مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہمیشہ سچ بولیں

ہمیشہ سچ بولیں

‏”‏سب اپنے پڑوسیوں سے سچ بولو۔‏“‏‏—‏زکریاہ 8:‏16‏۔‏

گیت:‏ 4،‏  18

1،‏ 2.‏ شیطان کی کون سی ایجاد اِنسانوں کے لیے سب سے زیادہ تکلیف کا باعث رہی ہے؟‏

ٹیلیفون،‏ بجلی کے بلب،‏ گاڑی اور فریج جیسی ایجادات نے اِنسان کی روزمرہ زندگی میں سہولتیں پیدا کر دی ہیں۔‏ اِن کے برعکس کچھ ایجادات ایسی بھی ہیں جن کی وجہ سے اِنسان کی زندگی خطرے سے خالی نہیں ہے،‏ مثلاً بندوق،‏ بارودی سُرنگیں،‏ سگریٹ اور ایٹم بم وغیرہ۔‏ لیکن ایک ایسی چیز بھی ہے جو اِن سب چیزوں سے کئی صدیاں پہلے ایجاد ہوئی اور اِنسان کے لیے سب سے زیادہ تکلیف کا باعث بن چُکی ہے۔‏ وہ چیز جھوٹ ہے۔‏ جب کوئی شخص کسی سے جھوٹ بولتا ہے تو وہ اُسے دھوکا دینے کے لیے جان بُوجھ کر ایسی بات کہتا ہے جو سچ نہیں ہوتی۔‏ سب سے پہلا جھوٹ کس نے بولا؟‏ اِبلیس نے۔‏ اِسی لیے یسوع مسیح نے اُسے ”‏جھوٹ کا باپ“‏ کہا۔‏ ‏(‏یوحنا 8:‏44 کو پڑھیں۔‏)‏ مگر شیطان نے پہلا جھوٹ کب بولا؟‏

2 اُس نے ایسا آج سے ہزاروں سال پہلے باغِ‌عدن میں کِیا۔‏ آدم اور حوا اُس شان‌دار زندگی کا مزہ لے رہے تھے جو یہوواہ خدا نے فردوس میں اُنہیں دی تھی۔‏ لیکن پھر اِبلیس نے بیچ میں ٹانگ اَڑا دی۔‏ وہ جانتا تھا کہ خدا نے آدم اور حوا کو ”‏نیک‌وبد کی پہچان کے درخت“‏ کا پھل کھانے سے منع کِیا ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ اِس حکم کی خلاف‌ورزی کریں گے تو وہ مارے جائیں گے۔‏ پھر بھی اُس نے حوا سے کہا:‏ ”‏تُم ہرگز نہ مرو گے۔‏“‏ یہ سب سے پہلا جھوٹ تھا۔‏ شیطان نے حوا سے مزید کہا:‏ ”‏خدا جانتا ہے کہ جس دن تُم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کُھل جائیں گی اور تُم خدا کی مانند نیک‌وبد کے جاننے والے بن جاؤ گے۔‏“‏—‏پیدایش 2:‏15-‏17؛‏ 3:‏1-‏5‏۔‏

3.‏ ‏(‏الف)‏ شیطان اپنے جھوٹ کے بارے میں پہلے سے کیا جانتا تھا؟‏ (‏ب)‏ شیطان کے جھوٹ کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟‏

3 شیطان کو پتہ تھا کہ اُس کے جھوٹ کے ہول‌ناک نتائج نکلیں گے۔‏ وہ جانتا تھا کہ اِس جھوٹ پر یقین کرنے اور پھل کھانے کے نتیجے میں حوا کو جان سے جانا پڑے گا۔‏ اور ایسا ہی ہوا۔‏ آدم اور حوا نے خدا کی نافرمانی کی اور آخرکار موت کا مزہ چکھا۔‏ (‏پیدایش 3:‏6؛‏ 5:‏5‏)‏ نہ صرف یہ بلکہ آدم کے گُناہ کی وجہ سے ”‏موت سب لوگوں میں پھیل گئی۔‏“‏ دراصل ”‏موت نے .‏ .‏ .‏ اِنسانوں پر حکمرانی کی،‏ اُن پر بھی جنہوں نے ویسا گُناہ نہیں کِیا جیسا آدم نے کِیا تھا۔‏“‏ (‏رومیوں 5:‏12،‏ 14‏)‏ اِسی وجہ سے آج ہم بےعیب نہیں ہیں اور ہمیشہ زندہ نہیں رہتے حالانکہ خدا ایسا نہیں چاہتا تھا۔‏ ”‏ہماری عمر کی میعاد ستر برس ہے۔‏ یا قوت ہو تو اَسی برس“‏ اور ہماری زندگی ”‏مشقت اور غم“‏ سے بھری ہے۔‏ (‏زبور 90:‏10‏)‏ شیطان کے جھوٹ کا کتنا بھیانک نتیجہ نکلا ہے!‏

4.‏ ‏(‏الف)‏ ہمیں کن سوالوں کے جواب حاصل کرنے کی ضرورت ہے؟‏ (‏ب)‏ زبور 15:‏1،‏ 2 کے مطابق کون خدا کے دوست بن سکتے ہیں؟‏

4 یسوع مسیح نے شیطان کے بارے میں کہا:‏ ”‏وہ .‏ .‏ .‏ سچائی پر قائم نہیں رہا کیونکہ اُس میں سچائی ہے ہی نہیں۔‏“‏ شیطان کی فطرت بدلی نہیں ہے۔‏ وہ آج بھی طرح طرح کے جھوٹ پھیلا کر ”‏ساری دُنیا کو گمراہ کر رہا ہے۔‏“‏ (‏مکاشفہ 12:‏9‏)‏ ہم ہرگز نہیں چاہتے کہ ہم شیطان کے دھوکے میں آ جائیں۔‏ اِس لیے ضروری ہے کہ ہم اِن سوالوں کے جواب حاصل کریں:‏ شیطان آج لوگوں کو دھوکے کا شکار کیسے بنا رہا ہے؟‏ لوگ جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟‏ اور ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم ہمیشہ سچ بولیں اور آدم اور حوا کی طرح یہوواہ خدا کی دوستی سے محروم نہ ہو جائیں؟‏‏—‏زبور 15:‏1،‏ 2 کو پڑھیں۔‏

شیطان لوگوں کو کیسے دھوکا دیتا ہے؟‏

5.‏ شیطان آج لوگوں کو دھوکے کا شکار کیسے بنا رہا ہے؟‏

5 ہم شیطان کے دھوکے میں آنے سے بچ سکتے ہیں۔‏ پولُس رسول نے کہا:‏ ”‏ہم اُس [‏کے]‏ منصوبوں سے بےخبر نہیں ہیں۔‏“‏ (‏2-‏کُرنتھیوں 2:‏11‏،‏ فٹ‌نوٹ)‏ ہم جانتے ہیں کہ یہ ساری دُنیا شیطان کے قبضے میں ہے جس میں جھوٹے مذاہب،‏ بددیانت حکومتیں اور لالچی معاشی نظام شامل ہے۔‏ (‏1-‏یوحنا 5:‏19‏)‏ اِس لیے ہم اُس وقت حیران نہیں ہوتے جب بااِختیار لوگ شیطان اور بُرے فرشتوں کے اثر میں آ کر ”‏جھوٹ بولتے ہیں۔‏“‏ (‏1-‏تیمُتھیُس 4:‏1،‏ 2‏)‏ مثال کے طور پر کچھ کاروباری لوگ اپنے اِشتہاروں میں جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں تاکہ لوگوں کو دھوکا دے کر اُن کے پیسے ہڑپ کر سکیں یا ایسی چیزیں بیچ سکیں جو لوگوں کے لیے نقصان‌دہ ہوتی ہیں۔‏

6،‏ 7.‏ ‏(‏الف)‏ مذہبی رہنماؤں کا جھوٹ بولنا لوگوں کے لیے خاص طور پر نقصان‌دہ کیوں ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ نے مذہبی رہنماؤں کو کون سے جھوٹ بولتے سنا ہے؟‏

6 جب مذہبی رہنما جھوٹ بولتے ہیں تو یہ لوگوں کے لیے خاص طور پر نقصان‌دہ ثابت ہو سکتا ہے۔‏ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اگر لوگ اُن کی جھوٹی تعلیمات پر یقین کر لیتے ہیں اور ایسے کام کرتے ہیں جن سے خدا کو نفرت ہے تو وہ ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع کھو سکتے ہیں۔‏ (‏ہوسیع 4:‏9‏)‏ یسوع مسیح جانتے تھے کہ اُن کے زمانے کے مذہبی رہنما لوگوں کو فریب دے رہے ہیں۔‏ اِس لیے یسوع نے اُن کے مُنہ پر اُن سے کہا:‏ ”‏شریعت کے عالمو اور فریسیو!‏ ریاکارو!‏ تُم پر افسوس کیونکہ تُم ایک شخص کو اپنا مُرید بنانے کے لیے خشکی اور تری کا سفر کرتے ہو اور جب وہ تمہارا مُرید بن جاتا ہے تو تُم اُسے اپنے سے دو گُنا زیادہ ہنوم کی وادی [‏یعنی ابدی ہلاکت]‏ کا سزاوار بناتے ہو۔‏“‏ (‏متی 23:‏15‏)‏ یسوع مسیح نے تو یہاں تک کہا کہ وہ جھوٹے مذہبی رہنما اپنے باپ اِبلیس جیسے ہیں جو ایک ”‏قاتل“‏ ہے۔‏—‏یوحنا 8:‏44‏۔‏

7 ہمارے زمانے میں بھی مذہبی رہنماؤں کی کمی نہیں ہے۔‏ اِن میں سے کچھ کو پادری کہا جاتا ہے تو کچھ کو فادر،‏ کچھ ربّی کہلاتے ہیں تو کچھ سوامی وغیرہ۔‏ یہ لوگ بھی فریسیوں کی طرح خدا کے کلام کی ”‏سچائی کو دباتے ہیں“‏ اور ”‏خدا کی سچائی کی بجائے جھوٹ پر یقین کرنے کو ترجیح“‏ دیتے ہیں۔‏ (‏رومیوں 1:‏18،‏ 25‏)‏ یہ مذہبی رہنما لوگوں سے ایسے جھوٹ بولتے ہیں:‏ بُرے لوگوں کو دوزخ کی آگ میں تڑپایا جاتا ہے،‏ اِنسان میں غیرفانی روح پائی جاتی ہے،‏ مرنے کے بعد اِنسان کسی دوسرے رُوپ میں جنم لیتا ہے اور خدا ہم‌جنس‌پرستی اور ایک ہی جنس کے لوگوں کی آپس میں شادی کو غلط خیال نہیں کرتا۔‏

8.‏ سیاسی رہنما جلد کون سا جھوٹ بولیں گے اور اُس وقت ہمارا ردِعمل کیا ہونا چاہیے؟‏

8 سیاست‌دان بھی لوگوں سے جھوٹ بول کر اُنہیں فریب دیتے ہیں۔‏ ایک بڑا جھوٹ جو سیاسی رہنما جلد ہی بولیں گے،‏ وہ یہ ہوگا کہ اُنہوں نے دُنیا میں ”‏امن اور سلامتی“‏ قائم کر لی ہے۔‏ لیکن پھر ”‏اُن پر اچانک تباہی آ جائے گی۔‏“‏ لہٰذا ہمیں خبردار رہنا ہوگا تاکہ ہم اُن کی جھوٹی باتوں کے دھوکے میں آ کر یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ اب حالات بہتر ہو رہے ہیں۔‏ دراصل ہم ”‏جانتے .‏ .‏ .‏ ہیں کہ یہوواہ کا دن بالکل ویسے ہی آنے والا ہے جیسے رات کو چور آتا ہے۔‏“‏—‏1-‏تھسلُنیکیوں 5:‏1-‏4‏۔‏

لوگ جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟‏

9،‏ 10.‏ ‏(‏الف)‏ لوگ جھوٹ کیوں بولتے ہیں اور اِس کے کیا نتائج نکلتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہمیں یہوواہ کے بارے میں کیا بات یاد رکھنی چاہیے؟‏

9 صرف بااِختیار لوگ ہی جھوٹ نہیں بولتے۔‏ جھوٹ کی وبا نے پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔‏ ایک مصنف نے اپنے مضمون ”‏ہم جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟‏“‏ میں کہا کہ ”‏آج‌کل بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جھوٹ بولنا اِنسان کی فطرت کا حصہ بن چُکا ہے۔‏“‏ لوگ اکثر مختلف وجوہات کی بِنا پر جھوٹ بولتے ہیں:‏ کچھ لوگ کسی غلطی یا جُرم کو چھپانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں جبکہ بعض لوگ دوسروں سے پیسہ بٹورنے یا کوئی اَور فائدہ حاصل کرنے کے لیے جھوٹ کا نقاب اوڑھتے ہیں۔‏ اُس مصنف نے اپنے مضمون میں یہ بھی بتایا کہ کچھ لوگ ”‏اجنبیوں،‏ اپنے ساتھ کام کرنے والوں،‏ اپنے دوستوں اور عزیزوں سے بِلاجھجک چھوٹے بڑے جھوٹ بول دیتے ہیں۔‏“‏

جھوٹ بولنے سے لوگ اِنسانوں کو تو دھوکا دے سکتے ہیں لیکن یہوواہ کو نہیں۔‏

10 جھوٹ بولنے کے کیا نتائج نکلتے ہیں؟‏ لوگوں کا ایک دوسرے پر سے اِعتماد اُٹھ جاتا ہے اور رشتوں میں دراڑ آ جاتی ہے۔‏ مثال کے طور پر ذرا سوچیں کہ اگر ایک شوہر کو پتہ چلتا ہے کہ اُس کی بیوی نے اُس سے بےوفائی کی ہے اور اپنے غلط کام کو چھپانے کے لیے اُس سے جھوٹ بولا ہے تو اُسے کتنی تکلیف ہوگی۔‏ یا ذرا تصور کریں کہ ایک ایسے آدمی کے بیوی بچوں کو کس کرب سے گزرنا پڑتا ہے جو گھر میں تو اُن کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے لیکن دوسروں کے سامنے یہ ظاہر کرتا ہے کہ اُسے اُن سے بڑا پیار ہے۔‏ ایسے لوگ اِنسانوں کو تو دھوکا دے سکتے ہیں لیکن یہوواہ کو نہیں۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏اُس کی نظر میں ساری چیزیں واضح اور بےپردہ ہیں۔‏“‏—‏عبرانیوں 4:‏13‏۔‏

11.‏ حننیاہ اور سفیرہ کی مثال میں ہمارے لیے کیا عبرت پائی جاتی ہے؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

11 بائبل میں ایک میاں بیوی کی مثال بیان کی گئی ہے جنہوں نے شیطان کے اثر میں آ کر خدا سے جھوٹ بولا۔‏ یہ میاں بیوی حننیاہ اور سفیرہ تھے۔‏ اُنہوں نے رسولوں کو دھوکا دینے کی کوشش کی۔‏ اُس جوڑے نے اپنی زمین کا ایک حصہ بیچا اور اِس سے ملنے والی رقم میں سے کچھ لا کر رسولوں کو دے دی۔‏ چونکہ وہ کلیسیا کے سامنے خود کو بڑے نیک ظاہر کرنا چاہتے تھے اِس لیے اُنہوں نے رسولوں سے کہا کہ وہ ساری رقم اُن کے پاس لائے ہیں۔‏ لیکن یہوواہ جانتا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں اور اُس نے اُنہیں اِس کی سزا دی۔‏—‏اعمال 5:‏1-‏10‏۔‏

12.‏ جو لوگ دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں اور توبہ نہیں کرتے،‏ اُن کا کیا انجام ہوگا اور کیوں؟‏

12 یہوواہ جھوٹ بولنے والوں کو کیسا خیال کرتا ہے؟‏ جو لوگ دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں اور توبہ نہیں کرتے،‏ شیطان کی طرح اُن کا انجام بھی ”‏وہ جھیل ہوگی جو آگ .‏ .‏ .‏ سے جلتی ہے۔‏“‏ اِس کا مطلب ہے کہ اُن لوگوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہلاک کر دیا جائے گا۔‏ (‏مکاشفہ 20:‏10؛‏ 21:‏8؛‏ زبور 5:‏6‏)‏ لیکن اُنہیں ایسی سزا کیوں دی جائے گی؟‏ دراصل جھوٹی باتیں گھڑنے والے اُن لوگوں میں شامل ہیں ”‏جن کے کام خدا کی نظر میں گھناؤنے ہیں۔‏“‏—‏مکاشفہ 22:‏15‏،‏ فٹ‌نوٹ۔‏

13.‏ ہم یہوواہ کے بارے میں کیا جانتے ہیں اور اِس بات سے ہمیں کیا ترغیب ملتی ہے؟‏

13 ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ ”‏اِنسان نہیں کہ جھوٹ بولے“‏ اور ”‏خدا جھوٹ نہیں بول سکتا۔‏“‏ (‏گنتی 23:‏19؛‏ عبرانیوں 6:‏18‏)‏ یہوواہ خدا کو ”‏جھوٹی زبان“‏ سے نفرت ہے۔‏ (‏امثال 6:‏16،‏ 17‏)‏ اگر ہم اُسے خوش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سچ کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔‏ اِسی لیے ہم ’‏ایک دوسرے سے جھوٹ نہیں بولتے۔‏‘‏—‏کُلسّیوں 3:‏9‏۔‏

ہم ’‏سچ بولتے‘‏ ہیں

14.‏ ‏(‏الف)‏ کون سی چیز سچے مسیحیوں کو جھوٹے مذاہب کے پیروکاروں سے فرق بناتی ہے؟‏ (‏ب)‏ لُوقا 6:‏45 میں درج اصول کی وضاحت کریں۔‏

14 سچے مسیحیوں کے طور پر ہم ایک خاص وجہ سے جھوٹے مذاہب کے پیروکاروں سے فرق ہیں۔‏ اور وہ وجہ یہ ہے کہ ہم ’‏سچ بولتے‘‏ ہیں۔‏ ‏(‏زکریاہ 8:‏16،‏ 17 کو پڑھیں۔‏)‏ پولُس رسول نے کہا کہ ہم ”‏سچ بولنے سے“‏ یہ ”‏ثابت کرتے ہیں کہ ہم خدا کی خدمت کرنے کے لائق ہیں۔‏“‏ (‏2-‏کُرنتھیوں 6:‏4،‏ 7‏)‏ اِس کے علاوہ یسوع مسیح نے فرمایا:‏ ”‏جو دل میں بھرا ہوتا ہے،‏ وہی زبان پر آتا ہے۔‏“‏ (‏لُوقا 6:‏45‏)‏ اگر ایک آدمی کا دل جھوٹ سے پاک ہے تو اُس کی زبان سے بھی سچ ہی نکلے گا۔‏ وہ کبھی بھی اجنبیوں،‏ اپنے ساتھ کام کرنے والوں،‏ اپنے دوستوں اور عزیزوں سے جھوٹ نہیں بولے گا پھر چاہے وہ جھوٹ چھوٹا ہو یا بڑا۔‏ اب آئیں،‏ کچھ ایسی صورتحال پر غور کریں جن میں ہم یہ ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم ہر بات میں ایمان‌داری سے کام لینے کی کوشش کرتے ہیں۔‏

اِس بہن کے طرزِزندگی میں کیا خرابی ہے؟‏ (‏پیراگراف 15،‏ 16 کو دیکھیں۔‏)‏

15.‏ ‏(‏الف)‏ دوہری زندگی گزارنا غلط کیوں ہے؟‏ (‏ب)‏ نوجوان اپنے ہم‌عمروں کے دباؤ کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏ (‏فٹ‌نوٹ کو دیکھیں۔‏)‏

15 اگر آپ ایک نوجوان ہیں تو شاید آپ چاہتے ہوں کہ آپ کے ہم‌عمر آپ کو پسند کریں۔‏ البتہ یاد رکھیں کہ اِس چکر میں کچھ نوجوان دوہری زندگی گزارنے لگے ہیں۔‏ اپنے گھر والوں یا کلیسیا کے بہن بھائیوں کے ساتھ ہوتے وقت وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اُن کا چال‌چلن بڑا پاک صاف ہے۔‏ لیکن جب وہ سوشل میڈیا کا اِستعمال کرتے ہیں یا ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں جو یہوواہ کی عبادت نہیں کرتے تو اُن کا ایک فرق چہرہ سامنے آتا ہے۔‏ وہ گندی زبان اِستعمال کرتے ہیں،‏ نامناسب لباس پہنتے ہیں،‏ بےحیا بول والے گانے سنتے ہیں،‏ بےتحاشا شراب پیتے ہیں،‏ منشیات لیتے ہیں،‏ چوری چھپے ڈیٹنگ کرتے ہیں یا دیگر بُرے کام کرتے ہیں۔‏ ایسے نوجوان اپنے ماں باپ،‏ ہم‌ایمانوں اور یہوواہ سے اپنی اصلیت چھپانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔‏ (‏زبور 26:‏4،‏ 5‏)‏ لیکن یہوواہ ایسے لوگوں سے خوب واقف ہے جو ’‏مُنہ سے تو اُس کی عزت کرتے ہیں لیکن جن کے دل اُس سے بہت دُور ہیں۔‏‘‏ (‏مرقس 7:‏6‏)‏ لہٰذا یہ سمجھ‌داری کی بات ہوگی کہ ہم امثال 23:‏17 میں درج اِس ہدایت پر عمل کریں:‏ ”‏تیرا دل گنہگاروں پر رشک نہ کرے بلکہ تُو دن بھر [‏یہوواہ]‏ سے ڈرتا رہ۔‏“‏ *

16.‏ جب ہم کُل‌وقتی خدمت کے لیے فارم پُر کرتے ہیں تو ہمیں کس بات کو ذہن میں رکھ کر سوالوں کے جواب دینے چاہئیں؟‏

16 اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ پہل‌کار بنیں یا خصوصی کُل‌وقتی خدمت،‏ مثلاً بیت‌ایل میں خدمت کریں تو آپ کو اِس کے لیے ایک فارم پُر کرنا پڑے گا۔‏ اِس فارم میں آپ کی صحت،‏ تفریح کے اِنتخاب اور چال‌چلن کے حوالے سے مختلف سوال پوچھے جائیں گے۔‏ یہ بہت ضروری ہے کہ آپ پوری ایمان‌داری سے اِن سوالوں کے جواب دیں۔‏ (‏عبرانیوں 13:‏18‏)‏ لیکن اگر آپ نے کوئی ایسا کام کِیا ہے جس سے یہوواہ نفرت کرتا ہے یا جس کی وجہ سے آپ کا ضمیر آپ کو ملامت کر رہا ہے اور اِس بارے میں آپ نے بزرگوں کو نہیں بتایا تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟‏ بزرگوں کے پاس جائیں اور اُن سے مدد لیں تاکہ آپ صاف ضمیر سے یہوواہ کی خدمت کر سکیں۔‏—‏رومیوں 9:‏1؛‏ گلتیوں 6:‏1‏۔‏

17.‏ اگر ہمیں اذیت دینے والے ہم سے بہن بھائیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

17 اگر آپ کے ملک میں ہمارے مُنادی کے کام پر پابندی ہے اور آپ کو گِرفتار کر کے بہن بھائیوں کے بارے میں پوچھ‌گچھ کی جاتی ہے تو آپ کیا کریں گے؟‏ کیا آپ کو پوچھ‌گچھ کرنے والوں کو ساری معلومات دے دینی چاہیے؟‏ ذرا یاد کریں کہ جب رومی حاکم نے یسوع مسیح سے سوال پوچھے تو اُنہوں نے کیا کِیا۔‏ یسوع مسیح نے پیلاطُس کے ہر سوال کا جواب دینے کی بجائے بائبل کے اِس اصول پر عمل کِیا کہ ”‏چپ رہنے کا ایک وقت ہے اور بولنے کا ایک وقت ہے۔‏“‏ (‏واعظ 3:‏1،‏ 7؛‏ متی 27:‏11-‏14‏)‏ اگر ہم کبھی ایسی صورتحال میں پڑ جاتے ہیں تو ہمیں احتیاط اور سمجھ‌داری سے کام لینا ہوگا تاکہ ہماری وجہ سے بہن بھائی خطرے میں نہ پڑ جائیں۔‏—‏امثال 10:‏19؛‏ 11:‏12‏۔‏

آپ یہ کیسے طے کریں گے کہ آپ کو کب چپ رہنا ہے اور کب پورا سچ بتانا ہے؟‏ (‏پیراگراف 17،‏ 18 کو دیکھیں۔‏)‏

18.‏ اگر بزرگ ہم سے بہن بھائیوں کے بارے میں سوال پوچھتے ہیں تو ہمارا کیا فرض بنتا ہے؟‏

18 فرض کریں کہ کلیسیا میں کسی نے کوئی سنگین گُناہ کِیا ہے اور آپ کو اِس بارے میں پتہ ہے۔‏ چونکہ بزرگوں کی ذمےداری ہے کہ وہ کلیسیا کو پاک صاف رکھیں اِس لیے شاید وہ اِس سلسلے میں آپ سے معلومات لیں۔‏ ایسی صورت میں آپ کیا کریں گے،‏ خاص طور پر تب اگر وہ شخص آپ کا قریبی دوست یا رشتےدار ہو؟‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏راست‌گو صداقت ظاہر کرتا ہے۔‏“‏ (‏امثال 12:‏17؛‏ 21:‏28‏)‏ لہٰذا آپ کا فرض بنتا ہے کہ آپ بزرگوں کے سامنے سارا معاملہ سچ سچ بیان کریں۔‏ آپ کو نہ تو اُن سے کچھ چھپانا چاہیے اور نہ ہی معلومات کو توڑمروڑ کر پیش کرنا چاہیے۔‏ بزرگوں کا حق ہے کہ وہ تمام حقائق سے واقف ہوں کیونکہ تبھی وہ گُناہ کرنے والے شخص کی بہتر طور پر مدد کر پائیں گے تاکہ یہوواہ کے ساتھ اُس کی دوستی بحال ہو سکے۔‏—‏یعقوب 5:‏14،‏ 15‏۔‏

19.‏ اگلے مضمون میں کس بارے میں بات کی جائے گی؟‏

19 داؤد نے یہوواہ سے دُعا کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏تُو باطن کی سچائی پسند کرتا ہے۔‏“‏ (‏زبور 51:‏6‏)‏ داؤد جانتے تھے کہ ہمارے سچ بولنے کا تعلق ہمارے باطن یعنی اندر کے اِنسان سے ہے۔‏ سچے مسیحی ایک دوسرے سے ہمیشہ ’‏سچ بولتے‘‏ ہیں۔‏ جھوٹے مذاہب کے لوگوں سے فرق نظر آنے کا ایک اَور طریقہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کو پاک کلام سے سچائی سکھائیں۔‏ اگلے مضمون میں اِسی موضوع پر بات کی جائے گی۔‏

^ پیراگراف 15 کتاب ‏”‏نوجوانوں کے 10 سوال اور اُن کے جواب“‏ میں سوال 6 ”‏مَیں اپنے ساتھیوں کے دباؤ کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہوں؟‏‏“‏ کو دیکھیں۔‏