نئی شخصیت کو پہن لیں اور اِسے کبھی نہ اُتاریں
”نئی شخصیت کو پہن لیں۔“—کُلسّیوں 3:10۔
1، 2. (الف) ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ اِنسانوں کے لیے نئی شخصیت کو پہننا ممکن ہے؟ (ب) کُلسّیوں 3:10-14 میں کن خوبیوں کا ذکر کِیا گیا ہے جو نئی شخصیت کا حصہ ہیں؟
اِصطلاح ”نئی شخصیت“ ”کتابِمُقدس—ترجمہ نئی دُنیا“ میں دو بار آتی ہے۔ (اِفسیوں 4:24؛ کُلسّیوں 3:10) یہ اِصطلاح ایک ایسی شخصیت کی طرف اِشارہ کرتی ہے ”جو خدا کی مرضی کے مطابق ڈھالی گئی ہے۔“ لیکن کیا اِنسانوں کے لیے اِس نئی شخصیت کو پہننا ممکن ہے؟ جی ہاں۔ چونکہ یہوواہ خدا نے اِنسانوں کو اپنی صورت پر بنایا ہے اِس لیے ہم بھی وہ شاندار خوبیاں ظاہر کر سکتے ہیں جو اُس میں ہیں۔—پیدایش 1:26، 27؛ اِفسیوں 5:1۔
2 ہمیں آدم سے گُناہ ورثے میں ملا ہے اِس لیے کبھی کبھار ہمارے دل میں غلط خواہشات سر اُٹھاتی ہیں۔ اِس کے علاوہ ہم پر ماحول کا بھی اثر ہوتا ہے۔ لیکن یہوواہ خدا کی مدد سے ہم وہ خوبیاں پیدا کر سکتے ہیں جو وہ چاہتا ہے کہ ہمارے اندر ہوں۔ اِس سلسلے میں آئیں، ایسی خوبیوں پر غور کریں جو نئی شخصیت کا حصہ ہیں۔ (کُلسّیوں 3:10-14 کو پڑھیں۔) اِس کے بعد ہم دیکھیں کہ ہم اِن خوبیوں کو مُنادی کے کام کے سلسلے میں کیسے ظاہر کر سکتے ہیں۔
’آپ سب متحد ہیں‘
3. کون سی خوبی نئی شخصیت کا حصہ ہے؟
3 پولُس رسول نے کہا کہ غیرجانبداری نئی شخصیت کا ایک اہم حصہ ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”نہ کوئی یونانی ہے اور نہ یہودی، نہ کوئی مختون ہے اور نہ غیرمختون اور نہ ہی کوئی پردیسی، سکوتی، غلام یا آزاد ہے۔“ * کلیسیا میں کسی بھی بہن یا بھائی کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ وہ اپنی نسل، قوم یا سماجی حیثیت کی وجہ سے دوسروں سے بڑا ہے۔ لیکن کیوں؟ کیونکہ مسیح کے پیروکار ہونے کے ناتے ہم ’سب متحد ہیں۔‘—کُلسّیوں 3:11؛ گلتیوں 3:28۔
ہم کسی سے بھی اُس کی نسل یا پسمنظر کی وجہ سے تعصب نہیں برتتے۔
4. (الف) خدا کے بندوں کو دوسروں کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہیے؟ (ب) کون سی صورتحال مسیحیوں کے لیے اِتحاد برقرار رکھنا مشکل بنا سکتی ہے؟
4 جب ہم نئی شخصیت کو پہن لیتے ہیں تو ہم سب اِنسانوں کے ساتھ عزت اور احترام سے پیش آتے ہیں پھر چاہے اُن کا تعلق کسی بھی نسل یا پسمنظر سے ہو۔ (رومیوں 2:11) کچھ ملکوں میں ایسا کرنا کافی مشکل ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ماضی میں جنوبی افریقہ کی حکومت نے مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے الگ الگ علاقے مقرر کیے تھے۔ آج بھی زیادہتر لوگ جن میں یہوواہ کے گواہ بھی شامل ہیں، اِنہی علاقوں میں رہتے ہیں۔ البتہ گورننگ باڈی چاہتی تھی کہ یہ یہوواہ کے گواہ دوسرے بہن بھائیوں کے لیے ”اپنے دلوں میں . . . زیادہ جگہ بنائیں۔“ لہٰذا اکتوبر 2013ء میں گورننگ باڈی نے ایک خاص بندوبست کی منظوری دی جس کے ذریعے مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے بہن بھائی ایک دوسرے کو بہتر طور پر جاننے کے قابل ہو سکتے ہیں۔—2-کُرنتھیوں 6:13۔
5، 6. (الف) ایک ملک میں خدا کے بندوں کے اِتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے کیا بندوبست کِیا گیا ہے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔) (ب) اِس بندوبست کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟
5 بھائیوں نے یہ بندوبست کِیا کہ دو فرق فرق زبانوں یا نسلوں سے تعلق رکھنے والی کلیسیائیں کبھی کبھار ہفتے اور اِتوار کو اِکٹھے وقت گزاریں۔ دونوں کلیسیاؤں کے بہن بھائی اِکٹھے مُنادی کرتے، اِکٹھے اِجلاس پر جاتے اور ایک دوسرے کے گھروں میں بھی جاتے۔ سینکڑوں کلیسیائیں اِس بندوبست میں شریک ہوئیں اور برانچ کو بہت سی اچھی رپورٹیں ملیں۔ اِس سب سے وہ لوگ بھی متاثر ہوئے جو یہوواہ کے گواہ نہیں تھے۔ مثال کے طور پر ایک مذہبی رہنما نے کہا: ”مَیں گواہ تو نہیں ہوں لیکن مَیں یہ ضرور کہوں گا کہ آپ لوگ اِنتہائی منظم طریقے سے تبلیغ کرتے ہیں اور آپ میں نسلی اِمتیاز نہیں ہے۔“ بہن بھائیوں نے اِس بندوبست کے بارے میں کیسا محسوس کِیا؟
6 ذرا نوما نامی بہن کی مثال پر غور کریں جو خوسہ زبان والی کلیسیا سے تعلق رکھتی ہیں۔ شروع شروع میں وہ انگریزی زبان والی کلیسیا کے بہن بھائیوں کو اپنے چھوٹے سے گھر میں بلانے سے ہچکچاتی تھیں۔ لیکن جب اُنہوں نے سفیدفام بہن بھائیوں کے ساتھ مُنادی کی اور اُن کے گھروں میں گئیں تو اُن کی ہچکچاہٹ دُور ہو گئی۔ اُنہوں نے سفیدفام گواہوں کے بارے میں کہا: ”وہ تو ہماری طرح عام اِنسان ہیں۔“ اِس کے بعد جب انگریزی زبان والی کلیسیا کے بہن بھائی،
خوسہ زبان والی کلیسیا کے بہن بھائیوں کے ساتھ مُنادی کرنے گئے تو نوما نے اُن میں سے کچھ کو کھانے پر بلایا۔ نوما یہ دیکھ کر بہت متاثر ہوئیں کہ اُن میں سے ایک سفید فام بھائی جو کلیسیا میں بزرگ تھا، خوشی سے پلاسٹک کے ڈبے پر بیٹھ گیا۔ اِس بندوبست کی بدولت بہت سے بہن بھائیوں کو نئے دوست بنانے اور فرق فرق پسمنظر سے تعلق رکھنے والے گواہوں کو بہتر طور پر جاننے کا موقع مل رہا ہے۔ہمدردی اور مہربانی کا لباس پہنیں
7. ہمیں ہمیشہ دوسروں کے ساتھ ہمدردی سے کیوں پیش آنا چاہیے؟
7 جب تک شیطان کی دُنیا ختم نہیں ہو جاتی، یہوواہ کے بندوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اِن مشکلات میں بےروزگاری، سنگین بیماریاں، اذیت، قدرتی آفتیں اور چوری چکاری وغیرہ شامل ہیں۔ کٹھن حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم میں ہمدردی کی خوبی ہو۔ ہمدردی کی خوبی ہمیں دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آنے کی ترغیب دے گی۔ (اِفسیوں 4:32) یہ خوبیاں نئی شخصیت کا حصہ ہیں۔ اِنہیں ظاہر کرنے سے ہم خدا کی مثال پر عمل کر پائیں گے اور دوسروں کو تسلی دینے کے قابل ہوں گے۔—2-کُرنتھیوں 1:3، 4۔
8. جب ہم کلیسیا کے تمام ارکان کے لیے ہمدردی اور مہربانی ظاہر کرتے ہیں تو اِس کا کون سا اچھا نتیجہ نکلتا ہے؟ مثال دیں۔
8 ہم اپنی کلیسیا کے اُن بہن بھائیوں کے ساتھ مہربانی سے کیسے پیش آ سکتے ہیں جو کسی دوسرے ملک سے آئے ہیں یا جن کی مالی حالت ٹھیک نہیں ہے؟ ہم اُن بہن بھائیوں سے دوستی کر سکتے ہیں اور اُنہیں احساس دِلا سکتے ہیں کہ وہ کلیسیا کا اہم حصہ ہیں۔ (1-کُرنتھیوں 12:22، 25) اِس سلسلے میں ڈینیکارل کی مثال پر غور کریں جو فلپائن سے جاپان منتقل ہو گئے۔ چونکہ وہ غیرملکی تھے اِس لیے جس جگہ وہ ملازمت کرتے تھے، وہاں اُن کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کِیا جاتا تھا۔ لیکن پھر وہ یہوواہ کے گواہوں کے ایک اِجلاس میں گئے۔ اُنہوں نے کہا: ”حالانکہ وہاں زیادہتر لوگ جاپانی تھے لیکن پھر بھی اُنہوں نے اِتنی خوشی سے میرا خیرمقدم کِیا کہ جیسے وہ مجھے سالوں سے جانتے ہوں۔“ بہن بھائیوں کی مہربانی کی وجہ سے ڈینیکارل کو یہوواہ خدا کے قریب جانے میں مدد ملی۔ پھر کچھ عرصے بعد اُنہوں نے بپتسمہ لے لیا اور آج وہ ایک بزرگ کے طور پر خدمت کر رہے ہیں۔ اُن کی کلیسیا کے دوسرے بزرگ اِس بات پر بہت خوش ہیں کہ ڈینیکارل اور اُن کی بیوی جینیفر اُن کی کلیسیا کا حصہ ہیں۔ وہ بزرگ کہتے ہیں: ”وہ پہلکاروں کے طور پر سادہ زندگی گزار رہے ہیں اور بادشاہت کو پہلا درجہ دینے کے سلسلے میں عمدہ مثال قائم کر رہے ہیں۔“—لُوقا 12:31۔
9، 10. مثالوں سے واضح کریں کہ جب ہم مُنادی کے دوران ہمدردی ظاہر کرتے ہیں تو اِس کے اچھے نتیجے نکلتے ہیں۔
9 جب ہم دوسروں کو بادشاہت کی خوشخبری سناتے ہیں تو ہمارے پاس ”سب کے ساتھ بھلائی“ کرنے کا موقع ہوتا ہے۔ (گلتیوں 6:10) بہت سے گواہ اُن لوگوں کے لیے ہمدردی محسوس کرتے ہیں اور اُن کی زبان سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو کسی دوسرے ملک سے آ کر اُن کے ملک میں رہ رہے ہیں۔ (1-کُرنتھیوں 9:23) اُن کی ایسی کوششوں کے بہت اچھے نتیجے نکلے ہیں۔ اِس سلسلے میں آسٹریلیا کی رہنے والی پہلکار بہن ٹیفانی کی مثال پر غور کریں۔ اُنہوں نے سواحلی زبان سیکھی تاکہ وہ شہر برِسبین میں سواحلی زبان والی کلیسیا کی مدد کر سکیں۔ حالانکہ یہ زبان سیکھنا اُن کے لیے کافی مشکل تھا لیکن ایسا کرنے سے اُن کی زندگی زیادہ بامقصد ہو گئی ہے۔ ٹیفانی کہتی ہیں: ”اگر آپ مُنادی کے کام کا مزہ لینا چاہتے ہیں تو کسی غیرزبان والی کلیسیا میں خدمت کریں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ اپنے شہر میں رہ کر کسی اَور جگہ کی سیر کر رہے ہوں۔ آپ اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ پاتے ہیں کہ ہماری عالمگیر برادری میں کتنا اِتحاد پایا جاتا ہے۔“
مکاشفہ 21:3، 4 یا زبور 37:10، 11، 29 جیسی آیتیں دِکھاتے تھے تو وہ بڑی توجہ سے ہماری بات سنتے تھے اور کچھ کی تو آنکھیں بھی نم ہو جاتی تھیں۔“ اِس خاندان کے افراد نے اِن لوگوں کے لیے ہمدردی محسوس کی۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ لوگ سچائی سیکھیں۔ لہٰذا اِس خاندان کے سب افراد نے پُرتگالی زبان سیکھنی شروع کر دی۔ بعد میں اُنہوں نے پُرتگالی زبان والی ایک کلیسیا شروع کرنے میں بھی مدد کی۔ سالوں کے دوران اُنہوں نے ایسے بہت سے لوگوں کی یہوواہ کے گواہ بننے میں مدد کی ہے جو دوسرے ملک سے آ کر جاپان میں رہ رہے ہیں۔ ساکیکو کہتی ہیں: ”ہمیں پُرتگالی زبان کو سیکھنے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑی۔ لیکن ایسا کرنے سے ہمیں بےشمار برکتیں ملی ہیں۔ ہم یہوواہ خدا کے بےحد شکرگزار ہیں۔“—اعمال 10:34، 35 کو پڑھیں۔
10 جاپان سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان نے بھی کچھ ایسا ہی کِیا۔ اِس خاندان کی ایک فرد ساکیکو کہتی ہیں: ”ہم مُنادی میں اکثر برازیلی لوگوں سے ملتے تھے۔ جب ہم اُنہیں اُن کی پُرتگالی بائبل سےخاکساری کا لباس پہنیں
11، 12. (الف) ہمیں نئی شخصیت کو صحیح نیت سے کیوں پہننا چاہیے؟ (ب) ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم خاکسار رہیں؟
11 ہمیں نئی شخصیت کو اِس لیے پہننا چاہیے تاکہ یہوواہ کی بڑائی ہو نہ کہ اِس لیے کہ دوسرے ہماری تعریف کریں۔ یاد رکھیں کہ ایک بےعیب فرشتے کے دل میں بھی غرور سمایا اور اُس نے گُناہ کِیا۔ (حِزقیایل 28:17 پر غور کریں۔) ہم تو عیبدار ہیں اور اِس وجہ سے ہمارے لیے غرور سے بچنا اَور بھی زیادہ مشکل ہے۔ لیکن ہم خاکساری کا لباس پہن سکتے ہیں۔ ایسا کرنے میں کیا چیز ہماری مدد کر سکتی ہے؟
12 خاکسار بننے کے لیے ہم ہر روز خدا کے کلام کو پڑھ سکتے ہیں اور اِس پر سوچ بچار کر سکتے ہیں۔ (اِستثنا 17:18-20) ہم خاص طور پر یسوع مسیح کی تعلیمات پر غور کر سکتے ہیں اور یہ دیکھ سکتے ہیں کہ اُنہوں نے خاکساری کی کتنی عمدہ مثال قائم کی ہے۔ (متی 20:28) یسوع مسیح تو اِتنے خاکسار تھے کہ اُنہوں نے اپنے شاگردوں کے پاؤں بھی دھوئے۔ (یوحنا 13:12-17) اِس کے علاوہ ہم یہوواہ خدا سے اُس کی پاک روح کے لیے دُعا بھی کر سکتے ہیں۔ اُس کی پاک روح کی مدد سے ہم اِس سوچ سے بچ سکتے ہیں کہ ہم دوسروں سے بہتر ہیں۔—گلتیوں 6:3، 4؛ فِلپّیوں 2:3۔
جب ہم خاکساری سے کام لیتے ہیں تو کلیسیا میں امن اور اِتحاد کو فروغ ملتا ہے۔
13. خاکسار رہنے کے کون سے فائدے ہیں؟
13 امثال 22:4 کو پڑھیں۔ یہوواہ خدا ہم سے یہ توقع کرتا ہے کہ ہم خاکسار ہوں۔ خاکسار رہنے کے بہت سے فائدے ہیں۔ جب ہم خاکساری سے کام لیتے ہیں تو کلیسیا میں امن اور اِتحاد کو فروغ ملتا ہے۔ اِس کے علاوہ یہوواہ ہمیں اپنی عظیم رحمت سے بھی نوازتا ہے۔ پطرس رسول نے کہا: ”آپ سب ایک دوسرے کے ساتھ خاکساری سے پیش آئیں کیونکہ خدا مغروروں کی مخالفت کرتا ہے لیکن خاکساروں کو عظیم رحمت عطا کرتا ہے۔“—1-پطرس 5:5۔
نرمی اور تحمل کا لباس پہنیں
14. کس نے نرمی اور تحمل ظاہر کرنے کے سلسلے میں بہترین مثال قائم کی ہے؟
14 اِس دُنیا میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو شخص دوسروں کے ساتھ نرمی اور تحمل سے پیش آتا ہے، وہ کمزور ہے۔ لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ نرمی اور تحمل جیسی شاندار خوبیوں کا سرچشمہ یہوواہ خدا ہے جو کہ کائنات کی سب سے طاقتور ہستی ہے۔ اُس نے نرمی اور تحمل ظاہر کرنے کے سلسلے میں بہترین مثال قائم کی ہے۔ (2-پطرس 3:9) مثال کے طور پر یاد کریں کہ جب ابراہام اور لُوط نے خدا سے سوال کیے تو اُس نے کتنے تحمل سے اُنہیں اپنے فرشتوں کے ذریعے جواب دیے۔ (پیدایش 18:22-33؛ 19:18-21) اِس کے علاوہ خدا نافرمان اِسرائیلی قوم کے ساتھ 1500 سال سے زیادہ عرصے تک تحمل سے پیش آتا رہا۔—حِزقیایل 33:11۔
15. یسوع مسیح نے نرمی اور تحمل سے کام لینے کے سلسلے میں کیسی مثال قائم کی ہے؟
15 یسوع مسیح ”نرممزاج“ تھے۔ (متی 11:29) حالانکہ اُن کے شاگردوں میں بہت سی خامیاں تھیں مگر پھر بھی یسوع نے تحمل سے کام لیا۔ جب یسوع مُنادی کرتے تھے تو اکثر لوگ اُن پر بِلاوجہ تنقید کرتے تھے اور جھوٹے اِلزام لگاتے تھے۔ لیکن یسوع نے مرتے دم تک نرمی اور تحمل کا مظاہرہ کِیا۔ جب وہ سُولی پر شدید تکلیف میں تھے تو اُنہوں نے اُن لوگوں کے لیے دُعا کی جو اُنہیں موت کے گھاٹ اُتارنے والے تھے۔ اُنہوں نے کہا: ”باپ، اُن کو معاف کر دے کیونکہ اُن کو پتہ نہیں کہ کیا کر رہے ہیں۔“ (لُوقا 23:34) یسوع نے اُس وقت بھی نرمی اور تحمل کا دامن نہیں چھوڑا جب وہ ذہنی اور جسمانی تکلیف سے گزر رہے تھے۔—1-پطرس 2:21-23 کو پڑھیں۔
16. نرمی اور تحمل سے کام لینے کا ایک طریقہ کیا ہے؟
16 پولُس رسول نے نرمی اور تحمل سے کام لینے کا ایک طریقہ بتایا۔ اُنہوں نے لکھا: ”اگر آپ کو ایک دوسرے سے شکایت بھی ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کریں اور دل سے ایک دوسرے کو معاف کریں۔ جیسے یہوواہ نے آپ کو دل سے معاف کِیا ہے ویسے ہی آپ بھی دوسروں کو معاف کریں۔“ (کُلسّیوں 3:13) دوسروں کو معاف کرنے کے لیے نرمی اور تحمل کی خوبی بہت ضروری ہے۔ اِن خوبیوں کی وجہ سے کلیسیا کا اِتحاد برقرار رہتا ہے۔
17. یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر نرمی اور تحمل کی خوبی پیدا کریں؟
17 یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ نرمی اور تحمل سے پیش آئیں۔ اگر ہم نئی دُنیا میں رہنا چاہتے ہیں تو یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر یہ خوبیاں پیدا کریں۔ (متی 5:5؛ یعقوب 1:21) جب ہم نرمی اور تحمل سے کام لیتے ہیں تو ہم یہوواہ کی بڑائی کرتے ہیں اور دوسروں کی بھی ایسا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔—گلتیوں 6:1؛ 2-تیمُتھیُس 2:24، 25۔
”محبت کا لباس پہنیں“
18. محبت اور غیرجانبداری کا آپس میں کیا تعلق ہے؟
18 ہم نے اب تک جن خوبیوں کے بارے میں بات کی ہے، اُن سب کا تعلق محبت سے ہے۔ مثال کے طور پر یسوع مسیح کے شاگرد یعقوب نے اُن مسیحیوں کی اِصلاح کی جو غریب لوگوں کی نسبت امیر لوگوں کے ساتھ زیادہ اچھی طرح پیش آ رہے تھے۔ یعقوب نے کہا کہ ایسے مسیحی خدا کے اِس حکم کی خلافورزی کر رہے تھے کہ ”اپنے پڑوسی سے اُسی طرح محبت کرو جس طرح تُم اپنے آپ سے کرتے ہو۔“ پھر اُنہوں نے کہا: ”اگر آپ دوسروں سے اِمتیازی سلوک کرتے رہتے ہیں تو آپ گُناہ کر رہے ہیں۔“ (یعقوب 2:8، 9) اگر ہم لوگوں سے محبت کرتے ہیں تو ہم کسی سے بھی اُس کی تعلیم، نسل یا سماجی حیثیت کی وجہ سے تعصب نہیں کریں گے۔ ہمیں غیرجانبداری کا دِکھاوا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اِسے اپنی شخصیت کا حصہ بنانا چاہیے۔
19. محبت کا لباس پہننا کیوں ضروری ہے؟
19 محبت ”صبر کرتی ہے اور مہربان ہے“ اور ”غرور نہیں کرتی۔“ (1-کُرنتھیوں 13:4) اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم دوسروں کو خوشخبری سناتے رہیں تو ہمیں اپنے اندر تحمل، مہربانی اور خاکساری کی خوبی پیدا کرنی چاہیے۔ (متی 28:19) اِن خوبیوں کی وجہ سے ہم کلیسیا کے سب بہن بھائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات بھی رکھ پائیں گے۔ جب ہم سب محبت ظاہر کریں گے تو کلیسیا میں اِتحاد برقرار رہے گا اور یہوواہ کی بڑائی ہوگی۔ اور دوسرے لوگ اِس اِتحاد کو دیکھ کر سچائی کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔ لہٰذا جب پولُس رسول نے نئی شخصیت کی وضاحت کی تو آخر میں اُنہوں نے کہا: ”محبت کا لباس پہنیں کیونکہ یہ ایک ایسا بندھن ہے جو لوگوں کو پوری طرح متحد کرتا ہے۔“—کُلسّیوں 3:14۔
اپنے آپ کو نیا بناتے جائیں
20. (الف) ہمیں خود سے کون سے سوال پوچھنے چاہئیں اور کیوں؟ (ب) ہم کس شاندار وقت کے منتظر ہیں؟
20 ہم سب کو خود سے پوچھنا چاہیے: ”مجھے پُرانی شخصیت کو اُتار پھینکنے اور اِسے دوبارہ کبھی نہ پہننے کے لیے خود میں اَور کون سی تبدیلیاں کرنی ہیں؟“ اِس سلسلے میں ہمیں یہوواہ خدا سے مدد کی اِلتجا کرنی چاہیے۔ اِس کے ساتھ ساتھ ہمیں غلط سوچ اور کاموں کو ترک کرنے کی سخت کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم ”خدا کی بادشاہت کے وارث“ بن سکیں۔ (گلتیوں 5:19-21) ہمیں خود سے یہ بھی پوچھنا چاہیے: ”کیا مَیں یہوواہ خدا کو خوش کرنے کی خاطر اپنی سوچ کو بدلنے کے لیے تیار رہتا ہوں؟“ (اِفسیوں 4:23، 24) چونکہ ہم عیبدار ہیں اِس لیے ہمیں سخت کوشش کرتے رہنا چاہیے تاکہ ہم نئی شخصیت کو پہن لیں اور اِسے کبھی نہ اُتاریں۔ یہ ایک ایسا کام ہے جس کے لیے ہمیں مسلسل کوشش کرنی ہوگی۔ ذرا تصور کریں کہ اُس وقت زندگی کتنی حسین ہوگی جب ہر شخص نئی شخصیت کو پوری طرح سے پہن چُکا ہوگا!
^ پیراگراف 3 پُرانے زمانے میں سکوتی لوگوں کو غیرمہذب خیال کِیا جاتا تھا اِس لیے اُن سے نفرت کی جاتی تھی۔