آپبیتی
یہوواہ کی ہدایت پر عمل کرنا برکتوں کا باعث ہے
مجھے، میرے شوہر کو اور میرے بھائی اور بھابی کو خدا کی خدمت کے حوالے سے ایک خاص ذمےداری کی پیشکش کی گئی۔ ہم نے فوراً کہا: ”ہم اِس ذمےداری کو پورا کریں گے۔“ ہم نے اِس ذمےداری کو کیوں قبول کِیا؟ اور یہوواہ نے ہمیں کون سی برکتیں دیں؟ اِس بارے میں بتانے سے پہلے آئیں، مَیں آپ کو اپنے پسمنظر کے متعلق بتاتی ہوں۔
مَیں 1923ء میں اِنگلینڈ کے صوبے یارکشائر کے ایک قصبے میں پیدا ہوئی۔ میرا ایک بڑا بھائی تھا جس کا نام بوب تھا۔ جب مَیں نو سال کی تھی تو ہمارے ابو کو کچھ کتابیں ملیں جن میں بتایا گیا تھا کہ جھوٹے مذاہب نے لوگوں کو کیسے گمراہ کِیا ہوا ہے۔ ابو نے اُن کتابوں میں جو کچھ پڑھا، وہ اُس سے بہت متاثر ہوئے۔ اُنہیں یہ بات بالکل پسند نہیں تھی کہ مذہبی رہنما جو کچھ سکھاتے ہیں، اُس پر خود عمل نہیں کرتے۔ کچھ سال بعد ہمارے گھر بھائی بوب ایٹکنسن آئے اور ہمیں بھائی رتھرفورڈ کی ریکارڈ کی ہوئی تقریر سنائی۔ ہم جان گئے کہ یہ تقریر اُسی مذہبی گروہ کی طرف سے ہے جس کی کتابیں ابو کو ملی تھیں۔ میرے امی ابو نے بھائی ایٹکنسن کو کہا کہ وہ ہر رات ہمارے ساتھ کھانا کھایا کریں اور بائبل کے بارے میں ہمارے سوالوں کے جواب دیا کریں۔ بھائی ایٹکنسن نے ہمیں اِجلاسوں میں آنے کی دعوت دی جو کچھ میل دُور ایک بھائی کے گھر پر ہوتے تھے۔ ہم نے باقاعدگی سے اِجلاسوں میں جانا شروع کر دیا اور پھر ہمارے قصبے میں ایک چھوٹی سی کلیسیا قائم ہو گئی۔ کچھ عرصے بعد ہم نے حلقے کے نگہبانوں کو اپنے گھر ٹھہرانا اور قریبی کلیسیاؤں سے پہلکاروں کو اپنے گھر کھانے پر بلانا شروع کر دیا۔ اُن بہن بھائیوں کے ساتھ میل جول رکھنے کا مجھ پر بہت اچھا اثر پڑا۔
اُس وقت ہمارا خاندان ایک کاروبار چلا رہا تھا۔ لیکن ابو نے میرے بھائی سے کہا: ”اگر تُم پہلکار بننا چاہتے ہو تو ہم یہ کاروبار بند کر دیں گے۔“ بوب خوشی سے تیار ہو گئے اور 21 سال کی عمر میں پہلکار کے طور پر خدمت کرنے کے لیے چلے گئے۔ دو سال کے بعد جب مَیں 16 سال کی تھی تو مَیں بھی پہلکار بن گئی۔ ہفتے اور اِتوار کو تو مَیں دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ مُنادی کرتی تھی لیکن باقی دنوں میں عموماً مَیں اکیلی ہی کام کرتی تھی۔ مَیں فونوگراف اور چھوٹے کارڈز اِستعمال کِیا کرتی تھی۔ اِن کارڈز پر بائبل کا مختصر سا پیغام لکھا ہوتا تھا۔ یہوواہ نے میرے کام میں برکت ڈالی۔ مُنادی کے دوران مَیں ایک عورت سے ملی جسے مَیں بائبل کورس کرانے لگی۔ اُس عورت نے روحانی طور پر ترقی کی اور بعد میں اُس کے خاندان کے بہت سے افراد نے بھی سچائی کو قبول کر لیا۔ اگلے سال مجھے خصوصی پہلکار بنا دیا گیا اور میری ہینشل نامی بہن کے ساتھ شمالی اِنگلینڈ کے ایک صوبے میں بھیج دیا گیا جہاں بہت کم مُنادی کی گئی تھی۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران عورتوں کو فوج کی حمایت کے لیے کام کرنا پڑتا تھا۔ دیگر مذہبی خادم اِس کام کو کرنے کی پابند نہیں تھے۔ لہٰذا ہم نے سوچا کہ چونکہ ہم خصوصی پہلکار ہیں اِس لیے ہم بھی اِس کام سے بَری ہیں۔ لیکن عدالتوں نے ہمیں یسعیاہ 41:10، 13۔
بَری قرار نہیں دیا اور مجھے 31 دن کے لیے جیل بھیج دیا۔ اگلے سال جب مَیں 19 سال کی ہوئی تو مجھے دو اَور مرتبہ عدالت جانا پڑا کیونکہ میرا ضمیر مجھے جنگ کی حمایت کرنے کی اِجازت نہیں دیتا تھا۔ لیکن دونوں مرتبہ میرا مُقدمہ خارج کر دیا گیا۔ اِس پورے وقت کے دوران مجھے یقین تھا کہ پاک روح میری مدد کر رہی ہے اور یہوواہ مجھے طاقت بخش رہا ہے۔—مجھے ایک اچھا جیون ساتھی مل گیا
سن 1946ء میں میری ملاقات آرتھر میتھیوز سے ہوئی۔ اُس وقت آرتھر تین مہینے جیل میں رہ کر آئے تھے کیونکہ اُنہوں نے فوج میں بھرتی ہونے سے اِنکار کر دیا تھا۔ جیل سے رِہا ہونے کے بعد وہ ہمارے قصبے میں آ گئے اور اپنے بھائی ڈینس کے ساتھ خدمت کرنے لگے جو خصوصی پہلکار تھے۔ اُن کے ابو نے اُنہیں بچپن سے ہی یہوواہ کے بارے میں سکھایا تھا اور اُنہوں نے 16، 17 سال کی عمر میں بپتسمہ لے لیا تھا۔ جب آرتھر، ڈینس کے ساتھ خدمت کرنے کے لیے آئے تو اِس کے تھوڑے عرصے بعد ڈینس کو آئرلینڈ بھیج دیا گیا۔ اِس وجہ سے آرتھر کو اکیلے پہلکار کے طور پر خدمت کرنی پڑی۔ میرے والدین اِس بات سے بہت متاثر تھے کہ آرتھر کتنے اچھے اخلاق کے مالک ہیں اور کتنی محنت سے خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔ لہٰذا اُنہوں نے آرتھر کو گھر رہنے کے لیے بلا لیا۔ جب مَیں گھر گئی تو مَیں اور آرتھر کھانے کے بعد برتن دھویا کرتے تھے۔ پھر مَیں نے اور آرتھر نے ایک دوسرے کو خط لکھنے شروع کر دیے۔ اِس کے بعد 1948ء میں آرتھر کو اَور تین مہینے کے لیے جیل جانا پڑا۔ ہم نے جنوری 1949ء میں شادی کر لی۔ ہمارا اِرادہ تھا کہ جب تک ہمارے لیے ممکن ہوگا، ہم کُلوقتی خدمت کریں گے۔ ہم بڑی احتیاط سے پیسے خرچ کرتے اور چھٹیوں کے دوران باغوں میں پھل بٹور کر کچھ پیسے کماتے۔ یہوواہ کی برکت کی بدولت ہم پہلکار کے طور پر خدمت جاری رکھنے کے قابل ہوئے۔
تقریباً ایک سال بعد ہمیں شمالی آئرلینڈ کے ایک ایسے علاقے میں بھیجا گیا جہاں زیادہتر کیتھولک لوگ رہتے تھے۔ اُس علاقے میں مذہبی تعصب بہت زیادہ تھا۔ اِس لیے لوگوں کو مُنادی کرتے وقت ہمیں بڑی احتیاط اور سمجھداری سے کام لینا پڑتا تھا۔ ہمارے اِجلاس ایک گواہ جوڑے کے گھر میں ہوتے تھے جو ہماری رہائشگاہ سے 16 کلومیٹر (10 میل) دُور تھا۔ اِجلاسوں میں تقریباً آٹھ لوگ حاضر ہوا کرتے تھے۔ کبھی کبھار ہم رات بھی وہی رُک جاتے تھے۔ ہم فرش پر سوتے اور اگلے دن خوب پیٹ بھر کر ناشتہ کرتے۔ مجھے اِس بات کی بےحد خوشی ہے کہ اب اُس علاقے میں بہت سے یہوواہ کے گواہ ہیں۔
”ہم اِس ذمےداری کو پورا کریں گے“
میرا بھائی اور بھابی پہلے سے ہی شمالی آئرلینڈ میں خصوصی پہلکار کے طور پر خدمت کر رہے تھے۔ 1952ء میں ہم چاروں نے شمالی آئرلینڈ کے شہر بیلفاسٹ میں ایک صوبائی اِجتماع میں شرکت کی۔ ایک مہماننواز بھائی نے ہم چاروں کو اور بھائی پرائس ہیوز کو اپنے گھر ٹھہرایا جو اُس وقت برطانیہ کی برانچ کی نگرانی کر رہے تھے۔ ایک رات ہم نئی کتاب ”گاڈز وے اِز لَو“ کے بارے میں بات کر رہے تھے جسے خاص طور پر آئرلینڈ کے لوگوں کے لیے تیار کِیا گیا تھا۔ بھائی ہیوز نے بتایا کہ جنوبی آئرلینڈ میں کیتھولک لوگوں کو مُنادی کرنا بہت مشکل ہے۔ وہاں کے بہن بھائیوں کو اُن کی رہائشگاہوں سے نکالا جا رہا تھا اور پادری لوگوں کو بہن بھائیوں پر تشدد کرنے کے لیے اُکسا رہے تھے۔ بھائی ہیوز نے کہا: ”ہمیں ایسے جوڑوں کی ضرورت ہے جن کے پاس کار ہو اور جو پورے ملک میں نئی کتاب کو تقسیم کرنے کی مہم میں حصہ لے سکیں۔“ تبھی ہم نے بھائی سے کہا: ”ہم اِس ذمےداری کو پورا کریں گے۔“
جنوبی آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن میں ما رُٹلینڈ نامی بہن تھی جو کئی سالوں سے وفاداری کے ساتھ خدا کی خدمت کر رہی تھی۔ وہ ہمیشہ پہلکاروں کو خوشی سے
اپنے گھر ٹھہرایا کرتی تھیں۔ ہم بھی تھوڑا عرصہ اُن کے گھر رُکے۔ پھر ہم نے کار خریدنے کے لیے اپنا کچھ سامان بیچ دیا۔ بوب کے پاس ایک موٹرسائیکل تھی جس کے ساتھ ایک ڈبہ جُڑا ہوا تھا جس میں ایک شخص بیٹھ سکتا تھا۔ ہم سب اِس پر بیٹھ کر کار ڈھونڈنے نکل پڑے۔ ہمیں اچھی حالت میں ایک کار مل گئی۔ لیکن چونکہ ہم میں سے کسی کو بھی کار چلانی نہیں آتی تھی اِس لیے ہم نے اِس کے مالک سے کہا کہ وہ اِسے ہمارے گھر پہنچا دے۔ اُس پوری شام آرتھر پلنگ پر بیٹھ کر کار کے گیئر تبدیل کرنے کے اِشارے کرتے رہے۔ اگلی صبح جب آرتھر کار کو گیراج سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہے تھے تو ہمارے گھر ایک مشنری بہن آئی جس کا نام مِلڈریڈ وِلٹ تھا۔ (بعد میں اِس بہن کی شادی بھائی جان بار سے ہوئی۔) اُنہیں ڈرائیونگ آتی تھی اور اُنہوں نے ہمیں بھی کار چلانی سکھائی۔ اب ہم مہم میں حصہ لینے کے لیے بالکل تیار تھے۔اِس کے بعد ہمیں رہنے کے لیے جگہ ڈھونڈنی تھی۔ بھائیوں نے ہمیں ٹریلر (یعنی ایسی گاڑی جسے رہائش کے لیے بنایا جاتا ہے) میں رہنے سے منع کِیا تھا کیونکہ ہمارے مخالف اِسے آگ لگا سکتے تھے۔ لہٰذا ہم نے گھر ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ہمیں کوئی گھر نہ ملا۔ اُس رات ہم چاروں کار میں ہی سوئے۔ اگلے دن ہمیں بس ایک چھوٹا سا ٹریلر ملا جس میں دو بنکبیڈ تھے۔ (یہ ایسا بیڈ ہوتا ہے جس میں ایک پلنگ نیچے اور ایک اُوپر ہوتا ہے۔) اب یہ ٹریلر ہی ہمارا گھر تھا۔ ایک اچھی بات یہ تھی کہ وہاں کے کچھ کسانوں کو اِس بات پر کوئی اِعتراض نہیں تھا کہ ہم اِس ٹریلر کو اُن کے کھیتوں میں کھڑا کریں۔ ہم ٹریلر سے 16 سے 24 کلومیٹر (10 سے 15 میل) دُور علاقے میں جا کر مُنادی کرتے۔ پھر ہم ٹریلر کو کسی دوسرے علاقے میں کھڑا کرتے اور اُس علاقے میں واپس آ کر مُنادی کرتے جس میں ٹریلر پہلے کھڑا ہوتا تھا۔
ہم نے جنوبی آئرلینڈ کے جنوب مشرق کے سارے گھروں میں مُنادی کی اور ہمیں زیادہ مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہم نے 20 ہزار سے زیادہ کتابیں تقسیم کیں اور اُن لوگوں کے نام برطانیہ کی برانچ کو بھیج دیے جنہوں نے ہمارے پیغام میں دلچسپی لی تھی۔ یہ ایک بڑی برکت ہے کہ اب آئرلینڈ کے اُس علاقے میں سینکڑوں یہوواہ کے گواہ ہیں۔
اِنگلینڈ واپسی اور پھر سکاٹلینڈ میں خدمت
چند سال بعد ہمیں جنوبی لندن بھیج دیا گیا۔ ہمیں وہاں گئے کچھ ہی ہفتے ہوئے تھے کہ برطانیہ کی برانچ کے بھائیوں نے آرتھر کو فون کِیا اور کہا کہ وہ کل سے حلقے کے نگہبان کے طور پر کام شروع کریں۔ ہمیں ایک ہفتے کے لیے تربیت دی گئی اور پھر سکاٹلینڈ بھیج دیا گیا۔ آرتھر کو اپنی تقریریں تیار کرنے کے لیے بھی بہت کم وقت ملا۔ لیکن اُن کی عادت تھی کہ وہ خدا کی خدمت کے حوالے سے ہر کام کو خوشی سے قبول کرتے پھر چاہے وہ کام کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہوتا۔ اُنہیں دیکھ کر میرا بھی بہت حوصلہ بڑھتا تھا۔ ہم دونوں کو کلیسیاؤں کا دورہ کرنے کے کام میں بہت مزہ آیا۔ پہلے ہم ایک ایسے علاقے میں خدمت کر رہے تھے جہاں بہت کم مبشر تھے جبکہ اب ہمیں ایک ایسے علاقے میں خدمت کرنے کا موقع ملا تھا جہاں بہت سے بہن بھائی تھے۔ یہ واقعی ایک بڑی برکت تھی!
سن 1962ء میں آرتھر کو گلئیڈ سکول کے لیے بلایا گیا۔ یہ سکول 10 مہینے کا تھا اور مجھے آرتھر کے ساتھ نہیں بلایا گیا تھا۔ لہٰذا ہمیں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آرتھر سکول کے لیے جائیں یا نہیں۔ لیکن ہم نے سوچا کہ آرتھر کو سکول کے لیے جانا چاہیے۔ چونکہ آرتھر کے جانے کے بعد میرے ساتھ خدمت کرنے کے لیے کوئی پہلکار نہیں تھا اِس لیے مجھے خصوصی پہلکار بنا کر میرے آبائی قصبے میں بھیج دیا گیا۔ ایک سال بعد جب آرتھر واپس آئے تو اُنہیں صوبائی نگہبان بنا دیا گیا۔ ہمارے حلقوں میں سکاٹلینڈ، شمالی اِنگلینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے علاقے شامل تھے۔
آئرلینڈ میں ایک نئی ذمےداری
سن 1964ء میں آرتھر کو جنوبی آئرلینڈ کی برانچ کی نگرانی پر مقرر کِیا گیا۔ شروع میں تو مَیں بیتایل جانے سے ہچکچا رہی تھی کیونکہ مجھے آرتھر کے ساتھ کلیسیاؤں کا دورہ کرنے کا کام بہت پسند تھا۔ لیکن اب جب مَیں اُس وقت کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے اِس بات سے بہت خوشی ہوتی ہے کہ مجھے بیتایل میں خدمت کرنے کا اعزاز ملا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ جب ہم اُس صورت میں بھی ایک ذمےداری کو قبول کرتے ہیں جب ہمارا دل نہیں چاہ رہا ہوتا تو یہوواہ ہمیں برکت ضرور دیتا ہے۔ بیتایل میں مَیں نے دفتر میں کام کِیا ہے، باورچیخانے میں کھانا بنایا ہے، مطبوعات کی پیکنگ کی ہے اور صفائی کے شعبے میں کام کِیا ہے۔ بیچ بیچ میں آرتھر کو صوبائی نگہبان کے طور پر کام کرنے کے لیے بھی کہا جاتا۔ یوں ہمیں پورے ملک کے بہن بھائیوں سے ملنے کا موقع ملتا اور ہم یہ بھی دیکھ پاتے کہ جن لوگوں کو ہم نے بائبل کورس کرایا تھا، وہ خدا کی خدمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ اِس طرح آئرلینڈ کے بہن بھائیوں کے ساتھ ہمارا بندھن مضبوط ہو گیا۔ یہ ایک شاندار برکت تھی!
آئرلینڈ میں ایک اہم اِجتماع
سن 1965ء میں آئرلینڈ کے شہر ڈبلن میں پہلا بینالاقوامی اِجتماع منعقد کیا گیا۔ حالانکہ یہوواہ کے گواہوں کو اِس اِجتماع کے حوالے سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن پھر بھی یہ بہت کامیاب رہا۔ اِس اِجتماع پر 3948 لوگ حاضر ہوئے اور 65 لوگوں نے بپتسمہ لیا۔ دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے 3500 بہن بھائی ڈبلن کے مقامی لوگوں کے گھروں میں ٹھہرے۔ اِن تمام لوگوں کو بعد میں خط بھیجے گئے جن میں اُن کا شکریہ ادا کِیا گیا۔ اور اُن لوگوں نے بھی بہن بھائیوں کے اچھے چالچلن کو بہت سراہا۔ اِس اِجتماع نے آئرلینڈ میں یہوواہ کے گواہوں کی تاریخ میں بہت اہم کردار ادا کِیا۔
سن 1966ء میں شمالی اور جنوبی آئرلینڈ میں ہونے والے کام کی نگرانی ڈبلن کی برانچ کے تحت آ گئی۔ آئرلینڈ میں ایک طرف تو لوگ سیاست اور مذہب کی بنیاد پر بٹے ہوئے تھے جبکہ دوسری طرف یہوواہ کے گواہ مل کر خدا کی خدمت کر رہے تھے۔ ہمیں یہ دیکھ کر بےحد خوشی ہو رہی تھی کہ بہت سے کیتھولک لوگ سچائی کو قبول کر رہے ہیں اور اُن گواہوں کے ساتھ مل کی خدا کی خدمت کر رہے ہیں جو پہلے پروٹسٹنٹ تھے۔
لندن بیتایل میں خدمت
سن 2011ء میں ہماری زندگی بالکل بدل گئی جب آئرلینڈ کی برانچ کو برطانیہ کی برانچ میں شامل کر دیا گیا اور ہمیں لندن بیتایل بھیج دیا گیا۔ اُس وقت آرتھر کی صحت بہت خراب رہنے لگی۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اُنہیں رعشے کی بیماری ہے۔ (یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں مریض کے ہاتھ اور ٹانگیں کانپتی رہتی ہیں۔) مَیں نے اور آرتھر نے زندگی کے 66 حسین سال ایک ساتھ گزارے۔ لیکن 20 مئی 2015ء کو وہ موت کی نیند سو گئے۔
پچھلے کچھ سالوں کے دوران مَیں نے شدید غم اور افسردگی کا سامنا کِیا ہے۔ پہلے تو آرتھر ہر مشکل میں میرے ساتھ ہوتے تھے۔ لیکن اب مجھے اُن کی بہت کمی محسوس ہوتی ہے۔ مَیں سمجھتی ہوں کہ جب ہم اِس طرح کی مشکل صورتحال سے گزرتے ہیں تو ہم یہوواہ کے اَور قریب ہو جاتے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ بہن بھائی آرتھر سے اِتنا پیار کرتے تھے۔ مجھے آئرلینڈ، برطانیہ، یہاں تک کہ امریکہ سے بھی بہن بھائیوں کی طرف سے خط ملے ہیں۔ مَیں نے نہ صرف اِن خطوں کے ذریعے حوصلہ پایا ہے بلکہ آرتھر کے بھائی ڈینس، اُن کی بیوی میوس اور میری بھتیجیوں رُوتھ اور جُوڈی نے بھی میری بہت ہمت بندھائی ہے۔
جس آیت سے میرا بہت حوصلہ بڑھا ہے، وہ یسعیاہ 30:18 ہے جس میں لکھا ہے: ”[یہوواہ] تُم پر مہربانی کرنے کے لئے اِنتظار کرے گا اور تُم پر رحم کرنے کے لئے بلند ہوگا کیونکہ [یہوواہ] عادل خدا ہے۔ مبارک ہیں وہ سب جو اُس کا اِنتظار کرتے ہیں۔“ اِس آیت سے مجھے یہ تسلی ملتی ہے کہ یہوواہ اُس وقت کا اِنتظار کر رہا ہے جب وہ ہمارے سارے مسئلوں کو حل کرے گا اور نئی دُنیا میں ہمیں دلچسپ کام دے گا۔
مَیں اکثر سوچتی ہوں کہ یہوواہ نے آئرلینڈ میں مُنادی کے کام پر کتنی برکت ڈالی ہے۔ مجھے اِس بات کی خوشی ہے کہ مَیں بھی اُن لوگوں میں شامل ہوں جنہوں نے اِس کام میں حصہ لیا ہے۔ یہ واقعی سچ ہے کہ یہوواہ جو بھی کام دیتا ہے، اُسے کرنے سے بڑی برکتیں ملتی ہیں۔