مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ‌بیتی

یہوواہ نے میرے فیصلے میں بڑی برکت بخشی

یہوواہ نے میرے فیصلے میں بڑی برکت بخشی

یہ 1939ء کی بات ہے۔‏ آدھی رات کا وقت تھا کہ ہم اُٹھے اور ایک گھنٹہ کار میں سفر کرنے کے بعد امریکہ کی ریاست مسوری کے چھوٹے سے شہر جوپلن پہنچے۔‏ وہاں ہم نے خاموشی سے ہر گھر کے دروازے کے نیچے سے پرچے اندر کھسکانا شروع کر دیے۔‏ ہمارے علاوہ کچھ اَور بہن بھائی بھی یہ کام کرنے کے لیے اپنی کاروں میں آئے تھے۔‏ جیسے ہی ہمارا کام ختم ہوا،‏ ہم فوراً کار میں بیٹھے اور طےشُدہ جگہ پر اُن بہن بھائیوں سے ملنے چل پڑے۔‏ اب تک صبح ہو چُکی تھی۔‏ شاید آپ سوچیں کہ ہم رات کے اندھیرے میں یہ کام کرنے کیوں گئے اور اِتنی جلدی علاقے سے کیوں نکل آئے۔‏ اِس کی وجہ مَیں آپ کو بعد میں بتاؤں گا۔‏

مَیں 1934ء میں پیدا ہوا۔‏ میرے ابو کا نام فریڈ مولوہان اور امی کا نام ایڈنا تھا۔‏ میری پیدائش تک اُنہیں بائبل سٹوڈنٹس (‏یہوواہ کے گواہ)‏ بنے ہوئے 20 سال ہو چُکے تھے۔‏ مَیں اُن کا بڑا شکرگزار ہوں کہ اُنہوں نے میرے دل میں یہوواہ کے لیے محبت پیدا کی۔‏ ہم امریکہ کی ریاست کنساس کے ایک چھوٹے سے شہر پارسنس میں رہتے تھے۔‏ ہماری کلیسیا میں تقریباً سبھی بہن بھائی مسح‌شُدہ تھے۔‏ ہمارا خاندان باقاعدگی سے اِجلاسوں اور مُنادی کے کام میں حصہ لیتا تھا۔‏ ہفتے والے دن دوپہر کے وقت ہم عوامی جگہوں پر مُنادی کرتے تھے۔‏ کبھی کبھار ہم بہت تھک جاتے تھے لیکن ابو مُنادی ختم ہونے کے بعد ہمیشہ ہمیں آئس‌کریم لے کر دیتے تھے۔‏

ہماری چھوٹی سی کلیسیا کے حصے میں بہت سے علاقے آتے تھے جن میں کئی چھوٹے شہر اور بہت سے فارم تھے۔‏ ہماری مطبوعات کے بدلے میں ہمیں پیسے دینے کی بجائے کچھ کسان ہمیں اپنے کھیتوں کی اُگائی گئی سبزیاں،‏ تازہ انڈے اور کبھی کبھار تو زندہ مُرغیاں بھی دے دیتے تھے۔‏ چونکہ ابو نے پہلے ہی مطبوعات کے لیے پیسے ڈال دیے ہوتے تھے اِس لیے کھانے پینے کی یہ چیزیں ہمارے پیٹ بھرنے کے کام آتی تھیں۔‏

گواہی دینے کے مختلف طریقے

میرے امی ابو کو مُنادی کے کام کے لیے ایک فونوگراف ملا۔‏ تب مَیں بہت چھوٹا تھا اِس لیے مَیں اِسے چلا نہیں سکتا تھا۔‏ لیکن مجھے اُس وقت بڑا مزہ آتا جب مَیں امی ابو کے ساتھ جاتا اور وہ اپنی واپسی ملاقاتوں اور بائبل کورسوں پر اِس فونوگراف سے بھائی رتھرفورڈ کی تقریریں چلاتے۔‏

اپنے امی ابو کے ساتھ،‏ پیچھے ہماری کار کھڑی ہے جس پر ایک لاؤڈسپیکر لگا ہے۔‏

ابو نے ہماری کار کی چھت پر ایک لاؤڈسپیکر لگا دیا۔‏ اِس طرح ہم اِس کار کے ذریعے بڑے مؤثر طریقے سے بادشاہت کے پیغام کو پھیلا سکتے تھے۔‏ عام طور پر ہم لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے شروع میں موسیقی چلاتے اور پھر بائبل پر مبنی تقریر کی ریکارڈنگ لگاتے۔‏ اِس کے بعد ہم دلچسپی رکھنے والے لوگوں کو مطبوعات پیش کرتے۔‏

ایک اِتوار کو ابو ہماری کار کو کنساس کے چھوٹے سے شہر چیری‌ویل کے ایک پارک کے اندر لے گئے۔‏ پارک میں بہت سے لوگ سستانے کے لیے آئے ہوئے تھے۔‏ پھر پولیس آئی اور ابو سے کہنے لگی کہ وہ پارک کے اندر اپنی گاڑی پر سپیکر نہیں چلا سکتے۔‏ اِس لیے ابو گاڑی کو ساتھ والی گلی میں لے گئے جہاں سے پارک میں موجود لوگ آسانی سے تقریر سُن سکتے تھے۔‏ مَیں اکثر ایسے موقعوں پر ابو اور اپنے بڑے بھائی جیری کے ساتھ ہوتا تھا اور مجھے بڑا مزہ آتا تھا۔‏

اُن سالوں کے دوران ہم نے کچھ خاص مہموں میں حصہ لیا جو ایسے علاقوں میں چلائی گئیں جہاں لوگ ہمارے کام کی مخالفت کرتے تھے۔‏ جیسے کہ مَیں نے شروع میں ذکر کِیا تھا،‏ ہم آدھی رات کو ہی اُٹھ بیٹھتے اور چپکے سے پرچے اور کتابیں دروازوں کے نیچے سے لوگوں کے گھروں میں کھسکا دیتے۔‏ اِس کے بعد ہم شہر سے باہر اِکٹھے ہوتے تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ کہیں پولیس نے کسی کو گِرفتار تو نہیں کر لیا۔‏

مُنادی کے کام کا ایک دلچسپ حصہ وہ ہوتا تھا جب ہم بڑے بڑے اِشتہار پہن کر شہر میں چکر لگاتے تھے۔‏ مجھے یاد ہے کہ ایک بار بہن بھائی ہمارے شہر میں آئے اور وہ اِشتہار پہن کر شہر میں چکر لگانے لگے جس پر لکھا تھا:‏ ”‏مذہب ایک پھندا اور فریب ہے۔‏“‏ وہ ہمارے گھر سے نکلے،‏ تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر (‏ایک میل)‏ تک چلے اور پھر واپس آ گئے۔‏ خوشی کی بات تھی کہ اُنہیں کسی نے نہیں روکا تھا۔‏ بہرحال بہت سے لوگوں کو یہ جاننے کا تجسّس ہو رہا تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔‏

میرے بچپن میں ہونے والے چند اِجتماعات

ہمارا خاندان اِجتماعات میں حاضر ہونے کے لیے اکثر امریکہ کی ریاست ٹیکساس جاتا تھا۔‏ چونکہ ابو ریلوے میں کام کرتے تھے اِس لیے جب ہم اِجتماعات میں یا اپنے رشتےداروں کے پاس جانے کے لیے ٹرین میں سفر کرتے تھے تو ہمیں ٹکٹ کے پیسے نہیں دینے پڑتے تھے۔‏ میرے ماموں فریڈ وِسمر جو کہ امی کے بڑے بھائی تھے اور ممانی یولالئی،‏ ٹیکساس کے شہر ٹیمپل میں رہتے تھے۔‏ ماموں نے 1900ء کے بعد کسی وقت سچائی سیکھی،‏ بپتسمہ لیا اور اپنی بہنوں کو جن میں میری امی بھی شامل تھیں،‏ وہ باتیں بتائیں جو اُنہوں نے سیکھی تھیں۔‏ وسطی ٹیکساس میں رہنے والے بہن بھائی ماموں کو اچھی طرح جانتے تھے کیونکہ ماموں وہاں سفری نگہبان کے طور پر خدمت کر چُکے تھے۔‏ ماموں بڑے شفیق اور خوش‌مزاج اِنسان تھے اور لگن سے خدا کی خدمت کرتے تھے۔‏ اُن کی مثال کا مجھ پر بڑا اچھا اثر ہوا۔‏

سن 1941ء میں ہم ایک بڑے اِجتماع کے لیے ٹرین سے مسوری کے شہر سینٹ لوئیس گئے۔‏ اِجتماع پر سب بچوں سے کہا گیا کہ وہ سٹیج کے قریب اِکٹھے بیٹھ کر بھائی رتھرفورڈ کی تقریر سنیں جس کا موضوع تھا:‏ ”‏بادشاہ کے بچے۔‏“‏ ہم بچوں کی تعداد 15 ہزار تھی۔‏ تقریر کے آخر پر ہم سب کو ایک خوب‌صورت تحفہ ملا۔‏ بھائی رتھرفورڈ اور اُن کے ساتھ کچھ اَور بھائیوں نے ہمیں ایک نئی کتاب دی جس کا عنوان تھا:‏ ”‏چلڈرن۔‏“‏

اپریل 1943ء میں ہم کنساس کے شہر کافیویل میں منعقد ہونے والے اِجتماع میں گئے۔‏ اُس اِجتماع پر یہ اِعلان کِیا گیا کہ اب سے ہر کلیسیا میں ایک سکول ہوا کرے گا جس کا نام ”‏مسیحی خدمتی سکول“‏ ہوگا۔‏ اِس کے بعد سکول میں اِستعمال کے لیے ایک کتاب دی گئی جس میں 52 ابواب تھے۔‏ اُسی سال بعد میں مَیں نے پہلی بار سکول میں تقریر کی۔‏ میرے لیے وہ اِجتماع بڑا خاص تھا کیونکہ تب مَیں نے بپتسمہ لیا۔‏ میرا اور کچھ اَور لوگوں کا بپتسمہ ایک قریبی فارم کے تالاب میں ہوا جس کا پانی بہت ٹھنڈا تھا۔‏

بیت‌ایل میں خدمت کرنے کی میری خواہش

مَیں نے 1951ء میں سکول کی پڑھائی مکمل کی۔‏ اُس وقت مجھے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ مَیں زندگی میں کیا کروں گا۔‏ میرا بھائی جیری بیت‌ایل میں خدمت کر چُکا تھا۔‏ میرے دل میں بھی بیت‌ایل جانے کی شدید خواہش تھی اِس لیے مَیں نے اِس کے لیے درخواست دے دی۔‏ کچھ ہی عرصے بعد میری درخواست قبول ہو گئی اور مَیں نے 10 مارچ 1952ء کو بیت‌ایل میں خدمت کرنی شروع کی۔‏ یہ میری زندگی کا بہت اچھا فیصلہ تھا کیونکہ اِس کی بدولت مجھے بڑھ چڑھ کر خدا کی خدمت کرنے کا موقع ملا۔‏

میری خواہش تھی کہ مَیں چھاپہ‌خانے میں کام کروں کیونکہ مَیں کتابوں اور رسالوں کی تیاری میں مدد کرنا چاہتا تھا۔‏ لیکن مجھے کبھی اِس شعبے میں کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔‏ اِس کی بجائے مجھے پہلے ویٹر کے طور پر کام کرنے کے لیے کہا گیا اور بعد میں باورچی‌خانے میں۔‏ مجھے اِس کام میں بڑا مزہ آیا اور مَیں نے بہت کچھ سیکھا۔‏ چونکہ ہم شفٹوں میں کام کرتے تھے اِس لیے دن کے وقت کچھ گھنٹوں کے لیے میری چھٹی ہوتی تھی۔‏ اِس دوران مَیں اکثر بیت‌ایل کی لائبریری میں چلا جاتا اور وہاں پڑی ہوئی کتابوں کی مدد سے ذاتی مطالعہ کرتا۔‏ اِس مطالعے کی بدولت میرا ایمان بڑھا اور یہوواہ کے ساتھ میری دوستی مضبوط ہوئی۔‏ میرا یہ عزم اَور پُختہ ہو گیا کہ مجھے جب تک بیت‌ایل میں خدمت کرنے کا موقع ملے گا،‏ مَیں ضرور کروں گا۔‏ جیری نے 1949ء میں بیت‌ایل کو چھوڑ دیا تھا اور پیٹریشیا نامی بہن سے شادی کر لی تھی۔‏ وہ دونوں بروکلن میں بیت‌ایل کے قریب ہی رہتے تھے اور اُنہوں نے اُس وقت میری بڑی مدد اور حوصلہ‌افزائی کی جب مَیں نیا نیا بیت‌ایل میں آیا تھا۔‏

بیت‌ایل کے کچھ بھائیوں کو کلیسیاؤں میں عوامی تقریر کرنے کے لیے بھیجا جاتا تھا۔‏ میرے بیت‌ایل آنے کے تھوڑی دیر بعد کچھ اَور بھائیوں کو بھی چُننا شروع کِیا گیا جنہیں یہ ذمےداری سونپی جا سکتی تھی۔‏ اِن بھائیوں کو بروکلن سے 320 کلومیٹر (‏200 میل)‏ کے اندر اندر موجود کلیسیاؤں میں بھیجا جاتا۔‏ وہاں وہ عوامی تقریر کرتے اور کلیسیا کے ساتھ مل کر مُنادی میں جاتے۔‏ میرا نام بھی اُن بھائیوں میں شامل کِیا گیا۔‏ شروع شروع میں جب مَیں کلیسیاؤں کے پاس جاتا اور عوامی تقریر کرتا تو مَیں تھوڑا گھبراتا تھا۔‏ اُس زمانے میں عوامی تقریر ایک گھنٹے کی ہوتی تھی۔‏ مَیں عموماً ٹرین سے سفر کرتا تھا۔‏ 1954ء کی سردیوں کی بات ہے کہ ایک اِتوار کی دوپہر مَیں ٹرین پر سوار تھا جو شہر نیو یارک آ رہی تھی۔‏ مَیں نے شام تک بیت‌ایل پہنچ جانا تھا۔‏ لیکن پھر اچانک سے طوفان آ گیا۔‏ تیز ہوائیں چلنے لگیں اور برف‌باری شروع ہو گئی۔‏ ٹرین کا بجلی سے چلنے والا انجن کام کرنا بند کر گیا اور مَیں سوموار کی صبح 5 بجے نیو یارک پہنچا۔‏ مَیں بروکلن جانے والی زیرِزمین ٹرین پر بیٹھا اور بیت‌ایل پہنچتے ہی سیدھا باورچی‌خانے میں چلا گیا۔‏ مجھے کام پر پہنچنے میں تھوڑی دیر ہو گئی تھی اور ساری رات جاگنے کی وجہ سے مَیں بہت تھکا ہوا تھا۔‏ لیکن مجھے فرق فرق کلیسیاؤں میں جا کر کام کرنے اور نئے دوست بنانے سے جو خوشی ملتی تھی،‏ اُس کے سامنے ایسی قربانیاں کچھ بھی نہیں تھیں۔‏

ڈبلیوبی‌بی‌آر کے سٹوڈیو سے پروگرام نشر کرنے کی تیاری کرتے ہوئے

اُس زمانے میں ہمارے ریڈیو سٹیشن ڈبلیوبی‌بی‌آر سے ایک ہفتہ‌وار پروگرام نشر کِیا جاتا تھا جس میں کچھ بہن بھائی مل کر بائبل کے موضوعات پر بات‌چیت کرتے تھے۔‏ جس سٹوڈیو سے یہ پروگرام چلایا جاتا تھا،‏ وہ 124 کولمبیا ہائٹس والی عمارت کی دوسری منزل پر موجود تھا۔‏ بیت‌ایل میں میرے شروع کے سالوں کے دوران مجھے بھی اِس پروگرام میں حصہ لینے کا موقع ملا۔‏ بھائی الیگزینڈر میک‌مِلن جو کئی سال سے بیت‌ایل میں خدمت کر رہے تھے،‏ باقاعدگی سے اِس پروگرام میں حصہ لیتے تھے۔‏ ہم اُنہیں پیار سے بھائی میک کہتے تھے۔‏ وہ بہت سی مشکلات کے باوجود خدا کے وفادار رہ چُکے تھے اور بیت‌ایل کے نوجوان بھائیوں کے لیے بڑی اچھی مثال تھے۔‏

وہ پرچے جن کے ذریعے ہم لوگوں کی توجہ ڈبلیوبی‌بی‌آر کی طرف دِلاتے تھے

سن 1958ء میں بیت‌ایل میں میرا شعبہ بدل گیا۔‏ مجھے یہ ذمےداری دی گئی کہ مَیں گلئیڈ سکول سے تربیت پانے والے بہن بھائیوں کی ویزے حاصل کرنے میں مدد کروں اور اُن کے سفر کا بندوبست کروں۔‏ اُس زمانے میں ہوائی جہاز کا سفر بہت مہنگا تھا اِس لیے گلئیڈ سے تربیت پانے والے جو بہن بھائی افریقہ اور ایشیا جاتے تھے،‏ اُن میں سے زیادہ‌تر مال‌بردار بحری جہازوں میں سفر کرتے تھے۔‏ کئی سال بعد جب ہوائی جہازوں کی ٹکٹیں پہلے سے سستی ہوئیں تو زیادہ‌تر مشنریوں کو اِن کے ذریعے بھیجا جانے لگا۔‏

گلئیڈ کی گریجویشن سے پہلے سندیں ترتیب دیتے ہوئے

اِجتماعات کے لیے سفر کے اِنتظامات

سن 1960ء میں مَیں نے کچھ پروازیں بُک کیں تاکہ بہن بھائی 1961ء میں ہونے والے بین‌الاقوامی اِجتماعات کے لیے امریکہ سے یورپ جا سکیں۔‏ مَیں بھی اِن میں سے ایک اِجتماع کے لیے جرمنی کے شہر ہمبرگ گیا۔‏ اِجتماع کے بعد مَیں نے بیت‌ایل کے تین اَور بھائیوں کے ساتھ مل کر ایک کار کرائے پر لی اور ہم اِٹلی پہنچے۔‏ وہاں پر ہم روم میں ہماری برانچ میں گئے۔‏ اِس کے بعد ہم فرانس گئے اور پائرینیس کے پہاڑی سلسلے کو پار کرتے ہوئے سپین پہنچے جہاں ہمارے کام پر پابندی تھی۔‏ ہم نے سپین کے شہر بارسیلونا کے بہن بھائیوں کو کچھ مطبوعات دیں جنہیں ہم نے اِس طرح پیک کِیا ہوا تھا کہ وہ تحفے لگیں۔‏ وہاں بہن بھائیوں سے مل کر ہمیں بڑی خوشی ہوئی۔‏ پھر ہم شہر ایمسٹرڈیم گئے اور اِس کے بعد ہوائی سفر کر کے نیو یارک پہنچے۔‏

سن 1962ء میں مجھے یہ ذمےداری سونپی گئی کہ مَیں 583 بہن بھائیوں کے لیے اُن بین‌الاقوامی اِجتماعات پر جانے کا بندوبست کروں جو فرق فرق ملکوں میں ہونے والے تھے۔‏ یہ اِجتماعات 1963ء میں ہونے تھے اور اِن کا موضوع تھا:‏ ”‏ابدی خوش‌خبری۔‏“‏ اُن بہن بھائیوں نے یورپ،‏ ایشیا اور جنوبی بحراُلکاہل میں ہونے والے اِجتماعات میں حاضر ہونا تھا اور پھر ریاست ہوائی کے شہر ہونولُولُو اور ریاست کیلیفورنیا کے شہر پاساڈینا جانا تھا۔‏ اِس دوران اُنہوں نے لبنان اور اُردن بھی جانا تھا اور وہاں اُن جگہوں کا دورہ کرنا تھا جن کا ذکر بائبل میں کِیا گیا ہے۔‏ ہمارے شعبے نے بہن بھائیوں کے ویزوں،‏ اِن ساری پروازوں اور ہوٹلوں میں بہن بھائیوں کی رہائش کا بندوبست کِیا۔‏

میری شریکِ‌حیات اور ہم‌سفر

سن 1963ء ایک اَور وجہ سے بھی میرے لیے بڑا خاص تھا۔‏ اِس سال 29 جون کو لائلہ راجرز کے ساتھ میری شادی ہوئی جو مسوری کی رہنے والی تھیں اور 1960ء میں بیت‌ایل آئی تھیں۔‏ شادی کے ایک ہفتے بعد ہم یونان میں ہونے والے اِجتماع میں گئے جہاں وہ بہن بھائی بھی آئے ہوئے تھے جو مختلف ملکوں میں ہونے والے اِجتماعات میں حاضر ہو رہے تھے۔‏ اِس کے بعد ہم نے اُن بہن بھائیوں کے ساتھ مصر اور لبنان میں منعقد ہونے والے اِجتماعات میں بھی شرکت کی۔‏ وہاں سے ہم جہاز کے ذریعے اُردن پہنچے۔‏ اُس وقت اُردن میں ہمارے کام پر پابندی تھی اور یہوواہ کے گواہوں کو ویزے نہیں دیے جا رہے تھے۔‏ ہمیں نہیں پتہ تھا کہ وہاں پہنچنے پر ہمارے ساتھ کیا ہوگا۔‏ لیکن یہ دیکھ کر ہماری خوشی اور حیرت کی اِنتہا نہ رہی کہ بہن بھائی ہوائی اڈے پر ایک بڑا بینر ہاتھ میں تھامے ہوئے کھڑے تھے جس پر لکھا تھا:‏ ”‏یہوواہ کے گواہوں کو خوش‌آمدید!‏“‏ ہمارے لیے یہ بڑا شان‌دار تجربہ تھا کہ ہمیں بائبل میں ذکرکردہ ملکوں میں جانے اور اُن جگہوں کو دیکھنے کا موقع ملا جہاں ابراہام،‏ اِضحاق اور یعقوب رہتے تھے،‏ جہاں یسوع مسیح اور اُن کے رسولوں نے مُنادی کی تھی اور جہاں سے مسیحی مذہب ”‏زمین کی اِنتہا تک“‏ پھیلا تھا۔‏​—‏⁠اعمال 13:‏47‏۔‏

پچھلے 55 سال کے دوران ہمیں جو بھی ذمےداری ملی ہے،‏ اُس میں لائلہ نے میرا پورا ساتھ دیا ہے۔‏ جب سپین اور پُرتگال میں ہمارے کام پر پابندی تھی تو ہم کئی بار اِن ملکوں میں گئے۔‏ وہاں جا کر ہم بہن بھائیوں کی حوصلہ‌افزائی کرتے اور اُنہیں مطبوعات اور ضرورت کی دوسری چیزیں دیتے۔‏ ہم سپین کے شہر قادس میں قید کچھ بھائیوں سے بھی ملنے گئے۔‏ مجھے بڑی خوشی ہے کہ مجھے اُن کی حوصلہ‌افزائی کے لیے ایک تقریر کرنے کا موقع ملا۔‏

اپنے بھائی جیری،‏ بھابی پیٹریشیا اور لائلہ کے ساتھ 1969ء میں منعقد ہونے والے اِجتماع پر جاتے ہوئے

سن 1963ء سے لے کر اب تک مَیں نے افریقہ،‏ آسٹریلیا،‏ وسطی اور جنوبی امریکہ،‏ یورپ،‏ مشرقی ایشیا،‏ ہوائی،‏ نیو زی‌لینڈ اور پورٹو ریکو میں ہونے والے بین‌الاقوامی اِجتماعات پر بہن بھائیوں کے آنے جانے کا بندوبست کِیا ہے۔‏ مجھے اور لائلہ کو بہت سے یادگار اِجتماعات پر جانے کا موقع ملا،‏ مثلاً 1989ء میں پولینڈ کے شہر وارسا میں ہونے والے اِجتماع پر۔‏ روس سے تعلق رکھنے والے بہت سے بہن بھائی اِس اِجتماع پر آئے۔‏ یہ اُن بہن بھائیوں کا پہلا اِجتماع تھا۔‏ اُن میں ایسے بہن بھائی بھی شامل تھے جو اپنے ایمان کی وجہ سے کئی سال قید میں رہ چُکے تھے۔‏

مجھے ہماری برانچوں میں جا کر بیت‌ایل کے ارکان اور مشنریوں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کا بھی موقع ملا ہے اور یہ بھی میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔‏ ہم آخری بار جنوبی کوریا میں برانچ کے دورے پر گئے تھے اور وہاں شہر سوون میں قید 50 بھائیوں سے ملے تھے۔‏ وہ سب بڑے پُراُمید تھے اور اُس وقت کا اِنتظار کر رہے تھے جب اُنہیں دوبارہ سے آزادی کے ساتھ یہوواہ کی خدمت کرنے کا موقع ملے گا۔‏ اُن بھائیوں سے مل کر ہمیں بہت حوصلہ ملا۔‏​—‏⁠رومیوں 1:‏11،‏ 12

میری خوشی کی وجوہات

مَیں نے دیکھا ہے کہ یہوواہ نے سالوں کے دوران اپنے بندوں کو کیسے برکت بخشی ہے۔‏ 1943ء میں جب مَیں نے بپتسمہ لیا تھا تو اُس وقت مبشروں کی تعداد تقریباً 1 لاکھ تھی۔‏ مگر اب 80 لاکھ سے زیادہ لوگ 240 ملکوں میں یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں۔‏ اِس ساری ترقی میں گلئیڈ سکول سے تربیت پانے والے بہن بھائیوں کی اَن‌تھک محنت نے بڑا اہم کردار ادا کِیا ہے۔‏ مجھے اِس بات کی بڑی خوشی ہے کہ مجھے یہ موقع ملا کہ مَیں اِن میں سے کئی مشنریوں کے لیے ویزے کا بندوبست کروں اور اُن ملکوں تک جانے میں اُن کی مدد کروں جہاں اُنہیں خدا کی خدمت کے لیے بھیجا گیا۔‏

مَیں خوش ہوں کہ مَیں نے چھوٹی عمر میں یہوواہ کی خدمت کرنے کا فیصلہ کِیا اور بیت‌ایل کے لیے درخواست دی۔‏ یہوواہ نے اِس سارے عرصے میں مجھے بڑی برکتیں دی ہیں۔‏ پچھلے 50 سال سے زیادہ عرصے کے دوران مجھے اور لائلہ کو نہ صرف بیت‌ایل میں خدمت کرنے میں بہت مزہ آیا ہے بلکہ ہمیں بروکلن کی کئی کلیسیاؤں کے ساتھ مل کر مُنادی کرنا بھی بڑا اچھا لگا ہے اور ہم نے بہت سے قریبی دوست بنائے ہیں۔‏

مَیں اب بھی لائلہ کے ساتھ بیت‌ایل میں خدمت کر رہا ہوں۔‏ حالانکہ میری عمر 84 سال سے زیادہ ہو گئی ہے لیکن مجھے خوشی ہے کہ مَیں ابھی بھی بہن بھائیوں کے فائدے کے لیے کام کر رہا ہوں۔‏ آج‌کل مَیں برانچوں کے ساتھ خط‌وکتابت کرنے والے شعبے میں ہاتھ بٹاتا ہوں۔‏

میری اور لائلہ کی حالیہ تصویر

میرے لیے یہوواہ کی شان‌دار تنظیم کا حصہ ہونا بڑے اعزاز کی بات ہے۔‏ مَیں نے دیکھا ہے کہ ملاکی 3:‏18 کے یہ الفاظ واقعی سچ ہیں:‏ ”‏تُم .‏ .‏ .‏ صادق اور شریر میں اور خدا کی عبادت کرنے والے اور نہ کرنے والے میں اِمتیاز کرو گے۔‏“‏ ہر گزرتے دن کے ساتھ شیطان کی یہ دُنیا بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔‏ لوگ نااُمید اور ناخوش ہیں۔‏ لیکن جو لوگ یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں،‏ وہ اِس مشکل وقت میں بھی خوش‌گوار زندگی گزار رہے ہیں اور مستقبل کے سلسلے میں پکی اُمید رکھتے ہیں۔‏ یہ کتنا شان‌دار اعزاز ہے کہ ہم دوسروں کو خوش‌خبری کا پیغام سناتے ہیں!‏ (‏متی 24:‏14‏)‏ ہم بڑی شدت سے اُس دن کے منتظر ہیں جب خدا کی بادشاہت اِس زمین کو فردوس بنا دے گی۔‏ اُس وقت سب لوگ تندرست‌وتوانا ہوں گے اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔‏