ کیا مجھ پر یہ مشکلیں اِس لیے آ رہی ہیں کیونکہ یہوواہ میرے ساتھ نہیں ہے؟“‏ کیا آپ کو کبھی ایسا محسوس ہوا ہے؟ اگر ہاں تو بےحوصلہ نہ ہوں۔ یہوواہ کے بہت سے وفادار بندوں نے ایسا ہی محسوس کِیا۔—‏زبور 22:‏1، 2؛‏ حبق 1:‏2، 3‏۔‏

3.‏ ہم زبور 34:‏19 سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

3 زبور 34:‏19 کو پڑھیں۔‏ ذرا اِس زبور سے اِن دو اہم باتوں پر غور کر‌یں:‏ (‏1)‏ نیک لوگوں پر مشکلیں آتی ہیں۔ (‏2)‏ یہوواہ ہمیں ہماری مشکلوں سے نکالتا ہے۔ لیکن یہوواہ ہمیں ہماری مشکلوں سے کیسے نکالتا ہے؟ اِس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ ہماری یہ سمجھنے میں مدد کر‌تا ہے کہ شیطان کی اِس دُنیا میں ہمیں مشکلوں کا سامنا کر‌نا پڑے گا۔ یہوواہ نے ہم سے یہ وعدہ کِیا ہے کہ اگر ہم اُس کی خدمت کر‌یں گے تو ہمیں خوشی ملے گی۔ لیکن اُس نے یہ نہیں کہا کہ ہمیں کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا۔ (‏یسع 66:‏14‏)‏ اُس نے ہمیں ہدایت دی ہے کہ ہم اپنا دھیان مستقبل پر رکھیں یعنی اُس وقت پر جس میں ہمیں ایک ایسی زندگی ملے گی جو یہوواہ شروع سے ہمیں دینا چاہتا تھا۔ (‏2-‏کُر 4:‏16-‏18‏)‏ لیکن جب تک وہ وقت نہیں آتا،وہ ہماری مدد کر‌تا ہے تاکہ ہم ہر روز اُس کی خدمت کر‌تے رہیں۔—‏نوحہ 3:‏22-‏24‏۔‏

4.‏ اِس مضمون میں ہم کس بارے میں بات کر‌یں گے؟‏

4 آئیے، اِس بارے میں بات کر‌تے ہیں کہ ہم پُرانے زمانے اور آج کے زمانے کے یہوواہ کے بندوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ شاید ہمیں ایسی مشکلوں کا سامنا کر‌نا پڑے جن کی ہم نے توقع بھی نہ کی ہو۔ لیکن اگر ہم یہوواہ پر بھروسا کر‌یں گے تو وہ ہمارا بھروسا ٹوٹنے نہیں دے گا اور ہمیں ہماری مشکلوں سے نکالے گا۔ (‏زبور 55:‏22‏)‏ اِن مثالوں پر غور کر‌تے وقت خود سے پوچھیں:‏ ”‏اگر مَیں اُس شخص کی جگہ ہوتا تو مَیں کیا کر‌تا؟ اِن مثالوں پر غور کر‌نے سے یہوواہ پر میرا بھروسا کیسے بڑھتا ہے؟ اِن میں سے کن باتوں پر مَیں اپنی زندگی میں عمل کر سکتا ہوں؟“‏

پُرانے زمانے سے

یعقوب 20 سال تک اپنے دھوکےباز ماموں لابن کے لیے کام کر‌تے رہے اور یہوواہ یعقوب کو برکتیں دیتا رہا۔ (‏پیراگراف نمبر 5 کو دیکھیں۔)‏

5.‏ لابن کی وجہ سے یعقوب کو کن مشکلوں کا سامنا کر‌نا پڑا؟ (‏سرِورق کی تصور کو دیکھیں۔)‏

5 پُرانے زمانے میں بھی یہوواہ کے بندوں کو کچھ ایسی مشکلوں کا سامنا کر‌نا پڑا جن کی اُنہوں نے توقع بھی نہیں کی تھی۔ ذرا یعقوب کی مثال پر غور کر‌یں۔ یعقوب کے ابو نے اُنہیں نصیحت کی تھی کہ وہ لابن کی بیٹیوں میں سے کسی ایک سے شادی کر‌یں۔ لابن اُن کے رشتےدار تھے اور یہوواہ کی عبادت کر‌تے تھے۔ یعقوب کے ابو نے اُنہیں یہ بھی کہا تھا کہ اگر وہ ایسا کر‌یں گے تو یہوواہ اُنہیں بہت سی برکتیں دے گا۔ (‏پید 28:‏1-‏4‏)‏ یعقوب نے ایسا ہی کِیا۔ وہ کنعان سے سفر کر کے لابن کے گھر پہنچے۔ لابن کی دو بیٹیاں تھیں جن کا نام لیاہ اور راخل تھا۔ یعقوب کو لابن کی چھوٹی بیٹی راخل سے محبت ہو گئی اور وہ اُن سے شادی کر‌نے کی خاطر سات سال تک اُن کے باپ کے لیے کام کر‌نے کو تیار تھے۔ (‏پید 29:‏18‏)‏ لیکن صورتحال ویسی نہیں رہی جیسی یعقوب نے سوچی ہوئی تھی۔ لابن نے دھوکے سے اپنی بڑی بیٹی لیاہ کی شادی یعقوب سے کر‌ا دی۔ لابن نے یعقوب سے کہا کہ وہ ایک ہفتے بعد راخل سے بھی شادی کر سکتے ہیں لیکن اِس کے لیے اُنہیں سات سال اَور کام کر‌نا ہوگا۔ (‏پید 29:‏25-‏27‏)‏ لابن نے کاروباری معاملوں میں بھی یعقوب کا حق مارا۔ وہ 20 سال تک اُن کے ساتھ نااِنصافی کر‌تے رہے۔—‏پید 31:‏41، 42‏۔‏

6.‏ یعقوب کو اَور کن مشکلوں کا سامنا تھا؟‏

6 یعقوب نے اَور بھی بہت سی مشکلیں برداشت کیں۔ اُن کا ایک بہت بڑا خاندان تھا لیکن اُن کے بیٹوں کی آپس میں نہیں بنتی تھی۔ اُنہوں نے تو اپنے چھوٹے بھائی یوسف کو ایک غلام کے طور پر بیچ دیا۔ یعقوب کے بیٹوں شمعون اور لاوی کی وجہ سے پورے خاندان کو شرمندگی اُٹھانی پڑی اور یہوواہ کے نام کی بدنامی ہوئی۔ اِس کے علاوہ یعقوب اپنی بیوی راخل سے بہت محبت کر‌تے تھے لیکن اپنے دوسرے بچے کی پیدائش کے وقت وہ فوت ہو گئیں۔ ایک اَور مشکل یہ بھی تھی کہ ایک بہت سخت قحط کی وجہ سے یعقوب کو بڑھاپے میں اپنا ملک چھوڑ کر مصر جانا پڑا۔—‏پید 34:‏30؛‏ 35:‏16-‏19؛‏ 37:‏28؛‏ 45:‏9-‏11،‏ 28‏۔‏

7.‏ یہوواہ نے کیسے ثابت کِیا کہ وہ یعقوب کے ساتھ ہے؟‏

7 اِن سب مشکلوں کے باوجود بھی یعقوب نے یہوواہ اور اُس کے وعدوں پر اپنا ایمان کمزور نہیں پڑنے دیا۔ اور یہوواہ نے بھی یہ ثابت کِیا کہ وہ یعقوب کے ساتھ ہے۔ مثال کے طور پر لابن کی دھوکےبازی کے باوجود بھی یہوواہ نے یعقوب کو بہت سی برکتیں دیں۔ ذرا سوچیں کہ جب یعقوب یوسف سے دوبارہ ملے ہوں گے تو وہ یہوواہ کے کتنے شکرگزار ہوئے ہوں گے کیونکہ اُنہیں لگ رہا تھا کہ اُن کا بیٹا کئی سال پہلے فوت ہو چُکا ہے۔ یہوواہ کے ساتھ قریبی دوستی کی وجہ سے یعقوب اِن سب مشکلوں کو برداشت کر پائے۔ (‏پید 30:‏43؛‏ 32:‏9، 10؛‏ 46:‏28-‏30‏)‏ اگر ہماری بھی یہوواہ کے ساتھ قریبی دوستی ہوگی تو ہم بھی اُن مشکلوں کو برداشت کر پائیں گے جن کی ہم نے توقع بھی نہیں کی ہوتی۔‏

8.‏ بادشاہ داؤد کیا کر‌نا چاہتے تھے؟‏

8 بادشاہ داؤد یہوواہ کے لیے وہ سب کچھ نہیں کر پائے جو وہ کر‌نا چاہتے تھے۔ مثال کے طور پر داؤد کی شدید خواہش تھی کہ وہ اپنے خدا کے لیے ایک ہیکل بنائیں۔ اُنہوں نے اپنی یہ خواہش ناتن نبی کو بتائی۔ اِس پر ناتن نبی نے کہا:‏ ”‏جو کچھ تیرے دل میں ہے سو کر کیونکہ خدا تیرے ساتھ ہے۔“‏ (‏1-‏توا 17:‏1، 2‏)‏ ہم اِس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ الفاظ سُن کر داؤد کو کتنا حوصلہ ملا ہوگا۔ شاید اُنہوں نے فوراً ہی اِس بہت بڑے منصوبے پر کام کر‌نا شروع کر دیا ہوگا۔‏

9.‏ مایوس کر دینے والی ایک خبر سُن کر داؤد نے کیا کِیا؟‏

9 لیکن کچھ ہی وقت بعد ناتن نبی داؤد کے پاس مایوس کر دینے والی ایک خبر لے کر آئے۔ ”‏اُسی رات“‏ یہوواہ نے ناتن نبی کو بتایا کہ داؤد اُن کے لیے ہیکل نہیں بنائیں گے بلکہ داؤد کے بیٹوں میں سے کوئی ایسا کر‌ے گا۔ (‏1-‏توا 17:‏3، 4،‏ 11، 12‏)‏ یہ خبر سُن کر داؤد نے کیا کِیا؟ اُنہوں نے اپنے منصوبے میں کچھ تبدیلی کی۔ اُنہوں نے ہیکل کو بنانے کے لیے ضروری سامان اور پیسے اِکٹھے کر‌نا شروع کر دیے تاکہ یہ سلیمان کے کام آ سکیں۔—‏1-‏توا 29:‏1-‏5‏۔‏

10.‏ یہوواہ نے داؤد کو کیا برکت دی؟‏

10 داؤد کو یہ بتانے کے فوراً بعد کہ وہ ہیکل تعمیر نہیں کر‌یں گے، یہوواہ نے اُن کے ساتھ ایک عہد باندھا۔ یہوواہ نے داؤد سے وعدہ کِیا کہ اُن کی نسل میں سے کوئی ایک شخص ہمیشہ تک حکمرانی کر‌ے گا۔ (‏2-‏سمو 7:‏16‏)‏ ذرا تصور کر‌یں کہ نئی دُنیا میں داؤد کو یہ جان کر کتنی خوشی ہوگی کہ جس بادشاہ کی ہزار سالہ حکمرانی چل رہی ہے، وہ اُن ہی کی نسل سے آیا ہے!‏ اِس واقعے سے ہم سیکھتے ہیں کہ چاہے ہم یہوواہ کے لیے وہ سب کچھ نہ کر پائیں جو ہم کر‌نا چاہتے ہیں لیکن پھر بھی وہ شاید ہمیں ایسی برکتیں دے جن کا ہم نے تصور بھی نہ کِیا ہو۔‏

11.‏ حالانکہ بادشاہت اُس وقت نہیں آئی تھی جب پہلی صدی عیسوی کے مسیحی اِس کی توقع کر رہے تھے لیکن پھر بھی اُنہوں نے کن اچھی باتوں کا تجربہ کِیا؟ (‏اعمال 6:‏7‏)‏

11 پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کو کچھ ایسی مشکلوں کا سامنا کر‌نا پڑا جن کی اُنہوں نے توقع بھی نہیں کی تھی۔ مثال کے طور پر وہ خدا کی بادشاہت کا بڑی شدت سے اِنتظار کر رہے تھے۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ بادشاہت کب آئے گی۔ (‏اعما 1:‏6، 7‏)‏ اِس پر اُنہوں نے کیا کِیا؟ وہ مُنادی کر‌نے میں مصروف رہے۔ جیسے جیسے وہ زیادہ سے زیادہ علاقوں میں بادشاہت کی خوش‌خبری کا پیغام پھیلاتے رہے، اُنہوں نے اِس بات کے ثبوت دیکھے کہ یہوواہ اِس کام میں اُن کی مدد کر رہا ہے۔‏‏—‏اعمال 6:‏7 کو پڑھیں۔‏

12.‏ جب ایک بہت بڑا قحط پڑا تو پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں نے کیا کِیا؟‏

12 ایک بار ”‏پورے ملک میں“‏ بہت بڑا قحط پڑا۔ (‏اعما 11:‏28‏)‏ پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کو بھی اِس قحط کا سامنا کر‌نا پڑا۔ ذرا تصور کر‌یں کہ کھانے کی کمی کی وجہ سے اُنہیں کن مشکلوں کا سامنا کر‌نا پڑا ہوگا۔ بےشک گھر کے سربراہ اِس بات کی وجہ سے پریشان ہوں گے کہ وہ اپنے گھر والوں کی ضرورتوں کو کیسے پورا کر‌یں گے۔ اور جو نوجوان زیادہ سے زیادہ مُنادی کر‌نے کا منصوبہ بنا رہے تھے، اُن پر اِس کا کیا اثر ہوا ہوگا؟ شاید وہ یہ سوچ رہے تھے کہ اُنہیں اپنے منصوبے کو کچھ دیر کے لیے روک دینا چاہیے۔ ایسی صورتحال کے باوجود بھی اُن مسیحیوں نے خود کو نئے حالات کے مطابق ڈھالا۔ اُنہوں نے فرق فرق طریقوں سے مُنادی کر‌نی شروع کی اور اُنہوں نے بڑی خوشی سے یہودیہ میں رہنے والے اپنے ہم‌ایمانوں کے ساتھ اپنی چیزیں بانٹیں۔—‏اعما 11:‏29، 30‏۔‏

13.‏ قحط کے دوران بھی یہوواہ نے پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کے لیے کیا کِیا؟‏

13 قحط کے دوران بھی یہوواہ نے پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کے لیے کیا کِیا؟ جن مسیحیوں کو ضرورت کی چیزیں ملیں، اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ یہوواہ اُن کی مدد کر رہا ہے۔ (‏متی 6:‏31-‏33‏)‏ وہ اپنے اُن ہم‌ایمانوں کے اَور قریب ہو گئے جو اُن کی مدد کے لیے آئے۔ اور جن مسیحیوں نے عطیات دیے اور اِمدادی کاموں میں حصہ لیا، اُنہیں دوسروں کے لیے کچھ کر کے بہت خوشی ملی۔ (‏اعما 20:‏35‏)‏ یہوواہ نے اِن سب مسیحیوں کو برکتیں دیں کیونکہ اُنہوں نے بدلتے حالات کے مطابق خود کو ڈھالا۔‏

14.‏ پولُس اور برنباس کے ساتھ کیا ہوا اور اِس کے کیا نتیجے نکلے؟ (‏اعمال 14:‏21، 22‏)‏

14 پہلی صدی عیسوی کے کچھ مسیحیوں کو اکثر اذیت کا سامنا کر‌نا پڑتا تھا۔ کبھی کبھار تو ایسا اُس وقت ہوتا تھا جب اُنہوں نے اِس کی توقع بھی نہیں کی ہوتی تھی۔ ذرا غور کر‌یں کہ پولُس اور برنباس کے ساتھ اُس وقت کیا ہوا جب وہ لِسترہ کے ایک علاقے میں مُنادی کر رہے تھے۔ شروع شروع میں تو لوگوں نے بڑے اچھے سے اُن کا خیرمقدم کِیا اور اُن کے پیغام کو سنا۔ لیکن بعد میں مخالفت کر‌نے والے کچھ یہودی ”‏لوگوں کو اُکسانے لگے“‏ اور اُنہی میں سے کچھ لوگوں نے پولُس کو سنگسار کِیا اور اُنہیں مُردہ سمجھ کر چھوڑ گئے۔ (‏اعما 14:‏19‏)‏ لیکن پولُس اور برنباس دوسرے علاقوں میں مُنادی کر‌تے رہے۔ اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟ بہت سے لوگ شاگرد بن گئے اور پولُس اور برنباس کی باتوں اور اُن کی مثال سے اُن کے ہم‌ایمانوں کو بہت ہمت ملی۔ ‏(‏اعمال 14:‏21، 22 کو پڑھیں۔)‏ بہت سے لوگوں کو اِس لیے فائدہ ہوا کیونکہ پولُس اور برنباس نے اذیت کے باوجود بھی ہمت نہیں ہاری اور وہ مُنادی کر‌تے رہے۔ اگر ہم لگن سے اُس کام کو کر‌تے رہیں گے جو یہوواہ نے ہمیں دیا ہے تو وہ ہمیں برکتیں دیتا رہے گا۔‏

ہمارے زمانے سے

15.‏ آپ نے بھائی میک‌مِلن کی مثال سے کیا سیکھا ہے؟‏

15 سن 1914ء سے پہلے یہوواہ کے بندے کچھ باتوں کی توقع کر رہے تھے۔ ذرا بھائی میک‌مِلن کی مثال پر غور کر‌یں۔ اُس وقت کے بہت سے بہن بھائیوں کی طرح بھائی میک‌مِلن بھی یہ سوچ رہے تھے کہ وہ بہت جلد آسمان پر چلے جائیں گے۔ستمبر 1914ء میں اُنہوں نے جو تقریر کی، اُس میں اُنہوں نے کہا:‏ ”‏شاید یہ میری آخری عوامی تقریر ہے۔“‏ بےشک وہ اُن کی آخری تقریر نہیں تھی۔ بعد میں بھائی میک‌مِلن نے کہا:‏ ”‏ہم میں سے کچھ نے بہت جلدی یہ سوچ لیا تھا کہ ہم فوراً آسمان پر چلے جائیں گے۔ لیکن اصل میں ہمیں مالک کی خدمت میں مصروف رہنے کی ضرورت تھی۔“‏ بھائی میک‌مِلن نے ایسا ہی کِیا۔ اُنہوں نے بڑے جوش سے مُنادی کی۔ اُنہیں بہت سے ایسے بھائیوں کا حوصلہ بڑھانے کا اعزاز ملا جو اُس وقت اِس لیے قید میں تھے کیونکہ اُنہوں نے فوج میں بھرتی ہونے سے اِنکار کر دیا تھا۔ بھائی میک‌مِلن نے اُس وقت بھی اِجلاسوں میں آنا نہیں چھوڑا جب وہ بہت بوڑھے ہو چُکے تھے۔ یہوواہ کی خدمت میں مصروف رہنے سے بھائی کو کیا فائدہ ہوا؟ 1966ء میں اپنی موت سے کچھ وقت پہلے اُنہوں نے کہا:‏ ”‏میرا ایمان اب پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گیا ہے۔“‏ بھائی میک‌مِلن کی مثال پر عمل کر‌نے سے ہمیں بہت فائدہ ہوگا، خاص طور پر اُس وقت اگر ہم بہت لمبے عرصے سے مشکلوں کو برداشت کر رہے ہیں۔—‏عبر 13:‏7‏۔‏

16.‏ بھائی ہربرٹ اور اُن کی بیوی کو کون سی ایسی مشکل کا سامنا کر‌نا پڑا جس کی اُنہوں نے توقع بھی نہیں کی تھی؟ (‏یعقوب 4:‏14‏)‏

16 یہوواہ کے بہت سے بندوں کو صحت کے ایسے مسئلوں کا سامنا کر‌نا پڑتا ہے جن کی اُنہوں نے توقع بھی نہیں کی ہوتی۔ مثال کے طور پر اپنی آپ‌بیتی میں بھائی ہربرٹ جےنگز نے بتایا کہ جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ گھانا میں مشنری کے طور پر خدمت کر رہے تھے تو وہ کتنے خوش تھے۔‏ b لیکن کچھ وقت بعد اُنہیں پتہ چلا کہ اُنہیں ایک ایسی ذہنی بیماری ہے جس کی وجہ سے یا تو وہ بےحد خوش یا شدید مایوس ہو جاتے ہیں۔ یعقوب 4:‏14 میں لکھے الفاظ کے ذریعے اُنہوں نے بتایا کہ اُن کے لیے یہ نئی صورتحال ایک ایسا ”‏کل“‏ تھی جس کی اُنہوں نے توقع بھی نہیں کی تھی۔ ‏(‏اِس آیت کو پڑھیں۔)‏ بھائی نے کہا:‏ ”‏ہم نے اِس حقیقت کو تسلیم کِیا اور یہ فیصلہ کِیا کہ ہم گھانا اور اپنے دوستوں کو چھوڑ کر علاج کے لیے واپس کینیڈا جائیں گے۔“‏ یہوواہ نے بھائی ہربرٹ اور اُن کی بیوی کی مدد کی تاکہ وہ اِس مشکل کے باوجود بھی وفاداری سے اُس کی خدمت کر‌تے رہیں۔‏

17.‏ بھائی ہربرٹ کی مثال پر غور کر‌نے سے اُن کے ہم‌ایمانوں کو کیسے فائدہ ہوا؟‏

17 بھائی ہربرٹ کی مثال پر غور کر‌نے سے دوسروں پر بہت گہرا اثر ہوا۔ ایک بہن نے کہا:‏ ”‏بھائی کی آپ‌بیتی نے میرے دل کو چُھو لیا۔ جب مَیں نے یہ پڑھا کہ بھائی ہربرٹ کو اپنی بیماری کی وجہ سے اپنی خدمت چھوڑنی پڑی تو مجھے مدد ملی کہ مَیں اپنی صورتحال کے بارے میں صحیح سوچ رکھوں۔“‏ اِسی طرح ایک بھائی نے کہا:‏”‏دس سال تک کلیسیا کے بزرگ کے طور پر خدمت کر‌نے کے بعد مجھے اپنی ذہنی بیماری کی وجہ سے اِس خدمت کو چھوڑنا پڑا۔ جب مَیں دوسروں کی آپ‌بیتیاں پڑھتا تھا تو مجھے ایسا لگتا تھا جیسے مَیں کسی کام کا نہیں۔ اور اِس وجہ سے مَیں شدید ڈپریشن میں چلا جاتا تھا۔ لیکن جب بھائی ہربرٹ کی آپ‌بیتی میں مَیں نے اُن کے مضبوط عزم کے بارے میں پڑھا تو مجھے بہت حوصلہ ملا۔“‏ اِس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جب ہم ایسی مشکلوں کو بھی برداشت کر‌تے ہیں جو ہم پر اچانک آ جاتی ہیں تو ہم دوسروں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ کبھی کبھار ہماری زندگی میں چیزیں ویسی نہیں ہوتیں جیسی ہم نے سوچی ہوتی ہیں۔ لیکن اگر ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور ہم ہمت ہارے بغیر مشکلوں کا سامنا کر‌تے ہیں تو ہم دوسروں کے لیے ایک بہت اچھی مثال قائم کر رہے ہوتے ہیں۔—‏1-‏پطر 5:‏9‏۔‏

جب ہم مشکلوں میں یہوواہ پر بھروسا کر‌تے ہیں تو ہم اُس کے اَور قریب ہو جاتے ہیں۔ (‏پیراگراف نمبر 18 کو دیکھیں۔)‏

18.‏ جیسا کہ تصویروں میں دِکھایا گیا ہے، آپ نے نائیجیریا میں رہنے والی ایک بیوہ بہن کی مثال سے کیا سیکھا ہے؟‏

18 کچھ آفتوں جیسے کہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے یہوواہ کے کچھ بندے بھی متاثر ہوئے۔ مثال کے طور پر نائیجیریا میں رہنے والی ایک بہن جو بیوہ تھی، اُس کے پاس کھانے پینے کی چیزیں اور پیسے بہت کم تھے۔ ایک صبح اُس کی بیٹی نے اُس سے کہا کہ ہمارے پاس جو تھوڑے سے چاول تھے، وہ تو ہم نے بنا لیے؛ اب ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ہماری بہن نے اپنی بیٹی سے کہا کہ یہ تو سچ ہے کہ ہمارے پاس پیسے اور کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے لیکن ہمیں صارپت میں رہنے والی بیوہ کی مثال پر عمل کر‌نا چاہیے۔ (‏1-‏سلا 17:‏8-‏16‏)‏ ابھی اُنہوں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اُس دوپہر کیا کھائیں گے اور اُنہیں اُن کے ہم‌ایمانوں کی طرف سے راشن ملا۔ اُس میں کھانے پینے کی اِتنی چیزیں تھیں کہ یہ دو ہفتے سے بھی زیادہ چل سکتی تھیں۔ بہن نے کہا کہ اُسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ یہوواہ اُن باتوں کو اِتنے دھیان سے سُن رہا ہے جو وہ اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی۔ بےشک جب ہم یہوواہ پر بھروسا کر‌تے ہیں تو زندگی میں آنے والی مشکلیں بھی ہمیں یہوواہ کے اَور قریب لے جاتی ہیں۔—‏1-‏پطر 5:‏6، 7‏۔‏

19.‏ بھائی الکسی یرشوو کو کس طرح کی اذیت کا سامنا کر‌نا پڑا؟‏

19 پچھلے کچھ سالوں میں ہمارے بہت سے بہن بھائیوں کو ایسی اذیت کا سامنا کر‌نا پڑا جس کی اُنہوں نے توقع بھی نہیں کی تھی۔ اِس سلسلے میں بھائی الکسی یرشوو کی مثال پر غور کر‌یں جو روس میں رہتے ہیں۔ جب 1994ء میں بھائی کا بپتسمہ ہوا تو اُس وقت اُن کے علاقے میں یہوواہ کے بندے کسی حد تک آزادی سے یہوواہ کی عبادت کر سکتے تھے۔ لیکن اِس کے بعد روس میں صورتحال بدلنے لگی۔ 2020ء میں بھائی الکسی کے گھر پر چھاپا مارا گیا، اِس کی تلاشی لی گئی اور اُن کی بہت سی چیزوں کو ضبط کر لیا گیا۔ اِس کے کئی مہینوں بعد حکومت نے اُن پر مُجرم ہونے کا اِلزام لگا دیا۔ معاملہ اَور بگا‌ڑنے کے لیے اِن اِلزامات کی بنیاد کچھ ویڈیوز کو بنایا گیا۔ یہ ویڈیوز ایک ایسے شخص نے بنائی تھیں جو ایک سال سے بھی زیادہ عرصے تک یہ ظاہر کر رہا تھا کہ وہ بائبل کورس کر‌نے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اُس شخص نے کتنا بڑا دھوکا دیا!‏

20.‏ بھائی الکسی نے یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کیسے مضبوط کی؟‏

20 بھائی الکسی کو جس اذیت کا سامنا کر‌نا پڑا، کیا اُس کا کوئی اچھا نتیجہ نکلا؟ جی ہاں۔ یہوواہ کے ساتھ اُن کی دوستی اَور مضبوط ہو گئی۔ بھائی کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں اور میری بیوی اب پہلے سے بھی زیادہ دُعا کر‌نے لگے ہیں۔ مَیں سمجھ گیا ہوں کہ یہوواہ کی مدد کے بغیر مَیں اِس مشکل سے کبھی بھی نمٹ نہ پاتا۔“‏ اُنہوں نے آگے کہا:‏”‏جب مَیں بےحوصلہ ہو جاتا تھا تو ذاتی مطالعہ کر‌نے سے مجھے بہت مدد ملتی تھی۔ مَیں نے ماضی سے یہوواہ کے بندوں کی مثالوں پر سوچ بچار کی۔ بائبل میں ایسے بہت سے واقعات لکھے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ پُر سکون رہنا اور یہوواہ پر بھروسا رکھنا کتنا ضروری ہے۔“‏

21.‏ اِس مضمون میں ہم نے کیا سیکھا ہے؟‏

21 اِس مضمون میں ہم نے کیا سیکھا ہے؟ شیطان کی اِس دُنیا میں کبھی کبھار ہمیں ایسی مشکلوں کا سامنا کر‌نا پڑتا ہے جن کی ہم نے توقع بھی نہیں کی ہوتی۔ لیکن یہوواہ ہمیشہ اپنے اُن بندوں کی مدد کر‌تا ہے جو اُس پر بھروسا رکھتے ہیں۔ جیسا کہ اِس مضمون کی مرکزی آیت میں بتایا گیا:‏ ”‏صادق کی مصیبتیں بہت ہیں لیکن [‏یہوواہ]‏ اُس کو اُن سب سے رِہائی بخشتا ہے۔“‏ (‏زبور 34:‏19‏)‏ آئیے، ہم اپنی مشکلوں پر نہیں بلکہ اِس بات پر دھیان رکھیں کہ یہوواہ کے پاس ہمیں اِن مشکلوں سے نکال لینے کی طاقت ہے۔ جب ہم ایسا کر‌یں گے تو پولُس رسول کی طرح ہم بھی یہ کہہ سکیں گے:‏ ”‏جو مجھے طاقت دیتا ہے، اُس کے ذریعے مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔“‏—‏فل 4:‏13‏۔‏

گیت نمبر 38‏:‏ وہ آپ کو طاقت بخشے گا

a شیطان کی اِس دُنیا میں کبھی کبھار ہمیں ایسی مشکلوں کا سامنا کر‌نا پڑتا ہے جن کی ہم نے توقع بھی نہیں کی ہوتی۔ لیکن ہم اِس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ اپنے وفادار بندوں کی مدد کر‌ے گا۔ یہوواہ نے ماضی میں اپنے بندوں کی مدد کیسے کی؟ اور آج وہ ہماری مدد کیسے کر رہا ہے؟ بائبل سے اور ہمارے زمانے کی کچھ مثالوں پر غور کر‌نے سے اِس بات پر ہمارا یقین اَور مضبوط ہو جائے گا کہ اگر ہم یہوواہ پر بھروسا کر‌یں گے تو وہ ہماری بھی مدد ضرور کر‌ے گا۔‏

b ‏”‏مینارِنگہبانی،“‏ 1 دسمبر 2000ء، صفحہ نمبر 24-‏28 کو دیکھیں۔‏