بنیاِسرائیل نے جنگیں لڑیں—ہم ایسا کیوں نہیں کرتے؟
”اگر تُم میں سے کسی نے بھی فرانس یا اِنگلینڈ کے خلاف جنگ لڑنے سے اِنکار کِیا تو تُم سب مارے جاؤ گے!“ یہ بات دوسری عالمی جنگ میں نازیوں کے افسر نے بڑے غصے سے یہوواہ کے گواہوں کے ایک گروہ سے کہی۔ حالانکہ فوجی اِس افسر کے حکم پر عمل کرنے کے لیے بالکل تیار کھڑے تھے لیکن ہمارے ایک بھی بھائی یا بہن نے اُن کے آگے گُھٹنے نہیں ٹیکے۔ اُنہوں نے بڑی دلیری کا مظاہرہ کِیا! اُن کی مثال سے یہ بات صاف ظاہر ہو جاتی ہے کہ یہوواہ کے گواہ جنگ کے حوالے سے کیا سوچ رکھتے ہیں۔ ہم اِس دُنیا میں ہونے والی جنگوں میں حصہ نہیں لیتے۔ چاہے ہمیں جان سے مار ڈالنے کی دھمکی ہی کیوں نہ دی جائے، ہم دُنیا میں ہونے والی جنگوں میں کسی کی طرفداری نہیں کرتے۔
لیکن مسیحی ہونے کا دعویٰ کرنے والا ہر شخص اِس بات سے اِتفاق نہیں کرتا۔ اُن میں سے بہت سے یہ مانتے ہیں کہ ایک شخص کو اپنے ملک کا دِفاع کرنا چاہیے۔ شاید وہ یہ جواز پیش کریں: ”بنیاِسرائیل خدا کے بندے تھے اور اُنہوں نے جنگیں لڑیں۔ اگر اُنہوں نے ایسا کِیا تو آج مسیحی ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟“ آپ اِس بات کا کیا جواب دیں گے؟ آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ ماضی میں خدا کے بندوں کی صورتحال آج اُس کے بندوں کی صورتحال سے بالکل فرق ہے۔ آئیے، دیکھیں کہ اُن کی صورتحال کن پانچ لحاظ سے ہماری صورتحال سے فرق تھی۔
1. خدا کے سب بندے ایک ہی قوم سے تھے
ماضی میں یہوواہ نے ایک ہی قوم کو یعنی بنیاِسرائیل کو اپنی قوم کے طور پر چُنا۔ اُس نے بنیاِسرائیل کو ’سب قوموں میں سے اپنی خاص ملکیت ٹھہرایا۔‘ (خر 19:5) اُس نے اُنہیں ایک خاص ملک بھی دیا۔ اِس لیے جب خدا نے بنیاِسرائیل کو حکم دیا کہ وہ دوسری قوموں سے جنگ لڑیں تو اُنہیں اپنی قوم کے لوگوں سے نہیں لڑنا تھا یا اُنہیں قتل نہیں کرنا تھا۔ *
آج یہوواہ کے بندے ”سب قوموں، قبیلوں، نسلوں اور زبانوں سے“ ہیں۔ (مکا 7:9) اِس لیے اگر وہ آج جنگوں میں حصہ لیں گے تو وہ اپنے ہی ہمایمانوں سے لڑ رہے ہوں گے، یہاں تک کہ اُنہیں قتل کر رہے ہوں گے۔
2. یہوواہ نے بنیاِسرائیل کو حکم دیا کہ وہ جنگ لڑیں
ماضی میں یہوواہ یہ فیصلہ کرتا تھا کہ بنیاِسرائیل کو کب جنگ لڑنی ہے اور اُنہیں یہ جنگ کیوں لڑنی ہے۔ مثال کے طور پر یہوواہ نے بنیاِسرائیل کو حکم دیا کہ وہ کنعانیوں کو ختم کر دیں کیونکہ وہ اُنہیں سزا دینا چاہتا تھا۔ کنعانی بُرے فرشتوں کی پوجا کرتے تھے، بہت ہی گھٹیا جنسی کام کرتے تھے اور بچوں کی قربانی چڑھاتے تھے۔ یہوواہ بنیاِسرائیل کو کنعانیوں کا ملک دینا چاہتا تھا اِس لیے اُس نے اُنہیں حکم دیا کہ وہ اُس ملک سے اِن بُرے لوگوں کے اثر کو مکمل طور پر ختم کر دیں۔ (احبا 18:24، 25) جب بنیاِسرائیل ملک کنعان میں بس گئے تو کبھی کبھار یہوواہ نے اُنہیں اپنے ملک کا دِفاع کرنے کے لیے اپنے دُشمنوں سے لڑنے کی اِجازت دی کیونکہ وہ اُن پر ظلم ڈھا رہے تھے۔ (2-سمو 5:17-25) لیکن یہوواہ نے کسی بھی صورت میں بنیاِسرائیل کو خود یہ فیصلہ کرنے کی اِجازت نہیں دی کہ وہ جنگ لڑیں گے۔ جب بھی اُنہوں نے ایسا کِیا تو اِس کے اکثر بہت بھیانک نتیجے نکلے۔—گن 14:41-45؛ 2-توا 35:20-24۔
آج یہوواہ اِنسانوں سے یہ نہیں کہتا کہ وہ جنگ لڑیں۔ قومیں اپنے فائدے کے لیے جنگیں لڑتی ہیں نہ کہ خدا کی مرضی پوری کرنے کے لیے۔ قومیں اِس لیے ایک دوسرے کے ساتھ جنگ لڑتی ہیں کیونکہ وہ ایک دوسرے کے ملک پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں، زیادہ پیسہ کمانا چاہتی ہیں یا اپنے سیاسی نظریوں کو فروغ دینا چاہتی ہیں۔ لیکن اُن لوگوں کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے کہ جو مذہب کے نام پر جنگیں لڑتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ خدا کے دُشمنوں کو مار رہے ہیں؟ یہوواہ ابھی نہیں بلکہ مستقبل میں ہرمجِدّون کی جنگ میں اپنے دُشمنوں کو ہلاک کرے گا اور اپنے بندوں کو بچائے گا۔ (مکا 16:14، 16) اِس جنگ میں خدا کی فوج میں صرف اُس کی آسمانی فوجیں شامل ہوں گی، زمین پر اُس کے بندے نہیں۔—مکا 19:11-15۔
3. بنیاِسرائیل نے اُن لوگوں کو نہیں مارا جنہوں نے یہوواہ پر ایمان ظاہر کِیا
ماضی میں بنیاِسرائیل کی فوج نے اکثر اُن لوگوں پر رحم کِیا جنہوں نے خدا پر ایمان ظاہر کِیا۔ اُنہوں نے صرف اُنہی لوگوں کو مارا جنہیں خدا نے سزا دینے کا حکم دیا تھا۔ اِس سلسلے میں ذرا دو مثالوں پر غور کریں۔ حالانکہ خدا نے یریحو کو تباہ کرنے کا حکم دیا تھا لیکن بنیاِسرائیل نے راحب اور اُن کے گھر والوں کو نہیں مارا کیونکہ وہ یہوواہ پر ایمان لے آئے تھے۔ (یشو 2:9-16؛ 6:16، 17) بعد میں بنیاِسرائیل نے شہر جبعون کو بخش دیا کیونکہ جبعونیوں نے یہوواہ کے لیے گہرا احترام ظاہر کِیا۔—یشو 9:3-9، 17-19۔
آج قومیں جنگ لڑتے وقت اُن لوگوں کی جانیں نہیں بخشتیں جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ کبھی کبھار تو وہ بےگُناہ شہریوں کا خون بہانے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتیں۔
4. بنیاِسرائیل کو جنگ کے حوالے سے یہوواہ کے حکموں پر عمل کرنا تھا
ماضی میں یہوواہ بنیاِسرائیل کے فوجیوں سے اِس بات کی توقع کرتا تھا کہ وہ جنگ کے حوالے سے اُس کی ہدایتوں پر عمل کریں۔ مثال کے طور پر کچھ موقعوں پر خدا نے اُن سے یہ کہا: ”جب تُو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اُس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اُسے صلح کا پیغام دینا۔“ (اِست 20:10) یہوواہ بنیاِسرائیل کے فوجیوں سے یہ توقع بھی کرتا تھا کہ وہ خود کو اور اپنے خیموں کو پاک صاف رکھیں اور کوئی بھی ناپاک حرکت نہ کریں۔ (اِست 23:9-14) اُن کے اِردگِرد کی قومیں جس ملک پر فتح پا لیتی تھیں، اکثر وہ اُس ملک کی عورتوں کی عزت لُوٹ لیتی تھیں۔ لیکن یہوواہ نے بنیاِسرائیل کو ایسا کرنے سے سختی سے منع کِیا تھا۔ وہ تو جس ملک کو فتح کرتے تھے، وہاں کی اسیر کی ہوئی عورتوں سے ایک مہینے تک شادی نہیں کر سکتے تھے۔—اِست 21:10-13۔
آج زیادہتر ملکوں نے کچھ بینالاقوامی معاہدوں پر دستخط کیے ہوئے ہیں جس میں اُنہوں نے جنگ لڑنے کے حوالے سے اصول بنائے ہوئے ہیں۔ حالانکہ اُنہوں نے یہ اصول شہریوں کی حفاظت کرنے کے لیے بنائے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ وہ اِنہیں اکثر توڑ دیتے ہیں۔
5. خدا نے اپنے بندوں کے لیے جنگیں لڑیں
ماضی میں یہوواہ بنیاِسرائیل کے لیے لڑا۔ کئی بار اُس نے معجزے کر کے اپنے بندوں کو فتح دِلائی۔ ذرا غور کریں کہ یہوواہ نے شہر یریحو کو شکست دینے کے لیے بنیاِسرائیل کی مدد کیسے کی۔ جب یہوواہ کی ہدایت پر بنیاِسرائیل نے بلند آواز میں جنگ کا نعرہ لگایا تو شہر کی دیواریں گِر پڑیں۔ اِس طرح اُن کے لیے شہر پر قبضہ کرنا آسان ہو گیا۔ (یشو 6:20) اور یہوواہ نے اموریوں سے جنگ لڑنے میں بنیاِسرائیل کی مدد کیسے کی؟ اُس نے ”آسمان سے اُن پر بڑے بڑے پتھر برسائے اور وہ مر گئے اور جو اَولوں سے مرے وہ اُن سے جن کو بنیاِسرائیل نے تہِتیغ کیا کہیں زیادہ تھے۔“—یشو 10:6-11۔
آج یہوواہ کسی بھی قوم کے لیے جنگ نہیں لڑتا۔ اُس کی بادشاہت اور اِس بادشاہت کے بادشاہ یسوع مسیح کا ”اِس دُنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“ (یوح 18:36) دراصل اِنسانی حکومتوں پر شیطان کا اِختیار ہے۔ دُنیا میں لڑی جانے والی بھیانک جنگیں اُسی کی سوچ کو ظاہر کرتی ہیں۔—لُو 4:5، 6؛ 1-یوح 5:19۔
سچے مسیحی صلحپسند ہیں
ہم نے دیکھ لیا ہے کہ آج ہماری صورتحال ماضی میں خدا کے بندوں کی صورتحال سے بالکل فرق ہے۔ اِس مضمون میں ہم نے پانچ ایسی وجوہات پر غور کِیا جن کی بِنا پر ہم جنگ نہیں لڑتے۔ لیکن ہمارے پاس جنگ نہ لڑنے کی اَور بھی وجوہات ہیں۔ مثال کے طور پر خدا نے پہلے سے بتا دیا تھا کہ آخری زمانے میں اُس کے بندے ”جنگ کرنا نہ سیکھیں گے“ جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اُس کے بندے جنگوں میں حصہ نہیں لیں گے۔ (یسع 2:2-4) اِس کے علاوہ یسوع مسیح نے بھی کہا تھا کہ اُن کے پیروکار ”دُنیا کا حصہ نہیں“ ہوں گے جس کا مطلب ہے کہ وہ دُنیا میں ہونے والے جنگوں میں کسی کی طرفداری نہیں کریں گے۔—یوح 15:19۔
یسوع مسیح نے تو اپنے پیروکاروں کو ایک ایسا کام کرنے کو کہا جس کی وجہ سے اُنہیں جنگ لڑنی ہی نہ پڑے۔ اُنہوں نے اُنہیں ہدایت دی کہ وہ ایسی سوچ سے ہی دُور رہیں جس کی وجہ سے اُنہیں غصہ آئے، اُن کے دل میں کسی کے لیے رنجش پیدا ہو یا وہ جنگ لڑیں۔ (متی 5:21، 22) اُنہوں نے اپنے پیروکاروں کو یہ ہدایت بھی دی کہ وہ ”صلحپسند“ بنیں اور اپنے دُشمنوں سے محبت کریں۔—متی 5:9، 44۔
ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ بےشک ہم کسی سے جنگ نہیں لڑنا چاہتے۔ لیکن کیا ہم دل ہی دل میں کلیسیا کے کسی بھائی یا بہن کو اپنا دُشمن سمجھتے ہیں؟ آئیے، پوری کوشش کریں کہ ہم اپنے دل سے ایسی باتوں کو نکال دیں۔—یعقو 4:1، 11۔
ہم قوموں کے درمیان ہونے والی جنگوں میں حصہ نہیں لیتے۔ اِس کی بجائے ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ ہم امن کو فروغ دیں اور ایک دوسرے سے محبت کریں۔ (یوح 13:34، 35) آئیں، یہ عزم کریں کہ ہم تب تک سیاسی معاملوں میں کسی کی طرفداری نہیں کریں گے جب تک وہ دن نہیں آ جاتا جب یہوواہ جنگ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گا۔—زبور 46:9۔
^ کبھی کبھار اِسرائیلی قبیلوں نے ایک دوسرے سے بھی جنگ لڑی حالانکہ یہوواہ اِس سے بالکل بھی خوش نہیں تھا۔ (1-سلا 12:24) لیکن کچھ موقعوں پر یہوواہ نے یہ جنگیں ہونے دیں کیونکہ کچھ قبیلوں نے یا تو اُس سے مُنہ موڑ لیا تھا یا اُس کے خلاف بہت بڑے گُناہ کیے تھے۔—قضا 20:3-35؛ 2-توا 13:3-18؛ 25:14-22؛ 28:1-8۔