مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کون ’‏یہوواہ کی طرف ہے‘‏؟‏

کون ’‏یہوواہ کی طرف ہے‘‏؟‏

‏”‏تُو [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کا خوف ماننا۔‏ اُس کی بندگی کرنا اور اُس سے لپٹے رہنا۔‏“‏‏—‏اِستثنا 10:‏20‏۔‏

گیت:‏ 34،‏  27

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ کی طرف ہونا سمجھ‌داری کی بات کیوں ہے؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

یہوواہ خدا کی قربت میں رہنا سمجھ‌داری کی بات ہے کیونکہ اُس سے زیادہ طاقت‌ور،‏ دانش‌مند اور شفیق کوئی اَور نہیں ہے۔‏ بِلاشُبہ ہم ہمیشہ یہوواہ سے وفاداری کرنا اور اُس کی طرف رہنا چاہتے ہیں۔‏ (‏زبور 96:‏4-‏6‏)‏ لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگ جو کبھی خدا کی عبادت کرتے تھے،‏ بعد میں اُس کے وفادار نہ رہے۔‏

2 اِس مضمون میں ہم کچھ ایسے لوگوں کے بارے میں بات کریں گے جو یہوواہ کی طرف ہونے کا دعویٰ تو کرتے تھے مگر ساتھ ہی ساتھ ایسے کاموں میں بھی پڑے ہوئے تھے جن سے یہوواہ کو نفرت ہے۔‏ اِن لوگوں کی مثالوں پر غور کرنے سے ہم یہ سیکھ پائیں گے کہ ہم یہوواہ کے وفادار کیسے رہ سکتے ہیں۔‏

یہوواہ دلوں کو جانچتا ہے

3.‏ یہوواہ نے قائن کی مدد کرنے کی کوشش کیوں کی اور اُس نے قائن سے کیا کہا؟‏

3 ذرا قائن کی مثال پر غور کریں۔‏ حالانکہ وہ یہوواہ کے علاوہ کسی اَور کی عبادت نہیں کرتا تھا پھر بھی یہوواہ نے اُس کی عبادت کو قبول نہیں کِیا۔‏ اِس کی کیا وجہ تھی؟‏ یہوواہ جانتا تھا کہ قائن کے دل میں بُرائی کا بیج جڑ پکڑ رہا تھا۔‏ (‏1-‏یوحنا 3:‏12‏)‏ اِس لیے یہوواہ نے قائن کو خبردار کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏اگر تُو بھلا کرے تو کیا تُو مقبول نہ ہوگا؟‏ اور اگر تُو بھلا نہ کرے تو گُناہ دروازہ پر دبکا بیٹھا ہے اور تیرا مشتاق ہے پر تُو اُس پر غالب آ۔‏“‏ (‏پیدایش 4:‏6،‏ 7‏)‏ دوسرے لفظوں میں یہوواہ قائن سے کہہ رہا تھا کہ ”‏اگر تُم توبہ کرو گے اور میری طرف ہو گے تو مَیں بھی تمہاری طرف ہوں گا۔‏“‏

4.‏ جب قائن کو یہوواہ کی طرف آنے کا موقع ملا تو اُس نے کیا کِیا؟‏

4 اگر قائن اپنی سوچ کو بدل لیتا تو اُسے پھر سے یہوواہ کی خوشنودی حاصل ہو جاتی۔‏ لیکن اُس نے یہوواہ کی بات نہیں سنی اور اپنی غلط سوچ اور خواہشوں کی وجہ سے غلط قدم اُٹھا لیے۔‏ (‏یعقوب 1:‏14،‏ 15‏)‏ جب قائن چھوٹا تھا تو اُس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہ یہوواہ کے خلاف جائے گا۔‏ مگر اب اُس نے یہوواہ کی ہدایت کو نظرانداز کر دیا،‏ اُس کے خلاف بغاوت کر دی اور اپنے بھائی کو مار ڈالا۔‏

5.‏ کون سی باتوں کی وجہ سے ہم یہوواہ کی خوشنودی کھو سکتے ہیں؟‏

5 قائن کی طرح شاید ایک مسیحی بھی یہوواہ کی عبادت کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے کام کر رہا ہو جن سے یہوواہ نفرت کرتا ہے۔‏ (‏یہوداہ 11‏)‏ ہو سکتا ہے کہ وہ باقاعدگی سے مُنادی کے کام میں حصہ لیتا ہو اور اِجلاسوں میں جاتا ہو۔‏ لیکن شاید وہ اپنے دل میں گندی خواہشوں،‏ لالچ یا کسی مسیحی کے لیے نفرت کے جذبات کو پلنے دے رہا ہو۔‏ (‏1-‏یوحنا 2:‏15-‏17؛‏ 3:‏15‏)‏ ایسی باتیں اُسے گُناہ کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔‏ شاید دوسرے لوگ تو یہ نہیں جانتے کہ ہمارے دل میں کیا ہے مگر یہوواہ جانتا ہے۔‏ اُسے معلوم ہے کہ آیا ہم مکمل طور پر اُس کی طرف ہیں یا نہیں۔‏‏—‏یرمیاہ 17:‏9،‏ 10 کو پڑھیں۔‏

6.‏ یہوواہ بُری خواہشوں پر غالب آنے میں ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟‏

6 جب ہم سے غلطیاں ہوتی ہیں تو تب بھی یہوواہ ہم سے فوراً مُنہ نہیں موڑ لیتا۔‏ اگر ہم کسی ایسی راہ پر چل پڑتے ہیں جو ہمیں یہوواہ سے دُور لے جا سکتی ہے تو وہ ہم سے کہتا ہے:‏ ”‏تُم میری طرف رُجوع ہو [‏یعنی واپس آؤ]‏ تو مَیں تمہاری طرف رُجوع ہوں گا۔‏“‏ (‏ملاکی 3:‏7‏)‏ یہوواہ اِس بات کو سمجھتا ہے کہ ہم میں کمزوریاں ہیں اور ہمیں اِن کے خلاف لڑنا پڑتا ہے۔‏ لیکن وہ چاہتا ہے کہ ہم بُرائی کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوں۔‏ (‏یسعیاہ 55:‏7‏)‏ اگر ہم ایسا کریں گے تو وہ اپنے وعدے کے مطابق ہماری مدد کرے گا اور ہمیں بُری خواہشوں پر غالب آنے کے لیے طاقت دے گا۔‏—‏پیدایش 4:‏7‏۔‏

‏”‏دھوکا نہ کھائیں“‏

7.‏ یہوواہ کے ساتھ سلیمان کی دوستی کیسے ٹوٹ گئی؟‏

7 جب سلیمان جوان تھے تو خدا کے ساتھ اُن کی دوستی بڑی مضبوط تھی۔‏ خدا نے سلیمان کو بہت دانش‌مندی عطا کی اور اُنہیں یروشلیم میں ایک خوب‌صورت ہیکل تعمیر کرنے کی بھاری ذمےداری سونپی۔‏ لیکن پھر خدا کے ساتھ سلیمان کی دوستی ٹوٹ گئی۔‏ (‏1-‏سلاطین 3:‏12؛‏ 11:‏1،‏ 2‏)‏ شریعت میں بادشاہ کے لیے حکم تھا کہ ”‏وہ بہت سی بیویاں .‏ .‏ .‏ نہ رکھے تا نہ ہو کہ اُس کا دل پھر جائے۔‏“‏ (‏اِستثنا 17:‏17‏)‏ مگر سلیمان نے خدا کے اِس حکم کو توڑ دیا۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ سلیمان کے پاس ”‏سات سو .‏ .‏ .‏ بیویاں اور تین سو حرمیں تھیں۔‏“‏ (‏1-‏سلاطین 11:‏3‏)‏ اِن میں سے بہت سے عورتوں کا تعلق غیرقوموں سے تھا اور وہ جھوٹے معبودوں کی پرستش کرتی تھیں۔‏ لہٰذا سلیمان نے غیرقوم عورتوں سے شادی کرنے کے حوالے سے بھی خدا کے حکم کی نافرمانی کی۔‏—‏اِستثنا 7:‏3،‏ 4‏۔‏

8.‏ سلیمان نے یہوواہ کو ناخوش کیسے کِیا؟‏

8 آہستہ آہستہ سلیمان کے دل سے یہوواہ کی شریعت کے لیے محبت ختم ہو گئی۔‏ اور آخرکار وہ بہت بُرے کام کرنے لگے۔‏ اُنہوں نے جھوٹی دیوی عستارات اور جھوٹے دیوتا کموس کے لیے قربان‌گاہیں بنوائیں اور اپنی بیویوں کے ساتھ مل کر اِن کی پوجا کرنے لگے۔‏ اُنہوں نے تو اِن قربان‌گاہوں کو یروشلیم یعنی اُس شہر کے سامنے ایک پہاڑ پر بنوایا جہاں اُنہوں نے یہوواہ کی ہیکل بنوائی تھی۔‏ (‏1-‏سلاطین 11:‏5-‏8؛‏ 2-‏سلاطین 23:‏13‏)‏ شاید سلیمان یہ سوچ کر خود کو دھوکا دے رہے تھے کہ اگر وہ ہیکل میں قربانیاں چڑھاتے رہیں گے تو یہوواہ اُن کے بُرے کاموں کو نظرانداز کرتا رہے گا۔‏

9.‏ جب سلیمان اُن کاموں سے باز نہیں آئے جن سے یہوواہ نے اُنہیں خبردار کِیا تھا تو اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟‏

9 لیکن یہوواہ کبھی بھی بُرے کاموں کو نظرانداز نہیں کرتا۔‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ سلیماؔن سے ناراض ہوا کیونکہ اُس کا دل [‏یہوواہ]‏ .‏ .‏ .‏ سے پھر گیا تھا جس نے اُسے دو بار دِکھائی دے کر اُس کو اِس بات کا حکم کِیا تھا کہ وہ غیرمعبودوں کی پیروی نہ کرے پر اُس نے وہ بات نہ مانی جس کا حکم [‏یہوواہ]‏ نے دیا تھا۔‏“‏ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ نے سلیمان کو صحیح راہ پر واپس لانے کی کوشش کی لیکن سلیمان نے یہوواہ کی بات پر کان نہ دھرا۔‏ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سلیمان خدا کی خوشنودی اور حمایت کھو بیٹھے۔‏ اُن کی نسل پوری اِسرائیلی قوم پر حکومت نہ کر پائی اور سینکڑوں سال تک شدید مشکلات میں گِھری رہی۔‏—‏1-‏سلاطین 11:‏9-‏13‏۔‏

10.‏ یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی خطرے میں کیسے پڑ سکتی ہے؟‏

10 اگر ہم ایسے لوگوں سے دوستی کرتے ہیں جو خدا کے معیاروں کی سمجھ نہیں رکھتے یا اِن کا احترام نہیں کرتے تو وہ ہماری سوچ کو آلودہ کر سکتے ہیں اور یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‏ ایسے لوگ کلیسیا کے ارکان بھی ہو سکتے ہیں لیکن یہوواہ کے ساتھ اُن کی دوستی مضبوط نہیں ہوتی۔‏ یا پھر یہ ہمارے رشتےدار،‏ پڑوسی،‏ ہمارے سکول میں پڑھنے والے یا ہمارے ساتھ ملازمت کرنے والے لوگ ہو سکتے ہیں جو یہوواہ کی عبادت نہیں کرتے۔‏ لہٰذا ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا خطرے سے خالی نہیں ہے جو یہوواہ کے معیاروں پر نہیں چلتے۔‏ وہ ہم پر اِتنا گہرا اثر ڈال سکتے ہیں کہ ہم یہوواہ سے دُور ہو سکتے ہیں۔‏

جن لوگوں کے ساتھ آپ وقت گزارتے ہیں،‏ اُن کا یہوواہ کے ساتھ آپ کی دوستی پر کیسا اثر پڑ رہا ہے؟‏ (‏پیراگراف 11 کو دیکھیں۔‏)‏

11.‏ کن باتوں پر غور کرنے سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمیں ایک شخص سے دوستی رکھنی چاہیے یا نہیں؟‏

11 پہلا کُرنتھیوں 15:‏33 کو پڑھیں۔‏ زیادہ‌تر لوگوں میں کوئی نہ کوئی خوبی ضرور ہوتی ہے۔‏ اور کئی ایسے لوگ جو یہوواہ کے گواہ نہیں ہیں،‏ ہمیشہ بُرے کام نہیں کرتے۔‏ شاید آپ بھی کچھ ایسے لوگوں کو جانتے ہوں۔‏ لیکن کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ جو لوگ بُرے کام نہیں کرتے،‏ وہ اچھے دوست بھی ہو سکتے ہیں پھر چاہے وہ کلیسیا کا حصہ ہوں یا نہ ہوں؟‏ اِس سلسلے میں خود سے پوچھیں:‏ ”‏ایسے لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنے سے یہوواہ کے ساتھ میری دوستی پر کیسا اثر پڑ رہا ہے؟‏ کیا وہ یہوواہ کے قریب جانے میں میری مدد کر رہے ہیں؟‏ وہ اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کس چیز کو دیتے ہیں؟‏ وہ کس بارے میں بات‌چیت کرنا پسند کرتے ہیں؟‏ کیا وہ زیادہ‌تر فیشن،‏ پیسے،‏ تفریح،‏ موبائل اور ٹیبلٹ وغیرہ کے بارے میں بات کرتے ہیں؟‏ کیا وہ اکثر دوسروں پر تنقید کرتے ہیں؟‏ کیا اُنہیں گندے لطیفے پسند ہیں؟‏“‏ یسوع مسیح نے بتایا:‏ ”‏جو دل میں بھرا ہوتا ہے،‏ وہی زبان پر آتا ہے۔‏“‏ (‏متی 12:‏34‏)‏ اگر آپ کو لگتا ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ آپ وقت گزارتے ہیں،‏ وہ آپ کو خدا سے دُور کر رہے ہیں تو فوراً قدم اُٹھائیں۔‏ اُن کے ساتھ دوستی کم کریں اور اگر ضروری ہو تو اِسے ختم کر دیں۔‏—‏امثال 13:‏20‏۔‏

یہوواہ ہم سے مکمل وفاداری کی توقع کرتا ہے

12.‏ ‏(‏الف)‏ بنی‌اِسرائیل کو مصر کی غلامی سے رِہائی دِلانے کے تھوڑی دیر بعد یہوواہ نے اُن سے کیا کہا؟‏ (‏ب)‏ جب خدا نے بنی‌اِسرائیل سے کہا کہ وہ اُس کے وفادار رہیں تو اُنہوں نے کیا جواب دیا؟‏

12 جب یہوواہ نے بنی‌اِسرائیل کو مصر کی غلامی سے رِہائی دِلائی تو اِس کے بعد جو کچھ ہوا،‏ اُس پر غور کرنے سے بھی ہم اہم باتیں سیکھ سکتے ہیں۔‏ بنی‌اِسرائیل کوہِ‌سینا کے سامنے جمع تھے۔‏ وہاں یہوواہ نے بڑے زبردست طریقے سے خود کو اُن پر ظاہر کِیا۔‏ اچانک کالی گھٹا چھا گئی،‏ بجلی چمکنے لگی،‏ دھواں اُٹھنے لگا،‏ بادل گرجنے لگے اور نرسنگے جیسی زوردار آواز سنائی دینے لگی۔‏ (‏خروج 19:‏16-‏19‏)‏ اِس کے بعد بنی‌اِسرائیل نے یہوواہ کو یہ کہتے سنا کہ ”‏مَیں [‏یہوواہ]‏ تیرا خدا غیور خدا ہوں۔‏“‏ اِس کا مطلب تھا کہ یہوواہ چاہتا تھا کہ بنی‌اِسرائیل صرف اور صرف اُس کی عبادت کریں۔‏ اُس نے وعدہ کِیا کہ جو لوگ اُس سے محبت کریں گے اور اُس کے حکموں کو مانیں گے،‏ وہ اُن سے ”‏رحم“‏ [‏”‏وفاداری،‏“‏ ترجمہ نئی دُنیا‏]‏ سے پیش آئے گا۔‏ ‏(‏خروج 20:‏1-‏6 کو پڑھیں۔‏)‏ ایک لحاظ سے یہوواہ بنی‌اِسرائیل سے کہہ رہا تھا کہ ”‏اگر تُم میری طرف رہو گے تو مَیں تمہاری طرف رہوں گا۔‏“‏ اگر آپ اُس موقعے پر موجود ہوتے تو یہوواہ کے اِس وعدے پر آپ کیسا ردِعمل دِکھاتے؟‏ غالباً آپ کا بھی وہی جواب ہوتا جو بنی‌اِسرائیل نے دیا:‏ ”‏جتنی باتیں [‏یہوواہ]‏ نے فرمائی ہیں ہم اُن سب کو مانیں گے۔‏“‏ (‏خروج 24:‏3‏)‏ لیکن اِس کے تھوڑی دیر بعد ہی خدا کے لیے بنی‌اِسرائیل کی وفاداری کا اِمتحان ہوا۔‏

13.‏ خدا کے لیے بنی‌اِسرائیل کی وفاداری کا اِمتحان کیسے ہوا؟‏

13 خدا کی طاقت کے حیرت‌انگیز مظاہرے کو دیکھ کر بنی‌اِسرائیل خوف‌زدہ ہو گئے۔‏ اِس لیے موسیٰ کوہِ‌سینا پر گئے اور بنی‌اِسرائیل کی جگہ یہوواہ سے بات کی۔‏ (‏خروج 20:‏18-‏21‏)‏ وقت گزرتا گیا مگر موسیٰ پہاڑ سے واپس نہیں آئے۔‏ ایسا لگ رہا تھا کہ بنی‌اِسرائیل اپنے رہنما کے بغیر ویرانے میں پھنس گئے ہیں۔‏ شاید موسیٰ کی غیرموجودگی میں بنی‌اِسرائیل اپنے آپ کو بالکل بےسہارا محسوس کر رہے تھے۔‏ وہ بہت پریشان ہو گئے اور ہارون سے کہنے لگے:‏ ”‏ہمارے لئے دیوتا بنا دے جو ہمارے آگے آگے چلے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اِس مرد موسیٰؔ کو جو ہم کو ملکِ‌مصر سے نکال کر لایا کیا ہو گیا۔‏“‏—‏خروج 32:‏1،‏ 2‏۔‏

14.‏ ‏(‏الف)‏ بنی‌اِسرائیل نے کیا سوچ کر خود کو دھوکا دیا؟‏ (‏ب)‏ بنی‌اِسرائیل نے جو کچھ کیا،‏ اُس پر یہوواہ کا کیا ردِعمل تھا؟‏

14 بنی‌اِسرائیل جانتے تھے کہ بُتوں کی پوجا کرنا غلط ہے۔‏ (‏خروج 20:‏3-‏5‏)‏ لیکن پلک جھپکنے کی دیر تھی کہ وہ سونے کے بچھڑے کی پوجا کرنے لگے۔‏ حالانکہ اُنہوں نے یہوواہ کے حکم کو توڑا تھا مگر وہ یہ سوچ کر خود کو دھوکا دے رہے تھے کہ وہ اب بھی یہوواہ کی طرف ہیں۔‏ یہاں تک کہ ہارون نے بچھڑے کی اِس پرستش کو ”‏[‏یہوواہ]‏ کے لئے عید“‏ کہا۔‏ بنی‌اِسرائیل کی اِس حرکت پر یہوواہ نے کیا کِیا؟‏ اُس نے موسیٰ سے کہا کہ یہ لوگ ”‏بگڑ گئے ہیں“‏ اور ”‏اُس راہ سے جس کا مَیں نے اُن کو حکم دیا تھا بہت جلد پھر گئے ہیں۔‏“‏ یہوواہ اِس قدر غصے میں آ گیا کہ وہ پوری قوم کو ختم کر ڈالنا چاہتا تھا۔‏—‏خروج 32:‏5-‏10‏۔‏

یہوواہ نے بنی‌اِسرائیل کو یہ ثابت کرنے کا موقع دیا کہ وہ واقعی اُس کی طرف ہونا چاہتے ہیں۔‏

15،‏ 16.‏ موسیٰ اور ہارون نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ مکمل طور پر یہوواہ کی طرف ہیں؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

15 لیکن یہوواہ رحیم خدا ہے۔‏ اِس لیے اُس نے بنی‌اِسرائیل کا نام‌ونشان مٹانے کا اِرادہ ترک کر دیا۔‏ اِس کی بجائے اُس نے اُنہیں یہ ثابت کرنے کا موقع دیا کہ وہ واقعی اُس کی طرف ہونا چاہتے ہیں۔‏ (‏خروج 32:‏14‏)‏ جب موسیٰ نے لوگوں کو سونے کے بچھڑے کے سامنے شورشرابہ کرتے،‏ گاتے اور ناچتے دیکھا تو اُنہوں نے اُس بچھڑے کو توڑ کر پیس ڈالا۔‏ پھر اُنہوں نے بلند آواز میں کہا:‏ ”‏جو جو [‏یہوواہ]‏ کی طرف ہے وہ میرے پاس آ جائے۔‏“‏ اِس پر ”‏سب بنی‌لاؔوی اُس کے پاس جمع ہو گئے۔‏“‏—‏خروج 32:‏17-‏20،‏ 26‏۔‏

16 حالانکہ ہارون نے سونے کا بچھڑا بنایا تھا مگر اُنہوں نے توبہ کی اور باقی لاویوں کے ساتھ یہوواہ کی طرف ہونے کا فیصلہ کِیا۔‏ یہوواہ کے اِن وفادار بندوں نے واضح کر دیا کہ وہ گُناہ‌گاروں کی طرف نہیں ہیں۔‏ اُنہوں نے بہت اچھا فیصلہ کِیا کیونکہ اُسی دن سونے کے بچھڑے کی پوجا کرنے والے ہزاروں اِسرائیلی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔‏ لیکن جو لوگ یہوواہ کی طرف تھے،‏ وہ بچ گئے اور خدا نے اُنہیں برکت دینے کا وعدہ کِیا۔‏—‏خروج 32:‏27-‏29‏۔‏

17.‏ پولُس نے سونے کے بچھڑے کی پرستش کے واقعے کے بارے میں جو کچھ کہا،‏ اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏

17 پولُس رسول نے سونے کے بچھڑے کی پرستش کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:‏ ”‏اِن باتوں سے ہم نصیحت حاصل کر سکتے ہیں“‏ تاکہ ہم کبھی بھی ”‏بُت‌پرستی .‏ .‏ .‏ نہ کریں۔‏“‏ پولُس نے کہا کہ ایسے واقعات ’‏ہماری نصیحت کے لیے لکھے گئے کیونکہ ہم آخری زمانے میں رہ رہے ہیں۔‏ اِس لیے جس شخص کو لگتا ہے کہ وہ مضبوطی سے کھڑا ہے،‏ وہ خبردار رہے کہ گِر نہ جائے۔‏‘‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 10:‏6،‏ 7،‏ 11،‏ 12‏)‏ پولُس کی بات سے واضح ہوتا ہے کہ جو لوگ یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں،‏ وہ بھی غلط کاموں میں پڑ سکتے ہیں۔‏ شاید ایسے لوگ غلط کام کرنے کے باوجود یہ سوچیں کہ اُنہیں اب بھی یہوواہ کی خوشنودی حاصل ہے۔‏ لیکن اگر ایک شخص خدا سے دوستی کرنا چاہتا ہے یا اُس کا وفادار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو ضروری نہیں کہ اُسے خدا کی خوشنودی حاصل ہو۔‏—‏1-‏کُرنتھیوں 10:‏1-‏5‏۔‏

18.‏ ہم کس وجہ سے یہوواہ سے دُور ہو سکتے ہیں اور اِس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟‏

18 جب موسیٰ کو پہاڑ سے واپس آنے میں دیر ہو گئی تو بنی‌اِسرائیل بہت پریشان ہو گئے۔‏ اِسی طرح اگر ہمیں لگتا ہے کہ اِس دُنیا کا خاتمہ ہونے اور نئی دُنیا کے آنے میں بہت دیر ہو رہی ہے تو شاید ہم بھی پریشان ہو جائیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہم سوچنے لگیں کہ یہوواہ نے مستقبل کے بارے میں جو وعدہ کِیا ہے،‏ اُس کے پورا ہونے میں ابھی بہت وقت ہے یا پھر یہ کہ یہ وعدہ حقیقت سے پرے ہے۔‏ اگر ہم ایسی سوچ کو اپنے اندر سے ختم نہیں کرتے تو شاید ہم یہوواہ کی مرضی سے زیادہ اپنی خواہشات کو اہمیت دینے لگیں۔‏ اور پھر آہستہ آہستہ یہوواہ سے دُور ہو جائیں اور ایسے کام کرنے لگیں جن کا شاید ہم نے کبھی تصور بھی نہ کِیا ہو۔‏

19.‏ ہمیں کون سی بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے اور کیوں؟‏

19 یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم پورے دل سے اُس کی فرمانبرداری کریں اور صرف اُسی کی عبادت کریں۔‏ (‏خروج 20:‏5‏)‏ لیکن وہ ایسا کیوں چاہتا ہے؟‏ کیونکہ وہ ہم سے پیار کرتا ہے۔‏ اگر ہم وہ کام نہیں کرتے جو یہوواہ چاہتا ہے تو ہم وہ کام کر رہے ہوں گے جو شیطان چاہتا ہے اور یہ ہمارے لیے بہت خطرناک ہوگا۔‏ پولُس نے لکھا:‏ ”‏آپ یہوواہ کے پیالے میں سے پینے کے ساتھ ساتھ بُرے فرشتوں کے پیالے میں سے نہیں پی سکتے۔‏ آپ ”‏یہوواہ کی میز“‏ پر کھانے کے ساتھ ساتھ بُرے فرشتوں کی میز پر کھانا نہیں کھا سکتے۔‏“‏—‏1-‏کُرنتھیوں 10:‏21‏۔‏

یہوواہ سے لپٹے رہیں!‏

20.‏ یہوواہ تب بھی ہماری مدد کیسے کرتا ہے جب ہم سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے؟‏

20 قائن،‏ سلیمان اور بنی‌اِسرائیل کے پاس موقع تھا کہ وہ توبہ کریں اور اپنی روِش بدلیں۔‏ (‏اعمال 3:‏19‏)‏ اُن کی مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ جب یہوواہ کے بندوں سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو وہ فوراً اُنہیں چھوڑ نہیں دیتا۔‏ ذرا یاد کریں کہ یہوواہ نے ہارون کو معاف کر دیا تھا۔‏ یہوواہ ہمیں پہلے سے خبردار کرتا ہے تاکہ ہم غلط قدم اُٹھانے کے خطرے میں نہ پڑ جائیں۔‏ وہ ایسا بائبل،‏ ہماری مطبوعات اور دوسرے مسیحیوں کے ذریعے کرتا ہے۔‏ ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ جب ہم یہوواہ کی نصیحتوں پر دھیان دیں گے تو وہ ہم پر رحم ضرور کرے گا۔‏

21.‏ جب یہوواہ کے لیے ہماری وفاداری کا اِمتحان ہوتا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

21 یہوواہ ہمیں اپنی عظیم رحمت سے اِس لیے نوازتا ہے تاکہ ”‏ہم بُرائی اور دُنیاوی خواہشات کو رد کر سکیں۔‏“‏ (‏2-‏کُرنتھیوں 6:‏1؛‏ طِطُس 2:‏11-‏14 کو پڑھیں۔‏‏)‏ جب تک ہم اِس دُنیا میں رہ رہے ہیں،‏ ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا جن میں یہوواہ کے لیے ہماری وفاداری کا اِمتحان ہوگا۔‏ لہٰذا عزم کریں کہ آپ مکمل طور پر یہوواہ کی طرف ہوں گے کیونکہ آپ کو صرف ’‏یہوواہ اپنے خدا کا خوف ماننا چاہیے،‏ اُس کی بندگی کرنی چاہیے اور اُس سے لپٹے رہنا چاہیے۔‏‘‏—‏اِستثنا 10:‏20‏۔‏