مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ ’‏دانائی کی حفاظت‘‏ کرتے ہیں؟‏

کیا آپ ’‏دانائی کی حفاظت‘‏ کرتے ہیں؟‏

کسی گاؤں میں ایک غریب لڑکا رہتا تھا۔‏ گاؤں کے لوگ اُسے بےوقوف سمجھتے تھے اور اُس کا خوب مذاق اُڑاتے تھے۔‏ جب بھی گاؤں والوں سے کوئی ملنے آتا تو وہ اُس کے سامنے لڑکے کے ساتھ ایک کھیل کھیلتے۔‏ وہ لڑکے کو دو سِکے دِکھاتے،‏ ایک چاندی کا اور ایک سونے کا۔‏ سونے کا سکہ چاندی کے سِکے سے چھوٹا ہوتا لیکن اِس کی قیمت چاندی کے سِکے سے دُگنی ہوتی۔‏ وہ لڑکے سے پوچھتے:‏ ”‏کون سا سکہ لو گے؟‏“‏ اِس پر لڑکا ہمیشہ چاندی کا سکہ اُٹھا کر بھاگ جاتا۔‏

ایک دن ایک آدمی نے لڑکے سے پوچھ ہی لیا:‏ ”‏کیا تمہیں نہیں پتہ کہ سونے کا سکہ چاندی کے سِکے سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے؟‏“‏ لڑکے نے مسکرا کر کہا:‏ ”‏ہاں،‏ مَیں جانتا ہوں۔‏“‏ آدمی نے حیران ہو کر پوچھا:‏ ”‏پھر تُم ہمیشہ چاندی کا سکہ کیوں لیتے ہو؟‏ اگر تُم سونے کا سکہ لو گے تو تمہیں زیادہ پیسے ملیں گے۔‏“‏ اِس پر لڑکے نے کہا:‏ ”‏لیکن اگر مَیں سونے کا سکہ لوں گا تو لوگ میرے ساتھ یہ کھیل کھیلنا بند کر دیں گے۔‏ پتہ ہے کہ مَیں نے اب تک کتنے سِکے جمع کر لیے ہیں؟‏“‏ بےشک اِس لڑکے میں ایک ایسی خوبی تھی جو چھوٹے بڑوں،‏ سب کے کام آ سکتی ہے۔‏ یہ خوبی دانش‌مندی ہے۔‏

بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏اَے میرے بیٹے!‏ دانائی اور تمیز کی حفاظت کر۔‏ اُن کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے۔‏ تب تُو بےکھٹکے اپنے راستہ پر چلے گا اور تیرے پاؤں کو ٹھیس نہ لگے گی۔‏“‏ (‏امثا 3:‏21،‏ 23‏)‏ اگر ہمیں پتہ ہے کہ دانائی یعنی دانش‌مندی کیا ہے اور ہم اِسے کیسے کام میں لا سکتے ہیں تو ہم سیدھے راستے پر چلتے رہیں گے اور ہمارے قدم کبھی نہیں لڑکھڑائیں گے۔‏

دانش‌مندی کیا ہے؟‏

دانش‌مندی صرف ایک معاملے کے بارے میں علم رکھنا اور اِسے سمجھنا ہی نہیں ہے۔‏ پہلے تو ہم کسی معاملے کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں اور پھر یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اِن معلومات کا آپس میں کیا تعلق ہے۔‏ لیکن ہم تب ہی دانش‌مندی ظاہر کرتے ہیں جب ہم سیکھی ہوئی باتوں پر عمل بھی کرتے ہیں۔‏

ذرا ایک مثال پر غور کریں۔‏ ایک شخص کتاب پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں میں بتائی گئی باتیں جلد ہی سمجھ لیتا ہے اور بائبل کورس کرتے وقت صحیح جواب دیتا ہے۔‏ وہ اِجلا‌سوں پر آنے لگتا ہے اور اچھے تبصرے بھی دیتا ہے۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بائبل کی تعلیمات کو سمجھ رہا ہے۔‏ لیکن کیا اُس میں دانش‌مندی کی خوبی بھی پیدا ہو رہی ہے؟‏ لازمی نہیں۔‏ شاید وہ بہت ذہین ہے اور اِس لیے جلد ہی سب کچھ سمجھ جاتا ہے۔‏ لیکن جب وہ سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنے لگتا ہے تب وہ دانش‌مندی ظاہر کرنے لگتا ہے۔‏ خاص طور پر جب وہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے سوچ بچار کرتا ہے اور پھر اچھے فیصلے کرتا ہے تو ظاہر ہو جاتا ہے کہ وہ دانش‌مندی حاصل کر رہا ہے۔‏

متی 7:‏24-‏27 میں یسوع مسیح نے دو آدمیوں کی مثال دی جنہوں نے ایک ایک گھر بنایا۔‏ اِن میں سے ایک آدمی ”‏سمجھ‌دار“‏ یعنی دانش‌مند تھا۔‏ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ ریت پر گھر بنائے گا تو یہ جلد بن جائے گا اور خرچہ بھی کم ہوگا۔‏ لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ایسا گھر پائیدار نہیں ہوگا۔‏ اِس لیے اُس نے چٹان پر گھر بنایا۔‏ پھر جب طوفان آیا تو اُس کی دانش‌مندی رنگ لائی کیونکہ اُس کا گھر محفوظ رہا۔‏ اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ہم دانش‌مندی کی خوبی کیسے پیدا کر سکتے ہیں اور اِسے کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

ہم دانش‌مندی کی خوبی کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟‏

میکا‌ہ 6:‏9 میں لکھا ہے:‏ ”‏دانش‌مند [‏یہوواہ]‏ کے نام کا لحاظ رکھتا ہے۔‏“‏ کسی کا لحاظ رکھنے میں اُس کا احترام کرنا بھی شامل ہوتا ہے۔‏ یہوواہ کے نام کا لحاظ رکھنے کا مطلب ہے کہ ہم اُس کے نام اور معیاروں کا احترام کریں۔‏ اِس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اُس کی سوچ سے واقف ہوں۔‏ پھر ہم اُس پر بھروسا کر سکیں گے اور اُس کی دانش‌مندی سے سیکھ سکیں گے۔‏ ہمیں کوئی بھی کام کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ اِس سے یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی پر کیا اثر پڑے گا۔‏ اِس کے ساتھ ساتھ ہمیں کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت خدا کے معیاروں کو مدِنظر رکھنا چاہیے۔‏ یوں ہم دانش‌مندی حاصل کریں گے۔‏

امثال 18:‏1 میں لکھا ہے:‏ ”‏جو اپنے آپ کو سب سے الگ رکھتا ہے اپنی خواہش کا طالب ہے اور ہر معقول بات سے برہم ہوتا ہے۔‏“‏ ہمیں محتاط رہنا چاہیے کہ ہم یہوواہ خدا اور اُس کے خادموں سے دُور نہ رہنے لگیں۔‏ اِس خطرے سے بچنے کے لیے ہمیں اُن لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا چاہیے جو خدا کے نام اور معیاروں کا احترام کرتے ہیں۔‏ اِس لیے جہاں تک ممکن ہو،‏ ہمیں کنگڈم ہال میں جا کر اِجلا‌سوں کا پروگرام سننا چاہیے کیونکہ وہاں ہم اپنے بہن بھائیوں سے میل جول رکھ سکتے ہیں۔‏ اِجلا‌س کے دوران ہمیں پروگرام کو دھیان سے سننا چاہیے تاکہ بتائی گئی باتیں ہمارے دل میں اُتر جائیں۔‏

ہمیں دل کھول کر یہوواہ خدا سے دُعا بھی کرنی چاہیے تاکہ ہم اُس سے دُور نہ ہو جائیں۔‏ (‏امثا 3:‏5،‏ 6‏)‏ جب ہم پاک کلام اور یہوواہ کی تنظیم کی مطبوعات کو دھیان سے پڑھیں گے تو ہم سمجھ جائیں گے کہ ایک کام کا کیا نتیجہ نکلتا ہے اور یوں ہم اچھے فیصلے کر پائیں گے۔‏ اِس کے علا‌وہ جب کلیسیا کے بزرگ ہماری اِصلا‌ح کرتے ہیں اور ہمیں پاک کلام سے کوئی مشورہ دیتے ہیں تو ہمیں اِسے قبول کرنا چاہیے۔‏ (‏امثا 19:‏20‏)‏ یوں ہم ”‏ہر معقول بات“‏ کو ترک کرنے کی بجائے دانش‌مندی کی خوبی اپنائیں گے۔‏

ہم دانش‌مندی کی خوبی کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

جب ہم دانش‌مندی سے کام لیتے ہیں تو ہم بہت سی گھریلو پریشانیوں سے بچے رہتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر بائبل میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ”‏بیوی اپنے شوہر کا دل سے احترام کرے۔‏“‏ (‏اِفس 5:‏33‏)‏ ایک شوہر کیا کر سکتا ہے تاکہ اُس کی بیوی دل سے اُس کا احترام کرے؟‏ اُسے دُوراندیشی سے کام لینا چاہیے۔‏ اگر وہ اپنی بیوی پر سختی کرے گا اور اُس کو اپنا احترام کرنے پر مجبور کرے گا تو شاید بیوی اُس کی موجودگی میں اُس کا احترام کرے۔‏ لیکن کیا وہ شوہر کی غیرموجودگی میں بھی اُس کا احترام کرے گی؟‏ اِس کا کم ہی اِمکا‌ن ہے۔‏ اِس لیے بہتر ہوگا کہ شوہر خود میں روح کا پھل پیدا کرے اور اپنی بیوی کے ساتھ محبت اور مہربانی سے پیش آئے۔‏ یوں اُس کی بیوی خوشی سے اُس کا احترام کرے گی۔‏ ظاہری بات ہے کہ بیوی کو ہر صورت میں اپنے شوہر کا احترام کرنا چاہیے،‏ خواہ وہ اِس کے لائق ہو یا نہ ہو۔‏—‏گل 5:‏22،‏ 23‏۔‏

بائبل میں یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ شوہر اپنی بیوی سے محبت کرے۔‏ (‏اِفس 5:‏28،‏ 33‏)‏ کبھی کبھی ایک بیوی اپنے شوہر سے اِس وجہ سے کوئی بات چھپاتی ہے کیونکہ اُسے ڈر ہے کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائے اور اُس سے محبت کرنا نہ چھوڑ دے۔‏ لیکن کیا یہ دانش‌مندی کی بات ہے؟‏ جب اُس کے شوہر کو پتہ چلے گا کہ بیوی نے اُس سے ایک ایسی بات چھپائی ہے جو اُس کے علم میں ہونی چاہیے تو شوہر کا کیا ردِعمل ہوگا؟‏ کیا اُس کے دل میں اپنی بیوی کے لیے محبت بڑھے گی؟‏ اِس لیے بہتر ہوگا کہ بیوی مناسب وقت کا اِنتظار کرے اور پھر دھیمے لہجے میں اپنے شوہر کو ساری بات بتا دے۔‏ یقیناً اُس کے شوہر کے دل میں اُس کے لیے اَور جگہ بن جائے گی۔‏

جس انداز میں آپ اپنے بچوں کی اِصلا‌ح کرتے ہیں،‏ اِس سے آگے چل کر اُن پر یا تو اچھا اثر پڑے گا یا پھر بُرا۔‏

بچوں کو اپنے والدین کا فرمانبردار ہونا چاہیے اور والدین کو یہوواہ کی طرف سے اپنے بچوں کی تربیت اور رہنمائی کرنی چاہیے۔‏ (‏اِفس 6:‏1،‏ 4‏)‏ کیا اِس کا مطلب ہے کہ والدین اپنے بچوں کے لیے حکموں اور سزاؤں کی ایک لمبی چوڑی فہرست تیار کریں؟‏ نہیں۔‏ اِس سے بہتر یہ ہوگا کہ وہ اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ اُن کو فرمانبردار کیوں ہونا چاہیے۔‏

فرض کریں کہ ایک بچہ دوسروں کے سامنے اپنے والدین سے بدتمیزی کرتا ہے۔‏ اگر والدین اُس پر چیخنے چلّا‌نے لگیں گے یا اپنا غصہ اُتارنے کے لیے اُسے فوراً سزا دیں گے تو بچہ شاید بدتمیزی کرنا بند کر دے۔‏ لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ بےعزتی محسوس کرے اور دل میں اپنے والدین سے خفا رہنے لگے۔‏ اِس کا نتیجہ شاید یہ نکلے کہ وہ والدین سے آہستہ آہستہ دُور ہو جائے۔‏

اِس کے برعکس دانش‌مند والدین سوچ سمجھ کر اپنے بچوں کی اِصلا‌ح کرتے ہیں۔‏ وہ جانتے ہیں کہ جس انداز میں بچوں کی اِصلا‌ح کی جاتی ہے،‏ اِس سے آگے چل کر اُن پر یا تو اچھا اثر پڑے گا یا بُرا۔‏ اِس لیے اگر اُن کا بچہ اُن سے بدتمیزی کرتا ہے تو وہ سب کے سامنے اُس پر برس نہیں پڑیں گے۔‏ اِس کی بجائے وہ اکیلے میں اُس کو پیار سے سمجھائیں گے کہ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ وہ اُن کا احترام کرے تاکہ اُسے ہمیشہ کی زندگی ملے۔‏ یوں بچہ سمجھ جائے گا کہ اپنے والدین کی عزت کرنے سے وہ یہوواہ خدا کی بھی عزت کرتا ہے۔‏ (‏اِفس 6:‏2،‏ 3‏)‏ ایسے پُرمحبت انداز میں اِصلا‌ح پانے سے بچے کے دل پر اچھا اثر پڑے گا۔‏ اُسے اپنے والدین کی محبت کا احساس ہو جائے گا اور اُس کے دل میں اُن کے لیے احترام بڑھے گا۔‏ پھر آئندہ جب بھی وہ کسی معاملے پر پریشان ہوگا تو وہ خوشی سے اپنے والدین سے اِس کے بارے میں بات کرے گا۔‏

بعض والدین اِس لیے اپنے بچوں کی اِصلا‌ح نہیں کرتے کیونکہ وہ اُن کا دل نہیں دُکھانا چاہتے۔‏ لیکن اِس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟‏ جب بچہ بڑا ہو جائے گا تو کیا وہ یہوواہ خدا کا احترام کرے گا اور اُس کے معیاروں پر چلے گا؟‏ کیا وہ یہوواہ کی سنے گا؟‏ یا پھر کیا وہ اُس سے دُور ہو جائے گا؟‏—‏امثا 13:‏1‏۔‏

یاد رکھیں کہ ایک مجسّمہ‌ساز لکڑی یا پتھر کو تراشنے سے پہلے طے کر لیتا ہے کہ وہ اِس سے کیسا مجسّمہ بنائے گا۔‏ اِسی طرح دانش‌مند والدین بھی پہلے سے اِس بارے میں سوچ بچار کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی کیسے پرورش کریں گے۔‏ وہ خود یہوواہ کے بارے میں سیکھتے ہیں،‏ اُس کے معیاروں پر چلتے ہیں اور اُس کا احترام کرتے ہیں۔‏ وہ یہوواہ اور اُس کی تنظیم کی قربت میں رہنے سے دانش‌مندی حاصل کرتے ہیں اور پھر اِسے کام میں لاتے ہوئے اپنے بچوں کی اچھی پرورش کرتے ہیں۔‏

ہم روزانہ ایسے فیصلے کرتے ہیں جن سے ہمارے مستقبل پر اثر پڑ سکتا ہے۔‏ اِس لیے جلدبازی میں کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے سوچ بچار کرنے کے لیے وقت نکا‌لیں۔‏ اِس بات پر غور کریں کہ آپ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں،‏ اِس سے آپ کے مستقبل پر کیسا اثر پڑے گا۔‏ اِس کے ساتھ ساتھ یہوواہ خدا سے مدد مانگیں اور اُس کی ہدایتوں پر عمل کریں۔‏ یوں آپ ’‏دانائی کی حفاظت کریں گے‘‏ اور زندگی میں کامیاب رہیں گے۔‏—‏امثا 3:‏21،‏ 22‏۔‏