مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 24

‏”‏میرے دل کو یک‌طرفہ کر تاکہ مَیں تیرے نام کا خوف مانوں“‏

‏”‏میرے دل کو یک‌طرفہ کر تاکہ مَیں تیرے نام کا خوف مانوں“‏

‏”‏میرے دل کو یک‌طرفہ کر تاکہ مَیں تیرے نام کا خوف مانوں۔‏ اَے یہوواہ میرے خدا،‏ مَیں پورے دل سے تیری حمد کرتا ہوں۔‏“‏‏—‏زبور 86:‏11،‏ 12‏،‏ ترجمہ نئی دُنیا۔‏

گیت نمبر 7‏:‏ یہوواہ ہماری نجات ہے

مضمون پر ایک نظر *

1.‏ ‏(‏الف)‏ خدا کا خوف ماننے کا کیا مطلب ہے؟‏ (‏ب)‏ جو لوگ یہوواہ سے محبت کرتے ہیں،‏ اُن کے لیے اُس کا خوف ماننا ضروری کیوں ہے؟‏

مسیحی خدا سے محبت کرتے ہیں اور اُس کا خوف بھی مانتے ہیں۔‏ بعض لوگوں کو شاید لگے کہ یہ دو باتیں ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتیں کیونکہ محبت میں خوف کیسا۔‏ البتہ ہم ایسے خوف کے بارے میں بات نہیں کر رہے جو سہم جانے یا لرز جانے کی طرف اِشارہ کرتا ہے بلکہ اِس مضمون میں ہم ایک خاص قسم کے خوف کے بارے میں بات کریں گے۔‏ جن لوگوں میں اِس قسم کا خوف ہوتا ہے،‏ وہ خدا کی تعظیم کرتے ہیں اور دل سے اُس کا احترام کرتے ہیں۔‏ وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے جس سے اُن کے آسمانی باپ کا دل دُکھے اور اُس کے ساتھ اُن کی دوستی پر آنچ آئے۔‏—‏زبور 111:‏10؛‏ امثا 8:‏13‏۔‏

2.‏ زبور 86:‏11 میں درج الفاظ کے مطابق ہم کن دو باتوں پر غور کریں گے؟‏

2 زبور 86:‏11 کو فٹ‌نوٹ سے پڑھیں۔‏ * اِن الفاظ پر غور کرنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بادشاہ داؤد خدا کا خوف ماننے کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ گئے تھے۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ داؤد نے خدا کے اِلہام سے جو بات لکھی،‏ ہم اُس سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں پہلے ہم کچھ ایسی وجوہات پر غور کریں گے جن کی بِنا پر ہمیں خدا کے نام کا گہرا احترام کرنا چاہیے۔‏ پھر ہم اِس بارے میں بات کریں گے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اُس کے نام کے لیے گہرا احترام کیسے ظاہر کر سکتے ہیں۔‏

ہمیں یہوواہ کے نام کا خوف کیوں ماننا چاہیے؟‏

3.‏ کس واقعے نے موسیٰ کی مدد کی ہوگی کہ وہ ہمیشہ تک یہوواہ کا خوف مانتے رہیں؟‏

3 ذرا تصور کریں کہ اُس وقت موسیٰ نے کیسا محسوس کِیا ہوگا جب اُنہوں نے چٹان کے ایک شگاف میں کھڑے ہو کر یہوواہ کے جلال کو دیکھا۔‏ بےشک کسی بھی اِنسان کے لیے یہ بہت ہی حیرت‌انگیز اور شان‌دار تجربہ ہوگا!‏ یہوواہ کے جلال کی جھلک کو دیکھتے وقت موسیٰ نے اِن الفاظ کو بھی سنا جو غالباً ایک فرشتہ کہہ رہا تھا:‏ ”‏[‏یہوواہ یہوواہ]‏ خدایِ‌رحیم اور مہربان قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی۔‏ ہزاروں پر فضل کرنے والا۔‏ گُناہ اور تقصیر اور خطا کا بخشنے والا۔‏“‏ (‏خر 33:‏17-‏23؛‏ 34:‏5-‏7‏)‏ غالباً اِس کے بعد جب بھی موسیٰ نے یہوواہ کا نام لیا ہوگا،‏ اُنہیں یہ شان‌دار واقعہ یاد آیا ہوگا۔‏ اِسی لیے ایک موقعے پر اُنہوں نے خدا کی قوم اِسرائیل کو آگاہی دیتے ہوئے کہا:‏ ”‏اپنے خدا کے پُرجلال اور بارعب نام کا خوف ماننا۔‏“‏—‏اِست 28:‏58‏،‏ اُردو جیو ورشن۔‏

4.‏ یہوواہ کی کن خوبیوں پر غور کرنے سے ہمیں اُس کا اَور زیادہ احترام کرنے کی ترغیب ملتی ہے؟‏

4 جب ہم نام یہوواہ کے بارے سوچتے ہیں تو ہمیں اِس بات پر بھی سوچ بچار کرنی چاہیے کہ یہوواہ کس طرح کی ہستی ہے۔‏ ہمیں اُس کی خوبیوں پر غور کرنا چاہیے جیسے کہ اُس کی دانش‌مندی،‏ قدرت،‏ اِنصاف‌پسندی اور محبت پر۔‏ جب ہم یہوواہ کی اِن خوبیوں اور دیگر خوبیوں کے بارے میں گہرائی سے سوچتے ہیں تو ہمارے دل میں اُس کے لیے عقیدت اور احترام اَور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔‏—‏زبور 77:‏11-‏15‏۔‏

5،‏ 6.‏ ‏(‏الف)‏ خدا کے نام کا کیا مطلب ہے؟‏ (‏ب)‏ خروج 3:‏13،‏ 14 اور یسعیاہ 64:‏8 کے مطابق خدا کن طریقوں سے اپنے مقصد کو انجام دیتا ہے؟‏

5 ہم خدا کے نام کے مطلب کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟‏ کئی عالموں کا ماننا ہے کہ نام یہوواہ کا مطلب ہے:‏”‏وہ بناتا ہے۔‏“‏ اِس مطلب کو سُن کر ہمیں یاد آتا ہے کہ کوئی بھی چیز یہوواہ کو اُس کام سے نہیں روک سکتی جو وہ کرنا چاہتا ہے۔‏ وہ اپنے مقصد کو کسی بھی طرح سے پورا کر سکتا ہے۔‏ لیکن وہ ایسا کیسے کرتا ہے؟‏

6 یہوواہ خدا اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے جو بھی ضروری ہو،‏ بن سکتا ہے۔‏ ‏(‏خروج 3:‏13،‏ 14 کو فٹ‌نوٹ سے پڑھیں۔‏ *‏)‏ ہماری کتابوں اور رسالوں میں اکثر ہماری حوصلہ‌افزائی کی جاتی ہے کہ ہم یہوواہ کی شخصیت کے اِس شان‌دار پہلو پر غور کریں۔‏ یہوواہ اپنے عیب‌دار بندوں کو بھی جو ضروری ہو،‏ بنا سکتا ہے تاکہ وہ اُس کی خدمت انجام دے سکیں اور اُس کے مقصد کو پورا کر سکیں۔‏ ‏(‏یسعیاہ 64:‏8 کو پڑھیں۔‏)‏ اِن طریقوں سے یہوواہ اپنی مرضی کو پورا کرتا ہے۔‏ کوئی بھی اُسے اُس کا مقصد پورا کرنے سے روک نہیں سکتا۔‏—‏یسع 46:‏10،‏ 11‏۔‏

7.‏ ہم اپنے دل میں اپنے آسمانی باپ کے لیے عزت‌وتعظیم کیسے بڑھا سکتے ہیں؟‏

7 ہم اپنے دل میں اپنے آسمانی باپ کے لیے عزت‌وتعظیم کیسے بڑھا سکتے ہیں؟‏ ہم اِس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ اُس نے ہمارے لیے کیا کچھ کِیا ہے اور ہمیں کیا کچھ کرنے کے قابل بنایا ہے۔‏ مثال کے طور پر جب ہم اُس کی بنائی ہوئی چیزوں پر غور کرتے ہیں تو ہمارے دل حیرت سے بھر جاتے ہیں۔‏ (‏زبور 8:‏3،‏ 4‏)‏ اور پھر جب ہم اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ یہوواہ نے اپنی مرضی کو پورا کرنے کے لیے ہمیں کس قابل بنایا ہے تو ہمیں اُس کا اَور گہرا احترام کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔‏ یہوواہ کا نام واقعی عظیم ہے!‏ اِس نام میں وہ سب کچھ شامل ہے جس کا تعلق ہمارے آسمانی باپ یہوواہ کی شخصیت،‏ کاموں اور اُس کے مقصد سے ہے۔‏—‏زبور 89:‏7،‏ 8‏۔‏

‏’‏مَیں یہوواہ کے نام کا اِشتہار دوں گا‘‏

موسیٰ نے لوگوں کو جو تعلیم دی،‏ اُس سے لوگ تازہ‌دم ہو گئے۔‏ اُنہوں نے یہوواہ کے نام اور اُس کی خوبیوں پر توجہ دِلائی۔‏ (‏پیراگراف نمبر 8 کو دیکھیں۔‏)‏ *

8.‏ اِستثنا 32:‏2،‏ 3 کے مطابق یہوواہ خدا اپنے نام کے حوالے سے اپنے بندوں سے کیا چاہتا ہے؟‏

8 بنی‌اِسرائیل کے ملک کنعان میں داخل ہونے سے تھوڑی دیر پہلے یہوواہ خدا نے موسیٰ کو ایک گیت کے بول سکھائے۔‏ (‏اِست 31:‏19‏)‏ اور موسیٰ نے اُس گیت کے بول لوگوں کو سکھائے۔‏ ‏(‏اِستثنا 32:‏2،‏ 3 کو پڑھیں۔‏)‏ جب ہم 2 اور 3 آیت پر غور کرتے ہیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا یہ نہیں چاہتا کہ اُس کے نام کو چھپا کر رکھا جائے یا یہ خیال کِیا جائے کہ اُس کا نام اِس قدر مُقدس ہے کہ اِسے مُنہ سے پکارنا نہیں چاہیے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ ہر اِنسان اُس کا نام جانے۔‏ بنی‌اِسرائیل کے لیے یہ کتنے بڑے اعزاز کی بات تھی کہ وہ موسیٰ کے مُنہ سے یہوواہ خدا اور اُس کے عظیم نام کے بارے میں سُن رہے تھے!‏ جو کچھ موسیٰ نے اُنہیں سکھایا،‏ اُس سے وہ تازہ‌دم ہو گئے،‏ بالکل جیسے شبنم کی بوندوں سے پودے تازہ‌دم ہو جاتے ہیں۔‏ ہم لوگوں کو کیسے تعلیم دے سکتے ہیں جس سے وہ تازہ‌دم ہو جائیں؟‏

9.‏ ہم یہوواہ کے نام کو پاک ثابت کرنے میں اپنا کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں؟‏

9 جب ہم گھر گھر مُنادی کرتے یا عوامی جگہوں پر گواہی دیتے ہیں تو ہم اپنی بائبل سے لوگوں کو خدا کا ذاتی نام یہوواہ دِکھا سکتے ہیں۔‏ ہم اُنہیں اپنی دلکش کتابیں اور رسالے دے سکتے ہیں،‏ اُنہیں شان‌دار ویڈیوز اور ہماری ویب‌سائٹ سے مواد دِکھا سکتے ہیں جن سے یہوواہ خدا کی بڑائی ہوتی ہے۔‏ اِس کے علاوہ شاید ہمیں سکول میں،‏ کام کی جگہ پر یا سفر کے دوران بھی دوسروں کو یہ بتانے کے کئی موقعے ملیں کہ ہمارا پیارا خدا کتنی شان‌دار خوبیوں کا مالک ہے۔‏ جب ہم لوگوں کو یہ بتاتے ہیں کہ یہوواہ خدا نے اِنسانوں اور زمین کے لیے کتنا خوب‌صورت مقصد سوچ رکھا ہے تو ہم اُن کے سامنے یہوواہ کی ایک شفیق باپ کے طور پر تصویر پیش کرتے ہیں جس کا اُنہوں نے پہلے کبھی تصور بھی نہیں کِیا۔‏ جب ہم دوسروں کو اپنے محبت کرنے والے خدا کے بارے میں سچائی بتاتے ہیں تو ہم اُس کے نام کو پاک ثابت کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔‏ ہم لوگوں کی یہ سمجھنے میں بھی مدد کر رہے ہوتے ہیں کہ اُنہیں یہوواہ کے بارے میں کتنی جھوٹی باتیں سکھائی گئی ہیں۔‏ یوں ہم اُنہیں بائبل سے ایسی باتوں کی تعلیم دے رہے ہوتے ہیں جو اُنہیں تازہ‌دم کر دیتی ہیں۔‏—‏یسع 65:‏13،‏ 14‏۔‏

10.‏ جب ہم کسی شخص کو بائبل کورس کراتے ہیں تو اُسے صرف یہوواہ کے معیار سکھانا ہی کافی کیوں نہیں؟‏

10 جب ہم کسی شخص کو بائبل کورس کراتے ہیں تو ہم صرف یہی نہیں چاہتے کہ وہ یہوواہ کو جانے اور اُس کا نام اِستعمال کرے۔‏ ہم چاہتے ہیں کہ وہ یہ بھی سمجھے کہ یہوواہ کے نام میں کیا کچھ شامل ہے۔‏ لیکن کیا ایسا کرنے کے لیے اُسے محض خدا کی ہدایات،‏ معیار اور چال‌چلن کے حوالے سے قوانین سکھانا ہی کافی ہوگا؟‏ ہو سکتا ہے کہ بائبل کا ایک اچھا طالبِ‌علم خدا کے قوانین کو سیکھ جائے،‏ یہاں تک کہ اِن کی قدر بھی کرے۔‏ لیکن کیا وہ محبت کی بِنا پر یہوواہ کے حکم بھی مانے گا؟‏ یاد رکھیں کہ حوا خدا کے حکموں کو اچھی طرح سے جانتی تھیں لیکن اُنہوں نے حکم دینے والے سے محبت نہیں کی اور نہ ہی آدم نے ایسا کِیا۔‏ (‏پید 3:‏1-‏6‏)‏ لہٰذا ہمیں لوگوں کو صرف خدا کے معیار ہی نہیں سکھانے چاہئیں بلکہ اُنہیں سکھانا چاہیے کہ وہ یہوواہ سے محبت کریں۔‏

11.‏ جب ہم بائبل کورس کرنے والے اشخاص کو پاک کلام میں درج حکم اور معیار سکھاتے ہیں تو ہم اُن کی مدد کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے دل میں اِن حکموں کو دینے والے کے لیے محبت بھی پیدا کریں؟‏

11 یہوواہ کے حکم ماننے اور اُس کے معیاروں پر چلنے سے ہمیں ہمیشہ فائدہ ہوتا ہے۔‏ (‏زبور 119:‏97،‏ 111،‏ 112‏)‏ لیکن بائبل کورس کرنے والے شخص کو اِس بات کی اہمیت تبھی پتہ چلے گی جب وہ یہ سمجھ پائے گا کہ یہوواہ نے ہمیں یہ حکم اِس لیے دیے ہیں کیونکہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے۔‏ لہٰذا بائبل کورس کرنے والے شخص کو تعلیم دیتے وقت اُس سے پوچھیں:‏ ”‏آپ کے خیال میں خدا نے اپنے بندوں کو فلاں کام کرنے کو کیوں کہا ہے یا فلاں کام سے کیوں منع کِیا ہے؟‏ اِس سے ہمیں یہوواہ خدا کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟‏“‏ اگر آپ کی باتوں سے آپ کے طالبِ‌علموں کو یہوواہ کے بارے میں سوچنے اور اپنے دل میں اُس کے عظیم نام کے لیے محبت پیدا کرنے کی ترغیب ملتی ہے تو سمجھ لیں کہ آپ اُن کے دل تک پہنچ گئے۔‏ پھر آپ کے طالبِ‌علم صرف بائبل میں لکھے حکموں سے ہی محبت نہیں کریں گے بلکہ وہ اُس ہستی سے بھی محبت کریں گے جس نے یہ حکم دیے ہیں۔‏ (‏زبور 119:‏68‏)‏ اِس کے علاوہ اُن کا ایمان مضبوط ہو جائے گا اور وہ مشکل صورتحال میں ثابت‌قدم رہنے کے قابل ہوں گے۔‏—‏1-‏کُر 3:‏12-‏15‏۔‏

‏’‏ہم یہوواہ اپنے خدا کے نام سے چلیں گے‘‏

ایک موقعے پر داؤد نے اپنے دل کو بٹنے دیا۔‏ (‏پیراگراف نمبر 12 کو دیکھیں۔‏)‏

12.‏ ایک موقعے پر داؤد اپنے دل کو یک‌طرفہ رکھنے میں ناکام کیسے ہو گئے اور اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟‏

12 زبور 86:‏11 میں بادشاہ داؤد نے ایک اَور بہت اہم بات کی۔‏ اُنہوں نے کہا کہ ”‏میرے دل کو یک‌طرفہ کر۔‏“‏ اُنہوں نے یہ الفاظ خدا کی پاک روح کی رہنمائی میں لکھے۔‏ داؤد نے اپنے تجربے سے سیکھا کہ ایک شخص کا دل کتنی آسانی سے بٹ سکتا ہے۔‏ ایک بار جب وہ اپنے گھر کی چھت پر تھے تو اُنہوں نے کسی اَور کی بیوی کو نہاتے دیکھا۔‏ اُس وقت داؤد کا دل یک‌طرفہ رہا یا بٹ گیا؟‏ وہ خدا کے اِس معیار سے اچھی طرح واقف تھے کہ ”‏تُو اپنے پڑوسی کی بیوی کا لالچ نہ کرنا۔‏“‏ (‏خر 20:‏17‏)‏ لیکن پھر بھی وہ اُس عورت کو دیکھتے رہے۔‏ اُن کا دل بت‌سبع کو حاصل کرنے کی خواہش اور خدا کو خوش کرنے کی خواہش میں بٹ گیا۔‏ حالانکہ داؤد کافی لمبے عرصے سے یہوواہ خدا سے محبت کرتے اور اُس کا خوف مانتے آ رہے تھے لیکن اِس موقعے پر اُنہوں نے اپنی خودغرضانہ خواہش کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور یوں گُناہ کر بیٹھے۔‏ اُن کے اِس قدم کی وجہ سے خدا کے نام کی رُسوائی ہوئی اور کئی بےقصور لوگوں کو بھی نقصان اُٹھانا پڑا جن میں اُن کے گھر والے بھی شامل تھے۔‏—‏2-‏سمو 11:‏1-‏5،‏ 14-‏17؛‏ 12:‏7-‏12‏۔‏

13.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ داؤد کا دل پھر سے یک‌طرفہ ہو گیا تھا؟‏

13 یہوواہ خدا نے داؤد کی اِصلاح کی اور اُنہیں پھر سے اُس کی خوشنودی حاصل ہو گئی۔‏ (‏2-‏سمو 12:‏13؛‏ زبور 51:‏2-‏4،‏ 17‏)‏ داؤد یہ کبھی نہیں بھولے کہ اُن کے دل کے بٹنے کی وجہ سے کتنے بُرے اور ہول‌ناک نتائج نکلے۔‏ زبور 86:‏11 میں درج داؤد کے الفاظ کا ترجمہ یوں بھی کِیا جا سکتا ہے:‏ ”‏مجھے ایک ایسا دل عطا کر جو بٹا ہوا نہ ہو۔‏“‏ کیا یہوواہ نے داؤد کی دُعا کے مطابق اُنہیں مکمل دل دیا یعنی ایسا دل جو بٹا ہوا نہ ہو؟‏ جی بالکل کیونکہ بعد میں یہوواہ نے اپنے کلام میں داؤد کا ذکر ایک ایسے شخص کے طور پر کِیا جس کا ’‏دل یہوواہ اپنے خدا کے ساتھ کامل رہا۔‏‘‏—‏1-‏سلا 11:‏4؛‏ 15:‏3‏۔‏

14.‏ ہمیں خود سے کون سا سوال پوچھنا چاہیے اور کیوں؟‏

14 داؤد کی مثال سے ہمیں حوصلہ بھی ملتا ہے اور عبرت بھی۔‏ مثال کے طور پر اُن کے گُناہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ چاہے ہم نے حال ہی میں یہوواہ کی خدمت کرنی شروع کی ہو یا پھر ہم بہت سالوں سے اُس کی خدمت کر رہے ہوں،‏ ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے:‏ ”‏شیطان میرے دل کو بانٹنے کے لیے جو چالیں چل رہا ہے،‏ کیا مَیں اُن کا مقابلہ کر رہا ہوں؟‏“‏

شیطان آپ کے دل کو بانٹنے کی جی‌توڑ کوشش کرے گا۔‏ لیکن اُسے اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہونے دیں!‏ (‏پیراگراف نمبر 15،‏ 16کو دیکھیں۔‏)‏ *

15.‏ خدا کا خوف ہمیں اُس وقت غلط کام کرنے سے کیسے بچا سکتا ہے جب ہماری نظر گندی تصویروں پر پڑتی ہے؟‏

15 مثال کے طور پر اگر آپ ٹی‌وی یا اِنٹرنیٹ پر کوئی ایسی تصویر دیکھتے ہیں جس سے آپ میں کوئی گندی خواہش بھڑک سکتی ہے تو آپ کیا کریں گے؟‏ ایسی صورت میں شاید ہم خود کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کریں کہ ”‏یہ تصویر یا فلم فحش مواد نہیں ہے۔‏“‏ لیکن ذرا سوچیں کہ کہیں یہ شیطان کی چال تو نہیں جس کے ذریعے وہ آپ کے دل کو بانٹنا چاہتا ہے؟‏ (‏2-‏کُر 2:‏11‏)‏ ایسی تصویر کو ایک چھینی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جسے ایک آدمی بڑی سی لکڑی کے دو ٹکڑے کرنے کے لیے اِستعمال کرتا ہے۔‏ شروع میں تو وہ چھینی کے باریک اور نوکیلے حصے کو لکڑی میں ٹھونکتا ہے جس سے بظاہر لکڑی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔‏ لیکن پھر جیسے جیسے وہ اِسے لکڑی کے اندر ٹھونکتا ہے،‏ لکڑی کے دو ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔‏ گندی تصویریں چھینی کے باریک اور نوکیلے حصے کی طرح ہوتی ہیں۔‏ شروع میں تو شاید لگے کہ اِن تصویروں کو دیکھنے سے کوئی نقصان نہیں ہوگا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک شخص کو گُناہ کے راستے پر دھکیل سکتی ہیں جس کی وجہ سے اُس کا دل بٹ سکتا ہے اور وہ یہوواہ سے بےوفائی کرنے کی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔‏ لہٰذا کسی بھی گندے خیال یا گندی بات کو اپنے دل تک پہنچنے نہ دیں!‏ اپنے دل کو یک‌طرفہ رکھیں تاکہ یہ خدا کے نام کا خوف مانے۔‏

16.‏ جب ہم غلط کام کرنے کی آزمائش میں ہوتے ہیں تو ہمیں خود سے کون سے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏

16 گندی تصویروں کے علاوہ شیطان اَور بھی کئی طریقوں سے ہمیں غلط کام کرنے کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‏ لیکن اُس کی چالوں پر ہمارا ردِعمل کیا ہوگا؟‏ ہو سکتا ہے کہ ہمیں لگے کہ فلاں چیز یا بات اِتنی بُری نہیں ہے۔‏ مثال کے طور پر شاید ہم سوچیں کہ ”‏اِس بات کی وجہ سے مجھے کلیسیا سے خارج نہیں کِیا جائے گا تو اِسے کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‏“‏ ایسی سوچ اِنتہائی غلط ہے۔‏ لہٰذا ہمیں خود سے ایسے سوال پوچھنے کی ضرورت ہے:‏ ”‏کیا شیطان اِس آزمائش کے ذریعے میرے دل کو بانٹنے کی کوشش کر رہا ہے؟‏ اگر مَیں نے اپنی غلط خواہش پوری کر لی تو کیا اِس سے یہوواہ کے نام کی بدنامی ہوگی؟‏ کیا یہ قدم اُٹھانے سے مَیں اپنے خدا کے اَور قریب ہو جاؤں گا یا پھر اُس سے دُور ہو جاؤں گا؟‏“‏ اِن سوالوں پر سوچ بچار کریں۔‏ یہوواہ سے دانش‌مندی کے لیے دُعا کریں تاکہ آپ اِن سوالوں کے ایمان‌داری سے جواب دے سکیں۔‏ (‏یعقو 1:‏5‏)‏ ایسا کرنے سے آپ غلط کام کرنے سے بچ سکیں گے اور آزمائش کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں گے،‏ بالکل جیسے یسوع مسیح نے کِیا اور کہا:‏ ”‏چلے جاؤ،‏ شیطان!‏“‏—‏متی 4:‏10‏۔‏

17.‏ ایک بٹے ہوئے دل کی کوئی قدروقیمت کیوں نہیں ہوتی؟‏ مثال دے کر واضح کریں۔‏

17 بٹے ہوئے دل کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی۔‏ ذرا ایک ایسی ٹیم کا تصور کریں جس میں شامل کھلاڑیوں کی ایک دوسرے سے نہیں بنتی۔‏ اِن میں سے بعض شاید اپنی واہ واہ چاہتے ہیں جبکہ کچھ کھیل کے اصولوں پر عمل کرنا نہیں چاہتے اور کچھ اپنے کوچ کا احترام نہیں کرتے اور اُس کی ایک نہیں سنتے۔‏ ایسی ٹیم کے میچ جیتنے کا اِمکان کم ہی ہوتا ہے۔‏ اِس کے برعکس جس ٹیم میں اِتحاد ہوتا ہے،‏ اُس کے جیتنے کا زیادہ اِمکان ہوتا ہے۔‏ اگر آپ کے خیالات،‏ خواہشات اور جذبات ایک طرف یعنی خدا کی خدمت کرنے پر ہوں گے تو آپ کا دل بھی ایک کامیاب ٹیم کی طرح ہو سکتا ہے۔‏ یاد رکھیں کہ شیطان کو ہمارے دل کو بانٹنا بہت اچھا لگتا ہے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ آپ کے خیالات،‏ خواہشات اور جذبات ایک دوسرے سے میل نہ کھائیں اور آپ کے اندر یہ جنگ چلتی رہے کہ آیا آپ خدا کے معیاروں پر چلیں گے یا اپنی خواہشوں کو پورا کریں گے۔‏ لیکن یہوواہ کی خدمت کرنے کے لیے یہ بےحد ضروری ہے کہ آپ کا سارا دل اُس کی طرف ہو۔‏ (‏متی 22:‏36-‏38‏)‏ لہٰذا کبھی بھی شیطان کو موقع نہ دیں کہ وہ آپ کے دل کو بانٹے!‏

18.‏ میکاہ 4:‏5 میں لکھی بات کے مطابق آپ کا کیا عزم ہے؟‏

18 داؤد کی طرح یہوواہ سے یہ دُعا کریں:‏ ”‏میرے دل کو یک‌طرفہ کر تاکہ مَیں تیرے نام کا خوف مانوں۔‏“‏ اِس بات کا عزم کریں کہ آپ اپنی اِس دُعا کے مطابق زندگی گزارنے کی پوری کوشش کریں گے۔‏ ہر دن اپنے ہر چھوٹے بڑے فیصلے سے یہ ظاہر کریں کہ آپ یہوواہ کے پاک نام کا گہرا احترام کرتے ہیں۔‏ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ یہوواہ کے نام کی بڑائی کریں گے جس کے نام سے آپ کہلائے جاتے ہیں۔‏ (‏امثا 27:‏11‏)‏ یوں ہم سب میکاہ نبی کی طرح یہ کہنے کے قابل ہوں گے:‏ ”‏ہم ابداُلآباد تک [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کے نام سے چلیں گے۔‏“‏—‏میک 4:‏5‏۔‏

گیت نمبر 41‏:‏ سُن میری دُعا

^ پیراگراف 5 اِس مضمون میں ہم بادشاہ داؤد کی دُعا کے ایک حصے پر غور کریں گے جو زبور 86:‏11،‏ 12 میں درج ہے۔‏ ہم اِن سوالوں پر غور کریں گے کہ خدا کے نام کا خوف ماننے کا کیا مطلب ہے؟‏ ہمیں خدا کے عظیم نام کے لیے گہرا احترام کیوں ظاہر کرنا چاہیے؟‏ اور خدا کا خوف ہمیں اُس وقت کیسے بچاتا ہے جب ہم غلط کام کرنے کی آزمائش میں ہوتے ہیں؟‏

^ پیراگراف 2 زبور 86:‏11 ‏(‏ترجمہ نئی دُنیا)‏:‏ ”‏اَے یہوواہ،‏ مجھے اپنی راہوں کی تعلیم دے۔‏مَیں تیرے سچے فرمانوں کے مطابق چلوں گا۔‏ میرے دل کو یک طرفہ کر تاکہ مَیں تیرے نام کا خوف مانوں۔‏“‏

^ پیراگراف 6 خروج 3:‏13،‏ 14 ‏(‏ترجمہ نئی دُنیا)‏:‏ ‏”‏لیکن موسیٰ نے سچے خدا سے کہا:‏ ”‏اگر مَیں بنی‌اِسرائیل کے پاس جا کر اُن سے کہوں کہ ”‏آپ کے باپ‌دادا کے خدا نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے“‏ اور وہ مجھ سے پوچھیں:‏ ”‏اُس کا نام کیا ہے؟‏“‏ تو مَیں اُن سے کیا کہوں؟‏“‏ اِس پر خدا نے موسیٰ سے کہا:‏ ”‏مَیں جو بننا چاہتا ہوں،‏ وہ بنوں گا۔‏“‏ پھر خدا نے کہا:‏ ”‏تُم بنی‌اِسرائیل سے کہنا کہ ”‏مَیں جو بنوں گا،‏ نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔‏“‏“‏

^ پیراگراف 55 تصویر کی وضاحت‏:‏ موسیٰ نے بنی‌اِسرائیل کو ایک ایسا گیت سکھایا جس میں یہوواہ کی تعظیم اور بڑائی کی گئی۔‏

^ پیراگراف 59 تصویر کی وضاحت‏:‏ حوا نے بُری خواہشوں کو رد نہیں کِیا۔‏ اُن کے برعکس ہم ہر ایسی تصویر اور میسج کو رد کرتے ہیں جس سے غلط خواہشوں کو ہوا ملتی ہے اور یہوواہ کے نام کی بدنامی ہوتی ہے۔‏