مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 31

ہم ہمت نہیں ہاریں گے!‏

ہم ہمت نہیں ہاریں گے!‏

‏”‏ہم ہمت نہیں ہارتے۔‏“‏‏—‏2-‏کُر 4:‏16‏۔‏

گیت نمبر 128‏:‏ آخر تک ثابت‌قدم رہیں

مضمون پر ایک نظر *

1.‏ مسیحی،‏ زندگی کی دوڑ کو مکمل کرنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟‏

مسیحیوں کی زندگی ایک دوڑ کی طرح ہے۔‏ چاہے ہم نے یہ دوڑ حال ہی میں دوڑنی شروع کی ہے یا ہم سالوں سے اِس میں شامل ہیں،‏ ہمیں یہ دوڑ آخر تک دوڑنی ہے۔‏ پولُس رسول نے فِلپّی کے مسیحیوں کو جو ہدایات دیں،‏ اُن پر غور کرنے سے ہمیں اِس دوڑ کو مکمل کرنے کی ہمت مل سکتی ہے۔‏ جب پولُس نے فِلپّیوں کے نام خط لکھا تو اُس وقت فِلپّی کی کلیسیا میں کچھ ایسے بہن بھائی بھی تھے جو کافی عرصے سے یہوواہ کی خدمت کر رہے تھے۔‏ وہ اچھی طرح دوڑ رہے تھے مگر پھر بھی پولُس نے اُنہیں ثابت‌قدمی سے دوڑتے رہنے کی یاددہانی کرائی۔‏ پولُس چاہتے تھے کہ وہ بھی اُن کی مثال پر عمل کرتے ہوئے ’‏منزل کی طرف دوڑنا‘‏ جاری رکھیں۔‏—‏فل 3:‏14‏۔‏

2.‏ پولُس نے فِلپّی کے مسیحیوں کو جو ہدایات دیں،‏ وہ موزوں کیوں تھیں؟‏

2 پولُس نے فِلپّی کے مسیحیوں کو جو ہدایات دیں،‏ وہ بالکل موزوں تھیں۔‏ اُس کلیسیا کو شروع سے ہی مخالفت کا سامنا رہا تھا۔‏ فِلپّی میں خوش‌خبری 50ء کے لگ بھگ پہنچی تھی جب پولُس اور سیلاس خدا کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے مقدونیہ گئے۔‏ (‏اعما 16:‏9‏)‏ وہاں اُن کی ملاقات لِدیہ نامی عورت سے ہوئی۔‏ لِدیہ نے ”‏بڑے دھیان سے“‏ اُن کی باتیں سنیں اور پھر ”‏یہوواہ نے اُن کا دل کھولا۔‏“‏ (‏اعما 16:‏14‏)‏ لِدیہ نے بہت جلد اپنے گھرانے سمیت بپتسمہ لے لیا۔‏ لیکن اِس دوران اِبلیس ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھا رہا۔‏ شہر کے لوگ پولُس اور سیلاس کو گھسیٹ کر حاکموں کے پاس لے گئے اور اُن پر فساد پھیلانے کا اِلزام لگانے لگے۔‏ اِس پر پولُس اور سیلاس کو مارا پیٹا گیا،‏ قید میں ڈالا گیا اور بعد میں شہر چھوڑ کر جانے کو کہا گیا۔‏ (‏اعما 16:‏16-‏40‏)‏ لیکن وہ دونوں ہمت نہیں ہارے۔‏ نہ صرف وہ دونوں بلکہ فِلپّی کی کلیسیا کے بہن بھائی بھی ثابت‌قدم رہے جو حال ہی میں مسیحی بنے تھے۔‏ پولُس اور سیلاس کی شان‌دار مثال کو دیکھ کر بےشک اُن کا دل بہت مضبوط ہوا ہوگا۔‏

3.‏ ‏(‏الف)‏ پولُس کیا جانتے تھے؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کیا سیکھیں گے؟‏

3 پولُس نے یہ ٹھان رکھا تھا کہ وہ ہمت نہیں ہاریں گے۔‏ (‏2-‏کُر 4:‏16‏)‏ وہ جانتے تھے کہ اپنی دوڑ کو کامیابی سے مکمل کرنے کے لیے اُنہیں اپنی نظریں منزل پر ٹکائے رکھنی ہوں گی۔‏ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم پولُس کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ ہم کچھ ایسی رُکاوٹوں پر بھی بات کریں گے جو ہمارے لیے ثابت‌قدمی سے دوڑنا مشکل بنا سکتی ہیں اور اِس حوالے سے کچھ بہن بھائیوں کی مثالوں پر غور کریں گے۔‏ ہم یہ بھی سیکھیں گے کہ ہماری اُمید ہمت نہ ہارنے کے ہمارے عزم کو کیسے مضبوط کرتی ہے؟‏

پولُس کی مثال میں ہمارے لیے سبق

4.‏ پولُس محدود حالات میں بھی خدا کی خدمت میں کیسے مشغول رہے؟‏

4 ذرا غور کریں کہ پولُس نے فِلپّیوں کے نام خط کن حالات میں لکھا۔‏ اُس وقت وہ روم میں نظربند تھے۔‏ وہ اپنے گھر سے باہر جا کر تو مُنادی نہیں کر سکتے تھے مگر وہ اُن لوگوں کو گواہی دیتے تھے جو اُن سے ملنے آتے تھے۔‏ اِس کے علاوہ وہ دُوردراز علاقوں میں موجود کلیسیاؤں کو خط بھی لکھتے تھے۔‏ ہمارے زمانے میں بھی ایسے مسیحی ہیں جو گھر سے باہر جا کر مُنادی نہیں کر سکتے۔‏ یہ مسیحی اُن لوگوں کو خوش‌خبری سنانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں جو اُن سے ملنے آتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ وہ اُن لوگوں کو خط لکھتے ہیں جن تک گواہ پہنچ نہیں سکتے۔‏

5.‏ فِلپّیوں 3:‏12-‏14 میں درج پولُس کے الفاظ کے مطابق کن چیزوں نے اُنہیں منزل پر نظریں ٹکائے رکھنے میں مدد دی؟‏

5 پولُس نے نہ تو اپنی ماضی کی کامیابیوں اور نہ ہی ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے اپنا دھیان خدا کی خدمت سے ہٹنے دیا۔‏ پولُس جانتے تھے کہ ’‏اُن باتوں کی طرف بڑھنے کے لیے جو اُن کے سامنے تھیں‘‏ یعنی اپنی دوڑ کو کامیابی سے مکمل کرنے کے لیے اُنہیں ’‏اُن باتوں کو بھولنا ہوگا جو وہ پیچھے چھوڑ آئے تھے۔‏‘‏ ‏(‏فِلپّیوں 3:‏12-‏14 کو پڑھیں۔‏)‏ پولُس نے کیا کِیا تاکہ اُن کا دھیان منزل سے نہ ہٹے؟‏ پہلی بات تو یہ تھی کہ اُنہوں نے اُن سب کامیابیوں کو ”‏کوڑا کرکٹ“‏ سمجھا جو وہ یہودی مذہب میں بڑے بڑے کام انجام دے کر حاصل کر چُکے تھے۔‏ (‏فل 3:‏3-‏8‏)‏ دوسری بات یہ تھی کہ اُنہوں نے خود کو شرمندگی کے اُس بوجھ تلے نہیں دبنے دیا جو اُنہیں مسیحیوں کو اذیت دینے کی وجہ سے ہوتی ہوگی۔‏ اور تیسری بات یہ تھی کہ اُنہوں نے یہ نہیں سوچا کہ وہ یہوواہ کی جتنی خدمت کر چُکے ہیں،‏ وہ کافی ہے۔‏ حالانکہ پولُس کو بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،‏ مثلاً اُنہیں قید میں ڈالا گیا،‏ مارا پیٹا گیا،‏ سنگسار کِیا گیا،‏ سمندری سفر میں جہاز کے تباہ ہونے کی وجہ سے جان کا خطرہ لاحق ہوا اور خوراک اور لباس کی کمی کا سامنا بھی ہوا۔‏ لیکن اِس سب کے باوجود اُن کی مُنادی کے بہت اچھے نتائج نکلے۔‏ (‏2-‏کُر 11:‏23-‏27‏)‏ اِس بات سے قطعِ‌نظر کہ پولُس کو مُنادی کے کام میں کتنی کامیابی مل چُکی ہے اور وہ کن کن مشکلات کا سامنا کر چُکے ہیں،‏ وہ یہ جانتے تھے کہ اُن کی دوڑ ابھی مکمل نہیں ہوئی بلکہ اُنہیں آگے بڑھتے رہنا ہے۔‏ یہی بات ہم پر بھی لاگو ہوتی ہے۔‏

6.‏ کچھ ایسی باتوں کی مثالیں دیں جو ہم پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور جنہیں ہمیں بھول جانے کی ضرورت ہے۔‏

6 ہم پولُس کی طرح اُن باتوں کو کیسے بھول سکتے ہیں جنہیں ہم پیچھے چھوڑ آئے ہیں؟‏ ہم میں سے کچھ کو شرمندگی کے اُس بوجھ سے نکلنے کی ضرورت ہو سکتی ہے جو ماضی کے گُناہوں کی وجہ سے ہمیں دبائے ہوئے ہے۔‏ ایسی صورت میں ہم اپنے ذاتی مطالعے کے دوران اِس بات پر تحقیق اور سوچ بچار کر سکتے ہیں کہ یسوع کی قربانی سے ہمارے گُناہ کیسے معاف ہو سکتے ہیں۔‏ پھر ہمیں یہوواہ سے دُعا کرنی چاہیے کہ وہ اِس بات کو قبول کرنے میں ہماری مدد کرے۔‏ ایسا کرنے سے ہم شرمندگی کے غیرضروری بوجھ سے آزاد ہو جائیں گے اور اپنے اُن گُناہوں کے لیے خود کو کوسنا بند کر دیں گے جنہیں یہوواہ معاف کر چُکا ہے۔‏ پولُس کی مثال میں ہمارے لیے ایک اَور سبق بھی پایا جاتا ہے۔‏ شاید ہم میں سے کچھ نے یہوواہ کی خدمت میں زیادہ حصہ لینے کے لیے اچھی اچھی ملازمتوں کو چھوڑ دیا۔‏ ایسی صورت میں ہمیں اُن چیزوں کی تمنا کرنے سے بچنے کی ضرورت ہے جو ہمیں اچھی ملازمت کرتے ہوئے مل سکتی تھیں۔‏ (‏گن 11:‏4-‏6؛‏ واعظ 7:‏10‏)‏ جن چیزوں کو ہم پیچھے چھوڑ آئے ہیں،‏ اُن میں وہ کام بھی شامل ہو سکتے ہیں جو ہم یہوواہ کی خدمت کے حوالے سے انجام دے چُکے ہیں یا وہ مشکلات بھی جن کا ہم ثابت‌قدمی سے سامنا کر چُکے ہیں۔‏ سچ ہے کہ اگر ہم ماضی پر اِس لیے نظر دوڑاتے ہیں تاکہ یہ یاد کر سکیں کہ یہوواہ نے ہماری کیسے مدد کی تو یہ اچھی بات ہے کیونکہ اِس طرح ہم یہوواہ کے اَور قریب جا سکتے ہیں۔‏ لیکن ہمیں کبھی بھی یہ سوچ کر بیٹھ نہیں جانا چاہیے کہ ہم نے یہوواہ کی کافی خدمت کر لی ہے۔‏—‏1-‏کُر 15:‏58‏۔‏

ہمیں زندگی کی دوڑ میں اپنا دھیان بھٹکنے نہیں دینا چاہیے اور اپنی نظریں اِنعام پر ٹکائے رکھنی چاہئیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 7 کو دیکھیں۔‏)‏

7.‏ پہلا کُرنتھیوں 9:‏24-‏27 کی روشنی میں بتائیں کہ زندگی کی دوڑ کو جیتنے کے لیے کیا کرنا ضروری ہے۔‏

7 پولُس رسول،‏ یسوع کی اِس بات کو خوب سمجھتے تھے:‏ ”‏جی‌توڑ کوشش کریں۔‏“‏ (‏لُو 13:‏23،‏ 24‏)‏ وہ جانتے تھے کہ یسوع کی طرح اُنہیں بھی آخر تک جی‌توڑ کوشش کرنی ہوگی۔‏ اِسی لیے اُنہوں نے مسیحی زندگی کو ایک دوڑ سے تشبیہ دی۔‏ ‏(‏1-‏کُرنتھیوں 9:‏24-‏27 کو پڑھیں۔‏)‏ دوڑ میں حصہ لینے والا کھلاڑی اپنی نظریں منزل پر ٹکائے رکھتا ہے اور اپنا دھیان بھٹکنے نہیں دیتا۔‏ آج‌کل کبھی کبھار دوڑ کے مقابلے ایسے راستوں پر ہوتے ہیں جن کی اطراف میں دُکانیں اور ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو دوڑنے والوں کا دھیان بھٹکا سکتی ہیں۔‏ آپ کے خیال میں اگر کوئی کھلاڑی دوڑ جیتنا چاہتا ہے تو کیا وہ رُک کر کسی دُکان میں لگائی گئی چیزیں دیکھے گا؟‏ بےشک نہیں۔‏ زندگی کی دوڑ میں بھی ہمیں اپنا دھیان بھٹکنے نہیں دینا چاہیے۔‏ اگر ہم اپنی آنکھیں منزل پر جمائے رکھیں گے اور پولُس کی طرح جی‌توڑ کوشش کریں گے تو ہم اِنعام جیت لیں گے!‏

کچھ رُکاوٹیں جو ہماری رفتار سُست کر سکتی ہیں

8.‏ ہم کن تین رُکاوٹوں پر بات کریں گے؟‏

8 آئیں،‏ اب اِن تین ایسی رُکاوٹوں پر بات کریں جو زندگی کی دوڑ میں ہماری رفتار سُست کر سکتی ہیں:‏ ایسی توقعات جو جلد پوری نہیں ہوتیں،‏ بڑھتی عمر کے اثرات اور دیرپا مشکلات۔‏ اِس حوالے سے ہم کچھ ایسے بہن بھائیوں کی مثالوں پر غور کریں گے جنہوں نے اِن رُکاوٹوں پر قابو پایا۔‏—‏فل 3:‏17‏۔‏

9.‏ جب ہماری توقعات جلد پوری نہیں ہوتیں تو اِس کا ہم پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟‏

9 توقعات جو جلد پوری نہیں ہوتیں۔‏ ہم سب فطری طور پر یہ خواہش رکھتے ہیں کہ یہوواہ کے وعدے پورے ہوں۔‏ جب حبقوق نبی نے اپنی اِس شدید خواہش کا اِظہار کِیا کہ یہوواہ ملک یہوداہ کے بُرے حالات کو ٹھیک کر دے تو یہوواہ نے اُن سے کہا کہ ”‏اِس کا منتظر رہ۔‏“‏ (‏حبق 2:‏3‏)‏ البتہ جب ہماری توقعات پوری ہوتی دِکھائی نہیں دیتیں تو خدا کی خدمت کے لیے ہمارا جوش ٹھنڈا پڑ سکتا ہے،‏ یہاں تک کہ ہماری ہمت بھی جواب دے سکتی ہے۔‏ (‏امثا 13:‏12‏)‏ بیسویں صدی کے شروع میں بھی ایسا ہی ہوا۔‏ اُس وقت بہت سے مسح‌شُدہ مسیحی یہ توقع کر رہے تھے کہ 1914ء میں اُنہیں آسمان پر زندگی کا اجر مل جائے گا۔‏ لیکن ایسا نہیں ہوا؟‏ اُس صورت میں کس چیز نے ثابت‌قدم رہنے میں اُن کی مدد کی؟‏

بھائی رائل اور بہن پرل کو اُن کی توقع کے مطابق 1914ء میں آسمان پر زندگی نہیں ملی مگر وہ پھر بھی سالوں تک وفاداری سے خدا کی خدمت کرتے رہے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 10 کو دیکھیں۔‏)‏

10.‏ جب ایک میاں بیوی کی توقعات پوری نہیں ہوئیں تو اُنہوں نے کیا کِیا؟‏

10 ذرا دو مسیحیوں کی مثال پر غور کریں جو اُس وقت بھی وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرتے رہے جب اُن کی توقعات جلد پوری نہ ہوئیں۔‏ بھائی رائل سپاٹز نے 1908ء میں بپتسمہ لیا جب اُن کی عمر 20 سال تھی۔‏ وہ کافی پُراِعتماد تھے کہ اُنہیں جلد ہی آسمان پر زندگی کا اِنعام مل جائے گا۔‏ یہاں تک کہ جب اُنہوں نے 1911ء میں پرل نامی بہن سے شادی کی خواہش کا اِظہار کِیا تو اُن سے کہا:‏ ”‏آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ 1914ء میں کیا ہونے والا ہے۔‏ اِس لیے اگر ہم ایک دوسرے سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو اچھا ہوگا کہ ہم ابھی ایسا کریں۔‏“‏ جب اُس جوڑے کو اُن کی توقعات کے مطابق 1914ء میں آسمان پر زندگی کا اِنعام نہیں ملا تو کیا اُنہوں نے زندگی کی دوڑ میں دوڑنا چھوڑ دیا؟‏ جی نہیں۔‏ چونکہ اُن کا دھیان اِنعام حاصل کرنے سے زیادہ یہوواہ کی خدمت کرنے پر تھا اِس لیے وہ ثابت‌قدمی سے دوڑتے رہے۔‏ بھائی رائل اور بہن پرل نے آسمان پر اپنا اجر پانے سے پہلے سالوں تک زمین پر وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کی۔‏ بےشک آپ یہ دیکھنے کی دلی خواہش رکھتے ہوں گے کہ یہوواہ اپنے نام کو پاک اور اپنی حکمرانی کو صحیح ثابت کرے اور اپنے تمام وعدوں کو پورا کرے۔‏ آپ اِس بات کا پورا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ اپنے وقت پر یہ سب کچھ کرے گا۔‏ مگر تب تک یہوواہ کی خدمت میں مشغول رہنے کی ٹھان لیں اور اگر آپ کی توقعات جلد پوری نہ ہوں تو بےحوصلہ ہو کر زندگی کی دوڑ میں سُست نہ پڑ جائیں۔‏

بھائی آرتھر سیکورڈ بڑھاپے میں بھی جی جان سے یہوواہ کی خدمت کرنے کے لیے پُرعزم تھے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 11 کو دیکھیں۔‏)‏

11،‏ 12.‏ ایک مثال کے ذریعے واضح کریں کہ اگر بڑھتی عمر کی وجہ سے ہم میں پہلے جتنی طاقت نہیں رہتی تو بھی ہم زندگی کی دوڑ میں دوڑنا جاری رکھ سکتے ہیں۔‏

11 بڑھتی عمر کے اثرات۔‏ دوڑ میں حصہ لینے والے کھلاڑی کے لیے جسمانی لحاظ سے مضبوط ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن زندگی کی دوڑ میں کامیابی سے دوڑنے کے لیے یہ لازمی نہیں ہے۔‏ بہت سے ایسے بہن بھائی جن میں جسمانی لحاظ سے پہلے جتنی توانائی نہیں ہے،‏ اب بھی خدا کی خدمت کرنے کے سلسلے میں بڑا جوش رکھتے ہیں۔‏ (‏2-‏کُر 4:‏16‏)‏ اِس حوالے سے بھائی آرتھر سیکورڈ کی مثال بڑی عمدہ ہے۔‏ وہ 88 سال کے تھے اور اُنہیں بیت‌ایل میں خدمت کرتے ہوئے 55 سال ہو چُکے تھے۔‏ اُن کی صحت اچھی نہیں تھی اور وہ بہت کمزور ہو گئے تھے۔‏ ایک دن ایک بہن جو اُن کی دیکھ‌بھال کرتی تھی،‏ اُن کے بیڈ کے پاس آئی اور اُن کی تعریف کرتے ہوئے کہنے لگی:‏ ”‏بھائی آرتھر،‏ آپ نے خدا کی بڑی جی جان سے خدمت کی ہے۔‏“‏ لیکن بھائی آرتھر ماضی میں نہیں جی رہے تھے۔‏ اُنہوں نے مسکراتے ہوئے اُس بہن کی طرف دیکھا اور اُس سے کہا:‏ ”‏ہاں یہ تو سچ ہے۔‏ لیکن یہ بات اہم نہیں کہ ہم کیا کچھ انجام دے چُکے ہیں۔‏ اہم تو یہ ہے کہ کیا ہم ابھی ثابت‌قدمی سے خدمت کر رہے ہیں۔‏“‏

12 شاید آپ نے کافی سال تک یہوواہ کی خدمت کی ہے اور اب آپ کی صحت آپ کو اُتنا کچھ کرنے کی اِجازت نہیں دیتی جتنا آپ کبھی کِیا کرتے تھے۔‏ اگر ایسا ہے تو مایوس نہ ہوں۔‏ اِس بات کا یقین رکھیں کہ یہوواہ آپ کی اُس خدمت کی بڑی قدر کرتا ہے جو آپ ماضی میں کر چُکے ہیں۔‏ (‏عبر 6:‏10‏)‏ اور جہاں تک ابھی کی بات ہے تو یاد رکھیں کہ یہوواہ کے لیے ہماری محبت کی گہرائی کا اندازہ اِس بات سے نہیں ہوتا کہ ہم اُس کی خدمت میں کتنا کچھ کر رہے ہیں بلکہ اِس بات سے ہوتا ہے کہ ہم اُس کے لیے جتنا بھی کر سکتے ہیں،‏ اُتنا خوشی اور لگن سے کریں۔‏ (‏کُل 3:‏23‏)‏ یہوواہ جانتا ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں اور وہ ہم سے کسی ایسے کام کی توقع نہیں کرتا جسے کرنا ہمارے بس میں نہ ہو۔‏—‏مر 12:‏43،‏ 44‏۔‏

بھائی انیٹولی اور بہن لڈیا نے ثابت‌قدمی سے بہت سی مشکلات کا سامنا کِیا۔‏ (‏پیراگراف 13 کو دیکھیں۔‏)‏

13.‏ اگر ہم بہت سی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں تو بھائی انیٹولی اور بہن لڈیا کی زندگی پر غور کرنے سے ہمیں کیا حوصلہ مل سکتا ہے؟‏

13 دیرپا مشکلات۔‏ یہوواہ کے کچھ بندوں کو بہت سال تک اذیت اور مشکلات جھیلنی پڑی ہیں۔‏ اِس سلسلے میں ایک مثال بھائی انیٹولی کی ہے۔‏ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ملک مولڈووا میں رہتے تھے۔‏ وہ صرف 12 سال کے تھے جب اُن کے والد کو گِرفتار کر کے قید میں ڈال دیا گیا اور پھر جلاوطن کر کے گھر والوں سے 7000 کلومیٹر (‏4000 میل)‏ دُور سائبیریا بھیج دیا گیا۔‏ ایک سال بعد بھائی انیٹولی،‏ اُن کی والدہ اور اُن کے نانا نانی کو بھی جلاوطن کر کے سائبیریا بھیج دیا گیا۔‏ کچھ وقت گزرنے کے بعد بھائی انیٹولی اور اُن کے خاندان کے لیے ایک دوسرے گاؤں میں اِجلاسوں میں جانا ممکن ہو گیا لیکن وہاں پہنچنے کے لیے اُنہیں سخت سردی اور برف میں 30 کلومیٹر (‏20 میل)‏ پیدل چلنا پڑتا تھا۔‏ بعد میں بھائی انیٹولی کو اُن کی بیوی لڈیا اور ایک سالہ بیٹی سے جُدا کر کے تین سال کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا۔‏ سالوں تک حالات کی ایسی سختیاں سہنے کے باوجود بھائی انیٹولی اور اُن کا خاندان ثابت‌قدمی سے یہوواہ کی خدمت کرتا رہا۔‏ اب بھائی انیٹولی 82 سال کے ہیں اور وسطی ایشیا کی ایک برانچ کی کمیٹی کے رُکن ہیں۔‏ دُعا ہے کہ ہم بھی بھائی انیٹولی اور بہن لڈیا کی طرح یہوواہ کے لیے وہ سب کچھ کریں جو ہم کر سکتے ہیں اور ثابت‌قدمی سے دوڑتے رہیں۔‏—‏گل 6:‏9‏۔‏

ہماری اُمید ہمیں ہمت ہارنے نہیں دیتی

14.‏ پولُس کیا جانتے تھے؟‏

14 پولُس کو اِعتماد تھا کہ وہ اپنی دوڑ کو مکمل کر لیں گے اور منزل پر پہنچ جائیں گے۔‏ ایک مسح‌شُدہ مسیحی کے طور پر وہ ’‏آسمان پر زندگی حاصل‘‏ کرنے کے منتظر تھے۔‏ لیکن وہ جانتے تھے کہ اِس اِنعام کو پانے کے لیے اُنہیں ’‏منزل کی طرف دوڑتے رہنا‘‏ ہوگا۔‏ (‏فل 3:‏14‏)‏ پولُس نے ایک دلچسپ مثال کے ذریعے فِلپّی کے مسیحیوں کی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ اپنی نظریں منزل پر ٹکائے رکھیں۔‏

15.‏ پولُس نے فِلپّی کے مسیحیوں کو ’‏منزل کی طرف دوڑتے رہنے‘‏ کی ترغیب دینے کے لیے کون سی مثال اِستعمال کی؟‏

15 پولُس نے فِلپّی کے مسیحیوں کو یاد دِلایا کہ وہ آسمان کے شہری ہیں۔‏ (‏فل 3:‏20‏)‏ لیکن اُنہوں نے ایسا کیوں کِیا؟‏ اُس زمانے میں رومی شہریت کی بڑی اہمیت تھی کیونکہ اِس سے ایک شخص کو بڑے فائدے ملتے تھے۔‏ * لیکن مسح‌شُدہ مسیحیوں کے پاس ایسی شہریت تھی جس سے اُنہیں کہیں زیادہ فائدے ہونے تھے۔‏ اِس شہریت کے مقابلے میں رومی شہریت تو کچھ بھی نہیں تھی۔‏ اِسی لیے پولُس نے فِلپّی کے مسیحیوں کو ہدایت دی کہ وہ ”‏مسیح کی خوش‌خبری اور آسمان کے شہریوں کے لائق زندگی گزاریں۔‏“‏ (‏فل 1:‏27‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ آج بھی مسح‌شُدہ مسیحی منزل کی طرف دوڑ رہے ہیں یعنی آسمان پر زندگی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یوں ایک عمدہ مثال قائم کرتے ہیں۔‏

16.‏ چاہے ہم آسمان پر زندگی حاصل کرنے کی اُمید رکھتے ہوں یا زمین پر،‏ فِلپّیوں 4:‏6،‏ 7 کے مطابق ہمیں کیا کرتے رہنا چاہیے؟‏

16 چاہے ہم آسمان پر زندگی حاصل کرنے کی اُمید رکھتے ہوں یا زمین پر،‏ ہمیں اپنی منزل کی طرف دوڑتے رہنا ہوگا۔‏ خواہ حالات کیسی ہی صورت اِختیار کریں،‏ ہمیں اُن چیزوں کی طرف مُڑ کر نہیں دیکھنا ہے جنہیں ہم پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور نہ ہی کسی چیز کو یہ اِجازت دینی ہے کہ وہ ہمیں آگے بڑھنے سے روکے۔‏ (‏فل 3:‏16‏)‏ ہو سکتا ہے کہ ہمیں اپنی توقعات پوری ہوتی نہ دِکھائی دیں؛‏ بڑھاپے کی وجہ سے ہماری صحت جواب دے جائے یا ہم سالوں تک مشکلات اور اذیت جھیل چُکے ہوں۔‏ صورتحال چاہے جو بھی ہو،‏ ”‏کسی بات پر پریشان نہ ہوں۔‏“‏ اِس کی بجائے خدا کے حضور دُعائیں اور اِلتجائیں کرتے رہیں اور پھر دیکھیں کہ وہ کس طرح آپ کو ایسا اِطمینان دے گا جو آپ کی سمجھ سے باہر ہوگا۔‏‏—‏فِلپّیوں 4:‏6،‏ 7 کو پڑھیں۔‏

17.‏ اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

17 دُعا ہے کہ ہمارا پورا دھیان زندگی کی دوڑ کو مکمل کرنے پر رہے،‏ بالکل ویسے ہی جیسے دوڑ کے آخری مرحلے میں ایک کھلاڑی کا اپنی منزل پر رہتا ہے۔‏ جس حد تک ہمارے حالات اور ہماری طاقت ہمیں اِجازت دیتی ہے،‏ ہمیں خدا کی خدمت کرنے کی جی‌توڑ کوشش کرنی چاہیے اور ثابت‌قدم رہنا چاہیے۔‏ اِس سلسلے میں یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ’‏زیادہ اہم باتوں‘‏ کو ترجیح دیں۔‏ (‏فل 1:‏9،‏ 10‏)‏ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔‏

گیت نمبر 79‏:‏ اُن کو ایمان پر قائم رہنا سکھائیں

^ پیراگراف 5 چاہے ہم کتنے ہی عرصے سے خدا کی خدمت کر رہے ہوں،‏ ہم سبھی یہ چاہتے ہیں کہ ہم اِس خدمت کو اچھی طرح سے انجام دیتے رہیں۔‏ پولُس رسول نے مسیحیوں کو نصیحت کی کہ وہ اِس حوالے سے ہمت نہ ہاریں۔‏ فِلپّیوں کے نام پولُس کے خط میں ایسی ہدایات پائی جاتی ہیں جن سے ہمیں زندگی کی دوڑ میں ثابت‌قدمی سے دوڑنے کا حوصلہ ملتا ہے۔‏ اِس مضمون میں اِنہی ہدایات پر بات کی جائے گی۔‏

^ پیراگراف 15 شہر فِلپّی روم کی حکومت کے تحت تھا اور اِس لیے اِس میں رہنے والوں کو کسی حد تک رومی شہریت حاصل تھی۔‏ لہٰذا جب پولُس نے شہریت کی مثال اِستعمال کی تو یہ اُن مسیحیوں کے لیے واقعی پُرمعنی تھی۔‏