مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 25

‏”‏مَیں خود اپنی بھیڑوں کی تلاش کروں گا“‏

‏”‏مَیں خود اپنی بھیڑوں کی تلاش کروں گا“‏

‏’‏مَیں خود اپنی بھیڑوں کو ڈھونڈ کر واپس لاؤں گا،‏ خود اُن کی دیکھ بھال کروں گا۔‏‘‏‏—‏حِز 34:‏11‏،‏ اُردو جیو ورشن۔‏

گیت نمبر 105‏:‏ ‏”‏خدا محبت ہے“‏

مضمون پر ایک نظر *

1.‏ یہوواہ خدا نے خود کو ایک دودھ پلانے والی ماں سے تشبیہ کیوں دی؟‏

‏”‏کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی ماں اپنے شِیرخوار بچے کو بھول جائے؟‏“‏ یہ سوال یہوواہ خدا نے یسعیاہ نبی کے زمانے میں رہنے والے اپنے بندوں سے پوچھا۔‏ پھر خدا نے خود ہی اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا:‏ ”‏ہاں وہ شاید بھول جائے پر مَیں تجھے نہ بھولوں گا۔‏“‏ (‏یسع 49:‏15‏)‏ بائبل میں یہوواہ خدا نے زیادہ‌تر موقعوں پر خود کو ماں سے تشبیہ نہیں دی۔‏ البتہ اِس موقعے پر اُس نے ایسا اِس لیے کِیا تاکہ وہ اپنے بندوں پر ظاہر کر سکے کہ وہ اُن سے اُتنی ہی گہری محبت رکھتا ہے جتنی ایک ماں اپنے بچے سے رکھتی ہے۔‏ بِلاشُبہ بہت سی مائیں یاسمین نامی بہن جیسے احساسات رکھتی ہوں گی جنہوں نے کہا:‏ ”‏جب ایک ماں اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے تو اُس کا اپنے بچے سے ایک ایسا تعلق قائم ہو جاتا ہے جو زندگی بھر نہیں ٹوٹتا۔‏“‏

2.‏ یہوواہ خدا کو اُس وقت کیسا محسوس ہوتا ہے جب اُس کے بچوں میں سے کوئی ایک بھی اُس سے دُور چلا جاتا ہے؟‏

2 اگر یہوواہ خدا کے بچوں میں سے کوئی ایک اِجلاسوں پر جانا اور مُنادی کے کام میں حصہ لینا چھوڑ دیتا ہے تو یہ اُس کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا۔‏ اُسے یہ دیکھ کر بہت دُکھ ہوتا ہے۔‏ ذرا سوچیں کہ اگر اُسے اپنے صرف ایک بندے کے دُور ہو جانے کا اِتنا دُکھ ہوتا ہے تو اُسے اُس وقت کتنی تکلیف ہوتی ہوگی جب ہر سال اُس کے ہزاروں بندے اُس سے دُور چلے جاتے ہیں۔‏ *

3.‏ یہوواہ خدا کیا چاہتا ہے؟‏

3 جب ہمارے بہت سے ایسے بہن بھائی پھر سے کلیسیا میں واپس آتے ہیں جنہوں نے یہوواہ کی خدمت کرنی چھوڑ دی تھی تو ہمیں دل کھول کر اُن کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔‏ یہوواہ کی دلی خواہش ہے کہ اُس کے یہ بندے اُس کی طرف لوٹ آئیں اور ہم بھی ایسا ہی چاہتے ہیں۔‏ (‏1-‏پطر 2:‏25‏)‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ یہوواہ کے پاس لوٹنے میں ہم اِن بہن بھائیوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں۔‏ لیکن اِس سوال کا جواب جاننے سے پہلے اِس بات پر غور کرنا اچھا ہوگا کہ بعض بہن بھائی اِجلاسوں پر آنا اور مُنادی کے کام میں حصہ لینا کیوں چھوڑ دیتے ہیں۔‏

بعض بہن بھائی یہوواہ کی خدمت کرنا کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟‏

4.‏ بعض بہن بھائیوں کی ملازمت نے اُن پر کیا اثر ڈالا ہے؟‏

4 کچھ بہن بھائی اپنی ملازمت میں بہت زیادہ مگن ہو گئے۔‏ جنوب مشرقی ایشیا میں رہنے والے ایک بھائی جن کا نام ہنگ * ہے،‏ کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں اپنی ملازمت میں حد سے زیادہ ہی گم ہو گیا تھا۔‏ مَیں بہت نادان تھا۔‏ مَیں یہ سوچنے لگا کہ اگر میرے پاس زیادہ پیسے ہوں گے تو مَیں اَور اچھی طرح سے یہوواہ کی خدمت کر پاؤں گا۔‏ اِس لیے مَیں اپنا زیادہ سے زیادہ وقت کام کو دینے لگا۔‏ اِس وجہ سے مَیں آئے دن اِجلاسوں سے غیرحاضر رہتا اور آخرکار مَیں نے اِجلاسوں پر جانا بالکل ہی چھوڑ دیا۔‏ مَیں سمجھ گیا ہوں کہ شیطان کی دُنیا ہے ہی ایسی کہ یہ آہستہ آہستہ لوگوں کو خدا سے دُور کر دیتی ہے۔‏“‏

5.‏ ایک بہن کو جب مختلف پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تو اُس نے کیا کِیا؟‏

5 کچھ بہن بھائی اپنی پریشانیوں کے بوجھ تلے دب کر ہمت ہار جاتے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں ذرا بہن این کی مثال پر غور کریں جو برطانیہ میں رہتی ہیں۔‏ اُن کے پانچ بچے ہیں۔‏ بہن این کہتی ہیں:‏ ”‏میرا ایک بیٹا پیدائشی طور پر معذور ہے۔‏“‏ اُنہوں نے آگے بتایا:‏ ”‏بعد میں میری ایک بیٹی کلیسیا سے خارج ہو گئی اور میرا ایک بیٹا ذہنی بیماری کا شکار ہو گیا۔‏ اِن سب باتوں کی وجہ سے مَیں اِس قدر مایوس اور افسردہ ہو گئی کہ مَیں نے اِجلاسوں پر جانا اور مُنادی میں حصہ لینا چھوڑ دیا اور آخرکار کلیسیا سے دُور ہو گئی۔‏“‏ ہمیں بہن این اور اپنے اُن بہن بھائیوں سے بہت ہمدردی ہے جو ایسی پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔‏

6.‏ اگر ایک بہن یا بھائی کُلسّیوں 3:‏13 میں درج نصیحت پر عمل نہیں کرتا تو وہ یہوواہ سے دُور کیسے ہو سکتا ہے؟‏

6 کُلسّیوں 3:‏13 کو پڑھیں۔‏ یہوواہ کے کچھ بندوں کو اُس وقت بہت ٹھیس لگی جب کلیسیا کے کسی بہن یا بھائی نے اُن کا دل دُکھایا۔‏ پولُس رسول اِس بات کو مانتے تھے کہ کبھی کبھار ہمارے پاس اپنے بھائی یا بہن سے ”‏شکایت“‏ کرنے کی جائز وجہ ہوتی ہے۔‏ اور کبھی کبھی تو ہمارے ساتھ نااِنصافی بھی کی جاتی ہے۔‏ ایسی صورت میں اگر ہم محتاط نہیں رہتے تو ہمارے دل میں رنجش پَل سکتی ہے۔‏ غصہ اور تلخی ایک شخص کو آخرکار یہوواہ سے دُور کر سکتی ہے۔‏ ذرا جنوبی امریکہ میں رہنے والے ایک بھائی کے تجربے پر غور کریں جن کا نام پابلو ہے۔‏ کسی نے بھائی پابلو پر غلط کام کرنے کا اِلزام لگایا جبکہ وہ بالکل بےقصور تھے۔‏ لیکن بزرگوں کو لگا کہ بھائی پابلو نے واقعی غلطی کی ہے جس کی وجہ سے اُنہوں نے اُن کی اِصلاح کی۔‏ اِس کے نتیجے میں بھائی پابلو سے وہ ذمےداریاں لے لی گئیں جو وہ کلیسیا میں نبھا رہے تھے۔‏ اِس پر بھائی پابلو نے کیا کِیا؟‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏مجھے بہت غصہ آیا اور مَیں آہستہ آہستہ کلیسیا سے دُور چلا گیا۔‏“‏

7.‏ اگر ایک شخص کا ضمیر اُسے توبہ کرنے کے بعد بھی کوستا رہتا ہے تو اِس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟‏

7 اگر ایک شخص نے ماضی میں کوئی سنگین گُناہ کِیا تھا تو شاید اُس کا ضمیر اُسے بعد میں بھی کوستا رہے۔‏ اِس وجہ سے شاید وہ خود کو کم‌تر سمجھے اور سوچے کہ اب یہوواہ اُس سے پیار نہیں کر سکتا۔‏ اور اگر اُس نے توبہ بھی کر لی ہے اور یہوواہ نے اُسے معاف بھی کر دیا ہے تو بھی شاید اُسے لگے کہ اب وہ یہوواہ کا بندہ کہلانے کے لائق نہیں رہا۔‏فرانسسکو نامی بھائی نے ایسا ہی محسوس کِیا۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں نے حرام‌کاری کی جس کی وجہ سے میری سختی سے اِصلاح کی گئی۔‏ حالانکہ اِس کے بعد مَیں شروع شروع میں اِجلاسوں پر جاتا رہا لیکن پھر مَیں بہت مایوس ہو گیا اور خود کو اِس لائق نہیں سمجھتا تھا کہ میرا شمار خدا کے بندوں میں ہو۔‏ میرا ضمیر مجھے کوسنے لگا اور مجھے یقین ہو گیا کہ یہوواہ نے مجھے معاف نہیں کِیا۔‏ آخرکار مَیں نے اِجلاسوں پر جانا اور مُنادی کرنا چھوڑ دیا۔‏“‏ آپ اُن بہن بھائیوں کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں جو ویسی ہی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں جن کا ذکر پیراگراف 4-‏7 میں ہوا ہے؟‏ کیا آپ اُن کے درد کو محسوس کرتے ہیں؟‏ سب سے بڑھ کر تو یہ کہ یہوواہ ایسے بہن بھائیوں کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے؟‏

یہوواہ اپنی ہر بھیڑ سے محبت کرتا ہے

ایک اِسرائیلی چرواہا اپنی کھوئی ہوئی بھیڑ کا بہت زیادہ خیال رکھتا تھا۔‏ (‏پیراگراف نمبر 8،‏ 9 کو دیکھیں۔‏)‏ *

8.‏ وضاحت کریں کہ کیا یہوواہ اپنے اُن بندوں کو بھول جاتا ہے جو پہلے کبھی اُس کی خدمت کِیا کرتے تھے۔‏

8 یہوواہ اپنے اُن بندوں کو نہیں بھولتا جو پہلے اُس کی خدمت کِیا کرتے تھے لیکن اب وقتی طور پر اُنہوں نے ایسا کرنا چھوڑ دیا ہے۔‏ وہ اُن کی اُس محنت کو بھی نہیں بھولتا جو اُنہوں نے اُس کے نام کے لیے ظاہر کی تھی۔‏ ‏(‏عبر 6:‏10‏)‏ یسعیاہ نبی نے بڑی ہی خوب‌صورت مثال کے ذریعے بتایا کہ یہوواہ اپنی بھیڑوں کا کتنا خیال رکھتا ہے۔‏ اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏وہ چوپان کی مانند اپنا گلّہ چرائے گا۔‏ وہ برّوں کو اپنے بازوؤں میں جمع کرے گا اور اپنی بغل میں لے کر چلے گا۔‏“‏ (‏یسع 40:‏11‏)‏ ہمارا عظیم چرواہا یہوواہ اُس وقت کیسا محسوس کرتا ہے جب اُس کی ایک بھی بھیڑ بھٹک کر گلّے سے دُور چلی جاتی ہے؟‏ یہوواہ کے احساسات کو یسوع مسیح نے اپنی ایک مثال کے ذریعے واضح کِیا۔‏ اُنہوں نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏فرض کریں کہ ایک آدمی کی 100 بھیڑیں ہیں اور اُن میں سے ایک راستہ بھٹک گئی ہے۔‏ کیا وہ آدمی اپنی 99 (‏ننانوے)‏ بھیڑوں کو وہیں پہاڑوں پر نہیں چھوڑے گا اور اپنی کھوئی ہوئی بھیڑ کو ڈھونڈنے نہیں جائے گا؟‏ یقین مانیں کہ اگر اُس کو وہ بھیڑ مل جائے تو وہ اُن 99 (‏ننانوے)‏ بھیڑوں پر اِتنی خوشی نہیں کرے گا جتنی کہ اُس بھٹکی ہوئی بھیڑ کو پانے پر۔‏“‏—‏متی 18:‏12،‏ 13‏۔‏

9.‏ قدیم زمانے میں ایک اچھا چرواہا اپنی بھیڑوں کے ساتھ کیسے پیش آتا تھا؟‏ (‏سرِورق کی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

9 یہوواہ خدا کو ایک چرواہے سے تشبیہ دینا اِتنا موزوں کیوں ہے؟‏ کیونکہ قدیم زمانے میں ایک اچھا چرواہا اپنی بھیڑوں کی گہری فکر رکھتا تھا۔‏ مثال کے طور پر داؤد اپنی بھیڑوں کو بچانے کے لیے شیر اور ریچھ کا مقابلہ کرنے سے بھی نہیں ڈرے۔‏ (‏1-‏سمو 17:‏34،‏ 35‏)‏ یقیناً ایک اچھا چرواہا اپنی ایک ایک بھیڑ کو جانتا ہے اور اگر اِن میں سے ایک بھی غائب ہو جاتی ہے تو اُسے فوراً پتہ چل جاتا ہے۔‏ (‏یوح 10:‏3،‏ 14‏)‏ یہ ایسا چرواہا ہوتا ہے جو اپنی 99 بھیڑوں کو ایک محفوظ بھیڑخانے یا پھر کسی اَور چرواہے کی نگرانی میں چھوڑ کر اُس کھوئی ہوئی بھیڑ کو تلاش کرنے کے لیے چلا جاتا ہے۔‏ یسوع مسیح نے کھوئی ہوئی بھیڑ کی مثال سے ہمیں یہ اہم سچائی سکھائی:‏ ”‏میرا آسمانی باپ .‏ .‏ .‏ نہیں چاہتا کہ اِن چھوٹوں میں سے ایک بھی ہلاک ہو جائے۔‏“‏—‏متی 18:‏14‏۔‏

قدیم اِسرائیل میں ایک چرواہا اپنی اُس بھیڑ کی دیکھ‌بھال کر رہا ہے جو گم ہو گئی تھی۔‏ (‏پیراگراف نمبر 9 کو دیکھیں۔‏)‏

یہوواہ اپنی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو تلاش کرتا ہے

10.‏ حِزقی‌ایل 34:‏11-‏16 کے مطابق یہوواہ خدا نے اپنی کھوئی ہوئی بھیڑوں سے کیا وعدہ کِیا ہے؟‏

10 یہوواہ ہم میں سے ہر ایک سے بہت پیار کرتا ہے۔‏ اُن بہن بھائیوں سے بھی جو گلّے سے دُور ہو گئے ہیں۔‏ خدا نے اپنے نبی حِزقی‌ایل کے ذریعے وعدہ کِیا کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو تلاش کرے گا اور اُن کی روحانی صحت کو بحال کرنے میں اُن کی مدد کرے گا۔‏یہوواہ نے حِزقی‌ایل 34:‏11-‏16 میں بتایا کہ وہ اپنی بھیڑوں کو بچانے کے لیے کچھ ایسے اِقدام اُٹھاتا ہے جو عموماً ایک اِسرائیلی چرواہا اپنی کھوئی ہوئی بھیڑ کو ڈھونڈنے اور اُس کے مل جانے کے بعد اُٹھاتا تھا۔‏ ‏(‏اِن آیتوں کو پڑھیں۔‏)‏ مثال کے طور پر ایک چرواہا پہلے اپنی کھوئی ہوئی بھیڑ کو تلاش کرتا تھا جس میں اُس کا بہت وقت اور محنت لگتی تھی۔‏ اِس کے بعد جب وہ بھیڑ کو ڈھونڈ لیتا تھا تو وہ اُسے گلّے میں واپس لے آتا تھا۔‏ اور اگر وہ بھیڑ زخمی یا بھوکی ہوتی تو وہ بڑے پیار سے اُسے اپنی بانہوں میں لے کر اُس کی مرہم‌پٹی کرتا تھا اور اُسے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتا تھا۔‏ بزرگوں کو جو کہ ’‏خدا کے گلّے کی گلّہ‌بانی‘‏ کرتے ہیں،‏ اُن بہن بھائیوں کی مدد کرنے کے لیے ایسے ہی اِقدام اُٹھانے چاہئیں جو کلیسیا سے دُور ہو گئے ہیں۔‏ (‏1-‏پطر 5:‏2،‏ 3‏)‏ بزرگوں کو اُنہیں تلاش کرنا چاہیے،‏ کلیسیا میں لوٹ آنے میں اُن کی مدد کرنی چاہیے اور بڑی محبت سے اُنہیں سہارا دینا چاہیے تاکہ وہ یہوواہ کے ساتھ پھر سے ایک مضبوط رشتہ قائم کر سکیں۔‏ *

11.‏ ایک اچھا چرواہا کس بات کو سمجھتا تھا؟‏

11 ایک اچھا چرواہا سمجھتا تھاکہ اُس کی کوئی بھیڑ گلّے سے بھٹک کر دُور جا سکتی ہے۔‏اور اگر کبھی بھیڑ واقعی بھٹک جاتی تھی تو وہ اُس کے مل جانے کے بعد اُس کے ساتھ سختی سے پیش نہیں آتا تھا۔‏ اِس سلسلے میں ذرا یہوواہ کی شان‌دار مثال پر غور کریں۔‏ دیکھیں کہ وہ اپنے اُن بندوں کی مدد کیسے کرتا ہے جو کچھ وقت کے لیے اُس سے دُور ہو جاتے ہیں۔‏

12.‏ یہوواہ خدا یُوناہ نبی کے ساتھ کیسے پیش آیا؟‏

12 یُوناہ نبی کی مثال پر غور کریں۔‏ اُنہوں نے وہ کام نہیں کِیا جو یہوواہ نے اُنہیں کرنے کو کہا تھا۔‏ لیکن کیا اِس پر یہوواہ نے اُنہیں فوراً رد کر دیا؟‏ بالکل نہیں۔‏ اِس کی بجائے اُس نے ایک اچھے چرواہے کی طرح اپنے اِس بھٹکے ہوئے بندے کو بچایا اور اُسے اپنی ذمےداری کو پورا کرنے کے لیے طاقت بخشی۔‏ (‏یُوناہ 2:‏7؛‏ 3:‏1،‏ 2‏)‏ بعد میں یہوواہ نے کدو کی ایک بیل کے ذریعے یُوناہ کی یہ سمجھنے میں مدد کی کہ اُس کی نظر میں ہر اِنسان کی زندگی کتنی قیمتی ہے۔‏ (‏یُوناہ 4:‏10،‏ 11‏)‏ اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ بزرگوں کو فوراً اُن بہن بھائیوں کو رد نہیں کر دینا چاہیے جو یہوواہ کی خدمت کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔‏ اِس کی بجائے اُنہیں یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ خدا کے گلّے کی کوئی بھیڑ کس وجہ سے اُس سے دُور ہوئی ہے۔‏ اور پھر جب یہوواہ کی وہ بھیڑ اُس کی طرف لوٹ آتی ہے تو اُنہیں تب بھی اُس کے لیے محبت اور فکرمندی ظاہر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے۔‏

13.‏ جب خدا کے ایک بندے نے اپنی پریشانی کا اِظہار کِیا تو خدا نے کیا کِیا اور اِس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

13 زبور 73 کو لکھنے والا خدا کا بندہ اُس وقت بہت بےحوصلہ ہو گیا جب اُس نے دیکھا کہ بُرے لوگ اپنی زندگی میں کتنے کامیاب ہیں۔‏ اُسے تو اِس بات پر ہی شک ہونے لگا کہ خدا کی خدمت کرنے کا کوئی فائدہ ہوتا ہے۔‏ (‏زبور 73:‏12،‏ 13،‏ 16‏)‏ زبورنویس کے اِن احساسات پر یہوواہ نے کیا کِیا؟‏ اُس نے اپنے بندے کو ڈانٹا نہیں بلکہ اُس نے تو اُس کی باتوں کو اپنے کلام میں درج کروایا۔‏ آخرکار زبورنویس اِس بات کو سمجھ گیا کہ خدا کے ساتھ گہری دوستی کسی بھی چیز سے زیادہ انمول ہے اور یہ زندگی کو بامقصد بنا دیتی ہے۔‏ (‏زبور 73:‏23،‏ 24،‏ 26،‏ 28‏)‏ اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ بزرگوں کو اُن بہن بھائیوں کے بارے میں فوراً منفی رائے قائم نہیں کر لینی چاہیے جو اِس بات پر شک کرنے لگتے ہیں کہ خدا کی خدمت کرنے کا فائدہ ہوتا ہے۔‏ بزرگوں کو اُنہیں ڈانٹنا نہیں چاہیے بلکہ یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اُن کی ایسی باتوں اور رویے کے پیچھے کیا وجہ ہے۔‏ تب ہی وہ اُس بہن یا بھائی کو اُس کی ضرورت کے مطابق پاک کلام سے مدد دے سکیں گے۔‏

14.‏ ایلیاہ کو مدد کی ضرورت کیوں تھی اور یہوواہ نے اُن کی مدد کیسے کی؟‏

14 ذرا خدا کے نبی ایلیاہ کی مثال پر بھی غور کریں۔‏ ایک مرتبہ وہ ملکہ اِیزِبل کے ڈر سے کہیں دُور بھاگ گئے۔‏ (‏1-‏سلا 19:‏1-‏3‏)‏ اُنہوں نے سوچا کہ اُن کے علاوہ کوئی بھی نبی کے طور پر یہوواہ کی خدمت نہیں کر رہا۔‏ اُنہیں یہ بھی لگا کہ اُن کی خدمت کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‏ وہ اِس قدر مایوس ہو گئے کہ وہ مر جانا چاہتے تھے۔‏ (‏1-‏سلا 19:‏4،‏ 10‏)‏ کیا اِس پر یہوواہ،‏ ایلیاہ سے ناراض ہوا یا کیا اُس نے اُنہیں ڈانٹنا؟‏ نہیں۔‏ اِس کی بجائے اُس نے اُنہیں یقین دِلایا کہ وہ اکیلے نہیں ہیں،‏ وہ اُس کی طاقت پر پورا بھروسا رکھ سکتے ہیں اور اُن کے لیے ابھی بھی خدا کی خدمت میں بہت سا کام باقی ہے۔‏ یہوواہ نے بڑی نرمی سے ایلیاہ کے احساسات اور پریشانیوں کو سنا اور اُنہیں ایک نئی ذمےداری سونپی۔‏ (‏1-‏سلا 19:‏11-‏16،‏ 18‏)‏ اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ ہم سب کو اور خاص طور پر بزرگوں کو خدا کی بھیڑوں کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آنا چاہیے۔‏ بزرگوں کو ایک بہن یا بھائی کی بات کو اُس وقت دھیان سے سننا چاہیے جب وہ اُنہیں دل کھول کر اپنے احساسات بتاتا ہے پھر چاہے وہ اِس دوران کڑوی باتیں ہی کیوں نہ کہے یا یہ ہی کیوں نہ کہے کہ یہوواہ اُسے کبھی معاف نہیں کرے گا۔‏ اُس بہن یا بھائی کی بات سننے کے بعد اُنہیں اُسے یہ یقین دِلانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ خدا اُس کی کتنی قدر کرتا ہے اور اُس سے کتنی محبت کرتا ہے۔‏

ہمیں یہوواہ کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو کیسا خیال کرنا چاہیے؟‏

15.‏ یوحنا 6:‏39 کے مطابق یسوع مسیح اپنے باپ کی بھیڑوں کو کیسا خیال کرتے تھے؟‏

15 ہمیں یہوواہ کی کھوئی ہوئی بھیڑ کو کیسا خیال کرنا چاہیے اور اِس حوالے سے یہوواہ ہم سے کیا توقع کرتا ہے؟‏ یسوع مسیح نے اِس سلسلے میں ہمارے لیے بہت عمدہ مثال قائم کی۔‏ وہ جانتے تھے کہ خدا کی نظر میں اُس کی ہر بھیڑ بہت ہی بیش‌قیمت ہے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے ”‏اِسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں“‏ کی مدد کرنے اور اُنہیں یہوواہ کے پاس واپس لانے کے لیے وہ سب کچھ کِیا،‏ جو وہ کر سکتے تھے۔‏ (‏متی 15:‏24؛‏ لُو 19:‏9،‏ 10‏)‏ ایک اچھے چرواہے کے طور پر یسوع مسیح نے خدا کی ہر بھیڑ کو محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کی تاکہ اِن میں سے ایک بھی کھو نہ جائے۔‏‏—‏یوحنا 6:‏39 کو پڑھیں۔‏

16،‏ 17.‏ بزرگوں کو اُن بہن بھائیوں کی مدد کرنے کے حوالے سے کیسی سوچ رکھنی چاہیے جو خدا سے دُور ہو گئے ہیں؟‏ (‏بکس ”‏ ایک کھوئی ہوئی بھیڑ کیسا محسوس کرتی ہے؟‏‏“‏ کو دیکھیں۔‏)‏

16 پولُس رسول نے اِفسس کی کلیسیا کے بزرگوں کو نصیحت کی کہ وہ یسوع مسیح کی مثال پر عمل کریں،‏ ”‏محنت کر کے کمزوروں کی مدد کریں اور مالک یسوع کی اِس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ ”‏لینے کی نسبت دینے میں زیادہ خوشی ہے۔‏“‏“‏ (‏اعما 20:‏17،‏ 35‏)‏ بِلاشُبہ پاک کلام میں درج آیتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بزرگوں کو خدا کے بندوں کی دیکھ‌بھال کرنے کی اہم ذمےداری سونپی گئی ہے۔‏ ذرا سپین میں رہنے والے بزرگ کی بات پر غور کریں جن کا نام سلواڈور ہے۔‏ وہ بتاتے ہیں:‏ ”‏جب مَیں اِس بات پر غور کرتا ہوں کہ یہوواہ کو اپنی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی کتنی فکر ہے تو مجھے یہ ترغیب ملتی ہے کہ مَیں خدا کی اِن بھیڑوں کی مدد کرنے کے لیے جو بھی کر سکتا ہوں،‏ وہ کروں۔‏ مجھے اِس بات پر ذرا بھی شک نہیں کہ یہوواہ مجھ سے یہ توقع کرتا ہے کہ مَیں ایک چرواہے کے طور پر اُس کی بھیڑوں کا اچھے سے خیال رکھوں۔‏“‏

17 اِس مضمون میں خدا سے دُور ہو جانے والے جن بہن بھائیوں کا ذکر کِیا گیا ہے،‏ اُن سب کی مدد کی گئی کہ وہ یہوواہ کے پاس لوٹ آئیں۔‏ ایسے اَور بھی بہت سے بہن بھائی ہیں جو یہوواہ کے پاس لوٹنا چاہتے ہیں۔‏ اگلے مضمون میں تفصیل سے بتایا جائے گا کہ ہم اِن بہن بھائیوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں۔‏

گیت نمبر 139‏:‏ خود کو نئی دُنیا میں تصور کریں

^ پیراگراف 5 بعض ایسے بہن بھائی کلیسیا سے دُور کیوں ہو گئے ہیں جو پہلے وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کر رہے تھے؟‏ خدا اِن بہن بھائیوں کے بارے میں کیسے احساسات رکھتا ہے؟‏ اِس مضمون میں اِن سوالوں کے جواب دیے جائیں گے۔‏ اِن سوالوں کے علاوہ ہم اِس بات پر بھی غور کریں گے کہ قدیم زمانے میں یہوواہ نے اپنے اُن بندوں کی مدد کیسے کی جو وقتی طور پر اُس سے دُور ہو گئے تھے اور ہم اُس کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 2 اِصطلاح کی وضاحت:‏ یہوواہ سے دُور ہو جانے والا مبشر وہ ہوتا ہے جس نے چھ مہینے یا اِس سے زیادہ عرصے سے مُنادی اور شاگرد بنانے کی کوئی رپورٹ نہ ڈالی ہو۔‏ لیکن ایسے مبشر ابھی بھی ہمارے بہن بھائی ہیں اور ہم اُن سے بہت پیار کرتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 4 کچھ نام فرضی ہیں۔‏

^ پیراگراف 10 اگلے مضمون میں بتایا جائے گا کہ بزرگ اِن تین طریقوں پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 60 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک اِسرائیلی چرواہا اپنی کھوئی ہوئی بھیڑ کو بڑی فکرمندی سے ڈھونڈتا تھا اور اُس کے مل جانے کے بعد اُسے گلّے میں لے آتا تھا۔‏ آج بزرگ جو کہ چرواہوں کی طرح ہیں،‏ خدا کی بھیڑوں کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 64 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک بہن جس نے یہوواہ کی خدمت کرنی چھوڑ دی ہے،‏ بس کے چلنے کا اِنتظار کر رہی ہے۔‏ اِس دوران وہ دو گواہوں کو دیکھ رہی ہے جو بڑی خوشی سے ایک آدمی کو گواہی دے رہے ہیں۔‏