مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہ بہت ضروری ہے کہ لوگوں کو اُس تباہی کے بارے میں خبردار کِیا جائے جو خدا لانے والا ہے۔‏

کیا خدا سزا نازل کرنے سے پہلے لوگوں کو بچنے کے لیے کافی وقت دیتا ہے؟‏

کیا خدا سزا نازل کرنے سے پہلے لوگوں کو بچنے کے لیے کافی وقت دیتا ہے؟‏

ایک ماہرِموسمیات موسم کی پیش‌گوئی کرنے والے آلے کے ذریعے جان جاتا ہے کہ ایک خطرناک طوفان بڑی آبادی والے ایک علاقے کی طرف بڑھ رہا ہے۔‏ چونکہ اُسے لوگوں کے تحفظ کا خیال ہے اِس لیے وہ اُنہیں خبردار کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے تاکہ دیر نہ ہو جائے۔‏

اِسی طرح آج یہوواہ بھی لوگوں کو ایک ایسی تباہی کے بارے میں خبردار کر رہا ہے جو کسی بھی ایسے طوفان سے زیادہ خطرناک ہوگی جس کی پیش‌گوئی محکمۂ‌موسمیات کر سکتا ہے۔‏ یہوواہ ایسا کیسے کر رہا ہے؟‏ اور ہم اِس بات کا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ وہ تباہی سے پہلے لوگوں کو بچنے کے لیے کافی وقت دیتا ہے؟‏ اِن سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے لیے آئیں،‏ ماضی سے کچھ ایسے واقعات پر غور کریں جب یہوواہ نے سزا نازل کرنے سے پہلے لوگوں کو خبردار کِیا۔‏

ماضی سے کچھ مثالیں

قدیم زمانے میں یہوواہ نے مختلف موقعوں پر ایسے لوگوں پر سزا نازل کی جو جان بُوجھ کر اُس کے حکموں کو توڑ رہے تھے۔‏ یہوواہ کی طرف سے آنے والی یہ سزائیں بےشک ”‏تیز طوفان“‏ کی طرح تھیں۔‏ (‏امثا 10:‏25؛‏ یرم 30:‏23‏)‏ لیکن ہر بار کارروائی کرنے سے پہلے یہوواہ نے لوگوں کو خبردار کِیا،‏ بچنے کے لیے کافی وقت دیا اور بتایا کہ وہ کیسے اُس کے حکموں پر عمل کر سکتے ہیں۔‏ (‏2-‏سلا 17:‏12-‏15؛‏ نحم 9:‏29،‏ 30‏)‏ لوگوں کو صحیح راہ پر چلنے کی ترغیب دینے کے لیے یہوواہ نے اکثر اپنے بندوں کو اِستعمال کِیا۔‏ اُس نے اُن کے ذریعے لوگوں تک سزا کے پیغام پہنچائے اور اُنہیں سمجھایا کہ اُنہیں فوراً قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔‏—‏عامو 3:‏7‏۔‏

نوح خدا کے اُن بندوں میں سے ایک تھے جن کے ذریعے اُس نے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔‏ وہ کئی سال تک اپنے زمانے کے بدچلن اور ظالم لوگوں کو آنے والے طوفان کے حوالے سے خبردار کرتے رہے۔‏ (‏پید 6:‏9-‏13،‏ 17‏)‏ نوح نے اُنہیں یہ بھی بتایا کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔‏ اُنہوں نے مُنادی کا جو کام کِیا،‏ اُس کی وجہ سے بعد میں اُنہیں ”‏نیکی کی مُنادی“‏ کرنے والا کہا گیا۔‏—‏2-‏پطر 2:‏5‏۔‏

نوح کی ساری کوششوں کے باوجود اُن کے زمانے کے لوگوں نے خدا کے پیغام کو نظرانداز کِیا۔‏ اُن لوگوں میں رتی بھر بھی ایمان نہیں تھا۔‏ لہٰذا ”‏جب طوفان آیا تو وہ سب ڈوب کر مر گئے۔‏“‏ (‏متی 24:‏39؛‏ عبر 11:‏7‏)‏ وہ لوگ ہرگز یہ شکایت نہیں کر سکتے تھے کہ خدا نے اُنہیں خبردار نہیں کِیا تھا۔‏

دیگر موقعوں پر یہوواہ نے سزا نازل کرنے سے کافی وقت پہلے نہیں بلکہ تھوڑی دیر پہلے لوگوں کو خبردار کِیا۔‏ لیکن پھر بھی اُس نے اِس بات کو یقینی بنایا کہ لوگوں کو بچنے کے لیے کافی وقت ملے۔‏ مثال کے طور پر یہوواہ قدیم مصر پر دس آفتیں نازل کرنے سے پہلے اُنہیں خبردار کرتا رہا۔‏ جیسے کہ یہوواہ نے ساتویں آفت نازل کرنے یعنی اَولے برسانے سے پہلے موسیٰ اور ہارون کو فرعون اور اُس کے خادموں کو خبردار کرنے بھیجا۔‏ یہ آفت اگلے دن نازل ہونی تھی۔‏ پناہ حاصل کرنے اور تباہی سے بچنے کے لیے کیا یہ ایک دن کافی تھا؟‏ اِس کا جواب بائبل میں درج اِس بات سے ملتا ہے:‏ ”‏سو فرؔعون کے خادموں میں جو جو [‏یہوواہ]‏ کے کلام سے ڈرتا تھا وہ اپنے نوکروں اور چوپایوں کو گھر میں بھگا لے آیا۔‏ اور جنہوں نے [‏یہوواہ]‏ کے کلام کا لحاظ نہ کِیا اُنہوں نے اپنے نوکروں اور چوپایوں کو میدان میں رہنے دیا۔‏“‏ (‏خر 9:‏18-‏21‏)‏ اِس سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہوواہ نے لوگوں کو بچنے کے لیے کافی وقت دیا تھا۔‏ یہی وجہ تھی کہ جن لوگوں نے یہوواہ کا پیغام سُن کر فوری قدم اُٹھایا،‏ اُنہیں دوسروں کی نسبت کم نقصان ہوا۔‏

جب دسویں آفت آنے والی تھی تو اُس وقت بھی فرعون اور اُس کے خادموں کو پہلے سے خبردار کِیا گیا۔‏ لیکن اُنہوں نے حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہوواہ کے پیغام پر کان نہیں دھرا۔‏ (‏خر 4:‏22،‏ 23‏)‏ افسوس کہ اِس کے نتیجے میں اُن کے پہلوٹھے بیٹے مارے گئے!‏ (‏خر 11:‏4-‏10؛‏ 12:‏29‏)‏ کیا اُن لوگوں کو اِس آفت سے بچنے کے لیے کافی وقت دیا گیا تھا؟‏ بالکل۔‏ موسیٰ نے فوراً بنی‌اِسرائیل کو بتایا کہ دسویں آفت آنے والی ہے اور اُنہیں ہدایت دی کہ وہ اپنے گھر والوں کو کیسے بچا سکتے ہیں۔‏ (‏خر 12:‏21-‏28‏)‏ کتنے لوگوں نے موسیٰ کی ہدایت پر عمل کِیا؟‏ کچھ اندازوں کے مطابق 30 لاکھ یا اِس سے زیادہ لوگ اِس تباہی سے بچ گئے اور مصر سے نکل گئے۔‏ اُن لوگوں میں اِسرائیلیوں کے علاوہ بڑی تعداد میں غیراِسرائیلیوں اور مصریوں کی ”‏ایک ملی‌جلی گروہ“‏ بھی شامل تھی۔‏—‏خر 12:‏38‏۔‏

اِن مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ نے ہمیشہ سزا نازل کرنے سے پہلے لوگوں کو بچنے کا پورا پورا موقع دیا۔‏ (‏اِست 32:‏4‏)‏ البتہ یہوواہ نے ایسا کیوں کِیا؟‏ پطرس رسول نے اِس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہوواہ ”‏نہیں چاہتا کہ کوئی بھی شخص ہلاک ہو بلکہ وہ چاہتا ہے کہ سب لوگ توبہ کریں۔‏“‏ (‏2-‏پطر 3:‏9‏)‏ بےشک خدا کو لوگوں کی فکر تھی۔‏ وہ چاہتا تھا کہ لوگ توبہ کریں اور اُس کے کارروائی کرنے سے پہلے اُس کی ہدایت پر عمل کریں۔‏—‏یسع 48:‏17،‏ 18؛‏ روم 2:‏4‏۔‏

کیا آنے والی تباہی سے بچنا ممکن ہے؟‏

آج بھی پوری دُنیا میں لوگوں کو ایک تباہی کے حوالے سے خبردار کِیا جا رہا ہے اور یہ اشد ضروری ہے کہ لوگ اِس سے بچنے کے لیے فوراً قدم اُٹھائیں۔‏ جب یسوع زمین پر تھے تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ بُری دُنیا ایک ”‏بڑی مصیبت“‏ میں تباہ کر دی جائے گی۔‏ (‏متی 24:‏21‏)‏ مستقبل میں آنے والی اُس تباہی کے سلسلے میں یسوع نے ایک تفصیلی پیش‌گوئی کی اور اِس میں بتایا کہ اُس تباہی کے آنے سے پہلے اُن کے شاگردوں کو کیا کچھ دیکھنا اور سہنا پڑے گا۔‏ یسوع نے عالمی پیمانے پر ہونے والے جن واقعات کی پیش‌گوئی کی تھی،‏ ہم اُنہیں آج پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔‏—‏متی 24:‏3-‏12؛‏ لُو 21:‏10-‏13‏۔‏

چونکہ ہم آخری زمانے میں رہ رہے ہیں اِس لیے یہوواہ سب لوگوں کو یہ نصیحت کر رہا ہے کہ وہ اُس کی حکمرانی کے تابع ہوں۔‏ یہوواہ کی مرضی ہے کہ اُس کے فرمانبردار بندے اب بھی ایک اچھی زندگی گزاریں اور مستقبل میں بھی نئی دُنیا میں برکتیں حاصل کریں۔‏ (‏2-‏پطر 3:‏13‏)‏ یہوواہ چاہتا ہے کہ لوگ اُس کے وعدوں پر اپنے ایمان کو مضبوط کریں۔‏ اِس لیے وہ اُن تک ایک زندگی‌بخش پیغام پہنچاتا ہے۔‏ یہ پیغام ”‏بادشاہت کی خوش‌خبری“‏ ہے جس کے بارے میں یسوع نے کہا تھا کہ اِس کی ”‏مُنادی ساری دُنیا میں کی جائے گی تاکہ سب قوموں کو گواہی ملے۔‏“‏ (‏متی 24:‏14‏)‏ آج یہوواہ کے وفادار بندے تقریباً 240 ملکوں میں یہ ”‏گواہی“‏ دے رہے ہیں۔‏ یہوواہ چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اُس کے پیغام پر کان دھریں اور تباہی سے بچ جائیں۔‏—‏صفن 1:‏14،‏ 15؛‏ 2:‏2،‏ 3‏۔‏

لہٰذا سوال یہ نہیں ہے کہ یہوواہ سزا نازل کرنے سے پہلے لوگوں کو بچنے کے لیے کافی وقت دیتا ہے یا نہیں۔‏ تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ یہوواہ نے ہمیشہ ایسا کِیا ہے۔‏ سوال تو یہ ہے کہ کیا لوگ تباہی آنے سے پہلے یہوواہ کی بات پر عمل کر کے اپنی جان بچائیں گے؟‏ دُعا ہے کہ خدا کے پیغام کی مُنادی کرنے والوں کے طور پر ہم اِس بُری دُنیا کے خاتمے سے بچنے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرتے رہیں۔‏