مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏یہوواہ پر توکل کریں اور نیکی کریں‘‏

‏’‏یہوواہ پر توکل کریں اور نیکی کریں‘‏

‏’‏یہوواہ پر توکل کریں اور نیکی کریں۔‏‘‏‏—‏زبور 37:‏3‏۔‏

گیت:‏ 49،‏  18

1.‏ یہوواہ خدا نے اِنسانوں کو کون سی نعمتیں عطا کی ہیں تاکہ وہ سیدھی راہ اِختیار کر سکیں؟‏

یہوواہ خدا نے اِنسانوں کو بہت سی نعمتیں عطا کی ہیں تاکہ وہ سیدھی راہ اِختیار کر سکیں۔‏ مثال کے طور پر اُس نے ہمیں سوچنے سمجھنے کی صلا‌حیت دی ہے جس کی بدولت ہم مسئلے حل کر سکتے ہیں اور مستقبل کے لیے منصوبے بنا سکتے ہیں۔‏ (‏امثال 2:‏11‏)‏ اُس نے ہمیں توانائی بھی عطا کی ہے جس کی بِنا پر ہم اپنے منصوبوں پر عمل کر سکتے ہیں۔‏ (‏فِلپّیوں 2:‏13‏)‏ اِس کے علا‌وہ اُس نے ہمیں ضمیر بھی دیا ہے جس کی مدد سے ہم نیکی اور بدی میں تمیز کر سکتے ہیں۔‏ اِس کی بدولت ہم گُناہ کرنے سے بچ سکتے ہیں یا پھر اپنی غلطیوں کو سدھار سکتے ہیں۔‏—‏رومیوں 2:‏15‏۔‏

2.‏ یہوواہ خدا ہم سے کس بات کی توقع کرتا ہے؟‏

2 یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم اِن نعمتوں کو اِستعمال بھی کریں۔‏ وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور جانتا ہے کہ اِن نعمتوں کو اِستعمال کرنے سے ہمیں خوشی ملے گی۔‏ بائبل کے عبرانی صحیفوں میں لکھا ہے:‏ ‏”‏محنتی شخص کے منصوبے منافع‌بخش ہوتے ہیں“‏ اور ”‏جو کام تیرا ہاتھ کرنے کو پائے اُسے مقدور بھر کر۔‏“‏ (‏امثال 21:‏5‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن؛‏ واعظ 9:‏10‏)‏ یونانی صحیفوں میں لکھا ہے:‏ ”‏جب تک ہمارے پاس موقع ہے،‏ آئیں،‏ سب کے ساتھ بھلا‌ئی کریں“‏ اور ”‏جس حد تک آپ کو کوئی نعمت ملی ہے،‏ اِسے ایک دوسرے کی خدمت کرنے کے لیے اِستعمال کریں۔‏“‏ (‏گلتیوں 6:‏10؛‏ 1-‏پطرس 4:‏10‏)‏ لہٰذا یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ جہاں تک ہم سے ہو سکے،‏ ہم اپنی صلا‌حیتوں کو اپنے اور دوسروں کے فائدے کے لیے اِستعمال کریں۔‏

3.‏ کچھ ایسے کاموں کا ذکر کریں جو ہمارے بس سے باہر ہیں۔‏

3 لیکن یہوواہ خدا جانتا ہے کہ بہت سے کام ہمارے بس سے باہر ہیں۔‏ مثال کے طور پر ہم گُناہ اور موت کو نہیں مٹا سکتے۔‏ (‏1-‏سلا‌طین 8:‏46‏)‏ ہم دوسروں کو کوئی کام کرنے پر مجبور بھی نہیں کر سکتے کیونکہ ہر ایک کو خود فیصلہ کرنے کا حق ملا ہے کہ وہ کیا کرے گا اور کیا نہیں کرے گا۔‏ اور چاہے ہم جتنا بھی علم اور تجربہ حاصل کر لیں،‏ یہ یہوواہ خدا کے علم اور تجربے کے آگے کچھ بھی نہیں۔‏—‏یسعیاہ 55:‏9‏۔‏

مشکل صورتحال میں ’‏یہوواہ پر توکل کریں اور نیکی کریں۔‏‘‏

4.‏ اِس مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

4 ہمیں ہر بات میں یہوواہ سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے اور اِس بات پر بھروسا کرنا چاہیے کہ وہ ہماری مدد کرے گا اور ہمارے لیے وہ سب کچھ کرے گا جو ہم خود نہیں کر سکتے۔‏ مگر یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم اپنے مسئلوں کو سلجھانے اور دوسروں کی مدد کرنے کے لیے خود بھی ذہن لڑائیں۔‏ ‏(‏زبور 37:‏3 کو پڑھیں۔‏)‏ ہمیں ”‏[‏یہوواہ]‏ پر توکل“‏ یعنی بھروسا کرنے کے ساتھ ساتھ نیکی بھی کرنی چاہیے۔‏ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏ آئیں،‏ اِس سلسلے میں نوح،‏ داؤد اور خدا کے دیگر خادموں کی مثال پر غور کریں جنہوں نے مشکل صورتحال میں اپنے خدا پر بھروسا کِیا۔‏ وہ جانتے تھے کہ کچھ کام اُن کے بس سے باہر ہیں۔‏ لیکن ہمت ہارنے کی بجائے اُنہوں نے اُن کاموں پر توجہ دی جو وہ کر سکتے تھے۔‏

جب ہم دُنیا میں بُرائی دیکھتے ہیں

5.‏ نوح کو کس صورتحال کا سامنا تھا؟‏

5 نوح کے زمانے میں زمین بدکاری اور ”‏ظلم سے بھری تھی۔‏“‏ (‏پیدایش 6:‏4،‏ 9-‏13‏)‏ حالانکہ نوح جانتے تھے کہ یہوواہ خدا اِس بُری دُنیا کو تباہ کر دے گا لیکن پھر بھی اُن کو اِس بُرائی کو دیکھ کر بہت دُکھ ہوتا تھا۔‏ نوح جانتے تھے کہ اِس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کچھ کام تو اُن کے بس سے باہر ہیں لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ وہ کچھ کام ضرور کر سکتے ہیں۔‏

خوش‌خبری کی مخالفت (‏پیراگراف 6-‏9 کو دیکھیں۔‏)‏

6،‏ 7.‏ ‏(‏الف)‏ کون سے کام نوح کے بس سے باہر تھے؟‏ (‏ب)‏ ہماری صورتحال نوح کی صورتحال سے کیسے ملتی جلتی ہے؟‏

6 وہ کام جو نوح کے بس سے باہر تھے:‏ نوح نے لوگوں کو خدا کی طرف سے آنے والی تباہی کا پیغام تو دیا لیکن وہ اُن کو یہ پیغام قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے تھے۔‏ اِس کے علا‌وہ وہ کچھ ایسا بھی نہیں کر سکتے تھے جس سے طوفان مقررہ وقت سے پہلے آئے۔‏ اُنہیں اِس بات پر بھروسا کرنا پڑا کہ یہوواہ خدا صحیح وقت پر بُرائی کو ختم کر دے گا۔‏—‏پیدایش 6:‏17‏۔‏

7 ہمارے زمانے میں بھی زمین بُرائی سے بھری ہے اور یہوواہ خدا نے اِس بُری دُنیا کو تباہ کرنے کا وعدہ کِیا ہے۔‏ (‏1-‏یوحنا 2:‏17‏)‏ ہم لوگوں کو ”‏بادشاہت کی خوش‌خبری“‏ قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔‏ اور ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے تاکہ ”‏بڑی مصیبت“‏ مقررہ وقت سے پہلے آئے۔‏ (‏متی 24:‏14،‏ 21‏)‏ نوح کی طرح ہم بھی اِس بات پر بھروسا کرتے ہیں کہ خدا جلد ہی بُرائی کا نام‌ونشان مٹا دے گا۔‏ (‏زبور 37:‏10،‏ 11‏)‏ ہمیں پکا یقین ہے کہ یہوواہ اِس بُری دُنیا کو صرف اُس وقت تک چلنے دے گا جب تک اُس کا مقصد پورا نہ ہو جائے۔‏ اِس کے بعد وہ اِسے ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کرے گا۔‏—‏حبقوق 2:‏3‏۔‏

نوح کی طرح ہم بھی اِس بات پر بھروسا کرتے ہیں کہ خدا جلد ہی بُرائی کا نام‌ونشان مٹا دے گا۔‏

8.‏ نوح نے کن کاموں پر توجہ دی؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

8 وہ کام جو نوح کر سکتے تھے:‏ نوح ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ نہیں گئے بلکہ اُنہوں نے اُن کاموں پر توجہ دی جو وہ کر سکتے تھے۔‏ اُنہوں نے جی جان سے ”‏نیکی کی مُنادی“‏ کی اور لوگوں کو آنے والی تباہی سے آگاہ کِیا۔‏ (‏2-‏پطرس 2:‏5‏)‏ یقیناً اِس کام سے اُن کا اپنا ایمان مضبوط رہا۔‏ اِس کے علا‌وہ اُنہوں نے یہوواہ کی ہدایت کے مطابق کشتی بھی بنائی۔‏‏—‏عبرانیوں 11:‏7 کو پڑھیں۔‏

9.‏ ہم نوح کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

9 نوح کی طرح ہم بھی ”‏مالک کی خدمت میں مصروف“‏ رہتے ہیں۔‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 15:‏58‏)‏ مثال کے طور پر ہم میں سے کچھ بہن بھائی عبادت‌گاہوں کی تعمیر اور دیکھ‌بھال میں حصہ لیتے ہیں،‏ اِجتماعوں پر رضاکاروں کے طور پر خدمت کرتے ہیں اور بیت‌ایل یا ترجمے کے دفتر میں کام کرتے ہیں۔‏ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم سب مُنادی کے کام میں حصہ لیتے ہیں جس سے ہمارے دل میں نئی دُنیا کی اُمید مضبوط ہو جاتی ہے۔‏ ایک بہن نے کہا:‏ ”‏مُنادی کے کام میں لوگوں سے بات‌چیت کرتے وقت ہمیں احساس ہوتا ہے کہ وہ بالکل نااُمید ہیں اور اُن کے خیال میں اُن کے مسائل کبھی حل نہیں ہو سکتے۔‏“‏ اِن لوگوں کے برعکس ہم اچھے مستقبل کی اُمید رکھتے ہیں اور جب ہم دوسروں کو اِس اُمید کے بارے میں بتاتے ہیں تو ہمارا اپنا ایمان اَور مضبوط ہو جاتا ہے۔‏ یوں ہم زندگی کی دوڑ میں ہمت نہیں ہارتے۔‏—‏1-‏کُرنتھیوں 9:‏24‏۔‏

جب ہم سے گُناہ ہو جاتا ہے

10.‏ داؤد کی صورتحال کیا تھی؟‏

10 یہوواہ خدا نے داؤد کے بارے میں کہا کہ ’‏اُس سے میرا دل خوش ہے۔‏‘‏ (‏اعمال 13:‏22‏)‏ داؤد خدا کے وفادار تھے لیکن ایک بار اُنہوں نے سنگین گُناہ کیے۔‏ اُنہوں نے اُوریاہ کی بیوی بت‌سبع کے ساتھ زِنا کِیا اور پھر اِس گُناہ کو چھپانے کے لیے اُن کے شوہر کو جنگ میں مروانے کی سازش کی۔‏ سونے پہ سہاگا،‏ داؤد نے اُوریاہ کے ہاتھ ہی وہ خط بھجوایا جس میں اُن کو مروانے کا حکم تھا۔‏ (‏2-‏سموئیل 11:‏1-‏21‏)‏ لیکن یہ گُناہ چھپے نہیں رہے۔‏ (‏مرقس 4:‏22‏)‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ داؤد نے اُس وقت کیا کِیا جب اُن کے گُناہوں سے پردہ اُٹھایا گیا۔‏

ماضی کے گُناہ (‏پیراگراف 11-‏14 کو دیکھیں۔‏)‏

11،‏ 12.‏ ‏(‏الف)‏ جب داؤد نے گُناہ کِیا تو کون سے کام اُن کے بس سے باہر تھے؟‏ (‏ب)‏ اگر ہم دل سے توبہ کریں گے تو یہوواہ خدا کیا کرے گا؟‏

11 وہ کام جو داؤد کے بس سے باہر تھے:‏ داؤد اُس نقصان کو نہیں مٹا سکتے تھے جو اُن کے گُناہوں کی وجہ سے ہوا تھا۔‏ اُنہوں نے زندگی بھر اِن کے بُرے نتائج بھگتے۔‏ (‏2-‏سموئیل 12:‏10-‏12،‏ 14‏)‏ اِس لیے اُنہیں مضبوط ایمان کی ضرورت تھی۔‏ اُنہوں نے دل سے توبہ کر لی تھی۔‏ اب اُنہیں اِس بات پر بھروسا کرنے کی ضرورت تھی کہ یہوواہ خدا نے اُنہیں معاف کر دیا ہے اور اِن گُناہوں کے نتائج کو برداشت کرنے میں اُن کی مدد کرے گا۔‏

12 ہم سب گُناہ‌گار ہیں اور غلطیاں کرتے ہیں،‏ یہاں تک کہ کچھ مسیحیوں سے سنگین گُناہ بھی ہو جاتے ہیں۔‏ کبھی کبھار ہمیں اپنی غلطیوں اور گُناہوں کے نتائج بھگتنے ہی پڑتے ہیں۔‏ (‏گلتیوں 6:‏7‏)‏ لیکن اگر ہم نے دل سے توبہ کر لی ہے تو ہم بھی اِس بات پر بھروسا کر سکتے ہیں کہ خدا مشکل وقت میں ہماری مدد کرے گا،‏ چاہے یہ مشکل ہمارے گُناہ کا نتیجہ کیوں نہ ہو۔‏‏—‏یسعیاہ 1:‏18،‏ 19؛‏ اعمال 3:‏19 کو پڑھیں۔‏

13.‏ داؤد نے دوبارہ سے یہوواہ خدا کی قربت حاصل کرنے کے لیے کیا کِیا؟‏

13 وہ کام جو داؤد کر سکتے تھے:‏ داؤد دوبارہ سے یہوواہ خدا کی قربت حاصل کرنا چاہتے تھے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے یہوواہ کی مدد قبول کی۔‏ جب خدا کے نبی ناتن نے اُن کی اِصلا‌ح کی تو داؤد نے اپنی غلطی تسلیم کر لی۔‏ (‏2-‏سموئیل 12:‏13‏)‏ داؤد نے یہوواہ سے دُعا کی اور اپنے گُناہوں کا اِعتراف کِیا جس سے ظاہر ہوا کہ وہ واقعی اُس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے تھے۔‏ (‏زبور 51:‏1-‏17‏)‏ ہمت ہارنے کی بجائے داؤد نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا۔‏ اُنہوں نے پھر کبھی یہ سنگین گُناہ نہیں کیے۔‏ وہ زندگی بھر یہوواہ کے وفادار رہے اور اِس لیے خدا اُن کو ایک نیک بندے کے طور پر یاد کرتا ہے۔‏—‏عبرانیوں 11:‏32-‏34‏۔‏

14.‏ ہم داؤد سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

14 ہم داؤد سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ اگر ہم کوئی سنگین گُناہ کرتے ہیں تو ہمیں بھی دل سے توبہ کرنی چاہیے،‏ دُعا میں اپنے گُناہ کا اِعتراف کرنا چاہیے اور یہوواہ سے معافی مانگنی چاہیے۔‏ (‏1-‏یوحنا 1:‏9‏)‏ اِس کے ساتھ ساتھ ہمیں کلیسیا کے بزرگوں سے بھی بات کرنی چاہیے کیونکہ وہ یہوواہ کی قربت حاصل کرنے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔‏ ‏(‏یعقوب 5:‏14-‏16 کو پڑھیں۔‏)‏ جب ہم یہوواہ کی مدد کو قبول کرتے ہیں تو ہم اِس بات پر بھروسا ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ہمیں معاف کرے گا۔‏ ہمیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور اِعتماد کے ساتھ یہوواہ کی خدمت کرتے رہنا چاہیے۔‏—‏عبرانیوں 12:‏12،‏ 13‏۔‏

کچھ اَور صورتحال

بیماری (‏پیراگراف 15 کو دیکھیں۔‏)‏

15.‏ ہم حنّہ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

15 بِلا‌شُبہ آپ کو بائبل میں سے اَور بھی لوگ یاد ہوں گے جنہوں نے مشکل صورتحال سے نمٹنے کے لیے وہ سب کچھ کِیا جو وہ کر سکتے تھے اور باقی یہوواہ پر چھوڑ دیا۔‏ ذرا حنّہ کو یاد کریں جو بانجھ تھیں۔‏ وہ اپنی صورتحال کو بدل نہیں سکتی تھیں۔‏ لیکن اُن کو یقین تھا کہ یہوواہ خدا اُن کو تسلی دے سکتا ہے۔‏ اِس لیے وہ باقاعدگی سے خیمۂ‌اِجتماع میں جا کر یہوواہ کی عبادت کرتی تھیں اور اُسے اپنے دل کا حال بتاتی تھیں۔‏ (‏1-‏سموئیل 1:‏9-‏11‏)‏ اُنہوں نے ہمارے لیے کیا ہی عمدہ مثال قائم کی!‏ اگر ہم بیمار ہیں یا پھر کسی ایسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں جسے ہم بدل نہیں سکتے تو ہم بھی اپنی ساری پریشانیاں یہوواہ پر ڈال سکتے ہیں اور اِس بات پر بھروسا کر سکتے ہیں کہ اُس کو ہماری فکر ہے۔‏ (‏1-‏پطرس 5:‏6،‏ 7‏)‏ اِس کے ساتھ ساتھ ہم باقاعدگی سے اِجلا‌سوں پر جانے کی بھرپور کوشش کر سکتے ہیں اور اُن تمام سہولتوں سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں جو یہوواہ کی تنظیم فراہم کرتی ہے۔‏—‏عبرانیوں 10:‏24،‏ 25‏۔‏

حنّہ کو خدا پر بھروسا تھا اِس لیے وہ باقاعدگی سے خیمۂ‌اِجتماع میں جا کر عبادت کرتی تھیں اور خدا کو اپنے دل کا حال بتاتی تھیں۔‏

سرکش بچے (‏پیراگراف 16 کو دیکھیں۔‏)‏

16.‏ مسیحی والدین سموئیل نبی سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

16 کچھ مسیحی والدین کے بچے یہوواہ خدا کی عبادت کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔‏ اِن والدین کی صورتحال سموئیل نبی کی جیسی ہوتی ہے۔‏ جب سموئیل کے بیٹے بڑے ہو گئے تو وہ سیدھی راہ سے بھٹک گئے۔‏ (‏1-‏سموئیل 8:‏1-‏3‏)‏ سموئیل اپنے بیٹوں کو یہوواہ کی راہ پر چلنے پر مجبور نہیں کر سکتے تھے۔‏ اُنہوں نے معاملہ یہوواہ پر چھوڑ دیا اور اِس بات پر توجہ دی کہ وہ خود اپنے خدا کے وفادار رہیں اور اُسے خوش کریں۔‏ (‏امثال 27:‏11‏)‏ اگر مسیحی والدین اِس طرح کی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں تو وہ بچھڑے ہوئے بیٹے کی مثال کو یاد رکھ سکتے ہیں جو یسوع مسیح نے دی تھی۔‏ اِس مثال میں یسوع مسیح نے ایک شفیق باپ کا ذکر کِیا تھا۔‏ مسیحی والدین یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ اِس باپ کی طرح ہے اور وہ اُن گُناہ‌گاروں کو خوشی سے قبول کرتا ہے جو توبہ کر کے اُس کے پاس لوٹ آتے ہیں۔‏ (‏لُوقا 15:‏20‏)‏ اِس کے ساتھ ساتھ وہ اِس بات کا خیال رکھ سکتے ہیں کہ وہ خود یہوواہ کے وفادار رہیں۔‏ وہ یہ اُمید رکھ سکتے ہیں کہ اُن کے بچے اُن کی اچھی مثال کو دیکھ کر یہوواہ کے پاس لوٹ آئیں گے۔‏

مالی مشکلا‌ت (‏پیراگراف 17 کو دیکھیں۔‏)‏

17.‏ غریب بیوہ کی مثال پر غور کرنے سے ہمارا حوصلہ کیوں بڑھتا ہے؟‏

17 یسوع مسیح کے زمانے کی ایک غریب بیوہ نے بھی ہمارے لیے اچھی مثال قائم کی۔‏ ‏(‏لُوقا 21:‏1-‏4 کو پڑھیں۔‏)‏ اُس زمانے میں ہیکل میں غلط کام کیے جا رہے تھے۔‏ (‏متی 21:‏12،‏ 13‏)‏ یہ بیوہ اِس صورتحال کو نہیں بدل سکتی تھی اور وہ اپنی غریبی کو بھی دُور نہیں کر سکتی تھی۔‏ لیکن اُسے یہوواہ پر بھروسا تھا اور وہ اُس کی عبادت کو فروغ دینے کے لیے جو کچھ کر سکتی تھی،‏ اُس نے کِیا۔‏ اِس بیوہ نے بڑی فراخ‌دلی سے عطیات کے ڈبے میں ”‏دو چھوٹے سِکے ڈالے“‏ جو کہ اُس کی ساری جمع‌پونجی تھی۔‏ وہ جانتی تھی کہ اگر وہ یہوواہ کی خدمت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دے گی تو یہوواہ اُس کی ضروریات پوری کرے گا۔‏ ہمیں بھی پکا یقین ہے کہ اگر ہم خدا کی بادشاہت کو پہلا درجہ دیں گے تو یہوواہ ہمیں وہ سب کچھ دے گا جس کی ہمیں ضرورت ہے۔‏—‏متی 6:‏33‏۔‏

18.‏ ایک بھائی کے بارے میں بتائیں جنہوں نے یہوواہ پر بھروسا کِیا۔‏

18 ہمارے زمانے میں بھی بہت سے بہن بھائیوں نے مشکل صورتحال میں یہوواہ خدا پر بھروسا ظاہر کِیا اور جہاں تک ممکن تھا،‏ اپنی صورتحال سے نمٹنے کے لیے قدم اُٹھائے۔‏ بھائی مالکم ہی کی مثال لیجئے جو 2015ء میں فوت ہو گئے۔‏ وہ اپنی موت تک یہوواہ خدا کے وفادار رہے۔‏ اُنہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ بہت سالوں تک یہوواہ کی خدمت کی اور اِس عرصے میں اچھا وقت بھی دیکھا اور بُرا بھی۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏زندگی میں اُتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔‏ کبھی کبھار تو ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں جن کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوتا۔‏ لیکن جو لوگ .‏ .‏ .‏ یہوواہ خدا پر بھروسا کرتے ہیں،‏ یہوواہ اُن کی مدد کرتا ہے۔‏“‏ بھائی مالکم نے یہ مشورہ بھی دیا:‏ ”‏دُعا میں یہوواہ خدا سے مدد مانگیں تاکہ آپ پوری لگن سے اُس کی خدمت کر سکیں۔‏ اپنے حالات کے مطابق جتنی خدمت آپ کر سکتے ہیں،‏ اُسی پر دھیان دیں۔‏ اور جو آپ کے بس میں نہیں،‏ اُس کے بارے میں سوچ کر پریشان نہ ہوں۔‏“‏ *

19.‏ ‏(‏الف)‏ سن 2017ء کی سالانہ آیت کیوں موزوں ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ سالانہ آیت پر کیسے عمل کریں گے؟‏

19 اِس بُری دُنیا کے حالات ”‏بگڑتے چلے جائیں گے“‏ اِس لیے ہماری مشکلیں بھی بڑھتی جائیں گی۔‏ (‏2-‏تیمُتھیُس 3:‏1،‏ 13‏)‏ یہ بہت اہم ہے کہ ہم اِن مشکلوں کی وجہ سے ہمت نہ ہاریں بلکہ پورے دل سے یہوواہ پر بھروسا کریں اور اُن کاموں پر توجہ دیں جو ہم اِن مشکلوں سے نمٹنے کے لیے کر سکتے ہیں۔‏ واقعی 2017ء کی سالانہ آیت بہت ہی موزوں ہے جس میں لکھا ہے:‏ ’‏یہوواہ پر توکل کریں اور نیکی کریں۔‏‘‏—‏زبور 37:‏3‏۔‏

سن 2017ء کی سالانہ آیت:‏ ’‏یہوواہ پر توکل کریں اور نیکی کریں‏۔‏‘‏‏—‏زبور 37:‏3