مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ کس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں؟‏

آپ کس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں؟‏

‏”‏خدا بےاِنصاف نہیں ہے۔‏ وہ اُس محنت اور محبت کو نہیں بھولے گا جو آپ نے .‏ .‏ .‏ اُس کے نام کے لیے ظاہر کی ہے۔‏“‏‏—‏عبرانیوں 6:‏10‏۔‏

گیت:‏ 4،‏  51

1.‏ ہم سب میں فطری طور پر کون سی خواہش ہوتی ہے؟‏

اگر کوئی شخص جسے آپ جانتے ہیں اور جس کا احترام کرتے ہیں،‏ آپ کا نام بھول جائے،‏ یہاں تک کہ آپ کو پہچانے بھی نہیں تو آپ کو کیسا لگے گا؟‏ بِلاشُبہ اِس پر آپ کو بڑا دُکھ ہوگا۔‏ لیکن کیوں؟‏ کیونکہ ہم سب میں فطری طور پر یہ خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے ہمیں پہچانیں۔‏ لیکن ہم صرف یہ نہیں چاہتے کہ لوگ پہچانیں کہ ہم کون ہیں۔‏ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہماری شخصیت سے واقف ہوں،‏ یہ جانیں کہ ہم نے کیا کچھ انجام دیا ہے اور اِس کی بِنا پر ہماری قدر کریں۔‏—‏گنتی 11:‏16؛‏ ایوب 31:‏6‏۔‏

2،‏ 3.‏ ہماری یہ خواہش کہ دوسرے ہمیں پہچانیں اور ہماری قدر کریں،‏ غلط رُخ کیسے اِختیار کر سکتی ہے؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

2 اگر ہم محتاط نہیں رہتے تو ہماری یہ خواہش کہ دوسرے ہمیں پہچانیں اور ہماری قدر کریں،‏ غلط رُخ اِختیار کر سکتی ہے۔‏ شیطان کی دُنیا ہمارے ذہن میں یہ بات ڈال سکتی ہے کہ ہم دوسروں کی نظر میں مقبول اور اہم بنیں۔‏ ایسی صورت میں ہم اپنے آسمانی باپ یہوواہ کو وہ عزت اور اُس کی عبادت کو وہ اہمیت نہیں دیتے جس کا وہ حق‌دار ہے۔‏—‏مکاشفہ 4:‏11‏۔‏

3 یسوع کے زمانے میں بعض مذہبی رہنما لوگوں کی نظر میں مقبول بننا اور اُن سے اپنی تعریفیں کروانا چاہتے تھے۔‏ اِسی لیے یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏شریعت کے عالموں سے خبردار رہیں۔‏ اُنہیں لمبے لمبے چوغے پہن کر پھرنے کا بڑا شوق ہے۔‏ وہ چاہتے ہیں کہ بازاروں میں لوگ اُنہیں سلام کریں۔‏ وہ عبادت‌گاہوں میں اگلی [‏”‏سب سے اچھی،‏“‏ فٹ‌نوٹ]‏ کُرسیوں اور دعوتوں میں سب سے اہم جگہوں پر بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔‏“‏ یسوع نے یہ بھی کہا:‏ ”‏یہ لوگ زیادہ سخت سزا پائیں گے۔‏“‏ (‏لُوقا 20:‏46،‏ 47‏)‏ اِس کے برعکس یسوع مسیح نے اُس غریب بیوہ کی تعریف کی جس نے عطیات کے ڈبے میں دو چھوٹے سِکے ڈالے کیونکہ وہ لوگوں کی نظر میں مقبول بننے کے لیے ایسا نہیں کر رہی تھی۔‏ (‏لُوقا 21:‏1-‏4‏)‏ اِس طرح یسوع نے واضح کِیا کہ ہمیں کس کی نظر میں مقبول بننے اور کس کی خوشنودی حاصل کرنے کو اہمیت دینی چاہیے۔‏ اِس مضمون میں ہم اِسی بات پر غور کریں گے۔‏

خدا کی خوشنودی یا دُنیا میں مقبولیت؟‏

4.‏ کس کی نظر میں مقبول بننا اور کس کی خوشنودی حاصل کرنا سب سے اہم ہے اور کیوں؟‏

4 کس کی نظر میں مقبول بننا اور کس کی خوشنودی حاصل کرنا سب سے اہم ہے؟‏ بہت سے لوگ اعلیٰ تعلیم،‏ کامیاب کاروبار یا کھیلوں اور فن کے ذریعے دُنیا میں مقبول بننے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ لیکن اِس سلسلے میں پولُس رسول نے واضح کِیا:‏ ”‏اب جبکہ آپ خدا کو جان گئے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ خدا آپ کو جان گیا ہے تو آپ فضول اور گھٹیا باتوں کی طرف لوٹ کر پھر سے اُن کی غلامی کیوں کرنا چاہتے ہیں؟‏“‏ (‏گلتیوں 4:‏9‏)‏ یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ کائنات کا حاکمِ‌اعلیٰ ہمیں جانتا ہے۔‏ یہوواہ ہماری شخصیت سے اچھی طرح واقف ہے،‏ وہ ہم سے پیار کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کی قربت میں رہیں۔‏ دراصل جب یہوواہ خدا ہمیں اپنے دوستوں کے طور پر قبول کرتا ہے تو وہ مقصد پورا ہو جاتا ہے جس کے تحت خدا نے ہمیں بنایا تھا۔‏—‏واعظ 12:‏13،‏ 14‏۔‏

5.‏ ہم یہوواہ کے دوستوں کے طور پر اُس کی خوشنودی کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟‏

5 ہم جانتے ہیں کہ موسیٰ کو یہوواہ خدا کے دوست کے طور پر اُس کی خوشنودی حاصل تھی۔‏ جب اُنہوں نے خدا سے درخواست کی کہ ”‏مجھ کو اپنی راہ بتا“‏ تو یہوواہ نے اُنہیں جواب دیا:‏ ”‏مَیں یہ کام بھی جس کا تُو نے ذکر کِیا ہے کروں گا کیونکہ تجھ پر میرے کرم کی نظر ہے اور مَیں تجھ کو بنام پہچانتا ہوں۔‏“‏ (‏خروج 33:‏12-‏17‏)‏ اگر ہم بھی یہوواہ کے دوست بننے کی کوشش کریں گے تو وہ ہمارے بارے میں بھی یہ کہہ سکے گا کہ وہ ہمیں ذاتی طور پر پہچانتا ہے۔‏ لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہمیں یہوواہ کے دوستوں کے طور پر اُس کی خوشنودی حاصل ہو؟‏ ہمیں یہوواہ سے محبت کرنی چاہیے اور اُس کے لیے اپنی زندگی وقف کرنی چاہیے۔‏‏—‏1-‏کُرنتھیوں 8:‏3 کو پڑھیں۔‏

6،‏ 7.‏ یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی کیسے ٹوٹ سکتی ہے؟‏

6 ہمیں یہوواہ خدا کے ساتھ اپنی قیمتی دوستی کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔‏ پہلی صدی عیسوی میں گلتیوں میں رہنے والے مسیحیوں کی طرح ہمیں بھی اِس دُنیا کی ”‏فضول اور گھٹیا باتوں“‏ کی غلامی نہیں کرنی چاہیے جن کے اندر اِس دُنیا میں کامیابی اور شہرت حاصل کرنا بھی شامل ہے۔‏ (‏گلتیوں 4:‏9‏)‏ گلتیہ میں رہنے والے مسیحی خدا کو جان چُکے تھے اور خدا بھی اُنہیں جانتا تھا۔‏ لیکن پولُس نے اُنہیں کہا کہ وہ بےکار باتوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔‏

7 کیا ہمارے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے؟‏ جی ہاں۔‏ جب ہم نے سچائی سیکھی تو شاید پولُس کی طرح ہم نے بھی شیطان کی دُنیا سے ملنے والی شہرت اور کامیابی کو قربان کر دیا۔‏ ‏(‏فِلپّیوں 3:‏7،‏ 8 کو پڑھیں۔‏)‏ شاید ہم نے سکالرشپ،‏ اچھی نوکری اور بہت سا پیسہ کمانے کے موقع چھوڑ دیے۔‏ یا شاید ہم اچھے موسیقار،‏ گلوکار یا اچھے کھلاڑی بن کر خوب مقبولیت اور دولت حاصل کر سکتے تھے لیکن ہم نے ایسے موقعوں کو بھی ٹھکرا دیا۔‏ (‏عبرانیوں 11:‏24-‏27‏)‏ یہ سمجھ‌داری کی بات نہیں ہوگی کہ ہم ایسے فیصلوں پر پچھتائیں اور یہ سوچیں کہ اگر ہم نے اُن موقعوں سے فائدہ اُٹھایا ہوتا تو آج ہماری زندگی زیادہ بہتر ہوتی۔‏ ایسی سوچ ہمیں پھر سے دُنیا کی اُن چیزوں کے پیچھے بھاگنے پر مائل کر سکتی ہے جن کے بارے میں ہم جان چُکے ہیں کہ وہ ”‏فضول اور گھٹیا“‏ ہیں۔‏

یہوواہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خواہش کو مضبوط کریں

8.‏ ہمارے دل میں یہوواہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خواہش مضبوط کیسے ہو سکتی ہے؟‏

8 ہم اپنے دل میں یہوواہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خواہش کو اِتنا مضبوط کیسے کر سکتے ہیں کہ ہمارے اندر دُنیا میں مقبول بننے کی تمنا نہ رہے؟‏ ہمیں دو اہم باتوں کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔‏ پہلی یہ کہ یہوواہ کی خوشنودی ہمیشہ اُن لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو وفاداری سے اُس کی خدمت کرتے ہیں۔‏ ‏(‏عبرانیوں 6:‏10 کو پڑھیں؛‏ عبرانیوں 11:‏6‏)‏ یہوواہ اپنے تمام وفادار خادموں کی قدر کرتا ہے اِس لیے اُس کے نزدیک اُن کی محنت کو نظرانداز کرنا نااِنصافی ہے۔‏ ”‏یہوواہ اپنے بندوں کو جانتا ہے۔‏“‏ (‏2-‏تیمُتھیُس 2:‏19‏)‏ وہ ”‏صادقوں کی راہ جانتا ہے“‏ اور اُسے معلوم ہے کہ اُنہیں آزمائش کے وقت کیسے بچانا ہے۔‏—‏زبور 1:‏6؛‏ 2-‏پطرس 2:‏9‏۔‏

9.‏ کچھ مثالیں دیں جن میں یہوواہ نے خاص طریقوں سے ظاہر کِیا کہ اُس کے بندوں کو اُس کی خوشنودی حاصل ہے۔‏

9 بعض موقعوں پر یہوواہ نے خاص طریقوں سے ظاہر کِیا کہ اُس کے بندوں کو اُس کی خوشنودی حاصل ہے۔‏ (‏2-‏تواریخ 20:‏20،‏ 29‏)‏ مثال کے طور پر ذرا سوچیں کہ یہوواہ نے بحرِقلزم (‏بحیرۂاحمر)‏ پر بنی‌اِسرائیل کو فرعون کی طاقت‌ور فوج کے ہاتھ سے کیسے بچایا۔‏ (‏خروج 14:‏21-‏30؛‏ زبور 106:‏9-‏11‏)‏ یہ واقعہ اِتنا شان‌دار تھا کہ اُس علاقے کے لوگ 40 سال گزرنے کے بعد بھی اِس کے بارے میں بات کرتے تھے۔‏ (‏یشوع 2:‏9-‏11‏)‏ جب ہم یہ یاد رکھتے ہیں کہ یہوواہ نے ماضی میں کیسے اپنے بندوں کے لیے محبت ظاہر کی اور اُنہیں بچایا تو ہمیں بڑا حوصلہ ملتا ہے کیونکہ بہت جلد ماجوج کا جوج ہم پر حملہ کرنے والا ہے۔‏ (‏حِزقی‌ایل 38:‏8-‏12‏)‏ اُس وقت ہم اِس بات سے بہت خوش ہوں گے کہ ہم نے دُنیا میں مقبول بننے کی نہیں بلکہ یہوواہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔‏

کبھی کبھار یہوواہ اپنے بندوں کو ایسے طریقوں سے اجر دیتا ہے جن کی اُنہیں توقع بھی نہیں ہوتی۔‏

10.‏ ہمیں اَور کون سی بات یاد رکھنی چاہیے؟‏

10 دوسری بات جو ہمیں یاد رکھنی چاہیے،‏ وہ یہ ہے کہ یہوواہ ہمیں ایسے طریقے سے اپنی خوشنودی عطا کر سکتا ہے جس کی شاید ہمیں توقع بھی نہ ہو۔‏ جو لوگ صرف دوسروں سے تعریف حاصل کرنے کے لیے اچھے کام کرتے ہیں،‏ خدا اُنہیں اجر نہیں دے گا۔‏ یسوع مسیح نے کہا کہ جب دوسرے اِس طرح کے لوگوں کی تعریف کرتے ہیں تو یہی اُن کا اجر ہوتا ہے۔‏ ‏(‏متی 6:‏1-‏5 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس کے برعکس یہوواہ اُن لوگوں کو دیکھتا ہے جن کے اچھے کاموں کے لیے اُن کی تعریف نہیں کی جاتی۔‏ وہ اُن کے کاموں کو نظرانداز نہیں کرتا بلکہ اُنہیں اجر اور برکتوں سے نوازتا ہے۔‏ اور کبھی کبھار یہوواہ اپنے بندوں کو ایسے طریقوں سے اجر دیتا ہے جن کی اُنہیں توقع بھی نہیں ہوتی۔‏ آئیں اِس سلسلے میں کچھ مثالوں پر غور کریں۔‏

مریم کو ”‏خدا کی خوشنودی حاصل ہوئی“‏

11.‏ یہوواہ نے کیسے ظاہر کِیا کہ مریم کو اُس کی خوشنودی حاصل ہے؟‏

11 یہوواہ نے مریم نامی ایک خاکسار عورت کو چُنا تاکہ وہ یسوع کی ماں بنے۔‏ مریم ایک چھوٹے سے شہر ناصرت میں رہتی تھیں۔‏ ناصرت،‏ یروشلیم سے کافی دُور تھا جہاں عالیشان ہیکل تھی۔‏ ‏(‏لُوقا 1:‏26-‏33 کو پڑھیں۔‏)‏ یہوواہ نے مریم کو ہی کیوں چُنا؟‏ یہوواہ کے فرشتے جبرائیل نے اُن سے کہا:‏ ”‏آپ کو خدا کی خوشنودی حاصل ہوئی ہے۔‏“‏ بعد میں مریم نے اپنی رشتےدار الیشبع سے جو باتیں کیں،‏ اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہوواہ کی قریبی دوست تھیں۔‏ (‏لُوقا 1:‏46-‏55‏)‏ مریم،‏ یہوواہ کی وفادار تھیں اور یہوواہ اِس بات سے واقف تھا۔‏ اُن کی وفاداری کے صلے میں یہوواہ نے اُنہیں ایسے طریقے سے برکت دی جو اُن کے وہم‌وگمان میں بھی نہ تھا۔‏

12،‏ 13.‏ یہوواہ نے یسوع کو اُن کی پیدائش کے موقعے پر اور پیدائش کے 40 دن بعد عزت کیسے بخشی؟‏

12 جب یسوع پیدا ہوئے تو یہوواہ نے اُن کی پیدائش کے بارے میں کس کو بتایا؟‏ اُس نے اِس بارے میں یروشلیم اور بیت‌لحم کے اعلیٰ افسروں اور حاکموں کو نہیں بتایا بلکہ اُس نے فرشتوں کو بھیج کر یہ خبر اُن چرواہوں تک پہنچائی جو بیت‌لحم سے باہر اپنی بھیڑوں کی دیکھ‌بھال کر رہے تھے۔‏ (‏لُوقا 2:‏8-‏14‏)‏ پھر یہ چرواہے ننھے یسوع کو دیکھنے کے لیے گئے۔‏ (‏لُوقا 2:‏15-‏17‏)‏ مریم اور یوسف یہ دیکھ کر حیران رہ گئے ہوں گے کہ یہوواہ نے اِس طرح سے یسوع کو عزت بخشی ہے۔‏ یہوواہ کا کام کرنے کا طریقہ شیطان کے طریقے سے بالکل فرق تھا۔‏ جب شیطان نے نجومیوں کو یسوع اور اُن کے ماں باپ کے پاس بھیجا تو یروشلیم کے سب لوگوں کو یسوع کی پیدائش کی خبر مل گئی اور اِسے سُن کر وہ سب گھبرا گئے۔‏ (‏متی 2:‏3‏)‏ اِس خبر کے پھیلنے کا انجام یہ ہوا کہ بہت سے معصوم بچوں کو قتل کر دیا گیا۔‏—‏متی 2:‏16‏۔‏

13 موسیٰ کی شریعت میں یہ حکم تھا کہ ماں اپنے بیٹے کی پیدائش کے 40 دن بعد یہوواہ کے حضور قربانی چڑھائے۔‏ اِسی لیے مریم اور یوسف یسوع کو ساتھ لے کر بیت‌لحم سے کوئی 9 کلومیٹر (‏6 میل)‏ کا سفر طے کر کے یروشلیم میں ہیکل میں آئے۔‏ (‏لُوقا 2:‏22-‏24‏)‏ راستے میں شاید مریم نے یہ سوچا ہو کہ کیا کاہن یسوع کے احترام میں کچھ کرے گا۔‏ یسوع کو عزت تو بخشی گئی لیکن ایسے طریقے سے جس کی غالباً مریم کو توقع نہیں تھی۔‏ اِس کام کے لیے یہوواہ نے شمعون کو جو کہ ”‏بڑے نیک اور خداپرست“‏ شخص تھے اور حناہ نبِیّہ کو چُنا جو کہ 84 سال کی تھیں اور بیوہ تھیں۔‏ اُن دونوں نے یہ اِعلان کِیا کہ یسوع ہی وہ مسیح بنیں گے جس کے آنے کا وعدہ کِیا گیا تھا۔‏—‏لُوقا 2:‏25-‏38‏۔‏

14.‏ یہوواہ نے مریم کو اُن کی وفاداری کا اجر کیسے دیا؟‏

14 جہاں تک مریم کی بات ہے تو اُنہیں اِس کے بعد بھی یہوواہ کی خوشنودی حاصل رہی کیونکہ اُنہوں نے وفاداری سے یسوع کی پرورش کی۔‏ خدا نے مریم کی کچھ باتیں اور کام بائبل میں درج کروائے۔‏ ایسا لگتا ہے کہ ساڑھے تین سال کے عرصے کے دوران جب یسوع فرق فرق علاقوں میں مُنادی کرنے جاتے تھے تو مریم اُن کے ساتھ نہیں جا پاتی تھیں۔‏ شاید اِس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بیوہ تھیں اور اُن کے لیے ناصرت میں رہنا آسان تھا۔‏ اِس لیے وہ بہت سے ایسے شان‌دار واقعات کو نہیں دیکھ پائیں جو یسوع کے دورِخدمت میں پیش آئے۔‏ لیکن وہ یسوع کی موت کے وقت اُن کے ساتھ تھیں۔‏ (‏یوحنا 19:‏26‏)‏ بعد میں مریم 33ء میں عیدِپنتِکُست سے پہلے یروشلیم میں یسوع کے شاگردوں کے ساتھ تھیں۔‏ (‏اعمال 1:‏13،‏ 14‏)‏ جب عیدِپنتِکُست پر شاگردوں پر پاک روح نازل ہوئی تو غالباً مریم کو بھی مسح کِیا گیا۔‏ یہ اعزاز ملنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ ہمیشہ تک آسمان پر یسوع کے ساتھ رہ سکتی تھیں۔‏ بِلاشُبہ یہ اُن کی وفاداری کا بڑا شان‌دار اجر تھا!‏

یہوواہ نے یسوع کو اجر بخشا

15.‏ جب یسوع زمین پر تھے تو یہوواہ نے کیسے ظاہر کِیا کہ یسوع کو اُس کی خوشنودی حاصل ہے؟‏

15 یسوع مسیح مذہبی اور سیاسی رہنماؤں سے عزت حاصل نہیں کرنا چاہتے تھے۔‏ یسوع کے نزدیک یہوواہ کی خوشنودی حاصل کرنا سب سے اہم تھا۔‏ اِس لیے جب یہوواہ نے تین مختلف موقعوں پر آسمان سے براہِ‌راست بات کی اور یوں یسوع کو یہ یقین دِلایا کہ وہ اُن سے پیار کرتا ہے تو اُنہیں بڑا حوصلہ ملا ہوگا۔‏ جب یسوع نے دریائےاُردن میں بپتسمہ لیا تو اِس کے بعد یہوواہ نے کہا:‏ ”‏یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں۔‏“‏ (‏متی 3:‏17‏)‏ ایسا لگتا ہے کہ یسوع کے علاوہ صرف یوحنا نے ہی یہ الفاظ سنے تھے۔‏ پھر یسوع کی موت سے تقریباً ایک سال پہلے اُن کے تین رسولوں نے یہوواہ کو یسوع کے بارے میں یہ کہتے سنا:‏ ”‏یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں۔‏ اِس کی سنو۔‏“‏ (‏متی 17:‏5‏)‏ اِس کے بعد یسوع کی موت سے چند دن پہلے یہوواہ نے ایک بار پھر براہِ‌راست اُن سے بات کی۔‏—‏یوحنا 12:‏28‏۔‏

یہوواہ نے جس طریقے سے یسوع کو اجر بخشا،‏ اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ (‏پیراگراف 15-‏17 کو دیکھیں۔‏)‏

16،‏ 17.‏ یہوواہ نے یسوع کو غیرمتوقع طریقے سے اجر کیسے عطا کِیا؟‏

16 یسوع مسیح جانتے تھے کہ لوگ اُنہیں کفر بکنے والا کہیں گے اور اُنہیں شرم‌ناک موت مرنا پڑے گا۔‏ اِس کے باوجود اُنہوں نے خدا سے دُعا کی:‏ ”‏میری مرضی نہیں بلکہ تیری مرضی ہو۔‏“‏ (‏متی 26:‏39،‏ 42‏)‏ وہ اِس دُنیا سے عزت پانے کی بجائے اپنے باپ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے تھے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے ”‏سُولی کی تکلیف سہی“‏ اور ”‏بےعزتی کی پرواہ نہیں کی۔‏“‏ (‏عبرانیوں 12:‏2‏)‏ یہوواہ نے یسوع کو اُن کی اِس وفاداری کا اجر کیسے دیا؟‏

17 جب یسوع زمین پر تھے تو اُنہوں نے خدا سے اُس شان‌دار رُتبے کے لیے درخواست کی جو وہ زمین پر آنے سے پہلے آسمان پر اپنے باپ کے حضور رکھتے تھے۔‏ (‏یوحنا 17:‏5‏)‏ بائبل میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ یسوع اِس سے زیادہ بڑا مرتبہ پانے کی خواہش رکھتے تھے۔‏ زمین پر خدا کی مرضی پوری کرنے کے عوض وہ کوئی خاص اجر پانے کی توقع نہیں کر رہے تھے۔‏ لیکن یہوواہ نے اُن کی توقع سے بڑھ کر اُنہیں عزت بخشی۔‏ جب یہوواہ نے اُنہیں زندہ کِیا تو اُس نے اُنہیں آسمان پر ”‏زیادہ اُونچا مرتبہ“‏ عطا کِیا۔‏ اِس کے علاوہ یہوواہ نے یسوع کو غیرفانی زندگی سے نوازا جو اُن سے پہلے کبھی کسی اَور کو نہیں دی گئی تھی۔‏ * (‏فِلپّیوں 2:‏9؛‏ 1-‏تیمُتھیُس 6:‏16‏)‏ یہوواہ نے یسوع کو واقعی اُن کی وفاداری کا شان‌دار اجر دیا۔‏

18.‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہمارے دل میں دُنیا سے عزت پانے کی بجائے خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی خواہش ہو؟‏

18 ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہمارے دل میں دُنیا سے عزت پانے کی بجائے خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی خواہش ہو؟‏ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہوواہ ہمیشہ اپنے وفادار بندوں کو اپنی خوشنودی اور اجر عطا کرتا ہے اور وہ اکثر اُنہیں ایسے طریقوں سے اجر دیتا ہے جو اُن کے وہم‌وگمان میں بھی نہیں ہوتے۔‏ یہوواہ ہمیں بھی مستقبل میں ایسی شان‌دار برکتیں دے سکتا ہے جن کی شاید ہمیں توقع بھی نہ ہو۔‏ لیکن اب جبکہ ہم اِس بُری دُنیا میں مشکلات اور پریشانیاں برداشت کر رہے ہیں،‏ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دُنیا مٹ رہی ہے۔‏ لہٰذا اِس دُنیا سے ملنے والی عزت بھی اِس کے ساتھ ہی مٹ جائے گی۔‏ (‏1-‏یوحنا 2:‏17‏)‏ لیکن ہمارا شفیق آسمانی باپ یہوواہ ہماری اُس محنت اور محبت کو کبھی نہیں بھولے گا جو ہم نے اُس کے نام کے لیے ظاہر کی ہے کیونکہ وہ ”‏بےاِنصاف نہیں ہے۔‏“‏ (‏عبرانیوں 6:‏10‏)‏ بےشک وہ ہمیں بھی اجر سے نوازے گا،‏ شاید ایسے طریقے سے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔‏

^ پیراگراف 17 یہ اجر غالباً اِس لیے غیرمتوقع تھا کیونکہ عبرانی صحیفوں میں غیرفانی زندگی کا ذکر نہیں کِیا گیا۔‏