کیا آپ کو معلوم ہے؟
کیا پُرانے زمانے میں لوگ واقعی دوسروں کے کھیتوں میں جنگلی پودوں کے بیج بوتے تھے؟
یسوع مسیح نے متی 13:24-26 میں کہا: ”آسمان کی بادشاہت ایک ایسے آدمی کی طرح ہے جس نے اپنے کھیت میں اچھے بیج بوئے۔ جب لوگ سو رہے تھے تو اُس آدمی کا دُشمن آیا اور گندم کے کھیت میں جنگلی پودوں کے بیج بو کر چلا گیا۔ جب پتیاں نکلیں اور اُن میں پھل لگا تو زہریلے پودے بھی نظر آنے لگے۔“ بعض عالموں کا کہنا ہے کہ یہ مثال حقیقی واقعات پر مبنی نہیں تھی۔ لیکن قدیم رومی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ یسوع کے زمانے میں کچھ لوگ واقعی ایسا کرتے تھے۔
بائبل کے متعلق ایک لغت میں لکھا ہے کہ ”کسی سے بدلہ لینے کے لیے اُس کے کھیت میں زہریلے پودوں کے بیج بونا رومی قانون میں جُرم قرار دیا گیا تھا۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں یہ حرکت عام تھی ورنہ اِس کے خلاف کوئی قانون نہ ہوتا۔“ قانوندان الیسٹر کیر بتاتے ہیں کہ رومی شہنشاہ جسٹینین نے 533ء میں ایک کتابی سلسلہ شائع کِیا جس کا نام قوانین کا خلاصہ تھا۔ اِس میں ماہرِقانون کے اِقتباسات تھے اور ایسے مُقدموں کا ذکر تھا جو 100ء-250ء کے عرصے میں چلائے گئے تھے۔ اِن مُقدموں میں سے ایک اِس لیے چلایا گیا کیونکہ کسی شخص نے ایک کسان کے کھیت میں جنگلی پودوں کے بیج بوئے تھے جس کی وجہ سے فصل خراب ہو گئی تھی۔ کتابی سلسلہ قوانین کا خلاصہ میں اِس بارے میں بات کی گئی کہ ایک زمیندار یا کسان ایسی صورت میں کون سی قانونی کارروائی کر سکتا تھا تاکہ اُس کے نقصان کے لیے ہرجانہ بھرا جائے۔
لہٰذا رومی سلطنت میں ایسے واقعات ضرور پیش آتے تھے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح نے جو مثال دی، یہ حقیقی واقعات پر مبنی تھی۔
پہلی صدی عیسوی میں رومی حکومت نے صوبۂیہودیہ میں یہودی پیشواؤں کو کتنا اِختیار دے رکھا تھا؟
اُس زمانے میں رومی سلطنت کا راج تھا اور صوبۂیہودیہ میں ایک رومی حاکم مقرر تھا جس کی اپنی فوج بھی تھی۔ یہ حاکم روم کے لیے ٹیکس جمع کرتا تھا اور صوبے میں نظموضبط قائم رکھتا تھا۔ وہ غیرقانونی کاموں کی روکتھام کرتا تھا اور فسادیوں کو سزا دیتا تھا۔ لیکن اِن معاملات کے علاوہ رومی حکومت نے یہودیوں کو خود صوبے کا نظام چلانے کی اِجازت دی تھی۔
یہودیوں کی عدالتِعظمیٰ کو یہودی شریعت کے مطابق فیصلے سنانے کا اِختیار حاصل تھا۔ اِس کے علاوہ صوبۂیہودیہ کے شہروں میں یہودیوں کی مقامی عدالتیں بھی ہوتی تھیں۔ زیادہتر مُقدموں کے فیصلے اِن ہی عدالتوں میں سنائے جاتے تھے۔ مگر یہودی عدالتوں کو سزائےموت سنانے کی اِجازت نہیں تھی کیونکہ عام طور پر ایسے فیصلے صرف رومیوں کے اِختیار میں تھے۔ البتہ جب یہودیوں کی عدالتِعظمیٰ نے ستفنُس کے خلاف فیصلہ سنایا اور اُنہیں سنگسار کروایا تو اِس بات کو نظرانداز کِیا گیا۔—اعما 6:8-15؛ 7:54-60۔
یوں تو یہودیوں کی عدالتِعظمیٰ کو بہت اِختیار حاصل تھا لیکن یہ اِختیار لامحدود نہیں تھا۔ عالم امیل شورر نے کہا: ”رومی حاکم کسی بھی عدالتی معاملے میں دخلاندازی کر سکتے تھے اور وہ ایسا کرتے بھی تھے، خاص طور پر اگر اُنہیں شک ہوتا تھا کہ کوئی سیاسی جُرم سرزد ہوا ہے۔“ اِس کی ایک مثال وہ واقعہ ہے جب رومی کمانڈر کلودِیُس لُوسیاس نے پولُس رسول کو یہودیوں کے ہاتھوں سے بچانے کے لیے گِرفتار کر لیا کیونکہ پولُس ایک رومی شہری تھے۔—اعما 23:26-30۔