”وہ تھکے ہوئے کو زور بخشتا ہے“
سن 2018ء کی سالانہ آیت: ”[یہوواہ] کا اِنتظار کرنے والے ازسرِنو زور حاصل کریں گے۔“—یسعیاہ 40:31۔
1. (الف) ہم میں سے بہت سے کس طرح کی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں؟ (ب) یہوواہ اپنے وفادار بندوں سے خوش کیوں ہے؟ (مضمون کے شروع میں دی گئی تصویروں کو دیکھیں۔)
اِس دُنیا میں زندگی آسان نہیں ہے۔ ہم سب کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے بہت سے عزیز بہن بھائی کسی سنگین بیماری میں مبتلا ہیں۔ کچھ بہن بھائی جو خود اَدھیڑ عمر ہیں، اُنہیں اپنے عمررسیدہ رشتےداروں کی دیکھبھال کرنی پڑ رہی ہے۔ اِس کے علاوہ کچھ ایسے بہن بھائی بھی ہیں جو اپنے خاندان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ میں سے بہت سے بہن بھائی ایک ہی وقت میں اِن میں سے کئی مسائل سے دوچار ہیں۔ اِن مسائل کا سامنا کرنے کے لیے آپ کو اپنا بہت سا وقت، توانائی اور شاید پیسہ بھی خرچ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن آپ اِس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہوواہ آپ کی مدد کرے گا اور اپنے وعدے کے مطابق حالات کو بہتر بنائے گا۔ آپ کے ایمان کو دیکھ کر یہوواہ کا دل واقعی خوش ہوتا ہے۔
2. (الف) ہمیں یسعیاہ 40:29 سے حوصلہ کیسے ملتا ہے؟ (ب) ہم کون سی سنگین غلطی کرنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں؟
2 کیا آپ کو کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ آپ کو جن مشکلات کا سامنا ہے، وہ آپ کی برداشت سے باہر ہیں؟ 1-سلاطین 19:4؛ ایوب 7:7) کس چیز نے ثابتقدم رہنے میں اُن کی مدد کی؟ اُنہیں اِس بات پر بھروسا تھا کہ یہوواہ اُنہیں طاقت بخشے گا۔ بائبل میں لکھا ہے کہ خدا ”تھکے ہوئے کو زور بخشتا ہے۔“ (یسعیاہ 40:29) مگر افسوس کی بات ہے کہ آجکل خدا کے کچھ بندوں کو اپنی مشکلات سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ نظر آتا ہے کہ وہ کچھ دیر کے لیے خدا کی خدمت کرنا چھوڑ دیں۔ اُنہیں خدا کی خدمت ایک اعزاز کی بجائے بوجھ لگنے لگتی ہے۔ اِس لیے وہ بائبل کو پڑھنا، اِجلاسوں میں جانا اور مُنادی کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یوں وہ وہی کرتے ہیں جو شیطان چاہتا ہے۔
اگر آپ ایسا محسوس کرتے ہیں تو یاد رکھیں کہ ماضی میں بھی خدا کے کچھ بندوں کو لگتا تھا کہ وہ اپنی مشکلات کو مزید برداشت نہیں کر پائیں گے۔ (3. (الف) ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ شیطان ہمیں کمزور نہ کر دے؟ (ب) اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
3 شیطان نہیں چاہتا کہ ہم مضبوط بنیں۔ وہ جانتا ہے کہ ہم مضبوط تب بنتے ہیں جب ہم خدا کی خدمت میں مشغول رہتے ہیں۔ لہٰذا جب آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ جسمانی طور پر تھک چُکے ہیں اور جذباتی لحاظ سے ٹوٹ چُکے ہیں تو یہوواہ سے دُور نہ ہو جائیں بلکہ اُس کے قریب جائیں۔ بائبل میں لکھا ہے: ”وہ آپ کو مضبوط بنائے گا۔ وہ آپ کو طاقت بخشے گا۔“ (1-پطرس 5:10؛ یعقوب 4:8) اِس مضمون میں ہم یسعیاہ 40:26-31 پر غور کریں گے اور یہ سیکھیں گے کہ یہوواہ ہمیں طاقت بخشنے کی زبردست صلاحیت رکھتا ہے۔ اِس کے بعد ہم دو ایسی صورتحال پر بات کریں گے جن کا سامنا کرتے وقت ہم یہوواہ کی خدمت میں سُست پڑ سکتے ہیں اور ہم دیکھیں گے کہ بائبل کے اصولوں پر عمل کرنے سے ہم ایسی صورتحال میں ثابتقدم کیسے رہ سکتے ہیں۔
یہوواہ کا اِنتظار کرنے والے دوبارہ سے طاقت پائیں گے
4. ہم یسعیاہ 40:26 سے کیا سیکھتے ہیں؟
یہوواہ مشکلات کو برداشت کرنے کے لیے آپ کو طاقت بخش سکتا ہے۔
4 یسعیاہ 40:26 کو پڑھیں۔ آج تک کوئی بھی اِنسان کائنات میں موجود ستاروں کو گن نہیں پایا۔ سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ صرف ہماری کہکشاں میں ہی تقریباً 4 کھرب ستارے ہیں۔ لیکن یہوواہ نے ہر ستارے کو ایک نام دیا ہوا ہے۔ اِس سے ہمیں یہوواہ کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟ اگر اُس کے نزدیک بےجان ستارے اہم ہیں تو اُس کی نظر میں آپ کی کتنی اہمیت ہوگی! بےجان ستاروں کے برعکس آپ میں خدا سے محبت کرنے کی صلاحیت ہے اور اِسی بِنا پر آپ اُس کی خدمت کرتے ہیں۔ (زبور 19:1، 3، 14) ہمارا شفیق آسمانی باپ آپ کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ بائبل میں لکھا ہے کہ ”اُس کو تو یہ بھی پتہ ہے کہ آپ کے سر پر کتنے بال ہیں۔“ (متی 10:30) زبورنویس نے کہا: ”کامل لوگوں کے ایّام کو [یہوواہ] جانتا ہے“ یعنی اُسے پتہ ہے کہ وہ کن مشکلات سے گزرتے ہیں۔ (زبور 37:18) بِلاشُبہ یہوواہ آپ کی تمام مشکلات سے واقف ہے اور اِنہیں برداشت کرنے کے لیے آپ کو طاقت بخش سکتا ہے۔
5. ہم یہ یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں طاقت بخش سکتا ہے؟
5 یسعیاہ 40:28 کو پڑھیں۔ یہوواہ توانائی کا سرچشمہ ہے۔ ذرا غور کریں کہ اُس نے سورج کو کتنی زیادہ توانائی بخشی ہے۔ سائنسدان ڈیوڈ بوڈانس کا کہنا ہے کہ سورج ہر سیکنڈ میں اِتنی زیادہ توانائی خارج کرتا ہے جتنی اربوں ایٹمی بموں کے پھٹنے سے خارج ہوتی ہے۔ ایک اَور سائنسدان کے مطابق سورج سے ایک سیکنڈ میں جتنی توانائی خارج ہوتی ہے، اُس سے 2 لاکھ سال تک پوری زمین پر توانائی کی ضرورت کو پورا کِیا جا سکتا ہے۔ اگر یہوواہ خدا سورج کو بےاِنتہا توانائی بخش سکتا ہے تو بِلاشُبہ وہ ہمیں بھی مشکلات کو برداشت کرنے کے لیے طاقت اور توانائی بخش سکتا ہے۔
6. یسوع مسیح کا جُوا کس لحاظ سے آرامدہ ہے اور اِس بات سے آپ کو کیا حوصلہ ملتا ہے؟
یسعیاہ 40:29 کو پڑھیں۔ یہوواہ خدا کی خدمت کرنے سے ہمیں بہت خوشی ملتی ہے۔ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا تھا: ”میرا جُوا اُٹھا لیں۔“ ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا: ”میرا جُوا آرامدہ ہے اور میرا بوجھ ہلکا ہے۔“ (متی 11:28-30) یہ بات واقعی سچ ہے۔ جب ہم اِجلاسوں یا مُنادی پر جانے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں تو شاید کبھی کبھار ہم بہت تھکے ہوئے ہوں۔ لیکن جب ہم واپس آتے ہیں تو ہم کیسا محسوس کرتے ہیں؟ ہم تازہدم ہوتے ہیں اور مشکلات کا اَور اچھی طرح مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ یسوع مسیح کا جُوا آرامدہ ہے۔
67. ایک مثال بیان کریں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ متی 11:28-30 میں لکھی بات واقعی سچ ہے۔
7 ذرا ایک بہن کی مثال پر غور کریں۔ اُسے اکثر آدھے سر کا درد رہتا ہے، وہ ڈپریشن میں مبتلا رہتی ہے اور ایک ایسی بیماری کا شکار ہے جس میں بہت آرام کرنے کے باوجود تھکاوٹ دُور نہیں ہوتی۔ اِس وجہ سے بعض اوقات اُس کے لیے اِجلاسوں میں جانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مگر ایک دن جب وہ بڑی ہمت کر کے اِجلاس میں گئی تو اِس کے بعد اُس نے لکھا: ”اِجلاس میں جو تقریر کی گئی، وہ مایوسی سے نمٹنے کے بارے میں تھی۔ تقریر میں معلومات کو اِتنے شفیق انداز میں پیش کِیا گیا کہ اِسے سُن کر میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ مَیں یہ سمجھ گئی کہ اِجلاسوں میں باقاعدگی سے جانے سے ہی میری ہمت بندھی رہے گی۔“ وہ بہن اِس بات پر بہت خوش تھی کہ اُس نے اِجلاس میں جانے کے لیے کوشش کی۔
8، 9. پولُس کی اِس بات کا کیا مطلب تھا کہ ”جب مَیں کمزور ہوتا ہوں تب مَیں طاقتور ہوتا ہوں“؟
8 یسعیاہ 40:30 کو پڑھیں۔ چاہے ہم میں بہت سی صلاحیتیں ہوں مگر پھر بھی کئی ایسے کام ہیں جو ہم اپنی طاقت سے نہیں کر سکتے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو ہم سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پولُس رسول بہت قابل اِنسان تھے لیکن پھر بھی وہ ہر وہ کام نہیں کر سکتے تھے جو وہ کرنا چاہتے تھے۔ جب اُنہوں نے یہوواہ خدا کو اپنے احساسات کے بارے میں بتایا تو یہوواہ نے اُن سے کہا: ”آپ کی کمزوری میں میری طاقت زیادہ کارآمد ثابت ہوتی ہے۔“ پولُس یہوواہ کی اِس بات کا مطلب سمجھتے تھے۔ اِسی لیے اُنہوں نے کہا: ”جب مَیں کمزور ہوتا ہوں تب مَیں طاقتور ہوتا ہوں۔“ (2-کُرنتھیوں 12:7-10) اِس بات سے پولُس کی کیا مُراد تھی؟
9 پولُس اِس بات کو سمجھتے تھے کہ اُن کی طاقت محدود ہے اور وہ اِس سے باہر جا کر کوئی کام نہیں کر سکتے۔ اُنہیں کسی ایسی ہستی کی مدد کی ضرورت تھی جو اُن سے کہیں زیادہ طاقت کی مالک ہو۔ خدا کی پاک روح پولُس کو کمزوری میں طاقت بخش سکتی تھی۔ اِس کے علاوہ خدا کی پاک روح کی طاقت سے پولُس وہ کام بھی کر سکتے تھے جو وہ اپنی طاقت سے نہیں کر سکتے تھے۔ یہی بات ہمارے بارے میں بھی سچ ہے۔ جب یہوواہ ہمیں اپنی پاک روح دیتا ہے تو ہم مضبوط بن جاتے ہیں۔
10. یہوواہ خدا نے مشکلات کا سامنا کرنے میں داؤد کی مدد کیسے کی؟
10 زبورنویس داؤد نے کئی بار اِس بات کا تجربہ کِیا کہ خدا کی پاک روح نے اُنہیں مضبوط بنایا۔ اُنہوں نے ایک گیت گایا جس میں یہ بول شامل تھے: ”تیری بدولت مَیں فوج پر دھاوا کرتا ہوں اور اپنے خدا کی بدولت دیوار پھاند جاتا ہوں۔“ (زبور 18:29) جس طرح ہمارے لیے ایک اُونچی دیوار کو پھاندنا ناممکن ہوتا ہے اُسی طرح ہمارے لیے اپنے بلبوتے پر زندگی کی کچھ بڑی مشکلات کا سامنا کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ہمیں یہوواہ کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔
11. پاک روح مشکلات کا مقابلہ کرنے میں ہماری مدد کیسے کرتی ہے؟
11 یسعیاہ 40:31 کو پڑھیں۔ عقاب اپنی طاقت سے ہوا میں دیر تک نہیں اُڑتے رہتے۔ دراصل اُوپر اُٹھنے والی گرم ہوا عقاب کو اُوپر کی طرف دھکیلتی ہے۔ یوں عقاب دُور دُور تک اُڑنے کے قابل ہوتے ہیں اور اُن کی توانائی بھی بچ جاتی ہے۔ لہٰذا جب آپ کسی بڑی مشکل سے دوچار ہوں تو عقاب کے بارے میں سوچیں۔ یہوواہ سے اِلتجا کریں کہ وہ آپ کو ”مددگار یعنی پاک روح“ کے ذریعے طاقت دے۔ (یوحنا 14:26) ہم دن کے کسی بھی پہر یہوواہ سے پاک روح مانگ سکتے ہیں۔ ہمیں خاص طور پر اُس وقت یہوواہ سے مدد مانگنے کی ضرورت ہے جب ہمارا کلیسیا کے کسی بھائی یا بہن سے کوئی اِختلاف ہو جاتا ہے۔ لیکن ایسے اِختلافات ہوتے کیوں ہیں؟
12، 13. (الف) کبھی کبھار مسیحیوں میں اِختلافات کیوں پیدا ہو جاتے ہیں؟ (ب) یوسف پر جو کچھ گزرا، اُس سے ہم یہوواہ کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟
12 ہم میں اِختلافات اِس لیے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ہم سب عیبدار ہیں۔ کبھی کبھار ہم دوسروں کی کسی بات یا کام کی وجہ سے غصے میں آ سکتے ہیں یا کبھی دوسرے ہماری کسی بات یا کام کی وجہ سے ناراض ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہمیں یہ ثابت کرنے کا موقع ملتا ہے کہ ہم یہوواہ کے وفادار ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ صلح صفائی سے کیسے رہ سکتے ہیں۔ یہوواہ ہمارے بہن بھائیوں کی خامیوں کے باوجود اُن سے پیار کرتا ہے اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔
13 یہوواہ اپنے بندوں پر آزمائشیں آنے سے نہیں روکتا۔ یہ بات یوسف کی مثال سے واضح ہوتی ہے۔ جب یوسف نوجوان تھے تو اُن کے سوتیلے بھائی اُن سے جلتے تھے۔ اُنہوں نے یوسف کو تاجروں کے ہاتھ غلام کے طور پر بیچ دیا اور وہ اُنہیں مصر لے گئے۔ (پیدایش 37:28) یہوواہ خدا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور بِلاشُبہ اُسے اِس بات سے بہت دُکھ ہوا ہوگا کہ اُس کے وفادار بندے اور دوست یوسف کے ساتھ اِتنا بُرا سلوک ہوا ہے۔ لیکن پھر بھی یہوواہ نے یہ سب کچھ ہونے دیا۔ بعد میں یوسف پر فوطیفار کی بیوی کی عزت لوٹنے کا اِلزام لگایا گیا اور اُنہیں قید میں ڈال دیا گیا۔ اُس وقت بھی یہوواہ نے یوسف کو بچانے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔ لیکن کیا اِس سارے عرصے کے دوران یہوواہ نے کبھی یوسف کا ساتھ چھوڑا؟ جی نہیں۔ بائبل میں بتایا گیا ہے: ”[یہوواہ] اُس کے ساتھ تھا اور جو کچھ وہ کرتا [یہوواہ] اُس میں اِقبالمندی بخشتا تھا۔“—پیدایش 39:21-23۔
14. دل میں غصہ نہ رکھنے کی کون سی وجوہات ہیں؟
14 ذرا داؤد کی مثال پر بھی غور کریں۔ بہت ہی کم لوگوں کے ساتھ اِتنا بُرا سلوک ہوا ہے جتنا بُرا داؤد کے ساتھ ہوا تھا۔ لیکن پھر بھی خدا کے دوست داؤد نے غصے کو اپنے دل میں پلنے نہیں دیا۔ اُنہوں نے لکھا: ”قہر سے باز آ اور غضب کو چھوڑ دے۔ بیزار نہ ہو۔ اِس سے بُرائی ہی نکلتی ہے۔“ (زبور 37:8) ”قہر سے باز“ آنے یعنی دل میں غصہ نہ رکھنے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہم یہوواہ کی مثال پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ خدا نے ”ہمارے گُناہوں کے موافق ہم سے سلوک نہیں کِیا“ بلکہ ہمیں معاف کر دیا ہے۔ (زبور 103:10) غصے کو دل سے نکالنے کی اَور بھی بہت سی وجوہات ہیں۔ مثال کے طور پر غصے کی وجہ سے ایک شخص کا بلڈپریشر بڑھ سکتا ہے اور اُسے سانس کی بیماری ہو سکتی ہے۔ اِس سے جگر اور لبلبے کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور یہ معدے کے مسائل کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ جب ہم غصے میں ہوتے ہیں تو اکثر ہم صحیح طرح سے سوچ نہیں پاتے۔ ہو سکتا ہے کہ غصے میں ہم کوئی ایسی بات یا کام کر دیں جس سے دوسروں کو ٹھیس پہنچے اور پھر ہمیں کافی دیر تک اِس کا پچھتاوا رہے۔ لہٰذا یہ بہت اہم ہے کہ ہم خود کو ٹھنڈا رکھیں اور پُرسکون رہیں۔ بائبل میں لکھا ہے: ”پُرسکون دل جسم کو زندگی دِلاتا . . . ہے۔“ (امثال 14:30، اُردو جیو ورشن) لہٰذا جب کوئی بہن یا بھائی ہمارا دل دُکھاتا ہے تو ہم اپنے جذبات کو قابو میں کیسے رکھ سکتے ہیں اور اُس بہن یا بھائی سے صلح کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ ہم بائبل میں درج مفید مشوروں پر عمل کر سکتے ہیں۔
کیا کسی ہمایمان نے آپ کا دل دُکھایا ہے؟
15، 16. اگر ہمارا کوئی ہمایمان ہمارا دل دُکھاتا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
15 اِفسیوں 4:26 کو پڑھیں۔ جب دُنیا کے لوگ ہمارے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں تو ہم حیران نہیں ہوتے۔ مگر جب ہمارا کوئی مسیحی بہن بھائی یا ہمارے گھر کا کوئی فرد کوئی ایسی بات یا کام کر دیتا ہے جس سے ہمیں ٹھیس پہنچتی ہے تو شاید ہم اندر سے ٹوٹ جائیں۔ اگر ہمارے ذہن سے یہ بات نہیں نکلتی کہ اُس شخص نے کس طرح ہمارا دل دُکھایا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ کیا ہم اُس شخص کے لیے سالوں تک دل میں خفگی بسائے رکھیں گے؟ یا کیا ہم بائبل میں درج ہدایت پر عمل کرتے ہوئے جلد از جلد اِختلاف کو دُور کرنے کی کوشش کریں گے؟ ہم معاملے کو جتنا زیادہ لٹکائے رکھیں گے، ہمارے لیے اُس شخص سے صلح کرنا اُتنا زیادہ مشکل ہوتا جائے گا۔
16 اگر آپ کا کوئی ہمایمان کچھ ایسا کرتا ہے جس سے آپ کے دل کو چوٹ پہنچتی ہے اور آپ اِس بات کو بھول نہیں پاتے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ آپ اُس کے ساتھ صلح کرنے کے لیے کون سے اِقدام اُٹھا سکتے ہیں؟ سب سے پہلے تو یہوواہ سے دُعا کریں۔ اور دُعا میں اپنے ہمایمان کے ساتھ خوشگوار باتچیت کرنے کے سلسلے میں اُس سے مدد مانگیں۔ یاد رکھیں کہ آپ کا ہمایمان بھی یہوواہ کا ایک دوست ہے اور یہوواہ اُس سے پیار کرتا ہے۔ (زبور 25:14) وہ اپنے دوستوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتا ہے اور چاہتا ہے کہ آپ بھی ایسا ہی کریں۔ (امثال 15:23؛ متی 7:12؛ کُلسّیوں 4:6) دُعا کرنے کے علاوہ پہلے سے سوچیں کہ آپ اپنے ہمایمان سے کیا کہیں گے۔ یہ نہ سوچیں کہ اُس نے جان بُوجھ کر آپ کا دل دُکھایا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو غلطفہمی ہو گئی تھی۔ یہ تسلیم کرنے سے بھی نہ ہچکچائیں کہ جو کچھ ہوا ہے، اُس میں آپ کا بھی قصور ہو سکتا ہے۔ جب آپ اُس سے بات کرتے ہیں تو شروع میں آپ کچھ یوں کہہ سکتے ہیں: ”شاید مَیں نے آپ کی بات کو بہت جلدی دل پر لے لیا تھا۔ مگر کل جب آپ نے مجھ سے بات کی تو مجھے لگا کہ . . .۔“ لیکن اگر آپ اُس سے بات کر کے مسئلے کو سلجھا نہیں پاتے تو ہمت نہ ہاریں بلکہ کوشش کرتے رہیں۔ اُس کے لیے دُعا کریں۔ یہوواہ سے درخواست کریں کہ وہ اُسے برکت دے اور اُس کی خوبیوں پر دھیان دینے میں آپ کی مدد کرے۔ آپ یقین رکھ سکتے ہیں کہ اگر آپ اپنے ہمایمان کے ساتھ جو یہوواہ کا دوست ہے، خلوصِدل سے صلح کرنے کی کوشش کریں گے تو یہوواہ آپ سے ضرور خوش ہوگا۔
کیا آپ اپنے ماضی کی وجہ سے شرمندگی کے بوجھ تلے دبے ہیں؟
17. (الف) جب ہم گُناہ کرتے ہیں تو یہوواہ اُس دراڑ کو بھرنے میں ہماری مدد کیسے کر سکتا ہے جو اُس کے ساتھ ہماری دوستی میں آ جاتی ہے؟ (ب) ہمیں یہوواہ کی طرف سے ملنے والی مدد کو کیوں قبول کرنا چاہیے؟
17 کچھ لوگ اِس لیے خود کو یہوواہ کی خدمت کرنے کے لائق نہیں سمجھتے کیونکہ اُنہوں نے ماضی میں کوئی سنگین گُناہ کِیا ہوتا ہے۔ گُناہ پر زبور 32:3-5) اگر آپ نے کوئی سنگین گُناہ کِیا ہے تو یہوواہ آپ کو معاف کرنے کے لیے تیار ہے۔ وہ آپ کی مدد کرنا چاہتا ہے تاکہ آپ اُس دراڑ کو بھر سکیں جو آپ کے اور اُس کے رشتے میں آئی ہے۔ لیکن اِس سلسلے میں آپ کو اُس مدد کو قبول کرنا ہوگا جو وہ بزرگوں کے ذریعے فراہم کرتا ہے۔ (امثال 24:16؛ یعقوب 5:13-15) اِس معاملے میں دیر نہ کریں کیونکہ ایسا کرنے سے آپ کی ہمیشہ کی زندگی داؤ پر لگ سکتی ہے۔ لیکن اگر گُناہ کی معافی حاصل کرنے کے لمبے عرصے بعد بھی آپ شرمندگی کے بوجھ سے نکل نہیں پاتے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟
شرمندگی کا بوجھ ہم سے ہمارا سکون، خوشی اور طاقت چھین سکتا ہے۔ بادشاہ داؤد اپنے گُناہوں پر بہت شرمندہ تھے۔ اُنہوں نے کہا: ”جب مَیں خاموش رہا تو دن بھر کے کراہنے سے میری ہڈیاں گھل گئیں۔ کیونکہ تیرا ہاتھ رات دن مجھ پر بھاری تھا۔“ لیکن داؤد نے ہمت دِکھائی اور وہ کام کِیا جو یہوواہ اپنے بندوں سے چاہتا ہے۔ اُنہوں نے لکھا: ”مَیں نے تیرے حضور اپنے گُناہ کو مان لیا اور اپنی بدکاری کو نہ چھپایا۔“ (18. پولُس کی مثال سے اُن لوگوں کو حوصلہ کیسے مل سکتا ہے جو خود کو یہوواہ کی خدمت کرنے کے لائق نہیں سمجھتے؟
18 پولُس رسول کبھی کبھار اپنے اُن گُناہوں کے بارے میں سوچ کر بےحوصلہ ہو جاتے تھے جو اُنہوں نے ماضی میں کیے تھے۔ اُنہوں نے کہا: ”میرا مرتبہ تمام رسولوں میں سب سے چھوٹا ہے اور مَیں اِس لائق نہیں کہ مجھے رسول کہا جائے کیونکہ مَیں خدا کی کلیسیا کو اذیت پہنچاتا تھا۔“ لیکن پولُس نے یہ بھی کہا: ”خدا کی عظیم رحمت کی بِنا پر مجھے رسول کا مرتبہ ملا۔“ (1-کُرنتھیوں 15:9، 10) یہوواہ جانتا تھا کہ پولُس عیبدار ہیں۔ اُس نے پولُس کی خامیوں کے باوجود اُن کو قبول کِیا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ پولُس اِس بات پر یقین رکھیں۔ اگر آپ نے بھی اپنے گُناہ پر دل سے توبہ کر لی ہے، یہوواہ سے معافی مانگ لی ہے اور اگر ضروری تھا تو بزرگوں سے بات بھی کر لی ہے تو یہوواہ آپ پر ضرور رحم کرے گا۔ لہٰذا اِس بات پر پورا یقین رکھیں کہ یہوواہ نے آپ کو معاف کر دیا ہے۔—یسعیاہ 55:6، 7۔
19. سن 2018ء کی سالانہ آیت کیا ہے اور یہ اِتنی موزوں کیوں ہے؟
19 جیسے جیسے اِس بُری دُنیا کا خاتمہ نزدیک آ رہا ہے، ہمیں یہ توقع رکھنی چاہیے کہ ہمیں اَور زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ یہوواہ جو ”تھکے ہوئے کو زور بخشتا ہے اور ناتوان کی توانائی کو زیادہ کرتا ہے،“ وہ ہمیں بھی ہر طرح سے مدد فراہم کر سکتا ہے تاکہ ہم وفاداری سے اُس کی خدمت کرتے رہیں۔ (یسعیاہ 40:29؛ زبور 55:22؛ 68:19) یہ بات 2018ء کے دوران ہمیں بار بار یاد آئے گی جب ہم اپنے کنگڈم ہال میں جائیں گے اور سالانہ آیت کے یہ الفاظ دیکھیں گے: ”[یہوواہ] کا اِنتظار کرنے والے ازسرِنو زور حاصل کریں گے۔“—یسعیاہ 40:31۔