مطالعے کا مضمون نمبر 1
”جو یہوواہ کی رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اُنہیں کسی اچھی چیز کی کمی نہیں ہوگی“
سن 2022ء کی سالانہ آیت: ”جو یہوواہ کی رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اُنہیں کسی اچھی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔“—زبور 34:10، ترجمہ نئی دُنیا۔
گیت نمبر 4: یہوواہ میرا چوپان ہے
مضمون پر ایک نظر *
1. داؤد کس مشکل سے گزر رہے تھے؟
داؤد اپنی جان بچانے کے لیے جگہ جگہ بھاگ رہے تھے۔ مگر کیوں؟ کیونکہ اِسرائیل کے بادشاہ ساؤل اُن کی جان لینے پر تلے ہوئے تھے۔ جب داؤد کو کھانے پینے کی چیزوں کی ضرورت تھی تو وہ شہر نوب رُکے اور اُنہوں نے اپنا اور اپنے ساتھیوں کا پیٹ بھرنے کے لیے صرف پانچ روٹیاں مانگیں۔ (1-سمو 21:1، 3) بعد میں داؤد اور اُن کے ساتھی ایک غار میں رہنے لگے۔ (1-سمو 22:1) لیکن داؤد ساؤل سے اپنی جان بچانے کے لیے کیوں بھاگ رہے تھے؟
2. ساؤل خود کو ایک بہت بڑے خطرے میں کیسے ڈال رہے تھے؟ (1-سموئیل 23:16، 17)
2 ساؤل داؤد سے جلتے تھے کیونکہ بہت سے لوگ داؤد کو پسند کرتے تھے اور اُن کی تعریف کرتے تھے کیونکہ داؤد نے بہت سی جنگیں جیتی تھیں۔ ساؤل جانتے تھے کہ یہوواہ نے اُنہیں اُن کی نافرمانی کی وجہ سے بادشاہ کے طور پر رد کر دیا ہے اور داؤد کو بادشاہ کے طور پر چُنا ہے۔ (1-سموئیل 23:16، 17 کو پڑھیں۔) لیکن چونکہ ساؤل ابھی بھی اِسرائیل کے بادشاہ تھے اِس لیے اُن کے پاس ایک بڑی فوج تھی اور بہت سے لوگ اُن کے حمایتی تھے۔ اِسی لیے داؤد کو اُن سے اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔ کیا ساؤل کو لگ رہا تھا کہ وہ خدا کو داؤد کو بادشاہ بنانے سے روک سکتے ہیں؟ (یسع 55:11) بائبل میں اِس بارے میں نہیں بتایا گیا۔ لیکن ہم ایک بات یقین سے کہہ سکتے ہیں۔ اور وہ یہ کہ ایسا کرنے سے ساؤل خود کو ایک بہت بڑے خطرے میں ڈال رہے تھے۔ جو لوگ خدا سے لڑنے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کی ہمیشہ ہار ہی ہوتی ہے۔
3. داؤد نے مشکلوں کے باوجود بھی کیسا محسوس کِیا؟
3 داؤد مرتبے کے پیچھے بھاگنے والے شخص نہیں تھے۔ اُنہوں نے خود یہ فیصلہ نہیں کِیا تھا کہ وہ اِسرائیل کے بادشاہ بنیں گے بلکہ یہوواہ نے اُنہیں بادشاہ کے طور پر مقرر کِیا تھا۔ (1-سمو 16:1، 12، 13) ساؤل داؤد سے اِتنی نفرت کرنے لگے تھے کہ وہ اُنہیں اپنا سب سے بڑا دُشمن سمجھتے تھے۔ لیکن داؤد کو ساؤل کی وجہ سے جن خطروں کا سامنا کرنا پڑا، اُس کے لیے اُنہوں نے یہوواہ پر اِلزام نہیں لگایا۔ اُنہوں نے یہ شکایت بھی نہیں کی کہ اُنہیں کھانے پینے کی تنگی ہو گئی ہے اور پناہ لینے کے لیے ایک غار میں چھپنا پڑ رہا ہے۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے تو شاید غار میں چھپ کر ہی یہوواہ کی تعریف میں وہ خوبصورت گیت لکھا جس کے کچھ الفاظ ہماری مرکزی آیت میں ہیں: ”جو یہوواہ کی رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اُنہیں کسی اچھی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔“—زبور 34:10، ترجمہ نئی دُنیا۔
4. ہم کن سوالوں پر غور کریں گے اور اِن سوالوں پر غور کرنا اِتنا ضروری کیوں ہے؟
4 آج بھی یہوواہ کے بہت سے بندوں کے پاس کبھی کبھار اِتنا کھانا نہیں ہوتا کہ وہ اپنا پیٹ بھر سکیں یا اُن کے پاس ایسی چیزیں نہیں ہوتیں جو زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں۔ * خاص طور پر کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے خدا کے بہت سے بندوں کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور بہت جلد ”بڑی مصیبت“ کے دوران تو ہمیں اَور بھی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ (متی 24:21) اِن باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے آئیں، اِن چار سوالوں کے جوابوں پر غور کریں: داؤد کو کس لحاظ سے ”کسی اچھی چیز کی کمی نہیں“ تھی؟ ہمیں یہ کیوں سیکھنا چاہیے کہ ہم اُنہی چیزوں پر مطمئن رہیں جو ہمارے پاس ہیں؟ ہم اِس بات پر پورا بھروسا کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمارا خیال رکھے گا؟ اور ہم ابھی سے خود کو آنے والے وقت کے لیے تیار کیسے کر سکتے ہیں؟
”مجھے کمی نہ ہوگی“
5-6. زبور 23:1-6 پر غور کرنے سے ہمیں داؤد کی یہ بات سمجھنے میں مدد کیسے ملتی ہے کہ خدا کے بندوں کو ”کسی اچھی چیز کی کمی نہیں ہوگی“؟
5 داؤد کی اِس بات کا کیا مطلب تھا کہ یہوواہ کے بندوں کو ”کسی اچھی چیز کی کمی نہیں ہوگی“؟ اِس کا اِشارہ ہمیں زبور 23 پر غور کرنے سے ملتا ہے جہاں داؤد نے اِسی طرح کے ملتے جلتے الفاظ کہے۔ (زبور 23:1-6 کو پڑھیں۔) داؤد نے اِس زبور کی شروعات اِن الفاظ سے کی: ”[یہوواہ] میرا چوپان [یعنی چرواہا]ہے۔ مجھے کمی نہ ہوگی۔“ اور پھر آگے پورے زبور میں داؤد نے اُن بیشقیمت چیزوں کا ذکر کِیا جو یہوواہ نے اُنہیں اِس لیے دی تھیں کیونکہ داؤد نے یہوواہ کو اپنے چرواہے کے طور پر قبول کِیا تھا۔ یہوواہ نے ”صداقت کی راہوں پر“ چلنے میں داؤد کی مدد کی اور اُن کے اچھے اور بُرے وقت میں اُن کا ساتھ دیا۔ داؤد یہ بات اچھی طرح سے جانتے تھے کہ یہوواہ کی ”ہریہری چراگاہوں“ میں بیٹھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اُنہیں کبھی کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اُنہیں پتہ تھا کہ کبھی کبھار وہ بےحوصلہ ہو جائیں گے اور اُنہیں ایسا لگے گا جیسے وہ ’موت کے سایے کی وادی میں سے گزر‘ رہے ہوں۔ اِس کے علاوہ اُن کے دُشمن بھی ہوں گے۔ لیکن اگر یہوواہ اُن کا چرواہا ہے تو اُنہیں کبھی بھی مصیبت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
6 لہٰذا ہمارے اِس سوال کا جواب کہ داؤد کو کس لحاظ سے ”کسی اچھی چیز کی کمی نہیں“ تھی، یہ ہے کہ داؤد کے پاس وہ سب چیزیں تھیں جو یہوواہ کے قریب رہنے میں اُن کی مدد کر سکتی تھیں۔ اُن کی خوشی اِس بات پر نہیں ٹکی تھی کہ اُن کے پاس کتنی زیادہ چیزیں ہیں۔ وہ اُن چیزوں پر مطمئن تھے جو یہوواہ نے اُنہیں دی تھیں۔ داؤد کی نظر میں یہ بات سب سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی کہ یہوواہ اُنہیں برکتیں دے رہا ہے اور اُن کی حفاظت کر رہا ہے۔
7. لُوقا 21:20-24 کے مطابق پہلی صدی عیسوی میں یہودیہ میں رہنے والے مسیحیوں کو کن مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا؟
7 داؤد کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتنا ضروری ہے کہ ہم اُن چیزوں کے بارے میں مناسب سوچ رکھیں جو ہمارے پاس ہیں۔ سچ ہے کہ اِن چیزوں سے ہمیں خوشی مل سکتی ہیں لیکن ہمیں اِنہیں اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ یہ ایک ایسی اہم سچائی تھی جسے پہلی صدی عیسوی میں یہودیہ کے مسیحیوں کو سمجھنے کی ضرورت تھی۔ (لُوقا 21:20-24 کو پڑھیں۔) یسوع مسیح نے اُنہیں پہلے سے بتا دیا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب ’یروشلیم کو فوجیں گھیر لیں گی۔‘ اور جب وہ ایسا ہوتے دیکھیں تو ”وہ پہاڑوں کی طرف“ بھاگ جائیں۔ یوں وہ اپنی جان بچا پائیں گے۔ مگر ایسا کرنے کے لیے اُنہیں بہت سی چیزیں بھی قربان کرنی تھیں۔ بہت سال پہلے ایک ”مینارِنگہبانی“ میں اِس حوالے سے یہ بتایا گیا تھا کہ اُن مسیحیوں نے اپنے کھیت اور گھر چھوڑ دیے، یہاں تک کہ اُنہوں نے اپنے گھر سے چیزیں بھی نہیں لیں۔ اُنہیں اِس بات پر پورا بھروسا تھا کہ یہوواہ اُن کی حفاظت اور مدد کرے گا۔ اِس لیے اُنہوں نے اُس کی عبادت کو ہر اُس چیز سے زیادہ اہمیت دی جو اُس وقت ضروری دِکھائی دے رہی تھی۔
8. پہلی صدی عیسوی میں یہودیہ کے مسیحیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، اُس سے ہم کون سی اہم بات سیکھ سکتے ہیں؟
8 پہلی صدی عیسوی میں یہودیہ کے مسیحیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، اُس سے ہم ایک اہم بات سیکھ سکتے ہیں۔ جس ”مینارِنگہبانی“ کا حوالہ پچھلے پیراگراف میں دیا گیا ہے، اُس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مستقبل میں شاید ہمیں ایسے اِمتحانوں کا سامنا کرنا پڑے گا جن میں یہ ظاہر ہو جائے گا کہ ہم اُن چیزوں کو کیسا خیال کرتے ہیں جو ہمارے پاس ہیں۔ اُس وقت پتہ چل جائے گا کہ کیا ہم اِن چیزوں کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں یا یہوواہ کی طرف سے نجات حاصل کرنے کو؟ جب خاتمہ آئے گا تو ہو سکتا ہے کہ ہمیں کچھ مشکلیں برداشت کرنی پڑیں اور کچھ قربانیاں دینی پڑیں۔ اُس وقت ہمیں اپنی جان بچانے کے لیے کوئی بھی قدم اُٹھانے کو تیار رہنا ہوگا جیسے پہلی صدی عیسوی میں یہودیہ کے مسیحیوں نے کِیا۔ *
9. پولُس رسول نے عبرانی مسیحیوں کو جو ہدایت دی، اُس سے آپ کو کیا حوصلہ ملتا ہے؟
9 ذرا سوچیں کہ اُن مسیحیوں کو اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ کر ایک نئے سرے سے زندگی شروع کرنا کتنا مشکل لگا ہوگا! اِن مسیحیوں کو اِس بات پر مضبوط ایمان رکھنے کی ضرورت تھی کہ یہوواہ اُن کی ضرورتیں پوری کرے گا۔ اپنے ایمان کو مضبوط رکھنے کے لیے پولُس کی ہدایت اُن کے بڑے کام آئی۔ رومی فوج کے یروشلیم کو گھیرنے سے پانچ سال پہلے پولُس نے عبرانی مسیحیوں کو یہ فائدہمند ہدایت دی: ”آپ کی زندگی سے ظاہر ہو کہ آپ کو پیسے سے پیار نہیں ہے بلکہ آپ اُن چیزوں سے مطمئن ہیں جو آپ کے پاس ہیں۔ کیونکہ اُس نے کہا ہے کہ ”مَیں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ مَیں تمہیں کبھی ترک نہیں کروں گا۔“ اِس لیے ہم پورے اِعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ ”یہوواہ میرا مددگار ہے۔ مَیں نہیں ڈروں گا۔ اِنسان میرا کیا بگاڑ سکتا ہے؟““ (عبر 13:5، 6) بےشک جن مسیحیوں نے رومی فوج کے حملے سے پہلے پولُس کی اِس ہدایت پر عمل کِیا، اُن کے لیے نئے حالات کے مطابق ڈھلنا اور ایک ایسی جگہ پر رہنا کافی آسان رہا ہوگا جہاں زندگی بہت سادہ تھی۔ وہ اِس بات پر پکا یقین رکھتے تھے کہ یہوواہ اُن کی بنیادی ضرورتیں پوری کرے گا۔ پولُس کے الفاظ سے ہمارا بھی یہ یقین مضبوط ہو سکتا ہے۔
”ہم اِن چیزوں پر راضی رہیں گے“
10. پولُس رسول نے ہمیں کون سا ”راز“ بتایا؟
10 پولُس نے تیمُتھیُس کو بھی وہی ہدایت دی جو اُنہوں نے عبرانی مسیحیوں کو دی تھی۔ اور یہ ہدایت آج ہم پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”لہٰذا اگر ہمارے پاس روٹی اور کپڑے ہیں تو ہم اِن چیزوں پر راضی رہیں گے۔“ (1-تیم 6:8) تو کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ ہم اچھے اچھے کھانے نہیں کھا سکتے، ایک اچھے گھر میں نہیں رہ سکتے یا وقتاًفوقتاً نئے کپڑے نہیں خرید سکتے؟ پولُس کی بات کا یہ مطلب بالکل نہیں تھا۔ دراصل وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں اُن چیزوں پر مطمئن رہنا چاہیے جو ہمارے پاس ہیں۔ یہی پولُس کے مطمئن رہنے کا ”راز“ تھا۔ (فل 4:12) ہماری سب سے قیمتی چیز یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی ہے نہ کہ وہ چیزیں جو ہمارے پاس ہیں۔—حبق 3:17، 18۔
11. موسیٰ نے بنیاِسرائیل سے جو بات کہی، اُس سے ہم اُن چیزوں پر مطمئن رہنے کے حوالے سے کیا سیکھتے ہیں جو ہمارے پاس ہیں؟
11 ہو سکتا ہے کہ ہمیں جو چیزیں اپنی زندگی کے لیے ضروری لگیں، وہ یہوواہ کی نظر میں اِتنی ضروری نہ ہوں۔ غور کریں کہ موسیٰ نے اُس وقت بنی اِسرائیل سے کیا کہا جب وہ سب ویرانے میں 40 سال گزار چُکے تھے۔ اُنہوں نے کہا: ”[یہوواہ] تیرا خدا تیرے ہاتھ کی کمائی میں برکت دیتا رہا ہے اور اِس بڑے بیابان میں جو تیرا چلنا پھرنا ہے وہ اُسے جانتا ہے۔ اِن چالیس برسوں میں [یہوواہ] تیرا خدا برابر تیرے ساتھ رہا اور تجھ کو کسی چیز کی کمی نہیں ہوئی۔“ (اِست 2:7) اُن 40 سالوں کے دوران یہوواہ نے اُنہیں کھانے کے لیے من دیا اور جن کپڑوں میں وہ مصر سے نکلے تھے، وہ کبھی نہیں پھٹے۔ (اِست 8:3، 4) ہو سکتا ہے کہ کچھ اِسرائیلیوں کو لگا ہو کہ یہ سب چیزیں اُن کے لیے کافی نہیں تھیں۔ لیکن موسیٰ نے اُنہیں یاد دِلایا کہ یہوواہ نے اُنہیں وہ سب کچھ دیا جس کی اُنہیں ضرورت تھی۔ اگر ہم اُن چیزوں پر مطمئن رہنا سیکھتے ہیں جو ہمارے پاس ہیں تو یہوواہ ہم سے خوش ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اُن سادہ سی چیزوں کے لیے بھی اُس کے شکرگزار ہوں جو وہ ہمیں دیتا ہے اور یہ سمجھیں کہ یہ اُس کی طرف سے تحفہ ہیں۔
بھروسا رکھیں کہ یہوواہ آپ کا خیال رکھے گا
12. یہ کیسے ظاہر ہوا کہ داؤد خود پر نہیں بلکہ یہوواہ پر بھروسا رکھتے تھے؟
12 داؤد یہ جانتے تھے کہ یہوواہ وفادار خدا ہے اور وہ اُن لوگوں کا بہت زیادہ خیال رکھتا ہے جو اُس سے محبت کرتے ہیں۔ حالانکہ جس وقت داؤد نے زبور 34 لکھا، اُس وقت اُن کی جان خطرے میں تھی تو بھی اُنہوں نے ایمان کی آنکھوں سے دیکھا کہ یہوواہ کا فرشتہ اُن کی ’چاروں طرف خیمہزن‘ ہے۔ (زبور 34:7) شاید داؤد یہوواہ کے فرشتے کا موازنہ ایک فوجی سے کر رہے تھے جس نے میدان میں خیمہ لگایا ہو اور جو ہر وقت دُشمن سے چوکس رہتا ہو۔ حالانکہ داؤد خود بھی ایک دلیر فوجی تھے اور یہوواہ نے اُن سے وعدہ کِیا تھا کہ وہ اُنہیں بادشاہ بنائے گا لیکن داؤد نے اِس بات پر بھروسا نہیں کِیا کہ وہ فلاخن سے پتھر مارنے اور دُشمن پر تلوار چلانے میں کتنے ماہر ہیں۔ (1-سمو 16:13؛ 24:12) اِس کی بجائے اُنہوں نے اپنا پورا بھروسا یہوواہ پر رکھا۔ اُنہیں یقین تھا کہ یہوواہ کا فرشتہ ’اُن لوگوں کو بچاتا ہے‘ جو ’یہوواہ سے ڈرتے‘ ہیں۔ سچ ہے کہ آج ہم اِس بات کی توقع نہیں کرتے کہ یہوواہ ہماری حفاظت کرنے کے لیے کوئی معجزہ کرے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ جو لوگ یہوواہ پر بھروسا کرتے ہیں، اگر آج وہ مر بھی جاتے ہیں تو یہوواہ اُنہیں ہمیشہ کی زندگی دے گا۔
13. جب ماجوج کا جوج ہم پر حملہ کرے گا تو ہم اُسے کمزور کیوں لگیں گے لیکن ہمیں ڈرنے کی ضرورت کیوں نہیں ہوگی؟ (سرِورق کی تصویر کو دیکھیں۔)
13 بہت جلد ہمارا یہ اِمتحان ہوگا کہ ہم اِس بات پر کتنا بھروسا کرتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں بچانے کی طاقت رکھتا ہے۔ جب ماجوج کا جوج یعنی قوموں کا ایک گروہ متحد ہو کر یہوواہ کے بندوں پر حملہ کرے گا تو شاید ہمیں لگے گا کہ وہ ہمیں مار ڈالے گا۔ اُس وقت ہمیں اِس بات پر پورا بھروسا رکھنا ہوگا کہ یہوواہ ہمیں نجات دِلانے کی طاقت رکھتا ہے اور وہ ایسا کرے گا بھی۔ قوموں کو لگے لگا کہ ہم ایسی بھیڑوں کی طرح ہیں جنہیں اُن کے ہاتھ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ (حِز 38:10-12) اُنہیں ایسا کیوں لگے گا؟ کیونکہ نہ تو ہمارے پاس ہتھیار ہوں گے اور نہ ہی ہمیں اُن سے لڑنے کی تربیت دی جائے گا۔ اِس لیے وہ سوچیں گی کہ وہ ہمیں آسانی سے کچل سکتی ہیں۔ مگر اُس وقت ہم اپنے ایمان کی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ یہوواہ کے فرشتے ہماری چاروں طرف خیمہ لگائے ہمیں بچانے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ قومیں یہ بات نہیں دیکھ پائیں گی کیونکہ وہ یہوواہ پر ایمان نہیں رکھتیں۔ ذرا سوچیں کہ اُنہیں اُس وقت کتنا دھچکا لگے گا جب یہوواہ کی آسمانی فوجیں ہماری طرف سے اُن سے لڑ رہی ہوں گی۔—مکا 19:11، 14، 15۔
ابھی سے خود کو مستقبل کے لیے تیار کریں
14. ہم ابھی سے خود کو آنے والے وقت کے لیے تیار کیسے کر سکتے ہیں؟
14 ہم ابھی سے خود کو آنے والے وقت کے لیے تیار کیسے کر سکتے ہیں؟ سب سے پہلے تو ہمیں اُن چیزوں کے بارے میں مناسب سوچ رکھنی ہوگی جو ہمارے پاس ہیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ایک دن ہمیں اِن سب چیزوں کو پیچھے چھوڑنا ہوگا۔ اِس کے علاوہ ہمارے پاس ابھی جو کچھ ہے، ہمیں اُس پر مطمئن رہنا چاہیے اور اِس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی ہے۔ جتنی اچھی طرح سے ہم اپنے خدا کو جاننے لگیں گے اُتنا ہی زیادہ ہمارا یہ یقین مضبوط ہوگا کہ وہ ہمیں ماجوج کے جوج سے بچانے کی طاقت رکھتا ہے۔
15. داؤد نے چھوٹی عمر میں جن باتوں کا تجربہ کِیا، اُن سے اُن کا یہ یقین مضبوط کیوں ہوا کہ یہوواہ ہمیشہ اُن کی مدد کرے گا؟
15 غور کریں کہ اَور کس چیز نے مشکلوں کو برداشت کرنے میں داؤد کی مدد کی اور یہی چیز ہمیں آنے والی مشکلوں کے لیے کیسے تیار کر سکتی ہے۔ داؤد نے کہا: ”[یہوواہ] کی بھلائی کا تجربہ کرو۔ مبارک ہے وہ جو اُس میں پناہ لے۔“ (زبور 34:8، اُردو جیو ورشن) اِن الفاظ سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ داؤد کو اِس بات پر اِتنا بھروسا کیوں تھا کہ یہوواہ ہر حال میں اُن کی مدد کرے گا۔ داؤد نے کئی بار یہوواہ پر بھروسا ظاہر کِیا اور یہوواہ نے بھی اُنہیں مایوس نہیں کِیا۔ جب داؤد چھوٹے تھے تو وہ جولیت سے لڑے جو کہ ایک بہت لمبا تڑنگا جنگجو تھا۔ داؤد نے اُس سے کہا: ”آج ہی کے دن [یہوواہ] تجھ کو میرے ہاتھ میں کر دے گا۔“ (1-سمو 17:46) بعد میں جب داؤد، بادشاہ ساؤل کی خدمت کرتے تھے تو ساؤل نے کئی بار اُنہیں جان سے مار ڈالنے کی کوشش کی۔ لیکن ’یہوواہ داؤد کے ساتھ تھا۔‘ (1-سمو 18:12) چونکہ داؤد نے ماضی میں کئی بار یہوواہ کی مدد کا تجربہ کِیا تھا اِس لیے وہ جانتے تھے کہ جن مشکلوں سے وہ ابھی گزر رہے ہیں، اُن میں بھی یہوواہ اُن کی مدد کرے گا۔
16. ہم کن طریقوں سے یہوواہ کی بھلائی کا تجربہ کر سکتے ہیں؟
16 جتنا زیادہ ہم ابھی یہوواہ کی رہنمائی پر بھروسا کریں گے اُتنا ہی زیادہ ہمارا یہ یقین مضبوط ہوگا کہ وہ مستقبل میں ہمیں بچائے گا۔ ہمیں یہوواہ پر ایمان رکھنے کی اُس وقت واقعی بہت ضرورت ہوتی ہے جب ہم اپنے باس سے اِجتماع پر جانے کے لیے چھٹی مانگتے ہیں یا اُس سے کام کے وقت میں ردوبدل کرنے کو کہتے ہیں تاکہ ہم سارے اِجلاسوں پر جا سکیں اور مُنادی کے کام میں زیادہ حصہ لے سکیں۔ لیکن فرض کریں کہ ہمارا باس ہماری درخواست قبول نہیں کرتا اور ہمیں نوکری سے نکال دیتا ہے۔ کیا ایسی صورت میں ہم اِس بات پر بھروسا رکھیں گے کہ یہوواہ ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا اور وہ ہماری بنیادی ضرورتیں پوری کرتا رہے گا؟ (عبر 13:5) بہت سے بہن بھائی جو کُلوقتی طور پر یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں، وہ اپنے تجربے سے یہ بتا سکتے ہیں کہ یہوواہ کیسے اُس وقت اُن کی مدد کو آیا جب اُنہیں اُس کی سخت ضرورت تھی۔ یہوواہ واقعی ایک وفادار خدا ہے۔
17. سن 2022ء کی سالانہ آیت کیا ہے اور یہ مناسب کیوں ہے؟
17 اگر یہوواہ ہمارے ساتھ ہے تو ہمیں اِس بات سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ہمارے ساتھ آگے چل کر کیا ہوگا۔ جب تک ہم اپنے خدا کی بادشاہت کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دیتے رہیں گے، وہ ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا۔ گورننگ باڈی چاہتی ہے کہ ہم ابھی سے خود کو اُن مشکلوں کے لیے تیار کریں جو بہت جلد ہم پر آئیں گی اور اِس بات پر پورا بھروسا رکھیں کہ یہوواہ ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا۔ اِسی لیے اُس نے 2022ء کی سالانہ آیت کے لیے زبور 34:10 کو چُنا ہے جہاں لکھا ہے: ”جو یہوواہ کی رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اُنہیں کسی اچھی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔“—ترجمہ نئی دُنیا۔
گیت نمبر 38: وہ آپ کو طاقت بخشے گا
^ سن 2022ء کی سالانہ آیت زبور 34:10 سے لی گئی ہے جہاں لکھا ہے: ”جو یہوواہ کی رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اُنہیں کسی اچھی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔“ (ترجمہ نئی دُنیا) یہوواہ کے کئی بندوں کے پاس بہت کم پیسہ اور چیزیں ہیں۔ تو پھر ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ ”اُنہیں کسی اچھی چیز کی کمی نہیں“؟ اور اِس آیت کو سمجھنے سے ہم آنے والی مشکلوں کے لیے کیسے تیار ہو سکتے ہیں؟
^ ”مینارِنگہبانی،“ 15 ستمبر 2014ء میں ”قارئین کے سوال“ کو دیکھیں۔
^ ”مینارِنگہبانی،“ 1 مئی 1999ء،صفحہ نمبر 19 کو دیکھیں۔
^ تصویر کی وضاحت: حالانکہ داؤد ساؤل سے اپنی جان بچانے کے لیے غار میں چھپے ہوئے تھے تو بھی اُنہوں نے اُن چیزوں کے لیے یہوواہ کا شکر ادا کِیا جو یہوواہ اُنہیں دے رہا تھا۔
^ تصویر کی وضاحت: جب بنیاِسرائیل مصر کی غلامی سے آزاد ہوئے تو یہوواہ نے اُنہیں کھانے کے لیے من دیا اور اُن کے کپڑوں کو پھٹنے سے محفوظ رکھا۔