شادی کے رواج کی شروعات اور مقصد
”[یہوواہ] خدا نے کہا کہ آؔدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں۔ مَیں اُس کے لئے ایک مددگار . . . بناؤں گا۔“—پید 2:18۔
1، 2. (الف) شادی کا رواج کیسے وجود میں آیا؟ (ب) خدا نے آدم اور حوا پر شادی کے بندھن کے بارے میں کیا ظاہر کِیا؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
اِنسان ہزاروں سال سے شادی کرتے اور کراتے آئے ہیں۔ اگر ہم جانتے ہیں کہ شادی کا رواج کیسے اور کیوں وجود میں آیا تو ہم اِس بندھن کے بارے میں صحیح نظریہ اپنا سکیں گے اور اِس سے زیادہ خوشیاں حاصل کر سکیں گے۔ جب خدا نے پہلے اِنسان یعنی آدم کو بنایا تو وہ جانوروں کو آدم کے پاس لایا تاکہ آدم اُن کو نام دے سکیں۔ ”پر آؔدم کے لئے کوئی مددگار اُس کی مانند نہ ملا۔“ اِس لیے خدا نے آدم کو گہری نیند سلا دیا، اُن کی ایک پسلی لی، اِس سے عورت کو بنایا اور اِس عورت کو آدم کے پاس لایا۔ (پیدایش 2:20-24 کو پڑھیں۔) یوں خدا نے اِنسانی تاریخ کی پہلی شادی کرائی۔
2 یسوع مسیح کے مطابق یہوواہ ہی نے اُس موقعے پر کہا تھا کہ ”مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑ دے گا اور اپنی بیوی کے ساتھ جُڑا رہے گا اور وہ دونوں ایک بن جائیں گے۔“ (متی 19:4، 5) خدا کی اِس بات سے ظاہر ہوا کہ وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ اِس بندھن کو طلاق سے توڑا جائے یا ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ جیون ساتھی رکھے جائیں۔ خدا نے پہلی عورت کو بنانے کے لیے آدم کی پسلی اِستعمال کی جس سے آدم اور حوا پر ظاہر ہوا ہوگا کہ اُن کا رشتہ کتنا قریبی ہے۔
شادی کے رواج کا مقصد
3. شادی کا رواج رائج کرنے کا خاص مقصد کیا تھا؟
3 آدم اپنی بیوی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اُنہوں نے اُس کا نام حوا رکھا۔ چونکہ حوا، آدم کی مانند تھیں اِس لیے وہ اُن کی ”مددگار“ بن سکتی تھیں اور وہ دونوں میاں بیوی کے طور پر اپنی اپنی ذمےداریاں پوری کرنے سے ایک دوسرے کو بڑی خوشیاں دے سکتے تھے۔ (پید 2:18) شادی کا رواج رائج کرنے کا خاص مقصد یہ تھا کہ زمین اِنسانوں سے آباد ہو جائے۔ (پید 1:28) خدا چاہتا تھا کہ بیٹے اور بیٹیاں اپنے والدین کو چھوڑ کر اپنا گھر بسائیں۔ اِس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ اپنے والدین سے پیار کرنا چھوڑ دیں بلکہ اِس کا مقصد یہ تھا کہ اِنسان پوری زمین پر آباد ہو جائیں اور اِسے فردوس بنائیں۔
4. پہلے ازدواجی بندھن پر مصیبت کیسے ٹوٹ پڑی؟
4 افسوس کی بات ہے کہ آدم اور حوا نے جان بُوجھ کر خدا کا حکم توڑا۔ اِس کے نتیجے میں اُن کے ازدواجی بندھن پر بھی مصیبت ٹوٹ پڑی۔ ہوا یہ کہ ”قدیم سانپ“ یعنی شیطان نے حوا کو یقین دِلایا کہ اگر وہ ”نیکوبد کی پہچان کے درخت“ کا پھل کھائیں گی تو وہ خود طے کر سکیں گی کہ اچھائی کیا ہے اور بُرائی کیا ہے۔ حالانکہ آدم، حوا کے سربراہ تھے لیکن حوا نے اُن سے مشورہ کیے بغیر شیطان کی بات پر عمل کِیا۔ اور آدم نے خدا کا کہنا ماننے کی بجائے اپنی بیوی کی پیروی کر کے پھل کھا لیا۔—مکا 12:9؛ پید 2:9، 16، 17؛ 3:1-6۔
5. آدم اور حوا کے ساتھ جو کچھ ہوا، اِس سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
5 بعد میں جب خدا نے آدم اور حوا سے اِس واقعے کے بارے میں حساب مانگا تو اُن میں سے کوئی بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ آدم نے اپنی بیوی پر اِلزام لگاتے ہوئے کہا: ”جس عورت کو تُو نے میرے ساتھ کِیا ہے اُس نے مجھے اُس درخت کا پھل دیا اور مَیں نے کھایا۔“ اِسی طرح حوا نے اپنا قصور سانپ کے سر ڈال دیا۔ (پید 3:12، 13) لیکن خدا نے اُن دونوں کو قصوروار ٹھہرایا اور اُنہیں سزا دی کیونکہ اُنہوں نے جان بُوجھ کر اُس کی نافرمانی کی تھی۔ اِس سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟ اگر شوہر اور بیوی چاہتے ہیں کہ اُن کا ازدواجی بندھن کامیاب رہے تو اُن میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی غلطیاں تسلیم کرنی چاہئیں اور یہوواہ خدا کا فرمانبردار ہونا چاہیے۔
6. پیدایش 3:15 کی وضاحت کریں۔
6 اِس افسوسناک واقعے کے باوجود یہوواہ خدا نے اِنسانوں کو اُمید کی کِرن دی جو کہ پاک کلام کی پہلی پیشگوئی سے ظاہر ہوتا ہے۔ (پیدایش 3:15 کو پڑھیں۔) اِس پیشگوئی کے مطابق ”عورت کی نسل“ شیطان کو ”کچلے“ گی۔ اِس عورت سے مُراد خدا کی تنظیم کا آسمانی حصہ ہے یعنی تمام وفادار فرشتے جو یہوواہ خدا کے بہت ہی قریب ہیں۔ اِن فرشتوں میں سے ایک یعنی یسوع مسیح، شیطان کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گا۔ اِس فرشتے کے ذریعے خدا کے وفادار بندوں کو ہمیشہ تک زمین پر رہنے کا شرف ملے گا جو کہ شروع سے ہی خدا کا مقصد تھا۔ یہ وہ شرف ہے جسے آدم اور حوا نے ٹھکرا دیا تھا۔—یوح 3:16۔
7. (الف) آدم اور حوا کی نافرمانی کی وجہ سے اُن کی اولاد کی ازدواجی زندگی پر کیا اثر پڑا؟ (ب) بائبل میں شوہروں اور بیویوں کو کیا ہدایت دی گئی ہے؟
7 آدم اور حوا کی نافرمانی سے نہ صرف اُن کی اپنی ازدواجی زندگی پر بلکہ اُن کی اولاد کی ازدواجی زندگی پر بھی بُرا اثر پڑا۔ مثال کے طور پر خدا نے کہا تھا کہ تمام عورتیں حمل کے دوران اور بچہ جنتے وقت شدید تکلیف سے گزریں گی۔ عورتیں اپنے شوہر کی محبت کے لیے ترسیں گی لیکن اکثر اُن کے شوہر اُن پر اِختیار جتائیں گے اور اُنہیں اذیت بھی پہنچائیں گے۔ (پید 3:16) البتہ اگر شوہر اور بیوی خدا سے ڈریں گے اور ایک دوسرے سے تعاون کریں گے تو اُن کی ازدواجی زندگی پر اچھا اثر پڑے گا۔ بائبل میں شوہروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ نرمی اور محبت سے اپنی بیوی کی سربراہی کریں اور بیویوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے شوہر کی سربراہی کو تسلیم کریں اور اُس کا احترام کریں۔—اِفس 5:33۔
شادی کا رواج—آدم سے نوح کے زمانے تک
8. آدم سے لے کر نوح کے زمانے تک شادی کا رواج کیسے بگڑ گیا؟
8 گُناہگار اور عیبدار ہونے کی وجہ سے آدم اور حوا کو آخرکار مرنا تھا۔ لیکن اِس سے پہلے اُن کے بیٹے اور بیٹیاں ہوئیں۔ (پید 5:4) اُن کے پہلے بیٹے قائن نے اپنی ایک رشتےدار سے شادی کی۔ قائن کی نسل سے لمک پیدا ہوئے۔ ہو سکتا ہے کہ لمک وہ پہلے آدمی تھے جنہوں نے دو بیویاں کیں۔ (پید 4:17، 19) آدم سے لے کر نوح کے زمانے تک جتنے بھی لوگ پیدا ہوئے، اُن میں سے کم ہی یہوواہ خدا کی عبادت کرتے تھے۔ اِن لوگوں میں ہابل، حنوک، نوح اور نوح کے گھر والے شامل تھے۔ پھر نوح کے زمانے میں ”خدا کے بیٹوں نے آدمی کی بیٹیوں کو دیکھا کہ وہ خوبصورت ہیں اور جن کو اُنہوں نے چُنا اُن سے بیاہ کر لیا۔“ فرشتوں اور عورتوں کے یہ بندھن غیرفطری تھے اور اِن سے ایسے بچے پیدا ہوئے جو بہت ہی طاقتور اور ظالم تھے۔ اُس وقت ’زمین پر اِنسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اُس کے دل کے تصور اور خیال سدا بُرے ہی تھے۔‘—پید 6:1-5۔
9. (الف) نوح کے زمانے میں یہوواہ خدا نے بُرے لوگوں کے ساتھ کیا کِیا؟ (ب) ہم اُس زمانے کے لوگوں جیسی غلطی کرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
9 نوح کے زمانے میں یہوواہ خدا بُرے لوگوں کو تباہ کرنے کے لیے ایک طوفان لایا۔ لیکن اِس سے پہلے نوح نے ”نیکی کی مُنادی“ کی اور لوگوں کو آنے والی تباہی سے آگاہ کِیا۔ (2-پطر 2:5) مگر لوگ اپنے روزمرہ کاموں اور شادیاں کرنے کروانے میں اِتنے مگن تھے کہ اُنہوں نے نوح کی بات کو نظرانداز کر دیا۔ یسوع مسیح نے کہا کہ کچھ ایسی ہی صورتحال آخری زمانے میں بھی ہوگی۔ (متی 24:37-39 کو پڑھیں۔) آجکل ہم بادشاہت کی خوشخبری کی مُنادی ساری دُنیا میں کر رہے ہیں اور سب قوموں کو بتا رہے ہیں کہ خاتمہ آنے والا ہے۔ لیکن زیادہتر لوگ اپنی گھریلو مصروفیات کی وجہ سے ہماری بات کو نظرانداز کرتے ہیں۔ ہمیں خبردار رہنا چاہیے کہ کہیں ہم بھی گھریلو معاملوں میں اِتنے اُلجھ نہ جائیں کہ ہم یہ بھول جائیں کہ یہوواہ کا دن بہت ہی نزدیک ہے۔
شادی کا رواج—طوفان سے یسوع کے زمانے تک
10. (الف) بہت سی قوموں نے ازدواجی بندھن کی توہین کیسے کی؟ (ب) ابراہام اور سارہ نے کون سی عمدہ مثال قائم کی؟
10 نوح اور اُن کے بیٹوں کی ایک ایک بیوی تھی۔ لیکن اُس زمانے میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا رواج عام تھا۔ بہت سی قوموں میں حرامکاری کو غلط خیال نہیں کِیا جاتا تھا، یہاں تک کہ حرامکاری اُن کی مذہبی رسموں میں شامل تھی۔ جب ابرام (ابراہام) اور اُن کی بیوی ساری (سارہ) خدا کے کہنے پر ملک کنعان پہنچے تو اُنہوں نے دیکھا کہ وہاں لوگ بہت ہی بڑے پیمانے پر حرامکاری کر رہے تھے۔ شہر سدوم اور عمورہ کے لوگ تو اِتنی بےشرمی سے حرامکاری کر رہے تھے کہ یہوواہ خدا نے اُن کو تباہ کرنے کا فیصلہ کِیا۔ اِن لوگوں کے برعکس ابراہام نے خدا کے معیاروں کے مطابق اپنے گھرانے کی سربراہی کی اور سارہ نے دل سے اپنے شوہر کی تابعداری کی۔ (1-پطرس 3:3-6 کو پڑھیں۔) ابراہام نے اپنے بیٹے اِضحاق کی شادی ایسی لڑکی سے کرائی جو یہوواہ خدا کی عبادت کرتی تھی۔ اِسی طرح اِضحاق کے بیٹے یعقوب نے بھی جیون ساتھی کی تلاش کرتے وقت خدا کے معیاروں کو ذہن میں رکھا۔ یعقوب سے ہی بنیاِسرائیل کے 12 قبیلوں نے جنم لیا۔
11. بنیاِسرائیل کو اُن حکموں سے کیا فائدہ ہوا جو شریعت میں ازدواجی زندگی کے بارے میں دیے گئے تھے؟
11 یہوواہ خدا نے کچھ عرصے بعد بنیاِسرائیل سے عہد باندھا اور اُنہیں شریعت دی۔ شریعت میں شادی بیاہ کے اُن طورطریقوں کو ختم نہیں کِیا گیا جو اُس زمانے میں خدا کے بندوں میں عام تھے، مثلاً ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا رواج۔ لیکن اِستثنا 7:3، 4 کو پڑھیں۔) اگر کسی کی ازدواجی زندگی میں مسئلے کھڑے ہو جاتے تھے تو وہ بزرگوں سے مدد مانگ سکتے تھے۔ شریعت میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر کوئی اپنے جیون ساتھی سے بےوفائی کرے یا اُس کی وفاداری پر شک کرے تو کیا کِیا جائے۔ اِس میں طلاق لینے کی اِجازت دی گئی تھی لیکن ہر چھوٹے موٹے معاملے کی وجہ سے نہیں۔ اگر ایک آدمی اپنی بیوی میں کوئی ”بےہودہ بات“ پاتا تھا تو وہ اُسے طلاق دے سکتا تھا۔ (اِست 24:1) حالانکہ شریعت میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ”بےہودہ بات“ میں کیا کچھ شامل ہے لیکن ظاہری بات ہے کہ کسی چھوٹے موٹے مسئلے پر طلاق دینے کی اِجازت نہیں تھی۔—احبا 19:18۔
شریعت میں اِن طورطریقوں کے سلسلے میں حکم دیے گئے۔ مثال کے طور پر اِس میں دوسری قوموں کے لوگوں سے شادی کرنے سے منع کِیا گیا تاکہ بنیاِسرائیل یہوواہ خدا سے دُور نہ ہو جائیں۔ (جیون ساتھی سے بےوفائی نہ کریں
12، 13. (الف) ملاکی نبی کے زمانے میں بہت سے یہودی آدمی اپنی اپنی بیویوں سے کیسا سلوک کر رہے تھے؟ (ب) اگر ایک بپتسمہیافتہ مسیحی کسی اَور کے جیون ساتھی کے ساتھ بھاگ جائے تو اُسے کن نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا؟
12 ملاکی نبی کے زمانے میں بہت سے یہودی آدمی اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بہانے ڈھونڈتے تھے تاکہ وہ کسی جوان عورت، یہاں تک کہ کسی بُتپرست عورت سے شادی کر سکیں۔ یہ بےوفائی کی اِنتہا تھی۔ یسوع مسیح کے زمانے میں بھی یہودی آدمی اپنی بیویوں کو ”کسی بھی وجہ سے طلاق“ دے رہے تھے۔ (متی 19:3) یہوواہ خدا کو اِس طرح کی طلاق سے سخت نفرت تھی۔—ملاکی 2:13-16 کو پڑھیں۔
13 آج یہوواہ کے بندوں میں اِس طرح کی بےوفائی کو برداشت نہیں کِیا جاتا۔ یوں تو ایسا بہت کم ہوتا ہے لیکن فرض کریں کہ ایک بپتسمہیافتہ شادیشُدہ مسیحی کسی اَور کے جیون ساتھی کے ساتھ بھاگ جاتا ہے اور اپنے جیون ساتھی سے طلاق لے کر اُس شخص سے شادی کر لیتا ہے۔ بائبل میں لکھا ہے کہ جو گُناہگار توبہ نہیں کرتا، اُسے کلیسیا سے خارج کِیا جائے تاکہ کلیسیا پاک رہے۔ (1-کُر 5:11-13) اگر ایک ایسا شخص دوبارہ سے کلیسیا کا رُکن بننا چاہتا ہے تو اُسے پہلے تو ’ایسے کام کرنے ہوں گے جن سے ثابت ہو کہ اُس نے توبہ کر لی ہے۔‘ (لُو 3:8؛ 2-کُر 2:5-10) بزرگوں کو اِس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اُس شخص نے جان بُوجھ کر بےوفائی کی ہے۔ اِس لیے اُس شخص کو دوبارہ کلیسیا میں شامل کرنے سے پہلے بزرگوں کو اُسے کافی وقت دینا چاہیے تاکہ وہ ثابت کر سکے کہ اُس نے واقعی توبہ کر لی ہے۔ شاید اِس میں ایک سال یا اِس سے زیادہ وقت لگ جائے۔ اگر وہ شخص دوبارہ سے کلیسیا کا رُکن بن بھی جائے تو اُسے ”خدا کے تختِعدالت کے سامنے“ حساب دینا پڑے گا کہ آیا اُس کی توبہ سچی تھی یا نہیں۔—روم 14:10-12۔
شادی کا رواج—مسیحی دَور میں
14. شریعت کا مقصد کیا تھا؟
14 موسیٰ کی شریعت 1500 سال تک نافذ رہی۔ اِس نے بنیاِسرائیل کے لیے ایک نگران کا کردار ادا کِیا۔ اِس کی نگرانی میں بنیاِسرائیل مسیح کے آنے تک خدا کے معیاروں کے مطابق زندگی گزارتے رہے۔ (گل 3:23، 24) لیکن مسیح کی موت پر شریعت منسوخ ہو گئی اور مسیحیوں کو کچھ ایسے کاموں سے منع کِیا گیا جن کی شریعت میں اِجازت تھی۔—عبر 8:6۔
15. (الف) مسیحیوں کو ازدواجی بندھن کے سلسلے میں کس معیار پر پورا اُترنا چاہیے؟ (ب) ایک مسیحی کو طلاق لینے سے پہلے کن باتوں پر غور کرنا چاہیے؟
15 ایک بار جب یسوع مسیح نے فریسیوں سے طلاق کے حوالے سے بات کی تو اُنہوں نے کہا: ”موسیٰ نے . . . آپ کو اپنی بیوی کو طلاق دینے کی اِجازت دی لیکن شروع سے ایسا نہیں تھا۔“ (متی 19:6-8) یسوع مسیح کی اِس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیحیوں کو ازدواجی بندھن کے سلسلے میں اُس معیار پر پورا اُترنا تھا جو یہوواہ خدا نے باغِعدن میں قائم کِیا تھا۔ (1-تیم 3:2، 12) چونکہ شادی ہونے پر آدمی اور عورت ’دو نہیں رہتے بلکہ ایک ہو جاتے ہیں‘ اِس لیے خدا کی نظر میں طلاق صرف حرامکاری کی صورت میں دی جا سکتی ہے۔ اور اگر ایک مسیحی حرامکاری کے سوا کسی اَور وجہ سے طلاق لے یا دے تو وہ کسی اَور سے شادی نہیں کر سکتا۔ (متی 19:9) اگر ایک مسیحی کا جیون ساتھی زِنا کرے لیکن پھر تائب ہو تو لازمی نہیں کہ بےقصور مسیحی اُسے طلاق دے۔ وہ اُسے معاف بھی کر سکتا ہے بالکل جیسے ہوسیع نبی نے اپنی زِناکار بیوی جمر کو معاف کِیا اور یہوواہ خدا نے اپنی بےوفا قوم کو معاف کِیا۔ (ہوس 3:1-5) خیال رکھا جائے کہ اگر ایک مسیحی کو پتہ ہے کہ اُس کے جیون ساتھی نے زِنا کِیا ہے اور اِس کے باوجود وہ اُس سے جنسی ملاپ کرتا ہے تو یہ اُسے معاف کرنے کے برابر ہوگا۔ اِس کے بعد اُسے پاک کلام کے مطابق طلاق لینے کی اِجازت نہیں ہے۔
16. یسوع مسیح نے غیرشادیشُدہ رہنے کے بارے میں کیا کہا؟
16 یہ کہنے کے بعد کہ سچے مسیحی حرامکاری کے علاوہ کسی اَور وجہ سے طلاق نہیں دے سکتے، یسوع مسیح نے غیرشادیشُدہ رہنے کی نعمت کے بارے میں بات کی اور کہا کہ ”جو کوئی ایسا کر سکتا ہے، وہ ضرور کرے۔“ (متی 19:10-12) بہت سے مسیحیوں نے غیرشادیشُدہ رہنے کا فیصلہ کِیا ہے تاکہ وہ یہوواہ خدا کی خدمت کرنے پر پورا دھیان دے سکیں۔ یہ ایک بہت اچھا فیصلہ ہے۔
17. ایک مسیحی اِس بات کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے کہ آیا اُسے غیرشادیشُدہ رہنا چاہیے یا شادی کرنی چاہیے؟
17 ہر مسیحی کو خود اِس بات کا فیصلہ کرنا چاہیے کہ اُس میں غیرشادیشُدہ رہنے کی طاقت ہے یا اُس کے لیے شادی کرنا بہتر ہوگا۔ پولُس رسول نے غیرشادیشُدہ رہنے کا مشورہ دیا لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے یہ بھی کہا: ”چونکہ حرامکاری اِتنی عام ہے اِس لیے ہر مرد کی اپنی اپنی بیوی ہو اور ہر عورت کا اپنا اپنا شوہر ہو۔“ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ”اگر اُن میں ضبطِنفس نہیں ہے تو وہ شادی کر لیں کیونکہ شادی کرنا ہوس کی آگ میں جلنے سے بہتر ہے۔“ شادی کرنے سے ایک شخص مشتزنی یا حرامکاری جیسی غلط حرکتوں سے بچ سکتا ہے۔ پولُس رسول نے کمعمری میں شادی کرنے سے بھی خبردار کِیا۔ اُنہوں نے کہا: ”اگر کسی کو لگتا ہے کہ اُس کے لیے غیرشادیشُدہ رہنا ٹھیک نہیں ہے اور وہ اُس عمر سے بھی گزر چُکا ہے جب جوانی کی خواہشیں زوروں پر ہوتی ہیں تو وہ شادی کر لے۔ اِس میں کوئی گُناہ نہیں، وہ جیسا چاہتا ہے ویسا کرے۔“ (1-کُر 7:2، 9، 36؛ 1-تیم 4:1-3) دراصل شادی کرنے سے ایک شخص کی ذمےداریاں بڑھ جاتی ہیں اور کمعمری میں اِن ذمےداریوں کو پورا کرنا مشکل ہوتا ہے۔
18، 19. (الف) مسیحی اچھی ازدواجی زندگی کی بنیاد کیسے ڈال سکتے ہیں؟ (ب) اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟
18 ایسے مسیحی جنہوں نے یہوواہ خدا کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی ہے، وہ اچھی ازدواجی زندگی کی بنیاد کیسے ڈال سکتے ہیں؟ سب سے پہلے تو اُنہیں یہوواہ خدا سے دلوجان سے محبت کرنی چاہیے۔ پھر اُنہیں ”صرف مالک کے پیروکاروں میں“ سے جیون ساتھی تلاش کرنا چاہیے۔ (1-کُر 7:39) اُنہیں اپنے ہونے والے جیون ساتھی سے اِتنی محبت ہونی چاہیے کہ وہ زندگی بھر شادی کے عہدوپیمان نبھانے کو تیار ہوں۔ شادی کرنے کے بعد اُنہیں خدا کے اصولوں کی پابندی کرنی چاہیے۔ جو مسیحی اِن باتوں پر پورا اُترتے ہیں، اُن کے ازدواجی بندھن پر خدا کی برکت ہوتی ہے۔
19 اِس ”آخری زمانے“ میں دُنیا کا ماحول اِس قدر بگڑ چُکا ہے کہ ازدواجی بندھن کو مضبوط رکھنا آسان نہیں رہا۔ (2-تیم 3:1-5) خدا نے اپنے بندوں کو اپنے کلام میں بتایا ہے کہ وہ کیا کر سکتے ہیں تاکہ زندگی کی راہ پر چلتے وقت اُن کی ازدواجی زندگی کامیاب رہے۔ (متی 7:13، 14) اگلے مضمون میں ہم بائبل کی کچھ ایسی ہدایتوں پر غور کریں گے جن کی مدد سے میاں بیوی ازدواجی مسائل سے نمٹ سکتے ہیں اور اپنی شادیشُدہ زندگی کو خوشگوار بنا سکتے ہیں۔