مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ‌بیتی

مَیں نے تو بس اپنا فرض پورا کِیا ہے

مَیں نے تو بس اپنا فرض پورا کِیا ہے

ڈونلڈ رِڈلی ایک وکیل تھے جنہوں نے 30 سال سے زیادہ عرصے تک یہوواہ کے گواہوں کے لیے عدالتوں میں مُقدمے لڑے۔‏ اُنہوں نے ڈاکٹروں اور ججوں کی یہ سمجھنے میں بڑی مدد کی کہ مریضوں کو خون لینے سے اِنکار کرنے کا حق حاصل ہے۔‏ اُنہوں نے ریاستہائے متحدہ امریکہ کی سپریم کورٹ میں بہت سے مُقدمے جیتنے میں تنظیم کی مدد کی۔‏بھائی ڈونلڈ کو اُن کے دوست ڈان کے نام سے پکارتے تھے۔‏ ڈان بہت ہی محنتی اور خاکسار بھائی تھے اور اُن میں دوسروں کے لیے قربانی دینے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔‏

سن 2019ء میں بھائی ڈان کو پتہ چلا کہ اُنہیں ایک ایسی اعصابی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔‏ اُن کی یہ بیماری آہستہ آہستہ بگڑتی گئی اور بھائی ڈان 16 اگست 2019ء کو فوت ہو گئے۔‏ یہ اُن کی آپ‌بیتی ہے۔‏

مَیں 1954ء میں امریکہ کی ریاست مینیسوٹا کے شہر سینٹ پال میں پیدا ہوا۔‏ میرا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سے تھا اور میرے گھر والے رومن کیتھولک تھے۔‏ ہم پانچ بہن بھائی تھے اور مَیں دوسرے نمبر پر تھا۔‏ مَیں نے ایک کیتھولک سکول سے تعلیم پائی تھی اور مَیں چرچ میں ایک آلٹر بوائے تھا (‏یعنی وہ لڑکا جو چرچ میں ہونے والی تقریبات میں پادری کا مدد گار ہوتا ہے)‏۔‏ لیکن اِس کے باوجود مَیں بائبل کی تعلیمات کے بارے میں اِتنا نہیں جانتا تھا۔‏ مَیں خدا کے وجود پر تو یقین رکھتا تھا اور یہ مانتا تھا کہ اُس نے سب چیزوں کو بنایا ہے لیکن چرچ سے میرا بھروسا اُٹھ گیا تھا۔‏

مَیں نے سچائی کیسے سیکھی

جب مَیں کالج میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا تھا اور میرا پہلا سال چل رہا تھا تو ایک شادی‌شُدہ جوڑا جو یہوواہ کا گواہ تھا،‏ میرے گھر آیا۔‏ اُس وقت مَیں کپڑے دھونے میں مصروف تھا اِس لیے مَیں نے اُنہیں بعد میں آنے کو کہا۔‏ جب وہ میاں بیوی دوبارہ آئے تو مَیں نے اُن سے دو سوال پوچھے۔‏ پہلا یہ کہ بُرے لوگوں کو زندگی میں اِتنی کامیابیاں کیوں ملتی ہیں؟‏ اور دوسرا یہ کہ ایک شخص کو سچی خوشی کیسے مل سکتی ہے؟‏ اُس جوڑے نے مجھے کتاب ‏”‏سچائی جو باعثِ‌ابدی زندگی ہے“‏ اور تیز ہرے رنگ والی ‏”‏نیو ورلڈ ٹرانسلیشن آف دی ہولی سکرپچرز“‏ دی۔‏ مَیں نے اُن سے نہ صرف وہ کتابیں لیں بلکہ اُن کے ساتھ بائبل کورس کرنے کو بھی تیار ہو گیا۔‏ بائبل کا مطالعہ کرنے سے میری آنکھیں کُھل گئیں۔‏ مَیں یہ جان کر بہت خوش ہوا کہ خدا کی بادشاہت ایک ایسی حکومت ہے جو زمین پر اِنسانوں کے تمام مسائل کو حل کر دے گی۔‏ جو کچھ مَیں سیکھ رہا تھا،‏ اُس سے مَیں یہ جان گیا کہ اِنسانوں کی حکمرانی مکمل طور پر ناکام کیوں ہو گئی ہے اور دُنیا دُکھ،‏ تکلیفوں اور نااِنصافیوں سے کیوں بھری ہے۔‏

سن 1982ء کے شروع میں مَیں نے اپنی زندگی یہوواہ کے لیے وقف کر دی اور بعد میں اُسی سال علاقائی اِجتماع ”‏کنگڈم ٹروتھ“‏ پر بپتسمہ لے لیا۔‏ یہ اِجتماع سینٹ پال سوک سینٹر میں منعقد ہوا تھا۔‏ اِس کے اگلے ہفتے مَیں دوبارہ سوک سینٹر آیا جہاں مَیں نے وکالت کا اِمتحان دیا۔‏ اکتوبر کے شروع میں مجھے پتہ چلا کہ مَیں پاس ہو گیا ہوں اور اب ایک وکیل کے طور پر کام کر سکتا ہوں۔‏

اُسی علاقائی اِجتماع پر میری ملاقات بھائی مائیک رچرڈسن سے ہوئی جو بروکلن بیت‌ایل میں کام کرتے تھے۔‏ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارے مرکزی دفتر میں قانونی معاملات کی نگرانی کا شعبہ بنایا گیا ہے۔‏ اُن کی بات سُن کر مجھے اعمال 8:‏36 میں درج ایتھیوپیائی خواجہ‌سرا کی بات یاد آئی اور مَیں نے خود سے پوچھا:‏ ’‏کون سی چیز مجھے قانونی معاملات کی نگرانی کے شعبے میں کام کرنے سے روک رہی ہے؟‏‘‏ ‏(‏اُردو ریوائزڈ ورشن)‏ لہٰذا مَیں نے بیت‌ایل میں خدمت کرنے کی درخواست دے دی۔‏

میرے والدین اِس بات سے بالکل خوش نہیں تھے کہ مَیں یہوواہ کا گواہ بن گیا ہوں۔‏ میرے ابو نے مجھ سے پوچھا کہ واچ‌ٹاور والوں کے لیے کام کر کے مجھے وکیل کے طور پر کتنا فائدہ ہوگا۔‏ مَیں نے اُنہیں بتایا کہ مَیں ایک رضاکار کے طور پر کام کروں گا اور مجھے ہر مہینے 75 امریکی ڈالر ملیں گے۔‏ اُس وقت بیت‌ایل میں کام کرنے والوں کو اِتنا ماہانہ خرچہ ملتا تھا۔‏

چونکہ مَیں نے عدالت میں کچھ عرصہ کام کرنے کی ہامی بھری تھی اِس لیے مَیں فوراً بیت‌ایل میں خدمت شروع نہیں کر سکا۔‏ مَیں نے 1984ء میں بروکلن بیت‌ایل میں خدمت شروع کی اور مجھے قانونی معاملات کی نگرانی کے شعبے میں کام کرنے کو کہا گیا۔‏ میری نظر میں اِس شعبے میں کام کرنے کا اِس سے بہترین وقت ہو ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ مَیں نے وکالت کرتے ہوئے جو تجربہ حاصل کِیا تھا،‏اب مَیں اُسے اچھی طرح سے کام میں لا سکتا تھا۔‏

سٹینلی تھیٹر کی تعمیرومرمت

سٹینلی تھیٹر جب اِسے خریدا گیا

نومبر 1983ء میں تنظیم نے امریکہ کی ریاست نیو جرسی کے شہر جرسی میں سٹینلی تھیٹر خریدا۔‏ بھائیوں نے اِس عمارت میں بجلی اور پانی کی پائپ لائنوں کے نظام کی مرمت کرنے کے لیے حکومت سے اِجازت مانگی۔‏ جب بھائی مقامی افسروں سے ملے تو اُنہوں نے اِن افسروں کو بتایا کہ وہ اِس تھیٹر کو یہوواہ کے گواہوں کے اِجتماعوں کے لیے اِستعمال کرنا چاہتے ہیں۔‏ اِس پر ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا۔‏ جرسی شہر کے قانون کے مطابق عبادت کے لیے اِستعمال ہونے والی عمارتیں صرف رہائشی علاقے میں ہی ہو سکتی تھیں جبکہ سٹینلی تھیٹر کاروباری علاقے میں تھا۔‏ اِس لیے اُس شہر کے سرکاری اہلکاروں نے اِجازت دینے سے اِنکار کر دیا۔‏ بھائیوں نے اِس فیصلے کے خلاف اپیل کی لیکن وہ رد ہو گئی۔‏

جب بیت‌ایل میں میرا پہلا ہفتہ تھا تو اُسی دوران ہماری تنظیم نے اِجازت‌نامہ نہ ملنے پر وفاقی ضلعی عدالت میں مُقدمہ دائر کر دیا۔‏ چونکہ مَیں ابھی ابھی سینٹ پال مینیسوٹا کی وفاقی ضلعی عدالت میں دو سال کام کر کے آیا تھا اِس لیے مَیں اِس طرح کے مُقدموں سے اچھی طرح واقف تھا۔‏ ہمارے ایک وکیل نے یہ دلیل دی کہ اگر سٹینلی تھیٹر کو فرق فرق تقریبات جیسے کہ فلمیں دیکھنے اور میوزک کانسرٹ جیسی تقریبات کے لیے اِستعمال کِیا جا سکتا ہے تو اِسے مذہبی تقریبات کے لیے اِستعمال کرنا کیوں غیرقانونی ہے؟‏ عدالت نے معاملے پر غور کِیا اور کہا کہ شہر جرسی کے افسروں نے ہماری مذہبی آزادی کا احترام نہیں کِیا اور یہ فیصلہ سنایا کہ شہر کے افسر ہمارے لیے اِجازت‌نامہ جاری کریں۔‏ اِس تجربے سے مَیں نے دیکھا کہ یہوواہ اپنے کام کو بڑھانے کے لیے اپنی تنظیم کے قانونی معاملات کی نگرانی کے شعبے کو کتنی برکت دے رہا ہے۔‏ مجھے بہت خوشی تھی کہ مَیں نے بھی اِس میں اپنا کردار ادا کِیا۔‏

بھائیوں نے عمارت کی تعمیرومرمت کا کام شروع کِیا جو کہ ایک بہت بڑا پراجیکٹ تھا۔‏ لیکن ایک سال سے بھی کم وقت میں یہ کام مکمل ہو گیا اور شہر جرسی کے اِس ہال میں 8 ستمبر 1985ء کو گلئیڈ سکول کی 79ویں جماعت کی گریجویشن ہوئی۔‏ میرے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی کہ مَیں قانونی معاملات کی نگرانی کرنے والی ٹیم کا حصہ بن کر یہوواہ کے کام میں اُس کا ساتھ دے رہا ہوں۔‏ اِس طرح سے کام کر کے مجھے جو خوشی ملی اُتنی مجھے دُنیا میں ایک وکیل کے طور پر کام کرنے سے کبھی نہیں ملی۔‏ مجھے تو اندازہ بھی نہیں تھا کہ یہوواہ نے مجھے اَور کتنی ذمےداریاں دینے کا سوچ رکھا ہے۔‏

خون کے بغیر علاج کے حق کا دِفاع

سن 1980ء کے دہے میں جب کوئی یہوواہ کا گواہ خون یا خون کے اجزا کے بغیر علاج کرانا چاہتا تھا تو ڈاکٹر اکثر اُس کے فیصلے کا احترام نہیں کرتے تھے۔‏ حاملہ عورتوں کو تو سب سے زیادہ مشکل کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ ججوں کے مطابق حاملہ عورتوں کو تو خون لینے سے اِنکار کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔‏ وہ ایسا اِس لیے سوچتے تھے کیونکہ اُنہیں لگتا تھا کہ اگر ماں خون نہ لینے کی وجہ سے مر گئی تو بچہ بِن ماں کے رہ جائے گا۔‏

29 دسمبر 1988ء میں ہماری ایک بہن نے جن کا نام ڈنیس نکولاؤ تھا،‏ ایک بیٹے کو جنم دیا۔‏ بچے کی پیدائش کے بعد بہن ڈنیس کا کافی خون ضائع ہو گیا اور اُن کا ہیموگلوبِن (‏یعنی خون میں موجود وہ پروٹین جو پورے جسم میں آکسیجن پہنچاتی ہے)‏ 0.‏5 سے بھی کم ہو گیا۔‏ چونکہ اُن کی جان خطرے میں تھی اِس لیے ڈاکٹر نے اُنہیں خون لگوانے کو کہا۔‏ اِس پر بہن ڈنیس نے صاف اِنکار کر دیا۔‏ اگلی صبح ڈاکٹروں نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ بہن ڈنیس کو خون لگانے کی اِجازت دے۔‏ جج نے اِس معاملے کی سنوائی نہیں کی،‏یہاں تک کہ بہن ڈنیس اور اُن کے شوہر کو بتائے بغیر ہی ہسپتال کو خون لگانے کی اِجازت دے دی۔‏

جمعہ،‏ 30 دسمبر کو ڈاکٹروں اور نرسوں نے بہن ڈنیس کو خون لگانے کی کوشش کی حالانکہ اُن کے شوہر اور باقی گھر والے بالکل رضامند نہیں تھے۔‏ بہن ڈنیس کے شوہر اور اُن کے گھر والے اُن کے بستر کے اِردگِرد کھڑے ہو گئے تاکہ اُنہیں خون نہ لگایا جا سکے۔‏ اِس وجہ سے اُسی شام اُن کے خاندان کے کئی افراد اور ایک دو بزرگوں کو گِرفتار کر لیا گیا۔‏ اگلے دن یعنی ہفتہ،‏ 31 دسمبر کی صبح کو شہر نیو یارک کے اخباروں،‏ ٹی‌وی اور ریڈیو سٹیشن پر اِس گِرفتاری کی خبریں نشر ہونے لگیں۔‏

1.‏ بھائی فلپ برمبلی اور میری جوانی کی تصویر

پیر کی صبح مَیں نے ہائی‌کورٹ کے جج سے بات کی جن کا نام ملٹن مولن تھا۔‏ مَیں نے اُن کے سامنے مُقدمے کے حقائق پیش کیے اور اُن پر واضح کِیا کہ بہن ڈنیس کے مُقدمے کا فیصلہ کرنے والے جج نے کوئی سنوائی کیے بغیر ہی اُنہیں خون لگانے کا حکم دے دیا تھا۔‏ جسٹس مولن نے مجھے بعد میں اپنے آفس میں آنے کو کہا تاکہ مَیں اُن کے ساتھ اِس کیس کے حقائق اور اِس پر لاگو ہونے والے قوانین پر بات کر سکوں۔‏ میرے شعبے کے نگہبان بھائی فلپ برمبلی بھی اُس شام میرے ساتھ جسٹس مولن کے آفس گئے۔‏ جج نے اُس وکیل کو بھی اپنے آفس میں بلایا جو ہسپتال کی طرف سے لڑ رہا تھا۔‏ بات‌چیت کرتے وقت ماحول اِتنا گرم ہو گیا کہ بھائی برمبلی نے اپنی نوٹ بُک پر لکھا کہ مَیں ”‏آواز دھیمی“‏ رکھوں۔‏ اُن کا یہ مشورہ بالکل ٹھیک تھا کیونکہ اُس وکیل کی دلیلوں کو غلط ثابت کرتے وقت مجھے کافی غصہ آ رہا تھا۔‏

بائیں سے دائیں طرف:‏ رچرڈ موک،‏ گریگری اولڈز،‏ پال پولیڈورو،‏ فلپ برمبلی،‏ مَیں اور ماریو مورینو—‏یہ اُس دن کی تصویر ہے جب ہم وکیلوں کے طور پر امریکہ کی سپریم کورٹ میں وہ مُقدمہ لڑے جو واچ‌ٹاور اور سٹرٹن نامی گاؤں کے بیچ تھا۔‏

تقریباً ایک گھنٹے بعد جسٹس مولن نے کہا کہ کل صبح سب سے پہلے اِس مُقدمے کی سنوائی ہوگی۔‏ اور جب ہم اُن کے آفس سے نکل رہے تھے تو اُنہوں نے کہا کہ کل ہسپتال کے وکیل کے ”‏پسینے چُھوٹنے والے ہیں۔‏“‏ دراصل جسٹس مولن کے کہنے کا یہ مطلب تھا کہ اُس وکیل کے لیے اپنی بات کو ثابت کرنا بڑا ہی مشکل ہوگا۔‏ یہ سُن کر مجھے ایسا لگا جیسے یہوواہ مجھے یقین دِلا رہا ہے کہ فیصلہ ہمارے حق میں ہی ہوگا۔‏ مَیں یہ سوچ کر دنگ تھا کہ یہوواہ اپنی مرضی کو انجام دینے کے لیے ہمیں کیسے کیسے اِستعمال کرتا ہے۔‏

ہم رات دیر تک اپنے مُقدمے کی تیاری کرتے رہے۔‏ کچہری بروکلن بیت‌ایل سے کچھ ہی فاصلے پر تھی اِس لیے ہمارے چھوٹے سے شعبے میں کام کرنے والے زیادہ‌تر بہن بھائی پیدل وہاں چلے گئے۔‏ جب چاروں ججوں نے ہماری دلیلوں کو سنا تو اُنہوں نے خون لگانے کے حکم کو منسوخ کر دیا۔‏ ہائی‌کورٹ نے بہن ڈنیس کے حق میں فیصلہ سنایا اور یہ قانون جاری کِیا کہ مریض کی بات سنے بغیر کوئی فیصلہ سنانا بنیادی اِنسانی حقوق کے خلاف ہے۔‏

اِس کے تھوڑے عرصے بعد ریاست نیو یارک کے سب سے بڑے ہائی‌کورٹ نے تصدیق کی کہ بہن ڈنیس کو خون کے بغیر علاج کرانے کا پورا حق ہے۔‏مَیں نے امریکہ کی مختلف ریاستوں کی ہائی‌کورٹس میں خون سے متعلق چار مُقدمے لڑے جن میں سے بہن ڈنیس کا مُقدمہ سب سے پہلا تھا۔‏ میرے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی کہ مجھے اِن مُقدموں میں حصہ لینے کا موقع ملا۔‏ (‏بکس ”‏ سپریم کورٹ میں جیتے گئے مُقدمے‏“‏ کو دیکھیں۔‏)‏ مَیں نے قانونی معاملات کی نگرانی کے شعبے میں کام کرنے والے دوسرے وکیلوں کا بھی کچھ مُقدموں میں ساتھ دیا،‏ مثلاً طلاق،‏ زمینوں اور عمارتوں سے متعلق مُقدمے اور ایسے مُقدمے جن میں یہ طے کِیا جاتا ہے کہ بچہ ماں یا باپ میں سے کس کے پاس رہے گا۔‏

میری شادی اور گھریلو زندگی

اپنی بیوی ڈون کے ساتھ

جب مَیں پہلی بار ڈون سے ملا تو وہ اکیلے اپنے تین بچوں کی پرورش کر رہی تھیں۔‏ اُن کے شوہر نے اُنہیں طلاق دے دی تھی۔‏ وہ اکیلے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی تھیں اور پہل‌کار کے طور پر بھی خدمت کر رہی تھیں۔‏ اُنہوں نے زندگی میں بہت مشکلات جھیلی تھیں۔‏ مَیں یہ دیکھ کر بہت متاثر ہوا کہ اِتنی مشکلیں سہنے کے باوجود وہ بڑی لگن سے یہوواہ کی خدمت کر رہی ہیں۔‏ 1992ء میں مَیں شہر نیو یارک میں منعقد ہونے والے صوبائی اِجتماع پر گیا اور وہ بھی وہاں آئیں۔‏ (‏اِس اِجتماع کا نام تھا:‏ لائٹ بیئررز)‏ مَیں نے اُن سے کہا کہ کیا ہم ایک دوسرے کو اَور اچھی طرح جان سکتے ہیں۔‏ اِس کے ایک سال بعد ہم نے شادی کر لی۔‏ مجھے ایک ایسی بیوی ملی ہے جو یہوواہ کی خدمت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے اور ہمیشہ ہنستی مسکراتی رہتی ہے۔‏ اُس کا ساتھ میرے لیے کسی برکت سے کم نہیں۔‏ ڈون نے میری زندگی کو خوشیوں سے بھر دیا ہے۔‏—‏امثا 31:‏12‏۔‏

جب ہماری شادی ہوئی تو بچوں کی عمریں 11،‏ 13 اور 16 سال تھیں۔‏ مَیں چاہتا تھا کہ مَیں اُن کے لیے ایک اچھا باپ ثابت ہوں۔‏ اِس لیے مَیں نے ہماری مطبوعات میں شائع ہونے والے ہر اُس مضمون کو بڑے دھیان سے پڑھا جو سوتیلے ماں باپ کے موضوع پر تھا اور اُن میں دیے گئے مشوروں پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی۔‏ مجھے چند مسئلوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن مَیں بہت خوش ہوں کہ بچوں نے مجھے ایک قابلِ‌بھروسا دوست اور شفیق باپ کے طور پر قبول کر لیا۔‏ ہم نے ہمیشہ اپنے بچوں کے دوستوں کے لیے اپنے گھر کے دروازے کُھلے رکھے ہیں اور ہمیں اِن نوجوانوں کے ساتھ ہنسنے کھیلنے اور بات کرنے میں بہت مزہ آتا ہے۔‏

سن 2013ء میں مَیں اور ڈون ریاست وِسکونسن میں منتقل ہو گئے جہاں ڈون کے بوڑھے ماں باپ کو دیکھ‌بھال کی ضرورت تھی۔‏ وہاں کچھ ایسا ہوا جس پر میری خوشی کی کوئی اِنتہا نہیں رہی۔‏ بیت‌ایل سے بھائیوں نے مجھ سے رابطہ کر کے کہا کہ مَیں آئندہ بھی مختلف قانونی معاملوں میں مدد کرنے کے لیے بیت‌ایل میں عارضی رضاکار کے طور پر کام کروں۔‏ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ بیت‌ایل میں میری خدمت ابھی ختم نہیں ہوئی۔‏

زندگی میں اچانک ایک تبدیلی

ستمبر 2018ء میں مَیں نے محسوس کِیا کہ مَیں ہر وقت کھانستا اور گلا صاف کرتا رہتا ہوں۔‏ جب مَیں ڈاکٹر کے پاس گیا تو میرا معائنہ کرنے کے بعد بھی اُسے مسئلہ سمجھ نہیں آیا۔‏ بعد میں مَیں ایک اَور ڈاکٹر کو دِکھانے گیا جس نے مجھے اعصابی بیماریوں کے ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔‏ جنوری 2019ء میں اُس ڈاکٹر نے بتایا کہ مجھے ایک ایسی بیماری ہے جو بہت ہی کم لوگوں کو ہوتی ہے اور یہ ایک شخص کے پورے جسم کو بُری طرح سے متاثر کرتی ہے۔‏

اِس کے تین دن بعد جب مَیں برف پر سکیٹنگ کر رہا تھا تو مَیں اچانک گِر گیا اور میرے دائیں ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔‏ مَیں نے ساری زندگی یہ کھیل کھیلا تھا اور اِس میں بہت ماہر بھی تھا۔‏ مَیں سمجھ گیا کہ میری بیماری کی وجہ سے میرے پٹھے کتنے کمزور ہو گئے ہیں۔‏ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میری بیماری کتنی تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے۔‏ میرے لیے بولنا،‏ ہلنا جلنا اور کھانا تک نگلنا بہت مشکل ہو گیا۔‏

مَیں بہت خوش ہوں کہ مَیں ایک وکیل کے طور پر یہوواہ کی تنظیم کی مدد کر پایا ہوں۔‏ مجھے اِس بات کی بھی بڑی خوشی ہے کہ مَیں ڈاکٹروں،‏ وکیلوں اور ججوں کے لیے تیار کیے جانے والے رسالوں میں بہت سے مضامین لکھ سکا۔‏ اِس کے علاوہ مَیں نے دُنیا بھر میں ہونے والے سیمیناروں میں تقریریں بھی کیں جن میں مَیں نے یہوواہ کے گواہوں کا دِفاع کِیا کہ اُنہیں خون کے بغیر آپریشن کرانے اور علاج کے دیگر طریقے اپنانے کا حق ہے۔‏ لیکن مَیں اپنے بارے میں وہی بات کہوں گا جو لُوقا 17:‏10 مَیں لکھی ہے:‏ ’‏مَیں نکما غلام ہوں۔‏ مَیں نے تو بس اپنا فرض پورا کِیا ہے۔‏‘‏