مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

بدلتے حالات کے باوجود اپنے اِطمینان کو برقرار رکھیں

بدلتے حالات کے باوجود اپنے اِطمینان کو برقرار رکھیں

‏”‏مَیں نے اپنے دل کو تسکین دے کر مطمئن کر دیا ہے۔‏“‏‏—‏زبور 131:‏2‏۔‏

گیت:‏ 24،‏  51

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ زندگی میں اچانک آنے والی تبدیلیاں ہمیں کیسے متاثر کر سکتی ہیں؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏ زبور 131 کے مطابق کیا چیز اِطمینان حاصل کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟‏

لائیڈ اور الیگزینڈرا نے 25 سال سے زیادہ عرصے تک بیت‌ایل میں خدمت کی لیکن پھر اُنہیں پہل‌کار بنا دیا گیا۔‏ شروع شروع میں تو وہ دونوں افسردہ تھے۔‏ لائیڈ کہتے ہیں:‏ ”‏مجھے لگتا تھا کہ بیت‌ایل اور وہاں پر میرا کام میری پہچان بن چُکا ہے۔‏ مَیں اِس تبدیلی کے پیچھے وجہ کو سمجھتا تھا لیکن اگلے کچھ ہفتوں اور مہینوں کے دوران مجھے اکثر ایسا لگا کہ مَیں کسی کام کا نہیں رہا۔‏“‏ لائیڈ ایک لمحے تو اِس تبدیلی کو مثبت انداز میں لیتے جبکہ اگلے ہی لمحے اُن پر مایوسی کے بادل چھا جاتے۔‏

2 کبھی کبھار ہماری زندگی میں ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جن کی ہمیں توقع بھی نہیں ہوتی۔‏ شاید اِن تبدیلیوں کی وجہ سے ہم پریشانی کا شکار ہو جائیں۔‏ (‏امثال 12:‏25‏)‏ جب ہمیں کسی تبدیلی کو قبول کرنا یا اِس کے مطابق ڈھلنا مشکل لگتا ہے تو ہم دلی سکون حاصل کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‏ ‏(‏زبور 131:‏1-‏3 کو پڑھیں۔‏)‏ آئیں،‏ ماضی اور حال سے یہوواہ کے کچھ بندوں کی مثالوں پر غور کریں اور دیکھیں کہ اُنہوں نے زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کے باوجود اپنے اِطمینان کو کیسے برقرار رکھا۔‏

خدا کی طرف سے ملنے والے اِطمینان کا فائدہ

3.‏ یوسف کی زندگی اچانک سے کیسے بدل گئی؟‏

3 ذرا یوسف کی مثال پر غور کریں۔‏ وہ اپنے ابو کے سب سے لاڈلے بیٹے تھے۔‏ اِس وجہ سے اُن کے بھائی اُن سے بہت جلتے تھے۔‏ جب وہ 17 سال کے تھے تو اُن کے بھائیوں نے اُنہیں غلام کے طور پر بیچ دیا۔‏ (‏پیدایش 37:‏2-‏4،‏ 23-‏28‏)‏ اُنہوں نے تقریباً 13 سال تک مصر میں مشکلات جھیلیں،‏ پہلے ایک غلام کے طور پر اور پھر ایک قیدی کے طور پر۔‏ یوسف اپنے ابو سے بہت دُور تھے جن سے اُنہیں بڑا پیار تھا۔‏ وہ اپنے حالات کی وجہ سے نااُمید ہو سکتے تھے اور اُن کے دل میں تلخی پیدا ہو سکتی تھی۔‏ لیکن ایسا نہیں ہوا۔‏ اِس حوالے سے کس چیز نے یوسف کی مدد کی؟‏

4.‏ ‏(‏الف)‏ جب یوسف قید میں تھے تو اُنہوں نے کس بات پر غور کِیا ہوگا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا نے یوسف کی دُعاؤں کا جواب کیسے دیا؟‏

4 جب یوسف قیدخانے میں تھے تو اُنہوں نے ضرور اِس بات پر غور کِیا ہوگا کہ یہوواہ کیسے اُن کی مدد کر رہا ہے۔‏ (‏پیدایش 39:‏21‏)‏ شاید اُنہوں نے اُن خوابوں کے بارے میں بھی سوچا ہو جو یہوواہ نے اُنہیں اُس وقت دِکھائے جب وہ نوجوان تھے۔‏ اِس طرح اُن کا یہ اِعتماد بڑھا ہوگا کہ یہوواہ اُن کے ساتھ ہے۔‏ (‏پیدایش 37:‏5-‏11‏)‏ یقیناً وہ دُعا میں اکثر یہوواہ خدا کو اپنے دل کا حال بھی بتاتے ہوں گے۔‏ (‏زبور 145:‏18‏)‏ اور اُن کی دُعاؤں کے جواب میں یہوواہ خدا نے اُنہیں یقین دِلایا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے،‏ وہ ”‏اُن کے ساتھ“‏ رہے گا۔‏—‏اعمال 7:‏9،‏ 10‏۔‏ *

5.‏ جب ہم پریشان ہوتے ہیں تو خدا کی طرف سے ملنے والے اِطمینان سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

5 چاہے آپ کے حالات کتنے ہی کٹھن کیوں نہ ہوں،‏ ”‏خدا آپ کو وہ اِطمینان“‏ دے سکتا ہے جو آپ کی ”‏سوچ کو محفوظ رکھے گا“‏ اور آپ کو راحت بخشے گا۔‏ ‏(‏فِلپّیوں 4:‏6،‏ 7 کو پڑھیں۔‏)‏ جب ہم بہت زیادہ پریشان ہوتے ہیں تو خدا کی طرف سے ملنے والا اِطمینان ہمیں اُس کی خدمت کو جاری رکھنے کی ہمت دے سکتا ہے۔‏ آئیں،‏ اِس سلسلے میں جدید زمانے کے کچھ بہن بھائیوں کی مثالوں پر غور کریں۔‏

اپنا اِطمینان بحال کرنے کے لیے یہوواہ سے دُعا کریں

6،‏ 7.‏ جب ہمارے حالات بدلتے ہیں تو دُعا کرنے کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏ مثال دیں۔‏

6 جب رائین اور جولیئٹ کو بتایا گیا کہ عارضی خصوصی پہل‌کار کے طور پر اُن کی خدمت ختم ہو گئی ہے تو وہ بےحوصلہ ہو گئے۔‏ رائین کہتے ہیں:‏ ”‏ہم نے فوراً اِس معاملے کے بارے میں یہوواہ سے دُعا کی۔‏ ہم جانتے تھے کہ ہمیں یہوواہ پر بھروسا ظاہر کرنے کا موقع ملا ہے۔‏ ہماری کلیسیا میں بہت سے ایسے بہن بھائی تھے جو حال ہی میں سچائی میں آئے تھے۔‏ لہٰذا ہم نے یہوواہ سے دُعا کی کہ وہ اُن کے لیے ایمان کی عمدہ مثال قائم کرنے میں ہماری مدد کرے۔‏“‏

7 یہوواہ نے اُن کی دُعاؤں کا جواب کیسے دیا؟‏ رائین کہتے ہیں:‏ ”‏دُعا کرنے کے بعد ہماری فکریں اور منفی احساسات فوراً ختم ہو گئے۔‏ خدا کی طرف سے ملنے والا اِطمینان ہمارے دلوں اور سوچ کی حفاظت کرنے لگا۔‏ ہم اِس بات کو سمجھ گئے کہ ہم ابھی بھی یہوواہ کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں بشرطیکہ ہم اپنی سوچ کو مثبت رکھیں۔‏“‏

8-‏10.‏ ‏(‏الف)‏ جب ہم پریشان ہوتے ہیں تو خدا کی پاک روح ہماری مدد کیسے کر سکتی ہے؟‏ (‏ب)‏ جب ہم اپنا پورا دھیان یہوواہ خدا کی خدمت پر لگائے رکھتے ہیں تو وہ ہمیں کیا برکت بخشتا ہے؟‏

8 ہمیں اِطمینان بخشنے کے علاوہ خدا کی پاک روح ہماری توجہ بائبل کی ایسی آیتوں پر دِلا سکتی ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ زندگی میں کون سی چیزیں زیادہ اہم ہیں۔‏ ‏(‏یوحنا 14:‏26،‏ 27 کو پڑھیں۔‏)‏ ذرا ایک شادی‌شُدہ جوڑے فلپ اور میری کی مثال پر غور کریں جنہوں نے تقریباً 25 سال تک بیت‌ایل میں خدمت کی تھی۔‏ چار مہینے کے اندر اندر اُن دونوں کی ماؤں اور ایک اَور عزیز کی وفات ہو گئی۔‏ اِس کے علاوہ اُن پر میری کے ابو کی دیکھ‌بھال کی ذمےداری آ گئی جنہیں بھولنے کی بیماری ہے۔‏

9 فلپ کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں کسی حد تک اپنی صورتحال سے نمٹ رہا تھا لیکن مجھے احساس تھا کہ کچھ ایسا ہے جو مَیں نہیں کر رہا۔‏ ایک دن مَیں نے ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ کے مطالعے کے ایک مضمون میں کُلسّیوں 1:‏11 کو پڑھا۔‏ مَیں ثابت‌قدمی سے کام تو لے رہا تھا مگر ”‏صبر اور خوشی سے“‏ نہیں۔‏ اِس آیت سے مَیں یہ بات سمجھ گیا کہ میری خوشی کا اِنحصار میرے حالات پر نہیں بلکہ اِس بات پر ہے کہ آیا پاک روح میری زندگی پر اثر کر رہی ہے۔‏“‏

10 فلپ اور میری نے اپنا پورا دھیان یہوواہ خدا کی خدمت پر رکھا۔‏ اِس لیے یہوواہ خدا نے بھی اُنہیں بہت سی برکتوں سے نوازا۔‏ بیت‌ایل سے جانے کے تھوڑے عرصے بعد وہ کچھ لوگوں کو بائبل کورس کرانے لگے جنہوں نے سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کِیا اور جو ہفتے میں ایک سے زیادہ مرتبہ بائبل کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔‏ میری کہتی ہیں:‏ ”‏اُن لوگوں کو بائبل کورس کرانے سے ہمیں بہت خوشی ملی۔‏ یہ ایک ایسی برکت تھی جس کے ذریعے یہوواہ ہمیں یقین دِلا رہا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‏“‏

جو آپ کر سکتے ہیں،‏ وہ کریں

جب ہمارے حالات اچانک سے بدل جاتے ہیں تو ہم یوسف کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏ (‏پیراگراف 11-‏13 کو دیکھیں۔‏)‏

11،‏ 12.‏ ‏(‏الف)‏ یوسف نے کٹھن حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے کی بجائے کیا کِیا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ نے یوسف کو کیا اجر دیا؟‏

11 جب زندگی میں اچانک سے کوئی تبدیلی آتی ہے تو شاید ہم اِس حد تک پریشان ہو جائیں کہ بس اپنے مسئلوں کے بارے میں سوچتے رہیں۔‏ یوسف کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا تھا۔‏ لیکن اُنہوں نے فیصلہ کِیا کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھیں گے بلکہ جو صحیح کام وہ کر سکتے ہیں،‏ اُسے ضرور کریں گے۔‏ لہٰذا جس طرح سے اُنہوں نے محنت سے فوطیفار کے لیے کام کِیا تھا اُسی طرح وہ محنت سے وہ سارے کام بھی کرتے رہے جو قیدخانے کے داروغہ نے اُنہیں سونپے تھے۔‏—‏پیدایش 39:‏21-‏23‏۔‏

12 ایک دن یوسف کو دو ایسے قیدیوں کی دیکھ‌بھال کی ذمےداری سونپی گئی جو فرعون کے دربار میں کام کرتے تھے۔‏ یوسف اُن کے ساتھ مہربانی سے پیش آئے۔‏ اِس وجہ سے اُن دونوں نے بِلاجھجک یوسف کو اُن خوابوں کے بارے میں بتایا جو اُنہوں نے پچھلی رات دیکھے تھے اور جن کی وجہ سے وہ اُلجھن کا شکار تھے۔‏ (‏پیدایش 40:‏5-‏8‏)‏ یوسف اُس وقت یہ نہیں جانتے تھے کہ اُن آدمیوں کے ساتھ کی گئی بات‌چیت آخرکار اُن کی رِہائی کا باعث بنے گی۔‏ دو سال بعد وہ قید سے آزاد ہو گئے اور فرعون نے اُنہیں اپنے بعد مصر کا سب سے بااِختیار شخص بنا دیا۔‏—‏پیدایش 41:‏1،‏ 14-‏16،‏ 39-‏41‏۔‏

13.‏ چاہے ہمارے حالات جیسے بھی ہوں،‏ ہمیں کیا کرنا چاہیے تاکہ یہوواہ ہمیں برکت دے؟‏

13 یوسف کی طرح ہمیں بھی ایسی صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے جس پر ہمارا کوئی اِختیار نہ ہو۔‏ لیکن اگر ہم صبر کرتے ہیں اور وہ کام کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں جو ہمارے بس میں ہیں تو یہوواہ ہمیں برکت دے گا۔‏ (‏زبور 37:‏5‏)‏ یہ سچ ہے کہ کبھی کبھار ہمارا ذہن پریشانیوں اور اُلجھنوں میں گِھر سکتا ہے لیکن ’‏ہم نااُمید نہیں ہوں گے۔‏‘‏ (‏2-‏کُرنتھیوں 4:‏8‏)‏ پولُس کی یہ بات خاص طور پر اُس صورت میں سچ ثابت ہوگی جب ہم اپنا پورا دھیان مُنادی کے کام پر رکھیں گے۔‏

اپنا پورا دھیان مُنادی کے کام پر رکھیں

14-‏16.‏ زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کے باوجود فِلپّس نے اپنا پورا دھیان مُنادی کے کام پر کیسے رکھا؟‏

14 مُنادی کے کام میں مگن رہنے کے سلسلے میں یسوع کے شاگرد فِلپّس نے ایک شان‌دار مثال قائم کی۔‏ حالات بدلنے کے باوجود اُنہوں نے اپنا دھیان مُنادی کے کام سے ہٹنے نہیں دیا۔‏ ایک وقت تھا جب وہ یروشلیم میں ایک نئی ذمےداری سرانجام دے رہے تھے۔‏ (‏اعمال 6:‏1-‏6‏)‏ لیکن پھر اچانک حالات بدل گئے۔‏ ستفنُس کو قتل کر دیا گیا اور اِس کے بعد مسیحیوں کو شدید اذیت کا نشانہ بنایا جانے لگا۔‏ اِس وجہ سے بہت سے مسیحی،‏ یروشلیم کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔‏ لیکن چونکہ فِلپّس،‏ یہوواہ کی خدمت میں مشغول رہنا چاہتے تھے اِس لیے وہ شہر سامریہ چلے گئے جہاں ابھی تک بہت کم لوگوں نے خوش‌خبری کا پیغام سنا تھا۔‏—‏متی 10:‏5؛‏ اعمال 8:‏1،‏ 5‏۔‏

15 فِلپّس ہر اُس جگہ جانے کو تیار تھے جہاں خدا کی پاک روح نے اُنہیں جانے کی ہدایت دی۔‏ لہٰذا یہوواہ خدا نے اُنہیں ایسی جگہوں پر خوش‌خبری کا پیغام سنانے کے لیے بھیجا جہاں لوگوں تک یہ پیغام نہیں پہنچا تھا۔‏ بہت سے یہودی،‏ سامریوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے اور اُن کے ساتھ بُرا سلوک کرتے تھے۔‏ لیکن فِلپّس نے بڑے شوق سے اُنہیں خوش‌خبری کا پیغام سنایا اور اُن کے ساتھ تعصب نہیں برتا۔‏ اِسی لیے بہت سے سامریوں نے ”‏اُن کی باتوں کو بڑے دھیان سے سنا۔‏“‏—‏اعمال 8:‏6-‏8‏۔‏

16 پھر خدا کی پاک روح نے فِلپّس کو ہدایت دی کہ وہ اشدود اور قیصریہ کے شہر میں مُنادی کرنے کے لیے جائیں جہاں بہت سے غیریہودی رہتے تھے۔‏ (‏اعمال 8:‏39،‏ 40‏)‏ اِس عرصے کے دوران فِلپّس کی زندگی میں ایک اَور تبدیلی آئی۔‏ اُن کی بیٹیاں پیدا ہوئیں اور وہ اُنہی علاقوں میں سے کسی ایک علاقے میں رہنے لگے جہاں وہ مُنادی کر رہے تھے۔‏ لیکن اِن ساری تبدیلیوں کے باوجود اُنہوں نے مُنادی کے کام سے اپنا دھیان ہٹنے نہیں دیا اور یہوواہ خدا نے بھی اُنہیں اور اُن کے گھرانے کو برکت دی۔‏—‏اعمال 21:‏8،‏ 9‏۔‏

17،‏ 18.‏ جب ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو مُنادی کے کام میں مگن رہنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

17 کُل‌وقتی خدمت کرنے والے بہت سے بہن بھائی کہتے ہیں کہ مُنادی کے کام پر پورا دھیان دینے کی وجہ سے وہ بدلتے حالات میں بھی اپنی خوشی اور مثبت سوچ کو برقرار رکھنے کے قابل ہوئے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے آسبان اور پولائٹ کی مثال پر غور کریں۔‏ جب اُنہیں بیت‌ایل سے بھیجا گیا تو اُنہوں نے سوچا کہ اُنہیں پارٹ ٹائم نوکری تلاش کرنے اور اپنی رہائش کا بندوبست کرنے میں زیادہ مسئلہ نہیں ہوگا۔‏ لیکن آسبان کہتے ہیں:‏ ”‏ہمیں توقع تھی کہ ہمیں جلدی نوکری مل جائے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔‏“‏ پولائٹ کہتی ہیں:‏ ”‏ہمیں تین مہینے تک نوکری نہیں ملی اور ہمارے پاس کوئی جمع‌پونجی بھی نہیں تھی۔‏ یہ ہمارے لیے بڑا مشکل وقت تھا۔‏“‏

18 آسبان اور پولائٹ اِن کٹھن حالات سے نمٹنے کے قابل کیسے ہوئے؟‏ آسبان کہتے ہیں:‏ ”‏کلیسیا کے ساتھ مل کر مُنادی کرنے کی وجہ سے ہمیں اپنی سوچ کو مثبت رکھنے میں بڑی مدد ملی ہے۔‏“‏ گھر میں بیٹھ کر پریشان ہونے کی بجائے اُنہوں نے فیصلہ کِیا کہ وہ مُنادی کے کام میں مگن رہیں گے جس سے اُنہیں بڑی خوشی ملی۔‏ آسبان نے مزید کہا:‏ ”‏ہم نے ہر جگہ نوکری تلاش کی اور آخرکار ہمیں نوکری مل ہی گئی۔‏“‏

یہوواہ پر مکمل بھروسا رکھیں

19-‏21.‏ ‏(‏الف)‏ کیا چیز مطمئن رہنے میں ہماری مدد کرے گی؟‏ (‏ب)‏ جب ہم خود کو زندگی میں اچانک آنے والی تبدیلیوں کے مطابق ڈھالتے ہیں تو ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

جب ہم زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کے باوجود خود کو یہوواہ کی مرضی کے مطابق ڈھالتے ہیں تو اُس کے ساتھ ہماری دوستی گہری ہو سکتی ہے۔‏

19 ہم نے دیکھا ہے کہ اگر ہم اپنے حالات کے مطابق جو کچھ کر سکتے ہیں،‏ وہ کرتے ہیں اور یہوواہ پر مکمل بھروسا رکھتے ہیں تو ہم اپنے اِطمینان کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔‏ ‏(‏میکاہ 7:‏7 کو پڑھیں۔‏)‏ شاید وقت کے ساتھ ساتھ ہم یہ سمجھ جائیں کہ کسی تبدیلی کے مطابق خود کو ڈھالنے سے یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی اَور گہری ہو گئی ہے۔‏ پولائٹ نے کہا:‏ ”‏بیت‌ایل سے جانے کے بعد ہمیں جن حالات کا سامنا ہوا،‏ اُن سے ہم نے یہ سیکھا کہ مشکلات میں بھی یہوواہ پر بھروسا کرنے کا دراصل کیا مطلب ہے۔‏ اب یہوواہ کے ساتھ میرا رشتہ اَور مضبوط ہو گیا ہے۔‏“‏

20 بہن میری جن کا پہلے ذکر کِیا گیا ہے،‏ ابھی بھی اپنے بوڑھے والد کی دیکھ‌بھال کر رہی ہیں اور ساتھ میں پہل‌کار کے طور پر خدمت بھی کر رہی ہیں۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏مَیں نے سیکھ لیا ہے کہ جب مَیں کسی وجہ سے پریشان ہوتی ہوں تو مجھے فوراً دُعا کرنی چاہیے اور پھر اِس کے بارے میں فکرمند نہیں رہنا چاہیے۔‏ شاید زندگی میں جو سب سے اہم سبق مَیں نے سیکھا ہے،‏ وہ یہ ہے کہ مجھے معاملات کو یہوواہ کے ہاتھ میں چھوڑ دینا چاہیے۔‏ یہ ایسا سبق ہے جو آئندہ بھی میرے کام آئے گا۔‏“‏

21 لائیڈ اور الیگزینڈرا نے اِس بات کو تسلیم کِیا کہ زندگی میں آنے والی تبدیلیوں نے ایسے طریقوں سے اُن کے ایمان کا اِمتحان لیا جن کی اُنہیں توقع بھی نہیں تھی۔‏ لیکن وہ کہتے ہیں:‏ ”‏جب ہمارے ایمان کے اِمتحان ہوتے ہیں تو تب پتہ چلتا ہے کہ کیا ہمارا ایمان واقعی حقیقی ہے اور کیا یہ اِتنا مضبوط ہے کہ ہم مشکلات میں بھی ہمت اور حوصلے سے کام لے سکیں۔‏ ایسے اِمتحانوں سے گزر کر ہم بہتر اِنسان بن جاتے ہیں۔‏“‏

غیرمتوقع تبدیلیاں غیرمتوقع برکات کا باعث بن سکتی ہیں۔‏ (‏پیراگراف 19-‏21 کو دیکھیں۔‏)‏

22.‏ اگر ہم اپنے حالات کے مطابق وہ کام کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں جو ہمارے بس میں ہیں تو ہم کس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں؟‏

22 ہم نے دیکھا ہے کہ اِس دُنیا میں ہماری زندگی میں اچانک سے تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔‏ شاید ہمیں یہوواہ کی خدمت میں کوئی فرق ذمےداری مل جائے،‏ ہماری صحت خراب ہو جائے یا ہم پر خاندان کے حوالے سے کوئی نئی ذمےداری آن پڑے۔‏ لیکن چاہے آپ کے حالات جیسے بھی ہو جائیں،‏ اِس بات پر بھروسا رکھیں کہ یہوواہ کو آپ کی فکر ہے اور وہ صحیح وقت پر آپ کی مدد کرے گا۔‏ (‏عبرانیوں 4:‏16؛‏ 1-‏پطرس 5:‏6،‏ 7‏)‏ اپنے موجودہ حالات کے مطابق وہ کام کرنے کی پوری کوشش کرتے رہیں جو آپ کر سکتے ہیں۔‏ اپنے آسمانی باپ یہوواہ سے دُعا کریں اور اُس پر مکمل بھروسا رکھنا سیکھیں۔‏ یوں آپ تبدیلیوں کے باوجود اپنے اِطمینان کو برقرار رکھ پائیں گے۔‏

^ پیراگراف 4 کئی سال بعد جب یوسف کا پہلوٹھا بیٹا پیدا ہوا تو اُنہوں نے یہ کہہ کر اُس کا نام منسّی رکھا کہ ”‏خدا نے میری .‏ .‏ .‏ سب مشقت مجھ سے بُھلا دی۔‏“‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اِس بات کو سمجھ گئے تھے کہ یہوواہ نے اُن کے ذہن سے ماضی کی تلخ یادوں کو مٹانے کے لیے اُنہیں بیٹے کی نعمت سے نوازا ہے۔‏—‏پیدایش 41:‏51‏۔‏