مطالعے کا مضمون نمبر 40
سچی توبہ کیا ہوتی ہے؟
”مَیں دینداروں کو بلانے نہیں آیا بلکہ گُناہگاروں کو تاکہ وہ توبہ کریں۔“—لُو 5:32۔
گیت نمبر 36: اپنے دل کی حفاظت کریں
مضمون پر ایک نظر *
1-2. (الف) بادشاہ اخیاب اور بادشاہ منسّی میں کیا فرق تھا؟ (ب) اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟
آئیں، قدیم زمانے میں رہنے والے دو بادشاہوں کی مثال پر غور کریں۔ اِن میں سے ایک اِسرائیل کی سلطنت کا بادشاہ تھا جبکہ دوسرا یہوداہ کی سلطنت کا بادشاہ تھا۔ حالانکہ اِن دونوں بادشاہوں نے فرق فرق دَور میں حکومت کی لیکن اُن میں بہت سی باتیں ملتی جلتی تھیں۔ مثال کے طور پر دونوں نے ہی یہوواہ کے خلاف بغاوت کی اور اُس کے بندوں کو گُناہ کے راستے پر دھکیلا۔ اِس کے علاوہ دونوں نے ہی جھوٹے دیوتاؤں کی پوجا کی اور لوگوں کو قتل کروایا۔ مگر اِن دونوں میں ایک بات فرق تھی۔ ایک نے اپنی موت تک بُرے کام کرنے نہیں چھوڑے جبکہ دوسرے نے اپنے گُناہوں سے توبہ کی اور یہوواہ نے اُسے معاف کر دیا۔ آئیں، دیکھیں کہ یہ دو آدمی کون تھے۔
2 ایک کا نام اخیاب تھا جو اِسرائیل کا بادشاہ تھا اور دوسرے کا نام منسّی تھا جو یہوداہ کا بادشاہ تھا۔ اِن دونوں کی مثالوں سے ہم توبہ کے حوالے سے ایک بہت اہم بات سیکھ سکتے ہیں۔ (اعما 17:30؛ روم 3:23) توبہ کیا ہے اور یہ کیسے ظاہر کی جاتی ہے؟ ہمارے لیے اِن سوالوں کے جواب جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ جب ہم سے گُناہ ہو جاتا ہے تو یہوواہ ہمیں معاف کر دے۔ اِن سوالوں کے جواب جاننے کے لیے ہم بادشاہ اخیاب اور بادشاہ منسّی کی زندگی پر غور کریں گے اور دیکھیں گے کہ ہم اُن سے کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اِس کے بعد ہم غور کریں گے کہ یسوع مسیح نے توبہ کرنے کے بارے میں کیا سکھایا۔
ہم بادشاہ اخیاب سے کیا سبق حاصل کرتے ہیں؟
3. اخیاب کس طرح کا بادشاہ تھا؟
3 اخیاب اِسرائیل کی سلطنت کا ساتواں بادشاہ تھا۔ اُس نے اِیزِبل نامی عورت سے شادی کی تھی جو صیدا کے بادشاہ کی بیٹی تھی۔ وہ ایک امیر قوم سے تھی۔ اِیزِبل سے شادی کرنے کی وجہ سے اخیاب کے ملک میں دولت تو بہت آ گئی لیکن اِس وجہ سے اُس کے ملک کے لوگ پہلے سے بھی زیادہ بُرے کام کرنے لگ گئے۔ اِیزِبل بعل کی پوجا کرتی تھی۔ اُس نے اخیاب کو اُکسایا کہ وہ اِس 1-سلا 18:13) اخیاب نے بھی ’اُن سب [بادشاہوں] سے زیادہ یہوواہ کی نظر میں بدی کی‘ جو اُس سے پہلے آئے تھے۔ (1-سلا 16:30) یہوواہ خدا اخیاب اور اِیزِبل کی ساری حرکتوں کو دیکھ رہا تھا۔ لیکن اُس نے اپنی قوم پر رحم کرتے ہوئے ایلیاہ نبی کو اُس کے پاس بھیجا تاکہ وہ اپنی بُری راہ سے باز آئے۔ لیکن اخیاب اور اِیزِبل نے یہوواہ کی آگاہیوں پر کان نہیں لگایا۔
گھناؤنے مذہب کو فروغ دے جس میں مندروں میں جسمفروشی کرنا اور بچوں کی قربانیاں چڑھانا شامل تھا۔ جب تک اِیزِبل ملکہ رہی تب تک یہوواہ کے ہر نبی کی جان خطرے میں رہی۔ اُس نے بہت سے نبیوں کو مار ڈالا۔ (4. یہوواہ نے اخیاب کو کیا سزا سنائی اور اِس پر اخیاب نے کیا کِیا؟
4 آخرکار یہوواہ کے صبر کی اِنتہا ہو گئی اور اُس نے ایلیاہ نبی کے ذریعے اخیاب اور اِیزِبل کو سزا سنائی۔ اُس نے اُن سے کہا کہ اُن کی نسل کا نامونشان مٹ جائے گا۔ ایلیاہ کے الفاظ اخیاب کو کانٹے کی طرح چبھے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ یہ گھمنڈی آدمی ”[یہوواہ کے] حضور خاکسار بن گیا۔“—1-سلا 21:19-29۔
بادشاہ اخیاب نے خدا کے نبی کو قید میں ڈلوا دیا جس سے ظاہر ہوا کہ اُس نے دل سے توبہ نہیں کی تھی۔ (پیراگراف نمبر 5-6 کو دیکھیں۔) *
5-6. کن باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اخیاب نے دل سے توبہ نہیں کی تھی؟
5 حالانکہ اخیاب نے اِس موقعے پر خاکساری ظاہر کی لیکن اُس نے بعد میں جو کام کیے، اُن سے ظاہر ہوا کہ اُس نے دل سے توبہ نہیں کی تھی۔ اُس نے اپنی سلطنت سے بعل کی پوجا کا نامونشان نہیں مٹایا اور نہ ہی لوگوں کو یہوواہ کی عبادت کی طرف لایا۔ اخیاب نے اَور بھی کئی طریقوں سے ثابت کِیا کہ اُس نے دل سے توبہ نہیں کی تھی۔
6 مثال کے طور پر بعد میں اخیاب نے یہوداہ کے بادشاہ یہوسفط سے مدد مانگی کہ وہ اُس کے ساتھ ارامیوں کے خلاف جنگ لڑیں۔ یہوسفط ایک اچھے بادشاہ تھے اور یہوواہ پر بھروسا کرتے تھے۔ اِس لیے اخیاب کے ساتھ جنگ پر جانے سے پہلے اُنہوں نے اُس سے کہا کہ اُنہیں پہلے یہوواہ کے نبی سے مشورہ کر لینا چاہیے۔ شروع میں اخیاب نے ایسا کرنے سے منع کر دیا اور کہا: ”ایک شخص . . . ہے تو سہی جس کے ذریعہ سے ہم [یہوواہ] سے پوچھ سکتے ہیں لیکن مجھے اُس سے نفرت ہے کیونکہ وہ میرے حق میں نیکی کی نہیں بلکہ بدی کی پیشینگوئی کرتا ہے۔“ بہرحال وہ دونوں میکایاہ نبی سے مشورہ کرنے گئے۔ اخیاب کی بات سچ نکلی۔ میکایاہ نبی نے اخیاب کے بارے میں واقعی بُری خبر سنائی۔ اُن کی بات سُن کر یہوواہ سے معافی مانگنے اور توبہ کرنے کی بجائے اخیاب نے اُنہیں قید میں ڈلوا دیا۔ (1-سلا 22:7-9، 23، 27) بھلے ہی اخیاب یہوواہ کے نبی کو قید میں ڈالنے میں کامیاب ہو گیا لیکن وہ پیشگوئی کو پورا ہونے سے نہیں روک سکا۔ بعد میں جب اخیاب جنگ لڑنے گیا تو وہ مارا گیا۔—1-سلا 22:34-38۔
7. یہوواہ خدا نے اخیاب کے مرنے کے بعد اُس کے بارے میں کیا کہا؟
7 اخیاب کے مرنے کے بعد یہوواہ نے ظاہر کِیا کہ وہ اُسے کیسا خیال کرتا تھا۔ جب بادشاہ یہوسفط جنگ سے صحیح سلامت اپنے گھر لوٹے تو یہوواہ نے یاہو نبی کے ذریعے یہوسفط کو بتایا کہ اُنہوں نے اخیاب کی مدد کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ یاہو نے اُن سے کہا: ”کیا مناسب ہے کہ تُو شریروں کی مدد کرے اور [یہوواہ] کے دشمنوں سے محبت رکھے؟“ (2-توا 19:1، 2) ذرا سوچیں: اگر اخیاب نے دل سے توبہ کی ہوتی تو یہوواہ کبھی بھی اپنے نبی کے ذریعے اُس کے بارے میں یہ نہ کہتا کہ وہ ایک بُرا آدمی تھا اور یہوواہ سے نفرت کرتا تھا۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اخیاب نے اپنے گُناہوں پر کسی حد پچھتاوا تو ظاہر کِیا لیکن اُس نے دل سے توبہ نہیں کی تھی۔
8. اخیاب کے ساتھ جو کچھ ہوا، اُس سے ہم توبہ کرنے کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟
8 ہم اخیاب سے کیا سبق حاصل کرتے ہیں؟ جب ایلیاہ نے اخیاب کو بتایا کہ اُس کی نسل کا نامونشان مٹ جائے گا تو شروع شروع میں اُس نے خاکساری ظاہر کی جو کہ اچھی بات تھی۔ لیکن بعد میں اُس نے اپنے کاموں سے یہ ظاہر کِیا کہ اُس نے دل سے توبہ نہیں کی تھی۔ اِس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ توبہ کرنے میں صرف یہ شامل نہیں ہوتا کہ ہم اپنی غلطیوں پر بس پچھتاوا ظاہر کریں۔ آئیں، اب ایک اَور بادشاہ کی مثال پر غور کریں جس سے ہم دیکھ پائیں گے کہ سچی توبہ میں دراصل کیا کچھ شامل ہوتا ہے۔
ہم بادشاہ منسّی سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
9. منسّی کس طرح کے بادشاہ تھے؟
9 اخیاب کی حکمرانی کے تقریباً دو سو سال بعد منسّی ملک یہوداہ کے بادشاہ بنے۔ اُن کے گُناہ تو اخیاب کے گُناہوں سے بھی زیادہ سنگین تھے۔ بائبل میں منسّی کے بارے میں بتایا گیا ہے: ”اُس نے [یہوواہ] کی نظر 2-توا 33:1-9) منسّی نے جھوٹے دیوتاؤں کے لیے قربانگاہیں بنوائیں، یہاں تک کہ یہوواہ کی ہیکل کے بیچ و بیچ ایک دیوی کی مورتی بنوائی۔ وہ جادو منتر کِیا کرتے تھے اور شگون نکالتے تھے۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے ”بےگُناہوں کا خون بھی اِس قدر کِیا کہ یرؔوشلیم اِس سرے سے اُس سرے تک بھر گیا۔“ اُنہوں نے بڑی بےرحمی سے بہت سے لوگوں کو قتل کروایا۔ اِتنا ہی نہیں، اُنہوں نے جھوٹے دیوتاؤں کے حضور قربانی چڑھانے کے لیے اپنے بیٹوں کو بھی ”آگ میں چلوایا۔“—2-سلا 21:6، 7، 10، 11، 16۔
میں بہت بدکاری کی جس سے اُسے غصہ دِلایا۔“ (10. یہوواہ خدا نے منسّی کی اِصلاح کیسے کی اور اِس پر منسّی نے کیا کِیا؟
10 اخیاب کی طرح منسّی نے بھی اُن آگاہیوں کو نہیں سنا جو یہوواہ نے اپنے نبیوں کے ذریعے اُنہیں دیں۔ اِس لیے آخرکار یہوواہ ”[یہوداہ] پر شاہِاسوؔر کے سپہسالاروں کو چڑھا لایا جو منسیؔ کو زنجیروں سے جکڑ کر اور بیڑیاں ڈال کر بابلؔ کو لے گئے۔“ جب منسّی بابل میں قید تھے تو لگتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے سنگین گُناہوں پر سنجیدگی سے غور کِیا۔ وہ ’اپنے باپدادا کے خدا کے حضور نہایت خاکسار بنے۔‘ لیکن اُنہوں نے صرف اِتنا ہی نہیں کِیا۔ اُنہوں نے اپنی بُری روِش کو بدل لیا، یہوواہ کو ’اپنا خدا‘ تسلیم کر لیا اور اُس سے شدت سے دُعائیں کرنے لگے۔—2-توا 33:10-13۔
بادشاہ منسّی نے دل سے توبہ کی تھی۔ اِس لیے اُنہوں نے جھوٹے دیوتاؤں کی عبادت کی مخالفت کی۔ (پیراگراف نمبر 11 کو دیکھیں۔) *
11. دوسری تواریخ 33:15، 16 کے مطابق منسّی نے کیسے ظاہر کِیا کہ اُنہوں نے دل سے توبہ کی تھی؟
11 وقت آنے پر یہوواہ نے منسّی کی دُعاؤں کا جواب دیا۔ اُس نے دیکھا کہ اُنہوں نے واقعی خود کو بدل لیا ہے جو کہ اُن کی دُعاؤں سے ظاہر ہوا۔ اِس لیے یہوواہ نے منسّی کی اِلتجا سنی، اُنہیں معاف کر دیا اور اُنہیں پھر سے بادشاہ بنا دیا۔ منسّی نے یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی کہ اُنہوں نے دل سے توبہ کی ہے۔ اُنہوں نے وہ کام کِیا جو اخیاب نے نہیں کِیا تھا۔ اُنہوں نے اپنا چالچلن بدل لیا، جھوٹے دیوتاؤں کی پرستش کی مخالفت کی اور دوسروں کو یہوواہ کی عبادت کی طرف لائے۔ (2-تواریخ 33:15، 16 کو پڑھیں۔) ایسا کرنے کے لیے منسّی کو بڑی دلیری اور ایمان کی ضرورت تھی کیونکہ وہ کئی سالوں سے اپنے گھر والوں، اعلیٰ عہدہ رکھنے والوں اور اپنی قوم کے لیے ایک بُری مثال قائم کر رہے تھے۔ لیکن اب جب اُن کی حکمرانی کے آخری سال چل رہے تھے تو اُنہوں نے اُس نقصان کی بھرپائی کرنے کی پوری کوشش کی جو اُن کے غلط کاموں کی وجہ سے ہوا تھا۔ یقیناً اُنہوں نے اپنے پوتے یوسیاہ کے لیے اچھی مثال قائم کی تھی کیونکہ بعد میں یوسیاہ ایک اچھے بادشاہ ثابت ہوئے۔—2-سلا 22:1، 2۔
12. ہم منسّی کی مثال سے توبہ کرنے کے بارے میں کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں؟
12 ہم منسّی سے کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں؟ اُنہوں نے خاکساری ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ اَور بھی کچھ کِیا۔ اُنہوں نے یہوواہ سے دُعا کی اور رحم کی اِلتجا کی۔ اُنہوں نے اپنے رویے اور چالچلن کو بدل ڈالا۔ اُنہوں نے اُس نقصان کی بھرپائی کرنے کی پوری کوشش کی جو اُن کے کاموں کی وجہ سے ہوا تھا۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے یہوواہ کی عبادت کی پوری حمایت کی اور ایسا کرنے میں دوسروں کی بھی مدد کی۔ منسّی کی مثال پر غور کرنے سے اُن لوگوں کو حوصلہ ملتا ہے جنہوں نے سنگین گُناہ کیے ہیں۔ اُن کی مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ یہوواہ ”نیک اور معاف کرنے کو تیار ہے۔“ (زبور 86:5) لیکن وہ صرف اُنہی لوگوں کو معاف کرتا ہے جو دل سے توبہ کرتے ہیں۔
13. ایک مثال دیں جس سے ہم توبہ کرنے کے سلسلے میں ایک اہم بات سیکھتے ہیں۔
13 منسّی نے اپنے گُناہوں پر صرف شرمندگی ہی ظاہر نہیں کی بلکہ اَور بھی
کچھ کِیا۔ اِس سے ہم توبہ کرنے کے بارے میں ایک اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ذرا اِس مثال پر غور کریں۔ فرض کریں کہ آپ ایک بیکری جاتے ہیں اور وہاں دُکاندار سے کہتے ہیں کہ وہ آپ کو ایک کیک لا کر دے۔ لیکن دُکاندار آپ کو کیک دینے کی بجائے آپ کے ہاتھ میں ایک انڈا پکڑا دیتا ہے۔ کیا اِس انڈے کو حاصل کر کے آپ بڑے خوش ہوں گے؟ یقیناً نہیں۔ مگر جب دُکاندار آپ کو یہ بتاتا ہے کہ کیک بنانے کے لیے انڈا بہت ضروری ہوتا ہے تو کیا آپ مطمئن ہو جائیں گے؟ ظاہری بات ہے کہ نہیں۔ اب ذرا اِس مثال کو اِس صورتحال پر لاگو کریں۔ یہوواہ ایک گُناہگار شخص سے کہتا ہے کہ وہ اپنے گُناہ پر دل سے توبہ کرے۔ لیکن اگر گُناہ کرنے والا شخص اپنے گُناہ پر صرف شرمندگی ظاہر کرتا ہے تو کیا یہ کافی ہوگا؟ سچ ہے کہ توبہ کرنے کے لیے شرمندگی کا احساس ضروری ہے۔ لیکن صرف یہی کافی نہیں۔ ایک گُناہگار شخص کو کچھ اَور بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ آئیں، اِس حوالے سے یسوع کی ایک مثال پر غور کریں جو ہمارے دلوں کو چُھو لیتی ہے۔یہ اندازہ کیسے لگائیں کہ ایک شخص نے دل سے توبہ کی ہے؟
اپنے باپ کا گھر چھوڑ کر چلے جانے والے بیٹے کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ اپنے گھر لوٹ آیا۔ (پیراگراف نمبر 14-15 کو دیکھیں۔) *
14. یسوع مسیح کی مثال کے مطابق سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے بیٹے نے یہ کیسے ظاہر کرنا شروع کِیا کہ اُس نے توبہ کر لی تھی؟
14 لُوقا 15:11-32 میں یسوع مسیح نے دل کو چُھو لینے والی ایک مثال دی جس میں ایک شخص سیدھی راہ سے بھٹک جاتا ہے۔ وہ اپنے باپ سے بغاوت کرتا ہے، گھر چھوڑ دیتا ہے اور ”ایک دُوردراز ملک“ میں جا کر رہنے لگتا ہے۔ وہاں وہ ایک بد چلن زندگی گزارتا ہے۔ لیکن جب اُس پر مشکلیں آتی ہیں تو وہ سنجیدگی سے سوچنے لگتا ہے کہ اُس نے کتنا غلط فیصلہ کِیا تھا۔ یسوع مسیح نے بتایا کہ ”اُسے ہوش آیا“ یعنی اُسے احساس ہوا کہ اپنے باپ کے گھر میں وہ کتنی اچھی زندگی گزار رہا تھا۔ وہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ واپس گھر جائے گا اور اپنے باپ سے معافی مانگے گا۔ یہ بہت اہم بات تھی کہ اُسے یہ احساس ہوا کہ اُس نے جو فیصلہ کِیا، وہ غلط تھا۔ لیکن کیا یہ احساس ہونا ہی کافی تھا؟ جی نہیں۔ اُسے اَور بھی کچھ کرنے کی ضرورت تھی۔
15. یہ کیسے ثابت ہوا کہ بھٹکے ہوئے بیٹے نے واقعی دل سے توبہ کی تھی؟
15 بھٹکے ہوئے بیٹے نے اپنے کاموں سے ظاہر کِیا کہ اُس نے دل سے توبہ کر لی ہے۔ وہ ایک لمبا سفر کر کے گھر گیا۔ وہاں پہنچ کر اُس نے اپنے باپ سے کہا: ”ابو، مَیں نے خدا کے خلاف اور آپ کے خلاف گُناہ کِیا ہے۔ مَیں آپ کا بیٹا کہلانے کے لائق نہیں رہا۔“ (لُو 15:21) اُس نے دل سے اپنا گُناہ تسلیم کِیا جس سے ظاہر ہوا کہ وہ پھر سے یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ اُسے اِس بات کا بھی پورا احساس تھا کہ اُس کے کاموں کی وجہ سے اُس کے باپ کا دل بہت دُکھا ہے۔ اِس لیے وہ اپنے باپ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرنے کو تیار تھا، یہاں تک کہ اُس کے لیے ایک مزدور کے طور پر کام کرنے کو بھی تیار تھا! (لُو 15:19) یسوع مسیح کی یہ مثال صرف دل کو چُھو لینے والی کہانی نہیں ہے۔ اِس میں بتائے گئے اصول اُس وقت بزرگوں کے بہت کام آ سکتے ہیں جب وہ اِس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ گُناہ کرنے والے شخص نے دل سے توبہ کر لی ہے یا نہیں۔
16. بزرگوں کے لیے اِس بات کا اندازہ لگانا مشکل کیوں ہو سکتا ہے کہ ایک شخص نے دل سے توبہ کی ہے یا نہیں؟
16 بزرگوں کے لیے اِس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہو سکتا ہے کہ ایک شخص نے دل سے توبہ کر لی ہے یا نہیں۔ کیوں؟ کیونکہ بزرگ کسی شخص کا دل نہیں پڑھ سکتے۔ اِس لیے وہ اِس بات کے ثبوت ڈھونڈتے ہیں کہ کیا
گُناہ کرنے والے شخص کو واقعی اپنے گُناہ کی سنگینی کا احساس ہو گیا ہے۔ کبھی کبھار ایک شخص نے اِتنی ہٹدھرمی سے گُناہ کِیا ہوتا ہے کہ بزرگوں کو یہ یقین کرنا مشکل لگتا ہے کہ اُس نے واقعی دل سے توبہ کی ہے۔17. (الف) ایک مثال سے یہ کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنی غلطی پر صرف پچھتانے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ایک شخص نے دل سے توبہ کی ہے؟ (ب) 2-کُرنتھیوں 7:11 کی روشنی میں بتائیں کہ اُس شخص سے کیا توقع کی جاتی ہے جو دل سے توبہ کرتا ہے۔
17 اِس سلسلے میں ذرا اِس مثال پر غور کریں۔ ایک بھائی کئی بار اور کئی سالوں سے زِناکاری کر رہا ہے۔ اِس حوالے سے مدد مانگنے کی بجائے وہ اپنا گُناہ اپنی بیوی، دوستوں اور بزرگوں سے چھپاتا ہے۔ آخرکار بزرگوں کو اُس کے اِس گُناہ کے بارے میں پتہ چل جاتا ہے۔ جب بزرگ ثبوتوں کی بِنا پر اُس سے بات کرتے ہیں تو وہ اپنا گُناہ تسلیم کر لیتا ہے اور اِس پر شرمندگی ظاہر کرتا ہے۔ لیکن کیا صرف ایسا کرنے سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ اُس نے دل سے توبہ کر لی ہے؟ جی نہیں۔ ایسے معاملے کو حل کرتے وقت بزرگ صرف یہی نہیں دیکھتے کہ وہ شخص اپنے گُناہ پر شرمندہ ہے۔ ظاہری بات ہے کہ اُس شخص نے صرف ایک بار گُناہ نہیں کِیا بلکہ وہ کئی سالوں سے اِسے کرتا آ رہا تھا۔ اِس کے علاوہ اُس نے خود بزرگوں کے پاس جا کر اپنا گُناہ تسلیم نہیں کِیا بلکہ بزرگوں کو کسی اَور سے اُس کے گُناہ کے بارے میں پتہ چلا۔ اِس لیے بزرگ ایسے ثبوتوں پر غور کرتے ہیں جن سے یہ واضح ہو جائے کہ گُناہ کرنے والے شخص نے واقعی اپنی سوچ اور چالچلن کو بدل لیا ہے یا نہیں۔ (2-کُرنتھیوں 7:11 کو پڑھیں۔) ہو سکتا ہے کہ اُس شخص کو اپنے اندر یہ تبدیلیاں لانے میں کافی وقت لگے۔ اِس لیے بزرگ اُسے تب تک کلیسیا سے خارج کر دیتے ہیں جب تک وہ خود کو مکمل طور پر بدل نہیں لیتا۔—1-کُر 5:11-13؛ 6:9، 10۔
18. (الف) کلیسیا سے خارج ہونے والا شخص کیسے ظاہر کر سکتا ہے کہ اُس نے دل سے توبہ کی ہے؟ (ب) دل سے توبہ کرنے کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟
18 اگر ایک خارجشُدہ شخص یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اُس نے دل سے توبہ کر لی ہے تو وہ باقاعدگی سے اِجلاسوں پر آئے گا اور بزرگوں کی صلاح پر عمل کرتے ہوئے باقاعدگی سے یہوواہ سے دُعا کرے گا اور اُس کے کلام کو پڑھے گا۔ وہ ایسی صورتحال سے دُور رہنے کی پوری کوشش کرے گا جس کی وجہ سے وہ دوبارہ گُناہ کرنے کے خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اگر وہ یہوواہ کے ساتھ پھر سے اپنی دوستی مضبوط کرنے کی پوری کوشش کرے گا تو وہ پکا یقین رکھ سکتا ہے کہ یہوواہ اُسے معاف کر دے گا اور بزرگ اُسے کلیسیا میں بحال کر دیں گے۔ بےشک جب بزرگ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ گُناہ کرنے والے شخص نے دل سے توبہ کی ہے یا نہیں تو وہ اِس بات کو ذہن میں رکھتے ہیں کہ ایک معاملہ دوسرے معاملے سے فرق ہوتا ہے۔ اِس لیے وہ ہر معاملے کا بہت ہی سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہیں اور فیصلہ کرتے وقت سختدلی سے کام نہیں لیتے۔
19. دل سے توبہ کرنے میں کیا شامل ہے؟ (حِزقیایل 33:14-16)
19 ہم نے سیکھ لیا ہے کہ جب ایک شخص سے سنگین گُناہ ہو جاتا ہے تو صرف معافی مانگ لینا کافی نہیں ہوتا۔ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ وہ شخص اپنی سوچ کو بدلے اور اپنے کاموں سے یہ ظاہر کرے کہ اُس نے دل سے توبہ کر لی ہے۔ ایسا کرنے میں یہ شامل ہے کہ وہ شخص اپنی بُری روِش کو چھوڑ کر پھر سے یہوواہ کے معیاروں کے مطابق زندگی گزارے۔ (حِزقیایل کو پڑھیں۔) گُناہ کرنے والے شخص کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہونی چاہیے کہ وہ یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی بحال کرے۔ 33:14-16
گُناہگاروں کی مدد کریں کہ وہ توبہ کریں
20-21. ہم اُس شخص کی مدد کیسے کر سکتے ہیں جو سنگین گُناہ کر بیٹھتا ہے؟
20 یسوع مسیح نے بتایا کہ اُن کے زمین پر آنے کی ایک اہم وجہ کیا تھی۔ اُنہوں نے کہا: ”مَیں دینداروں کو بلانے نہیں آیا بلکہ گُناہگاروں کو تاکہ وہ توبہ کریں۔“ (لُو 5:32) ہماری بھی یہی خواہش ہونی چاہیے۔ تو پھر اگر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے کسی قریبی دوست نے کوئی سنگین گُناہ کِیا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
21 اگر ہم اُس کا گُناہ چھپانے کی کوشش کریں گے تو اصل میں ہم اپنے دوست کو نقصان پہنچا رہے ہوں گے۔ اور ویسے بھی اُس کے گُناہ کو چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ یہوواہ سب دیکھ رہا ہے۔ (امثا 5:21، 22؛ 28:13) آپ اپنے دوست کو بتا سکتے ہیں کہ بزرگ گُناہ کرنے والے شخص کی دل سے مدد کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر وہ بزرگوں کے سامنے اپنے گُناہ کا اِقرار کرنے سے اِنکار کر دیتا ہے تو آپ کو خود بزرگوں کو اِس کے بارے میں بتانا چاہیے۔ ایسا کرنے سے آپ ظاہر کریں گے کہ آپ واقعی اُس کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ آپ کا دوست بزرگوں سے مدد لے اور توبہ کرے کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کر ے گا تو یہوواہ کے ساتھ اُس کی دوستی ٹوٹ سکتی ہے۔
22. اگلے مضمون میں ہم کس بارے میں بات کریں گے؟
22 ہو سکتا ہے کہ ایک شخص گُناہ کے راستے پر بہت آگے نکل گیا ہو اور بزرگ اُسے کلیسیا سے خارج کرنے کا فیصلہ کریں۔ کیا اُن کے اِس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اُس شخص کے ساتھ رحم سے پیش نہیں آ رہے؟ اگلے مضمون میں ہم اِس بارے میں بات کریں گے کہ یہوواہ کس طرح سے گُناہ کرنے والے لوگوں کی اِصلاح کرتے وقت رحم ظاہر کرتا ہے اور ہم اُس کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔
گیت نمبر 103: ”آدمیوں کے رُوپ میں نعمتیں“
^ پیراگراف 5 سچی توبہ میں صرف یہ بات شامل نہیں ہوتی کہ ہم اپنے گُناہ کے لیے معافی مانگیں۔ اِس مضمون میں ہم بادشاہ اخیاب، بادشاہ منسّی اور سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے اُس بیٹے کی مثال پر غور کریں گے جس کا ذکر یسوع مسیح نے کِیا۔ یوں ہم بہتر طور پر سمجھ پائیں گے کہ توبہ کرنے کا اصل میں کیا مطلب ہے۔ اِس مضمون میں ہم کچھ ایسی باتوں پر بھی غور کریں گے جن پر بزرگوں کو اُس وقت دھیان دینا چاہیے جب وہ یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ سنگین گُناہ کرنے والے شخص نے دل سے توبہ کی ہے یا نہیں۔
^ پیراگراف 60 تصویر کی وضاحت: بادشاہ اخیاب بڑے غصے سے اپنے سپاہیوں کو یہ حکم دے رہا ہے کہ وہ میکایاہ نبی کو قید میں ڈال دیں۔
^ پیراگراف 62 تصویر کی وضاحت: بادشاہ منسّی کچھ آدمیوں کو یہ ہدایت دے رہے ہیں کہ وہ اُن مورتیوں کو تباہ کر دیں جو منسّی نے ہیکل میں لگوائی تھیں۔
^ پیراگراف 64 تصویر کی وضاحت: سیدھی راہ سے بھٹکا ہوا بیٹا ایک لمبا سفر کرنے کے بعد تھک کر چُور ہو گیا ہے۔ لیکن جب وہ تھوڑی دُور اپنے گھر کو دیکھتا ہے تو اُسے حوصلہ ملتا ہے۔