مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 4

ایک اہم ہستی کی یاد میں ایک سادہ سی تقریب

ایک اہم ہستی کی یاد میں ایک سادہ سی تقریب

‏”‏یہ میرے جسم کی طرف اِشارہ کرتی ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ یہ میرے ”‏عہد کے خون“‏ کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔‏“‏‏—‏متی 26:‏26-‏28‏۔‏

گیت نمبر 14‏:‏ یہوواہ خدا ہر چیز کو نیا بنا دے گا

مضمون پر ایک نظر *

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ یہ تعجب کی بات کیوں نہیں ہے کہ یسوع نے اپنے پیروکاروں کو اپنی موت کی یادگار منانے کا بڑا سادہ سا طریقہ بتایا ہے؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم یسوع کی کن خوبیوں پر بات کریں گے؟‏

اگر آپ سے پوچھا جائے کہ مسیح کی سالانہ یادگاری تقریب میں کیا ہوتا ہے تو آپ کیا کہیں گے؟‏ بےشک ہم میں سے زیادہ‌تر کو اچھی طرح یاد ہے کہ یہ تقریب کیسے منائی جاتی ہے۔‏ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تقریب بڑی سادہ سی ہے۔‏ مگر شاید ہم سوچیں کہ اِتنی خاص تقریب کو اِتنے سادہ طریقے سے کیوں منایا جاتا ہے۔‏

2 زمین پر اپنی خدمت کے دوران یسوع اِس بات کے لیے مشہور تھے کہ وہ اہم باتوں کو بڑے سادہ،‏ واضح اور آسان طریقے سے سمجھاتے تھے۔‏ (‏متی 7:‏28،‏ 29‏)‏ اِسی طرح اُنہوں نے ہمیں اپنی موت کی یادگار * منانے کا جو طریقہ بتایا ہے،‏ وہ بھی بہت سادہ ہے۔‏ لیکن اِس کے پیچھے بڑی گہری سوچ پائی جاتی ہے۔‏ آئیں،‏ یادگاری تقریب کو منانے کے طریقے پر گہرائی سے غور کریں اور دیکھیں کہ یسوع نے اپنی موت سے پہلے جو کچھ کہا اور کِیا،‏ اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں۔‏ یوں ہم اِس بات کو بہتر طور پر سمجھ پائیں گے کہ یسوع کتنی خاکسار،‏ دلیر اور محبت کرنے والی ہستی ہیں اور ہم اُن کی مثال پر اَور اچھی طرح کیسے عمل کر سکتے ہیں۔‏

یسوع کی خاکساری

یادگاری تقریب میں اِستعمال ہونے والی روٹی اور مے ہمیں یہ یاد دِلاتی ہیں کہ یسوع نے ہمارے لیے اپنی جان قربان کی ہے اور اب وہ آسمان پر ہمارے بادشاہ ہیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 3-‏5 کو دیکھیں۔‏)‏

3.‏ متی 26:‏26-‏28 کے مطابق یسوع مسیح نے جو یادگاری تقریب رائج کی،‏ وہ کتنی سادہ تھی اور اِس میں اِستعمال ہونے والی دو چیزیں کن کی طرف اِشارہ کرتی ہیں؟‏

3 یسوع مسیح نے اپنے 11 وفادار رسولوں کی موجودگی میں اپنی موت کی یادگاری تقریب رائج کی۔‏ اِس کے لیے اُنہوں نے عیدِفسح سے بچی ہوئی کچھ چیزیں لیں اور یہ سادہ سی تقریب منائی۔‏ ‏(‏متی 26:‏26-‏28 کو پڑھیں۔‏)‏ اُنہوں نے بےخمیری روٹی اور مے اِستعمال کی جو کہ اُس موقعے پر پہلے سے موجود تھیں۔‏ یسوع نے اپنے رسولوں سے کہا کہ بےخمیری روٹی اُن کے جسم کی طرف اِشارہ کرتی ہے جسے بہت جلد اُن کی خاطر قربان کِیا جانا تھا جبکہ مے اُن کے خون کی طرف اِشارہ کرتی ہے جسے اُن کی خاطر بہایا جانا تھا۔‏ غالباً رسولوں کو اِس بات پر حیرانی نہیں ہوئی ہوگی کہ یہ تقریب اِتنی سادہ تھی۔‏ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏

4.‏ یسوع نے مارتھا کی اِصلاح کرنے کے لیے کیا کہا اور اُنہوں نے یادگاری تقریب کے دوران خود اپنی کہی ہوئی بات پر کیسے عمل کِیا؟‏

4 ذرا اِس موقعے سے کچھ عرصہ پہلے ہونے والے ایک واقعے پر غور کریں۔‏ یہ یسوع کے دَورِخدمت کا تیسرا سال تھا جب وہ اپنے قریبی دوستوں لعزر،‏ مارتھا اور مریم کے گھر گئے۔‏ اُس پُرسکون ماحول میں یسوع نے وہاں موجود لوگوں کو تعلیم دینی شروع کی۔‏ مارتھا بھی وہاں تھیں لیکن اُن کا دھیان اپنے خاص مہمان کے لیے پُرتکلف کھانے تیار کرنے کی وجہ سے بٹا ہوا تھا۔‏ جب یسوع نے یہ دیکھا تو اُنہوں نے بڑی شفقت سے مارتھا کی اِصلاح کی اور اُنہیں سمجھایا کہ ہمیشہ طرح طرح کے کھانے تیار کرنا ضروری نہیں ہوتا۔‏ (‏لُو 10:‏40-‏42‏)‏ بعد میں جب یسوع کی موت کو کچھ ہی گھنٹے رہ گئے تھے تو یسوع نے خود اپنی دی ہوئی ہدایت پر عمل کِیا۔‏ اُنہوں نے یادگاری تقریب میں اِستعمال ہونے والے کھانے کو بالکل سادہ رکھا۔‏ اِس سے ہمیں یسوع کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟‏

5.‏ یسوع نے جس سادہ طریقے سے اپنی موت کی یادگاری تقریب رائج کی،‏ اُس سے اُن کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے اور یہ بات فِلپّیوں 2:‏5-‏8 سے کیسے میل کھاتی ہے؟‏

5 یسوع نے جو کچھ بھی کہا یا کِیا،‏ اُس سے اُن کی خاکساری جھلکتی ہے۔‏ لہٰذا اِس میں حیرانی کی بات نہیں کہ جب وہ زمین پر اپنی آخری رات گزار رہے تھے تو تب بھی اُنہوں نے خاکساری کا مظاہرہ کِیا۔‏ (‏متی 11:‏29‏)‏ وہ جانتے تھے کہ وہ اِنسانی تاریخ کی سب سے بڑی قربانی چڑھانے والے ہیں اور یہوواہ اُنہیں زندہ کر کے آسمان پر ایک شان‌دار رُتبہ دے گا۔‏ لیکن پھر بھی اُنہوں نے اپنی موت کی یادگار منانے کے لیے کوئی عالیشان تقریب رائج نہیں کی۔‏ دراصل وہ اپنی طرف حد سے زیادہ توجہ نہیں دِلانا چاہتے تھے۔‏ اُنہوں نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ وہ ہر سال اِس سادہ سے کھانے کے ذریعے اُن کی یادگار منائیں۔‏ (‏یوح 13:‏15؛‏ 1-‏کُر 11:‏23-‏25‏)‏ اِس سادہ مگر مناسب کھانے سے یہ ظاہر ہوا کہ یسوع بالکل بھی مغرور نہیں تھے۔‏ یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ ہمارا آسمانی بادشاہ اِتنا خاکسار ہے!‏‏—‏فِلپّیوں 2:‏5-‏8 کو پڑھیں۔‏

6.‏ مشکلات کا سامنا کرتے وقت ہم یسوع جیسی خاکساری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

6 ہم خاکساری کے حوالے سے یسوع کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏ ہم دوسروں کے فائدے کو اپنے فائدے پر ترجیح دے سکتے ہیں۔‏ (‏فل 2:‏3،‏ 4‏)‏ ذرا پھر سے زمین پر یسوع کی آخری رات کے بارے میں سوچیں۔‏ یسوع جانتے تھے کہ کچھ ہی گھنٹے بعد اُنہیں ایک دردناک موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔‏ لیکن اُنہیں اپنے وفادار رسولوں کی بڑی فکر تھی جو کہ جلد اُن کی موت کا صدمہ جھیلنے والے تھے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے وہ رات اپنے رسولوں کو ہدایات دینے،‏ اُن کا حوصلہ بڑھانے اور اُنہیں اپنی مدد کا یقین دِلانے میں گزاری۔‏ (‏یوح 14:‏25-‏31‏)‏ یسوع نے خاکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ذات سے زیادہ دوسروں کے بھلے کا سوچا۔‏ ایسا کرنے سے اُنہوں نے واقعی بہت شان‌دار مثال قائم کی۔‏

یسوع کی دلیری

7.‏ یادگاری تقریب رائج کرنے کے تھوڑی دیر بعد یسوع نے زبردست دلیری کیسے دِکھائی؟‏

7 یادگاری تقریب رائج کرنے کے تھوڑی دیر بعد یسوع نے زبردست دلیری دِکھائی۔‏ وہ اپنے باپ کی مرضی کو پورا کرنے کے لیے تیار تھے حالانکہ اُنہیں پتہ تھا کہ ایسا کرنے کی وجہ سے اُن پر کفر کا گھٹیا اِلزام لگا کر اُنہیں موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے گا۔‏ (‏متی 26:‏65،‏ 66؛‏ لُو 22:‏41،‏ 42‏)‏ پوری طرح سے اپنی وفاداری پر قائم رہنے سے یسوع نے اپنے باپ کی بڑائی کی،‏ اُس کی حکمرانی کی حمایت کی اور توبہ کرنے والے اِنسانوں کے لیے ہمیشہ کی زندگی کی راہ کھول دی۔‏ ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے اپنے پیروکاروں کو آنے والے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار بھی کِیا۔‏

8.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع نے اپنے وفادار رسولوں سے کیا کہا؟‏ (‏ب)‏ یسوع کی موت کے بعد اُن کے شاگردوں نے دلیری کے سلسلے میں اُن کی مثال پر کیسے عمل کِیا؟‏

8 یسوع نے ایک اَور طریقے سے بھی دلیری ظاہر کی۔‏ اُنہوں نے اپنی پریشانیوں سے دھیان ہٹا کر اِس بات پر توجہ دی کہ اُن کے وفادار رسولوں کو کس چیز کی ضرورت ہے۔‏ جن لوگوں نے یسوع کے مسح‌شُدہ پیروکار بننا تھا،‏ اُنہیں یسوع کی رائج‌کردہ سادہ سی تقریب کے ذریعے یہ یاد آنا تھا کہ یسوع کے بہائے ہوئے خون سے اور اُن کے ساتھ نئے عہد میں شامل ہونے سے اُنہیں کون سے فائدے ہوتے ہیں۔‏ (‏1-‏کُر 10:‏16،‏ 17‏)‏ یسوع چاہتے تھے کہ اُن کے پیروکار مرتے دم تک اپنی وفاداری پر قائم رہیں اور خود کو اُن کے ساتھ حکمرانی کرنے کے لائق ثابت کریں۔‏ اِس لیے اُنہوں نے رسولوں کو بتایا کہ وہ اور اُن کا باپ اُن سے کیا چاہتا ہے۔‏ (‏یوح 15:‏12-‏15‏)‏ یسوع نے اُنہیں اُن مشکلات سے بھی آگاہ کِیا جو اُن کی راہ میں آنے والی تھیں۔‏ پھر یسوع نے اپنی مثال پر توجہ دِلاتے ہوئے اُن سے کہا:‏ ”‏حوصلہ رکھیں۔‏“‏ (‏یوح 16:‏1-‏4،‏ 33‏)‏ بہت سال بعد بھی یسوع کے شاگرد خودایثاری کے سلسلے میں اُن کی مثال پر عمل کر رہے تھے اور دلیری دِکھا رہے تھے۔‏ اُنہوں نے تکلیفوں کی پرواہ کیے بغیر مشکلات میں ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا۔‏—‏عبر 10:‏33،‏ 34‏۔‏

9.‏ ہم دلیری کے سلسلے میں یسوع کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

9 آج ہم بھی دلیری کے سلسلے میں یسوع کی مثال پر عمل کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ہم دلیری سے اپنے اُن بہن بھائیوں کا ساتھ نبھاتے ہیں جنہیں اُن کے ایمان کی وجہ سے اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ کبھی کبھار ہمارے بہن بھائیوں کو خدا کے اصولوں پر قائم رہنے کی وجہ سے قید میں ڈال دیا جاتا ہے۔‏ ایسی صورت میں جو بھی ممکن ہو،‏ ہمیں اُن کے لیے کرنا چاہیے۔‏ اور اِس میں یہ شامل ہے کہ ہم اُن کے دِفاع کے لیے بولیں۔‏ (‏فل 1:‏14؛‏ عبر 13:‏19‏)‏ اِس کے علاوہ ہم ”‏دلیری سے“‏ مُنادی کا کام کرتے رہتے ہیں۔‏ (‏اعما 14:‏3‏)‏ یسوع کی طرح ہمارا بھی یہ عزم ہے کہ ہم بادشاہت کے پیغام کی مُنادی کرتے رہیں گے پھر چاہے لوگ ہماری مخالفت کریں یا ہمیں اذیت دیں۔‏ لیکن کبھی کبھار ہمیں لگ سکتا ہے کہ ہم میں دلیری کی کمی ہے۔‏ اگر ایسا ہو تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

10.‏ یادگاری تقریب سے پہلے والے چند ہفتوں کے دوران ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیوں؟‏

10 اپنی دلیری کو بڑھانے کے لیے ہم اُس اُمید پر سوچ بچار کر سکتے ہیں جو ہم یسوع کے دیے فدیے کی بدولت رکھتے ہیں۔‏ (‏یوح 3:‏16؛‏ اِفس 1:‏7‏)‏ یادگاری تقریب سے پہلے والے چند ہفتوں میں ہمارے پاس فدیے کے لیے اپنی قدر بڑھانے کا خاص موقع ہوتا ہے۔‏ اُس وقت کے دوران ہمیں یادگاری تقریب کے حوالے سے دی جانے والی آیتوں کو پڑھنا چاہیے اور یسوع کی موت سے پہلے اور بعد میں ہونے والے واقعات پر سوچ بچار کرنی چاہیے۔‏ پھر جب ہم یادگاری تقریب کے لیے جمع ہوں گے تو ہم اُس بےمثال قربانی کی اہمیت کو سمجھ پائیں گے جس کی طرف روٹی اور مے اِشارہ کرتی ہیں۔‏ جب ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہوواہ اور یسوع نے ہمارے لیے جو کچھ کِیا ہے،‏ اُس سے ہمیں اور ہمارے عزیزوں کو کتنا فائدہ ہو سکتا ہے تو ہماری اُمید اَور پکی ہوتی ہے اور ہمیں آخر تک دلیری ظاہر کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔‏—‏عبر 12:‏3‏۔‏

11،‏ 12.‏ ہم نے اب تک کیا سیکھا ہے؟‏

11 اب تک ہم نے سیکھا ہے کہ یادگاری تقریب ہمیں نہ صرف یہ یاد دِلاتی ہے کہ فدیہ کتنا بیش‌قیمت تحفہ ہے بلکہ یہ بھی کہ یسوع نے کتنے عمدہ طریقے سے خاکساری اور دلیری کا مظاہرہ کِیا۔‏ ہم اِس بات کے لیے بڑے شکرگزار ہیں کہ یسوع اب بھی ہمارے کاہنِ‌اعظم کے طور پر یہ خوبیاں ظاہر کرتے ہیں اور ہمارے لیے اِلتجائیں کرتے ہیں۔‏ (‏عبر 7:‏24،‏ 25‏)‏ اپنی شکرگزاری کو ظاہر کرنے کے لیے ہمیں اُن کے حکم کے مطابق یادگاری تقریب منانی چاہیے۔‏ (‏لُو 22:‏19،‏ 20‏)‏ ہم ایسا اُس دن کرتے ہیں جب یہودی مہینے نیسان کی 14 تاریخ آتی ہے۔‏ بےشک یہ سال کا سب سے اہم دن ہوتا ہے۔‏

12 اِس بات پر غور کرنے سے کہ یادگاری تقریب کتنی سادہ ہوتی ہے،‏ ہمیں یسوع کی ایک اَور خوبی بھی پتہ چلتی ہے جس نے اُنہیں ہمارے لیے جان قربان کرنے کی ترغیب دی۔‏ دراصل جب یسوع زمین پر تھے تو وہ اِس خوبی کے لیے مشہور تھے۔‏ یہ کون سی خوبی تھی؟‏

یسوع کی محبت

13.‏ ‏(‏الف)‏ یوحنا 15:‏9 اور 1-‏یوحنا 4:‏8-‏10 میں اُس محبت کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے جو یہوواہ اور یسوع نے ظاہر کی ہے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ اور یسوع نے جو محبت ظاہر کی ہے،‏ اُس سے کون فائدہ حاصل کر سکتے ہیں؟‏

13 یسوع مسیح نے اپنے ہر کام سے یہ ثابت کِیا کہ وہ اپنے باپ یہوواہ کی طرح ہم سے گہری محبت رکھتے ہیں۔‏ ‏(‏یوحنا 15:‏9؛‏ 1-‏یوحنا 4:‏8-‏10 کو پڑھیں۔‏)‏ اُن کی محبت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اُنہوں نے خوشی خوشی ہمارے لیے اپنی جان قربان کر دی۔‏ چاہے ہم مسح‌شُدہ مسیحی ہوں یا چاہے ہمارا تعلق ’‏اَور بھی بھیڑوں‘‏ سے ہو،‏ ہم اُس قربانی سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں جس کے ذریعے یہوواہ اور یسوع نے ہمارے لیے محبت ظاہر کی ہے۔‏ (‏یوح 10:‏16؛‏ 1-‏یوح 2:‏2‏)‏ یسوع نے اپنے پیروکاروں کو جس طریقے سے یادگاری تقریب منانے کا حکم دیا،‏ اُس سے بھی اُن کی محبت اور فکرمندی ظاہر ہوتی ہے۔‏ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏

یسوع نے محبت ظاہر کرتے ہوئے اِتنے سادہ طریقے سے یادگاری تقریب منانے کا حکم دیا کہ اُن کے پیروکار مختلف وقتوں اور فرق فرق صورتحال میں اِس تقریب کو منا پائے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 14-‏16 کو دیکھیں۔‏)‏ *

14.‏ یسوع نے اپنے پیروکاروں کے لیے محبت کیسے ظاہر کی؟‏

14 یسوع مسیح نے اپنے مسح‌شُدہ پیروکاروں کے لیے محبت ظاہر کرتے ہوئے اُنہیں کوئی عالیشان نہیں بلکہ سادہ سی تقریب منانے کا حکم دیا۔‏ جیسے جیسے وقت گزرا،‏ یسوع کے مسح‌شُدہ پیروکاروں کو ہر سال فرق فرق حالات،‏ یہاں تک کہ قید میں بھی یادگاری تقریب منانی تھی۔‏ (‏مکا 2:‏10‏)‏ کیا وہ یسوع کے حکم پر عمل کر پائے؟‏ بالکل۔‏

15،‏ 16.‏ کچھ بہن بھائی مشکل حالات میں بھی یادگاری تقریب منانے کے قابل کیسے ہوئے ہیں؟‏

15 پہلی صدی عیسوی سے لے کر آج تک سچے مسیحیوں نے یادگاری تقریب منانے کی پوری کوشش کی ہے۔‏ اُنہوں نے مشکل‌ترین حالات میں بھی جس حد تک ممکن تھا،‏ اُسی طریقے سے یادگاری تقریب منائی جس طریقے سے یسوع نے حکم دیا تھا۔‏ اِس حوالے سے کچھ مثالوں پر غور کریں۔‏ جب بھائی ہیرلڈ کنگ چین کی ایک جیل میں قیدِتنہائی کاٹ رہے تھے تو اُنہیں یہ سوچنا تھا کہ وہ یادگاری تقریب کیسے منائیں گے۔‏ اُنہوں نے خفیہ طریقے سے اپنے پاس موجود چیزوں کے ذریعے یادگاری تقریب کے لیے روٹی اور مے تیار کی۔‏ اِس کے علاوہ اُنہوں نے بہت سوچ بچار کر کے یادگاری تقریب کی تاریخ کا حساب لگایا۔‏ پھر جب تقریب والا دن آیا تو اُنہوں نے قیدخانے میں اکیلے ہی گیت گائے،‏ دُعا کی اور بائبل پر مبنی تقریر بھی کی۔‏

16 ذرا ایک اَور مثال پر غور کریں۔‏ دوسری عالمی جنگ کے دوران ایک قیدی کیمپ میں قید بہنوں نے یادگاری تقریب منانے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔‏ لیکن چونکہ اِس تقریب کو منانے کا طریقہ اِتنا سادہ ہوتا ہے اِس لیے وہ کسی کی نظروں میں آئے بغیر یہ تقریب منا پائیں۔‏ اُنہوں نے بتایا:‏ ”‏ہم ایک چھوٹے سٹول کے گِرد کھڑی ہو گئیں جس پر ایک سفید کپڑا بچھا ہوا تھا اور جس کے اُوپر روٹی اور مے رکھی ہوئی تھی۔‏ ہم نے کمرے میں ایک موم‌بتی جلائی ہوئی تھی کیونکہ اگر ہم بلب جلاتیں تو پکڑی جاتیں۔‏ ہم نے یہوواہ سے کیے اپنے اِس وعدے کو دُہرایا کہ ہم اُس کے نام کی بڑائی کے لیے جی جان لگا دیں گی۔‏“‏ اُن بہنوں نے کتنا مضبوط ایمان ظاہر کِیا!‏ واقعی یسوع نے بڑی محبت دِکھاتے ہوئے ایسے طریقے سے یادگاری تقریب منانے کا حکم دیا ہے کہ ہم مشکل سے مشکل حالات میں بھی اُن کے حکم پر عمل کر سکتے ہیں۔‏

17.‏ ہم خود سے کون سے سوال پوچھ سکتے ہیں؟‏

17 جوں‌جوں یادگاری تقریب نزدیک آتی ہے،‏ ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنے چاہئیں:‏ ”‏مَیں محبت ظاہر کرنے کے سلسلے میں یسوع کی مثال پر اَور اچھی طرح کیسے عمل کر سکتا ہوں؟‏ کیا مَیں خود سے زیادہ اپنے ہم‌ایمانوں کے فائدے کا سوچتا ہوں؟‏ کیا مَیں اپنے بہن بھائیوں سے ایسی توقعات رکھتا ہوں جن پر وہ پورے نہیں اُتر سکتے یا کیا مَیں اِس بات پر دھیان دیتا ہوں کہ کون سے کام اُن کے بس میں ہیں اور کون سے نہیں؟‏“‏ دُعا ہے کہ ہم ہمیشہ یسوع کی مثال پر عمل کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ ”‏ہمدردی سے پیش آئیں۔‏“‏—‏1-‏پطر 3:‏8‏۔‏

خاکساری،‏ دلیری اور محبت ظاہر کرتے رہیں

18،‏ 19.‏ ‏(‏الف)‏ ہم کس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ آپ نے کیا عزم کِیا ہے؟‏

18 ہم ہمیشہ تک یادگاری تقریب منانے کے حوالے سے یسوع کے حکم پر عمل نہیں کرتے رہیں گے۔‏ بہت جلد جب یسوع بڑی مصیبت کے دوران آئیں گے تو وہ اپنے باقی ”‏چُنے ہوئے لوگوں“‏ کو آسمان پر لے جائیں گے اور اِس کے بعد یادگاری تقریب نہیں منائی جائے گی۔‏—‏1-‏کُر 11:‏26؛‏ متی 24:‏31‏۔‏

19 ہم اِس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں کہ جب یادگاری تقریب کو منانے کا بندوبست ختم ہو جائے گا تو تب بھی یہوواہ کے بندے اِسے نہیں بھولیں گے۔‏ اُنہیں یہ یاد رہے گا کہ جس سادہ طریقے سے یسوع نے اِس تقریب کو منانے کا حکم دیا تھا،‏ وہ اُن کی خاکساری،‏ دلیری اور محبت کا بےمثال ثبوت تھا۔‏ جن لوگوں نے اِس خاص تقریب کو منایا ہوگا،‏ وہ اُس وقت دوسروں کو اِس کے بارے میں بتائیں گے تاکہ اُنہیں بھی فائدہ ہو۔‏ لیکن اب اِس تقریب سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں یہ عزم کرنا چاہیے کہ ہم یسوع جیسی خاکساری،‏ دلیری اور محبت ظاہر کرتے رہیں گے۔‏ ہم اِس بات پر پورا بھروسا رکھ سکتے ہیں کہ اگر ہم ایسا کریں گے تو یہوواہ ہمیں اِس کا اجر دے گا۔‏—‏2-‏پطر 1:‏10،‏ 11‏۔‏

گیت نمبر 5‏:‏ مسیح کی عمدہ مثال

^ پیراگراف 5 ہم جلد ہی یسوع مسیح کی موت کی یادگاری تقریب میں حاضر ہونے والے ہیں۔‏ اِس سادہ سی تقریب سے ہمیں یسوع کی خاکساری،‏ دلیری اور محبت کے بارے میں کافی کچھ پتہ چلتا ہے۔‏ اِس مضمون میں ہم سیکھیں گے کہ ہم اِن اہم خوبیوں کو ظاہر کرنے کے سلسلے میں یسوع کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 2 اِصطلاح کی وضاحت:‏ یادگار منانے کا مطلب ہے کہ کسی واقعے کی یاد میں یا کسی شخص کی یاد اور احترام میں کچھ خاص کِیا جائے۔‏

^ پیراگراف 56 تصویر کی وضاحت:‏ اِن تصویروں میں یہ منظرکشی کی گئی ہے کہ خدا کے بندے اِن مختلف وقتوں میں یادگاری تقریب منا رہے ہیں:‏ پہلی صدی عیسوی میں،‏ اُنیسویں صدی عیسوی میں،‏ نازیوں کے قیدی کیمپ میں اور آج جنوبی امریکہ کے گرم موسم والے ایک ملک میں بغیر دیواروں والے ایک سادہ سے کنگڈم ہال میں۔‏