مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہمیں ’‏یاہ کی حمد‘‏ کیوں کرنی چاہیے؟‏

ہمیں ’‏یاہ کی حمد‘‏ کیوں کرنی چاہیے؟‏

‏”‏[‏یاہ]‏ کی حمد کرو .‏ .‏ .‏ اِس لئے کہ یہ دل‌پسند اور ستایش زیبا ہے۔‏“‏‏—‏زبور 147:‏1‏۔‏

گیت:‏ 9،‏  23

1-‏3.‏ ‏(‏الف)‏ زبور 147 غالباً کب لکھا گیا؟‏ (‏ب)‏ زبور 147 پر غور کرنے سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

جب ہم ایک شخص کے کسی کام یا بات سے متاثر ہوتے ہیں تو عموماً ہم اُس کی تعریف کرتے ہیں۔‏ اگر ہم اِنسانوں کی تعریف کرتے ہیں تو پھر ہمارے پاس یہوواہ خدا کی حمدوتعریف کرنے کی تو بےشمار وجوہات ہیں۔‏ ہم یہوواہ خدا کی قدرت کے لیے اُس کی حمد کرتے ہیں جو اُس کی تخلیق میں نظر آتی ہے۔‏ اِس کے علاوہ ہم اُس کی محبت کے لیے اُس کی حمد کرتے ہیں جس کی وجہ سے اُس نے اپنے عزیز بیٹے کی قربانی کا بندوبست کِیا۔‏

2 جب ہم زبور 147 کو پڑھتے ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اِس زبور کو لکھنے والا یہوواہ خدا کی حمد کرنے کی شدید خواہش رکھتا تھا۔‏ اُس نے دوسروں کی بھی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ اُس کے ساتھ مل کر خدا کی حمد کریں۔‏‏—‏زبور 147:‏1،‏ 7،‏ 12 کو پڑھیں۔‏

3 ہم نہیں جانتے کہ زبور 147 کو کس نے لکھا۔‏ لیکن اِس زبور کو لکھنے والا غالباً اُس دَور میں رہتا تھا جب یہوواہ خدا بنی‌اِسرائیل کو بابل کی غلامی سے رِہائی دِلا کر یروشلیم واپس لایا تھا۔‏ (‏زبور 147:‏2‏)‏ زبورنویس نے یہوواہ کی حمد کی کیونکہ اُس کے بندے دوبارہ سے اپنے ملک میں اُس کی عبادت کر سکتے تھے۔‏ لیکن اُس نے یہوواہ خدا کی حمد کرنے کی اَور بھی بہت سی وجوہات بیان کیں۔‏ یہ کون سی وجوہات تھیں؟‏ اور آپ کے پاس ”‏[‏یاہ]‏ کی حمد“‏ کرنے کی کون سی وجوہات ہیں؟‏—‏زبور 147:‏1‏۔‏

یہوواہ خدا شکستہ‌دلوں کو شفا دیتا ہے

4.‏ جب بادشاہ خورس نے بنی‌اِسرائیل کو غلامی سے رِہائی دِلائی تو بنی‌اِسرائیل نے کیسا محسوس کِیا ہوگا اور کیوں؟‏

4 ذرا تصور کریں کہ جب بنی‌اِسرائیل بابل کی غلامی میں تھے تو اُن کی زندگی کتنی مشکل تھی۔‏ بابلی لوگ اُن کا مذاق اُڑاتے تھے اور اُن سے کہتے تھے:‏ ”‏صیوؔن کے گیتوں میں سے ہم کو کوئی گیت سناؤ۔‏“‏ لیکن اِسرائیلی گیت گانا نہیں چاہتے تھے کیونکہ اُن کی خوشی کی سب سے بڑی وجہ یعنی یروشلیم تباہ ہو گیا تھا۔‏ (‏زبور 137:‏1-‏3،‏ 6‏)‏ اُن کے دل ٹوٹ چُکے تھے اور اُنہیں تسلی کی ضرورت تھی۔‏ لیکن پھر یہوواہ خدا نے اپنے وعدے کے مطابق اُن کی مدد کی۔‏ اُس نے ایسا کیسے کِیا؟‏ فارس کے بادشاہ خورس نے بابل کو فتح کر لیا اور بنی‌اِسرائیل سے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ نے مجھ کو تاکید کی ہے کہ مَیں یرؔوشلیم میں .‏ .‏ .‏ اُس کے لئے ایک مسکن بناؤں پس تمہارے درمیان جو کوئی اُس کی ساری قوم میں سے ہو [‏یہوواہ]‏ اُس کا خدا اُس کے ساتھ ہو اور وہ روانہ ہو جائے۔‏“‏ (‏2-‏تواریخ 36:‏23‏)‏ اِن الفاظ سے بابل میں اسیر اِسرائیلیوں کو ضرور تسلی ملی ہوگی۔‏

5.‏ زبورنویس نے یہوواہ خدا کی شفا دینے کی طاقت کے بارے میں کیا کہا؟‏

5 یہوواہ خدا نے بنی‌اِسرائیل کو نہ صرف ایک قوم کے طور پر تسلی دی بلکہ اُن میں سے ہر ایک فرد کو بھی سنبھالا۔‏ وہ آج بھی ایسا ہی کرتا ہے۔‏ زبورنویس نے لکھا کہ یہوواہ خدا ”‏شکستہ‌دلوں کو شفا دیتا ہے اور اُن کے زخم باندھتا ہے۔‏“‏ (‏زبور 147:‏3‏)‏ جب ہم بیمار یا پریشان ہوتے ہیں تو ہم اِس بات پر یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا کو ہماری فکر ہے۔‏ وہ ہمیں تسلی دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔‏ جس طرح زخم باندھنے سے ایک شخص کو آرام ملتا ہے اُسی طرح یہوواہ خدا ہمیں ہمارے دُکھوں سے آرام بخشتا ہے۔‏ (‏زبور 34:‏18؛‏ یسعیاہ 57:‏15‏)‏ وہ ہمیں دانش‌مندی اور طاقت عطا کرتا ہے تاکہ ہم اپنی مشکلوں کا سامنا کر سکیں۔‏—‏یعقوب 1:‏5‏۔‏

یہوواہ خدا کو ہماری فکر ہے اور وہ ہمیں تسلی دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔‏

6.‏ ہم زبور 147:‏4 کے الفاظ پر غور کرنے سے کیا سیکھتے ہیں؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

6 اِس کے بعد زبورنویس نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہوواہ ”‏ستاروں کو شمار کرتا ہے اور اُن سب کے نام رکھتا ہے۔‏“‏ (‏زبور 147:‏4‏)‏ زبورنویس ستاروں کو دیکھ تو سکتا تھا مگر وہ اِس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ اُن کی تعداد کیا ہے۔‏ آج سائنس‌دان جانتے ہیں کہ ہماری کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں اور کائنات میں شاید کھربوں کہکشائیں ہیں۔‏ اِنسان تو ستاروں کو شمار نہیں کر سکتے لیکن یہوواہ خدا کر سکتا ہے۔‏ اُس نے تو ہر ستارے کو ایک نام بھی دیا ہوا ہے۔‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 15:‏41‏)‏ اگر یہوواہ خدا یہ جانتا ہے کہ ہر ستارہ کہاں ہے تو وہ آپ کو بھی اچھی طرح جانتا ہے۔‏ اُسے ہمیشہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کہاں ہیں،‏ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں اور آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے۔‏

7،‏ 8.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ خدا ہمارے بارے میں کیا کچھ سمجھتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ایک مثال سے واضح کریں کہ یہوواہ خدا ہمارے احساسات کو سمجھتا ہے۔‏

7 چونکہ یہوواہ خدا کے ”‏فہم کی اِنتہا نہیں“‏ اِس لیے وہ آپ کی صورتحال کو سمجھتا ہے۔‏ وہ مشکلوں سے نمٹنے کے لیے آپ کو طاقت دے سکتا ہے۔‏ ‏(‏زبور 147:‏5 کو پڑھیں۔‏)‏ شاید آپ کو لگے کہ آپ کی مشکل بہت بڑی ہے اور آپ اِس کا سامنا نہیں کر سکتے۔‏ لیکن خدا سمجھتا ہے کہ آپ کس حد تک مشکلوں کو برداشت کر سکتے ہیں۔‏ ”‏اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں۔‏“‏ (‏زبور 103:‏14‏)‏ ہم عیب‌دار ہیں اِس لیے ہم بار بار ایک جیسی غلطیاں کرتے ہیں۔‏ اکثر ہمیں اِس بات پر پچھتاوا ہوتا ہے کہ ہم نے کوئی غلط بات کہی تھی،‏ ہمارے دل میں کوئی غلط خواہش تھی یا ہم دوسروں سے حسد کرتے تھے۔‏ اگرچہ یہوواہ خدا میں کوئی عیب نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ ہمارے احساسات کو پوری طرح سمجھتا ہے۔‏—‏یسعیاہ 40:‏28‏۔‏

8 کیا آپ نے کبھی یہ محسوس کِیا ہے کہ یہوواہ نے اپنے قوی ہاتھ کے ذریعے مشکلات کا سامنا کرنے میں آپ کی مدد کی ہے؟‏ (‏یسعیاہ 41:‏10،‏ 13‏)‏ کیوکو نامی پہل‌کار بہن نے ایسا محسوس کِیا۔‏ جب وہ خدا کی خدمت کے حوالے سے ایک نئی جگہ گئیں تو وہ بےحوصلہ ہو گئیں۔‏ لیکن کیوکو کو یہ یقین کیسے ہو گیا کہ یہوواہ خدا اُن کی مشکلات کو سمجھتا ہے؟‏ کیوکو نے دیکھا کہ اُن کی نئی کلیسیا میں بہت سے بہن بھائی اُن کے احساسات کو سمجھتے ہیں۔‏ اُنہیں لگا جیسے یہوواہ اُن سے کہہ رہا ہو:‏ ”‏مَیں آپ سے پیار کرتا ہوں،‏ صرف اِس لیے نہیں کہ آپ ایک پہل‌کار ہیں بلکہ اِس لیے کہ آپ میری بیٹی ہیں اور آپ نے اپنی زندگی میرے لیے وقف کی ہے۔‏ مَیں چاہتا ہوں کہ آپ میری گواہ کے طور پر زندگی کا لطف اُٹھائیں۔‏“‏ آپ نے اپنی زندگی میں یہ کیسے دیکھا ہے کہ یہوواہ آپ کے احساسات کو سمجھتا ہے؟‏

یہوواہ خدا ہماری ضروریات پوری کرتا ہے

9،‏ 10.‏ یہوواہ خدا سب سے پہلے ہماری کون سی ضرورت پوری کرتا ہے؟‏ مثال دیں۔‏

9 ہم سب کو خوراک،‏ لباس اور رہائش کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ شاید آپ اِس بات پر پریشان ہوں کہ کل کے لیے کھانا کہاں سے آئے گا۔‏ لیکن یہوواہ خدا نے زمین کو اِس طرح بنایا ہے کہ اِس سے تمام جان‌دار یہاں تک کہ کوّے کے بچے بھی خوراک حاصل کر سکتے ہیں۔‏ ‏(‏زبور 147:‏8،‏ 9 کو پڑھیں۔‏)‏ اگر یہوواہ خدا کوّے کے بچوں کو خوراک فراہم کرتا ہے تو ہم پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہماری ضروریات بھی پوری کرے گا۔‏—‏زبور 37:‏25‏۔‏

10 سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہوواہ خدا ہمیں وہ چیزیں فراہم کرتا ہے جو ہمارے ایمان کو مضبوط رکھنے کے لیے ضروری ہیں اور ہمیں ’‏وہ اِطمینان دیتا ہے جو سمجھ سے باہر ہے۔‏‘‏ (‏فِلپّیوں 4:‏6،‏ 7‏)‏ اِس سلسلے میں موتسوؤ اور اُن کی بیوی کی مثال پر غور کریں۔‏ جب 2011ء میں جاپان میں ایک سونامی آیا تو اُنہوں نے اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی۔‏ اُس دن اُن کی تقریباً ہر چیز برباد ہو گئی۔‏ اُنہوں نے رات اپنے گھر کی دوسری منزل پر موجود ایک کمرے میں گزاری جہاں اندھیرا تھا اور بہت ٹھنڈ تھی۔‏ پھر صبح وہ تنظیم کی کوئی کتاب یا رسالہ ڈھونڈنے لگے جس سے اُنہیں حوصلہ ملے۔‏ اُنہیں صرف 2006ء کی سالانہ کتاب ملی۔‏ جب موتسوؤ نے اِس کے صفحے پلٹے تو اُنہیں ایک مضمون ملا جو تاریخ میں آنے والے بدترین سونامی کے بارے میں تھا۔‏ اِس مضمون میں 2004ء میں اِنڈونیشیا کے جزیرے سوماترا میں آنے والے ایک زلزلے کے بارے میں بتایا گیا تھا جس کی وجہ سے سونامی آیا۔‏ جب موتسوؤ اور اُن کی بیوی نے اِس مضمون میں ہمارے بہن بھائیوں کے تجربے پڑھے تو اُن کی آنکھیں نم ہو گئیں۔‏ اُنہوں نے محسوس کِیا کہ یہوواہ خدا بالکل صحیح وقت پر اُنہیں حوصلہ‌افزائی فراہم کر رہا ہے۔‏ یہوواہ خدا نے دوسرے طریقوں سے بھی اُن کا خیال رکھا۔‏ جاپان کے دوسرے علاقوں سے بہن بھائیوں نے اُن کے لیے کھانا اور کپڑے بھیجے۔‏ لیکن جس بات سے اُنہیں سب سے زیادہ حوصلہ ملا،‏ وہ یہ تھی کہ تنظیم کے کچھ نمائندے اُن کی کلیسیا سے ملنے گئے۔‏ موتسوؤ کہتے ہیں:‏ ”‏مجھے ایسا لگا جیسے یہوواہ ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ ہے اور ہمارا خیال رکھ رہا ہے۔‏ اِس بات سے مجھے بہت تسلی ملی۔‏“‏ اِس مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا پہلے ہمیں وہ چیزیں فراہم کرتا ہے جو ہمارے ایمان کو مضبوط رکھنے کے لیے ضروری ہیں اور پھر وہ ہماری دیگر ضروریات پوری کرتا ہے۔‏

یہوواہ خدا ہماری مدد کرتا ہے

11.‏ ہمیں کیا کرنا چاہیے تاکہ ہمیں یہوواہ خدا کی مدد حاصل ہو؟‏

11 یہوواہ ”‏حلیموں کو سنبھالتا ہے۔‏“‏ وہ ہم سے پیار کرتا ہے اور ہمیشہ ہماری مدد کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔‏ (‏زبور 147:‏6‏)‏ ہمیں کیا کرنا چاہیے تاکہ ہمیں اُس کی مدد حاصل ہو؟‏ ہمیں اُس کی قربت میں رہنا چاہیے۔‏ اِس کے لیے ضروری ہے کہ ہم حلیم ہوں۔‏ (‏صفنیاہ 2:‏3‏)‏ حلیم لوگ معاملات کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے بلکہ یہوواہ خدا پر بھروسا کرتے ہیں کہ وہ اُن کے ساتھ ہونے والی نااِنصافی کو دُور کرے گا اور اُن کی تکلیفوں کو ختم کرے گا۔‏ یہوواہ خدا ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔‏

12،‏ 13.‏ ‏(‏الف)‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمارے ساتھ شفقت سے پیش آئے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا کیسے شخص سے خوش ہوتا ہے؟‏

12 اِس کے برعکس یہوواہ ”‏شریروں کو خاک میں ملا دیتا ہے۔‏“‏ (‏زبور 147:‏6‏)‏ بِلاشُبہ ہم نہیں چاہیں گے کہ ہمارے ساتھ ایسا ہو۔‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمارے ساتھ شفقت سے پیش آئے تو ہمیں اُن چیزوں سے نفرت کرنی چاہیے جن سے وہ نفرت کرتا ہے۔‏ (‏زبور 97:‏10‏)‏ مثال کے طور پر ہمیں حرام‌کاری سے نفرت کرنی چاہیے۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں ہر اُس چیز سے دُور رہنا چاہیے جس کی وجہ سے ہم حرام‌کاری کرنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں،‏ مثلاً فحش مواد سے۔‏ (‏زبور 119:‏37؛‏ متی 5:‏28‏)‏ ایسا کرنا مشکل ہو سکتا ہے لیکن اِس کا بہت فائدہ ہے کیونکہ اِس طرح ہمیں یہوواہ کی برکت حاصل ہوگی۔‏

13 غلط خواہشوں پر قابو پانے کے لیے ہمیں خدا پر بھروسا کرنا چاہیے۔‏ لیکن اگر ہم اُن چیزوں پر بھروسا کریں گے جن پر عموماً اِنسان بھروسا کرتے ہیں تو کیا یہوواہ خدا خوش ہوگا؟‏ جی نہیں۔‏ زبورنویس نے لکھا:‏ ’‏وہ گھوڑے کی طاقت سے لطف‌اندوز نہیں ہوتا۔‏‘‏ کیا ہمیں اپنی طاقت پر یا دوسرے اِنسانوں پر بھروسا کرنا چاہیے؟‏ ہرگز نہیں کیونکہ یہوواہ ’‏آدمی کی مضبوط ٹانگوں سے خوش نہیں ہوتا۔‏‘‏ (‏زبور 147:‏10‏،‏ اُردو جیو ورشن‏)‏ اِس کی بجائے ہمیں دُعا میں یہوواہ خدا سے یہ اِلتجا کرنی چاہیے کہ وہ ہماری کمزوریوں پر قابو پانے میں ہماری مدد کرے۔‏ شاید ہمیں بار بار یہوواہ خدا سے مدد مانگنی پڑے لیکن وہ ہماری دُعاؤں کو سننے سے کبھی نہیں اُکتاتا۔‏ وہ ”‏اُن سے خوش ہے جو اُس سے ڈرتے ہیں اور اُن سے جو اُس کی شفقت کے اُمیدوار ہیں۔‏“‏ (‏زبور 147:‏11‏)‏ چونکہ یہوواہ خدا ہمارے ساتھ شفقت سے پیش آتا ہے اِس لیے ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہماری غلط خواہشات پر قابو پانے میں ہماری مدد کرتا رہے گا۔‏

14.‏ زبورنویس کو کس بات پر پورا یقین تھا؟‏

14 یہوواہ خدا ہمیں یقین دِلاتا ہے کہ وہ مسئلوں سے نمٹنے میں ہماری مدد کرے گا۔‏ جب بنی‌اِسرائیل یروشلیم واپس آئے تو زبورنویس نے اِس بات پر غور کِیا کہ یہوواہ خدا کیسے اُن کی مدد کر رہا تھا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏اُس نے تیرے پھاٹکوں کے بینڈوں کو مضبوط کِیا ہے۔‏ اُس نے تیرے اندر تیری اولاد کو برکت دی ہے۔‏ وہ تیری حدود میں امن رکھتا ہے۔‏“‏ (‏زبور 147:‏13،‏ 14‏)‏ چونکہ زبورنویس جانتا تھا کہ یہوواہ خدا نے شہر کے پھاٹکوں کو مضبوط کِیا ہے اِس لیے اُس نے خود کو محفوظ محسوس کِیا۔‏ اُسے پورا یقین تھا کہ خدا اپنے بندوں کی حفاظت کرے گا۔‏

جب ہم اپنی مشکلات کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں تو یہوواہ خدا اپنے کلام کے ذریعے ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟‏ (‏پیراگراف 15-‏17 کو دیکھیں۔‏)‏

15-‏17.‏ ‏(‏الف)‏ کبھی کبھار ہم اپنی مشکلات کے بارے میں کیسا محسوس کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا مشکلات میں اپنے کلام کے ذریعے ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟‏ (‏ج)‏ مثال دے کر واضح کریں کہ خدا کا کلام ہماری مدد کرنے کے لیے ”‏تیزرَو“‏ ہے۔‏

15 شاید آپ اپنی مشکلوں کی وجہ سے پریشان ہوں۔‏ لیکن یہوواہ خدا اِن سے نمٹنے کے لیے آپ کو دانش‌مندی عطا کر سکتا ہے۔‏ زبورنویس نے کہا کہ خدا ”‏اپنا حکم زمین پر بھیجتا ہے۔‏ اُس کا کلام نہایت تیزرَو ہے۔‏“‏ پھر اُس نے برف اور پالوں (‏یعنی اَولوں)‏ کا ذکر کِیا اور یہ پوچھا کہ ”‏اُس کی ٹھنڈ کون سہہ سکتا ہے؟‏“‏ پھر اُس نے کہا کہ خدا ”‏اپنا کلام نازل کر کے اُن کو پگھلا دیتا ہے۔‏“‏ (‏زبور 147:‏15-‏18‏)‏ یہوواہ خدا جو سب کچھ جانتا ہے اور کچھ بھی کر سکتا ہے،‏ جو برف اور اَولوں پر اِختیار رکھتا ہے،‏ بِلاشُبہ وہ ہر مشکل پر غالب آنے میں آپ کی مدد کر سکتا ہے۔‏

کیا آپ اپنی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ یہوواہ خدا آپ کی مدد کو تیزی سے پہنچتا ہے؟‏

16 آج یہوواہ خدا اپنے کلام بائبل کے ذریعے ہماری رہنمائی کرتا ہے۔‏ زبورنویس نے کہا کہ یہوواہ کا کلام ”‏تیزرَو“‏ ہے یعنی تیزی سے ہماری مدد کو پہنچتا ہے۔‏ خدا بالکل صحیح وقت پر ہماری رہنمائی کرتا ہے۔‏ ذرا سوچیں کہ آپ کو بائبل،‏ ”‏وفادار اور سمجھ‌دار غلام“‏ کی مطبوعات،‏ جےڈبلیو براڈکاسٹنگ،‏ ہماری ویب‌سائٹ،‏ کلیسیا کے بزرگوں اور دوسرے بہن بھائیوں سے کیسے مدد ملی ہے۔‏ (‏متی 24:‏45‏)‏ کیا آپ اپنی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ یہوواہ خدا آپ کی مدد کو تیزی سے پہنچتا ہے؟‏

17 سیمون نامی بہن نے دیکھا کہ خدا کے کلام کے ذریعے اُنہیں بہت مدد ملی۔‏ وہ خود کو بےکار خیال کرتی تھیں اور سوچتی تھیں کہ یہوواہ خدا اُن سے خوش نہیں ہے۔‏ لیکن بےحوصلہ ہونے کے باوجود بھی اُنہوں نے یہوواہ خدا سے دُعا کرنی نہ چھوڑی اور اُس سے مدد مانگتی رہیں۔‏ وہ پاک کلام کا مطالعہ بھی کرتی رہیں۔‏ سیمون نے کہا:‏ ”‏مَیں کبھی ایسی صورتحال میں نہیں پڑی جس میں مجھے لگا ہو کہ یہوواہ خدا نے مجھے طاقت نہیں دی اور میری رہنمائی نہیں کی۔‏“‏ یوں وہ مثبت سوچ رکھنے کے قابل ہوئیں۔‏

18.‏ ‏(‏الف)‏ ہمارے پاس کون سا اعزاز ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ کے پاس ”‏[‏یاہ]‏ کی حمد“‏ کرنے کی کون سی وجوہات ہیں؟‏

18 زبورنویس جانتا تھا کہ یہوواہ خدا نے زمین کی ساری قوموں میں سے بنی‌اِسرائیل کو اپنی قوم کے طور پر چُنا تھا۔‏ صرف اُنہی کو خدا نے ”‏اپنا کلام“‏ اور ”‏اپنے آئین‌واحکام“‏ دیے تھے۔‏ ‏(‏زبور 147:‏19،‏ 20 کو پڑھیں۔‏)‏ آج ہمارے پاس خدا کے نام سے کہلانے کا اعزاز ہے۔‏ ہم یہوواہ خدا کے شکرگزار ہیں کہ ہم اُسے جانتے ہیں،‏ اُس کے کلام سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں اور اُس کی قربت میں رہ سکتے ہیں۔‏ زبور 147 کے لکھنے والے کی طرح ہمارے پاس بھی بہت سی وجوہات ہیں کہ ہم ”‏[‏یاہ]‏ کی حمد“‏ کریں اور دوسروں کی بھی ایسا کرنے کی حوصلہ‌افزائی کریں۔‏