مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ عظیم کمہار کے ہاتھوں میں نرم مٹی کی طرح ہیں؟‏

کیا آپ عظیم کمہار کے ہاتھوں میں نرم مٹی کی طرح ہیں؟‏

‏”‏دیکھو جس طرح مٹی کمہار کے ہاتھ میں ہے اُسی طرح .‏ .‏ .‏ تُم میرے ہاتھ میں ہو۔‏“‏‏—‏یرم 18:‏6‏۔‏

گیت:‏ 23،‏  22

1،‏ 2.‏ دانی‌ایل نبی خدا کی نظر میں بہت عزیز کیوں تھے اور ہم اُن کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

جب یہودی،‏ شہر بابل میں اسیر ہوئے تو اُنہیں ایسے ماحول میں رہنا پڑا جہاں بُت‌پرستی اور جادوٹونا عام تھا۔‏ لیکن دانی‌ایل نبی اور اُن کے تین ساتھیوں نے اُس ماحول میں ڈھلنے سے اِنکا‌ر کر دیا۔‏ (‏دان 1:‏6،‏ 8،‏ 12؛‏ 3:‏16-‏18‏)‏ اُنہوں نے عزم کِیا کہ وہ اپنے کمہار یہوواہ کے وفادار رہیں گے اور صرف اُسی کی عبادت کریں گے۔‏ اور وہ زندگی بھر اپنے اِس عزم پر قائم رہے۔‏ اِس لیے ایک فرشتے نے دانی‌ایل کے بارے میں کہا کہ وہ خدا کی نظر میں بہت عزیز ہیں۔‏—‏دان 10:‏11،‏ 19‏۔‏

2 کبھی کبھار کمہار مٹی کو ڈھالنے کے لیے اِسے دبا دبا کر سانچے میں ڈالتا ہے۔‏ ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا کائنات کا مالک ہے اور وہ قوموں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کا اِختیار رکھتا ہے۔‏ ‏(‏یرمیاہ 18:‏6 کو پڑھیں۔‏)‏ وہ ہمیں بھی ڈھالنے کا اِختیار رکھتا ہے لیکن وہ ہمیں مجبور نہیں کرتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ہم اپنی مرضی سے اُس کے معیاروں کے مطابق ڈھلیں۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم نرم مٹی کی طرح ہوں جسے آسانی سے ڈھالا جا سکتا ہے۔‏ اِس سلسلے میں ہم اِن تین سوالوں پر غور کریں گے:‏ (‏1)‏ ہم سخت مٹی کی طرح بننے کے خطرے میں کیسے پڑ سکتے ہیں؟‏ (‏2)‏ ہم ایسی خوبیاں کیسے پیدا کر سکتے ہیں جن کی وجہ سے ہمارا دل نرم مٹی کی طرح رہے؟‏ اور (‏3)‏ والدین اپنے بچوں کو ڈھالنے میں یہوواہ خدا کا ساتھ کیسے دے سکتے ہیں؟‏

سخت مٹی کی طرح نہ بنیں

3.‏ ہمارا دل کن باتوں کی وجہ سے سخت مٹی کی طرح بن سکتا ہے؟‏ مثال دے کر بتائیں۔‏

3 امثال 4:‏23 میں لکھا ہے:‏ ”‏اپنے  دل  کی  خوب  حفاظت  کر کیونکہ زندگی کا سرچشمہ وہی ہے۔‏“‏ ہمارا دل کن باتوں کی وجہ سے سخت بن سکتا ہے؟‏ غرور،‏ گُناہ کرنے کی عادت اور ایمان کی کمی کی وجہ سے۔‏ ایسی باتیں نافرمانی اور باغی سوچ کو ہوا دیتی ہیں۔‏ (‏دان 5:‏1،‏ 20؛‏ عبر 3:‏13،‏ 18،‏ 19‏)‏ ذرا دیکھیں کہ بادشاہ عُزیاہ کے غرور کا کیا انجام ہوا۔‏ ‏(‏2-‏تواریخ 26:‏3-‏5،‏ 16-‏21 کو پڑھیں۔‏)‏ شروع میں تو اُنہوں نے وہی کِیا ”‏جو [‏یہوواہ]‏ کی نظر میں درست“‏ تھا اور وہ ’‏یہوواہ کے طالب رہے۔‏‘‏ لیکن ’‏جب وہ زورآور ہو گئے تو اُن کا دل پھول گیا‘‏ حالانکہ وہ خدا کی مدد سے ہی زورآور بنے تھے۔‏ سونے پہ سہاگا یہ کہ اُنہوں نے ہیکل میں بخور جلا‌نے کی بھی کوشش کی جو کہ صرف اُن کاہنوں کے لیے جائز تھا جو ہارون کی نسل سے تھے۔‏ اور جب کاہنوں نے اُن کو روکنے کی کوشش کی تو وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کی بجائے سخت غصے ہوئے۔‏ اُن کا غرور اُن کے زوال کا باعث بنا۔‏ اُسی وقت اُنہیں یہوواہ کی مار پڑی اور وہ مرتے دم تک کوڑھی رہے۔‏—‏امثا 16:‏18‏۔‏

4،‏ 5.‏ اگر ہم غرور کو اپنے دل میں جگہ دیں گے تو کیا ہو سکتا ہے؟‏ مثال دے کر بتائیں۔‏

4 اگر ہم غرور کو اپنے دل میں جگہ دیں گے تو ہم ”‏خود  کو  اپنی حیثیت سے زیادہ اہم“‏ سمجھنے لگیں گے۔‏ پھر جب پاک کلام سے ہماری اِصلا‌ح کی جائے گی تو شاید ہم اِسے رد کر دیں۔‏ (‏روم 12:‏3؛‏ امثا 29:‏1‏)‏ ذرا دیکھیں کہ بھائی جم کے ساتھ کیا ہوا جو کلیسیا کے بزرگ تھے۔‏ ایک دن بزرگوں کے اِجلا‌س کے دوران وہ کسی معاملے پر باقی بزرگوں سے متفق نہیں تھے۔‏ جم کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں نے بھائیوں سے کہا کہ وہ محبت سے کام نہیں لے رہے ہیں۔‏ پھر مَیں اُٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔‏“‏ اِس کے تقریباً چھ مہینے بعد وہ کسی  اَور  کلیسیا  میں  منتقل  ہو گئے لیکن وہاں اُنہیں بزرگ کے طور پر مقرر نہیں کِیا گیا۔‏ جم بتاتے ہیں:‏ ”‏مجھے بڑی چوٹ لگی۔‏ مجھے پورا یقین تھا کہ مَیں حق پر تھا اِس لیے مَیں نے اِجلا‌سوں پر جانا ہی چھوڑ دیا۔‏“‏ جم دس سال تک کلیسیا سے دُور رہے۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏میری انا کو ٹھیس پہنچی تھی۔‏ مَیں نے سارا اِلزام یہوواہ کے سر پر دھر دیا۔‏ بزرگوں نے بار بار آ کر مجھے سمجھانے کی کوشش کی لیکن مَیں نے اُن کی ایک نہ سنی۔‏“‏

5 جم کی مثال سے پتہ چلتا ہے کہ غرور میں آ کر ہم کتنی آسانی سے اپنے ردِعمل کے لیے بہانے بنانے لگتے ہیں۔‏ (‏یرم 17:‏9‏)‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏میری سوئی بس اِسی بات پر اٹکی تھی کہ مَیں نہیں بلکہ دوسرے غلطی پر ہیں۔‏“‏ کیا کسی مسیحی بھائی یا بہن نے کبھی آپ کا دل دُکھایا؟‏ کیا کبھی آپ سے کلیسیا کی کوئی ذمےداری لے لی گئی؟‏ اِس پر آپ کا کیا ردِعمل تھا؟‏ کیا آپ نے معاملے کو انا کا مسئلہ بنا لیا؟‏ یا پھر کیا آپ سمجھ گئے کہ اپنے بھائی یا بہن سے صلح کرنا اور یہوواہ کا وفادار رہنا زیادہ اہم ہے؟‏‏—‏زبور 119:‏165؛‏ کُلسّیوں 3:‏13 کو پڑھیں۔‏

6.‏ جب کوئی مسیحی عادتاً گُناہ کرتا ہے تو کیا ہو سکتا ہے؟‏

6 اگر کوئی مسیحی عادتاً گُناہ کرے،‏ یہاں  تک  کہ  چھپ  کر  ایسا کرے تو نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے ملنے والی اِصلا‌ح کو نظرانداز کرنے لگے۔‏ یوں اُس کے لیے آگے سے گُناہ کرنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔‏ ایک بھائی نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کے ضمیر نے اُسے اپنی بُری روِش کے لیے ٹوکنا چھوڑ دیا۔‏ (‏واعظ 8:‏11‏)‏ ایک اَور بھائی جو فحش مواد دیکھنے کی عادت میں پڑ گیا تھا،‏ وہ کہتا ہے کہ ”‏مَیں بزرگوں کی نکتہ‌چینی بھی کرنے لگا۔‏“‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اِس بُری عادت کی وجہ سے یہوواہ خدا سے دُور ہو رہا تھا۔‏ لیکن خوشی کی بات ہے کہ جب بزرگوں کو اُس کی عادت کے بارے میں پتہ چلا تو وہ اُس کی مدد کر سکے۔‏ یوں تو ہم سب غلطیاں کرتے ہیں لیکن اگر ہم خدا سے معافی مانگنے کی بجائے دوسروں کی نکتہ‌چینی کریں یا پھر بہانے بنائیں تو ہو سکتا ہے کہ ہمارا دل سخت ہو رہا ہے۔‏

7،‏ 8.‏ ‏(‏الف)‏ بنی‌اِسرائیل کی مثال سے کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان کی کمی دل کو سخت مٹی کی طرح بنا سکتی ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم اِس سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

7 ایمان کی کمی ہمارے دل کو سخت مٹی کی طرح کیسے  بنا  سکتی  ہے؟‏ اِس سلسلے میں دیکھیں کہ اُن اِسرائیلیوں کے ساتھ کیا ہوا جنہیں یہوواہ خدا نے مصر سے آزاد کِیا تھا۔‏ یہوواہ خدا نے اُن کی خاطر بڑے بڑے معجزے کیے تھے۔‏ لیکن جب بنی‌اِسرائیل ملک کنعان کے نزدیک پہنچے تو ظاہر ہو گیا کہ اُن میں ایمان کی کمی ہے۔‏ یہوواہ خدا پر بھروسا کرنے کی بجائے وہ خوف‌زدہ ہو گئے اور موسیٰ پر بڑبڑانے لگے۔‏ وہ تو مصر واپس لوٹنے کی بات کرنے لگے حالانکہ وہاں وہ غلا‌م ہوا کرتے تھے۔‏ یہ دیکھ کر یہوواہ خدا کو بہت دُکھ ہوا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏یہ لوگ کب تک میری توہین کرتے رہیں گے؟‏“‏ (‏گن 14:‏1-‏4،‏ 11؛‏ زبور 78:‏40،‏ 41‏)‏ ایمان کی کمی کی وجہ سے اُن اِسرائیلیوں کا دل سخت مٹی کی طرح بن گیا اور اِس لیے وہ سب کے سب ویرانے میں ہلا‌ک ہو گئے۔‏

8 آج ہم نئی دُنیا کی دہلیز پر کھڑے ہیں اور ہمارا ایمان بھی آزمایا جا رہا ہے۔‏ اِس لیے ہمیں اِس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارا ایمان کتنا مضبوط ہے۔‏ ذرا یسوع مسیح کی اُس ہدایت پر غور کریں جو متی 6:‏33 میں پائی جاتی ہے۔‏ خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا میرے منصوبوں اور فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مَیں یسوع مسیح کی اِس بات پر پکا یقین رکھتا ہوں؟‏ کیا مَیں زیادہ پیسے کمانے کی خاطر کبھی کبھار اِجلا‌سوں پر نہیں جاتا یا مُنادی کے کام میں حصہ نہیں لیتا؟‏ اگر مجھ پر اپنی ملا‌زمت کو زیادہ وقت دینے کا دباؤ ڈالا جائے تو مَیں کیا کروں گا؟‏ کیا مَیں دُنیا کے سانچے میں ڈھل جاؤں گا اور یوں خود کو کلیسیا سے دُور ہونے کے خطرے میں ڈالوں گا؟‏“‏

9.‏ ہمیں باقاعدگی سے اپنے ایمان کو کیوں پرکھنا چاہیے اور ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏

9 اگر ہم اُن ہدایتوں کو نظرانداز کرنے لگیں گے جو پاک کلام میں خارج‌شُدہ لوگوں سے سلوک یا دوستوں اور تفریح کے اِنتخاب کے سلسلے میں دی گئی ہیں تو ظاہر ہو جائے گا کہ ہم میں ایمان کی کمی ہے اور ہمارا دل سخت مٹی کی طرح بن رہا ہے۔‏ آپ اِس بات کا اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں کہ آپ کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے یا نہیں؟‏ پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏اپنا جائزہ لیتے رہیں کہ آپ سیدھی راہ پر چل رہے ہیں یا نہیں؛‏ بار بار اپنے آپ کو پرکھیں۔‏“‏ (‏2-‏کُر 13:‏5‏)‏ لہٰذا ہمیں باقاعدگی سے پاک کلام کی روشنی میں اپنا جائزہ لینا چاہیے تاکہ ہمیں اندازہ ہو جائے کہ ہمارا ایمان کتنا مضبوط ہے۔‏

نرم مٹی کی طرح رہیں

10.‏ یہوواہ خدا ہماری مدد کیسے کرتا ہے تاکہ ہم نرم مٹی کی طرح رہیں؟‏

10 یہوواہ خدا نے ہمیں اپنا کلام،‏ کلیسیا اور مُنادی کا کام دیا ہے جن کی مدد سے ہم نرم مٹی کی طرح رہ سکتے ہیں۔‏ آئیں،‏ پہلے دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے کلام کے ذریعے ہماری مدد کیسے کرتا ہے۔‏ جس طرح پانی مٹی کو نرم رکھتا ہے اِسی طرح روزانہ بائبل کو پڑھنے اور اِس پر سوچ بچار کرنے سے ہمارا دل نرم مٹی کی طرح رہتا ہے۔‏ اِسی لیے تو یہوواہ خدا نے بنی‌اِسرائیل کے بادشاہوں کو حکم دیا کہ وہ شریعت کی نقل بنائیں اور اِسے ہر روز پڑھیں۔‏ (‏اِست 17:‏18،‏ 19‏)‏ یسوع مسیح کے رسول بھی جانتے تھے کہ پاک کلام کو پڑھنا اور اِس پر سوچ بچار کرنا مُنادی کے کام کو انجام دینے کے لیے کتنا اہم ہے۔‏ اُنہوں نے اپنے خطوں اور کتابوں میں سینکڑوں بار عبرانی صحیفوں کا حوالہ دیا اور دوسروں کی بھی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ پاک صحیفوں کو پڑھیں اور اِن پر غور کریں۔‏ (‏اعما 17:‏11‏)‏ آج بھی خدا کے کلام کو روزانہ پڑھنا اور اِس پر سوچ بچار کرنا نہایت ہی اہم ہے۔‏ (‏1-‏تیم 4:‏15‏)‏ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم خاکسار رہیں گے اور یہوواہ خدا ہمیں آسانی سے ڈھال سکے گا۔‏

یہوواہ خدا کی مدد سے نرم مٹی کی طرح رہیں۔‏ (‏پیراگراف 10-‏13 کو دیکھیں۔‏)‏

11،‏ 12.‏ مثال دے کر بتائیں کہ یہوواہ خدا کلیسیا کے ذریعے ہمیں کیسے ڈھالتا ہے۔‏

11 یہوواہ خدا کلیسیا کے ذریعے ہمیں کیسے ڈھالتا ہے؟‏ کلیسیا میں ہر شخص کی مدد اُس کی ضرورت کے مطابق کی جاتی ہے۔‏ جم جن کا ذکر پہلے ہو چُکا ہے،‏ اُن کا دل اُس وقت پگھلنے لگا جب ایک بزرگ نے اُن کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔‏ جم اُس بزرگ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ”‏اُنہوں نے کبھی مجھ پر اِلزام نہیں لگا‌یا اور نہ ہی میری نکتہ‌چینی کی۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے بڑے خلوص سے میری مدد کی۔‏“‏ تقریباً تین مہینے بعد جم اُس بزرگ کے کہنے پر ایک اِجلا‌س پر جانے کو راضی ہو گئے۔‏ جم کہتے ہیں:‏ ”‏کلیسیا کے بہن بھائیوں نے بڑی گرم‌جوشی سے میرا اِستقبال کِیا۔‏ اُن کی محبت کی وجہ سے میری سوچ بالکل بدل گئی۔‏ مجھے احساس ہوا کہ مَیں نے اپنے جذبات کو حد سے زیادہ اہمیت دی تھی۔‏ بزرگوں اور میری بیوی نے میری بڑی مدد کی اور یوں مَیں دوبارہ سے یہوواہ کی خدمت کرنے لگا۔‏ مجھے 1 مارچ 1993ء کے مینارِنگہبانی کے مضامین ”‏یہوواہ پر اِلزام نہیں ہے“‏ اور ”‏وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کریں“‏ سے بھی بہت فائدہ ہوا۔‏“‏

12 کچھ وقت گزرنے کے بعد بھائی جم کو دوبارہ سے بزرگ کے طور پر مقرر کِیا گیا۔‏ تب سے اُنہوں نے بہت سے ایسے بھائیوں کی مدد کی ہے جو اُن جیسی صورتحال سے گزرے۔‏ جم کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں سوچتا تھا کہ یہوواہ خدا کے ساتھ میری دوستی کا بندھن بہت ہی مضبوط ہے لیکن مَیں غلطی پر تھا۔‏ مجھے اِس بات کا بڑا پچھتاوا ہے کہ میرے غرور نے مجھے اِس حد تک اندھا کر دیا کہ مَیں دیکھ ہی نہیں سکا کہ اصل میں کون سی باتیں اہم ہوتی ہیں۔‏ میرا سارا دھیان بس دوسروں کی غلطیوں پر تھا۔‏“‏—‏1-‏کُر 10:‏12‏۔‏

13.‏ مُنادی کے کام کے ذریعے ہم میں کون سی خوبیاں پیدا ہوتی ہیں اور اِس کے کون سے اچھے نتیجے نکل سکتے ہیں؟‏

13 یہوواہ خدا مُنادی کے کام کے ذریعے ہماری  شخصیت  کو  کیسے ڈھالتا ہے؟‏ جب ہم دوسروں کو خوش‌خبری سناتے ہیں تو ہم میں خاکساری کی خوبی کے علا‌وہ وہ تمام خوبیاں بھی پیدا ہوتی ہیں جو خدا کی پاک روح کے پھل میں شامل ہیں۔‏ (‏گل 5:‏22،‏ 23‏)‏ ذرا اُن خوبیوں کے بارے میں سوچیں جو مُنادی کے کام کی وجہ سے آپ میں پیدا ہوئیں۔‏ اِس کے علا‌وہ جب ہم نئی شخصیت کو پہنتے ہیں تو ہم بائبل کے پیغام کو سنوارتے ہیں جس سے وہ لوگ متاثر ہوتے ہیں جنہیں ہم خوش‌خبری سناتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر جب آسٹریلیا میں ایک عورت نے دو گواہوں کے ساتھ بدتمیزی سے بات کی تو اُن گواہوں نے بڑے صبر سے اُس کی بات سنی۔‏ بعد میں اُس عورت کو اپنے رویے پر بہت افسوس ہوا اور اُس نے برانچ کو ایک خط لکھا۔‏ خط میں اُس نے لکھا:‏ ”‏مَیں اُن دو صابر اور خاکسار لوگوں سے معافی مانگنا چاہتی ہوں کیونکہ مَیں نے بڑی اکڑ سے اُن سے بات کی۔‏ مَیں کتنی بےوقوف تھی کہ مَیں نے ایسے لوگوں کو چلتا کر دیا جو مجھے خدا کے کلام کے بارے میں بتانے آئے تھے۔‏“‏ اگر وہ دو گواہ عورت کی باتیں سُن کر تھوڑا سا بھی جھنجھلا‌تے تو کیا وہ یہ خط لکھتی؟‏ بالکل نہیں۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مُنادی کے کام سے نہ صرف ہماری شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے بلکہ دوسروں پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے۔‏

اپنے بچوں کو ڈھالنے میں یہوواہ کا ساتھ دیں

14.‏ اگر والدین اپنے بچوں کو یہوواہ کی راہوں کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں تو اُنہیں کیا کرنا ہوگا؟‏

14 چھوٹے بچے عام طور پر خاکسار ہوتے ہیں اور اُنہیں سیکھنے کا شوق ہوتا ہے۔‏ (‏متی 18:‏1-‏4‏)‏ اِس لیے دانش‌مند والدین اپنے بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی بائبل کی سچائیاں سکھاتے ہیں اور اُن کے دلوں میں پاک صحیفوں کے لیے محبت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ (‏2-‏تیم 3:‏14،‏ 15‏)‏ ظاہری بات ہے کہ والدین کو پہلے تو بائبل کی سچائیوں کو اپنے ہی دل پر نقش کرنا ہوگا اور اِن پر عمل کرنا ہوگا تاکہ اُن کے بچے اُن سے سیکھ سکیں۔‏ یوں بچے یہ بھی سمجھ جائیں گے کہ اُن کے والدین محبت کی بِنا پر اُن کی اِصلا‌ح کرتے ہیں اور اصل میں یہ اِصلا‌ح یہوواہ خدا کی طرف سے ہے۔‏

15،‏ 16.‏ والدین اُس صورت میں خدا پر بھروسا کیسے ظاہر کر سکتے ہیں جب اُن کے بچے کو کلیسیا سے خارج کر دیا جاتا ہے؟‏

15 سچائی میں پرورش پانے کے باوجود کچھ بچے بڑے  ہو  کر  کلیسیا سے تعلق توڑ دیتے ہیں یا پھر اُنہیں خارج کر دیا جاتا ہے۔‏ جنوبی افریقہ میں رہنے والی ایک بہن نے کہا:‏ ”‏جب میرے بھائی کو خارج کر دیا گیا تو ہم سب کو اِتنا شدید صدمہ ہوا جیسا کہ وہ مر گیا ہو۔‏“‏ اِس بہن اور اِس کے والدین نے کیا کِیا؟‏ اُنہوں نے اُس ہدایت پر عمل کِیا جو پاک کلام میں خارج‌شُدہ لوگوں سے سلوک کے بارے میں دی گئی ہے۔‏ ‏(‏1-‏کُرنتھیوں 5:‏11،‏ 13 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس بہن کے والدین نے کہا:‏ ”‏ہم نے اِس ہدایت پر عمل کرنے کا پکا عزم کِیا کیونکہ ہم جانتے تھے کہ خدا کی مرضی پر عمل کرنے کے اچھے نتیجے نکلتے ہیں۔‏ جب ایک شخص کو خارج کِیا جاتا ہے تو اصل میں خدا اُس کی اِصلا‌ح کر رہا ہوتا ہے۔‏ ہمیں پورا یقین تھا کہ یہوواہ ہمارے بیٹے سے محبت کرتا ہے اور مناسب حد تک اُس کی اِصلا‌ح کرے گا۔‏ اِس لیے ہم نے اپنے بیٹے سے صرف تب ہی رابطہ کِیا جب کوئی بہت ہی ضروری خاندانی معاملہ پیدا ہوا۔‏“‏

16 اِس پر اُن کے بیٹے نے کیسا محسوس کِیا؟‏ اُس نے  کہا:‏  ”‏مَیں جانتا تھا کہ میرے گھر والے مجھ سے نفرت نہیں کرتے بلکہ وہ تو یہوواہ خدا اور اُس کی تنظیم کی فرمانبرداری کر رہے ہیں۔‏“‏ اُس نے یہ بھی کہا کہ ”‏مجھے اُس وقت احساس ہوا کہ مجھے یہوواہ خدا کی کتنی ضرورت ہے جب مَیں اُس سے مدد مانگنے پر مجبور ہو گیا۔‏“‏ کچھ عرصے بعد وہ دوبارہ سے کلیسیا کا رُکن بن گیا۔‏ ذرا سوچیں کہ اِس پر اُس کے گھر والے کتنے خوش ہوئے ہوں گے!‏ واقعی ہم پورا یقین رکھ سکتے ہیں کہ جب ہم اپنی سب راہوں میں خدا کی ہدایتوں پر عمل کریں گے تو اِس کے اچھے نتیجے نکلیں گے۔‏—‏امثا 3:‏5،‏ 6؛‏ 28:‏26‏۔‏

17.‏ ہمیں یہوواہ کا کہنا ماننے کی عادت کیوں ڈالنی چاہیے اور اِس سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟‏

17 یسعیاہ نبی نے شہر بابل میں اسیر  یہودیوں  کے  بارے  میں پیش‌گوئی کی کہ وہ توبہ کر کے کہیں گے:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ تُو ہمارا باپ ہے۔‏ ہم مٹی ہیں اور تُو ہمارا کمہار ہے اور ہم سب کے سب تیری دست‌کاری ہیں۔‏“‏ یسعیاہ نبی نے کہا کہ وہ یہ بھی اِلتجا کریں گے کہ ”‏[‏ہماری]‏ بدکرداری کو ہمیشہ تک یاد نہ رکھ۔‏“‏ (‏یسع 64:‏8،‏ 9‏)‏ اِن یہودیوں کی طرح اگر ہم بھی خاکساری سے یہوواہ خدا کو اپنا کمہار تسلیم کرتے ہیں اور اُس کا کہنا ماننے کی عادت ڈالتے ہیں تو ہم اُس کی نظر میں اُتنے ہی عزیز ہوں گے جتنے کہ دانی‌ایل نبی تھے۔‏ پھر یہوواہ خدا ہمیں اپنے کلام،‏ اپنی پاک روح اور اپنی تنظیم کے ذریعے ڈھالتا رہے گا اور تب تک ایسا کرتا رہے گا جب تک ہم بےعیب بن کر ”‏خدا کی اولاد“‏ میں شامل نہیں ہو جاتے۔‏—‏روم 8:‏21‏۔‏