مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ضبطِ‌نفس—‏یہوواہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایک لازمی خوبی

ضبطِ‌نفس—‏یہوواہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایک لازمی خوبی

‏”‏جب بھی میرا کزن مجھ سے جھگڑتا تھا تو مَیں اُس کا گلا پکڑ کر دبانے لگتا تھا۔‏ میرا دل چاہتا تھا کہ اُسے جان سے مار ڈالوں۔‏“‏—‏پال۔‏

‏”‏مَیں ذرا ذرا سی بات پر بھڑک اُٹھتا تھا۔‏ مجھے اِتنا غصہ آتا تھا کہ مَیں گھر کا سامان،‏ اپنے بچوں کے کھلونے یا جو بھی چیز میرے ہاتھ میں آتی،‏ اُسے توڑ دیتا تھا۔‏“‏—‏مارکو۔‏

شاید ہم میں سے زیادہ‌تر کو اُتنا غصہ تو نہ آتا ہو جتنا پال اور مارکو کو آتا تھا۔‏ لیکن ہم سب کے لیے کبھی کبھار خود کو قابو میں رکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ ایسا کیوں ہے؟‏ کیونکہ ہم سب نے آدم سے گُناہ کرنے کا رُجحان ورثے میں پایا ہے۔‏ (‏روم 5:‏12‏)‏ کچھ لوگوں کو پال اور مارکو کی طرح اپنے غصے کو قابو میں رکھنا مشکل لگتا ہے جبکہ بعض کو شاید اپنے خیالات کو قابو میں رکھنا مشکل لگتا ہے۔‏ مثال کے طور پر وہ اپنے خدشوں یا منفی باتوں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔‏ دیگر کو اُس وقت خود کو روکنا بہت مشکل لگتا ہے جب اُنہیں اپنی جنسی خواہشوں کو پورا کرنے،‏ حد سے زیادہ شراب پینے یا منشیات لینے کی طلب ہوتی ہے۔‏

جو لوگ اپنی سوچ،‏ خواہشوں اور کاموں کو قابو میں نہیں رکھتے،‏ اُن کی زندگیاں برباد ہو سکتی ہیں۔‏ لیکن ہم ایسے انجام سے بچ سکتے ہیں۔‏ وہ کیسے؟‏ خود میں ضبطِ‌نفس پیدا کرنے سے۔‏ آئیں،‏ اِس شان‌دار خوبی کو پیدا کرنے کے سلسلے میں اِن تین سوالوں پر غور کریں:‏ (‏1)‏ ضبطِ‌نفس کیا ہے؟‏ (‏2)‏ یہ خوبی اِتنی اہم کیوں ہے؟‏ (‏3)‏ ہم اِس خوبی کو اپنے اندر کیسے پیدا کر سکتے ہیں جو کہ ’‏روح کے پھل‘‏ کا ایک حصہ ہے؟‏ (‏گل 5:‏22،‏ 23‏)‏ اِس کے بعد ہم غور کریں گے کہ ہم اُس صورت میں کیا کر سکتے ہیں جب ہم اِس خوبی کو ظاہر کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔‏

ضبطِ‌نفس کیا ہے؟‏

جس شخص میں ضبط نفس کی خوبی ہوتی ہے،‏ وہ اپنی ہر خواہش کو فوراً پورا کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔‏ اِس کی بجائے وہ خود کو قابو میں رکھتا ہے اور کوئی بھی ایسی بات کہنے یا ایسا کام کرنے سے گریز کرتا ہے جس سے یہوواہ اُس سے ناراض ہو سکتا ہے۔‏

یسوع مسیح نے اپنی مثال سے دِکھایا کہ ضبطِ‌نفس ظاہر کرنے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔‏

ضبطِ‌نفس کی شان‌دار مثال یسوع مسیح نے قائم کی۔‏ اُنہوں نے دِکھایا کہ ضبطِ‌نفس ظاہر کرنے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔‏ بائبل میں اُن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ’‏جب اُن کی بےعزتی کی گئی تو اُنہوں نے بدلے میں بےعزتی نہیں کی۔‏ جب اُنہیں اذیت دی گئی تو اُنہوں نے دھمکی نہیں دی بلکہ اپنے آپ کو اُس کے سپرد کِیا جو راستی سے اِنصاف کرتا ہے۔‏‘‏ (‏1-‏پطر 2:‏23‏)‏ یسوع نے تب بھی ضبطِ‌نفس کا دامن نہیں چھوڑا جب وہ سُولی پر تھے اور اُن کے دُشمن اُن کا مذاق اُڑا رہے تھے۔‏ (‏متی 27:‏39-‏44‏)‏ اِس سے پہلے بھی اُنہوں نے اِس شان‌دار خوبی کو ظاہر کِیا۔‏ اُس وقت مذہبی رہنماؤں نے اُنہیں اُن ہی کی باتوں میں پھنسانے کی کوشش کی تھی۔‏ (‏متی 22:‏15-‏22‏)‏ اور یسوع نے اُس وقت تو ضبطِ‌نفس کی بہت ہی عمدہ مثال قائم کی جب لوگوں نے اُنہیں مارنے کے لیے پتھر اُٹھائے لیکن وہ اُن سے بدلہ لینے کی بجائے”‏چھپ گئے اور ہیکل سے باہر نکل گئے۔‏“‏—‏یوح 8:‏57-‏59‏۔‏

کیا ہم یسوع مسیح کی طرح بن سکتے ہیں؟‏ جی ہاں۔‏ ہم کسی حد تک اُن جیسے بن سکتے ہیں۔‏ پطرس رسول نے لکھا:‏ ”‏مسیح نے بھی آپ کے لیے تکلیف سہی اور یوں آپ کے لیے مثال چھوڑی تاکہ آپ اُس کے نقشِ‌قدم پر چلیں۔‏“‏ (‏1-‏پطر 2:‏21‏)‏ سچ ہے کہ ہم عیب‌دار ہیں لیکن پھر بھی ضبطِ‌نفس ظاہر کرنے کے سلسلے میں ہم یسوع کے نقشِ‌قدم پر چل سکتے ہیں۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ ایسا کرنا اِتنا ضروری کیوں ہے۔‏

ضبطِ‌نفس کی خوبی اِتنی اہم کیوں ہے؟‏

اگر ہم یہوواہ کو خوش کرنا چاہتے ہیں تو اِس خوبی کو ظاہر کرنا بہت ضروری ہے۔‏ بھلے ہی ہمیں وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرتے ہوئے کافی لمبا عرصہ ہو گیا ہو،‏ اگر ہم اپنی زبان اور کاموں کو قابو میں نہیں رکھیں گے تو ہم یہوواہ کی دوستی کھو سکتے ہیں۔‏

اِس حوالے سے ذرا موسیٰ کی مثال پر غور کریں جو اپنے زمانے کے ’‏سب آدمیوں سے زیادہ حلیم تھے۔‏‘‏ (‏گن 12:‏3‏)‏ وہ کافی سالوں تک بنی‌اِسرائیل کی شکایتوں کو صبر سے سنتے آ رہے تھے۔‏ لیکن ایک دن اُن کے صبر کی اِنتہا ہو گئی۔‏ وہ اُس وقت بہت غصے میں آ گئے جب بنی‌اِسرائیل ایک بار پھر پانی کی کمی کی وجہ سے بڑبڑانے لگے۔‏ موسیٰ نے اُن سے بڑی سختی سے بات کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏سنو اَے باغیو!‏ کیا ہم تمہارے لئے اِسی چٹان سے پانی نکالیں؟‏“‏—‏گن 20:‏2-‏11‏۔‏

اِس موقعے پر موسیٰ اپنا ضبط کھو بیٹھے۔‏ اُنہوں نے یہوواہ کی بڑائی نہیں کی جس نے معجزانہ طور پر اُنہیں پانی دیا تھا۔‏(‏زبور 106:‏32،‏ 33‏)‏ اِس کے نتیجے میں یہوواہ نے اُنہیں وعدہ کیے ہوئے ملک میں جانے کی اِجازت نہیں دی۔‏ (‏گن 20:‏12‏)‏ غالباً موسیٰ کو مرتے دم تک اِس بات کا پچھتاوا رہا ہوگا کہ وہ اپنے غصے کو قابو میں کیوں نہیں رکھ پائے۔‏—‏اِست 3:‏23-‏27‏۔‏

ہم موسیٰ کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟‏ اگر ہم کافی سالوں سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں تو بھی ہمیں اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم کبھی بھی اُن لوگوں کے بارے میں بُری باتیں نہ کہیں جن پر ہمیں غصہ آتا ہے یا جنہیں اِصلاح کی ضرورت ہے۔‏ (‏اِفس 4:‏32؛‏ کُل 3:‏12‏)‏ سچ ہے کہ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے صبر سے کام لینا شاید اَور مشکل ہو جائے۔‏ لیکن موسیٰ کو یاد رکھیں۔‏ ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہوواہ کے سامنے ہماری نیک‌نامی پر محض اِس وجہ سے داغ لگ جائے کیونکہ ہم ضبطِ‌نفس ظاہر کرنے میں ناکام رہے۔‏ لہٰذا ہم خود میں اِس اہم خوبی کو پیدا کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‏

ہم خود میں ضبطِ‌نفس کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟‏

پاک روح کے لیے دُعا کریں۔‏ یہ کیوں ضروری ہے؟‏ کیونکہ ضبطِ‌نفس خدا کی پاک روح کے پھل کا ایک حصہ ہے اور یہوواہ دل کھول کر اُن لوگوں کو اپنی پاک روح عطا کرتا ہے جو اِس کے لیے دُعا مانگتے ہیں۔‏ (‏لُو 11:‏13‏)‏ یہوواہ اپنی پاک روح کے ذریعے ہمیں ضبطِ‌نفس ظاہر کرنے کی طاقت بخشتا ہے۔‏ (‏فل 4:‏13‏)‏ وہ صرف یہی خوبی نہیں بلکہ روح کے پھل میں شامل دیگر خوبیوں کو بھی نکھارنے میں ہماری مدد کرتا ہے جیسے کہ محبت کی خوبی۔‏ محبت ایک ایسی خوبی ہے جس کی وجہ سے ہمارے لیے ضبطِ‌نفس ظاہر کرنا آسان ہو جاتا ہے۔‏—‏1-‏کُر 13:‏5‏۔‏

ہر اُس چیز سے گریز کریں جس کی وجہ سے آپ کے لیے ضبطِ‌نفس ظاہر کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏

ہر اُس چیز سے گریز کریں جس کی وجہ سے آپ کے لیے ضبطِ‌نفس ظاہر کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ مثال کے طور پر ایسی ویب‌سائٹس یا تفریح سے دُور رہیں جن میں بُرائی پائی جاتی ہے۔‏ (‏اِفس 5:‏3،‏ 4‏)‏ دراصل ہمیں ہر ایسی چیز سے کنارہ کرنا چاہیے جس کی وجہ سے ہم غلط کام کرنے کی آزمائش میں پڑ سکتے ہیں۔‏ (‏امثا 22:‏3؛‏ 1-‏کُر 6:‏12‏)‏ مثال کے طور پر اگر ایک شخص کے دل میں غلط جنسی خواہشیں بھڑک اُٹھتی ہیں تو اُسے رومانوی کتابیں پڑھنے یا رومانوی فلمیں دیکھنے سے بالکل گریز کرنا چاہیے۔‏

شاید ہمیں اِس ہدایت پر عمل کرنا مشکل لگے۔‏ لیکن اگر ہم اِس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں گے تو یہوواہ ہمیں خود کو قابو میں رکھنے کی طاقت دے گا۔‏ (‏2-‏پطر 1:‏5-‏8‏)‏ وہ ہماری مدد کرے گا کہ ہم اپنی سوچ،‏ باتوں اور کاموں کو قابو میں رکھ سکیں۔‏ اِس کا ایک ثبوت پال اور مارکو ہیں جن کا ذکر اِس مضمون کے شروع میں کِیا گیا تھا۔‏ اُن دونوں نے اپنے غصے پر قابو پانا سیکھ لیا ہے۔‏ ذرا ایک اَور بھائی کی مثال پر بھی غور کریں جو گاڑی چلاتے وقت اکثر غصے میں بےقابو ہو جاتا تھا،‏ یہاں تک کہ لڑائی جھگڑے پر اُتر آتا تھا۔‏ اُس نے کیا کِیا؟‏ وہ کہتا ہے:‏ ”‏مَیں ہر روز دُعا میں یہوواہ سے اپنے غصے پر قابو پانے کے لیے اِلتجائیں کرتا تھا۔‏ مَیں نے ایسے مضامین کا بھی مطالعہ کِیا جو ضبطِ‌نفس کی خوبی کے بارے میں تھے اور ایسی آیتوں کو یاد کِیا جو مشکل صورتحال میں میرے کام آ سکتی تھیں۔‏ حالانکہ مَیں کئی سالوں سے اِس خوبی کو ظاہر کر رہا ہوں لیکن مَیں ابھی بھی ہر دن کا آغاز اِس عزم سے کرتا ہوں کہ مَیں بالکل غصہ نہیں کروں گا۔‏ اِس کے علاوہ اگر مجھے کہیں جانا ہوتا ہے تو مَیں وقت سے پہلے نکلتا ہوں تاکہ مَیں افراتفری میں نہ ہوں۔‏“‏

جب ضبطِ‌نفس ظاہر کرنے میں ناکام ہو جائیں تو کیا کریں؟‏

کبھی کبھار ہم ضبطِ‌نفس سے کام لینے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔‏ ایسی صورت میں شاید ہمیں یہوواہ سے دُعا کرنے میں شرم محسوس ہو۔‏ مگر یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ہمیں دُعا کرنے کی اَور بھی زیادہ ضرورت ہے۔‏ لہٰذا فوراً دُعا میں یہوواہ سے معافی مانگیں،‏ مدد کی اِلتجا کریں اور اُس سے مِنت کریں کہ وہ آپ کو یہ توفیق دے کہ آپ دوبارہ ایسی غلطی نہ کریں۔‏ (‏زبور 51:‏9-‏11‏)‏ یقین مانیں کہ اگر آپ دل سے یہوواہ کے رحم کے لیے دُعا کریں گے تو وہ آپ کی دُعاؤں کو حقیر نہیں جانے گا۔‏ (‏زبور 102:‏17‏)‏ یوحنا رسول نے ہمیں یہ یاد دِلایا ہے کہ خدا کے بیٹے کا خون ”‏ہمیں سب گُناہوں سے پاک کر دیتا ہے۔‏“‏ (‏1-‏یوح 1:‏7؛‏ 2:‏1؛‏ زبور 86:‏5‏)‏ یہ بھی نہ بھولیں کہ یہوواہ نے اپنے بندوں سے کہا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو بار بار معاف کریں۔‏ اگر وہ اُن سے ایسا کرنے کو کہتا ہے تو یقین رکھیں کہ وہ خود بھی ایسا ہی کرے گا۔‏—‏متی 18:‏21،‏ 22؛‏ کُل 3:‏13‏۔‏

یہوواہ اُس وقت موسیٰ سے بہت ناراض ہوا جب موسیٰ ویرانے میں وقتی طور پر اپنا ضبط کھو بیٹھے۔‏ لیکن یہوواہ نے اُنہیں معاف کر دیا۔‏ اُس کے کلام میں موسیٰ کو ایمان کی ایک شان‌دار مثال کے طور پر بیان کِیا گیا ہے۔‏ (‏اِست 34:‏10؛‏ عبر 11:‏24-‏28‏)‏ سچ ہے کہ یہوواہ نے موسیٰ کو وعدہ کیے ہوئے ملک میں قدم نہیں رکھنے دیا لیکن وہ اُنہیں زمین پر فردوس میں ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع دے گا۔‏ ہم بھی ایسے ہی مستقبل کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔‏ مگر اُسی صورت میں اگر ہم ضبطِ‌نفس ظاہر کرنے کی پوری کوشش کریں گے جو کہ بہت ہی اہم خوبی ہے۔‏—‏1-‏کُر 9:‏25‏۔‏