مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

تحمل—‏پُراُمید اور ثابت‌قدم رہنے کا نام

تحمل—‏پُراُمید اور ثابت‌قدم رہنے کا نام

اِس ‏”‏آخری زمانے“‏ میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہے۔‏ اِس لیے ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔‏ (‏2-‏تیمُتھیُس 3:‏1-‏5‏)‏ یہ دُنیا ایسے لوگوں سے بھری ہے جن میں ذرا بھی تحمل نہیں ہے اور جو خودغرض،‏ ضدی اور بےضبط ہیں۔‏ لہٰذا ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے:‏ ”‏کہیں مجھ پر بھی تو اُن لوگوں کی سوچ اثر نہیں کر رہی جو تحمل سے کام نہیں لیتے؟‏ تحمل کا مظاہرہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟‏ مَیں تحمل کو اپنی شخصیت کا حصہ کیسے بنا سکتا ہوں؟‏“‏

تحمل کیا ہے؟‏

بائبل میں جس لفظ کا ترجمہ ”‏تحمل“‏ یا ”‏صبر“‏ کِیا گیا ہے،‏ اُس کا مطلب صرف کسی مشکل کو برداشت کرنا نہیں ہے۔‏ جس شخص میں تحمل کی خوبی ہوتی ہے،‏ وہ اِس اُمید سے مشکلات میں ثابت‌قدم رہتا ہے کہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔‏ وہ صرف اپنے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ دوسروں کے احساسات کا بھی خیال رکھتا ہے،‏ یہاں تک کہ اُن لوگوں کے احساسات کا بھی جنہوں نے اُسے ٹھیس پہنچائی ہوتی ہے۔‏ وہ یہ اُمید رکھتا ہے کہ اُن لوگوں کے ساتھ اُس کے تعلقات ٹھیک ہو جائیں گے۔‏ بائبل میں درج یہ بات بالکل سچ ہے کہ تحمل محبت سے پیدا ہوتا ہے۔‏ * (‏1-‏کُرنتھیوں 13:‏4‏،‏ فٹ‌نوٹ)‏ تحمل ’‏روح کے پھل‘‏ کا حصہ بھی ہے۔‏ (‏گلتیوں 5:‏22،‏ 23‏)‏ لیکن ہمیں اپنے اندر تحمل کی خوبی پیدا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟‏

تحمل کی خوبی کیسے پیدا کریں؟‏

اگر ہم اپنے اندر تحمل پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہوواہ کی پاک روح کے لیے دُعا کرنی چاہیے۔‏ یہوواہ اپنی پاک روح اُن لوگوں کو دیتا ہے جو اُس پر بھروسا رکھتے ہیں۔‏ (‏لُوقا 11:‏13‏)‏ بےشک خدا کی روح میں بےپناہ طاقت ہے لیکن ہمیں اپنی طرف سے بھی قدم اُٹھانے چاہئیں اور اپنی دُعاؤں کے مطابق کام کرنا چاہیے۔‏ (‏زبور 86:‏10،‏ 11‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں ہر روز تحمل ظاہر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اِسے اپنی شخصیت کا حصہ بنانا چاہیے۔‏ لیکن پھر بھی کبھی کبھار ہمیں تحمل کا مظاہرہ کرنا مشکل لگ سکتا ہے۔‏ ایسی صورت میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

ہمیں یسوع مسیح کی کامل مثال پر غور کرنا اور پھر اِس پر عمل کرنا چاہیے۔‏ جب پولُس رسول نے ”‏نئی شخصیت“‏ کے بارے میں بات کی جس میں تحمل کی خوبی بھی شامل ہے تو اُنہوں نے مسیحیوں کو نصیحت کی:‏ ”‏اُس اِطمینان کو اپنے دلوں پر حکمرانی کرنے دیں جو مسیح سے ہے۔‏“‏ (‏کُلسّیوں 3:‏10،‏ 12،‏ 15‏)‏ پولُس کی اِس نصیحت پر عمل کرنے کے لیے ہمیں یسوع کی طرح اِس بات پر بھروسا رکھنا ہوگا کہ خدا صحیح وقت پر سارے مسئلوں کو حل کر دے گا۔‏ اگر ہم ایسا کریں گے تو پھر چاہے ہماری صورتحال جو بھی ہو،‏ ہم تحمل کا دامن نہیں چھوڑیں گے۔‏—‏یوحنا 14:‏27؛‏ 16:‏33‏۔‏

ہم سب چاہتے ہیں کہ نئی دُنیا جلدی جلدی آ جائے۔‏ لیکن جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہوواہ ہمارے ساتھ کتنے صبروتحمل سے پیش آیا ہے تو ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ ہمیں بھی زیادہ تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔‏ بائبل میں ہمیں یہ یقین دِلایا گیا ہے:‏ ”‏یہوواہ اپنا وعدہ پورا کرنے میں دیر نہیں کرتا جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔‏ دراصل وہ آپ کی خاطر صبر سے کام لے رہا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی شخص ہلاک ہو بلکہ وہ چاہتا ہے کہ سب لوگ توبہ کریں۔‏“‏ (‏2-‏پطرس 3:‏9‏)‏ لہٰذا اِس بات پر سوچ بچار کرنے سے کہ یہوواہ ہماری خاطر کتنے صبروتحمل کا مظاہرہ کرتا ہے،‏ ہمیں بھی دوسروں کے ساتھ تحمل سے پیش آنے کی ترغیب ملتی ہے۔‏ (‏رومیوں 2:‏4‏)‏ اب آئیں،‏ کچھ ایسی صورتحال پر بات کریں جن میں ہمیں تحمل ظاہر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‏

ہمارے صبروتحمل کے اِمتحان کی گھڑیاں

ہمیں آئے دن ایسے حالات کا سامنا ہوتا ہے جن میں ہمیں تحمل ظاہر کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔‏ مثال کے طور پر دوسروں سے گفتگو کرتے وقت اگر ہمیں کوئی اہم بات کہنی ہوتی ہے تو ہمیں تحمل سے کام لینا پڑتا ہے تاکہ ہم اُن کی بات کو نہ کاٹیں۔‏ (‏یعقوب 1:‏19‏)‏ ہمیں اُس وقت بھی تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے جب ہم ایسے بہن بھائیوں کے ساتھ ہوتے ہیں جن کی عادتیں ہمیں اچھی نہیں لگتیں۔‏ ایسے بہن بھائیوں پر بگڑنے کی بجائے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہوواہ اور یسوع ہماری کمزوریوں کے باوجود ہمارے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں۔‏ وہ ہماری چھوٹی چھوٹی خامیوں پر نظر نہیں رکھتے بلکہ ہماری خوبیوں کو دیکھتے ہیں اور صبروتحمل سے ہمیں اپنے اندر بہتری لانے کا موقع دیتے ہیں۔‏—‏1-‏تیمُتھیُس 1:‏16؛‏ 1-‏پطرس 3:‏12‏۔‏

ہمیں اُس وقت بھی تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے جب کوئی ہمیں بتاتا ہے کہ ہم نے فلاں بات یا کام صحیح نہیں کِیا۔‏ ہو سکتا ہے کہ جب وہ شخص ہم سے ایسا کہے تو ہم بُرا مان جائیں اور اپنی صفائیاں دینے لگیں۔‏ لیکن ایسا ردِعمل خدا کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا۔‏ اُس کے کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏بُردبار [‏یعنی تحمل کرنے والا]‏ متکبرمزاج سے اچھا ہے۔‏ تُو اپنے جی میں خفا ہونے میں جلدی نہ کر کیونکہ خفگی احمقوں کے سینوں میں رہتی ہے۔‏“‏ (‏واعظ 7:‏8،‏ 9‏)‏ لہٰذا چاہے ہم پر کوئی جھوٹا اِلزام ہی کیوں نہ لگایا جائے،‏ ہمیں صبروتحمل سے کام لینا چاہیے اور پہلے تولنا،‏ پھر بولنا چاہیے۔‏ جب یسوع کو بےبنیاد اِلزامات کا نشانہ بنایا گیا تو اُنہوں نے بھی ایسا ہی کِیا۔‏—‏متی 11:‏19‏۔‏

والدین کو بھی تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے،‏ خاص طور پر اُس وقت جب اُنہیں بُری سوچ یا خواہشوں کو ترک کرنے میں اپنے بچوں کی مدد کرنی پڑتی ہے۔‏ اِس سلسلے میں یورپ کے ایک بیت‌ایل میں کام کرنے والے متھایس کی مثال پر غور کریں۔‏ جب متھایس نوجوان تھے تو اُن کے سکول کے بچے اُن کے عقیدوں کی وجہ سے اُن کا مذاق اُڑاتے تھے۔‏ شروع شروع میں تو اُن کے والدین اِس بات سے بےخبر تھے۔‏ لیکن پھر اُنہوں نے دیکھا کہ متھایس ہمارے عقیدوں پر شک کرنے لگے ہیں۔‏ متھایس کے والد گیلس نے کہا:‏ ”‏مجھے اور میری بیوی کو اِس معاملے میں بڑے تحمل کی ضرورت تھی۔‏ متھایس ہم سے ایسے سوال پوچھتا تھا:‏ ”‏خدا کون ہے؟‏“‏ ”‏کیا ہم واقعی یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ بائبل خدا کا کلام ہے؟‏“‏ ”‏اِس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ہمیں جن حکموں پر عمل کرنے کو کہا جاتا ہے،‏ وہ سچ میں خدا کی طرف سے ہیں؟‏“‏“‏ متھایس اپنے والد سے یہ بھی کہتے:‏ ”‏کیا یہ لازمی ہے کہ مَیں بھی اُن باتوں کو مانوں جن پر آپ ایمان رکھتے ہیں؟‏“‏

گیلس کہتے ہیں:‏ ”‏کبھی کبھار ہمارا بیٹا ہم سے بڑے غصے میں سوال کرتا۔‏ لیکن اُس کے غصے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ مجھ سے یا اپنی ماں سے ناراض تھا۔‏ دراصل اُسے لگتا تھا کہ سچائی میں ہونے کی وجہ سے اُس کی زندگی مشکل میں پڑ گئی ہے۔‏“‏ گیلس نے اپنے بیٹے کی مدد کیسے کی؟‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں اور میرا بیٹا گھنٹوں تک بات‌چیت کرتے رہتے۔‏“‏ عام طور پر تو گیلس صرف متھایس کی بات سنتے اور اُن کے احساسات اور رائے کو جاننے کے لیے اُن سے سوال پوچھتے۔‏ کبھی کبھار وہ متھایس کو کوئی بات سمجھاتے اور پھر اُنہیں اِس بارے میں سوچنے کے لیے ایک آدھ دن دیتے۔‏ بعض اوقات جب متھایس کسی معاملے پر اپنا نظریہ بیان کرتے تو اُن کے والد اِس بارے میں سوچنے کے لیے اُن سے کچھ دن مانگتے۔‏ اِس طرح باقاعدگی سے بات‌چیت کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ متھایس بہت سی باتوں کو سمجھنے لگے۔‏ مثال کے طور پر اُنہیں فدیے کا مطلب سمجھ آ گیا،‏ وہ یہ جان گئے کہ یہوواہ اِنسانوں سے پیار کرتا ہے اور اُنہوں نے تسلیم کر لیا کہ اُسے اِنسانوں پر حکمرانی کرنے کا حق ہے۔‏ متھایس کے والد نے کہا:‏ ”‏اگرچہ اِس میں وقت لگا اور یہ اِتنا آسان نہیں تھا لیکن آہستہ آہستہ متھایس کے دل میں یہوواہ کے لیے محبت بڑھتی گئی۔‏ مجھے اور میری بیوی کو اِس بات کی بےحد خوشی ہے کہ جب ہم نے تحمل سے اپنے بیٹے کی مدد کرنے کی کوشش کی تو یہ کوششیں رنگ لائیں اور ہماری باتیں اُس کے دل تک پہنچ گئیں۔‏“‏

تحمل سے اپنے بیٹے کو سمجھاتے بجھاتے وقت گیلس اور اُن کی بیوی نے اِس بات پر بھروسا رکھا کہ یہوواہ اُن کی مدد کرے گا۔‏ گیلس کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں اکثر متھایس کو بتاتا تھا کہ مَیں اور اُس کی ماں اُس سے بےحد پیار کرتے ہیں اور اِسی پیار نے ہمیں ترغیب دی کہ ہم اَور زیادہ شدت سے خدا سے یہ دُعا کریں کہ وہ سچائی کو سمجھنے میں اُس کی مدد کرے۔‏“‏ متھایس کے والدین کو اِس بات پر بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ اُنہوں نے تحمل سے کام لیا اور ہمت نہیں ہاری۔‏

ہمیں تحمل کی ضرورت اُس وقت بھی پیش آتی ہے جب ہم اپنے گھر کے کسی ایسے فرد یا دوست کی دیکھ‌بھال کرتے ہیں جو ایک لمبے عرصے سے سنگین بیماری میں مبتلا ہوتا ہے۔‏ اِس سلسلے میں یورپ کے ایک ملک میں رہنے والی ایلن کی مثال پر غور کریں۔‏ *

تقریباً آٹھ سال پہلے دو مرتبہ ایلن کے شوہر کے دماغ کی نس پھٹ گئی اور اِس سے اُن کے دماغ کو شدید نقصان پہنچا۔‏ اب وہ خوشی،‏ غم اور ہمدردی جیسے جذبات کو محسوس نہیں کر سکتے۔‏ ایلن کے لیے یہ بڑی کٹھن صورتحال ہے۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏اِن حالات کا سامنا کرنے کے لیے مجھے بڑے تحمل سے کام لینا پڑا اور بہت سی دُعائیں کرنی پڑیں۔‏“‏ اُنہوں نے مزید کہا:‏ ”‏میری پسندیدہ آیت فِلپّیوں 4:‏13 ہے جس سے مجھے بہت حوصلہ ملتا ہے۔‏ اِس آیت میں لکھا ہے:‏ ”‏جو مجھے طاقت دیتا ہے،‏ اُس کے ذریعے مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔‏“‏“‏ یہوواہ کی طرف سے ملنے والی مدد اور طاقت کی بدولت ایلن تحمل سے اِس صورتحال کا سامنا کر پا رہی ہیں۔‏—‏زبور 62:‏5،‏ 6‏۔‏

تحمل کے سلسلے میں یہوواہ کی مثال

بِلاشُبہ تحمل کی بہترین مثال یہوواہ خدا ہے۔‏ (‏2-‏پطرس 3:‏15‏)‏ بائبل میں ایسے بہت سے واقعات کا ذکر کِیا گیا ہے جن میں یہوواہ نے تحمل کا مظاہرہ کِیا۔‏ (‏نحمیاہ 9:‏30؛‏ یسعیاہ 30:‏18‏)‏ ذرا اُس واقعے کو یاد کریں جب یہوواہ نے سدوم کو تباہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔‏ جب ابراہام نے اِس فیصلے کے حوالے سے بار بار یہوواہ سے سوال پوچھے تو یہوواہ نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟‏ اُس نے اُنہیں ٹوکا نہیں بلکہ بڑے تحمل سے اُن کے سوالوں اور خدشوں کو سنا اور ظاہر کِیا کہ وہ اُن کے احساسات کو سمجھتا ہے۔‏ اُس نے اُنہیں یقین دِلایا کہ اگر سدوم میں دس نیک لوگ بھی ہوں گے تو وہ اُسے تباہ نہیں کرے گا۔‏ (‏پیدایش 18:‏22-‏33‏)‏ یہوواہ خدا ہمیشہ تحمل سے دوسروں کی بات سنتا ہے اور کبھی آپے سے باہر نہیں ہوتا۔‏

تحمل اُس نئی شخصیت کا اہم حصہ ہے جسے تمام مسیحیوں کو پہن لینا چاہیے۔‏ اگر ہم اپنے اندر تحمل کی خوبی کو نکھاریں گے تو ہم اپنے شفیق آسمانی باپ کی بڑائی کریں گے جو ہمیشہ صبروتحمل سے کام لیتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ ہم اُن لوگوں میں شامل ہوں گے ”‏جو اپنے ایمان اور صبر کی وجہ سے وعدوں کے وارث ہیں۔‏“‏—‏عبرانیوں 6:‏10-‏12‏۔‏

^ پیراگراف 4 روح کے پھل میں شامل خوبیوں پر شائع ہونے والے مضامین میں سے پہلے مضمون میں محبت کی خوبی پر بات کی گئی تھی۔‏

^ پیراگراف 15 فرضی نام اِستعمال کِیا گیا ہے۔‏