مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 33

‏”‏جو آپ کی بات سنتے ہیں،‏“‏ وہ بچ جائیں گے

‏”‏جو آپ کی بات سنتے ہیں،‏“‏ وہ بچ جائیں گے

‏”‏اپنی شخصیت اور اُس تعلیم پر دھیان دیں جو آپ دوسروں کو دیتے ہیں۔‏ اِن کاموں میں لگے رہیں کیونکہ اِس طرح آپ خود کو اور اُن لوگوں کو بچا لیں گے جو آپ کی بات سنتے ہیں۔‏“‏‏—‏1-‏تیم 4:‏16‏۔‏

گیت نمبر 67‏:‏ ‏”‏خدا کے کلام کی مُنادی کریں“‏

مضمون پر ایک نظر *

1.‏ ہم سب اپنے غیرایمان رشتےداروں کے حوالے سے کیا چاہتے ہیں؟‏

پولین نامی بہن کہتی ہیں:‏ ”‏جب سے مَیں نے سچائی سیکھی تب سے میری یہ خواہش رہی کہ میرے گھر کا ہر فرد میرے ساتھ فردوس میں ہو۔‏ * مَیں خاص طور پر یہ چاہتی تھی کہ میرے شوہر ویئن اور میرا بیٹا میرے ساتھ مل کر یہوواہ کی عبادت کریں۔‏“‏ کیا آپ کے بھی ایسے رشتےدار ہیں جنہوں نے اب تک یہوواہ کے بارے میں نہیں سیکھا اور اپنے دل میں اُس کے لیے محبت پیدا نہیں کی؟‏ اگر ایسا ہے تو شاید آپ بھی اپنے اِن رشتےداروں کے لیے ویسے ہی احساسات رکھیں جیسے بہن پولین اپنے گھر والوں کے لیے رکھتی تھیں۔‏

2.‏ اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

2 ہم اپنے رشتےداروں کو بادشاہت کا پیغام قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔‏ البتہ ہم اُنہیں اِس پیغام پر سوچ بچار کرنے اور اِس کے لیے مثبت ردِعمل دِکھانے کی ترغیب ضرور دے سکتے ہیں۔‏ (‏2-‏تیم 3:‏14،‏ 15‏)‏ ہمیں اپنے رشتےداروں کو گواہی کیوں دینی چاہیے؟‏ ایسا کرتے وقت ہمیں اُن کے احساسات کا لحاظ رکھنے کی ضرورت کیوں ہے؟‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہمارے رشتےدار ہماری طرح یہوواہ سے محبت کرنے لگیں؟‏ اور اِس سلسلے میں ہماری کلیسیا کے بہن بھائی کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟‏

اپنے رشتےداروں کو گواہی کیوں دیں؟‏

3.‏ دوسرا پطرس 3:‏9 کے مطابق ہمیں اپنے رشتےداروں کو گواہی کیوں دینی چاہیے؟‏

3 بہت جلد یہوواہ شیطان کی دُنیا کو ختم کرنے والا ہے۔‏ اُس وقت صرف وہی لوگ بچیں گے ”‏جو ہمیشہ کی زندگی کی راہ پر چلنے کی طرف مائل“‏ ہیں۔‏ (‏اعما 13:‏48‏)‏ ہم اپنے علاقے کے انجان لوگوں کو خوش‌خبری سنانے کے لیے اپنا بہت سا وقت اور توانائی صرف کرتے ہیں۔‏ اگر ہم اُن کے لیے ایسا کرتے ہیں تو اپنے رشتےداروں کو خوش‌خبری سنانے کی تو ہم اَور بھی شدید خواہش رکھتے ہیں تاکہ وہ ہمارے ساتھ مل کر یہوواہ کی عبادت کریں۔‏ ہمارا شفیق باپ یہوواہ یہ ”‏نہیں چاہتا کہ کوئی بھی شخص ہلاک ہو بلکہ وہ چاہتا ہے کہ سب لوگ توبہ کریں۔‏“‏‏—‏2-‏پطرس 3:‏9 کو پڑھیں۔‏

4.‏ اپنے رشتےداروں کو گواہی دیتے وقت ہم کون سی غلطی کرنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں؟‏

4 ہمیں اِس بات کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ دوسروں کو نجات کا پیغام سنانے کا ایک طریقہ صحیح ہے اور ایک غلط۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہم اجنبیوں کو تو بڑی نرمی سے گواہی دیں لیکن اپنے رشتےداروں کو گواہی دیتے وقت اُن سے دوٹوک لفظوں میں بات کریں۔‏

5.‏ اپنے رشتےداروں کو گواہی دیتے وقت ہمیں کس بات کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے؟‏

5 بہت سے بہن بھائی شاید اُس وقت کے بارے میں سوچ کر پچھتاتے ہوں جب اُنہوں نے پہلی بار اپنے رشتےداروں کو گواہی دیتے ہوئے سمجھ‌داری سے کام نہیں لیا تھا۔‏ پولُس رسول نے مسیحیوں کو یہ نصیحت کی:‏ ”‏آپ کی باتیں ہمیشہ دلکش اور نمک کی طرح ذائقےدار ہوں تاکہ آپ کو پتہ ہو کہ لوگوں کو کس طرح جواب دینا ہے۔‏“‏ (‏کُل 4:‏5،‏ 6‏)‏ اپنے رشتےداروں کو گواہی دیتے وقت اِس نصیحت کو یاد رکھنا اچھا ہوگا ورنہ ہم اپنی باتوں سے اُنہیں ناراض کر بیٹھیں گے۔‏ اور یوں وہ ہماری بات سننے پر آمادہ ہونے کی بجائے ہم سے کترانے لگیں گے۔‏

اپنے رشتےداروں کی مدد کیسے کریں؟‏

دوسروں کے احساسات کا لحاظ رکھنے اور اچھی مثال قائم کرنے سے آپ اُنہیں بہترین گواہی دے رہے ہوں گے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 6-‏8 کو دیکھیں۔‏)‏ *

6،‏ 7.‏ ایک شخص کے لیے اپنے غیرایمان جیون ساتھی کے احساسات کا لحاظ رکھنا اِتنا ضروری کیوں ہے؟‏ اِس سلسلے میں ایک مثال دیں۔‏

6 اُن کے احساسات کا لحاظ رکھیں۔‏ بہن پولین جن کا پہلے ذکر ہوا ہے،‏ کہتی ہیں:‏ ”‏شروع شروع میں تو مَیں اپنے شوہر کے ساتھ صرف بائبل اور یہوواہ کے بارے میں بات کرنا چاہتی تھی۔‏ ہمارے بیچ اِس کے علاوہ کسی اَور موضوع پر بات ہی نہیں ہوتی تھی۔‏“‏ پولین کے شوہر ویئن بائبل کے بارے میں اِتنا کچھ نہیں جانتے تھے اور پولین کی باتیں اُن کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔‏ اُنہیں لگتا تھا کہ اُن کی بیوی اپنے مذہب کے علاوہ کچھ اَور سوچتی ہی نہیں ہے۔‏ وہ پولین کے لیے کافی فکرمند ہو گئے کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ وہ گمراہ ہو گئی ہے اور ایک خطرناک فرقے کا حصہ بن گئی ہے۔‏

7 پولین مانتی ہیں کہ شروع شروع میں وہ شام اور ہفتے اِتوار کو بہت سا وقت اپنے مسیحی بہن بھائیوں کے ساتھ گزارتی تھیں،‏ مثلاً وہ اُنہی کے ساتھ اِجلاسوں میں ہوتیں،‏ مُنادی میں حصہ لیتیں اور تفریح کرتیں۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏جب ویئن گھر لوٹتے تو کبھی کبھار گھر پر کوئی نہیں ہوتا تھا اور وہ خود کو بہت اکیلا محسوس کرتے تھے۔‏“‏ اور کرتے بھی کیوں نہ،‏ اُن کی بیوی اور بیٹا جو اُن کے ساتھ نہیں ہوتے تھے۔‏ اُنہیں تھوڑی پتہ تھا کہ وہ دونوں کیسے لوگوں کے ساتھ ہیں۔‏ اُنہیں محسوس ہوتا تھا کہ اُن کی بیوی کے نئے دوست اُس کی زندگی میں اُن سے زیادہ اہم ہو گئے ہیں۔‏ اِس سب کی وجہ سے ویئن،‏ پولین کو طلاق کی دھمکیاں دینے لگے۔‏ آپ کے خیال میں پولین اپنے شوہر کے احساسات کا لحاظ کیسے رکھ سکتی تھیں؟‏

8.‏ پہلا پطرس 3:‏1،‏ 2 کی روشنی میں بتائیں کہ ہمارے رشتےداروں پر کس چیز کا زیادہ گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔‏

8 اچھی مثال قائم کریں۔‏ اکثر ہماری باتوں سے زیادہ ہمارے کام ہمارے رشتےداروں پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔‏ ‏(‏1-‏پطرس 3:‏1،‏ 2 کو پڑھیں۔‏)‏ آخرکار پولین اِس بات کی اہمیت کو سمجھ گئیں۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏مَیں جانتی تھی کہ ویئن ہم سے بہت پیار کرتے ہیں اور وہ مجھے طلاق دینا نہیں چاہتے۔‏ لیکن اُن کی دھمکی سے مجھے احساس ہوا کہ مجھے ازدواجی زندگی کے حوالے سے یہوواہ کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔‏ لہٰذا مَیں نے سوچا کہ بائبل کے بارے میں بہت زیادہ بات کرنے کی بجائے مجھے اپنے کاموں سے اچھی مثال قائم کرنی چاہیے۔‏“‏ اِس کے بعد سے پولین نے کبھی بھی ویئن کو بائبل کے بارے میں بات کرنے پر مجبور نہیں کِیا بلکہ وہ اُن سے روزمرہ کے معاملوں پر بات کرنے لگیں۔‏ ویئن نے دیکھا کہ اُن کی بیوی پہلے سے زیادہ صلح‌پسند اور اُن کا بیٹا پہلے سے زیادہ تمیزدار بن گیا ہے۔‏ (‏امثا 31:‏18،‏ 27،‏ 28‏)‏ جب ویئن نے محسوس کِیا کہ بائبل کی تعلیمات کا اُن کی بیوی اور بچے پر کتنا اچھا اثر ہو رہا ہے تو وہ پاک کلام کے پیغام کو سننے کی طرف مائل ہونے لگے۔‏—‏1-‏کُر 7:‏12-‏14،‏ 16‏۔‏

9.‏ ہمیں اپنے رشتےداروں کی مدد کرنے کی کوشش کیوں جاری رکھنی چاہیے؟‏

9 اپنے رشتےداروں کی مدد کرنا جاری رکھیں۔‏ اِس حوالے سے ذرا یہوواہ کی مثال پر غور کریں۔‏ اُس نے ”‏بار بار“‏ لوگوں کو خوش‌خبری کا پیغام سننے اور زندگی پانے کا موقع دیا۔‏ (‏یرم 44:‏4‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ اور پولُس رسول نے تیمُتھیُس سے کہا کہ وہ دوسروں کی مدد کرنے میں لگے رہیں۔‏ اُنہوں نے یہ نصیحت اِس لیے کی کیونکہ ایسا کرنے سے تیمُتھیُس خود کو اور اُن لوگوں کو بچانے کے قابل ہو جاتے جو اُن کی بات سنتے۔‏ (‏1-‏تیم 4:‏16‏)‏ ہم اپنے رشتےداروں سے محبت کرتے ہیں اِس لیے ہماری دلی خواہش ہے کہ وہ خدا کے کلام میں پائی جانے والی سچائیوں کو جان جائیں۔‏ اِس حوالے سے بہن پولین کی کوششیں رنگ لائیں۔‏ اُن کی باتوں اور کاموں کا آخرکار اُن کے شوہر پر اچھا اثر پڑا۔‏ آج بہن پولین بہت خوش ہیں کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر یہوواہ کی خدمت کر رہی ہیں۔‏ وہ دونوں پہل‌کار ہیں اور وئین کلیسیا میں ایک بزرگ ہیں۔‏

10.‏ ہمیں صبر سے کام لینے کی ضرورت کیوں ہے؟‏

10 صبر سے کام لیں۔‏ جب ہم خدا کے معیاروں کے مطابق زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ہمارے رشتےداروں کو ہمارے نئے عقیدوں اور طرزِزندگی کو سمجھنا مشکل لگ سکتا ہے۔‏ ایک چیز جو وہ فوراً بھانپ لیتے ہیں،‏ وہ یہ ہوتی ہے کہ اب ہم اُن کے ساتھ مذہبی تہواروں میں حصہ نہیں لیتے اور سیاسی معاملوں سے دُور رہتے ہیں۔‏ ہمارے کچھ رشتےدار تو شروع شروع میں ہم سے کافی خفا ہو جاتے ہیں۔‏ (‏متی 10:‏35،‏ 36‏)‏ لیکن ہمیں یہ نہیں سوچ لینا چاہیے کہ سچائی کے بارے میں اُن کا رویہ کبھی نہیں بدلے گا۔‏ اگر ہم اُنہیں اپنے عقیدے سمجھانے کی کوشش کرنا چھوڑ دیں گے تو گویا ہم اُن کے منصف بن کر یہ فیصلہ کر رہے ہوں گے کہ وہ ہمیشہ کی زندگی پانے کے لائق نہیں ہیں۔‏ ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہوواہ نے یہ فیصلہ کرنے کا اِختیار ہمیں نہیں بلکہ یسوع کو سونپا ہے۔‏ (‏یوح 5:‏22‏)‏ اگر ہم صبر سے کام لیں گے تو ہو سکتا ہے کہ ہمارے رشتےدار ہمارا پیغام سننے کی طرف مائل ہو جائیں۔‏—‏بکس ”‏ تعلیم دینے کے لیے ہماری ویب‌سائٹ کو اِستعمال کریں‏“‏ کو دیکھیں۔‏

11-‏13.‏ بہن ایلس جس طرح سے اپنے والدین کے ساتھ پیش آئیں،‏ اُس سے آپ نے کیا سیکھا ہے؟‏

11 اپنے فیصلے پر ڈٹے رہیں لیکن سمجھ‌داری سے بات کریں۔‏ ‏(‏امثا 15:‏2‏)‏ ذرا ایلس نامی بہن کی مثال پر غور کریں۔‏ اُنہوں نے اُس وقت یہوواہ خدا کے بارے میں سیکھنا شروع کِیا جب وہ اپنے ماں باپ سے دُور کسی اَور ملک میں رہ رہی تھیں۔‏ اُن کے والدین خدا کے وجود پر ایمان نہیں رکھتے تھے اور سیاسی طور پر کافی سرگرم تھے۔‏ بہن ایلس اچھی طرح سے جانتی تھیں کہ اُنہیں اپنے والدین کو جلد از جلد یہ بتا دینا چاہیے کہ وہ کیا سیکھ رہی ہیں۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏آپ اپنے گھر والوں کو اپنے نئے عقیدوں اور طورطریقوں کے متعلق بتانے میں جتنی زیادہ دیر کریں گے،‏ اُنہیں اُتنا ہی زیادہ دھچکا لگے گا۔‏“‏ لہٰذا بہن ایلس ایسے موضوعات کے بارے میں سوچنے لگیں جن میں اُن کے والدین دلچسپی لیں گے جیسے کہ محبت۔‏ (‏1-‏کُر 13:‏1-‏13‏)‏ اِس کے بعد وہ اپنے والدین کو خط لکھتیں اور اِن میں اِس بات کا ذکر کرتیں کہ بائبل میں اِن موضوعات کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے۔‏ پھر وہ بائبل کے نظریے کے متعلق اُن کی رائے پوچھتیں۔‏ وہ اپنے والدین کا شکریہ ادا کرتیں کہ اُنہوں نے اِتنے پیار سے اُن کی پرورش اور دیکھ‌بھال کی۔‏ اِس کے علاوہ وہ اُنہیں تحفے تحائف بھی بھیجتیں۔‏ وہ جب بھی اپنے والدین سے ملنے جاتیں تو اِس دوران وہ گھر کے کام‌کاج میں اپنی امی کا ہاتھ بٹانے میں کوئی کسر نہ چھوڑتیں۔‏ پھر بھی جب بہن ایلس نے اپنے والدین کو اپنے نئے عقیدوں کے بارے میں بتایا تو شروع شروع میں وہ اِس بات پر بالکل خوش نہیں ہوئے۔‏

12 جتنی دیر بہن ایلس اپنے والدین کے گھر پر رہیں،‏ وہ بائبل پڑھنے کے اپنے معمول پر قائم رہیں۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏اِس سے میری امی یہ سمجھ پائیں کہ میری زندگی میں خدا کا کلام کتنی اہمیت رکھتا ہے۔‏“‏ اِسی دوران بہن ایلس کے ابو نے بائبل کے بارے میں جاننے کا فیصلہ کِیا تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ اُن کی بیٹی کی سوچ کیوں بدل گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ بائبل میں سے نقص بھی نکال سکیں۔‏ بہن ایلس کہتی ہیں:‏ ”‏مَیں نے اُنہیں ایک بائبل دی اور اِس میں اُن کے لیے چھوٹا سا محبت بھرا پیغام لکھا۔‏“‏ اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟‏ بہن ایلس کے والد کو بائبل میں نقص تو ایک بھی نہیں ملا البتہ اِس میں لکھی باتوں کو پڑھ کر اُن کے دل پر بہت گہرا اثر ہوا۔‏

13 مشکلات کو برداشت کرتے وقت بھی ہمیں یہوواہ کی عبادت کرنے کے فیصلے پر ڈٹے رہنا چاہیے۔‏ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں سمجھ‌داری کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔‏ (‏1-‏کُر 4:‏12‏)‏ ذرا پھر سے بہن ایلس کی مثال پر غور کریں۔‏ اُنہیں اپنی امی کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔‏ بہن ایلس کہتی ہیں:‏ ”‏جب مَیں نے بپتسمہ لیا تو میری امی نے مجھے ”‏نافرمان اولاد“‏ کہا۔‏“‏ اِس پر بہن ایلس نے کیا کِیا؟‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏مسئلے سے نظریں چُرانے کی بجائے مَیں نے بڑے ادب اور احترام سے امی کو بتایا کہ مَیں یہوواہ کی گواہ بننے کا فیصلہ کر چُکی ہوں اور مَیں اپنے اِس فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹوں گی۔‏ پھر مَیں نے امی کو یقین دِلایا کہ مَیں اُن سے بہت محبت کرتی ہوں۔‏ اُس وقت ہم دونوں کافی روئیں۔‏ پھر مَیں نے امی کے لیے مزےدار سا کھانا بنایا۔‏ اُس دن سے امی کو اِس بات کا بخوبی اندازہ ہو گیا کہ بائبل کی تعلیمات نے مجھے ایک اچھا اِنسان بنایا ہے۔‏“‏

14.‏ ہمیں اپنے رشتےداروں کے دباؤ میں کیوں نہیں آنا چاہیے؟‏

14 ہمارے رشتےداروں کو یہ بات پوری طرح سے سمجھنے میں وقت لگ سکتا ہے کہ ہماری نظر میں یہوواہ کی خدمت کرنا کس قدر اہم ہے۔‏ مثال کے طور پر جب بہن ایلس نے اپنے والدین کے چُنے ہوئے پیشے کو اِختیار کرنے کی بجائے پہل‌کار بننے کا فیصلہ کِیا تو اُن کی امی پھر سے رونے لگیں۔‏ لیکن بہن ایلس اپنے عزم پر قائم رہیں۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏اگر آپ ایک معاملے میں اپنے خاندان والوں کی بات مان لیں گے تو وہ دوسرے معاملوں میں بھی آپ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔‏ لیکن اگر آپ اپنے فیصلے پر ڈٹے رہیں گے مگر ساتھ ہی ساتھ اُن سے مہربانی سے پیش آئیں گے تو ہو سکتا ہے کہ اُن میں سے کچھ آپ کی بات سننے پر آمادہ ہو جائیں۔‏“‏ بہن ایلس کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔‏ اب اُن کے امی ابو دونوں پہل‌کار ہیں اور ابو کلیسیا میں ایک بزرگ ہیں۔‏

کلیسیا کے ارکان کا کردار

کلیسیا کے ارکان غیرایمان رشتےداروں کو سچائی کی طرف مائل کرنے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟‏ (‏پیراگراف نمبر 15،‏ 16 کو دیکھیں۔‏)‏ *

15.‏ متی 5:‏14-‏16 اور 1-‏پطرس 2:‏12 کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتائیں کہ ہمارے بہن بھائیوں کے ”‏اچھے کاموں“‏ سے ہمارے رشتےداروں کی مدد کیسے ہو سکتی ہے۔‏

15 یہوواہ کلیسیا کے ارکان کے ”‏اچھے کاموں“‏ کے ذریعے لوگوں کو اپنی طرف کھنچ رہا ہے۔‏ ‏(‏متی 5:‏14-‏16؛‏ 1-‏پطرس 2:‏12 کو پڑھیں۔‏)‏ اگر آپ کا جیون ساتھی یہوواہ کا گواہ نہیں ہے تو کیا وہ آپ کی کلیسیا کے بہن بھائیوں سے ملا ہے؟‏ بہن پولین جن کا پہلے بھی ذکر ہوا ہے،‏ اکثر اپنے گھر میں کلیسیا کے بہن بھائیوں کو بلایا کرتی تھیں تاکہ اُن کے شوہر کی اُن سے جان پہچان ہو سکے۔‏ ویئن کو آج بھی یاد ہے کہ کیسے ایک بھائی نے غلط‌فہمی کی اُس دیوار کو توڑ ڈالا جو اُن کے ذہن میں گواہوں کے بارے میں کھڑی تھی۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏اُس نے صرف اِس لیے اپنے کام سے ایک دن کی چھٹی لی تاکہ وہ میرے ساتھ ٹی‌وی پر میچ دیکھ سکے۔‏ مَیں نے سوچا:‏ ”‏یہ بندہ تو نارمل ہے!‏“‏“‏

16.‏ ہمیں اپنے رشتےداروں کو اِجلاسوں پر آنے کی دعوت کیوں دینی چاہیے؟‏

16 اپنے رشتےداروں کی مدد کرنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اُنہیں اپنے ساتھ اِجلاسوں پر آنے کو کہیں۔‏ (‏1-‏کُر 14:‏24،‏ 25‏)‏ ویئن گواہوں کے اِجلاس پر پہلی بار اُس وقت گئے جب مسیح کی یادگاری تقریب منائی گئی تھی کیونکہ یہ تقریب اُن کے کام کے ختم ہونے کے بعد تھی اور نسبتاً چھوٹی تھی۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں تقریر کو تو پوری طرح سے نہیں سمجھ پایا لیکن مَیں وہاں حاضر لوگوں سے بہت متاثر ہوا۔‏ اُنہوں نے میرے پاس آ کر خوشی سے میرا خیرمقدم کِیا اور بڑی گرم‌جوشی سے مجھ سے ہاتھ ملایا۔‏ اُن کا خلوص صاف دِکھائی دے رہا تھا۔‏“‏ کچھ عرصے سے ایک شادی‌شُدہ جوڑا اِجلاسوں اور مُنادی کے دوران پولین کے بیٹے کو سنبھالنے میں خاص طور پر اُن کی مدد کر رہا تھا۔‏ لہٰذا جب ویئن نے پولین کے عقیدوں کے بارے میں مزید جاننے کا فیصلہ کِیا تو اُنہوں نے اُس بھائی سے کہا کہ وہ اُنہیں بائبل کورس کرائے۔‏

17.‏ ہمیں خود کو کس بات کے لیے قصوروار نہیں ٹھہرانا چاہیے لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں کس بات کو یاد رکھنا چاہیے؟‏

17 ہمیں اُمید ہے کہ ہمارے سب رشتےدار ہمارے ساتھ مل کر یہوواہ کی عبادت کریں گے۔‏ لیکن ہو سکتا ہے کہ ہماری تمام‌تر کوششوں کے باوجود بھی وہ سچائی کو قبول نہ کریں۔‏ اگر ایسا ہوتا ہے تو اُن کے اِس فیصلے کے لیے ہمیں خود کو قصوروار نہیں ٹھہرانا چاہیے۔‏ آخر ہم کسی کو اپنے عقیدوں پر ایمان لانے کے لیے مجبور تو نہیں کر سکتے نا۔‏ لیکن یاد رکھیں کہ ہمیں یہوواہ کی خدمت میں خوش دیکھ کر ہمارے رشتےداروں پر گہرا اثر ہو سکتا ہے۔‏ اُن کے لیے دُعا کریں؛‏ سمجھ‌داری سے اُن سے بات کریں اور اُنہیں یہوواہ کے بارے میں سکھانے کی کوشش جاری رکھیں۔‏ (‏اعما 20:‏20‏)‏ اِس بات کا پورا یقین رکھیں کہ یہوواہ آپ کی کوششوں پر برکت ڈالے گا۔‏ اور ذرا سوچیں،‏ اگر آپ کے رشتےدار آپ کے پیغام کو قبول کریں گے تو وہ بچ جائیں گے!‏

گیت نمبر 57‏:‏ ہر طرح کے لوگوں کو مُنادی کریں

^ پیراگراف 5 ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمارے غیرایمان رشتےدار یہوواہ کے بارے میں سیکھیں۔‏ لیکن یہ فیصلہ کرنا اُن کے ہاتھ میں ہے کہ آیا وہ یہوواہ کی عبادت کریں گے یا نہیں۔‏ اِس مضمون میں ہم کچھ ایسے طریقوں پر غور کریں گے جن سے ہم اپنے رشتےداروں کو بادشاہت کا پیغام سننے کی طرف مائل کر سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 1 کچھ نام فرضی ہیں۔‏ اِس مضمون میں اُن رشتےداروں کی بات کی جا رہی ہے جو یہوواہ کی عبادت نہیں کر رہے۔‏

^ پیراگراف 53 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک جوان بھائی گاڑی کی مرمت کرنے میں اپنے غیرایمان والد کی مدد کر رہا ہے۔‏ مناسب وقت دیکھ کر وہ اپنے والد کو ®jw.org پر ایک ویڈیو دِکھا رہا ہے۔‏

^ پیراگراف 55 تصویروں کی وضاحت‏:‏ ایک بہن بڑے دھیان سے اپنے غیرایمان شوہر کی بات سُن رہی ہے جو اُسے اپنے دن کی مصروفیات کے بارے میں بتا رہا ہے۔‏ بعد میں وہ اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ گیم کھیل رہی ہے۔‏

^ پیراگراف 57 تصویروں کی وضاحت‏:‏ اُس بہن نے اپنے گھر پر کلیسیا کے کچھ بہن بھائیوں کو بلایا ہے جو اُس کے شوہر کے ساتھ خوش‌گوار بات‌چیت کر رہے ہیں۔‏ بعد میں اُس بہن کا شوہر اُس کے ساتھ یادگاری تقریب پر موجود ہے۔‏