خدا کے وعدوں پر اپنا ایمان مضبوط کریں
”ایمان اِس بات کی ضمانت ہے کہ ہماری اُمید ضرور پوری ہوگی۔“—عبر 11:1۔
1، 2. (الف) ہماری اُمید دُنیا کے لوگوں کی اُمیدوں سے کیسے فرق ہے؟ (ب) اِس مضمون میں ہم کن دو باتوں پر غور کریں گے؟
یہوواہ خدا نے ہمیں کتنے شاندار مستقبل کی اُمید دی ہے! ہم اُس دن کو دیکھنے کی بڑی اُمید رکھتے ہیں جب خدا کا نام پوری زمین پر پاک ثابت ہوگا اور اُس کی مرضی آسمان اور زمین پر ہوگی۔ (متی 6:9، 10) بھلا اِس سے اچھی اُمید اَور کیا ہو سکتی ہے! یہوواہ خدا نے ہمیں ہمیشہ کی زندگی دینے کا وعدہ بھی کِیا ہے، چاہے یہ آسمان پر ہو یا زمین پر۔ (یوح 10:16؛ 2-پطر 3:13) اِس کے علاوہ ہم یہ دیکھنے کے بھی مشتاق ہیں کہ یہوواہ اِن آخری دنوں میں اپنے خادموں کو اَور کون سی برکتوں سے نوازے گا۔
2 آجکل بہت سے لوگ ایسی اُمیدیں لگاتے ہیں جن کے پورے ہونے کا کم ہی اِمکان ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر لوگ اِس اُمید سے لاٹری کھیلتے ہیں کہ وہ جیت جائیں گے۔ لیکن اُن کے پاس اِس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اُن کی اُمید پوری ہوگی۔ اِس کے برعکس بائبل میں بتایا گیا ہے: ”ایمان اِس بات کی ضمانت ہے کہ ہماری اُمید ضرور پوری ہوگی۔“ (عبر 11:1) اِس کا مطلب ہے کہ جو لوگ حقیقی ایمان رکھتے ہیں، اُنہیں پکی اُمید ہے کہ یہوواہ اپنے تمام وعدے پورے کرے گا۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم خدا کے وعدوں پر اپنے ایمان کو زیادہ مضبوط کیسے کر سکتے ہیں اور یہ اِتنا ضروری کیوں ہے۔
3. ہم اِس بات پر مضبوط ایمان کیوں رکھتے ہیں کہ خدا اپنے تمام وعدے پورے کرے گا؟
گل 5:22) پاک روح کی مدد سے ہم سمجھ گئے کہ یہوواہ خدا لامحدود قدرت اور دانشمندی کا مالک ہے۔ وہ جو کام کرنے کا اِرادہ کرتا ہے، اُسے پورا بھی کرتا ہے اور کوئی اُسے روک نہیں سکتا۔ اِس لیے وہ اپنے وعدوں کے بارے میں کہہ سکتا ہے کہ ”یہ باتیں پوری ہو چکی ہیں!“ (مکاشفہ 21:3-6 کو پڑھیں۔) یہوواہ ”وفادار خدا“ ہے۔ اِس لیے ہم مضبوط ایمان رکھتے ہیں کہ وہ مستقبل میں بھی اپنے تمام وعدے پورے کرے گا۔—اِست 7:9۔
3 گُناہگار اِنسانوں میں پیدائشی طور پر ایمان نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ اُن میں خودبخود پیدا ہو جاتا ہے۔ لوگوں کے دل میں حقیقی ایمان اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ پاک روح کی رہنمائی کو قبول کرتے ہیں۔ (قدیم زمانے میں مضبوط ایمان کی مثالیں
4. خدا کے جو بندے یسوع مسیح کے زمانے سے پہلے فوت ہو گئے، وہ کیا اُمید رکھتے تھے؟
4 عبرانیوں 11 باب میں پولُس رسول نے 16 مردوں اور عورتوں کا ذکر کِیا جن کا ایمان مثالی تھا۔ اُنہوں نے اِن کے بارے میں اور خدا کے بہت سے دوسرے خادموں کے بارے میں کہا کہ ”اُن کے ایمان کی وجہ سے اُن کو گواہی ملی تھی کہ خدا اُن سے خوش ہے۔“ (عبر 11:39) اِن سب کو پکی اُمید تھی کہ خدا ایک ”نسل“ کے ذریعے شیطان کو ختم کر دے گا اور زمین کو فردوس بنا دے گا۔ (پید 3:15) اِنہیں اِس بات پر بھی پکا ایمان تھا کہ خدا اُن کو زندہ کرے گا۔ لیکن وہ آسمان پر جانے کی اُمید نہیں رکھتے تھے کیونکہ وہ نسل یعنی ”اولاد“ کے آنے سے پہلے فوت ہو گئے تھے۔ آسمان پر زندگی پانے کی راہ یسوع مسیح نے ہی ہموار کی۔ (گل 3:16) اِس لیے خدا کے جو بندے یسوع مسیح کے زمانے سے پہلے فوت ہو گئے، وہ زمین پر ہمیشہ کی زندگی پانے کی اُمید رکھتے تھے۔—زبور 37:11؛ یسع 26:19؛ ہوس 13:14۔
5، 6. ابراہام اور اُن کا خاندان کس بات کی اُمید رکھتے تھے اور وہ خدا کے وعدوں پر اپنے ایمان کو مضبوط کیسے رکھ پائے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
5 عبرانیوں 11:13 میں خدا کے اِن بندوں کے بارے میں کہا گیا ہے: ”یہ سب لوگ مرتے دم تک اپنے ایمان پر قائم رہے حالانکہ اُنہوں نے اُن وعدوں کو پورا ہوتے نہیں دیکھا جو اُن سے کیے گئے تھے۔ لیکن اُنہوں نے اِن وعدوں کو دُور سے دیکھا اور اِن کا خیرمقدم کِیا۔“ اِن بندوں میں سے ایک ابراہام تھے۔ ہم کیسے جانتے ہیں کہ ابراہام اُس وقت کے منتظر تھے جب ”اولاد“ پوری زمین پر حکمرانی کرے گی؟ یسوع مسیح نے ابراہام کے بارے میں کہا کہ ”وہ میرا دن دیکھنے کی اُمید رکھتے تھے۔“ (یوح 8:56) سارہ، اِضحاق، یعقوب اور خدا کے دیگر خادموں کی اُمیدیں بھی اُس آنے والی بادشاہت سے وابستہ تھیں ”جس کا نقشہساز اور معمار خدا ہے۔“—عبر 11:8-11۔
6 ابراہام اور اُن کا خاندان خدا کے وعدوں پر اپنے ایمان کو مضبوط کیسے رکھ پائے؟ وہ لوگ یہوواہ خدا کے بارے میں علم حاصل کرتے رہے۔ ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے یہوواہ کے بارے میں اپنے بڑوں سے سیکھا ہو یا ایسی تحریروں سے جو اُس وقت دستیاب تھیں۔ اِس کے علاوہ خدا نے خود اُنہیں رُویات، خوابوں اور فرشتوں کے ذریعے اپنے بارے میں بتایا تھا۔ اِن لوگوں نے اِن باتوں کو یاد رکھا اور اِن پر سوچ بچار کی۔ وہ یہوواہ کے حکموں اور وعدوں کی قدر کرتے تھے۔ اِس وجہ سے اُن کی اُمید اِتنی مضبوط تھی کہ وہ خدا کی خاطر ہر طرح کی مشکل جھیلنے کو تیار تھے۔
7. خدا نے ہمیں کون سی سہولتیں فراہم کی ہیں اور ہم اِن کے ذریعے اپنے ایمان کو کیسے مضبوط رکھ سکتے ہیں؟
7 ہم اپنے ایمان کو کیسے مضبوط رکھ سکتے ہیں؟ یہوواہ خدا نے ہمیں بائبل دی ہے۔ خوش رہنے اور کامیاب ہونے کے لیے ہمیں اِسے روزانہ پڑھنا ہوگا۔ (زبور 1:1-3؛ اعمال 17:11 کو پڑھیں۔) ابراہام اور اُن کے خاندان کی طرح ہمیں بھی خدا کے وعدوں پر سوچ بچار کرنی چاہیے اور اُس کے حکموں پر عمل کرنا چاہیے۔ خدا نے ہمیں ”وفادار اور سمجھدار غلام“ کے ذریعے کثرت سے روحانی کھانا بھی فراہم کِیا ہے۔ (متی 24:45) اگر ہم اِن تمام سہولتوں کو اِستعمال کریں گے اور اِن کی قدر کریں گے تو ہم بھی پکی اُمید رکھیں گے کہ خدا کی بادشاہت آئے گی۔
8. دُعا کے ذریعے ہمارا ایمان کیوں مضبوط ہوتا ہے؟
8 قدیم زمانے میں خدا کے بندوں کا ایمان اِس لیے بھی مضبوط تھا کیونکہ وہ دُعا کرتے تھے۔ جب خدا اُن کی دُعاؤں کا جواب دیتا تھا تو اُن کا ایمان اَور زیادہ مضبوط ہو جاتا تھا۔ (نحم 1:4، 11؛ زبور 34:4، 15، 17؛ دان 9:19-21) ہم بھی دُعا میں اپنا دل ہلکا کر سکتے ہیں، یہ جان کر کہ یہوواہ ہمیں ثابتقدم اور خوش رہنے کی طاقت دے گا۔ اور جب وہ ہماری دُعاؤں کا جواب دے گا تو ہمارا ایمان بھی زیادہ مضبوط ہو جائے گا۔ (1-یوحنا 5:14، 15 کو پڑھیں۔) ایمان روح کے پھل کا ایک پہلو ہے اِس لیے ہمیں خدا سے پاک روح ’مانگتے رہنا‘ چاہیے تاکہ ہمارا ایمان مضبوط رہے۔—لُو 11:9، 13۔
9. ہمیں اپنی ضروریات کے لیے دُعا کرنے کے علاوہ اَور کن باتوں کے بارے میں دُعا کرنی چاہیے؟
9 ہمیں صرف اپنی ضروریات کے لیے ہی دُعا نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہمیں یہوواہ کا شکر ادا بھی کرنا چاہیے اور اُس کی بڑائی بھی کرنی چاہیے کیونکہ اُس کے شاندار کام ”شمار سے باہر ہیں۔“ (زبور 40:5) ہماری دُعاؤں سے یہ بھی ظاہر ہونا چاہیے کہ ہم اُن بہن بھائیوں کو ’جو قید میں ہیں، ایسے یاد رکھتے ہیں جیسے ہم بھی اُن کے ساتھ قید ہوں۔‘ ہمیں یہ بھی دُعا کرنی چاہیے کہ خدا پوری دُنیا میں ہمارے بہن بھائیوں کی مدد کرے، خاص طور پر اُن بھائیوں کی ”جو [ہماری] پیشوائی کر رہے ہیں۔“ جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے تو ہم اُس کے قریب ہو جاتے ہیں اور ہمارا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے۔—عبر 13:3، 7۔
’وہ سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں تھے‘
10. خدا کے کچھ ایسے بندوں کی مثال دیں جو آزمائش کے وقت اپنے ایمان پر قائم رہے اور بتائیں کہ وہ خدا کے وفادار کیوں رہ پائے۔
10 پولُس رسول نے عبرانیوں 11 باب میں خدا کے اَور بھی بندوں کا ذکر کِیا جن پر طرح طرح کی آزمائشیں آئیں۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے کچھ ایسی عورتوں کا ذکر کِیا جن کے بیٹے فوت ہو گئے لیکن بعد میں اُنہیں زندہ کِیا گیا۔ اِس کے بعد پولُس نے ایسے آدمیوں کی مثال دی جنہوں نے ”مرتے دم تک اذیت سہی کیونکہ وہ کسی قیمت پر سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں تھے تاکہ اُنہیں بہتر لحاظ سے زندہ کِیا جائے۔“ (عبر 11:35) ہم نہیں جانتے کہ پولُس رسول نے یہ بات کن آدمیوں کے بارے میں کہی۔ لیکن شاید وہ نبوت اور زکریاہ کا سوچ رہے تھے جنہیں اِس لیے سنگسار کِیا گیا کیونکہ وہ خدا کے حکم سے ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ (1-سلا 21:3، 15؛ 2-توا 24:20، 21) جب دانیایل اور اُن کے ساتھیوں پر آزمائش آئی تو اُنہیں سمجھوتا کرنے کا موقع ملا۔ لیکن وہ خدا کے وفادار رہے کیونکہ اُنہیں اِس بات پر مضبوط ایمان تھا کہ خدا اُنہیں زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ خدا کی مدد سے اُنہوں نے ایک طرح سے ”شیروں کے مُنہ بند کیے اور آگ کی شدت کو ٹھنڈا کِیا۔“—عبر 11:33، 34؛ دان 3:16-18، 20، 28؛ 6:13، 16، 21-23۔
11. خدا کے کچھ نبیوں پر کون سی آزمائشیں آئیں؟
11 یرمیاہ اور میکایاہ نبی کو اُن کے ایمان کی وجہ سے ”طعنے دیے گئے اور . . . قید میں ڈالا گیا۔“ خدا کے دوسرے نبی، مثلاً ایلیاہ ”ریگستانوں اور پہاڑوں اور غاروں اور کھوؤں میں رہے۔“ یہ سب نبی اِن آزمائشوں کے دوران ثابتقدم رہے کیونکہ اُنہیں اِس بات پر پکا ایمان تھا کہ اُن کی ”اُمید ضرور پوری ہوگی۔“—عبر 11:1، 36-38؛ 1-سلا 18:13؛ 22:24-27؛ یرم 20:1، 2؛ 28:10، 11؛ 32:2۔
12. ایمان کی سب سے اعلیٰ مثال کس نے قائم کی اور وہ آزمائشوں کے دوران خدا کے وفادار کیوں رہے؟
12 خدا کے بہت سے وفادار خادموں کا ذکر کرنے کے بعد پولُس رسول نے ہمارے مالک یسوع مسیح کا ذکر کِیا جنہوں نے ایمان کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ عبرانیوں 12:2 میں لکھا ہے: ”[یسوع مسیح] نے اُس خوشی کی خاطر جو اُن کو ملنی تھی، سُولی کی تکلیف سہی، بےعزتی کی پرواہ نہیں کی اور خدا کے تخت کی دائیں طرف جا بیٹھے۔“ یسوع مسیح اپنے مضبوط ایمان کی بدولت کڑی سے کڑی آزمائش میں بھی خدا کے وفادار رہے۔ اُنہوں نے ایمان کی جو مثال قائم کی، ہمیں ’اُس پر نظریں جمائے رکھنا‘ چاہیے۔ (عبرانیوں 12:3 کو پڑھیں۔) یسوع مسیح کی طرح پہلی صدی کے بہت سے مسیحیوں نے بھی آزمائش کے وقت سمجھوتا نہیں کِیا بلکہ خدا کے وفادار رہنے کی خاطر اپنی جان دے دی۔ اِن میں سے ایک انتپاس تھے۔ (مکا 2:13) یہ تمام مسیحی آسمان پر جانے کی اُمید رکھتے تھے۔ یہ اُمید اُن لوگوں کی اُمید سے بھی افضل تھی جنہیں پکا یقین تھا کہ ”اُنہیں بہتر لحاظ سے زندہ کِیا جائے [گا]۔“ (عبر 11:35) جب 1914ء میں خدا کی بادشاہت قائم ہوئی تو اِس کے تھوڑے ہی عرصے بعد اُن مسحشُدہ مسیحیوں کو زندہ کِیا گیا جو مر چُکے تھے اور اُنہیں آسمان پر یسوع کے ساتھ حکمرانی کرنے کا شرف دیا گیا۔—مکا 20:4۔
جدید زمانے میں مضبوط ایمان کی مثالیں
13، 14. بھائی رُوڈلف پر کون سی آزمائشیں آئیں اور وہ ثابتقدم کیسے رہ پائے؟
13 آج بھی خدا کے لاکھوں خادم یسوع مسیح کی مثال پر عمل کر رہے ہیں۔ وہ اپنی اُمید پر نظریں جمائے ہوئے ہیں اور آزمائشوں کے باوجود ایمان پر قائم رہتے ہیں۔ اِس سلسلے میں بھائی رُڈولف گرایشن کی زندگی پر غور کریں جو 1925ء میں جرمنی میں پیدا ہوئے۔ بچپن یسع 11:6-9) بھائی رُوڈلف کے دل میں آنے والے فردوس کی اُمید ہمیشہ روشن رہی۔ اِس لیے اُن کا ایمان مضبوط رہا حالانکہ اُنہوں نے نازی حکومت اور بعد میں کمیونسٹ حکومت کے ہاتھوں بہت سالوں تک اذیت سہی۔
میں اُن کے گھر کی دیواروں پر ایسی تصویریں لگی تھیں جن میں بائبل کے واقعات کے منظر تھے۔ بھائی رُوڈلف نے کہا: ”ایک تصویر میں بھیڑیا اور برّہ، چیتا اور بکری کا بچہ، بچھڑا اور شیر ایک چھوٹے لڑکے کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ . . . اِس طرح کی تصویروں نے مجھ پر گہرا اثر ڈالا۔“ (14 بھائی رُوڈلف پر اَور بھی بہت سی آزمائشیں آئیں۔ اُن کی امی نازیوں کے ایک ہولناک قیدی کیمپ میں ٹائیفائیڈ کی وجہ سے فوت ہو گئی۔ اُن کے ابو نے ایمان پر سمجھوتا کر لیا اور ایک دستاویز پر دستخط کر لیے کہ وہ یہوواہ کا گواہ ہونے سے اِنکار کرتا ہے۔ جب بھائی رُوڈلف قید سے آزاد ہو گئے تو اُنہیں حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کا شرف ملا اور بعد میں اُنہیں گلئیڈ سکول بلایا گیا۔ اِس سکول میں تربیت پانے کے بعد اُنہیں مشنری کے طور پر ملک چلی بھیج دیا گیا جہاں اُنہوں نے پھر سے حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کی۔ وہاں اُنہوں نے ایک مشنری بہن سے شادی کی لیکن شادی کے ایک سال بعد اُن کی ننھی بیٹی فوت ہو گئی۔ پھر اُن کی بیوی 43 سال کی عمر میں فوت ہو گئی۔ اِن سب آزمائشوں کے باوجود بھائی رُوڈلف یہوواہ کے وفادار رہے، یہاں تک کہ وہ بیماری اور بڑھاپے میں بھی پہلکار اور بزرگ کے طور پر خدمت کرتے رہے۔
15. کچھ ایسے یہوواہ کے گواہوں کی مثال دیں جو اذیت سہنے کے باوجود خدا کے وفادار رہے۔
15 اَور بھی بہت سے یہوواہ کے گواہ سالوں سے سخت اذیت کا سامنا کر رہے ہیں لیکن اُنہوں نے اُمید کی کِرن کو بُجھنے نہیں دیا۔ مثال کے طور پر ہمارے سینکڑوں بہن بھائی ایریٹریا، سنگاپور اور جنوبی کوریا کے جیلوں میں قید ہیں کیونکہ وہ یسوع مسیح کے حکم کے مطابق ہتھیار اُٹھانے سے اِنکار کرتے ہیں۔ (متی 26:52) اِن میں بھائی اِیسک، نیگیڈے اور پاؤلُس بھی شامل ہیں جو 20 سال سے زیادہ عرصے سے ایریٹریا کے ایک قیدی کیمپ میں ہیں۔ قید ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کی دیکھبھال نہیں کر سکتے اور شادی بھی نہیں کر سکتے۔ حالانکہ اِن بھائیوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے گئے لیکن وہ یہوواہ خدا کے وفادار رہے۔ آپ اِن کی تصویر ہماری ویبسائٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔ اُن کے خوشی سے دمکتے چہروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کا ایمان مضبوط ہے، یہاں تک کہ اُن کی نگرانی کرنے والے سپاہی بھی اُن کا احترام کرتے ہیں۔
16. مضبوط ایمان کے ذریعے ہم کس طرح کی آزمائشوں میں ثابتقدم رہنے کے قابل ہوتے ہیں؟
16 زیادہتر یہوواہ کے گواہوں پر اِتنی سخت اذیت نہیں ڈھائی جا رہی ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہم سب کو طرح طرح کی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے بہت سے بہن بھائی غربت، خانہجنگی اور قدرتی آفتوں کی وجہ سے مصیبتیں سہہ رہے ہیں۔ کچھ اَور بہن بھائیوں نے ابراہام، اِضحاق، یعقوب اور موسیٰ کی طرح شہرت اور دولت کو خیرباد کہہ دیا ہے اور اُن کی پوری کوشش ہے کہ اُن کے دل میں دوبارہ سے پیسے کے لیے پیار پیدا نہ ہو۔ یہ سب بہن بھائی اِن آزمائشوں میں ثابتقدم کیسے رہ رہے ہیں؟ وہ یہوواہ خدا سے محبت کرتے ہیں اور اِس بات پر مضبوط ایمان رکھتے ہیں کہ یہوواہ نااِنصافی کا نامونشان مٹا دے گا اور اپنے وفادار بندوں کو فردوس میں ہمیشہ کی زندگی عطا کرے گا۔—زبور 37:5، 7، 9، 29 کو پڑھیں۔
17. (الف) اِس مضمون کو پڑھنے کے بعد آپ کا کیا عزم ہے؟ (ب) اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟
17 اِس مضمون میں ہم نے دیکھا ہے کہ باقاعدگی سے دُعا کرنے اور خدا کے وعدوں پر سوچ بچار کرنے سے ہمارا ایمان مضبوط رہتا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ اگر ہم پکا یقین رکھیں گے کہ ”ہماری اُمید ضرور پوری ہوگی“ تو ہم ہر طرح کی آزمائش میں ثابتقدم رہ پائیں گے۔ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ بائبل کے مطابق ایمان کی تشریح میں اَور کیا کچھ شامل ہے۔