مطالعے کا مضمون نمبر 36
یہوواہ کے بندے نیکی سے پیار کرتے ہیں
”وہ لوگ خوش رہتے ہیں جنہیں نیکی کی بھوک اور پیاس ہے۔“—متی 5:6، فٹنوٹ۔
گیت نمبر 9: یہوواہ ہمارا بادشاہ ہے
مضمون پر ایک نظر *
1. یوسف پر کون سی آزمائش آئی اور اُنہوں نے کیا کِیا؟
یعقوب کے بیٹے یوسف کو ایک کڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن کے مالک فوطیفار کی بیوی نے اُن سے کہا: ”میرے ساتھ ہم بستر ہو۔“ مگر یوسف نے اُس کی بات ماننے سے اِنکار کر دیا۔ آج شاید کچھ لوگ سوچیں کہ ”یوسف نے اُس کی بات کیوں نہیں مانی؟“ دیکھا جائے تو فوطیفار گھر پر نہیں تھے۔ اور یوسف تو بس ایک غلام تھے۔ اپنی مالکن کو اِنکار کرنے سے اُن کی زندگی بڑی مشکل میں پڑ سکتی تھی۔ لیکن یہ سب جاننے کے باوجود یوسف اُس کی بات ماننے سے اِنکار کرتے رہے۔ اُنہوں نے ایسا کیوں کِیا؟ یوسف نے کہا: ”بھلا مَیں کیوں ایسی بڑی بدی کروں اور خدا کا گُناہگار بنوں؟“—پید 39:7-12۔
2. یوسف کیسے جانتے تھے کہ حرامکاری کرنے سے ایک شخص خدا کا گُناہگار بن جاتا ہے؟
2 یوسف کیسے جانتے تھے کہ خدا کی نظر میں حرامکاری ایک بہت ”بڑی بدی“ ہے؟ موسیٰ کی شریعت میں خدا نے یہ واضح حکم بھی دیا تھا کہ ”تُو زِنا نہ کرنا۔“ اور یہوواہ نے یہ حکم یوسف کے زمانے سے تقریباً 200 سال بعد دیا تھا۔ (خر 20:14) لیکن یوسف یہوواہ خدا کو اچھی طرح سے جانتے تھے۔ اِس لیے اُنہیں پتہ تھا کہ یہوواہ حرامکاری کو کیسا خیال کرتا ہے۔ مثال کے طور پر یوسف یقیناً اِس بات سے واقف تھے کہ شادی کا بندھن صرف ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان ہونا چاہیے۔ اُنہوں نے یہ بھی سنا ہوگا کہ یہوواہ نے کیسے دو بار اُن کی پڑدادی سارہ کی عزت بچائی۔ اور اِسی طرح اِضحاق کی بیوی رِبقہ کی عزت بھی بچائی تھی۔ (پید 2:24؛ 12:14-20؛ 20:2-7؛ 26:6-11) اِن سب باتوں پر سوچنے سے یوسف یہ سمجھ پائے کہ خدا کی نظر میں کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ یوسف اپنے خدا سے بہت محبت کرتے تھے اِسی لیے وہ نیکی کے حوالے سے اُس کے اصولوں سے بھی محبت کرتے تھے اور اُنہوں نے پکا عزم کِیا ہوا تھا کہ وہ اِنہی اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں گے۔
3. اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
3 کیا آپ بھی نیکی سے محبت کرتے ہیں؟ بےشک آپ کرتے ہیں۔ لیکن ہم سب عیبدار ہیں اور اگر ہم محتاط نہیں رہیں گے تو نیکی کے حوالے سے اِس دُنیا کی سوچ کا ہم پر بڑی آسانی سے اثر ہو سکتا ہے۔ (یسع 5:20؛ روم 12:2) اِس لیے آئیں، دیکھیں کہ نیکی ہے کیا اور نیکی سے محبت کرنے سے ہمیں کیسے فائدہ ہو سکتا ہے۔ اِس کے بعد ہم تین ایسے طریقوں پر غور کریں گے جن پر عمل کرنے سے ہم اپنے دل میں نیکی کے لیے محبت بڑھا سکیں گے۔
نیکی کیا ہے؟
4. کن باتوں کا نیکی سے کوئی تعلق نہیں ہے؟
4 یسوع مسیح کے زمانے میں مذہبی رہنما خود کو بہت نیک سمجھتے تھے۔ لیکن یسوع نے ثابت کِیا کہ وہ اِن مذہبی رہنماؤں کے سخت خلاف ہیں کیونکہ اُنہوں نے نیکی کے حوالے سے اپنے معیار قائم کیے ہوئے تھے۔ (واعظ 7:16؛ لُو 16:15) ہمارے زمانے میں بھی کچھ لوگ ایسے ہی ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ وہ کچھ غلط نہیں کرتے۔ لیکن وہ اپنے معیاروں کے مطابق دوسروں کو پرکھتے ہیں۔ وہ مغرور ہوتے ہیں اور خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ لیکن خدا کو یہ باتیں پسند نہیں ہیں اور اِن کا نیکی سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔
5. بائبل کے مطابق نیکی کیا ہے؟ مثالیں دیں۔
5 نیکی ایک بہت شاندار خوبی ہے۔ سادہ لفظوں میں کہیں تو اِس کا مطلب وہ کام کرنا ہے جو یہوواہ کی نظر میں صحیح ہیں۔ جب بائبل میں لفظ ”نیکی“ اِستعمال ہوتا ہے تو اِس کا اِشارہ اِس بات کی طرف ہوتا ہے کہ ایک شخص اعلیٰ اصولوں کے مطابق زندگی گزارے اور اعلیٰ اصول صرف یہوواہ کے ہی ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہوواہ نے حکم دیا تھا کہ تاجر ”صحیح وزن کے باٹ“ اِستعمال کریں۔ (اِست 25:15، اُردو جیو ورشن) یہاں جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”صحیح“ کِیا گیا ہے، اُس کا ترجمہ ”نیک“ بھی کِیا جا سکتا ہے۔ اِس لیے جو شخص خدا کی نظر میں نیک بننا چاہتا ہے، اُسے ہر کاروباری معاملے میں ایمانداری سے کام لینا چاہیے۔ ایک نیک شخص اِنصافپسند بھی ہوتا ہے اور اُسے کسی کے ساتھ نااِنصافی ہوتے دیکھ کر بہت بُرا لگتا ہے۔ اِس لیے ایک نیک شخص ”ہر معاملے میں [یہوواہ کو] خوش“ کرنے کے لیے اِس بات کا خیال رکھتا ہے کہ یہوواہ اُس کے فیصلوں کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔—کُل 1:10۔
6. ہم صحیح اور غلط کے بارے میں یہوواہ کے معیاروں پر بھروسا کیوں رکھ سکتے ہیں؟ (یسعیاہ 55:8، 9)
6 بائبل میں یہوواہ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ نیکی کا سرچشمہ ہے۔ اِسی لیے اُس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اُس میں ”نیکی بستی ہے۔“ (یرم 50:7، ترجمہ نئی دُنیا) یہوواہ نے سب چیزوں کو بنایا ہے۔ اِس لیے صرف اُسے ہی صحیح اور غلط کے حوالے سے معیار قائم کرنے کا حق ہے۔ چونکہ ہم گُناہگار اور عیبدار ہیں اِس لیے ہم اکثر پوری طرح سے نہیں سمجھ پاتے کہ یہوواہ نے کسی چیز کو غلط یا صحیح کیوں کہا ہے۔ (امثا 14:12؛ یسعیاہ 55:8، 9 کو پڑھیں۔) لیکن چونکہ یہوواہ نے ہمیں اپنی صورت پر بنایا ہے اِس لیے ہم صحیح اور غلط کے حوالے سے اُس کے معیاروں کے مطابق زندگی گزار سکتے ہیں۔ (پید 1:27) اور ہمیں ایسا کرنا اچھا بھی لگتا ہے۔ ہم اپنے آسمانی باپ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ اِس لیے ہم اُس کی مثال پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔—اِفس 5:1۔
7. ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ کسی ایک معیار یا اصول کے مطابق چلنے سے فائدہ ہوتا ہے؟ مثالیں دیں۔
7 ہمیں صحیح اور غلط کے سلسلے میں یہوواہ کے معیاروں پر چلنے سے فائدہ کیوں ہوتا ہے؟ اِس سلسلے میں ذرا اِن دو مثالوں پر غور کریں۔ اگر ہر بینک اپنے اپنے معیار کے مطابق پیسے کی قیمت طے کرے تو کیا ہو؟ ظاہری بات ہے کہ اِس سے بدنظمی پیدا ہو جائے گی۔ اور اگر ہر ڈاکٹر اور نرس مریضوں کا علاج کرنے کے حوالے سے اپنے اپنے اصول بنا لے تو اِس سے کچھ مریضوں کی جان جا سکتی ہے۔ اِن مثالوں سے پتہ چلتا ہے کہ جب لوگ ایک معیار یا اصول کے مطابق کام کرتے ہیں تو اِس کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ اِسی طرح صحیح اور غلط کے بارے میں یہوواہ کے معیاروں پر چلنے سے ہمیں فائدہ ہوتا ہے۔
8. جو لوگ صحیح کام کرنا چاہتے ہیں، اُنہیں کون سی برکتیں ملیں گی؟
8 جو لوگ یہوواہ کے معیاروں کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں، یہوواہ اُنہیں برکتیں دیتا ہے۔ اُس نے یہ وعدہ کِیا ہے: ”صادق [”نیک“ ترجمہ نئی دُنیا] زمین کے وارث ہوں گے اور اُس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔“ (زبور 37:29) ذرا سوچیں کہ جب سب لوگ یہوواہ کے اصولوں کے مطابق چلیں گے تو ہر طرف کتنا امن، سکون اور خوشحالی ہوگی! یہوواہ چاہتا ہے کہ آپ کو بھی ایسی زندگی ملے۔ اور بےشک یہ نیکی سے محبت کرنے کی ایک اَور وجہ ہے۔ ہم نیکی کے لیے اپنے دل میں محبت کیسے بڑھا سکتے ہیں؟ آئیں، ایسا کرنے کے تین طریقوں پر غور کریں۔
اپنے دل میں یہوواہ کے اصولوں کے لیے محبت بڑھائیں
9. کیا چیز نیکی سے محبت کرنے میں ہماری مدد کرے گی؟
9 پہلا طریقہ: یہوواہ سے محبت کریں جو صحیح اور غلط کے معیار قائم کرتا ہے۔ اگر ہم نیکی سے محبت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے دل میں یہوواہ کے لیے محبت بڑھانی ہوگی جو کہ صحیح اور غلط کے معیار طے کرتا ہے۔ ہم یہوواہ سے جتنی زیادہ محبت کریں گے اُتنی ہی زیادہ ہمارے دل میں یہ خواہش بڑھے گی کہ ہم اُس کے اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں۔ ذرا سوچیں کہ اگر آدم اور حوا یہوواہ سے محبت کرتے تو وہ کبھی بھی اُس کا جائز حکم نہ توڑتے۔—پید 3:1-6، 16-19۔
10. ابراہام نے یہوواہ کی سوچ کو اچھی طرح سے سمجھنے کے لیے کیا کِیا؟
10 ہم کبھی بھی آدم اور حوا جیسی غلطی نہیں کرنا چاہتے۔ اور اِس غلطی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہوواہ کے بارے میں سیکھتے رہیں، اُس کی خوبیوں کی قدر کرتے رہیں اور اُس کی سوچ کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہیں۔ ایسا کرنے سے ہمارے دل میں یہوواہ کے لیے محبت بڑھے گی۔ ذرا ابراہام کے بارے میں سوچیں۔ وہ یہوواہ سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ اِس وجہ سے وہ اُس وقت بھی یہوواہ کے خلاف نہیں گئے جب اُنہیں اُس کے کچھ فیصلوں کو سمجھنا مشکل لگ رہا تھا۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے یہوواہ کو اَور اچھی طرح سے جاننے کی کوشش کی۔ مثال کے طور پر جب ابراہام کو پتہ چلا کہ یہوواہ نے سدوم اور عمورہ کو تباہ کرنے کا فیصلہ کِیا ہے تو شروع میں وہ یہ سوچ کر پریشان ہو گئے کہ ”کیا تمام دُنیا کا اِنصاف کرنے والا“ بُرے لوگوں کے ساتھ نیک لوگوں کو بھی مار دے گا۔ ابراہام جانتے تھے کہ یہوواہ ایسا کر ہی نہیں سکتا۔ اِس لیے اُنہوں نے بڑی خاکساری سے یہوواہ سے کچھ سوال پوچھے۔ اور یہوواہ نے بڑے صبر سے اُن کے سوالوں کے جواب دیے۔ اِس کے بعد ابراہام سمجھ گئے کہ یہوواہ ہر شخص کے دل کو پرکھتا ہے۔ اور وہ کبھی بھی گُناہگار شخص کے ساتھ بےگُناہ شخص کو سزا نہیں دیتا۔—پید 18:20-32۔
11. ابراہام نے کیسے ثابت کِیا کہ وہ یہوواہ سے محبت کرتے ہیں اور اُس پر بھروسا کرتے ہیں؟
11 یہوواہ اور ابراہام کے درمیان سدوم اور عمورہ کے بارے میں جو باتچیت ہوئی، اُس کا ابراہام پر بہت گہرا اثر ہوا۔ بےشک اِس کے بعد سے ابراہام کے دل میں اپنے آسمانی باپ کے لیے محبت اور عزت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہوگی۔ لیکن کئی سال بعد یہوواہ پر ابراہام کے بھروسے کا کڑا اِمتحان ہوا۔ یہوواہ نے ابراہام سے کہا کہ وہ اپنے پیارے بیٹے اِضحاق کو قربان کر دیں۔ ابراہام اب اپنے خدا کو بہت اچھی طرح سے جان گئے تھے۔ اِس لیے اِس بار اُنہوں نے اُس سے کوئی سوال نہیں پوچھا۔ وہ بس یہوواہ کے حکم پر عمل کرنے کے لیے نکل پڑے۔ ذرا سوچیں کہ جب وہ اِضحاق کو قربان کرنے کی تیاریاں کر رہے ہوں گے تو اُن کے دل پر کیا بیت رہی ہوگی! اُس وقت ابراہام نے اُن باتوں کے بارے میں گہرائی سے سوچا ہوگا جو وہ یہوواہ کے بارے میں جان گئے تھے۔ ابراہام جانتے تھے کہ یہوواہ کبھی بھی کوئی بُرا کام نہیں کر سکتا۔ پولُس رسول نے کہا کہ ابراہام نے سوچا کہ خدا اُن کے بیٹے کو مُردوں میں سے بھی زندہ کر سکتا ہے۔ (عبر 11:17-19) اور ویسے بھی یہوواہ نے وعدہ کِیا تھا کہ اِضحاق سے ایک قوم پیدا ہوگی اور تب تک اِضحاق کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اِس لیے ابراہام کو پورا بھروسا تھا کہ اُن کا آسمانی باپ وہی کرے گا جو صحیح ہے۔ اِسی بات پر ایمان رکھ کر اُنہوں نے یہوواہ کا حکم مانا حالانکہ ایسا کرنا اُن کے لیے آسان نہیں تھا۔—پید 22:1-12۔
12. ہم ابراہام کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ (زبور 73:28)
12 ابراہام کی طرح ہمیں بھی یہوواہ کے بارے میں سیکھتے رہنے کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے سے ہم یہوواہ کے اَور قریب ہو جائیں گے اور اُس سے اَور بھی زیادہ محبت کرنے لگیں گے۔ (زبور 73:28 کو پڑھیں۔) اِس کے علاوہ ہماری سوچ یہوواہ کی سوچ کے مطابق ڈھل جائے گی۔ (عبر 5:14) اور پھر جب کوئی ہمیں غلط کام کرنے پر اُکسائے گا تو ہم فوراً اِنکار کر دیں گے۔ ہمیں تو اِس خیال سے ہی نفرت ہوگی کہ ہم کوئی ایسا کام کریں جس سے یہوواہ کا دل دُکھے اور اُس کے ساتھ ہماری دوستی ٹوٹ جائے۔ لیکن ہم اَور کس طرح سے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم نیکی سے پیار کرتے ہیں؟
13. ہم نیکی کرنے کی پوری کوشش کیسے کر سکتے ہیں؟ (امثال 15:9)
13 دوسرا طریقہ: ہر دن نیکی کے لیے محبت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ جس طرح اپنے پٹھوں کو مضبوط کرنے کے لیے ہمیں ہر دن ورزش کرنے کی ضرورت ہے اُسی طرح نیکی کے حوالے سے یہوواہ کے اصولوں کے لیے محبت پیدا کرنے کے لیے ہمیں ہر دن کوشش کرنی چاہیے۔ یہوواہ ہم سے کبھی بھی کسی ایسے کام کی توقع نہیں کرتا جسے کرنا ہمارے بس میں نہ ہو۔ (زبور 103:14) اُس نے ہمیں یہ یقین دِلایا ہے کہ ”وہ اُس شخص سے پیار کرتا ہے جو نیکی کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔“ (امثال 15:9 کو فٹنوٹ سے پڑھیں۔ *) اگر ہم نے یہوواہ کی خدمت کے حوالے سے کوئی منصوبہ بنایا ہے تو ہمیں اِسے پورا کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ اور یہی بات نیکی کی راہ پر چلنے کے بارے میں بھی سچ ہے۔ یہوواہ بڑے صبر سے ہماری مدد کرے گا تاکہ ہم وقت کے ساتھ ساتھ اِس حوالے سے بہتری لائیں۔—زبور 84:5، 7۔
14. ”نیکی کا بکتر“ کیا ہے اور ہمیں اِس کی ضرورت کیوں ہے؟
14 یہوواہ بڑے پیار سے ہمیں یاد دِلاتا ہے کہ نیکی کی راہ پر چلنا بوجھ نہیں ہے۔ (1-یوح 5:3) اِس کی بجائے یہ تو ایک تحفظ ہے جس کی ہمیں ہر روز ضرورت پڑتی ہے۔ یاد کریں کہ پولُس نے ایک جنگی لباس کا ذکر کِیا تھا جو خدا کی طرف سے ہے۔ (اِفس 6:14-18) اُس لباس کا کون سا حصہ فوجی کے دل کی حفاظت کرتا ہے؟ یہ نیکی کا بکتر ہے جو کہ یہوواہ کے نیک معیاروں کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ جس طرح ایک بکتر ہمارے دل کی حفاظت کرتا ہے اُسی طرح یہوواہ کے نیک معیار ہمارے مجازی دل کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ اور اِس مجازی دل کا مطلب یہ ہے کہ ہم اندر سے کیسے اِنسان ہیں۔ اِس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم جنگی لباس پہنتے وقت نیکی کا بکتر پہننا نہ بھولیں۔—امثا 4:23۔
15. آپ ”نیکی کا بکتر“ کیسے پہن سکتے ہیں؟
15 نیکی کے بکتر کو پہننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ہر دن کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے یہ سوچیں کہ اِس حوالے سے یہوواہ کے معیار کیا ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہم کسی سے بات کرنے، موسیقی سننے یا کوئی فلم وغیرہ دیکھنے یا کتاب پڑھنے کا سوچ رہے ہوتے ہیں تو ہمیں پہلے خود سے یہ سوال پوچھنے چاہئیں: ”اِس کا میرے دلدوماغ پر کیا اثر ہوگا؟ کیا یہ چیز یہوواہ کو پسند ہے؟ یا کیا اِس میں بدچلنی، تشدد، لالچ یا خودغرضی جیسی چیزوں کو فروغ دیا جا رہا ہے جن کا نیکی سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں ہے؟“(فل 4:8) اگر آپ ایسے کام کرنے کا فیصلہ کریں گے جو یہوواہ کو پسند ہیں تو ایک طرح سے آپ اُس کے نیک معیاروں کو اپنے دل کی حفاظت کرنے دے رہے ہوں گے۔
16-17. یسعیاہ 48:18 میں ہمیں اِس بات کا یقین کیسے دِلایا گیا ہے کہ ہم ہمیشہ تک یہوواہ کے معیاروں کے مطابق زندگی گزار سکتے ہیں؟
16 کیا آپ کبھی یہ سوچ کر پریشان ہوئے کہ پتہ نہیں آپ ہمیشہ تک یہوواہ کے معیاروں پر چل پائیں گے یا نہیں؟ ذرا غور کریں کہ یہوواہ نے یسعیاہ 48:18 میں ایک مثال کے ذریعے ہمیں کس بات کا یقین دِلایا۔ (اِس آیت کو پڑھیں۔) اُس نے ہم سے وعدہ کِیا ہے کہ ہماری ”صداقت [”نیکی،“ ترجمہ نئی دُنیا] سمندر کی موجوں کی مانند“ ہوگی۔ فرض کریں کہ آپ سمندر کے کنارے کھڑے ہیں اور ایک کے بعد ایک لہر کو کنارے پر آتا دیکھ رہے ہیں۔ اِتنے پُرسکون ماحول میں کیا آپ یہ سوچ کر پریشان ہوں گے کہ ایک دن یہ لہریں کنارے پر آنا بند ہو جائیں گی؟ بالکل نہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہزاروں سال سے یہ لہریں ساحل تک آ رہی ہیں اور یہ آئندہ بھی آنا بند نہیں ہوں گی۔
17 آپ کی نیکی بھی سمندر کی موجوں کی طرح ہو سکتی ہے۔ وہ کیسے؟ جب آپ کوئی فیصلہ لینے والے ہوتے ہیں تو سب سے پہلے اِس بارے میں سوچیں کہ یہوواہ آپ سے کیا چاہتا ہے۔ اور پھر فیصلہ کریں۔ آپ جو فیصلہ کرتے ہیں، چاہے وہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو، آپ کا شفیق آسمانی باپ ہمیشہ آپ کے ساتھ کھڑا ہوگا تاکہ آپ ہر دن اُس کے نیک معیاروں کے مطابق زندگی گزار سکیں۔—یسع 40:29-31۔
18. ہمیں دوسروں کو اپنے معیاروں کے مطابق کیوں نہیں پرکھنا چاہیے؟
18 تیسرا طریقہ: یہ فیصلہ یہوواہ کو کرنے دیں کہ دوسرے جو کچھ کر رہے ہیں، وہ صحیح ہیں یا غلط۔ جب ہم نیکی کے حوالے سے یہوواہ کے اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو ہمیں کبھی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم دوسروں سے بہتر ہیں اور نہ ہی دوسروں کے حوالے سے یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ یہوواہ کے اصولوں پر عمل کر رہے ہیں یا نہیں۔ ہمیں یہ حق نہیں ہے کہ ہم اپنے معیاروں کے مطابق دوسروں کو پرکھیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ صرف یہوواہ کو ”تمام دُنیا کا اِنصاف کرنے“ کا حق ہے۔ (پید 18:25) اُس نے یہ حق ہمیں نہیں دیا۔ یسوع مسیح نے یہ حکم دیا تھا کہ ”دوسروں کی عدالت مت کرنا، ورنہ تمہاری بھی عدالت کی جائے گی۔“—متی 7:1، اُردو جیو ورشن۔ *
19. یوسف نے کیسے ظاہر کِیا کہ اُنہیں یہوواہ کے اِنصاف پر بھروسا ہے؟
19 ذرا ایک بار پھر سے خدا کے بندے یوسف کی مثال پر غور کریں۔ اُنہوں نے دوسروں کو اپنے معیاروں کے مطابق نہیں پرکھا، یہاں تک کہ اُن لوگوں کو بھی نہیں جنہوں نے اُن کے ساتھ بُرا سلوک کِیا تھا۔ اُن کے اپنے بھائیوں نے اُن پر ظلم کِیا، اُنہیں غلام کے طور پر بیچ دیا اور اپنے باپ کو یقین دِلایا کہ یوسف فوت ہو گئے ہیں۔ کئی سال بعد یوسف اپنے گھر والوں سے دوبارہ ملے۔ اُس وقت تک وہ ایک بہت طاقتور حکمران بن گئے تھے۔ اگر وہ چاہتے تو وہ سختی سے اپنے بھائیوں کا فیصلہ کر سکتے تھے اور اُن سے بدلہ لے سکتے تھے۔ یوسف کے بھائیوں کو ڈر تھا کہ شاید یوسف ایسا ہی کریں گے حالانکہ وہ اپنے کیے پر دل سے شرمندہ تھے۔ لیکن یوسف نے اُنہیں یہ کہہ کر تسلی دی: ”مت ڈرو۔ کیا مَیں خدا کی جگہ پر ہوں؟“ (پید 37:18-20، 27، 28، 31-35؛ 50:15-21) یوسف نے خاکساری سے تسلیم کِیا کہ صرف یہوواہ کو ہی اُن کے بھائیوں کی عدالت کرنے کا حق ہے۔
20-21. ہم اپنی ہی نظر میں نیک بننے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
20 یوسف کی طرح ہم بھی یہ بات یہوواہ پر چھوڑتے ہیں کہ وہ دوسروں کی عدالت کرے۔ مثال کے طور پر ہم یہ اندازے نہیں لگاتے کہ ہمارے بہن بھائی فلاں کام کس نیت سے کرتے ہیں۔ ہم دلوں کو نہیں پڑھ سکتے۔ صرف یہوواہ ہی ”نیتوں کو جانچتا ہے۔“ (امثا 16:2، ترجمہ نئی دُنیا) وہ ہر طرح کے لوگوں سے پیار کرتا ہے پھر چاہے اُن کا تعلق کسی بھی علاقے یا ثقافت سے ہو۔ یہوواہ نے ہم سے کہا ہے کہ ہم ’اپنے دلوں میں زیادہ جگہ بنائیں۔‘ (2-کُر 6:13) اِس لیے ہمیں اپنے سب بہن بھائیوں سے پیار کرنا چاہیے نہ کہ اُن کے بارے میں اپنی طرف سے کوئی رائے قائم کر لینی چاہیے۔
21 ’اپنے دلوں میں زیادہ جگہ بنانے‘ کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم اُن لوگوں کے بارے میں بھی کوئی غلط رائے قائم نہ کریں جو کلیسیا کا حصہ نہیں ہیں۔ (1-تیم 2:3، 4) ہم کبھی بھی اپنے رشتےداروں کے بارے میں یہ رائے قائم نہیں کریں گے کہ ”وہ تو کبھی سچائی میں نہیں آئیں گے۔“ ایسا کرنے سے ہم اپنی ہی نظر میں نیک بن رہے ہوں گے۔ یاد رکھیں کہ یہوواہ ابھی بھی ’سب لوگوں کو توبہ‘ کرنے کا موقع دے رہا ہے۔ (اعما 17:30) یہ بات ہمیشہ رکھیں کہ یہوواہ اُن لوگوں کو نیک نہیں سمجھتا جو خود کو دوسروں سے نیک سمجھتے ہیں۔
22. آپ نے یہ عزم کیوں کِیا ہے کہ آپ نیکی سے محبت کریں گے؟
22 جب ہم نیکی کے حوالے سے یہوواہ کے اصولوں سے محبت کریں گے تو اِس سے نہ صرف ہمیں خوشی ملے گی بلکہ ہم دوسروں کے لیے اچھی مثال بھی قائم کریں گے۔ اِس طرح وہ ہمارے اور یہوواہ کے اَور قریب ہو جائیں گے۔ دُعا ہے کہ ہم نیکی کے لیے اپنی ”بھوک اور پیاس“ کبھی نہ مٹنے دیں۔ (متی 5:6، فٹنوٹ) اِس بات کا یقین رکھیں کہ جب آپ نیکی کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں تو یہوواہ اِسے ضرور دیکھتا ہے اور اُسے بہت خوشی ہوتی ہے۔ یہ دُنیا بُرائی کی دَلدل میں دھنستی جا رہی ہے۔ لیکن ہمت نہ ہاریں! اِس بات کو یاد رکھیں کہ یہوواہ ”صادقوں [”نیکوں،“ ترجمہ نئی دُنیا] سے محبت رکھتا ہے۔“—زبور 146:8۔
گیت نمبر 139: خود کو نئی دُنیا میں تصور کریں
^ اِس دُنیا میں نیک لوگ بڑی مشکل سے ملتے ہیں۔ لیکن پھر بھی لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو نیکی کی راہ پر چلتے ہیں۔ بےشک آپ بھی اُن میں سے ایک ہیں۔ آپ نیکی کی راہ پر اِس لیے چلتے ہیں کیونکہ آپ یہوواہ سے محبت کرتے ہیں جو کہ نیکی سے پیار کرتا ہے۔ ہم اپنے دل میں اِس شاندار خوبی کے لیے محبت کیسے بڑھا سکتے ہیں؟ اِس مضمون میں بتایا جائے گا کہ نیکی کیا ہے اور نیکی سے محبت کرنے سے ہمیں کیسے فائدہ ہو سکتا ہے۔ ہم کچھ ایسے طریقوں پر بھی غور کریں گے جن سے ہم اپنے دل میں نیکی کے لیے محبت بڑھا سکتے ہیں۔
^ امثال 15:9، (ترجمہ نئی دُنیا): ”یہوواہ بُرے شخص کی روِش سے گِھن کھاتا ہے لیکن وہ اُس شخص سے پیار کرتا ہے جو نیکی کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔“
^ جب ایک مسیحی بہت بڑا گُناہ کرتا ہے تو کلیسیا کے بزرگوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اُس مسیحی نے دل سے توبہ کی ہے یا نہیں۔ (1-کُر 5:11؛ 6:5؛ یعقو 5:14، 15) لیکن یہ بزرگ خاکساری سے اِس بات کو یاد رکھتے ہیں کہ وہ دلوں کو نہیں پڑھ سکتے اور وہ یہوواہ کی طرف سے فیصلہ کر رہے ہیں۔ (2-تواریخ 19:6 پر غور کریں۔) اِس لیے وہ یہوواہ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے رحم اور اِنصاف سے فیصلہ کرتے ہیں۔