مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ کن باتوں کی بِنا پر دوسروں کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں؟‏

آپ کن باتوں کی بِنا پر دوسروں کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں؟‏

‏”‏صرف اُس بات کی بِنا پر فیصلہ نہ کریں جو آپ کو نظر آتی ہے بلکہ اِنصاف کے ساتھ فیصلہ کریں۔‏“‏‏—‏یوحنا 7:‏24‏۔‏

گیت:‏ 54،‏  26

1.‏ یسعیاہ نے یسوع کے بارے میں کیا پیش‌گوئی کی اور اِس سے ہمیں حوصلہ کیوں ملتا ہے؟‏

یسعیاہ نبی نے یسوع کے بارے میں یہ پیش‌گوئی کی:‏ ”‏وہ نہ اپنی آنکھوں کے دیکھنے کے مطابق اِنصاف کرے گا اور نہ اپنے کانوں کے سننے کے موافق فیصلہ کرے گا بلکہ وہ راستی سے مسکینوں کا اِنصاف کرے گا۔‏“‏ (‏یسعیاہ 11:‏3،‏ 4‏)‏ اِس پیش‌گوئی سے ہمیں بہت حوصلہ اور اُمید ملتی ہے۔‏ لیکن کیوں؟‏ کیونکہ ہم جس دُنیا میں رہتے ہیں،‏ وہ تعصب سے بھری ہے اور یہاں لوگ جو دیکھتے ہیں،‏ اُسی کی بِنا پر یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ فلاں شخص کیسا ہے اور کیسا نہیں۔‏ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایک ایسے منصف کی ضرورت ہے جو اِنصاف کے ساتھ فیصلے کرے نہ کہ اُن باتوں کی بِنا پر جو اُسے نظر آئیں۔‏ اور یسوع بالکل ایسے ہی منصف ہوں گے۔‏

2.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح نے ہمیں کیا کرنے کا حکم دیا؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کیا سیکھیں گے؟‏

2 ہم ہر روز مختلف معاملوں میں دوسروں کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں۔‏ لیکن ہم یسوع کی طرح بےعیب نہیں ہیں اِس لیے ہماری رائے ناقص ہوتی ہے۔‏ ہم بڑی آسانی سے ایسی باتوں کی بنیاد پر دوسروں کے بارے میں رائے قائم کر لیتے ہیں جو ہمیں نظر آتی ہیں۔‏ مگر یسوع نے حکم دیا تھا:‏ ”‏صرف اُس بات کی بِنا پر فیصلہ نہ کریں جو آپ کو نظر آتی ہے بلکہ اِنصاف کے ساتھ فیصلہ کریں۔‏“‏ (‏یوحنا 7:‏24‏)‏ یسوع مسیح چاہتے ہیں کہ ہم اُن کی مثال پر عمل کریں اور صرف اُن باتوں کی بِنا پر دوسروں کو نہ پرکھیں جو ہمیں دِکھائی دیتی ہیں۔‏ اِس مضمون میں ہم تین باتوں پر غور کریں گے جن کی بِنا پر ہم دوسروں کے متعلق رائے قائم کرنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔‏ یہ چیزیں ایک شخص کی نسل یا قوم،‏ دولت اور عمر ہیں۔‏ ہر حلقے پر بات کرتے وقت ہم سیکھیں گے کہ ہم یسوع کے حکم پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔‏

کسی کی قوم دیکھ کر رائے قائم نہ کریں

3،‏ 4.‏ ‏(‏الف)‏ غیریہودیوں کے بارے میں پطرس کی سوچ کیسے بدل گئی؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏ یہوواہ نے پطرس پر کون سی نئی سچائی آشکارا کی؟‏

3 ذرا تصور کریں کہ جب پطرس کو قیصریہ میں کُرنیلیُس نامی غیریہودی کے گھر جانے کا حکم ملا ہوگا تو اُنہیں کیسا لگا ہوگا۔‏ (‏اعمال 10:‏17-‏29‏)‏ پطرس بچپن سے یہ مانتے تھے کہ غیریہودی ناپاک ہوتے ہیں۔‏ لیکن حال ہی میں اُن کے ساتھ کچھ ایسے واقعات پیش آئے تھے جن کی وجہ سے اُن کی سوچ بدل گئی تھی۔‏ مثال کے طور پر اُنہیں خدا کی طرف سے ایک رُویا دِکھائی گئی تھی۔‏ (‏اعمال 10:‏9-‏16‏)‏ اُنہوں نے اِس رُویا میں آسمان سے ایک چادر جیسی چیز اُترتی دیکھی جو ناپاک جانوروں سے بھری تھی۔‏ پھر اُنہیں ایک آواز سنائی دی:‏ ”‏پطرس،‏ اُٹھیں!‏ اِن کو ذبح کریں اور کھائیں!‏“‏ پطرس نے اِنہیں کھانے سے تین بار منع کر دیا۔‏ مگر ہر بار اُس آواز نے کہا:‏ ”‏اُن چیزوں کو ناپاک نہ کہیں جن کو خدا نے پاک کر دیا ہے۔‏“‏ اِس رُویا کو دیکھنے کے بعد پطرس یہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ اِس کے ذریعے دراصل اُنہیں کیا پیغام دیا جا رہا ہے۔‏ پھر اُسی وقت کُرنیلیُس کے کچھ آدمی پطرس کے پاس پہنچے۔‏ پاک روح نے پطرس سے کہا کہ وہ کُرنیلیُس کے گھر جائیں اِس لیے پطرس اُن آدمیوں کے ساتھ چلے گئے۔‏

4 اگر پطرس نے صرف اُن باتوں کی بِنا پر فیصلہ کِیا ہوتا جو عام طور پر یہودی دیکھتے تھے تو وہ کبھی کُرنیلیُس کے گھر نہ جاتے۔‏ یہودی کبھی کسی غیرقوم شخص کے گھر میں قدم نہیں رکھتے تھے۔‏ تو پھر پطرس نے ایسا کیوں کِیا؟‏ حالانکہ وہ غیریہودیوں کے لیے تعصب رکھتے تھے لیکن رُویا دیکھنے اور پاک روح کی طرف سے ہدایت ملنے کے بعد اُن کی سوچ بدل گئی۔‏ کُرنیلیُس کی بات سننے کے بعد پطرس نے کہا:‏ ”‏اب مَیں واقعی سمجھ گیا ہوں کہ خدا تعصب نہیں کرتا بلکہ وہ ہر قوم سے اُن لوگوں کو قبول کرتا ہے جو اُس کا خوف رکھتے اور اچھے کام کرتے ہیں۔‏“‏ (‏اعمال 10:‏34،‏ 35‏)‏ جب پطرس پر یہ نئی سچائی آشکارا ہوئی ہوگی تو اِس کا اُن پر بہت گہرا اثر ہوا ہوگا۔‏ دراصل یہ سچائی تمام مسیحیوں کے لیے اہمیت کی حامل ہونی تھی۔‏

شاید آپ کو لگے کہ آپ غیرجانب‌دار ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ آپ کے دل میں کہیں نہ کہیں دوسروں کے لیے تعصب ہو۔‏

5.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ نے پطرس کے ذریعے تمام مسیحیوں کو کیا بات سمجھائی؟‏ (‏ب)‏ سچائی سے واقف ہونے کے باوجود ہم میں کون سا رُجحان موجود ہو سکتا ہے؟‏

5 یہوواہ نے پطرس کے ذریعے سب مسیحیوں کی یہ سمجھنے میں مدد کی کہ وہ غیرجانب‌دار ہے۔‏ یہوواہ کے نزدیک یہ بات اہمیت نہیں رکھتی کہ ہم کس نسل،‏ قوم یا قبیلے سے ہیں اور کون سی زبان بولتے ہیں۔‏ اگر ہم اُس کا خوف مانتے ہیں اور صحیح کام کرتے ہیں تو وہ ہمیں قبول کرتا ہے۔‏ (‏گلتیوں 3:‏26-‏28؛‏ مکاشفہ 7:‏9،‏ 10‏)‏ بِلاشُبہ آپ پہلے ہی اِس سچائی سے واقف ہوں گے۔‏ مگر ہو سکتا ہے کہ آپ نے ایک ایسے ملک یا گھرانے میں پرورش پائی ہو جہاں دوسروں سے تعصب برتنا عام بات تھی۔‏ شاید آپ کو لگے کہ آپ غیرجانب‌دار ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ آپ کے دل میں کہیں نہ کہیں دوسروں کے لیے تعصب ہو۔‏ حالانکہ پطرس نے یہ سمجھنے میں دوسروں کی مدد کی تھی کہ خدا تعصب نہیں کرتا پھر بھی اُنہوں نے بعد میں دوسروں سے تعصب برتا۔‏ (‏گلتیوں 2:‏11-‏14‏)‏ لہٰذا آئیں،‏ اِس بات پر غور کریں کہ ہم یسوع کے حکم پر عمل کیسے کر سکتے ہیں اور صرف اُن باتوں کی بِنا پر دوسروں کے بارے میں رائے قائم کرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں جو ہمیں نظر آتی ہیں۔‏

6.‏ ‏(‏الف)‏ ہم اپنے اندر سے تعصب کو کیسے ختم کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ کی تنظیم میں ذمےداریاں رکھنے والے ایک بھائی کی رپورٹ سے اُس کے بارے میں کیا ظاہر ہوا؟‏

6 ہمیں خدا کے کلام کی روشنی میں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ہم میں تعصب کا رحجان تو نہیں پایا جاتا۔‏ (‏زبور 119:‏105‏)‏ اِس کے علاوہ ہم اپنے کسی دوست سے پوچھ سکتے ہیں کہ کہیں اُسے ہمارے اندر تعصب تو نہیں نظر آتا۔‏ (‏گلتیوں 2:‏11،‏ 14‏)‏ ہو سکتا ہے کہ شروع سے ہی ہماری ایسی سوچ بن گئی ہو جس پر تعصب کا اثر ہو۔‏ اِس لیے شاید ہمیں اِس بات کا احساس ہی نہ ہو کہ ہم دوسروں سے تعصب برت رہے ہیں۔‏ خدا کی تنظیم میں ذمےداریاں رکھنے والے ایک بھائی کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔‏ اُس نے کُل‌وقتی خدمت کرنے والے ایک محنتی جوڑے کے بارے میں برانچ کو ایک رپورٹ بھیجی۔‏ شوہر کا تعلق ایک ایسی نسل سے تھا جسے بہت سے لوگ کم‌تر خیال کرتے تھے۔‏ رپورٹ لکھنے والے بھائی کو اِس بات کا احساس نہیں تھا کہ اُس کے دل میں اُس نسل کے لوگوں کے لیے تعصب پایا جاتا ہے۔‏ اپنی رپورٹ میں اُس نے اُس کُل‌وقتی خادم کے بارے میں بہت سی اچھی باتیں لکھیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی لکھا:‏ ”‏اُس بھائی کا تعلق [‏فلاں]‏ نسل سے ہے۔‏ [‏اِس]‏ نسل سے تعلق رکھنے والے زیادہ‌تر لوگ اچھے آداب‌واطوار اور عادتوں کے مالک نہیں ہوتے۔‏ مگر اُس بھائی کے طورطریقوں اور طرزِزندگی سے دوسروں کو یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ [‏اِس]‏ نسل کا ہر شخص ایسا نہیں ہوتا۔‏“‏ اِس سے کیا پتہ چلتا ہے؟‏ چاہے ہم یہوواہ کی تنظیم میں کتنی ہی بھاری ذمےداریاں رکھتے ہوں،‏ ہمیں ایمان‌داری سے یہ جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ہماری سوچ پر اب بھی تعصب کا کوئی اثر تو نہیں ہے۔‏ اور اگر اِس سلسلے میں ہماری اِصلاح کی جاتی ہے تو ہمیں اِسے خاکساری سے قبول کرنا چاہیے۔‏ اِس کے علاوہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

7.‏ ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہمارے دل دوسروں کے لیے ”‏محبت سے بھرے“‏ ہیں؟‏

7 اگر ہمارے دل دوسروں کے لیے ”‏محبت سے بھرے“‏ ہوں گے تو ہمارے اندر تعصب کے لیے کوئی جگہ نہیں رہے گی۔‏ (‏2-‏کُرنتھیوں 6:‏11-‏13‏)‏ کیا آپ صرف ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتے ہیں جن کا تعلق آپ کی نسل،‏ قوم یا قبیلے سے ہے یا جو آپ کی زبان بولتے ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو اپنے دل میں دوسروں کے لیے بھی جگہ بنائیں۔‏ آپ کسی فرق پس‌منظر سے تعلق رکھنے والے بھائیوں اور بہنوں کو اپنے ساتھ مُنادی کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔‏ یا آپ اُنہیں اپنے گھر کھانے وغیرہ پر بلا سکتے ہیں۔‏ (‏اعمال 16:‏14،‏ 15‏)‏ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کے دل میں محبت کی شمع اِس حد تک روشن ہو جائے گی کہ تعصب کے اندھیرے بالکل ختم ہو جائیں گے۔‏ آئیں،‏ اب ایک اَور حلقے پر غور کریں جس میں ہم اُن باتوں کی بِنا پر دوسروں کے بارے میں رائے قائم کرنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں ’‏جو ہمیں نظر آتی ہیں۔‏‘‏

کسی کی مالی حیثیت دیکھ کر رائے قائم نہ کریں

8.‏ احبار 19:‏15 کے مطابق کسی کی مالی حیثیت اُس کے بارے میں ہماری سوچ پر کیسے اثرانداز ہو سکتی ہے؟‏

8 دوسروں کی مالی حیثیت بھی اُن کے بارے میں ہماری سوچ پر اثر ڈال سکتی ہے۔‏ احبار 19:‏15 میں لکھا ہے:‏ ”‏نہ تو تُو غریب کی رعایت کرنا اور نہ بڑے آدمی کا لحاظ بلکہ راستی کے ساتھ اپنے ہمسایہ کا اِنصاف کرنا۔‏“‏ لیکن ہم کسی کی امیری یا غریبی دیکھ کر اُس کے بارے میں رائے قائم کرنے کی طرف کیسے مائل ہو سکتے ہیں؟‏

9.‏ سلیمان نے اِنسانوں کے بارے میں کون سی کڑوی حقیقت بیان کی اور اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏

9 سلیمان نے خدا کے اِلہام سے اِنسانوں کے بارے میں یہ کڑوی حقیقت بیان کی:‏ ”‏کنگال سے اُس کا ہمسایہ بھی بیزار ہے پر مال‌دار کے دوست بہت ہیں۔‏“‏ (‏امثال 14:‏20‏)‏ اِس مثل سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ اگر ہم محتاط نہیں رہتے تو شاید ہم صرف ایسے بہن بھائیوں کو دوست بنانا چاہیں جو امیر ہوں اور ایسے بہن بھائیوں سے کٹے کٹے رہیں جو غریب ہوں۔‏ لیکن کسی کی مالی حیثیت کی بِنا پر اُس سے دوستی کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا نقصان‌دہ کیوں ہے؟‏

10.‏ یعقوب نے مسیحیوں کو کس حوالے سے خبردار کِیا تھا؟‏

10 اگر ہم اپنے بہن بھائیوں کی مالی حیثیت کی بِنا پر اُن کے ساتھ اِمتیازی سلوک کرتے ہیں تو ہماری وجہ سے کلیسیا میں پھوٹ پڑ سکتی ہے۔‏ پہلی صدی عیسوی کی بعض کلیسیاؤں میں ایسا ہی ہوا تھا اور یعقوب نے اُن مسیحیوں کو اِس حوالے سے خبردار بھی کِیا تھا۔‏ ‏(‏یعقوب 2:‏1-‏4 کو پڑھیں۔‏)‏ ہمیں بڑی احتیاط برتنی چاہیے تاکہ اِس طرح کا رویہ ہماری کلیسیاؤں کے اِتحاد کو متاثر نہ کرے۔‏ مگر ہم اِس رُجحان کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں کہ کسی کی قدروقیمت کا اندازہ اُس کی مالی حیثیت سے ہوتا ہے؟‏

ہمیں ایمان‌داری سے یہ جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ہماری سوچ پر اب بھی تعصب کا کوئی اثر تو نہیں ہے۔‏

11.‏ کیا ایک شخص کی امیری یا غریبی کا یہوواہ کے ساتھ اُس کی دوستی سے کوئی لینا دینا ہے؟‏ وضاحت کریں۔‏

11 ہمیں اپنے بہن بھائیوں کو اُسی نظر سے دیکھنا چاہیے جس سے یہوواہ دیکھتا ہے۔‏ یہوواہ ایک شخص کی قدروقیمت کا اندازہ یہ دیکھ کر نہیں لگاتا کہ وہ کتنا امیر یا غریب ہے۔‏ یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی کا اِس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ ہمارے پاس کتنے مالی وسائل ہیں۔‏ یہ سچ ہے کہ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ”‏ایک امیر آدمی کے لیے آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا مشکل ہوگا“‏ مگر اُنہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ ایسا ناممکن ہوگا۔‏ (‏متی 19:‏23‏)‏ یسوع مسیح نے یہ بھی فرمایا تھا:‏ ”‏آپ جو غریب ہیں،‏ آپ خوش رہتے ہیں کیونکہ خدا کی بادشاہت آپ کی ہے۔‏“‏ (‏لُوقا 6:‏20‏)‏ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ تمام غریب لوگ یسوع کا پیغام سنیں گے اور خاص طور پر برکتیں حاصل کریں گے۔‏ بہت سے غریب لوگوں نے یسوع کی پیروی نہیں کی۔‏ دراصل ہم کسی کی امیری یا غریبی کو دیکھ کر یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ یہوواہ کے ساتھ اُس کی دوستی کتنی گہری ہے۔‏

12.‏ بائبل میں امیروں اور غریبوں دونوں کے لیے کون سی نصیحتیں پائی جاتی ہیں؟‏

12 یہوواہ کے بندوں میں امیر اور غریب دونوں طرح کے لوگ شامل ہیں۔‏ یہ سب لوگ یہوواہ سے محبت کرتے ہیں اور پورے دل سے اُس کی خدمت کرتے ہیں۔‏ بائبل میں امیر لوگوں کو یہ نصیحت کی گئی ہے کہ وہ ”‏دولت سے اُمید نہ لگائیں جو آنی جانی ہے بلکہ خدا سے اُمید لگائیں۔‏“‏ ‏(‏1-‏تیمُتھیُس 6:‏17-‏19 کو پڑھیں۔‏)‏ خدا کے کلام میں تمام مسیحیوں کو جن میں امیر اور غریب سبھی شامل ہیں،‏ خبردار کِیا گیا ہے کہ وہ پیسے سے پیار نہ کریں۔‏ (‏1-‏تیمُتھیُس 6:‏9،‏ 10‏)‏ جب ہم اپنے بہن بھائیوں کو اُسی نظر سے دیکھتے ہیں جس سے یہوواہ دیکھتا ہے تو پھر ہم اُن کی مالی حیثیت کی بِنا پر اُن کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کریں گے۔‏ لیکن کیا کسی کی عمر کی بِنا پر اُس کی بارے میں رائے قائم کرنا صحیح ہوگا؟‏ آئیں،‏ دیکھیں۔‏

کسی کی عمر دیکھ کر رائے قائم نہ کریں

13.‏ بائبل میں بڑی عمر والوں کے ساتھ پیش آنے کے حوالے سے کیا کہا گیا ہے؟‏

13 بائبل میں کئی بار یہ نصیحت کی گئی ہے کہ ہم بڑی عمر والوں کی عزت کریں۔‏ احبار 19:‏32 میں لکھا ہے:‏ ”‏جن کے سر کے بال سفید ہیں تُو اُن کے سامنے اُٹھ کھڑے ہونا اور بڑے بوڑھے کا ادب کرنا اور اپنے خدا سے ڈرنا۔‏“‏ اِس کے علاوہ امثال 16:‏31 بیان کرتی ہے:‏ ”‏سفید بال خوب‌صورت تاج ہیں بشرطیکہ وہ صداقت کی راہ پر پائے جائیں۔‏“‏ ‏(‏ترجمہ نئی دُنیا)‏ پولُس رسول نے تیمُتھیُس سے کہا کہ وہ بڑی عمر والے بھائیوں سے سختی سے بات نہ کریں بلکہ اُنہیں باپ سمجھ کر اُن کے ساتھ پیار سے پیش آئیں۔‏ (‏1-‏تیمُتھیُس 5:‏1،‏ 2‏)‏ حالانکہ تیمُتھیُس بڑی عمر والے بھائیوں کو ہدایات دینے کا اِختیار رکھتے تھے مگر اُنہیں ہمیشہ اُن بھائیوں کے ساتھ ہمدردی اور عزت سے پیش آنے کی ضرورت تھی۔‏

14.‏ ہمیں کس صورت میں کسی ایسے شخص کی اِصلاح کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے جو عمر میں ہم سے بڑا ہے؟‏

14 لیکن اگر بڑی عمر کا کوئی بھائی یا بہن جان بُوجھ کر گُناہ کرتا ہے یا ایسے نظریات کو فروغ دیتا ہے جو خدا کو پسند نہیں ہیں تو کیا کِیا جانا چاہیے؟‏ یہوواہ جان بُوجھ کر گُناہ کرنے والے شخص کو معاف نہیں کرے گا پھر چاہے وہ بڑی عمر والا ہی کیوں نہ ہو۔‏ ذرا یسعیاہ 65:‏20 میں درج بات پر غور کریں۔‏ اِس میں لکھا ہے:‏ ”‏خطاکار اگرچہ سو برس کا ہو ملعون ہوگا۔‏“‏ ‏(‏کیتھولک ترجمہ)‏ اِسی سے ملتی جلتی بات حِزقی‌ایل کی رُویا میں بھی پائی جاتی ہے۔‏ (‏حِزقی‌ایل 9:‏5-‏7‏)‏ ہمارے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم یہوواہ کے لیے عزت‌واحترام دِکھائیں جو قدیم‌الایّام یعنی ہمیشہ سے ہے۔‏ (‏دانی‌ایل 7:‏9،‏ 10،‏ 13،‏ 14‏)‏ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم ضرورت پڑنے پر دوسروں کی اِصلاح کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے پھر چاہے وہ عمر میں ہم سے کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں۔‏—‏گلتیوں 6:‏1‏۔‏

کیا آپ اپنے سے کم‌عمر بھائیوں کی عزت کرتے ہیں؟‏ (‏پیراگراف 15 کو دیکھیں۔‏)‏

15.‏ ہم کم‌عمر بھائیوں کی عزت کرنے کے حوالے سے پولُس رسول سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

15 آپ کے خیال میں کیا اُن بھائیوں کی بھی عزت کی جانی چاہیے جو کم‌عمر ہیں؟‏ پولُس رسول نے تیمُتھیُس کو لکھا:‏ ”‏اِس بات کا دھیان رکھیں کہ کوئی آپ کو آپ کی کم‌عمری کی وجہ سے حقیر نہ جانے۔‏ اِس کی بجائے اپنی باتوں،‏ چال‌چلن،‏ محبت،‏ ایمان اور پاکیزگی سے اُن لوگوں کے لیے مثال قائم کریں جو خدا کے وفادار ہیں۔‏“‏ (‏1-‏تیمُتھیُس 4:‏12‏)‏ جب پولُس نے تیمُتھیُس کو یہ بات لکھی تو تیمُتھیُس کی عمر غالباً 30 سال کے لگ بھگ تھی۔‏ پھر بھی پولُس نے اُنہیں بہت سی اہم ذمےداریاں سونپی ہوئی تھیں۔‏ اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اگر کوئی بھائی کم‌عمر ہے تو وہ قابلِ‌احترام نہیں ہے۔‏ یاد رکھیں کہ یسوع نے صرف 33 سال کی عمر میں زمین پر اپنا دورِخدمت مکمل کر لیا تھا۔‏

16،‏ 17.‏ ‏(‏الف)‏ بزرگوں کو یہ فیصلہ کیسے کرنا چاہیے کہ ایک بھائی بزرگ یا خادم بننے کے لائق ہے یا نہیں؟‏ (‏ب)‏ بعض ثقافتوں میں کون سا نظریہ عام ہے جو بائبل کے اصولوں سے ٹکراتا ہے؟‏

16 بعض ثقافتوں میں لوگ کم‌عمر آدمیوں کی عزت نہیں کرتے۔‏ اِس وجہ سے شاید کچھ بزرگ جوان بھائیوں کے نام خادموں یا بزرگوں کے طور پر تجویز نہ کریں حالانکہ وہ تمام شرائط پر پورے اُترتے ہوں۔‏ لیکن بائبل میں کہیں نہیں بتایا گیا کہ ایک بھائی کسی خاص عمر کو پہنچ کر ہی بزرگ یا خادم کے طور پر خدمت کر سکتا ہے۔‏ (‏1-‏تیمُتھیُس 3:‏1-‏10،‏ 12،‏ 13؛‏ طِطُس 1:‏5-‏9‏)‏ اگر کوئی بزرگ اِس معاملے میں اپنی ثقافت سے متاثر ہو کر کوئی قانون بنا لیتا ہے تو وہ خدا کے کلام کے مطابق عمل نہیں کر رہا ہوتا۔‏ بزرگوں کو اپنے ذاتی نظریات یا مقامی ثقافت کی بِنا پر یہ طے نہیں کرنا چاہیے کہ فلاں جوان بھائی کو بزرگ یا خادم بنایا جا سکتا ہے یا نہیں۔‏ اِس کی بجائے اُنہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا وہ بھائی خدا کے کلام میں درج شرائط پر پورا اُتر رہا ہے۔‏—‏2-‏تیمُتھیُس 3:‏16،‏ 17‏۔‏

17 آئیں،‏ ایک مثال پر غور کریں جس میں بعض بزرگوں نے ایک ایسے جوان بھائی کا نام بزرگ کے طور پر تجویز نہیں کِیا جو اِس ذمےداری کو نبھانے کے لائق تھا۔‏ ایک ملک میں ایک خادم اہم ذمےداریاں بہت اچھے طریقے سے نبھا رہا تھا اور اُس کی کلیسیا کے سب بزرگوں کا خیال تھا کہ وہ بائبل کے مطابق بزرگ بننے کی تمام شرائط پر پورا اُتر رہا ہے۔‏ لیکن کچھ بڑی عمر والے بزرگوں نے کہا کہ وہ بہت کم‌عمر دِکھتا ہے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے اُس کا نام تجویز نہیں کِیا۔‏ افسوس کی بات ہے کہ وہ بھائی صرف اِس وجہ سے بزرگ نہیں بن پایا کیونکہ اُس کی عمر کم لگتی تھی۔‏ یہ صرف ایک مثال ہے۔‏ ایسا لگتا ہے کہ کئی ملکوں میں ایسی سوچ عام ہے۔‏ لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے ذاتی نظریات اور مقامی ثقافت کی بجائے بائبل کی بنیاد پر فیصلے کریں۔‏ تبھی ہم یسوع کے حکم پر عمل کر پائیں گے اور ’‏صرف اُن باتوں کی بِنا پر فیصلہ نہیں کریں گے جو ہمیں نظر آتی ہیں۔‏‘‏

دوسروں کے متعلق تعصب سے پاک رائے قائم کریں

18،‏ 19.‏ ہم اپنے بہن بھائیوں کو اُس نظر سے دیکھنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں جس سے یہوواہ دیکھتا ہے؟‏

18 عیب‌دار ہونے کے باوجود ہم یہوواہ کی طرح دوسروں کے ساتھ غیرجانب‌داری سے پیش آنا سیکھ سکتے ہیں۔‏ (‏اعمال 10:‏34،‏ 35‏)‏ اِس کے لیے ہمیں خدا کے کلام میں درج ہدایتوں پر دھیان دیتے رہنا چاہیے۔‏ جب ہم اِن ہدایتوں پر عمل کریں گے تو ہم یسوع کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے ’‏صرف اُن باتوں کی بِنا پر فیصلہ نہیں کریں گے جو ہمیں نظر آتی ہیں۔‏‘‏—‏یوحنا 7:‏24‏۔‏

19 بہت جلد ہمارا بادشاہ یسوع مسیح تمام لوگوں کا اِنصاف کرے گا۔‏ وہ صرف اُن باتوں کی بِنا پر فیصلہ نہیں کرے گا جو وہ دیکھے یا سنے گا۔‏ اِس کی بجائے وہ یہوواہ کے نیک معیاروں کے مطابق اِنصاف کرے گا۔‏ (‏یسعیاہ 11:‏3،‏ 4‏)‏ ہم بڑی شدت سے اُس شان‌دار وقت کے منتظر ہیں!‏