آپبیتی
یہوواہ کی خدمت میں ملنے والی ڈھیروں خوشیاں اور برکتیں
بچپن میں جب مَیں جہازوں کو اُڑتے ہوئے دیکھتا تھا تو مَیں سوچتا تھا کہ کاش مَیں بھی جہاز میں سفر کر سکوں اور کسی دوسرے ملک گھومنے جا سکوں۔ لیکن مجھے لگتا تھا کہ میرا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو پائے گا۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران میرے امی ابو نے ملک ایسٹونیا چھوڑ دیا اور جرمنی شفٹ ہو گئے۔ مَیں جرمنی میں ہی پیدا ہوا۔ میری پیدائش کے بعد امی ابو کینیڈا جانے کے بارے میں سوچنے لگے۔ کینیڈا میں ہمارا گھر شہر اوتاوا سے زیادہ دُور نہیں تھا۔ ہم ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے جس کے ساتھ ہی مُرغیاں پالی جاتی تھیں۔ ہم بہت ہی غریب تھے لیکن کم سے کم ہمیں ناشتے میں کھانے کے لیے انڈے مل جاتے تھے۔
ایک دن یہوواہ کے گواہ ہمارے گھر آئے اور اُنہوں نے میری امی کو مکاشفہ 21:3، 4 میں لکھی بات پڑھ کر سنائی۔ امی کو اِن آیتوں میں لکھی بات اِتنی پسند آئی کہ اُن کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ میری امی اور ابو کے دل میں سچائی کا بیج بڑھنے لگا اور اُنہوں نے بہت جلدی بپتسمہ لے لیا۔
میرے امی ابو کو انگریزی اِتنی اچھی طرح نہیں آتی تھی۔ لیکن اُن میں یہوواہ کی خدمت کرنے کا بہت جذبہ تھا۔ میرے ابو پوری رات اونٹاریو کے شہر سڈبری میں دھات پگھلانے والی ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ لیکن وہ ہفتے والے دن مجھے اور میری چھوٹی بہن سیلویا کو لے کر مُنادی کرنے جاتے تھے۔ ہر ہفتے ہم خاندان کے طور پر مل کر ”مینارِنگہبانی“ کا مطالعہ کرتے تھے۔ امی اور ابو نے میرے دل میں یہوواہ کے لیے محبت پیدا کی اور اِس وجہ سے 1956ء میں مَیں نے اپنی زندگی یہوواہ کے نام کر دی۔ اُس وقت میری عمر 10 سال تھی۔ مَیں جب بھی سوچتا تھا کہ امی ابو یہوواہ سے کتنی زیادہ محبت کرتے ہیں تو مجھے ہمت ملتی تھی کہ مَیں بھی یہوواہ کی خدمت کرتا رہوں۔
جب مَیں نے کالج کی پڑھائی ختم کر لی تو میرا دھیان یہوواہ کی خدمت سے ہٹنے لگا۔ مَیں نے سوچا کہ اگر مَیں پہلکار بن جاؤں گا تو میرے پاس اِتنے پیسے نہیں ہوں گے کہ مَیں جہاز میں سفر کرنے اور دُنیا دیکھنے کے اپنے خواب کو پورا کر سکوں۔ مَیں نے ریڈیو سٹیشن میں کام کرنا شروع کر دیا اور مجھے یہ کام بہت پسند تھا۔ لیکن میرا کام شام میں شروع ہوتا تھا اِس لیے مَیں اِجلاسوں میں نہیں جا پاتا تھا اور مَیں اُن لوگوں کے ساتھ وقت گزارتا تھا جو یہوواہ سے پیار نہیں کرتے تھے۔ لیکن پھر مَیں نے اپنے ضمیر کی آواز سنی اور خود میں تبدیلیاں کرنی شروع کیں۔
مَیں اونٹاریو کے شہر اوشاوا شفٹ ہو گیا۔ وہاں میری ملاقات رے نورمن، اُن کی بہن لیزلی اور کچھ اَور پہلکاروں سے ہوئی۔ اُنہوں نے مجھے بالکل اکیلا محسوس نہیں ہونے دیا۔ جب مَیں نے دیکھا کہ وہ سب کتنے خوش ہیں تو مَیں سوچنے لگا کہ مَیں اپنی زندگی میں کیا کرنا چاہتا ہوں۔ اُنہوں نے میرا حوصلہ بڑھایا کہ مَیں پہلکار بنوں۔ اِس لیے مَیں ستمبر 1966ء میں پہلکار بن گیا۔ مَیں بہت خوش تھا اور میری زندگی بہت اچھی چل رہی تھی۔ لیکن ابھی میری زندگی میں کچھ ایسا ہونے والا تھا جس کی وجہ سے میری پوری زندگی بدل گئی۔
وہ کرنے کی کوشش کریں جو یہوواہ چاہتا ہے
جب مَیں کالج میں ہی تھا تو مَیں نے بیتایل میں خدمت کرنے کے لیے درخواست ڈالی۔ بیتایل کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں تھا۔ بعد میں جب مَیں پہلکار تھا تو مجھے چار سال کے لیے بیتایل میں خدمت کرنے کے لیے بُلایا گیا۔ لیکن مجھے لیزلی بہت پسند تھی اور مجھے ڈر تھا کہ اگر مَیں بیتایل چلا گیا تو مَیں لیزلی سے دوبارہ کبھی نہیں مل پاؤں گا۔ مَیں نے اِس معاملے کے بارے میں شدت سے یہوواہ سے دُعا کی اور بیتایل جانے کا فیصلے کِیا۔ لیزلی کو خدا حافظ کہتے ہوئے مَیں بہت دُکھی تھا۔
مَیں نے شروع میں بیتایل کی لانڈری میں کام کِیا اور بعد میں ایک سیکرٹری کے طور پر۔ اِس دوران لیزلی خصوصی پہلکار بن گئیں اور وہ کیوبیک کے شہر گاتینو میں خدمت کر رہی تھیں۔ مَیں اکثر سوچتا تھا کہ وہ کیسی ہوں گی اور کہیں میرا فیصلہ غلط تو نہیں تھا۔ پھر میری زندگی میں کچھ ایسا ہوا جس کا مَیں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ لیزلی کا بھائی رے بھی بیتایل میں خدمت کرنے آیا اور ہم دونوں ایک ہی کمرے میں ٹھہرے۔ اِس طرح مَیں لیزلی سے پھر سے رابطہ کر پایا۔ مَیں نے اور لیزلی نے بیتایل میں میری چار سال کی خدمت کے آخری دن یعنی 27 فروری 1971ء کو شادی کر لی۔
مَیں اور لیزلی کیوبیک میں فرانسیسی زبان والی کلیسیا میں خدمت کرنے لگے۔ اِس کے کچھ سال بعد ہی مجھے حیران کر دینے والی خبر ملی۔ مجھے حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کو کہا گیا اور اُس وقت میری عمر صرف 28 سال تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میری عمر بہت کم ہے اور میرے پاس اِتنا تجربہ نہیں ہے۔ لیکن یرمیاہ 1:7، 8 میں لکھی بات نے میرا حوصلہ بڑھایا۔ مگر لیزلی کا ایک دو بار ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور اُنہیں نیند ٹھیک طرح نہیں آتی تھی۔ اِس لیے ہم سوچنے لگے کہ کیا ہم یہ ذمےداری نبھا پائیں گے۔ لیزلی نے کہا: ”اگر یہوواہ ہمیں کچھ کرنے کو کہہ رہا ہے تو ہم وہ کام کرنے کی کوشش تو کر ہی سکتے ہیں۔“ ہم نے اِس ذمےداری کو قبول کر لیا اور 17 سال تک حلقوں کا دورہ کرتے رہے۔
حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرتے ہوئے مَیں بہت مصروف تھا اور مَیں لیزلی کو زیادہ وقت نہیں دے پاتا تھا۔ لیکن پھر کچھ ایسا ہوا جس سے مَیں نے بہت خاص بات سیکھی۔ ایک پیر کی صبح ہمارے گھر کی گھنٹی بجی۔ باہر کوئی تھا تو نہیں لیکن ہمارے دروازے کے سامنے ایک ٹوکری پڑی تھی جس میں ایک چادر، پھل، پنیر، بریڈ، مے کی ایک بوتل اور گلاس تھے۔ اِس میں ایک کارڈ بھی تھا جس پر لکھا تھا: ”اپنی بیوی کو پکنک پر لے کر جائیں۔“ اُس دن موسم بڑا خوشگوار تھا۔ لیکن مَیں نے لیزلی کو بتایا کہ مجھے کچھ تقریریں تیار کرنی ہیں اِس لیے ہم نہیں جا پائیں گے۔ وہ میری بات سمجھ تو گئیں لیکن وہ تھوڑا اُداس ہو گئیں۔ جب مَیں تقریریں تیار کرنے بیٹھا تو میرا ضمیر مجھے پریشان کرنے لگا۔ میرے ذہن میں اِفسیوں 5:25، 28 میں لکھی بات آئی اور مَیں سوچنے لگا کہ کیا یہوواہ اِن الفاظ کے ذریعے مجھ سے یہ کہہ رہا ہے کہ مَیں اپنی بیوی کے احساسات کا خیال رکھوں۔ دُعا کرنے کے بعد مَیں نے لیزلی سے کہا: ”چلیں ہم چلتے ہیں۔“ یہ سُن کر وہ بہت خوش ہو گئیں۔ ہم ایک دریا کے کنارے گئے؛ ہم نے وہاں چادر بچھائی اور ایک دوسرے کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارا۔ بعد میں مَیں اپنی تقریریں بھی تیار کر پایا۔
حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرتے ہوئے ہمیں بہت سی برکتیں ملیں اور ہم بہت سی جگہوں پر گئے۔ مَیں نے بچپن میں دُنیا گھومنے کا جو خواب دیکھا تھا، وہ
پورا ہو رہا تھا۔ مَیں نے گلئیڈ سکول جانے کے بارے میں سوچا تھا لیکن مَیں مشنری نہیں بننا چاہتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ جو لوگ مشنری کے طور پر خدمت کرتے ہیں، وہ بہت خاص ہوتے ہیں اور مَیں اِس لائق نہیں ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ مجھے اِس بات کا بھی ڈر تھا کہ کہیں ہمیں افریقہ کے کسی ملک میں نہ بھیج دیا جائے جہاں بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں اور جنگیں چل رہی ہیں۔ مَیں جہاں تھا، وہاں بہت خوش تھا۔ایسٹونیا اور بالٹک ریاستوں میں یہوواہ کی خدمت
1992ء میں یہوواہ کے گواہوں کو اُن ملکوں میں پھر سے مُنادی کرنے کی اِجازت مل گئی جو پہلے سوویت یونین کا حصہ تھے۔ اِس لیے بھائیوں نے ہم سے پوچھا کہ کیا ہم ایسٹونیا میں یہوواہ کی خدمت کرنے کے لیے جا سکتے ہیں۔ ہم بہت حیران ہوئے۔ لیکن پھر ہم نے اِس بارے میں یہوواہ سے دُعا کی۔ ہم پھر سے وہی بات سوچنے لگے کہ ”اگر یہوواہ ہم سے کچھ کرنے کو کہہ رہا ہے تو ہم ایسا کرنے کی کوشش تو کر ہی سکتے ہیں۔“ ہم نے اِس ذمےداری کو قبول کر لیا اور مَیں سوچنے لگا: ”چلو، کم سے کم ہم افریقہ تو نہیں جا رہے۔“
ہم نے فوراً ہی استونیائی زبان سیکھنی شروع کر دی۔ ہمیں اِس ملک میں آئے کچھ مہینے ہی ہوئے تھے کہ بھائیوں نے ہم سے پوچھا کہ کیا مَیں حلقے کا دورہ کر سکتا ہوں۔ ہمیں بالٹک ریاستوں کے تین ملکوں کے ساتھ ساتھ روس کے ایک شہر کی 46 کلیسیاؤں اور کچھ گروپوں کا دورہ بھی کرنا تھا۔ اِس کا مطلب تھا کہ ہمیں لیٹویائی، لتھوینیائی اور روسی زبان سیکھنے کی کوشش کرنی تھی جو کہ اِتنا آسان نہیں تھا۔ لیکن بہن بھائیوں کو یہ دیکھ کر بہت اچھا لگتا تھا کہ ہم اُن کی زبان سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ ہماری بہت مدد کرتے تھے۔ 1999ء میں ایسٹونیا میں ہماری برانچ بنی اور مجھے برانچ کی کمیٹی کے رُکن کے طور پر خدمت کرنے کے لیے کہا گیا۔ میرے ساتھ بھائی تامس ایدور، لیمبٹ رائیل اور ٹومی کاؤکو بھی تھے۔
ہمیں بہت سے ایسے گواہوں کے بارے میں پتہ چلا جنہیں اُن کے ملک سے نکال کر سائبیریا بھیج دیا گیا تھا۔ اُن کے ساتھ جیل میں بہت بُرا سلوک کِیا جاتا تھا اور اُنہیں اُن کے گھر والوں سے الگ رکھا جاتا تھا۔ لیکن اِس سب کے باوجود بھی بہن بھائیوں نے اپنے دل میں تلخی پیدا نہیں ہونے دی۔ اُنہوں نے اپنی خوشی اور مُنادی کے لیے اپنا خوش قائم رکھا۔ اِن بہن بھائیوں سے ہم نے سیکھا کہ ہم بھی مشکلوں میں ثابتقدم اور خوش رہ سکتے ہیں۔
ہم کئی سالوں سے بہت محنت کر رہے تھے اور ہمیں آرام کرنے کا زیادہ وقت نہیں ملتا تھا۔ اِس لیے لیزلی ہر وقت تھکی تھکی سی رہتی تھیں۔ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ اُنہیں ایک ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے ایک شخص ہر وقت بہت تھکا ہوا محسوس کرتا ہے۔ مگر اُن کی حالت کو دیکھ کر ہم کینیڈا واپس جانے کے بارے میں سوچنے لگے۔ جب ہمیں پیٹرسن میں برانچ کی کمیٹی کے بھائیوں اور اُن کی بیویوں کے لیے ہونے والے سکول میں بُلایا گیا تو مجھے نہیں لگ رہا تھا کہ ہم جا پائیں گے۔ لیکن ہم نے شدت سے یہوواہ سے دُعا کی اور سکول کے لیے جانے کا فیصلہ کِیا۔ یہوواہ نے اِس فیصلے میں ہمارا پورا ساتھ دیا۔ سکول کے دوران ہی لیزلی کا علاج شروع ہو گیا اور آہستہ آہستہ ہماری زندگی معمول پر آنے لگی۔
ایک اَور برِاعظم میں یہوواہ کی خدمت
2008ء میں جب ہم ایسٹونیا میں تھے تو ایک شام مجھے ہمارے مرکزی دفتر سے فون آیا۔ بھائیوں نے ہم سے پوچھا کہ کیا ہم کانگو میں جا کر یہوواہ کی خدمت کر سکتے ہیں۔ ہم یہ سُن کر چونک گئے خاص طور پر اِس وجہ سے کیونکہ مجھے اگلے دن ہی بھائیوں کو جواب دینا تھا۔ مَیں نے لیزلی کو فوراً یہ بات نہیں بتائی کیونکہ مَیں جانتا تھا کہ وہ رات کو سو نہیں پائیں گی۔ لیکن اصل میں تو میری نیند اُڑ گئی تھی۔ مَیں یہوواہ کو دُعا میں بتاتا رہا کہ افریقہ جانے کے حوالے سے مجھے کن باتوں کا ڈر ہے۔
اگلے دن مَیں نے لیزلی کو اِس بارے میں بتایا اور ہم سوچنے لگے کہ ”یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم افریقہ جائیں۔ جانے سے پہلے ہی ہم یہ کیوں سوچ رہے ہیں کہ ہم وہاں خدمت نہیں کر پائیں گے؟“ اِس لیے ایسٹونیا میں 16 سال خدمت کرنے کے بعد ہم کانگو کے شہر کنشاسا چلے گئے۔ برانچ کے باہر بہت خوبصورت باغ تھا اور ماحول بہت پُرسکون تھا۔ لیزلی نے ہمارے کمرے میں سب سے پہلے وہ کارڈ رکھا جو اُن کے پاس تب سے رکھا ہوا تھا جب ہم کینیڈا سے آئے تھے۔ اِس پر لکھا تھا: ”آپ جہاں ہوں، وہاں خوش رہیں۔“جب ہم بہن بھائیوں سے ملے، ہم نے کچھ لوگوں کو بائبل کورس کرائے اور مشنریوں کے طور پر کام کِیا تو ہماری خوشی بڑھتی گئی۔ کچھ وقت بعد ہمیں افریقہ کے 13 ملکوں میں برانچ کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ اِس طرح ہم فرق فرق لوگوں کو جان پائے۔ آہستہ آہستہ میرے دل سے ڈر ختم ہوتا گیا اور ہم نے یہوواہ کا شکریہ ادا کِیا کہ اُس نے ہمیں افریقہ بھیجا ہے۔
کانگو میں ہمیں کھانے کی کچھ نئی چیزوں کے بارے میں پتہ چلا جیسے کہ کیڑے مکوڑے۔ مجھے نہیں لگتا تھا کہ ہم کبھی یہ چیزیں کھا پائیں گے۔ لیکن جب ہم نے بہن بھائیوں کو بڑے مزے سے یہ چیزیں کھاتے دیکھا تو ہم نے بھی اِنہیں چکھنے کے بارے میں سوچا اور ہمیں یہ بہت اچھے لگے۔
ہم کانگو کے مشرق میں ایک ایسے علاقے میں بہن بھائیوں کا حوصلہ بڑھانے اور اُن کے لیے ضرورت کی چیزیں لے کر گئے جہاں گوریلا نام کا ایک گروپ گاؤں پر حملہ کر رہا تھا اور عورتوں اور بچوں کو نقصان پہنچا رہا تھا۔ یہاں بہن بھائیوں کے پاس پیسے اور چیزیں وغیرہ تو زیادہ نہیں تھیں لیکن مُردوں کے جی اُٹھنے کی اُمید، یہوواہ کے لیے اُن کی محبت اور تنظیم کے وفادار رہنے کا اُن کا عزم بہت مضبوط تھا۔ اِس بات نے ہمارے دل کو چُھو لیا۔ ہم سوچنے لگے کہ کیا ہمارا ایمان اور عزم بھی اِتنا مضبوط ہے؟ کچھ بہن بھائیوں کے گھر اور فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔ اِس وجہ سے مَیں یہ سوچنے لگا کہ پیسہ اور چیزیں پَل بھر میں ختم ہو جاتی ہیں لیکن یہوواہ کے ساتھ ہمارا رشتہ کتنا خاص ہے کیونکہ یہ ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ اِتنی مشکلوں کے باوجود بھی بہن بھائیوں نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔ یہ دیکھ کر ہمیں صحت کے مسئلوں اور مشکلوں کا ڈٹ کر سامنا کرنے کی ہمت ملی۔
ایشیا میں یہوواہ کی خدمت
پھر ہمیں ایک اَور حیران کر دینے والی خبر ملی۔ بھائیوں نے ہم سے پوچھا کہ کیا ہم ہانگکانگ برانچ جا سکتے ہیں۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہم ایشیا میں رہیں گے۔ لیکن ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ ہر ذمےداری کو نبھانے میں یہوواہ نے کس
کس طرح سے ہماری مدد کی ہے۔ اِس لیے ہم نے بھائیوں کو ہاں کر دی۔ 2013ء میں ہم نے افریقہ میں اپنے دوستوں کو خدا حافظ کہا۔ ہم بہت دُکھی تھے اور نہیں جانتے تھے کہ آگے کیا ہوگا۔یہ ہمارے لیے بہت بڑی تبدیلی تھی کیونکہ ہانگکانگ بہت ہی بِھیڑبھاڑ والا ملک ہے اور یہاں فرق فرق ملکوں کے لوگ بسے ہوئے ہیں۔ ہمارے لیے چینی زبان سیکھنا بڑا ہی مشکل تھا۔ لیکن بہن بھائیوں نے بڑی خوشی سے ہمارا خیرمقدم کِیا اور ہمیں یہاں کا کھانا بہت پسند آیا۔ برانچ میں کافی زیادہ کام ہو رہا تھا۔ لیکن پراپرٹی کی قیمتیں بھی تیزی سے بڑھ رہی تھیں۔ اِس لیے گورننگ باڈی نے برانچ کی زیادہتر پراپرٹی بیچنے کا فیصلہ کِیا۔ اِس کے کچھ وقت بعد 2015ء میں ہم جنوبی کوریا چلے گئے اور ہم نے وہاں یہوواہ کی خدمت جاری رکھی۔ ہمیں اب ایک اَور مشکل زبان سیکھنی تھی۔ ہم کوریائی زبان اِتنی اچھی طرح نہیں بول پاتے تھے۔ لیکن بہن بھائی ہمیشہ ہمارا حوصلہ بڑھاتے تھے کہ ہم بہت اچھے سے سیکھ رہے ہیں۔
یہوواہ کی خدمت کرتے ہوئے ہم نے بہت کچھ سیکھا
نئے دوست بنانا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ جب ہم لوگوں کو اپنے گھر بلاتے ہیں تو ہم جلدی اُنہیں جان پاتے ہیں۔ ہم جان پائے ہیں کہ ہمارے بہن بھائی ایک دوسرے سے زیادہ فرق نہیں ہیں اور یہوواہ نے ہمیں اِس طرح بنایا ہے کہ ہم اپنے دلوں میں بہت سارے دوستوں کے لیے جگہ بنا پاتے ہیں۔—2-کُر 6:11۔
ہم نے سیکھا ہے کہ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم لوگوں کو ویسے ہی قبول کریں جیسے یہوواہ کرتا ہے اور اِس بات کے ثبوتوں پر غور کرتے رہیں کہ یہوواہ ہم سے پیار کرتا ہے اور ہمیں ہدایتیں دے رہا ہے۔ جب بھی ہم بےحوصلہ ہو جاتے تھے تو ہم اُن کارڈز اور خطوں میں لکھی باتیں پڑھتے تھے جو ہمارے دوستوں نے ہمیں دیے تھے۔ ہم نے محسوس کِیا ہے کہ یہوواہ نے ہماری دُعاؤں کا جواب دیا ہے، ہمیں اپنی محبت کا یقین دِلایا ہے اور ہمیں ہمت دی ہے۔
لیزلی اور مَیں یہ بھی سمجھ گئے ہیں کہ چاہے ہم کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں، ایک دوسرے کو وقت دینا بہت ضروری ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کبھی کبھی خود پر ہنسنا بھی ضروری ہوتا ہے خاص طور پر اُس وقت جب آپ کوئی نئی زبان سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہر رات ہم کسی ایسی چیز کے بارے میں سوچتے ہیں جس سے ہمیں بہت خوشی ملی ہے اور ہم اِس کے لیے یہوواہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
سچ کہوں تو مجھے نہیں لگتا تھا کہ مَیں کبھی مشنری بنوں گا یا کسی اَور ملک جا کر یہوواہ کی خدمت کروں گا۔ لیکن مَیں جان گیا ہوں کہ یہوواہ کی مدد سے سب کچھ ممکن ہے۔ میرے ذہن میں یرمیاہ نبی کے یہ الفاظ آتے ہیں: ”اَے [یہوواہ!] . . . مَیں نے مان لیا تُو مجھ سے توانا تھا۔“ (یرم 20:7) یہوواہ نے ہمیں ڈھیروں برکتیں دی ہیں، ایسی برکتیں جن کی ہم نے توقع بھی نہیں کی تھی۔ اُس نے تو جہاز میں سفر کرنے کی میری خواہش کو بھی پورا کِیا ہے۔ ہم نے اِتنی ساری جگہوں کا سفر کِیا ہے جتنی کا مَیں نے بچپن میں کبھی تصور بھی نہیں کِیا تھا۔ ہم نے پانچ برِاعظموں میں ہماری برانچوں کا دورہ کِیا ہے۔ مَیں لیزلی کی بہت قدر کرتا ہوں کیونکہ اُنہوں نے ہر ذمےداری کو نبھانے میں میرا پورا ساتھ دیا ہے۔
ہم ہمیشہ یاد رکھتے ہیں کہ ہم یہ سب اِس لیے کرتے ہیں کیونکہ ہم یہوواہ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ ابھی ہمیں جو برکتیں مل رہی ہیں، وہ مستقبل میں ملنے والی برکتوں کی بس ایک جھلک ہے۔ مستقبل میں تو یہوواہ ’اپنی مٹھی کھولے گا اور ہر جاندار کی خواہش پوری کرے گا۔‘—زبور 145:16۔