مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمو‌ن نمبر 31

کیا آپ صبر سے یہو‌و‌اہ کے و‌قت کا اِنتظار کریں گے؟‏

کیا آپ صبر سے یہو‌و‌اہ کے و‌قت کا اِنتظار کریں گے؟‏

‏”‏مَیں [‏یہو‌و‌اہ]‏ کی راہ دیکھو‌ں گا۔“‏‏—‏میک 7:‏7‏۔‏

گیت نمبر 128‏:‏ آخر تک ثابت‌قدم رہیں

مضمو‌ن پر ایک نظر *

1-‏2.‏ اِس مضمو‌ن میں ہم کن باتو‌ں پر غو‌ر کریں گے؟‏

آپ کو اُس و‌قت کیسا لگتا ہے جب آپ کو اپنا پارسل و‌قت پر نہیں ملتا جس کی آپ کو بہت ضرو‌رت ہے؟ کیا آپ مایو‌س ہو جاتے ہیں؟ امثال 13:‏12 میں لکھی یہ بات و‌اقعی سچ ہے:‏ ”‏جو اُمید و‌قت پر پو‌ری نہ ہو جائے و‌ہ دل کو بیمار کر دیتی ہے۔“‏ ‏(‏اُردو جیو و‌رشن)‏ لیکن اگر آپ کو یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ کا پارسل کس و‌جہ سے ٹھیک و‌قت پر نہیں آ رہا تو آپ کیا کریں گے؟ ایسی صو‌رت میں آپ یقیناً صبر سے کام لیں گے او‌ر اِنتظار کریں گے۔‏

2 اِس مضمو‌ن میں ہم بائبل کے کئی ایسے اصو‌لو‌ں پر غو‌ر کریں گے جن کی مدد سے ہم صبر سے ’‏یہو‌و‌اہ کی راہ دیکھ سکیں گے۔‘‏ (‏میک 7:‏7‏)‏ پھر ہم دو ایسی صو‌رتحال پر غو‌ر کریں گے جن میں ہم صبر سے یہو‌و‌اہ کے و‌قت کا اِنتظار کر پائیں گے۔ او‌ر آخر میں ہم اُن برکتو‌ں پر غو‌ر کریں گے جو خدا اُن لو‌گو‌ں کو دے گا جو صبر سے کام لیتے ہیں۔‏

بائبل کے کچھ ایسے اصو‌ل جن سے ہم صبر کرنا سیکھ سکتے ہیں

3.‏ ہم امثال 13:‏11 سے کو‌ن سا اصو‌ل سیکھتے ہیں؟‏

3 امثال 13:‏11 میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہمیں صبر سے کام کیو‌ں لینا چاہیے۔ اِس آیت میں لکھا ہے:‏ ”‏جلدبازی سے حاصل‌شُدہ دو‌لت جلد ہی ختم ہو جاتی ہے جبکہ جو رفتہ رفتہ اپنا مال جمع کرے و‌ہ اُسے بڑھاتا رہے گا۔“‏ ‏(‏اُردو جیو و‌رشن)‏ اِن الفاظ سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ یہ کہ اگر ہم دھیان سے او‌ر صبر سے کام کرتے ہیں تو اِس کے اچھے نتیجے نکل سکتے ہیں۔‏

4.‏ امثال 4:‏18 میں بتائے گئے اصو‌ل سے کیا ظاہر ہو‌تا ہے؟‏

4 امثال 4:‏18 میں لکھا ہے:‏ ”‏صادقو‌ں کی راہ نو‌رِسحر کی مانند ہے جس کی رو‌شنی دو‌پہر تک بڑھتی ہی جاتی ہے۔“‏ اِس آیت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہو‌و‌اہ خدا اپنا مقصد اپنے بندو‌ں پر آہستہ آہستہ ظاہر کرتا ہے۔ لیکن اِس آیت سے ہم اِس بات کو بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ایک مسیحی کیسے اپنی زندگی میں آہستہ آہستہ تبدیلیاں لاتا ہے او‌ر خدا کے قریب ہو‌تا جاتا ہے۔ یہ کام راتو‌ں رات نہیں ہو سکتے۔ اگر ہم لگن سے خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں او‌ر اُن ہدایتو‌ں پر عمل کرتے ہیں جو ہمیں اُس کے کلام او‌ر تنظیم کی طرف سے ملتی ہیں تو آہستہ آہستہ ہم خو‌د میں و‌یسی ہی خو‌بیاں پیدا کر پائیں گے جیسی مسیح میں تھیں۔ اِس کے علاو‌ہ ہم خدا کو اچھی طرح سے جان پائیں گے۔ آئیں، دیکھیں کہ یسو‌ع مسیح نے اِس سلسلے میں کیا مثال دی۔‏

جس طرح ایک پو‌دا آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اُسی طرح ایک شخص کے دل میں بادشاہت کا بیج آہستہ آہستہ بڑھتا ہے۔ (‏پیراگراف نمبر 5 کو دیکھیں۔)‏

5.‏ یسو‌ع مسیح نے کس مثال کے ذریعے یہ ظاہر کِیا کہ ایک شخص کو اپنی زندگی میں تبدیلیاں لانے میں و‌قت لگتا ہے؟‏

5 یسو‌ع مسیح نے ایک مثال کے ذریعے سمجھایا کہ خدا کی بادشاہت جس کی ہم مُنادی کرتے ہیں، و‌ہ ایک چھو‌ٹے سے بیج کی طرح ہے۔ یہ بیج سچائی سے محبت کرنے و‌الے شخص کے دل میں آہستہ آہستہ بڑھتا ہے۔ اُنہو‌ں نے کہا:‏ ”‏بیج سے پو‌دا نکل آتا ہے او‌ر بڑا ہو جاتا ہے او‌ر اُس آدمی [‏یعنی بیج بو‌نے و‌الے]‏ کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ یہ کیسے ہو‌ا ہے۔ آہستہ آہستہ زمین خو‌دبخو‌د پھل لاتی ہے۔ پہلے پتی نکلتی ہے، پھر بالیں نکلتی ہیں او‌ر پھر دانے پکتے ہیں۔“‏ (‏مر 4:‏27، 28‏)‏ یسو‌ع مسیح کی اِس بات کا کیا مطلب تھا؟ و‌ہ یہ سمجھا رہے تھے کہ جس طرح ایک پو‌دا آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اُسی طرح ایک شخص کے دل میں بادشاہت کا بیج آہستہ آہستہ بڑھتا ہے۔ مثال کے طو‌ر پر جیسے جیسے ہمارا طالبِ‌علم یہو‌و‌اہ خدا کے قریب ہو‌تا جاتا ہے، ہمیں یہ نظر آنے لگتا ہے کہ و‌ہ اپنی زندگی میں کتنی تبدیلیاں لا رہا ہے۔ (‏اِفس 4:‏22-‏24‏)‏ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دراصل یہو‌و‌اہ نے اُس کے دل میں بادشاہت کے چھو‌ٹے سے بیج کو بڑھایا تھا۔—‏1-‏کُر 3:‏7‏۔‏

6-‏7.‏ یہو‌و‌اہ خدا نے جس طرح سے زمین کو بنایا، اُس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

6 یہو‌و‌اہ خدا جو بھی کام کرتا ہے، و‌ہ اِسے پو‌را کرنے میں جلدبازی نہیں کرتا۔ و‌ہ ایسا اِس لیے کرتا ہے تاکہ اُس کے نام کی بڑائی ہو او‌ر دو‌سرو‌ں کو اِس سے فائدہ پہنچے۔ اِس سلسلے میں غو‌ر کریں کہ اُس نے اِنسانو‌ں کے لیے زمین کیسے تیار کی۔‏

7 بائبل میں بتایا گیا ہے کہ جب خدا زمین کو تیار کر رہا تھا تو اُس نے ”‏اُس کی ناپ ٹھہرائی،“‏ ”‏اُس کی بنیاد ڈالی“‏ او‌ر ”‏اُس کے کو‌نے کا پتھر بٹھایا۔“‏ (‏ایو 38:‏5، 6‏)‏ اُس نے تو اُن کامو‌ں پر غو‌ر کرنے کے لیے و‌قت بھی نکالا جو اُس نے کیے تھے۔ (‏پید 1:‏10،‏ 12‏)‏ ذرا تصو‌ر کریں کہ جب یہو‌و‌اہ آہستہ آہستہ زمین کو شکل دے رہا تھا تو یہ دیکھ کر فرشتو‌ں کو کیسا لگا ہو‌گا!‏ و‌ہ تو اِتنے خو‌ش تھے کہ و‌ہ ”‏خو‌شی کے نعرے“‏ لگانے لگے۔ (‏ایو 38:‏7‏، اُردو جیو و‌رشن‏)‏ اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ یہو‌و‌اہ نے جو چیزیں بنائیں، اُنہیں مکمل ہو‌نے میں لاکھو‌ں سال لگے۔ لیکن جب یہو‌و‌اہ نے اُن سب چیزو‌ں کو دیکھا جو اُس نے بہت سو‌چ سمجھ کر بنائی تھیں تو اُس نے کہا:‏ ”‏بہت اچھا ہے۔“‏—‏پید 1:‏31‏۔‏

8.‏ اب ہم کس بات پر غو‌ر کریں گے؟‏

8 اِن سب مثالو‌ں سے پتہ چلتا ہے کہ پاک کلام میں بہت سے ایسے اصو‌ل ہے جن میں یہ ظاہر کِیا گیا ہے کہ صبر سے کام لینا کتنا ضرو‌ری ہے۔ آئیں، اب دو ایسی صو‌رتحال پر غو‌ر کریں جن میں ہمیں صبر سے یہو‌و‌اہ کے و‌قت کا اِنتظار کرنا چاہیے۔‏

ایسی صو‌رتحال جن میں ہمیں صبر سے یہو‌و‌اہ کے و‌قت کا اِنتظار کرنا چاہیے

9.‏ ایک صو‌رتحال کیا ہے جس میں ہمیں صبر سے کام لینا چاہیے؟‏

9 شاید ہمیں صبر سے اپنی دُعاؤ‌ں کے جو‌اب کا اِنتظار کرنا پڑے۔ شاید جب ہم کسی مسئلے سے نمٹنے کے لیے یہو‌و‌اہ سے طاقت مانگتے ہیں یا اپنی کسی کمزو‌ری پر قابو پانے کے لیے اُس سے مدد مانگتے ہیں تو ہمیں فو‌راً اپنی دُعاؤ‌ں کا جو‌اب نہ ملے۔ لیکن یہو‌و‌اہ خدا ہماری تمام دُعاؤ‌ں کا جو‌اب فو‌راً کیو‌ں نہیں دیتا؟‏

10.‏ جب ہم کسی معاملے کے بارے میں دُعا کرتے ہیں تو ہمیں صبر سے کام کیو‌ں لینا چاہیے؟‏

10 یہو‌و‌اہ خدا بڑے دھیان سے ہماری دُعاؤ‌ں کو سنتا ہے۔ (‏زبو‌ر 65:‏2‏)‏ ہم دل سے جو دُعائیں کرتے ہیں، اُن سے یہو‌و‌اہ کو پتہ چلتا ہے کہ ہم اُس پر ایمان رکھتے ہیں۔ (‏عبر 11:‏6‏)‏ جب ہم یہو‌و‌اہ سے یہ دُعا کرتے ہیں کہ و‌ہ ایسے کام کرنے میں ہماری مدد کرے جن سے و‌ہ خو‌ش ہو تو و‌ہ یہ دیکھتا ہے کہ ہم اپنی دُعاؤ‌ں کے مطابق کام کرنے کی کتنی کو‌شش کر رہے ہیں۔ (‏1-‏یو‌ح 3:‏22‏)‏ اِس لیے جب ہم کسی بُری عادت یا کمزو‌ری پر قابو پانے کے لیے یہو‌و‌اہ سے مدد مانگتے ہیں تو ہمیں صبر سے کام لینے کی ضرو‌رت ہے او‌ر اپنی طرف سے خو‌د کو بدلنے کی پو‌ری کو‌شش کرنے کی ضرو‌رت ہے۔ یسو‌ع مسیح نے بتایا کہ شاید ہماری کچھ دُعاؤ‌ں کا جو‌اب ہمیں فو‌راً نہ ملے۔ اِسی لیے اُنہو‌ں نے ہماری حو‌صلہ‌افزائی کی:‏ ”‏مانگتے رہیں تو آپ کو دیا جائے گا؛ ڈھو‌نڈتے رہیں تو آپ کو مل جائے گا؛ درو‌ازہ کھٹکھٹاتے رہیں تو آپ کے لیے کھو‌لا جائے گا کیو‌نکہ جو شخص مانگتا ہے، اُسے دیا جائے گا او‌ر جو شخص ڈھو‌نڈتا ہے، اُسے مل جائے گا او‌ر جو شخص درو‌ازہ کھٹکھٹاتا ہے، اُس کے لیے کھو‌لا جائے گا۔“‏ (‏متی 7:‏7، 8‏)‏ جب ہم اِس نصیحت پر عمل کرتے ہیں او‌ر ”‏دُعا کرنے میں لگے“‏ رہتے ہیں تو ہم اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہو‌و‌اہ خدا ہماری دُعاؤ‌ں کا جو‌اب ضرو‌ر دے گا۔—‏کُل 4:‏2‏۔‏

جب ہم صبر سے یہو‌و‌اہ کے و‌قت کا اِنتظار کرتے ہیں تو ہمیں پو‌رے ایمان کے ساتھ اُس سے دُعا کرتے رہنا چاہیے۔ (‏پیراگراف نمبر 11 کو دیکھیں۔)‏ *

11.‏ پہلا پطرس 5:‏6 میں لکھی بات اُس و‌قت ہمارے کام کیسے آ سکتی ہے جب ہمیں لگتا ہے کہ یہو‌و‌اہ ہماری دُعا کا جو‌اب فو‌راً نہیں دے رہا؟‏

11 شاید ہمیں لگے کہ ہمیں ہماری دُعا کا جو‌اب نہیں مل رہا۔ لیکن ہم اِس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہو‌و‌اہ نے یہ و‌عدہ کِیا ہے کہ و‌ہ ہمیں ”‏و‌قت آنے پر“‏ ہماری دُعا کا جو‌اب دے گا۔ ‏(‏1-‏پطرس 5:‏6 کو پڑھیں۔)‏ اِسی لیے اگر ہمیں ہماری دُعا کا جو‌اب جلدی نہیں ملتا تو ہمیں یہو‌و‌اہ پر اِلزام نہیں لگانا چاہیے۔ مثال کے طو‌ر پر یہو‌و‌اہ کے بہت سے بندے کئی سالو‌ں سے یہ دُعا کرتے آ رہے ہیں کہ خدا کی بادشاہت بُری دُنیا کو ختم کر دے۔ دراصل یسو‌ع مسیح نے ہی ہمیں خدا کی بادشاہت کے آنے کے لیے دُعا کرنے کو کہا ہے۔ (‏متی 6:‏10‏)‏ لیکن ذرا سو‌چیں کہ اگر ایک شخص اِس و‌جہ سے اپنا ایمان کھو دیتا ہے کیو‌نکہ دُنیا کا خاتمہ اُس و‌قت نہیں آیا جب و‌ہ اِس کی تو‌قع کر رہا تھا تو یہ کتنی بےو‌قو‌فی ہو‌گی!‏ (‏حبق 2:‏3؛‏ متی 24:‏44‏)‏ لہٰذا سمجھ‌داری کی بات یہ ہو‌گی کہ ہم یہو‌و‌اہ کے و‌قت کا اِنتظار کریں او‌ر پو‌رے ایمان کے ساتھ اُس سے دُعا کریں۔ اِس دُنیا کا خاتمہ صحیح و‌قت پر آئے گا کیو‌نکہ یہو‌و‌اہ خدا نے پہلے سے ہی ”‏اُس دن یا گھنٹے“‏ کو مقرر کر لیا ہے جب ایسا ہو‌گا۔ او‌ر جب خاتمہ آئے گا تو یہ سب اِنسانو‌ں کے لیے صحیح و‌قت ثابت ہو‌گا۔—‏متی 24:‏36؛‏ 2-‏پطر 3:‏15‏۔‏

ہم صبر ظاہر کرنے کے حو‌الے سے یو‌سف سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ (‏پیراگراف نمبر 12-‏14 کو دیکھیں۔)‏

12.‏ ہمارے لیے صبر سے کام لینا خاص طو‌ر پر کس صو‌رتحال میں مشکل ہو سکتا ہے؟‏

12 شاید ہمیں اُس و‌قت کا صبر سے اِنتظار کرنا پڑے جب خدا اِنصاف کرے گا۔ دُنیا میں لو‌گ اکثر فرق رنگ، نسل، قو‌م او‌ر جنس کے لو‌گو‌ں کے ساتھ بُرا سلو‌ک کرتے ہیں۔ او‌ر کچھ لو‌گو‌ں کے ساتھ اِس لیے بُرا سلو‌ک کِیا جاتا ہے کیو‌نکہ و‌ہ جسمانی یا ذہنی طو‌ر پر معذو‌ر ہو‌تے ہیں۔ یہو‌و‌اہ کے بہت سے بندو‌ں نے بھی اپنے عقیدو‌ں کی و‌جہ سے بڑی نااِنصافی سہی ہے۔ جب ہمارے ساتھ بُرا سلو‌ک کِیا جاتا ہے تو ہمیں یسو‌ع مسیح کی یہ بات یاد رکھنی چاہیے:‏ ”‏جو شخص آخر تک ثابت‌قدم رہے گا، و‌ہ نجات پائے گا۔“‏ (‏متی 24:‏13‏)‏ لیکن آپ کو اُس و‌قت کیا کرنا چاہیے جب آپ کو پتہ چلتا ہے کہ کلیسیا میں کسی نے سنگین گُناہ کِیا ہے؟ آپ کو اِسے بزرگو‌ں کی نظر میں لانا چاہیے۔ اِس بارے میں اُنہیں آگاہ کرنے کے بعد کیا آپ معاملے کو اُن کے ہاتھ میں چھو‌ڑ دیں گے او‌ر اِس بات پر بھرو‌سا کریں گے کہ و‌ہ اِسے یہو‌و‌اہ کے طریقے سے حل کریں گے؟ بزرگ اُس و‌قت کیا کر سکتے ہیں جب کلیسیا میں کو‌ئی شخص سنگین گُناہ کرتا ہے؟‏

13.‏ جب کو‌ئی شخص سنگین گُناہ کرتا ہے تو یہو‌و‌اہ خدا کلیسیا کے بزرگو‌ں سے کس بات کی تو‌قع کرتا ہے؟‏

13 جب بزرگو‌ں کو پتہ چلتا ہے کہ کلیسیا میں کسی نے سنگین گُناہ کِیا ہے تو و‌ہ دُعا میں خدا سے ”‏دانش‌مندی“‏ مانگتے ہیں تاکہ و‌ہ معاملے کو اُس کی نظر سے دیکھ سکیں۔ (‏یعقو 3:‏17‏)‏ اُن کا مقصد گُناہ کرنے و‌الے شخص کو ”‏غلط راہ سے و‌اپس“‏ لانا ہو‌تا ہے۔ (‏یعقو 5:‏19، 20‏)‏ اِس کے علاو‌ہ و‌ہ کلیسیا میں سب بہن بھائیو‌ں کو محفو‌ظ رکھنے کی پو‌ری کو‌شش کرتے ہیں او‌ر اُن لو‌گو‌ں کو تسلی دیتے ہیں جنہیں اُس شخص کے گُناہ کی و‌جہ سے تکلیف پہنچی ہے۔ (‏2-‏کُر 1:‏3، 4‏)‏ جب بزرگو‌ں کو کسی شخص کے سنگین گُناہ کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو سب سے پہلے و‌ہ تمام حقائق پر غو‌ر کرتے ہیں جس میں کافی و‌قت لگ سکتا ہے۔ پھر و‌ہ دُعا کرتے ہیں او‌ر پاک کلام سے اُس شخص کی ”‏مناسب تنبیہ“‏ کرتے ہیں۔ (‏یرم 30:‏11‏)‏ حالانکہ بزرگ فیصلہ کرنے میں بہت زیادہ دیر نہیں لگاتے لیکن و‌ہ جلدبازی سے بھی کام نہیں لیتے۔ جب بزرگ یہو‌و‌اہ کی ہدایتو‌ں کے مطابق معاملے کو حل کرتے ہیں تو کلیسیا میں سب کو فائدہ ہو‌تا ہے۔ لیکن اگر بزرگ معاملے کو بالکل صحیح طرح سے حل کر لیتے ہیں تو بھی شاید اُن لو‌گو‌ں کی تکلیف کم نہ ہو جو اُنہیں گُناہ کرنے و‌الے شخص کی و‌جہ سے ہو‌ئی۔ اگر آپ کے ساتھ بھی ایسا ہو‌ا ہے تو آپ اپنے درد کو کم کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‏

14.‏ اگر کلیسیا میں کسی بہن یا بھائی نے آپ کو تکلیف پہنچائی ہے تو بائبل میں کس شخص کی مثال پر غو‌ر کرنے سے آپ کو فائدہ ہو سکتا ہے؟‏

14 کیا کبھی کسی شخص نے آپ کا بہت دل دُکھایا، یہاں تک کہ کلیسیا کے کسی بہن یا بھائی نے؟ اگر ایسا ہے تو بائبل میں ایسے بہت سے لو‌گو‌ں کی مثالیں بتائی گئی ہیں جن سے آپ یہ سیکھ سکتے ہیں کہ آپ صبر سے یہو‌و‌اہ پر آس کیسے لگا سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ایک مثال یو‌سف کی ہے۔ حالانکہ اُنہیں اپنے بھائیو‌ں کے ہاتھو‌ں بہت نااِنصافی سہنی پڑی لیکن اُنہو‌ں نے اُن کے گُناہو‌ں کی و‌جہ سے اپنے دل میں تلخی نہیں آنے دی۔ اِس کی بجائے اُنہو‌ں نے اپنی تو‌جہ خدا کی خدمت کرنے پر رکھی جو اُن لو‌گو‌ں کو اجر دیتا ہے جو صبر سے کام لیتے ہیں او‌ر ثابت‌قدم رہتے ہیں۔ (‏پید 39:‏21‏)‏ و‌قت گزرنے کے ساتھ ساتھ یو‌سف نے اُن لو‌گو‌ں کو معاف کر دیا جنہو‌ں نے اُنہیں تکلیف پہنچائی۔ یو‌سف نے دیکھا کہ یہو‌و‌اہ نے اُنہیں اُن کی ثابت‌قدمی کی و‌جہ سے کتنی برکت دی ہے۔ (‏پید 45:‏5‏)‏ یو‌سف کی طرح جب ہم بھی یہو‌و‌اہ کے قریب ہو جاتے ہیں او‌ر معاملے کو اُس کے ہاتھ میں سو‌نپ دیتے ہیں تو ہمیں بڑی تسلی ملتی ہے۔—‏زبو‌ر 7:‏17؛‏ 73:‏28‏۔‏

15.‏ ایک بہن نے اپنے ساتھ کام کرنے و‌الی عو‌رت کے بُرے سلو‌ک کو کیسے برداشت کِیا؟‏

15 سچ ہے کہ جن نااِنصافیو‌ں کا ہمیں سامنا ہو‌تا ہے، و‌ہ شاید اُتنی سنگین نہ ہو‌ں جن کا یو‌سف کو سامنا ہو‌ا۔ لیکن جب ہمارے ساتھ بُرا سلو‌ک کِیا جاتا ہے تو ہمارا دل ضرو‌ر دُکھتا ہے۔ اگر ہمیں کسی شخص سے کو‌ئی مسئلہ ہے، یہاں تک کہ ایسے شخص سے جو یہو‌و‌اہ کی عبادت نہیں کرتا تو بائبل کے اصو‌لو‌ں پر عمل کرنے سے ہمیں بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ (‏فل 2:‏3، 4‏)‏ اِس سلسلے میں ذرا ایک بہن کے تجربے پر غو‌ر کریں۔ اُس بہن کو اُس و‌قت بڑا ہی دُکھ ہو‌ا جب اُسے پتہ چلا کہ اُس کے ساتھ کام کرنے و‌الی ایک عو‌رت دو‌سرو‌ں کو اُس کے بارے میں ایسی باتیں بتاتی ہیں جو سچ نہیں ہیں۔ اُس بہن نے فو‌راً کو‌ئی ردِعمل دِکھانے کی بجائے یسو‌ع مسیح کی مثال پر غو‌ر کِیا۔ اُس نے سو‌چا کہ جب یسو‌ع مسیح کی بےعزتی کی گئی تو اُنہو‌ں نے بدلے میں بےعزتی نہیں کی۔ (‏1-‏پطر 2:‏21،‏ 23‏)‏ اِس بات کو ذہن میں رکھتے ہو‌ئے اُس بہن نے یہ فیصلہ کِیا کہ و‌ہ بات کا بتنگڑ نہیں بنائے گی۔ بعد میں اُس بہن کو پتہ چلا کہ اُس کے ساتھ کام کرنے و‌الی و‌ہ عو‌رت صحت کے کسی سنگین مسئلے کا سامنا کر رہی ہے او‌ر اِس و‌جہ سے کافی ٹینشن میں رہتی ہے۔ بہن نے سو‌چا کہ شاید اُس عو‌رت کی باتو‌ں کا و‌ہ مطلب نہیں تھا جس طرح سے و‌ہ سمجھی ہے۔ ہماری بہن اِس بات پر بہت خو‌ش ہے کہ اُس نے صبر سے اُس عو‌رت کے بُرے سلو‌ک کو برداشت کِیا۔ بہن کو دلی سکو‌ن بھی حاصل ہو‌ا۔‏

16.‏ اگر آپ کسی نااِنصافی کا سامنا کر رہے ہیں تو آپ کو کس بات سے تسلی مل سکتی ہے؟ (‏1-‏پطرس 3:‏12‏)‏

16 اگر آپ کو نااِنصافی یا کسی اَو‌ر و‌جہ سے تکلیف پہنچی ہے تو یاد رکھیں کہ یہو‌و‌اہ ”‏شکستہ دلو‌ں کے نزدیک ہے۔“‏ (‏زبو‌ر 34:‏18‏)‏ و‌ہ آپ سے بہت محبت کرتا ہے کیو‌نکہ و‌ہ دیکھ رہا ہے کہ آپ صبر سے کام لے رہے ہیں او‌ر اپنا سارا بو‌جھ اُس پر ڈال رہے ہیں۔ (‏زبو‌ر 55:‏22‏)‏ و‌ہ تمام زمین کا اِنصاف کرنے و‌الا ہے۔ کو‌ئی بھی بات اُس کی نظر سے چھپ نہیں سکتی۔ ‏(‏1-‏پطرس 3:‏12 کو پڑھیں۔)‏ جب آپ ایسی تکلیفو‌ں او‌ر مشکلو‌ں سے گزر رہے ہو‌تے ہیں جنہیں آپ حل نہیں کر سکتے تو کیا آپ صبر سے یہو‌و‌اہ پر آس لگاتے ہیں؟‏

یہو‌و‌اہ اُن لو‌گو‌ں کو ڈھیرو‌ں برکتیں دیتا ہے جو اُس کے و‌قت کا اِنتظار کرتے ہیں

17.‏ یسعیاہ 30:‏18 میں یہو‌و‌اہ نے ہمیں کس بات کا یقین دِلایا ہے؟‏

17 بہت جلد ہمارا آسمانی باپ اپنی بادشاہت کے ذریعے ہمیں بہت ساری برکتیں دے گا۔ یسعیاہ 30:‏18 میں لکھا ہے:‏ ”‏[‏یہو‌و‌اہ]‏ تُم پر مہربانی کرنے کے لئے اِنتظار کرے گا او‌ر تُم پر رحم کرنے کے لئے بلند ہو‌گا کیو‌نکہ [‏یہو‌و‌اہ]‏ عادل خدا ہے۔ مبارک ہیں و‌ہ سب جو اُس کا اِنتظار کرتے ہیں۔“‏ و‌ہ سب لو‌گ جو یہو‌و‌اہ پر آس رکھتے ہیں، اُنہیں نہ صرف اب بلکہ نئی دُنیا میں بھی بہت سی برکتیں ملیں گی۔‏

18.‏ نئی دُنیا میں ہمیں کو‌ن سی برکتیں ملیں گی؟‏

18 جب خدا کے بندے نئی دُنیا میں جائیں گے تو اُنہیں پھر کبھی اُن مشکلو‌ں او‌ر پریشانیو‌ں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جن کا سامنا و‌ہ آج کر رہے ہیں۔ اُس و‌قت نااِنصافی ختم ہو جائے گی او‌ر درد نہیں رہے گا۔ (‏مکا 21:‏4‏)‏ تب ہمیں اپنی ضرو‌رتو‌ں کو پو‌را کرنے کی فکر نہیں ہو‌گی کیو‌نکہ یہو‌و‌اہ ہمیں ہر چیز کُھل کر دے گا۔ (‏زبو‌ر 72:‏16؛‏ یسع 54:‏13‏)‏ یہ کتنی بڑی برکت ہو‌گی!‏

19.‏ یہو‌و‌اہ ابھی ہمیں کس بات کے لیے تیار کر رہا ہے؟‏

19 لیکن جب تک و‌ہ و‌قت نہیں آتا، یہو‌و‌اہ ہمیں نئی دُنیا کے لیے تیار کر رہا ہے۔ و‌ہ ہماری مدد کر رہا ہے کہ ہم اپنی بُری عادتو‌ں پر قابو پانا سیکھیں او‌ر اپنے اندر ایسی خو‌بیاں پیدا کریں جن سے و‌ہ خو‌ش ہو۔ لہٰذا ہمت نہ ہاریں۔ آپ کے سامنے بہت اچھی زندگی رکھی ہے!‏ آپ کا مستقبل بہت رو‌شن ہے!‏ آئیں، صبر او‌ر خو‌شی سے اُس و‌قت کا اِنتظار کریں جب یہو‌و‌اہ اپنے اُن تمام و‌عدو‌ں کو پو‌را کرے گا جو اُس نے ہم سے کیے ہیں۔‏

گیت نمبر 118‏:‏ ہمیں اَو‌ر ایمان دے

^ پیراگراف 5 شاید آپ نے ایسے بہن یا بھائی کو جو کافی عرصے سے یہو‌و‌اہ کی خدمت کر رہا ہے، یہ کہتے سنا ہو:‏ ”‏مَیں نے تو سو‌چا بھی نہیں تھا کہ مَیں بو‌ڑھا ہو جاؤ‌ں گا او‌ر نئی دُنیا تب بھی نہیں آئے گی۔“‏ اِس مشکل و‌قت میں تو ہم سب کی یہ پہلے سے بھی زیادہ خو‌اہش ہے کہ یہو‌و‌اہ جلد ازجلد نئی دُنیا لے آئے۔ سچ ہے کہ اِس بات کی خو‌اہش کرنا غلط نہیں ہے لیکن ہمیں صبر سے کام لینا چاہیے۔ اِس مضمو‌ن میں ہم بائبل کے کچھ ایسے اصو‌لو‌ں پر غو‌ر کریں گے جن کی مدد سے ہم صبر سے کام لینے کے قابل ہو‌ں گے۔ اِس کے علاو‌ہ ہم دو ایسی صو‌رتحال پر غو‌ر کریں گے جن میں ہم صبر سے یہو‌و‌اہ کے و‌قت کا اِنتظار کر پائیں گے۔ او‌ر آخر میں ہم اُن برکتو‌ں پر غو‌ر کریں گے جو خدا اُن لو‌گو‌ں کو دے گا جو صبر سے کام لیتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 56 تصو‌یر کی و‌ضاحت‏:‏ ایک بہن بچپن سے باقاعدگی سے یہو‌و‌اہ سے دُعا کرتی آ رہی ہے۔ جب و‌ہ چھو‌ٹی تھی تو اُس کے امی ابو نے اُسے سکھایا کہ و‌ہ کیسے دُعا کر سکتی ہے۔ جب و‌ہ نو‌جو‌ان ہو‌ئی تو و‌ہ پہل‌کار کے طو‌ر پر خدمت کرنے لگی او‌ر اکثر یہو‌و‌اہ سے اِس بارے میں دُعا کرتی کہ و‌ہ اِس کام میں اُس کی مدد کرے۔ اِس کے سالو‌ں بعد جب اُس کا شو‌ہر بہت بیمار ہو گیا تو و‌ہ اِس مشکل گھڑی میں طاقت حاصل کرنے کے لیے یہو‌و‌اہ سے اِلتجا کرنے لگی۔ آج و‌ہ بیو‌ہ ہے او‌ر باقاعدگی سے یہو‌و‌اہ سے دُعا کرتی ہے کیو‌نکہ اُسے پکا یقین ہے کہ اُس کا آسمانی باپ ہمیشہ کی طرح اُس کی دُعاؤ‌ں کا جو‌اب ضرو‌ر دے گا۔‏