مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ کی آنکھیں یہوواہ کی طرف لگی ہیں؟‏

کیا آپ کی آنکھیں یہوواہ کی طرف لگی ہیں؟‏

‏”‏تُو جو آسمان پر تخت‌نشین ہے مَیں اپنی آنکھیں تیری طرف اُٹھاتا ہوں۔‏“‏‏—‏زبور 123:‏1‏۔‏

گیت:‏ 32،‏  18

1،‏ 2.‏ یہوواہ کی طرف دیکھنے کا کیا مطلب ہے؟‏

بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏آخری زمانے میں مشکل وقت آئے گا۔‏“‏ (‏2-‏تیمُتھیُس 3:‏1‏)‏ آج ہم اِسی زمانے میں رہ رہے ہیں۔‏ جب تک یہوواہ اِس بُری دُنیا کو ختم کر کے زمین پر حقیقی امن قائم نہیں کرتا،‏ ہماری مشکلات بڑھتی جائیں گی۔‏ لہٰذا ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے:‏ ”‏مَیں مدد اور رہنمائی کے لیے کس کی طرف دیکھتا ہوں؟‏“‏ بِلاشُبہ آپ فوراً یہ جواب دیں گے:‏ ”‏یہوواہ کی طرف۔‏“‏ دراصل یہی اِس سوال کا بہترین جواب ہے۔‏

2 یہوواہ کی طرف دیکھنے کا کیا مطلب ہے؟‏ اور ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ مشکلات کا سامنا کرتے وقت ہماری آنکھیں یہوواہ کی طرف لگی رہیں؟‏ کئی صدیاں پہلے زبورنویس نے اِس بات پر زور دیا کہ مشکل حالات میں یہوواہ کی طرف دیکھتے رہنا کتنا ضروری ہے۔‏ ‏(‏زبور 123:‏1-‏4 کو پڑھیں۔‏)‏ اُس نے کہا کہ ہمارا یہوواہ کی طرف دیکھنا ایسے ہی ہے جیسے ایک غلام اپنے آقا کی طرف دیکھتا ہے۔‏ اِس بات کا کیا مطلب ہے؟‏ ایک غلام اِس آس سے اپنے آقا کی طرف دیکھتا ہے کہ وہ اُسے کھانا دے گا اور اُس کی حفاظت کرے گا۔‏ لیکن اُس کی آنکھیں اِس لیے بھی اپنے آقا کی طرف لگی رہتی ہیں تاکہ وہ یہ جان سکے کہ اُس کا آقا اُس سے کیا چاہتا ہے اور پھر اُس کی مرضی کے مطابق کام کر سکے۔‏ اِسی طرح ہمیں بھی ہر روز دھیان سے خدا کے کلام کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ یہوواہ ہم سے کیا چاہتا ہے اور پھر اُس کی مرضی کے مطابق چل سکیں۔‏ تبھی ہم یہ یقین رکھ پائیں گے کہ یہوواہ ضرورت کے وقت ہماری مدد کرے گا۔‏—‏اِفسیوں 5:‏17‏۔‏

3.‏ مارتھا کی مثال سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏

3 یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمیں ہمیشہ یہوواہ کی طرف دیکھنا چاہیے،‏ کبھی کبھار ہمارا دھیان بٹ سکتا ہے۔‏ یسوع مسیح کی قریبی دوست مارتھا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔‏ ایک موقعے پر اُن کا دھیان بٹ گیا تھا کیونکہ وہ ”‏کھانے کا اِنتظام کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔‏“‏ (‏لُوقا 10:‏40-‏42‏)‏ حالانکہ مارتھا خدا کی وفادار بندی تھیں اور یسوع اُس وقت اُن کے ساتھ تھے تو بھی اُن کا دھیان بٹ گیا۔‏ لہٰذا اِس میں حیرانی کی بات نہیں کہ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔‏ کون سی باتوں کی وجہ سے ہماری آنکھیں یہوواہ سے ہٹ سکتی ہیں؟‏ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ دوسروں کے کاموں کی وجہ سے ہمارا دھیان کیسے بٹ سکتا ہے۔‏ ہم یہ بھی سیکھیں گے کہ ہم اپنی آنکھیں یہوواہ کی طرف کیسے لگائے رکھ سکتے ہیں۔‏

موسیٰ ایک اعزاز سے کیوں محروم ہو گئے؟‏

4.‏ کچھ لوگوں کے لیے یہ حیرانی کی بات کیوں ہو سکتی ہے کہ موسیٰ نے اُس ملک میں جانے کا موقع گنوا دیا جسے بنی‌اِسرائیل کو دینے کا وعدہ خدا نے کِیا تھا؟‏

4 اِس میں کوئی شک نہیں کہ موسیٰ رہنمائی کے لیے یہوواہ کی طرف دیکھتے تھے۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ”‏وہ اَن‌دیکھے خدا کو گویا دیکھ کر ثابت‌قدم رہے۔‏“‏ ‏(‏عبرانیوں 11:‏24-‏27 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس میں یہ بھی لکھا ہے کہ ”‏اُس وقت سے اب تک بنی‌اِسرائیل میں کوئی نبی موسیٰؔ کی مانند جس سے [‏یہوواہ]‏ نے رُوبُرو باتیں کیں نہیں اُٹھا۔‏“‏ (‏اِستثنا 34:‏10‏)‏ اگرچہ موسیٰ،‏ یہوواہ کے قریبی دوست تھے تو بھی اُنہوں نے اُس ملک میں جانے کا موقع گنوا دیا جسے بنی‌اِسرائیل کو دینے کا وعدہ خدا نے کِیا تھا۔‏ (‏گنتی 20:‏12‏)‏ ایسا کیسے ہوا؟‏

5-‏7.‏ مصر سے نکلنے کے تھوڑی دیر بعد بنی‌اِسرائیل نے کیا کِیا اور موسیٰ اِس صورتحال سے کیسے نمٹے؟‏

5 بنی‌اِسرائیل کو مصر سے نکلے ابھی دو مہینے بھی نہیں ہوئے تھے اور وہ کوہِ‌سینا تک بھی نہیں پہنچے تھے کہ ایک سنگین مسئلہ پیدا ہو گیا۔‏ وہ اِس بات پر شکایت کرنے لگے کہ اُن کے پاس پینے کے لیے پانی نہیں ہے۔‏ اُنہوں نے موسیٰ پر بڑبڑانا شروع کر دیا اور صورتحال اِتنی سنگین ہو گئی کہ ”‏موسیٰؔ نے [‏یہوواہ]‏ سے فریاد کر کے کہا کہ مَیں اِن لوگوں سے کیا کروں؟‏ وہ سب تو ابھی مجھے سنگسار کرنے کو تیار ہیں۔‏“‏ (‏خروج 17:‏4‏)‏ یہوواہ نے موسیٰ کو واضح طور پر بتایا کہ وہ اِس صورتحال میں کیا کریں۔‏ اُس نے اُن سے کہا کہ وہ اپنی لاٹھی لیں اور حورب میں ایک چٹان پر ماریں۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏موسیٰؔ نے بنی‌اِسرائیل کے بزرگوں کے سامنے یہی کِیا۔‏“‏ اِس پر چٹان سے پانی پھوٹ نکلا،‏ لوگوں کو کثرت سے پینے کے لیے پانی ملا اور یوں مسئلہ حل ہو گیا۔‏—‏خروج 17:‏5،‏ 6‏۔‏

6 بائبل میں بتایا گیا ہے کہ موسیٰ نے اُس جگہ کا نام مسہ یعنی ”‏اِمتحان“‏ اور مریبہ یعنی ”‏جھگڑا“‏ رکھا۔‏ موسیٰ نے اُس جگہ کے یہ نام کیوں رکھے؟‏ ”‏کیونکہ بنی‌اِسرائیل نے وہاں جھگڑا کِیا اور یہ کہہ کر [‏یہوواہ]‏ کا اِمتحان کِیا کہ [‏یہوواہ]‏ ہمارے بیچ میں ہے یا نہیں۔‏“‏—‏خروج 17:‏7‏۔‏

7 بنی‌اِسرائیل نے مریبہ کے مقام پر جو کچھ کِیا،‏ اُسے دیکھ کر یہوواہ کو کیسا لگا؟‏ یہوواہ کے نزدیک بنی‌اِسرائیل نے صرف موسیٰ کے خلاف نہیں بلکہ اُس کے خلاف بھی بغاوت کی تھی۔‏ ‏(‏زبور 95:‏8،‏ 9 کو پڑھیں۔‏)‏ بنی‌اِسرائیل کی یہ حرکت بہت غلط تھی۔‏ لیکن موسیٰ نے صحیح کام کِیا۔‏ اُنہوں نے رہنمائی کے لیے یہوواہ کی طرف دیکھا اور اُس کی ہدایات پر عمل کِیا۔‏

8.‏ جب ویرانے میں بنی‌اِسرائیل کا سفر ختم ہونے والا تھا تو کیا ہوا؟‏

8 تقریباً 40 سال گزرنے کے بعد دوبارہ سے ایسی ہی صورتحال کھڑی ہو گئی۔‏ اُس وقت ویرانے میں بنی‌اِسرائیل کا سفر ختم ہونے والا تھا۔‏ وہ ملک کنعان کی سرحد کے قریب قادس نامی شہر کے پاس ایک جگہ پر پہنچے۔‏ یہ جگہ بھی مریبہ کے نام سے مشہور ہو گئی۔‏ * لیکن کیوں؟‏ کیونکہ بنی‌اِسرائیل نے اُس جگہ پر بھی پانی نہ ہونے کی شکایت کی۔‏ (‏گنتی 20:‏1-‏5‏)‏ البتہ اِس موقعے پر موسیٰ نے ایک سنگین غلطی کی۔‏

9.‏ یہوواہ نے موسیٰ کو کون سی ہدایات دیں لیکن موسیٰ نے کیا کِیا؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

9 لوگوں کی بغاوت پر موسیٰ نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟‏ ایک مرتبہ پھر اُنہوں نے رہنمائی کے لیے یہوواہ کی طرف دیکھا۔‏ لیکن اِس بار یہوواہ نے موسیٰ کو چٹان پر لاٹھی مارنے کے لیے نہیں کہا۔‏ اُس نے موسیٰ سے کہا کہ وہ اپنی لاٹھی لیں،‏ لوگوں کو چٹان کے پاس اِکٹھا کریں اور پھر ’‏چٹان سے کہیں کہ وہ اپنا پانی دے۔‏‘‏ (‏گنتی 20:‏6-‏8‏)‏ کیا موسیٰ نے اِس ہدایت پر عمل کِیا؟‏ جی نہیں۔‏ وہ اِتنے بیزار ہو چُکے تھے کہ غصے میں آ کر لوگوں پر چلّا اُٹھے:‏ ”‏سنو اَے باغیو!‏ کیا ہم تمہارے لئے اِسی چٹان سے پانی نکالیں؟‏“‏ پھر اُنہوں نے چٹان پر لاٹھی ماری اور ایسا ایک بار نہیں بلکہ دو بار کِیا۔‏—‏گنتی 20:‏10،‏ 11‏۔‏

موسیٰ نے اُن نئی ہدایات پر عمل نہیں کِیا جو یہوواہ نے اُنہیں دی تھیں۔‏

10.‏ موسیٰ نے جو کچھ کِیا،‏ اُس پر یہوواہ کا کیا ردِعمل تھا؟‏

10 یہوواہ کو موسیٰ پر سخت غصہ آیا۔‏ (‏اِستثنا 1:‏37؛‏ 3:‏26‏)‏ لیکن کیوں؟‏ اِس کی ایک وجہ شاید یہ تھی کہ موسیٰ نے اُن نئی ہدایات پر عمل نہیں کِیا جو یہوواہ نے اُنہیں دی تھیں۔‏

11.‏ جب موسیٰ نے چٹان پر لاٹھی ماری اور اِس سے پانی پھوٹ نکلا تو شاید بنی‌اِسرائیل کو یہ کیوں لگا ہو کہ یہ یہوواہ کا معجزہ نہیں تھا؟‏

11 یہوواہ کے موسیٰ پر غصہ ہونے کی ایک اَور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔‏ پہلے واقعے میں جس جگہ کا نام مریبہ رکھا گیا،‏ وہاں موجود چٹانیں گرینائٹ کی بنی ہوئی تھیں۔‏ گرینائٹ اِتنا مضبوط ہوتا ہے کہ چاہے اِس پر کتنے ہی زور سے مارا جائے،‏ اِس سے پانی نکلنے کی توقع نہیں کی جاتی۔‏ لیکن دوسرا واقعہ جس مریبہ پر پیش آیا،‏ وہاں موجود چٹانیں فرق تھیں۔‏ وہاں کی زیادہ‌تر چٹانیں چُونا پتھر سے بنی ہوئی تھیں۔‏ چُونا پتھر گرینائٹ کے مقابلے میں اِتنا مضبوط نہیں ہوتا اور سوراخ‌دار ہوتا ہے۔‏ اِس میں پانی رِس رِس کر زمین کی تہہ میں جمع ہوتا رہتا ہے۔‏ لہٰذا اِس میں سوراخ کر کے پانی حاصل کِیا جا سکتا ہے۔‏ اِس لیے جب موسیٰ نے چٹان سے یہ کہنے کی بجائے کہ وہ اپنا پانی دے،‏ اِس پر لاٹھی ماری تو ہو سکتا ہے کہ بنی‌اِسرائیل کو لگا ہو کہ یہ یہوواہ کا معجزہ نہیں ہے بلکہ بس لاٹھی مارنے سے پانی پھوٹ نکلا ہے۔‏ *

موسیٰ کی نافرمانی

12.‏ یہوواہ کے موسیٰ اور ہارون پر غصہ ہونے کی ایک اَور وجہ کیا ہو سکتی ہے؟‏

12 ایک اَور وجہ بھی ہو سکتی ہے جس کی بِنا پر یہوواہ کو موسیٰ اور ہارون پر غصہ آیا۔‏ موسیٰ نے لوگوں سے کہا:‏ ”‏کیا ہم تمہارے لئے اِسی چٹان سے پانی نکالیں؟‏“‏ جب اُنہوں نے لفظ ”‏ہم“‏ اِستعمال کِیا تو غالباً وہ اپنی اور ہارون کی بات کر رہے تھے۔‏ ایسا کرنے سے اُنہوں نے خدا کے لیے احترام کی کمی ظاہر کی کیونکہ اُنہوں نے اُس معجزے کا سہرا صرف یہوواہ کے سر نہیں باندھا۔‏ زبور کی کتاب میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏مریبہ کے چشمے پر بھی اُنہوں نے رب کو غصہ دِلایا۔‏ اُن ہی کے باعث موسیٰ کا بُرا حال ہوا۔‏ کیونکہ اُنہوں نے اُس کے دل میں اِتنی تلخی پیدا کی کہ اُس کے مُنہ سے بےجا باتیں نکلیں۔‏“‏ (‏زبور 106:‏32،‏ 33‏،‏ اُردو جیو ورشن؛‏ گنتی 27:‏14‏)‏ موسیٰ نے یہوواہ کو وہ عزت نہیں بخشی جس کا وہ حق‌دار تھا۔‏ یہوواہ نے موسیٰ اور ہارون سے بات کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏تُم نے میرے کلام کے خلاف عمل کِیا۔‏“‏ (‏گنتی 20:‏24‏)‏ یہ واقعی ایک سنگین گُناہ تھا۔‏

13.‏ یہوواہ نے موسیٰ کو جو سزا دی،‏ وہ جائز کیوں تھی؟‏

13 ویسے تو یہوواہ تمام اِسرائیلیوں سے وفاداری کی توقع کرتا تھا لیکن وہ موسیٰ اور ہارون سے زیادہ توقعات رکھتا تھا کیونکہ وہ اُس کے بندوں کی پیشوائی کر رہے تھے۔‏ (‏لُوقا 12:‏48‏)‏ ماضی میں یہوواہ نے بنی‌اِسرائیل کی ایک ساری پُشت کو ملک کنعان جانے کی اِجازت نہیں دی تھی کیونکہ اُنہوں نے اُس کے خلاف بغاوت کی تھی۔‏ (‏گنتی 14:‏26-‏30،‏ 34‏)‏ لہٰذا اِنصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہوواہ نے موسیٰ کی نافرمانی پر اُنہیں بھی یہی سزا دی۔‏ دیگر باغیوں کی طرح اُنہیں بھی ملک کنعان جانے کی اِجازت نہیں ملی۔‏

نافرمانی کی وجہ

14،‏ 15.‏ موسیٰ،‏ یہوواہ کی نافرمانی کیوں کر بیٹھے؟‏

14 موسیٰ،‏ یہوواہ کی نافرمانی کیوں کر بیٹھے؟‏ ذرا پھر سے زبور 106:‏32،‏ 33 کے الفاظ پر غور کریں:‏ ”‏مریبہ کے چشمے پر بھی اُنہوں نے رب کو غصہ دِلایا۔‏ اُن ہی کے باعث موسیٰ کا بُرا حال ہوا۔‏ کیونکہ اُنہوں نے اُس کے دل میں اِتنی تلخی پیدا کی کہ اُس کے مُنہ سے بےجا باتیں نکلیں۔‏“‏ اگرچہ لوگوں نے بغاوت تو یہوواہ کے خلاف کی تھی لیکن تلخی موسیٰ کے دل میں پیدا ہو گئی۔‏ اُنہوں نے ضبطِ‌نفس کا مظاہرہ نہیں کِیا اور بِلاسوچے سمجھے ایسی باتیں کہہ دیں جن کا اُنہیں بعد میں نقصان ہوا۔‏

15 دوسروں کے کاموں پر دھیان دینے کی وجہ سے موسیٰ کی آنکھیں یہوواہ سے ہٹ گئیں۔‏ جب لوگوں نے پہلی دفعہ پانی کے حوالے سے شکایت کی تو موسیٰ نے صحیح کام کِیا۔‏ (‏خروج 7:‏6‏)‏ لیکن ہو سکتا ہے کہ بعد میں اِتنے سال تک بنی‌اِسرائیل کو بغاوت کرتے دیکھ کر وہ تنگ آ گئے ہوں۔‏ شاید اُن کے احساسات اُن پر اِتنے حاوی ہو گئے تھے کہ اُن کا دھیان یہوواہ کی بڑائی کرنے سے ہٹ گیا۔‏

ہمیں اپنی آنکھیں یہوواہ کی طرف لگائے رکھنی ہوں گی اور ہمیشہ اُس کی فرمانبرداری کرنی ہوگی۔‏

16.‏ یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم موسیٰ کی مثال پر غور کریں؟‏

16 اگر موسیٰ جیسے خدا کے وفادار نبی کا دھیان بٹ سکتا ہے اور اُن سے گُناہ ہو سکتا ہے تو ہمارے ساتھ بھی آسانی سے ایسا ہو سکتا ہے۔‏ موسیٰ اُس وقت ملک کنعان میں داخل ہونے والے تھے اور آج ہم نئی دُنیا میں داخل ہونے والے ہیں۔‏ (‏2-‏پطرس 3:‏13‏)‏ بےشک ہم نہیں چاہیں گے کہ ہم اِس بیش‌قیمت اعزاز سے محروم رہ جائیں۔‏ لیکن نئی دُنیا میں جانے کے لیے ہمیں اپنی آنکھیں یہوواہ کی طرف لگائے رکھنی ہوں گی اور ہمیشہ اُس کی فرمانبرداری کرنی ہوگی۔‏ (‏1-‏یوحنا 2:‏17‏)‏ موسیٰ کی غلطی سے ہم کون سے اہم سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

دوسروں کے کاموں کی وجہ سے اپنا دھیان نہ بٹنے دیں

17.‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم مایوسی اور بیزاری کی حالت میں ضبطِ‌نفس کا دامن نہ چھوڑیں؟‏

17 مایوسی اور بیزاری کی حالت میں ضبطِ‌نفس کا دامن نہ چھوڑیں۔‏ زندگی میں کچھ مسئلے ایسے ہو سکتے ہیں جن کا ہمیں بار بار سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ ایسی صورتحال میں ہم بائبل میں درج اِس نصیحت پر عمل کر سکتے ہیں:‏ ”‏اچھے کام کرنے میں ہمت نہ ہاریں کیونکہ اگر ہم ہمت نہیں ہاریں گے تو ہم مقررہ وقت پر فصل کاٹیں گے۔‏“‏ (‏گلتیوں 6:‏9؛‏ 2-‏تھسلُنیکیوں 3:‏13‏)‏ جب کوئی شخص یا صورتحال ہمیں بار بار مایوس اور بیزار کرتی ہے تو ہمیں اپنے غصے اور زبان کو قابو میں رکھنا چاہیے۔‏ (‏امثال 10:‏19؛‏ 17:‏27؛‏ متی 5:‏22‏)‏ جب دوسرے ہمیں غصہ دِلاتے ہیں تو ہمیں ”‏خدا کا غضب ظاہر“‏ ہونے دینا چاہیے۔‏ ‏(‏رومیوں 12:‏17-‏21 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں غصے میں آنے کی بجائے صبر سے یہوواہ کا اِنتظار کرنا چاہیے کہ وہ اپنے وقت پر ہمارے مسئلے کو حل کرے گا۔‏ اگر ہم یہوواہ کی طرف دیکھنے کی بجائے خود اپنا بدلہ لینے کی کوشش کریں گے تو ہم اُس کے لیے احترام ظاہر نہیں کر رہے ہوں گے۔‏

18.‏ ہدایات پر عمل کرنے کے حوالے سے ہمیں کیا بات یاد رکھنی چاہیے؟‏

18 حالیہ ہدایات پر عمل کریں۔‏ خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا مَیں اُن حالیہ ہدایات پر عمل کرتا ہوں جو یہوواہ نے دی ہیں؟‏“‏ ہمیں ہر کام کے سلسلے میں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم اِسے اُسی طریقے سے کریں گے جس طریقے سے پہلے کرتے آئے ہیں۔‏ اِس کی بجائے ہمیں ہر اُس نئی ہدایت پر فوراً عمل کرنا چاہیے جو یہوواہ اپنی تنظیم کے ذریعے ہمیں دیتا ہے۔‏ (‏عبرانیوں 13:‏17‏)‏ اِس کے علاوہ ہمیں ’‏لکھی ہوئی باتوں سے آگے نہیں بڑھنا‘‏ چاہیے۔‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 4:‏6‏)‏ جب ہم ہر معاملے میں یہوواہ کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں تو ہم اپنی آنکھیں یہوواہ کی طرف لگائے رکھتے ہیں۔‏

موسیٰ نے دوسروں کی غلطیوں پر جیسا ردِعمل دِکھایا،‏ اُس سے ہم کون سا سبق سیکھتے ہیں؟‏ (‏پیراگراف 19 کو دیکھیں۔‏)‏

19.‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ دوسروں کی غلطیوں کی وجہ سے یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی کمزور نہ پڑ جائے؟‏

19 دوسروں کی غلطیوں کی وجہ سے یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کمزور نہ پڑنے دیں۔‏ اگر ہماری آنکھیں یہوواہ کی طرف لگی رہیں گی تو ہم دوسروں کے کاموں کی وجہ سے نہ تو یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کمزور ہونے دیں گے اور نہ ہی غصے میں آئیں گے۔‏ یہ بات خاص طور پر اُس وقت اہم ہے جب موسیٰ کی طرح ہمارے پاس بھی خدا کی تنظیم میں ذمےداریاں ہوں۔‏ یہ سچ ہے کہ ہم سب کو نجات حاصل کرنے کے لیے سخت کوشش کرنی چاہیے اور یہوواہ کی فرمانبرداری کرنی چاہیے۔‏ (‏فِلپّیوں 2:‏12‏)‏ البتہ ہمارے پاس جتنی زیادہ ذمےداریاں ہوتی ہیں،‏ یہوواہ ہم سے اُتنی زیادہ توقعات رکھتا ہے۔‏ (‏لُوقا 12:‏48‏)‏ لیکن اگر ہم واقعی یہوواہ سے پیار کرتے ہیں تو کوئی بھی چیز ہمیں صحیح کام کرنے سے نہیں روکے گی اور نہ ہی خدا کی محبت سے جُدا کر پائے گی۔‏—‏زبور 119:‏165؛‏ رومیوں 8:‏37-‏39‏۔‏

20.‏ ہمیں کیا عزم کرنا چاہیے؟‏

20 ہم ایک بہت مشکل دَور میں رہ رہے ہیں۔‏ اِس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ہماری آنکھیں یہوواہ کی طرف لگی رہیں ”‏جو آسمان پر تخت‌نشین ہے۔‏“‏ یوں ہم یہ سمجھ سکیں کہ وہ ہم سے کیا چاہتا ہے۔‏ موسیٰ کی مثال سے ہم سیکھتے ہیں کہ ہمیں کبھی بھی دوسروں کے کاموں کی وجہ سے یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی میں دراڑ نہیں آنے دینی چاہیے۔‏ لہٰذا آئیں،‏ یہ عزم کریں کہ دوسروں کی غلطیوں پر آپے سے باہر ہونے کی بجائے ہم اپنی ’‏آنکھیں یہوواہ اپنے خدا کی طرف لگائے رکھیں گے جب تک وہ ہم پر رحم نہ کرے۔‏‘‏—‏زبور 123:‏1،‏ 2‏۔‏

^ پیراگراف 8 مریبہ کا یہ مقام اُس مریبہ سے فرق تھا جو رفیدیم کے قریب تھا اور جسے مسہ بھی کہا جاتا تھا۔‏ اِن دونوں جگہوں کو مریبہ کہا جانے لگا کیونکہ بنی‌اِسرائیل نے دونوں جگہوں پر جھگڑا کِیا۔‏‏—‏”‏کتابِ‌مُقدس کی تحقیق کے لیے گائیڈ“‏ کے حصہ 7 میں دیے گئے نقشے کو دیکھیں۔‏

^ پیراگراف 11 بائبل کے ایک عالم نے بتایا کہ یہودی روایت کے مطابق باغی اِسرائیلیوں نے یہ دعویٰ کِیا کہ یہ کوئی معجزہ نہیں تھا کیونکہ اُن کے مطابق موسیٰ جانتے تھے کہ اُس چٹان میں پانی ہے۔‏ اِس لیے اُن اِسرائیلیوں نے کہا کہ اگر موسیٰ کسی دوسری چٹان سے پانی نکال کر دِکھائیں گے تو پتہ چلے گا کہ اُن کے پاس واقعی معجزے کرنے کی طاقت ہے۔‏ لیکن چونکہ یہ بات صرف ایک روایت ہے اِس لیے ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ بنی‌اِسرائیل نے ایسا کچھ کہا تھا۔‏