مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یوحنا بپتسمہ دینے والے—‏خوشی برقرار رکھنے کی عمدہ مثال

یوحنا بپتسمہ دینے والے—‏خوشی برقرار رکھنے کی عمدہ مثال

کیا آپ کلیسیا میں کسی ایسی ذمےداری کو نبھانے کی شدید خواہش رکھتے ہیں جسے پورا کرنا فی‌الحال آپ کے لیے ممکن نہیں ہے؟‏ شاید یہ کوئی ایسی ذمےداری ہے جسے کوئی اَور نبھا رہا ہے۔‏ یا شاید یہ کوئی ایسا اعزاز ہے جو کبھی آپ کو ملا ہوا تھا۔‏ ہو سکتا ہے کہ بڑھتی عمر،‏ بگڑتی صحت،‏ مالی مسائل یا گھریلو ذمےداریوں کی وجہ سے آپ خدا کی خدمت میں زیادہ کچھ انجام نہیں دے پا رہے۔‏ یا شاید تنظیم کی طرف سے کی گئی کسی تبدیلی کی وجہ سے آپ کو کسی ایسی ذمےداری کو چھوڑنا پڑا ہے جسے آپ سالوں سے نبھا رہے تھے۔‏ وجہ چاہے جو بھی ہو،‏ آپ کو یہ محسوس ہو سکتا ہے کہ آپ خدا کی خدمت میں اُتنا کچھ نہیں کر رہے جتنا آپ کرنا چاہتے ہیں۔‏ ایسے حالات میں کبھی کبھار مایوسی کا شکار ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔‏ لیکن آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ ایسی صورتحال میں حوصلہ‌شکنی،‏ تلخی یا خفگی جیسے احساسات آپ کے دل میں جڑ نہ پکڑیں اور آپ اپنی خوشی کو برقرار رکھ پائیں؟‏

اپنی خوشی کو برقرار رکھنے کے حوالے سے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی زندگی ایک عمدہ مثال ہے۔‏ یوحنا کو خدا کی خدمت میں بڑے بڑے اعزاز ملے۔‏ لیکن اُن کی زندگی میں ایک ایسا موڑ بھی آیا جس کی شاید اُنہوں نے بالکل توقع نہیں کی تھی۔‏ اُن کے وہم‌وگمان میں بھی نہیں ہوگا کہ اُنہوں نے خدا کی خدمت میں جتنا وقت گزارا ہے،‏ اُس سے زیادہ اُنہیں قید میں گزارنا پڑے گا۔‏ لیکن یوحنا نے اپنی خوشی ماند نہیں پڑنے دی اور آگے بھی خوش‌دلی سے خدا کی خدمت انجام دیتے رہے۔‏ وہ ایسا کرنے کے قابل کیسے ہوئے؟‏ اور ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ مایوس‌کُن حالات کا سامنا کرتے وقت بھی ہماری خوشیوں کے رنگ پھیکے نہ پڑیں؟‏

ایک خوش‌کُن ذمےداری

سن 29ء کے موسمِ‌بہار میں یوحنا بپتسمہ دینے والے نے ایک خاص ذمےداری کو نبھانا شروع کِیا۔‏ وہ لوگوں کو مسیح کے آنے کے لیے تیار کرنے لگے اور یہ مُنادی کرنے لگے:‏ ”‏توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہت نزدیک ہے۔‏“‏ (‏متی 3:‏2؛‏ لُو 1:‏12-‏17‏)‏ بہت سے لوگوں نے یوحنا کے پیغام کے لیے مثبت ردِعمل دِکھایا۔‏ دُور دُور سے بِھیڑ یوحنا کا پیغام سننے آئی اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے گُناہوں سے توبہ کی اور بپتسمہ لے لیا۔‏ یوحنا نے خود کو نیک خیال کرنے والے مذہبی رہنماؤں کو بھی بڑی دلیری سے خبردار کِیا کہ اگر وہ اپنی روِش نہیں بدلیں گے تو اُن پر خدا کا عذاب نازل ہوگا۔‏ (‏متی 3:‏5-‏12‏)‏ یوحنا کے دَورِخدمت کا سب سے خاص وقت وہ تھا جب اُنہوں نے 29ء کے موسمِ‌خزاں میں یسوع کو بپتسمہ دیا۔‏ اُس وقت سے یوحنا لوگوں کو یسوع کی پیروی کرنے کی نصیحت کرنے لگے جو خدا کے چُنے ہوئے مسیح تھے۔‏—‏یوح 1:‏32-‏37‏۔‏

یوحنا نے جو منفرد کردار ادا کِیا،‏ اُس کے پیشِ‌نظر یسوع یہ کہہ سکتے تھے:‏ ”‏آج تک کوئی بھی ایسا اِنسان پیدا نہیں ہوا جو یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا ہو۔‏“‏ (‏متی 11:‏11‏)‏ بےشک یوحنا اُن اعزازات کو پا کر بہت خوش تھے جو اُنہیں خدا کی طرف سے ملے تھے۔‏ یوحنا کی طرح آج بھی خدا کے بندوں کو اُس کی طرف سے ڈھیروں اعزاز ملتے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں ذرا ٹیری نامی بھائی کی مثال پر غور کریں۔‏ اُنہیں اور اُن کی بیوی سینڈرا کو کُل‌وقتی خدمت کرتے ہوئے 50 سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔‏ بھائی ٹیری کہتے ہیں:‏ ”‏مجھے خدا کی خدمت کے حوالے سے بہت سے شان‌دار اعزاز ملے ہیں۔‏ مَیں نے ایک پہل‌کار،‏ بیت‌ایل کے رُکن،‏ خصوصی پہل‌کار،‏ حلقے کے نگہبان اور صوبائی نگہبان کے طور پر خدمت کی ہے اور اب مَیں پھر سے ایک خصوصی پہل‌کار کے طور پر خدمت کر رہا ہوں۔‏“‏ جب ہمیں یہوواہ کی خدمت میں مختلف اعزاز ملتے ہیں تو یہ ہمارے لیے بڑی خوشی کا باعث ہوتا ہے۔‏ لیکن جب ہمارے حالات بدل جاتے ہیں تو اپنی خوشی کو برقرار رکھنے کے لیے کوشش درکار ہے جیسا کہ ہم یوحنا کی مثال میں دیکھیں گے۔‏

شکرگزاری کے جذبے کو کم نہ ہونے دیں

ایک خاص وجہ جس کی بِنا پر یوحنا اپنی خوشی کو برقرار رکھ پائے،‏ وہ یہ تھی کہ اُنہوں نے یہوواہ کی طرف سے ملنے والی ذمےداریوں کے لیے اپنی شکرگزاری کبھی کم نہیں ہونے دی۔‏ مثال کے طور پر یسوع کے بپتسمے کے بعد اُن کے شاگردوں کی تعداد بڑھتی گئی جبکہ یوحنا کے شاگردوں کی تعداد کم ہوتی گئی۔‏ یہ دیکھ کر یوحنا کے شاگرد پریشان ہونے لگے اور اُن کے پاس آ کر کہنے لگے:‏ ”‏دیکھیں،‏ .‏ .‏ .‏ وہ لوگوں کو بپتسمہ دے رہا ہے اور سب لوگ اُس کے پاس جا رہے ہیں۔‏“‏ (‏یوح 3:‏26‏)‏ یوحنا نے اُنہیں یہ جواب دیا:‏ ”‏دُلہا وہی ہوتا ہے جس کی دُلہن ہوتی ہے۔‏ لیکن جب دُلہے کا دوست دُلہے کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور اُس کی آواز سنتا ہے تو اُس کی خوشی کا ٹھکانا نہیں رہتا۔‏ اِسی طرح مَیں بھی بہت خوش ہوں۔‏“‏ (‏یوح 3:‏29‏)‏ یوحنا نے یسوع سے اپنا مقابلہ نہیں کِیا اور نہ ہی یہ سوچا کہ یسوع کے اہم کردار کی وجہ سے اُن کے کام کی قدر کم ہو رہی ہے۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے ”‏دُلہے کا دوست“‏ ہونے کے اعزاز کی قدر کی اور اِسی لیے وہ اپنی خوشی برقرار رکھ پائے۔‏

یوحنا کو جو اعزاز ملا،‏ اُس کی وجہ سے اُن پر کچھ حدبندیاں تھیں لیکن اپنی مثبت سوچ کی بدولت وہ اپنی خوشی برقرار رکھ پائے۔‏ مثال کے طور پر یوحنا بچپن سے ایک نذیر تھے اور اِس لیے وہ مے نہیں پی سکتے تھے۔‏ (‏لُو 1:‏15‏)‏ یسوع نے یوحنا کے سادہ طرزِزندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏یوحنا کھاتے پیتے نہیں ہیں۔‏“‏ یوحنا کے برعکس یسوع اور اُن کے شاگردوں پر ایسی کوئی پابندی نہیں تھی اور وہ عام لوگوں جیسی زندگی گزارتے تھے۔‏ (‏متی 11:‏18،‏ 19‏)‏ اِس کے علاوہ یوحنا نے تو کوئی معجزہ نہیں کِیا لیکن اُنہیں پتہ تھا کہ یسوع کے شاگردوں کو جن میں سے کچھ پہلے اُن کے شاگرد رہ چُکے تھے،‏ معجزے کرنے کی طاقت دی گئی ہے۔‏ (‏متی 10:‏1؛‏ یوح 10:‏41‏)‏ ایسی باتوں کے بارے میں سوچنے کی بجائے یوحنا پوری لگن سے اپنی ذمےداری کو پورا کرتے رہے۔‏

اگر ہم بھی اُس ذمےداری کی قدر کرتے ہیں جو ہم فی‌الحال نبھا رہے ہیں تو ہماری خوشی کا پودا ہرا بھرا رہے گا۔‏ بھائی ٹیری جن کا پہلے ذکر ہوا ہے،‏ کہتے ہیں:‏ ”‏مجھے جو بھی ذمےداری ملی،‏ مَیں نے اپنا دھیان اُسے پورا کرنے پر رکھا۔‏“‏ وہ کُل‌وقتی خدمت میں گزارے سالوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں:‏ ”‏پچھتاوے والی تو کوئی بات ہی نہیں بلکہ میرے پاس تو اُس وقت کی بہت سی حسین یادیں ہیں۔‏“‏

اگر ہم خدا کی خدمت میں اپنی خوشی کو بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں اِس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہمیں جو ذمےداری دی گئی ہے،‏ وہ خاص کیوں ہے۔‏ خدا کی خدمت میں ملنے والی ہر ذمےداری ایک بہت بڑا اعزاز ہوتی ہے کیونکہ اِسے نبھانے سے ہم ”‏خدا کے ساتھ کام“‏ کر رہے ہوتے ہیں۔‏ (‏1-‏کُر 3:‏9‏)‏ جس طرح کسی بیش‌قیمت زیور کو پالش کرنے سے اُس کی چمک برقرار رہتی ہے اُسی طرح اِس بات پر سوچ بچار کرنے سے کہ خدا کی خدمت کرنا کتنا بڑا اعزاز ہے،‏ ہماری خوشی برقرار رہتی ہے۔‏ پھر ہم اپنی قربانیوں کا موازنہ دوسروں کی قربانیوں سے نہیں کرتے اور نہ ہی یہ سوچتے ہیں کہ ہمیں خدا کی خدمت کے حوالے سے جو کام ملا ہے،‏ اُس کی قدر دوسروں کے کام سے کم ہے۔‏—‏گل 6:‏4‏۔‏

اپنی توجہ روحانی معاملوں پر مرکوز رکھیں

یوحنا کو غالباً یہ تو پتہ ہوگا کہ اُن کی خدمت کا دورانیہ زیادہ لمبا نہیں ہوگا لیکن اُنہیں یہ اندازہ نہیں ہوگا کہ یہ آناًفاناً ختم ہو جائے گا۔‏ (‏یوح 3:‏30‏)‏ یسوع کو بپتسمہ لیے ابھی صرف چھ مہینے ہی ہوئے تھے کہ بادشاہ ہیرودیس نے یوحنا کو قید میں ڈلوا دیا۔‏ البتہ یوحنا نے وہاں بھی سچائی کے بارے میں گواہی دینا جاری رکھا۔‏ (‏مر 6:‏17-‏20‏)‏ یوحنا زندگی میں آنے والے اُتارچڑھاؤ کے باوجود بھی اپنی خوشی کو برقرار رکھنے کے قابل کیوں ہوئے؟‏ کیونکہ اُنہوں نے اپنا دھیان روحانی معاملوں پر رکھا ہوا تھا۔‏

قید میں یوحنا نے سنا کہ یسوع کا مُنادی کا کام کیسے آگے بڑھ رہا ہے۔‏ (‏متی 11:‏2؛‏ لُو 7:‏18‏)‏ اُنہیں یہ تو یقین تھا کہ یسوع ہی مسیح ہیں لیکن شاید وہ اِس کشمکش میں ہوں کہ یسوع اُن تمام پیش‌گوئیوں کو کیسے پورا کریں گے جو مسیح کے بارے میں کی گئی تھیں۔‏ چونکہ یوحنا جانتے تھے کہ مسیح کو بادشاہ بننا ہے اِس لیے شاید اُن کے ذہن میں یہ سوال چل رہا ہو کہ کیا یسوع جلد ہی بادشاہ بن جائیں گے۔‏ غالباً وہ یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ کیا یسوع بادشاہ بن کر اُنہیں قید سے رِہا کرا دیں گے۔‏ یہ جاننے کی غرض سے کہ یسوع آگے کیا کرنے والے ہیں،‏ یوحنا نے اپنے دو شاگردوں کو یسوع سے یہ پوچھنے بھیجا:‏ ”‏کیا آپ ہی وہ شخص ہیں جس کے آنے کے بارے میں صحیفوں میں بتایا گیا ہے یا ہم کسی اَور کا اِنتظار کریں؟‏“‏ (‏لُو 7:‏19‏)‏ یوحنا نے یقیناً پورے دھیان سے اُس وقت اپنے شاگردوں کی باتیں سنی ہوں گی جب اُنہوں نے واپس آ کر اُنہیں یسوع کے معجزات کے بارے میں بتایا اور یہ پیغام سنایا:‏ ”‏اندھوں کو دیکھنے کی صلاحیت مل رہی ہے،‏ لنگڑے چل پھر رہے ہیں،‏ کوڑھی ٹھیک ہو رہے ہیں،‏ بہرے سُن رہے ہیں،‏ مُردے زندہ کیے جا رہے ہیں اور غریبوں کو خوش‌خبری سنائی جا رہی ہے۔‏“‏—‏لُو 7:‏20-‏22‏۔‏

یہ باتیں سُن کر یوحنا کو یقیناً بڑی ہمت ملی ہوگی اور اُنہیں اِس بات کا ثبوت مل گیا ہوگا کہ یسوع اُن پیش‌گوئیوں کو پورا کر رہے ہیں جو مسیح کے بارے میں کی گئی تھیں۔‏ حالانکہ یسوع نے یوحنا کو قید سے رِہا تو نہیں کروانا تھا لیکن یوحنا نے یہ نہیں سوچا کہ اُنہوں نے جو خدمت کی ہے،‏ وہ کسی کام کی نہیں۔‏ اگرچہ یوحنا ایک کٹھن صورتحال سے گزر رہے تھے مگر اُن کے پاس ابھی بھی خوش ہونے کی وجہ تھی۔‏

جب ہم اِس بات پر دھیان دیتے ہیں کہ پوری دُنیا میں ہمارے مُنادی کے کام کے کون سے اچھے نتائج نکل رہے ہیں تو ہماری خوشی برقرار رہتی ہے۔‏

یوحنا کی طرح اگر ہم بھی اپنا دھیان روحانی معاملوں پر رکھیں گے تو ہم خوشی اور صبر سے ثابت‌قدم رہنے کے قابل ہوں گے۔‏ (‏کُل 1:‏9-‏11‏)‏ اور ثابت‌قدم رہنے کے لیے بائبل پڑھنا اور اِس پر سوچ بچار کرنا ضروری ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ہم یہ یاد رکھ پاتے ہیں کہ ہم خدا کی خدمت میں جو کام کر رہے ہیں،‏ وہ بےکار نہیں ہے۔‏ (‏1-‏کُر 15:‏58‏)‏ بہن سینڈرا کہتی ہیں:‏ ”‏ہر روز بائبل کا ایک باب پڑھنے سے مَیں خود کو یہوواہ کے اَور قریب محسوس کرتی ہوں۔‏ یوں مَیں خود پر توجہ رکھنے کی بجائے یہوواہ کی ذات پر توجہ رکھ پاتی ہوں۔‏“‏ ہم اُن کاموں کے بارے میں بھی سوچ سکتے ہیں جو ہمارے بہن بھائی پوری دُنیا میں یہوواہ کے لیے کر رہے ہیں۔‏ یوں ہمارا دھیان ہمارے حالات پر مرکوز نہیں رہے گا بلکہ ہم یہ دیکھ پائیں گے کہ یہوواہ کیا کچھ انجام دے رہا ہے۔‏ بہن سینڈرا نے مزید کہا:‏ ”‏جےڈبلیو براڈکاسٹنگ کے ماہانہ پروگرام کے ذریعے ہم خود کو تنظیم کے زیادہ قریب محسوس کرتے ہیں اور خوشی سے وہ خدمت انجام دے پاتے ہیں جو یہوواہ نے ہمیں سونپی ہے۔‏“‏

یوحنا نے اپنے مختصر سے دَورِخدمت کو ”‏ایلیاہ جیسے جوش اور طاقت سے“‏ مکمل کِیا۔‏ ایلیاہ کی طرح یوحنا بھی ”‏ہمارے جیسے احساسات رکھتے تھے۔‏“‏ (‏لُو 1:‏17؛‏ یعقو 5:‏17‏)‏ اگر ہم یوحنا کی طرح خدا کی طرف سے دی گئی ذمےداری کو قیمتی خیال کریں گے اور اپنا دھیان روحانی معاملوں پر رکھیں گے تو ہم بھی ہر اچھے بُرے حالات میں اپنی خوشی کو برقرار رکھنے کے قابل ہوں گے۔‏