مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یورپ کے دورے کے دوران بھائی رتھرفورڈ اور اُن کے ساتھ دوسرے بھائی

1920ء—‏آج سے 100 سال پہلے

1920ء—‏آج سے 100 سال پہلے

سن 1920ء کی دہائی کے شروع میں یہوواہ کے بندے اُس کام کے لیے بالکل تیار ہو گئے جو اُنہیں کرنا تھا۔‏ اُنہوں نے 1920ء کی سالانہ آیت کے لیے زبور 118:‏14 کو چُنا جس میں لکھا ہے:‏ ”‏یاہ میری قوت اور میرا گیت ہے۔‏“‏

یہوواہ نے واقعی اِن پُرجوش مُنادوں کو طاقت دی اور اِس سال کے دوران پہل‌کاروں کی تعداد 225 سے بڑھ کر 350 ہو گئی۔‏ اِس کے علاوہ اِسی سال پہلی بار مبشروں کی تعداد 8000 سے اُوپر گئی۔‏ یہوواہ نے اُنہیں برکت دی اور اُن کی محنت رنگ لائی۔‏

بائبل سٹوڈنٹس کا جوش قابلِ‌تعریف تھا!‏

اُس وقت بھائی رتھرفورڈ بائبل سٹوڈنٹس کے کام کی نگرانی کر رہے تھے۔‏ اُنہوں نے 21 مارچ 1920ء کو ایک تقریر کی جس کا عنوان تھا:‏ ”‏لاکھوں لوگ جو اب زندہ ہیں،‏ کبھی نہیں مریں گے!‏“‏ بائبل سٹوڈنٹس نے لوگوں کو اِس تقریر کو سننے کی دعوت دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔‏ اُنہوں نے شہر نیو یارک میں ایک بہت بڑا تھیٹر کرائے پر لیا اور تقریباً 3 لاکھ 20 ہزار دعوت‌نامے بانٹے۔‏

تقریر ”‏لاکھوں لوگ جو اب زندہ ہیں،‏ کبھی نہیں مریں گے!‏“‏ کے لیے اخبار میں اِشتہار

بائبل سٹوڈنٹس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اِس تقریر کو سننے کے لیے اِتنے زیادہ لوگ آئیں گے۔‏ ہال میں صرف 5000 لوگوں کی گنجائش تھی۔‏ اِس لیے 7000 لوگوں کو واپس جانا پڑا۔‏ رسالہ ‏”‏دی واچ‌ٹاور“‏ میں بتایا گیا کہ یہ اِجلاس بائبل سٹوڈنٹس کے یادگار اِجلاسوں میں سے ایک تھا۔‏

وہ یہ پیغام کہ ”‏لاکھوں لوگ جو اب زندہ ہیں،‏ کبھی نہیں مریں گے!‏“‏ سنانے کی وجہ سے مشہور ہو گئے۔‏ حالانکہ اُس وقت وہ اِس بات کو نہیں سمجھتے تھے کہ اُنہیں بادشاہت کی خوش‌خبری اَور بڑے پیمانے پر سنانی ہے لیکن پھر بھی اُن کا جوش قابلِ‌تعریف تھا۔‏ بہن ایڈا اومسٹیڈ جنہوں نے 1902ء میں اِجلاسوں پر جانا شروع کِیا،‏ اُنہوں نے اِس حوالے سے کہا:‏ ”‏ہم جانتے تھے کہ خدا اِنسانوں کو ڈھیروں ڈھیر برکتیں دے گا اور یہ خوش‌خبری ہم اُن سب لوگوں کو سناتے تھے جو ہمیں مُنادی میں ملتے تھے۔‏“‏

وہ اپنی کتابیں اور رسالے خود چھاپنے لگے

بہن بھائیوں کو مسلسل روحانی کھانا فراہم کرنے کے لیے بھائیوں نے خود کچھ کتابوں اور رسالوں کو چھاپنا شروع کِیا۔‏ اِس سلسلے میں اُنہوں نے کچھ مشینیں خریدیں اور اُنہیں ایک عمارت میں لگا دیا جو اُنہوں نے کرائے پر لی تھی۔‏ یہ عمارت بیت‌ایل سے کچھ ہی فاصلے پر تھی۔‏

بھائی لیو پیل اور بھائی والٹر کیسلر نے جنوری 1920ء میں بیت‌ایل میں خدمت شروع کی تھی۔‏ بھائی والٹر نے بتایا کہ ”‏جس دن ہم بیت‌ایل پہنچے،‏ اُسی دن چھاپہ‌خانے کے نگہبان نے ہمیں دیکھ کر کہا:‏ ”‏ابھی دوپہر کے کھانے میں ڈیڑھ گھنٹہ باقی ہے۔‏“‏ پھر اُنہوں نے ہمیں یہ کام دیا کہ ہم کتابوں سے بھرے ڈبوں کو تہہ‌خانے سے اُٹھا کر لائیں۔‏“‏

بھائی لیو نے بتایا کہ ”‏اگلے دن ہمیں چھاپہ‌خانے کی پہلی منزل کی دیواروں کو دھونے کا کام دیا گیا۔‏ وہ دیواریں بہت گندی تھیں۔‏ حالانکہ یہ کام مجھے بہت مشکل لگا لیکن پھر بھی اِسے کرنے سے مجھے بڑی خوشی ملی کیونکہ مَیں یہ کام یہوواہ کے لیے کر رہا تھا۔‏“‏

وہ چھپائی کی مشین جس سے ‏”‏دی واچ‌ٹاور‏“‏  کو چھاپا جاتا تھا

چند ہفتوں کے اندر اندر بیت‌ایل میں خدمت کرنے والے بھائیوں نے ‏”‏دی واچ‌ٹاور“‏ کو چھاپنا شروع کر دیا۔‏ اُنہوں نے دوسری منزل پر موجود چھپائی کی مشین کے ذریعے 1 فروری 1920ء کے شمارے کی 60 ہزار کاپیاں چھاپیں۔‏ اِسی دوران بھائیوں نے چھپائی کی ایک اَور مشین تہہ‌خانے میں لگائی جسے وہ ”‏بحری جنگی جہاز“‏ کہتے تھے۔‏ 14 اپریل 1920ء سے رسالہ ‏”‏دی گولڈن ایج“‏بھی شائع کِیا جانے لگا۔‏ اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہوواہ نے اُن بھائیوں کی محنت پر برکت ڈالی تھی۔‏

‏’‏اِس کام کو کرنے سے مجھے بڑی خوشی ملی کیونکہ میں یہ کام یہوواہ کے لیے کر رہا تھا۔‏‘‏

کئی بہن بھائی دوبارہ جوش سے مُنادی کرنے لگے

یہوواہ کے وفادار بندے پھر سے مل کر جوش سے اُس کی خدمت کرنے لگے تھے۔‏ لیکن کچھ بائبل سٹوڈنٹس نے 1917ء سے 1919ء کے مشکل عرصے کے دوران تنظیم کو چھوڑ دیا تھا۔‏ بھائیوں نے اُن کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے لیے کیا کِیا؟‏

1 اپریل 1920ء کے ‏”‏دی واچ‌ٹاور“‏ میں ایک مضمون شائع کِیا گیا جس کا عنوان تھا:‏ ”‏آئیں،‏ مل کر خدا کی خدمت کریں۔‏“‏ اِس مضمون میں بہن بھائیوں کو بڑے پیار سے یہ کہا گیا:‏ ”‏ہمیں یقین ہے کہ وہ سب بہن بھائی جو یہوواہ کے فرمانبردار رہنا چاہتے ہیں،‏ اُن چیزوں کو بھول جائیں گے جو ماضی میں ہوئیں اور پھر سے خدا کے بندوں کے ساتھ مل کر اُس کی خدمت کریں گے۔‏“‏

اِس حوصلہ‌افزائی کے نتیجے میں بہت سے بہن بھائی پھر سے جوش سے یہوواہ کی خدمت کرنے لگے۔‏ ایک شادی‌شُدہ جوڑے نے کہا:‏ ”‏ہمیں اِس بات کا بڑا دُکھ ہے کہ ہم نے پچھلے ایک سال سے زیادہ عرصے کو فارغ بیٹھ کر ضائع کر دیا جبکہ دوسرے بہن بھائی مُنادی کے کام میں مصروف تھے۔‏ .‏ .‏ .‏ ہمارا عزم ہے کہ اب سے ہم جوش سے مُنادی کریں گے۔‏“‏ مُنادی کے کام میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی تھا جو یہ بہن بھائی کر سکتے تھے۔‏

اُنہوں نے ”‎ZG‎“ کو تقسیم کِیا

21 جون 1920ء کو بائبل سٹوڈنٹس نے ایک بڑی مہم کا آغاز کِیا جس میں اُنہوں نے کتاب ‏”‏دی فِنشڈ مِسٹری“‏ * کا نرم گتے والا ایڈیشن تقسیم کِیا۔‏ اِس ایڈیشن کو ”‎ZG‎“ کہتے تھے۔‏ اِس کتاب کی تقسیم پر 1918ء میں پابندی لگا دی گئی تھی اِس لیے اِس کی بہت سی کاپیاں پڑی ہوئی تھیں۔‏

نہ صرف پہل‌کاروں بلکہ سب مبشروں کی حوصلہ‌افزائی کی گئی کہ وہ اِس کتاب کو تقسیم کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔‏ ایک خط میں یہ کہا گیا:‏ ”‏تمام کلیسیاؤں کے سب بپتسمہ‌یافتہ مبشر جو اِس کام میں حصہ لے سکتے ہیں،‏ خوشی سے ایسا کریں۔‏آئیں،‏ ہم یہ عزم کریں کہ یہ کام ہمارے لیے سب سے اہم ہوگا۔‏“‏ بھائی ایڈمنڈ ہُوپر نے بتایا کہ بہت سے بہن بھائیوں نے پہلی بار اِس مہم کے دوران گھر گھر جا کر مُنادی کی تھی۔‏ اُنہوں نے یہ بھی کہا:‏ ”‏ہم اِس بات کو بھی سمجھنے لگے کہ ہمیں مُنادی کے کام کو بہت بڑے پیمانے پر کرنا ہوگا۔‏“‏

یورپ میں مُنادی کے کام کو دوبارہ منظم کِیا گیا

پہلی عالمی جنگ کے دوران دوسرے ملکوں میں رہنے والے بہن بھائیوں سے رابطہ کرنا مشکل ہو گیا تھا اِس لیے بھائی رتھرفورڈ اُن کی حوصلہ‌افزائی کرنا چاہتے تھے اور اُن کے مُنادی کے کام کو منظم کرنا چاہتے تھے۔‏ لہٰذا 12 اگست 1920ء میں بھائی رتھرفورڈ چار اَور بھائیوں کے ساتھ برطانیہ،‏ یورپ کے دیگر ملکوں اور مشرقِ‌وسطیٰ کا دورہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔‏

بھائی رتھرفورڈ مصر میں

جب بھائی رتھرفورڈ نے برطانیہ کا دورہ کِیا تو بائبل سٹوڈنٹس نے وہاں پر تین اِجتماعوں اور 12 اِجلاسوں کا بندوبست کِیا۔‏ اِن اِجتماعوں اور اِجلاسوں پر تقریباً 50 ہزار لوگ حاضر ہوئے۔‏ اِس دورے سے جو فائدے ہوئے،‏ اُس کے بارے میں ‏”‏دی واچ‌ٹاور“‏ میں کچھ یوں بتایا گیا:‏ ”‏بہن بھائیوں کا حوصلہ بڑھا اور وہ تازہ‌دم ہو گئے۔‏ اُنہوں نے محسوس کِیا کہ وہ ایک دوسرے کے اَور زیادہ قریب ہو گئے ہیں اور اُن کے دل خوشی سے بھر گئے۔‏“‏ بھائی رتھرفورڈ جب ملک فرانس کے شہر پیرس گئے تو اُنہوں نے دوبارہ اِس موضوع پر تقریر کی:‏ ”‏لاکھوں لوگ جو اب زندہ ہیں،‏ کبھی نہیں مریں گے!‏“‏ جب اُنہوں نے تقریر کرنی شروع کی تو ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔‏ بعد میں 300 لوگوں نے بائبل کے موضوعات کے بارے میں سیکھنے کے لیے اَور زیادہ معلومات حاصل کرنے کی درخواست کی۔‏

لندن میں بھائی رتھرفورڈ کی ایک تقریر کے لیے اِشتہار

اِس سے اگلے ہفتوں میں کچھ بھائیوں نے ایتھنز،‏ قاہرہ اور یروشلیم کا دورہ کِیا۔‏ وہاں کچھ لوگوں نے بائبل کے پیغام میں دلچسپی دِکھائی۔‏ اِن لوگوں کی اَور زیادہ مدد کرنے کے لیے بھائی رتھرفورڈ نے یروشلیم کے نزدیک ایک شہر رام اللہ میں ایک سٹور بنوایا تاکہ مبشر وہاں سے آسانی سے ہماری کتابیں او ر رسالے حاصل کر سکیں۔‏اِس کے بعد وہ دوبارہ یورپ گئے۔‏ وہاں اُنہوں نے وسطی یورپ کی برانچ کو قائم کِیا اور اِس میں کتابوں اور رسالوں کو چھاپنے کا بندوبست کِیا۔‏

اُنہوں نے اذیت کا پردہ فاش کِیا

ستمبر 1920ء میں بائبل سٹوڈنٹس نے رسالہ ‏”‏دی گولڈن ایج“‏ کا 27واں شمارہ شائع کِیا۔‏ اِس میں اُنہوں نے اُس اذیت کا پردہ فاش کِیا جو 1918ء میں بائبل سٹوڈنٹس پر ڈھائی گئی تھی۔‏ اِس شمارے کی 40 لاکھ کاپیاں چھاپی گئیں جس کے لیے اُس مشین کو دن رات چلایا گیا جس کو بھائی ”‏بحری جنگی جہاز“‏ کہتے تھے۔‏

بہن ایما مارٹن کی وہ تصویر جو پولیس نے اُتاری تھی

اِس رسالے میں بتایا گیا تھا کہ ایک بہن جس کا نام ایما مارٹن تھا،‏ اُن کے ساتھ کیا ہوا تھا۔‏ بہن ایما امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں پہل‌کار کے طور پر خدمت کرتی تھیں۔‏ 17 مارچ 1918ء کو بہن ایما،‏ بھائی حام،‏ بھائی سونن برگ اور بھائی سٹیونز ایک اِجلاس پر گئے۔‏

اُس اِجلاس پر ایک آدمی بھی تھا جو بائبل کے بارے میں سیکھنے کی نیت سے وہاں نہیں آیا تھا۔‏ بعد میں اُس آدمی نے اِس بات کو تسلیم بھی کِیا کہ وہ وہاں حکومت کے تفتیش‌وتحقیق کرنے والے اِدارے کے کہنے پر گیا تھا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں وہاں بائبل سٹوڈنٹس کے خلاف کوئی ثبوت ڈھونڈنے کے لیے گیا تھا۔‏“‏ اِجلاس پر اُسے کتاب ‏”‏دی فِنشڈ مِسٹری“‏ کی ایک کاپی مل گئی جسے اُس نے ثبوت کے طور پر اِستعمال کِیا۔‏ کچھ دن بعد بہن ایما اور اُن تینوں بھائیوں کو گِرفتار کر لیا گیا جو اِجلاس میں اُن کے ساتھ تھے۔‏ اُن پر یہ اِلزام لگایا گیا کہ اُنہوں نے اِس کتاب کو تقسیم کرنے سے قانون کی خلاف‌ورزی کی ہے۔‏

اُن سب کو مُجرم قرار دیا گیا اور تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔‏ اُنہوں نے اِس فیصلے کے خلاف کئی بار اپیل کی جو ہر بار مسترد کر دی گئی۔‏اِس لیے 17 مئی 1920ء کو اُنہیں جیل بھیج دیا گیا۔‏ لیکن پھر حالات بدل گئے۔‏

20 جون 1920ء کو امریکہ کے شہر سان‌فرانسسکو میں ایک اِجتماع ہوا۔‏ اِس اِجتماع پر بھائی رتھرفورڈ نے بہن ایما اور اُن کے ساتھ گِرفتار ہونے والے بھائیوں کے ساتھ پیش آئے واقعے کے بارے میں بتایا۔‏ بہن بھائیوں کو یہ جان کر بہت دُکھ ہوا کہ اِن مسیحیوں کے ساتھ اِتنی نااِنصافی ہوئی ہے۔‏ اُنہوں نے امریکہ کے صدر کے نام ایک تار بھیجا جس میں اُنہوں نے کہا:‏ ”‏ہمارے خیال سےمسز ایما مارٹن کے ساتھ نااِنصافی ہوئی ہے۔‏ افسروں نے اپنے اِختیار کا غلط اِستعمال کِیا ہے اور اُنہیں گِرفتار کرنے کے لیے اُن پر جھوٹا اِلزام لگایا ہے۔‏یہ بہت ہی شرم‌ناک بات ہے۔‏“‏

اگلے ہی دن صدر ولسن نے بہن ایما،‏ بھائی حام،‏ بھائی سونن برگ اور بھائی سٹیونز کی سزا کو ختم کرنے کا حکم دیا۔‏ یوں وہ قید سے رِہا ہو گئے۔‏

1920ء کے آخر تک ایسا بہت کچھ ہو چُکا تھا جو بائبل سٹوڈنٹس کے لیے بڑی خوشی کا باعث رہا۔‏ مرکزی دفتر میں پہلے سے زیادہ کام ہو رہا تھا اور سچے مسیحی اَور زیادہ جوش سے اِس بات کی مُنادی کر رہے تھے کہ اِنسانوں کے مسئلوں کا واحد حل خدا کی بادشاہت ہے۔‏ (‏متی 24:‏14‏)‏ اِس سے اگلے سال 1921ء میں بائبل سٹوڈنٹس نے بادشاہت کی خوش‌خبری سنانے کے لیے اَور زیادہ کام کِیا۔‏

^ پیراگراف 18 یہ کتاب ‏”‏سٹڈیز اِن دی سکرپچرز“‏ کی ساتویں جِلد تھی۔‏ اِس کے نرم گتے والے ایڈیشن کو ”‎ZG‎“ کہا جاتا تھا جس کو 1 مارچ 1918ء کے ‏”‏دی واچ‌ٹاور“‏ کے شمارے میں چھاپا گیا تھا۔‏ اِس کے نام میں حرف ”‎Z‎“ ‏”‏زائنز واچ‌ٹاور“‏ کی طرف اِشارہ کرتا ہے جبکہ ”‎G‎“ ساتویں جِلد کی طرف اِشارہ کرتا ہے کیونکہ یہ انگریزی کے حروف تہجی میں ساتویں نمبر پر آتا ہے۔‏