مطالعے کا مضمون نمبر 3
ہم یسوع مسیح کے آنسوؤں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
”یسوع کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔“—یوح 11:35۔
گیت نمبر 17: مدد کرنے کو تیار
مضمون پر ایک نظر *
1-3. کن باتوں کی وجہ سے ہماری آنکھوں میں آنسو آ سکتے ہیں؟
آپ آخری بار کب روئے تھے؟ کبھی کبھار ہماری آنکھوں سے اِس لیے آنسو بہنے لگتے ہیں کیونکہ ہم بہت خوش ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر ہم دُکھی ہونے کی وجہ سے روتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم اُس وقت بہت روتے ہیں جب ہمارا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے۔ امریکہ میں رہنے والی ایک بہن جس کا نام ماریہ ہے، اُس نے ہماری برانچ کو ایک خط میں لکھا: ”میری بیٹی فوت ہو گئی تھی۔ کبھی کبھار تو اُس کے بچھڑ جانے کا غم اِتنا شدید ہو جاتا تھا کہ ایسے لگتا تھا جیسے مجھے کسی بھی چیز سے تسلی نہیں مل سکتی۔ مجھے تو اِس بات پر حیرت ہوتی تھی کہ اِتنا گہرا صدمہ سہنے کے بعد بھی میرا دل دھڑک کیسے رہا ہے۔“ *
2 کبھی کبھار شاید کچھ اَور باتوں کی وجہ سے بھی ہمارے آنسو نکل آئیں۔ اِس سلسلے میں جاپان میں رہنے والی ایک بہن کی بات پر غور کریں جس کا نام ہیرومی ہے۔ وہ ایک پہلکار ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ”مُنادی کے دوران کبھی کبھار مَیں لوگوں کی سختدلی کو دیکھ کر بڑی بےحوصلہ ہو جاتی تھی۔ کبھی کبھی تو مَیں رو کر یہوواہ سے دُعا کرتی تھی کہ وہ کوئی ایسا شخص ڈھونڈنے میں میری مدد کرے جو سچائی کی تلاش کر رہا ہے۔“
3 ہم میں سے بہت سے بہن بھائی بہن لورل اور بہن ہیرومی کے احساسات کو سمجھ سکتے ہیں۔ (1-پطر 5:9) ہم سب کی دلی خواہش ہے کہ ہم ”خوشی سے [یہوواہ] کی عبادت“ کریں۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ کبھی کبھار اپنے کسی عزیز کی موت کی وجہ سے، بےحوصلہ ہو جانے کی وجہ سے یا ایمان کے اِمتحان سے گزرتے وقت ہماری آنکھوں سے آنسو بہنے لگیں۔ (زبور 6:6؛ 100:2) ایسی صورتحال میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟
4. اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
4 ہم یسوع مسیح کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔ کچھ موقعوں پر وہ اِتنے جذباتی ہو گئے کہ ’اُن کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔‘ (یوح 11:35؛ لُو 19:41؛ 22:44؛ عبر 5:7) آئیں، کچھ ایسے ہی واقعات پر غور کریں۔ ایسا کرتے وقت دیکھیں کہ ہم یسوع مسیح اور اُن کے باپ یہوواہ سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔ اِس مضمون میں ہم کچھ ایسے طریقوں پر بھی غور کریں گے جن کی مدد سے ہم اُن مشکلوں کا مقابلہ کر پائیں گے جن کی وجہ سے ہماری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔
یسوع اپنے دوستوں کے لیے روئے
یسوع مسیح کی طرح غمزدہ لوگوں کو سہارا دیں۔ (پیراگراف نمبر 5-9 کو دیکھیں۔) *
5. یوحنا 11:32-36 میں لکھے واقعے سے ہم یسوع مسیح کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟
5 سن 32ء میں جب سردی کا موسم تھا تو یسوع مسیح کے قریبی دوست لعزر بیمار ہو گئے اور اِس وجہ سے فوت ہو گئے۔ (یوح 11:3، 14) لعزر کی دو بہنیں تھیں جن کے نام مریم اور مارتھا تھے۔ یسوع مسیح کو اِن تینوں سے بہت پیار تھا۔ مریم اور مارتھا اپنے بھائی کی موت کی وجہ سے بالکل ٹوٹ گئیں۔ جب لعزر فوت ہو گئے تو یسوع مسیح مریم اور مارتھا سے ملنے اُن کے گاؤں بیتعنیاہ گئے۔ جب مارتھا نے سنا کہ یسوع آئے ہیں تو وہ بھاگی بھاگی اُن سے ملنے گئیں۔ ذرا سوچیں کہ مارتھا اُس وقت کتنی دُکھی تھیں جب اُنہوں نے یسوع سے کہا: ”مالک، اگر آپ یہاں ہوتے تو میرا بھائی نہ مرتا۔“ (یوح 11:21) اِس کے کچھ دیر بعد جب یسوع نے مریم اور باقی لوگوں کو روتے دیکھا تو اُن کی ”آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔“—یوحنا 11:32-36 کو پڑھیں۔
6. یسوع مسیح کیوں رونے لگے؟
6 یسوع مسیح اِس موقعے پر کیوں روئے؟ اِس سوال کا جواب ہماری ایک کتاب میں اِس طرح دیا گیا ہے: ”اپنے دوست لعزر کی موت اور اُن کی بہنوں کے دُکھ کی وجہ سے یسوع ’دل ہی دل میں گہری آہ بھرنے لگے اور اُن کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔‘ “ * ہو سکتا ہے کہ یسوع مسیح اُس تکلیف کے بارے میں سوچ رہے ہوں جو لعزر اُس وقت محسوس کر رہے تھے جب وہ بیمار تھے۔ یا شاید وہ یہ سوچ رہے ہوں کہ اُن کے دوست کو اُس وقت کیسا لگ رہا ہوگا جب اُس نے یہ محسوس کِیا کہ اُس کی زندگی اُس کے ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسلتی جا رہی ہے۔ یسوع مسیح یقیناً یہ دیکھ کر بھی روئے کہ لعزر کی موت کا مریم اور مارتھا پر کتنا گہرا اثر ہوا ہے۔ اگر آپ کا کوئی عزیز موت کی وجہ سے آپ سے بچھڑ گیا ہے تو یقیناً آپ نے بھی ایسا ہی محسوس کِیا ہوگا۔ آئیں، دیکھیں کہ ہم اِس واقعے سے کون سی تین باتیں سیکھتے ہیں۔
7. یسوع مسیح نے اپنے دوستوں کے لیے جو آنسو بہائے، اُس سے ہمیں یہوواہ کے بارے میں کیا بات پتہ چلتی ہے؟
7 یہوواہ آپ کے دُکھ کو محسوس کرتا ہے۔ یسوع مسیح ”ہوبہو“ اپنے باپ یہوواہ کی طرح ہیں۔ (عبر 1:3) یسوع مسیح کے رونے سے اُن کے باپ کے احساسات ظاہر ہوئے۔ (یوح 14:9) اگر آپ اپنے کسی عزیز کی موت کا غم سہہ رہے ہیں تو آپ اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ صرف یہی نہیں دیکھتا کہ آپ کتنے دُکھی ہیں بلکہ وہ آپ کے دُکھ کو محسوس بھی کرتا ہے۔ وہ آپ کے زخمی دل پر مرہم لگانا چاہتا ہے۔—زبور 34:18؛ 147:3۔
8. ہم اِس بات کا پکا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یسوع مسیح ہمارے اُن عزیزوں کو زندہ کر دیں گے جو فوت ہو گئے ہیں؟
8 یسوع مسیح آپ کے اُن عزیزوں کو زندہ کرنا چاہتے ہیں جو فوت ہو چُکے ہیں۔ لعزر کی موت پر رونے سے کچھ دیر پہلے یسوع نے مارتھا کو یہ یقین دِلایا: ”آپ کا بھائی جی اُٹھے گا۔“ مارتھا نے یسوع مسیح کی بات پر یقین کِیا۔ (یوح 11:23-27) چونکہ مارتھا یہوواہ کی عبادت کرتی تھیں اِس لیے وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھیں کہ ماضی میں خدا نے ایلیاہ نبی اور اِلیشع نبی کے ذریعے مُردوں کو زندہ کِیا تھا۔ (1-سلا 17:17-24؛ 2-سلا 4:32-37) اُنہوں نے غالباً یہ بھی سنا ہوگا کہ یسوع مسیح نے کچھ مُردوں کو زندہ کِیا ہے۔ (لُو 7:11-15؛ 8:41، 42، 49-56) آپ بھی اِس بات پر پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ آپ اپنے اُن عزیزوں سے دوبارہ ملیں گے جو فوت ہو گئے ہیں۔ جب یسوع مسیح اپنے دُکھی دوستوں کو تسلی دیتے وقت روئے تو یہ ظاہر ہوا کہ وہ مُردوں کو زندہ کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔
9. یسوع مسیح کی طرح آپ غمزدہ لوگوں کو تسلی کیسے دے سکتے ہیں؟ ایک مثال دیں۔
9 آپ غمزدہ لوگوں کو تسلی دے سکتے ہیں۔ یسوع مسیح مارتھا اور مریم کے ساتھ صرف روئے ہی نہیں بلکہ اُنہوں نے دھیان سے اُن کی بات سنی اور اُنہیں تسلی بھی دی۔ ہم بھی ایسا ہی کر سکتے ہیں۔ آسٹریلیا میں رہنے والے ایک بزرگ جن کا نام ڈین ہے، کہتے ہیں: ”جب میری بیوی فوت ہوئی تو مجھے تسلی کی بہت ضرورت تھی۔ بہت سے شادیشُدہ بہن بھائی میری بات سننے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ اُنہوں نے مجھے دل کھول کر اپنے دُکھ کا اِظہار کرنے دیا اور جب مَیں رونے لگتا تھا تو وہ کچھ غلط نہیں سوچتے تھے۔ اُنہوں نے کئی اَور طریقوں سے بھی میری مدد کی۔ مثال کے طور پر جب مَیں اپنی گاڑی نہیں دھو پاتا تھا، بازار سے چیزیں نہیں لا پاتا تھا یا کھانا نہیں بنا پاتا تھا تو وہ میرے یہ کام کر دیتے تھے۔ وہ اکثر میرے ساتھ مل کر دُعا بھی کرتے تھے۔ وہ میرے ایسے سچے دوست اور بھائی ثابت ہوئے جو ”مصیبت کے دن کے لئے پیدا“ ہوئے ہوں۔“—امثا 17:17۔
یسوع اُن لوگوں کے لیے روئے جن کو اُنہوں نے گواہی دی
10. لُوقا 19:36-40 میں لکھے واقعے کی وضاحت کریں۔
10 جب یسوع مسیح 9 نیسان 33ء کو یروشلیم پہنچے تو لوگوں کی بِھیڑ جمع ہو گئی۔ وہ یسوع کو اپنا بادشاہ تسلیم کرتے ہوئے اُن کی راہوں میں اپنی چادریں بچھانے لگی۔ یہ ایک بڑا ہی خوشی کا موقع تھا۔ (لُوقا 19:36-40 کو پڑھیں۔) اِس لیے آگے جو ہوا، اُس کی یسوع کے شاگردوں کو توقع نہیں تھی۔ دراصل جب یسوع ’یروشلیم کے نزدیک پہنچ گئے تو اُنہوں نے شہر کو دیکھا اور وہ رو پڑے۔‘ اپنی آنکھوں میں آنسو لیے ہوئے یسوع مسیح نے ایک بہت ہی ہولناک وقت کی پیشگوئی کی جو بہت جلد یروشلیم کے لوگوں پر آنے والا تھا۔—لُو 19:41-44۔
11. یسوع مسیح یروشلیم کے لوگوں پر کیوں روئے؟
11 بھلے ہی لوگوں نے یسوع مسیح کا اِتنے شاندار طریقے سے اِستقبال کِیا مگر یسوع مسیح کا دل غم سے بھر گیا کیونکہ وہ جانتے تھے زیادہتر یہودی بادشاہت کے پیغام کو قبول نہیں کریں گے۔ اِسی وجہ سے یروشلیم نے تباہ ہو جانا تھا اور اگر کوئی یہودی اِس تباہی میں بچ بھی جاتا تو اُسے غلام کے طور پر قید کر لیا جانا تھا۔ (لُو 21:20-24) افسوس کی بات ہے کہ یسوع مسیح کی بات کے مطابق زیادہتر لوگوں نے اُن کا پیغام قبول نہیں کِیا۔ آپ جس علاقے میں رہتے ہیں، عام طور پر وہاں لوگ بادشاہت کا پیغام سننے پر کیا کرتے ہیں؟ اگر بہت ہی کم لوگ پاک کلام کی سچائیوں کو قبول کرتے ہیں تو آپ اُس واقعے سے بہت اہم باتیں سیکھ سکتے ہیں جب یسوع مسیح نے اُن لوگوں کے لیے آنسو بہائے جنہیں وہ بادشاہت کا پیغام سناتے تھے۔ آئیں، اِن میں سے تین باتوں پر غور کریں۔
12. یسوع مسیح نے لوگوں کے لیے جو آنسو بہائے، اُس سے ہمیں یہوواہ کے بارے میں کون سی بات پتہ چلتی ہے؟
12 یہوواہ کو لوگوں کی فکر ہے۔ یسوع مسیح کے آنسوؤں سے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا کو لوگوں کی کتنی زیادہ فکر ہے۔ یہوواہ ”نہیں چاہتا کہ کوئی بھی شخص ہلاک ہو بلکہ وہ چاہتا ہے کہ سب لوگ توبہ کریں۔“ (2-پطر 3:9) آج ہم اپنے پڑوسیوں کے لیے محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟ جب ہم اُنہیں بادشاہت کی خوشخبری کے بارے میں سکھانے کی جیتوڑ کوشش کرتے ہیں تو ہم اُن کے لیے محبت ظاہر کرتے ہیں۔—متی 22:39۔ *
یسوع مسیح کی طرح فرق فرق وقت اور طریقوں سے مُنادی کریں۔ (پیراگراف نمبر 13-14 کو دیکھیں۔) *
13-14. یسوع مسیح نے لوگوں کے لیے ہمدردی کیسے ظاہر کی اور ہم اپنے اندر یہ خوبی کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟
13 یسوع مسیح نے بڑی محنت سے مُنادی کی۔ یسوع ہر موقعے پر لوگوں کو تعلیم دینے کے لیے تیار رہتے تھے۔ (لُو 19:47، 48) وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟ کیونکہ اُنہیں لوگوں سے ہمدردی تھی۔ کبھی کبھار تو اِتنے زیادہ لوگ یسوع مسیح سے تعلیم پانا چاہتے تھے کہ اُنہیں اور اُن کے شاگردوں کو ’کھانا کھانے کا موقع بھی نہیں ملتا تھا۔‘ (مر 3:20) اور ایک مرتبہ جب ایک آدمی رات کے وقت یسوع مسیح سے تعلیم پانا چاہتا تھا تو یسوع مسیح اُسی وقت اُس سے بات کرنے لگے۔ (یوح 3:1، 2) جن لوگوں نے یسوع کی تعلیمات سنیں، اُن میں سے زیادہتر اُن کے شاگرد نہیں بنے۔ لیکن یسوع مسیح نے اُن سب کو ہی اچھی طرح سے گواہی دی۔ آج ہم بھی سب لوگوں کو خوشخبری سننے کا موقع دینا چاہتے ہیں۔ (اعما 10:42) ایسا کرنے کے لیے شاید ہمیں بھی اپنے مُنادی کرنے کے وقت یا طریقے میں تبدیلی کرنے کی ضرورت ہو۔
14 تبدیلیاں کرنے کو تیار ہوں۔ اگر ہم ہمیشہ ایک ہی وقت پر مُنادی کرتے ہیں تو شاید ہم کچھ ایسے لوگوں سے نہ مل پائیں جو خدا کی بادشاہت کے بارے میں سیکھنا چاہتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ذرا نیتا نامی پہلکار کی بات پر غور کریں۔ وہ کہتی ہیں: ”میرے شوہر اور مَیں فرق فرق وقت پر لوگوں کو گواہی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوپہر کو کھانے کے وقفے کے دوران جب بہت سے لوگ باہر ہوتے ہیں تو ہم کتابوں اور رسالوں والی ٹرالی کے ذریعے اُنہیں گواہی دیتے ہیں۔ پھر اُسی دن بعد میں ہم گھر گھر مُنادی کرتے ہیں کیونکہ تب ہمیں زیادہ لوگ اپنے گھروں پر ملتے ہیں۔“ لہٰذا ہمیں صرف اُس وقت پر ہی مُنادی نہیں کرنی چاہیے جب ہمارے لیے ایسا کرنا آسان ہو بلکہ ہمیں اُس وقت بھی مُنادی کرنے کو تیار رہنا چاہیے جب ہمیں زیادہ لوگ مل سکتے ہیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہم سے خوش ہوگا۔
یسوع اپنے باپ کے نام کی خاطر روئے
یسوع مسیح کی طرح پریشانی کے وقت میں یہوواہ سے اِلتجائیں کریں۔ (پیراگراف نمبر 15-17 کو دیکھیں۔) *
15. لُوقا 22:39-44 کے مطابق یسوع کی زندگی کی آخری رات کیا ہوا؟
15 یسوع مسیح 14 نیسان 33ء کی رات کو گتسمنی کے باغ میں گئے۔ وہاں اُنہوں نے یہوواہ کے آگے اپنا دل اُنڈیل دیا۔ (لُوقا 22:39-44 کو پڑھیں۔) یہی وہ وقت تھا جب یسوع مسیح نے ’آنسو بہا بہا کر خدا کے سامنے اِلتجائیں اور درخواستیں کیں۔‘ (عبر 5:7) یسوع مسیح نے اپنی زندگی کی اِس آخری رات کس بارے میں دُعا کی؟ اُنہوں نے یہوواہ سے طاقت مانگی تاکہ وہ اُس کے وفادار رہ سکیں اور اُس کی مرضی پوری کر سکیں۔ یہوواہ خدا اپنے بیٹے کی دُعا میں اُس کا درد سُن سکتا تھا اِس لیے اُس نے یسوع کی ہمت بڑھانے کے لیے اُن کے پاس اپنا فرشتہ بھیجا۔
16. جب یسوع مسیح گتسمنی کے باغ میں دُعا کر رہے تھے تو وہ اِتنے زیادہ پریشان کیوں تھے؟
16 یسوع مسیح یقیناً گتسمنی کے باغ میں دُعا کرتے وقت روئے ہوں گے کیونکہ اُنہیں اِس خیال سے شدید تکلیف ہو رہی تھی کہ اُن پر خدا کے نام کی توہین کرنے کا اِلزام لگایا جائے گا۔ اِس کے علاوہ اُنہیں یہ بھی پتہ تھا کہ اُن کے لیے اپنے باپ کا وفادار رہنا اور اُس کے نام کی بڑائی کرنا کتنا ضروری ہے۔ جب آپ کسی ایسی صورتحال سے گزرتے ہیں جس میں یہوواہ کے لیے آپ کی وفاداری کا اِمتحان ہوتا ہے تو آپ یسوع مسیح کے بہائے آنسوؤں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ آئیں، دیکھیں کہ ہم اِس حوالے سے کون سی تین باتیں سیکھتے ہیں۔
17. یہوواہ نے یسوع مسیح کی اِلتجاؤں کا جو جواب دیا، اُس سے ہم یہوواہ کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟
17 یہوواہ آپ کی اِلتجائیں سنتا ہے۔ یہوواہ نے یسوع مسیح کی وہ دُعائیں سنیں جو اُنہوں نے بڑی شدت سے کی تھیں۔ کیوں؟ کیونکہ یسوع مسیح نے اِس مقصد سے دُعائیں کی کہ وہ اپنے باپ کے وفادار رہیں اور اُس کے نام کی بڑائی کریں۔ اگر آپ بھی اِس مقصد سے دُعا کریں گے تو یہوواہ آپ کی دُعاؤں کا بھی جواب دے گا اور آپ کی مدد کرے گا۔—زبور 145:18، 19۔
18. یسوع مسیح کس لحاظ سے ایک ایسے دوست کی طرح ہیں جو ہمارے درد کو سمجھتا ہے؟
18 یسوع مسیح آپ کے احساسات کو سمجھتے ہیں۔ ہمیں اُس وقت کتنی خوشی ہوتی ہے جب پریشانی کے وقت میں ہمارا ایک ایسا دوست ہمارے ساتھ ہوتا ہے جو ہمارے درد کو سمجھ سکتا ہے، خاص طور پر وہ دوست جو ویسی ہی پریشانیوں سے گزرا ہو جن کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔ یسوع مسیح ہمارے ایسے ہی دوست ہیں۔ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ایک شخص اُس وقت کیسا محسوس کرتا ہے جب وہ کمزور پڑ جاتا ہے اور اُسے مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ہماری کمزوریوں کو سمجھتے ہیں اور اِس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ ہمیں ”ضرورت کے وقت“ مدد ملے۔ (عبر 4:15، 16) جس طرح گتسمنی کے باغ میں یسوع مسیح نے فرشتے کی مدد کو قبول کِیا اُسی طرح ہمیں یہوواہ کی طرف سے ملنے والی ہر مدد کو قبول کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے، پھر چاہے وہ ایسا تنظیم کی کسی کتاب، رسالے، ویڈیو، تقریر، کسی بزرگ یا کسی اَور پُختہ مسیحی کے ذریعے کرے۔
19. جب یہوواہ کے لیے آپ کی وفاداری کا اِمتحان ہوتا ہے تو آپ طاقت کیسے پا سکتے ہیں؟ ایک مثال دیں۔
19 یہوواہ آپ کو اِطمینان دے گا۔ یہوواہ ہمیں طاقت کیسے دے گا؟ جب ہم دُعا کرتے ہیں تو ’خدا ہمیں وہ اِطمینان دیتا ہے جو سمجھ سے باہر ہے۔‘ (فل 4:6، 7) اِس اِطمینان کو پا کر ہم پُرسکون ہو جاتے ہیں اور صحیح طرح سے سوچ پاتے ہیں۔ مارگریٹ نامی بہن کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ وہ کہتی ہیں: ”مَیں اکثر خود کو تنہا محسوس کرتی ہوں۔ کبھی کبھار مجھے یہ لگتا ہے کہ یہوواہ مجھ سے پیار نہیں کرتا۔ لیکن جب بھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے تو مَیں فوراً یہوواہ کو بتاتی ہوں کہ مَیں کیسا محسوس کر رہی ہوں۔ دُعا کرنے سے مَیں بہت بہتر محسوس کرتی ہوں۔“ بہن مارگریٹ کی بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دُعا کرنے سے ہمیں بھی اِطمینان مل سکتا ہے۔
20. یسوع مسیح نے جو آنسو بہائے، اُس سے آپ نے کیا کچھ سیکھا ہے؟
20 یسوع مسیح نے جن معاملوں میں آنسو بہائے، اُن پر غور کرنے سے ہمیں کتنی تسلی ملی ہے اور ہم نے کتنی اہم باتیں سیکھی ہیں!ہم نے سیکھا ہے کہ ہمیں اپنے غمزدہ دوستوں کو سہارا دینا چاہیے اور اِس بات پر بھروسا رکھنا چاہیے کہ اگر ہمارا کوئی عزیز موت کی وجہ سے ہم سے بچھڑ جاتا ہے تو یہوواہ اور یسوع مسیح ہمیں حوصلہ دیں گے۔ اِس کے علاوہ ہم نے سیکھا کہ ہمیں مُنادی کرتے اور تعلیم دیتے وقت دوسروں سے ہمدردی کرنی چاہیے کیونکہ یہوواہ اور یسوع مسیح بھی ایسا کرتے ہیں۔ ہمیں اِس بات سے بھی تسلی ملی ہے کہ یہوواہ اور اُس کا پیارا بیٹا ہمارے احساسات اور کمزوریوں کو سمجھتے ہیں اور وہ ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں۔ آئیں، اِن باتوں پر اُس وقت تک عمل کرتے رہیں جب تک یہوواہ اپنے وعدے کے مطابق ’ہمارے سارے آنسو پونچھ‘ نہیں دیتا۔—مکا 21:4۔
گیت نمبر 120: یسوع کی طرح نرممزاج اور خاکسار بنیں
^ کچھ موقعوں پر یسوع مسیح اِتنے جذباتی ہو گئے کہ اُن کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اِس مضمون میں ہم تین ایسے واقعات پر غور کریں گے جب یسوع مسیح روئے اور دیکھیں گے کہ ہم اِن سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔
^ کچھ نام فرضی ہیں۔
^ ”اِنسائٹ آن دی سکرپچرز،“ جِلد نمبر 2،صفحہ نمبر 69 کو دیکھیں۔
^ متی 22:39 میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”پڑوسی“ کِیا گیا ہے، اُس میں صرف وہ لوگ ہی شامل نہیں جو ہمارے آسپاس رہتے ہیں۔ اِس کا اِشارہ ہر اُس شخص کی طرف ہے جس سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے۔
^ تصویر کی وضاحت: یسوع مسیح نے مریم اور مارتھا کو تسلی دی۔ ہم بھی اُن لوگوں کو تسلی دے سکتے ہیں جو اپنے عزیز کی موت کی وجہ سے دُکھی ہیں۔
^ تصویر کی وضاحت: یسوع مسیح نے خوشی سے نیکُدیمس کو رات کو تعلیم دی۔ ہمیں بھی لوگوں کو اُس وقت بائبل کورس کرانا چاہیے جس وقت اُن کے لیے ایسا کرنا آسان ہو۔
^ تصویر کی وضاحت: یسوع مسیح نے یہوواہ سے دُعا کی کہ وہ اُن کی مدد کرے تاکہ وہ اُس کے وفادار رہ سکیں۔ ہمیں بھی مشکلوں کا سامنا کرتے وقت ایسا ہی کرنا چاہیے۔